اسلامی شریعت كی رو سے امر بالمعروف اور نہی عن المنكر انفرادی طور پر ہر مسلمان كا بھی فریضہ ہے اور اجتماعی طور پر مسلمانوں كے نظم اجتماعی كا، یا حكمران، كا بھی۔ چنانچہ انفرادی سطح پر ہر مسلمان پر اس كے دائرہٴ كار كے اندر لازم كیا گیا ہے كہ وہ اچھائی كی تلقین كرے اور برائی سے روكے اور قرآن مجید نے یہ بھی واضح كیا ہے كہ اگر مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنكر كے فریضے كی ادائیگی ترك كردیں اور معاشرے میں عمومی فساد پھیل جائے تو اس كی جو سزا اللہ تعالیٰ كی طرف سے ملے گی وہ صرف گناہ كرنے والوں كو ہی نہیں ملے گی بلكہ وہ عمومی عذاب كی صورت میں ہوگی۔ترجمہ:اور ڈرو اُس عذاب سے جو تم میں صرف ظالم لوگوں پر ہی نہیں آئے گا.(سورة الاٴنفال، آیت 25(چنانچہ بنی اسرائیل كے جرائم، جن كی پاداش میں انہیں عذاب دیا گیا اور ان پر لعنت كی گئی، میں ایك یہ ذكر كیا گیا:ترجمہ :وہ جو برے كام كرتے تھے اس سے ایك دوسرے كو روكتے نہیں تھے۔ كیا ہی برا كام وہ كرتے تھے۔(سورة المائدہ، آیت 79)
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہِ وسلّم) نے اس حقیقت كی وضاحت ان الفاظ میں كی ہے:۔اللہ تعالیٰ بعض مخصوص لوگوں كے عمل كی بنا پر عام لوگوں كو عذاب نہیں دیتا، یہاں تك كہ وہ اپنے درمیان برائی كا ارتكاب ہوتا دیكھیں اور اس كو روكنے كی قدرت ركھنے كے باوجود اسے نہ روكیں۔ جب وہ ایسا كریں تو پھر اللہ تعالیٰ ان مخصوص لوگوں اور عام لوگوں سب پر عذاب لے آتا ہے۔ (مسند احمد، مسند الشامیین، حدیث عدی بن عمیرة الكندی، حدیث رقم 17057)
یہ عذاب ضروری نہیں كہ قدرتی آفت كی صورت میں ہی ہو۔ سورة الانعام، آیت 65 كے مطابق عذاب كی ایك قسم یہ بھی ہے كہ لوگ آپس میں كٹ مرنے لگتے ہیں۔پس اگر كوئی مسلمان كسی غلط كام كو دیكھے تو اس پر نہی عن المنكر واجب ہوجاتا ہے۔
لیكن سوال یہ ہے كہ كیا اسے اس كام كو زبردستی روكنے كا حق حاصل ہے؟
اسی طرح اگر وہ كسی كو اچھائی كی طرف راغب كرنے كا فریضہ ادا كر رہا ہے تو كیا اسے اختیار ہے كہ وہ اسے زبردستی اس اچھے كام كے كرنے پر مجبور كردے؟
امر بالمعروف اور نہی عن المنكر كے فریضے كی ادائیگی میں قانونی اور شرعی لحاظ سے سب سے اہم سوال یہی ہے۔ ایك مشہور حدیث میں اس فریضے كے متعلق تین درجوں كا ذكر كیا گیا ہے:جو تم میں كسی برائی كو دیكھے وہ اسے ہاتھ سے تبدیل كرے۔ اگر وہ اس كی استطاعت نہیں ركھتا تو اسے زبان سے كرے۔ اور اگر اس كی بھی استطاعت نہیں ركھتا تو دل میں اسے تبدیل كرنے كا عزم ركھے، اور یہ ایمان كا كمزور ترین درجہ ہے۔(صحیح مسلم، كتاب الایمان، باب بیان كون النھی عن المنكر من ایمان، حدیث رقم 70)
جہاں تك برائی كو دل میں برائی سمجھنے اور اچھائی كو دل میں اچھائی سمجھنے اور برائی كو اچھائی میں بدلنے كا عزم دل میں پالنے كا تعلق ہے تو اس كے متعلق تو دو رائے نہیں ہوسكتیں كہ یہ ایمان كا لازمی اور كم سے كم تقاضا ہے۔ اسی طرح اوپر ذكر كردہ نصوص كی روشنی میں واضح ہے كہ اچھائی كی تلقین اور برائی سے باز رہنے كی نصیحت ہر مومن كا فریضہ ہے۔ تاہم شرعی لحاظ سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ اگر برائی كا ارتكاب كرنے والا جابر ہو، طاقتور ہو، بڑا گروہ ہو، حكمران ہو، اور اسے زبانی سمجھانے میں موت كا اندیشہ ہو تو كیا خاموش رہنا جائز ہوگا؟ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے كہ یہ جائز ہوگا، بشرطیكہ خاموش رہنے والا اسے دل میں برا سمجھے اور كم از كم دل میں اس برائی كو اچھائی میں بدلنے كا ارادہ ركھے۔ تاہم خود اس حدیث كے متن سے بھی ظاہر ہے اور دیگر نصوص نے بھی واضح كیا ہے كہ ایسی صورت میں برائی كو برائی كہنے اور اس كی پاداش میں ہر سزا برداشت كرنے كی راہ عزیمت كی راہ ہے اور اگر اس راہ میں كسی كو موت آئی تو اسے شہادت كا مرتبہ نصیب ہوگا۔فقہاء نے صراحت كی ہے كہ تنہا مسلمان كا كافروں كے لشكر میں گھس جانا صرف اس صورت میں جائز ہے جب وہ انہیں سخت نقصان پہنچا سكتا ہو اور عام حالات میں یہ جائز نہیں ہے كیونكہ اس طرح وہ خود كو ہلاكت میں ڈالتا ہے۔ اس كے برعكس اگر كئی مسلمان كسی ناجائز كام میں مصروف ہوں تو كوئی تنہا مسلمان انہیں اس برے كام سے باز ركھنے كے لیے نصیحت كرسكتا ہے خواہ اسے اندیشہ ہو كہ وہ ظالم اسے قتل كردیں گے۔ ان دو صورتوں میں فرق كی وضاحت كرتے ہوئے امام سرخسی كہتے ہیں:
“جب اسے معلوم ہو كہ وہ ان كو ڈرا نہیں سكے گا تو اس كے لیے جائز نہیں ہے كہ وہ ان پر حملہ كرے كیونكہ اس حملے سے وہ دین كو قوت دینے كا مقصد حاصل نہیں كرسكتا بلكہ صرف قتل كردیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اپنی جانوں كو قتل نہ كرو۔ اس كے برعكس اگر وہ بعض فاسق مسلمانوں كو كوئی برا كام كرتے دیكھ كر انہیں روكے باوجود اس كے كہ اسے علم ہو كہ اس كے روكنے سے وہ نہیں ركیں گے اور الٹا اسے قتل كردیں گے، تو اس صورت میں اسے اس اقدام كی اجازت ہوگی اور یہی عزیمت كی راہ ہے، اگرچہ اسے خاموش رہنے كی رخصت ہے۔ اس كی وجہ یہ ہے كہ یہ لوگ مسلمان ہونے كی وجہ سے اس كام كو برا سمجھنے كا عقیدہ ركھتے ہیں جس سے وہ انہیں روكتا ہے۔ پس اس كی دعوت لازماً ان كے دلوں پر كچھ اثر ركھے گی۔(شرح كتاب السیر الكبیر، باب من یحل لہ الخمس و الصدقة، ج1، ص116)
پس ایسی صورت میں زبانی نصیحت كرنا اور نتائج برداشت كرنا عزیمت كی راہ ہے جبكہ خاموش رہنا ایك رخصت ہے۔
حدیث میں مذكور امر بالمعروف اور نہی عن المنكر كے فریضے كے تیسرے درجے –زبردستی برے كام سے روكنا– كے لیے شرعی احكام كیا ہیں؟ كیا كوئی بھی شخص كسی بھی برائی كو ازخود بزورِ بازو مٹانے كا اختیار ركھتا ہے؟ مثال كے طور پر اگر كسی مسلمان كے پاس آلاتِ لہو ہوں اور كسی دوسرے مسلمان نے انہیں توڑ دیا تو حكمِ شرعی كیا ہوگا؟ اگر كسی مسلمان كے پاس شراب ہو اور كسی دوسرے مسلمان نے اسے بہا دیا تو ایسی صورت میں كیا كیا جائے گا؟ اگر كسی مسلمان نے كسی ذُمّی كی شراب بہا دی تو قانونی اثرات كیا ہوں گے؟ یہ اور اس طرح كے بہت سے سوالات كے جواب كا انحصار بنیادی طور پر اس امر پر ہے كہ كیا ہر مسلمان كو نہی عن المنكر كے لیے طاقت كے استعمال كی اجازت ہے۔؟؟؟
اس سلسلے میں بنیادی اصول یہ ہے كہ نہی عن المنكر كے لیے طاقت كے استعمال كے لیے ولایة یعنی ’’قانونی اختیار‘‘ كی موجودگی شرط ہے اور صاحبِ ولایة صرف ان لوگوں كے خلاف طاقت استعمال كرسكتا ہے جن كے اوپر اسے ولایة حاصل ہے۔ یہ ولایت دو طرح سے وجود میں آتی ہے۔ كبھی تو بعض افراد كو بعض دیگر افراد پر، مثلاً باپ كو نابالغ بیٹے پر، شریعت كے كسی حكم كی رو سے حاصل ہوتی ہے۔ اور كبھی باہمی معاہدے كے نتیجے میں كسی كو ولایت حاصل ہوجاتی ہے، مثلاً عقدِ وكالت (Contract of Agency) كے نتیجے میں وكیل (Agent) كو اصیل (Principal) كی نمائندگی كے لیے ولایت حاصل ہوجاتی ہے۔ (وكیل كے حقوق و فرائض كے لیے دیكھیے: المبسوط، كتاب الوكالة، ج19، ص4-193) اس لیے وكیل كو اگر خرید و فروخت كے لیے وكالت دی گئی ہو تو وہ عقدِ وكالت كے حدود كے اندر رہتے ہوئے اصیل كے لیے خرید و فروخت كرسكتا ہے۔ قاضی اور مفتی كا كام اس لحاظ سے تو ایك ہی ہوتا ہے كہ دونوں كسی پیش آمدہ مسئلے میں شریعت كا حكم متعین كرتے ہیں، لیكن ان كے فیصلوں میں اصل جوہری فرقی یہی ہے كہ مفتی كی رائے كے پیچھے الزامی قوت (Binding Force) نہیں ہوتی، جبكہ قاضی كی رائے حكومتی جبر كے ذریعے نافذ كی جاتی ہے كیونكہ قاضی كو ولایتِ عامہ حاصل ہے جو مفتی كو حاصل نہیں ہوتی۔ (قاضی اور مفتی كے دائرہٴ كار میں فرق اور دیگر تفصیلات كے لیے دیكھیے: ابوالعباس احمد بن ادریس القرافی، الاحكام فی تمییز الفتاوی عن الاٴحكام و تصرفات القاضی و الامام (بیروت: دارالبشائر الاسلامیہ، 1416ھ))
پس دین كا علم اور فہم ركھنے والا شخص كسی برے كام كو برا تو كہہ سكتا ہے اور اس برائی كے خلاف رائے عامہ ہموار كرنے كی كوشش بھی اس كا فرض ہے لیكن اس برائی كی جبراً روك تھام كے لیے اگر اس كے پاس ولایت نہیں ہے تو وہ زبردستی اسے نہیں روك سكتا۔ وہ صرف انہی لوگوں كو جبراً اس برائی سے روك سكتا ہے جن پر اسے ولایت حاصل ہو۔ دیگر لوگ، جن پر اسے ولایت حاصل نہ ہو، اگر اس برائی كا ارتكاب كررہے ہوں تو اسے صاحبِ ولایت كی طرف رجوع كرنا چاہیے تاكہ وہ انہیں جبراً روكے۔
چونكہ مسلمان كے حق میں شراب كو مال متقوم كی حیثیت حاصل نہیں ہے اس لیے اگر كسی دوسرے مسلمان نے اسے بہا دیا تو اس پر ضمان واجب نہیں ہوگا لیكن چونكہ ذُمّی كے حق میں یہ مال متقوم ہے اس لیے اگر كسی مسلمان نے اسے بہا دیا تو اس كا مثل تو نہیں لوٹا سكتا (كیونكہ شرعاً مسلمان كو اپنے لیے یا كسی اور كے لیے شراب خریدنے كی اجازت نہیں ہے) تاہم اس پر لازم ہوگا كہ وہ اس كی قیمت ادا كردے۔ چنانچہ بدایة المبتدی كے متن میں ہے:اگر كسی مسلمان نے كسی ذُمّی كی شراب یا خنزیر كو نقصان پہنچایا تو وہ اس كی قیمت ادا كرے گا۔ البتہ اگر وہ كسی مسلمان كی شراب یا خنزیر كو نقصان پہنچائے تو اس پر كوئی ضمان نہیں ہے۔ (الھدایة، كتاب الغصب، باب فی غصب ما لا یتقوم، ج3، ص304)
اس كی شرح میں الھدایة كے الفاظ ہیں:
ان كے حق میں تقوم باقی ہے كیونكہ شراب ان كے حق میں ایسی چیز ہے جیسے سركہ ہمارے حق میں ہے، اور ان كے لیے خنزیر ایسے ہے جیسے ہمارے لیے بكری، اور ہمیں حكم دیا گیا ہے كہ ہم انہیں ان كے دین پر عمل كرنے كے لیے چھوڑ دیں۔ اور چونكہ تلوار ركھ دی گئی ہے تو ان پر اس حكم كا لازم كرنا ممكن نہیں ہے۔ پس جب تقوم باقی ہے تو اس صورت میں ایسی شے كا اتلاف پایا گیا جو مملوك بھی ہے اور متقوم بھی۔ اس لیے ضمان واجب ہوجاتا ہے۔۔۔ البتہ شراب اگرچہ مثلیات میں ہے مگر مسلمان پر اس كی قیمت ہی واجب ہے كیونكہ مسلمان كسی كو شراب كا مالك نہیں بناسكتا۔(الھدایة، كتاب الغصب، باب فی غصب ما لا یتقوم، ج3، ص305)
اسی اصول پر طے كیا گیا ہے كہ اگر مسلمان نے كسی دوسرے مسلمان كے آلاتِ موسیقی توڑ دیے تو چونكہ موسیقی كے آلات مسلمان كے لیے حرام تھے اس لیے ان كا ضمان واجب نہیں ہوگا۔ تاہم وہ آلات جن چیزوں سے بنے ہیں اگر وہ چیزیں جائز ہوں تو ان كا ضمان واجب ہوگا۔ مثلاً اگر وہ لكڑی سے بنے ہوں تو بنے ہوئے آلے كا ضمان واجب نہیں ہوگا لیكن لكڑی كی قیمت ادا كرنی واجب ہے۔ بدایة المبتدی كے متن میں ہے:
اور اگر كسی نے كسی مسلمان كا بربط، ڈھول یا ساز توڑ دیا یا اس كا كوئی نشہ آور مشروب بہا دیا تو وہ ضمان دینے كا پابند ہوگا، اور ان چیزوں كی فروخت جائز ہے۔(الھدایة، كتاب الغصب، باب فی غصب ما لا یتقوم، ج3، ص307(
اس حكم كی وضاحت میں الھدایة میں انتہائی اہم اصول بیان ہوئے ہیں:یہ چیزیں مال ہیں كیونكہ ان سے انفاع كے جائز طریقے ہیں اگرچہ ان سے ناجائز طریقے سے بھی فائدہ اٹھایا جاسكتا ہے۔ پس اس كی حیثیت گانے والی لونڈی كی سی ہوئی۔ اس كی وجہ یہ ہے كہ ان چیزوں كا فساد ایك صاحبِ اختیار فاعل كے فعل كی وجہ سے ہے۔ پس اس كی وجہ سے ان كا تقوم ساقط نہیں ہوتا۔ اور فروخت اور ضمان كے حكم كی بنا مالیت اور تقوم پر ہے۔ اور ہاتھ سے امر بالمعروف امراء كا كام ہے كیونكہ وہ اس پر قدرت ركھتے ہیں، اور دوسروں كا كام زبان سے تلقین ہے۔ البتہ ان چیزوں كے ضائع كرنے پر ان كی قیمت اس طور پر واجب ہوگی كہ یہ بطور آلاتِ لہو استعمال نہ ہوسكیں۔ اس كے برعكس اگر اس نے كسی نصرانی كی صلیب توڑ دی تو وہ صلیب ہی كی قیمت ادا كرنے كا پابند ہوگا (صرف لكڑی كی نہیں) كیونكہ نصرانی كو صلیب ركھنے كی قانونی طور پر اجازت ہے۔(الھدایة، كتاب الغصب، باب فی غصب ما لا یتقوم، ج3، ص307)
تاہم مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب وہ لوگ جن كو ولایت حاصل ہو برائی كو نہ روكنا چاہیں، یا وہ اسے برائی ہی نہ كہیں، اور جو لوگ برائی كی روك تھام چاہتے ہوں انہیں ولایت حاصل نہ ہو۔ چنانچہ اسی مسئلے كی آخری اور انتہائی شكل یہ ہے كہ كیا كسی حكمران كے ناجائز كاموں كی وجہ سے اسے زبردستی معزول كیا جاسكتا ہے؟ كیا اس كے خلاف خروج كیا جاسكتا ہے؟ اسکی تفصیل ہم اگلی تحریر میں پیش کریں گے۔
استفادہ کتاب’ جہاد، مزاحمت اور بغاوت ‘ازڈاکٹر محمد مشتاق احمد، ایسوسی ایٹ پروفیسر قانون بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد