اذنِ امام کی شرط اور جہادی تنظیموں کی شرعی حیثیت

جاوید احمد غامدی صاحب کے نزدیک جہاد کا اعلان ہر حال میں صرف ایک مسلم حکومت ہی کر سکتی ہے، دفاعی جہاد امام/حاکم کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ،اس سلسلے میں وہ کسی پرائیویٹ جہادی تنظیم کی شرعی حیثیت کے قائل نہیں۔ جہاد کے لیے امام کی اجازت کی شرط ، جہادی تنظیموں کی شرعی حیثیت ، مسلمانوں کے شخصی دفاع کے حق اور اس حوالے سےمتجددین کے اٹھائے گئے اعتراضات کا اسلامی شریعت اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں جائزہ پیش ہے ۔ ایڈمن

٭٭٭٭٭٭

جہاد کی فرضیت اور علت کا سبب تو یقیناََ محاربہ ہےالبتہ اسکےلئے کئی شرائط ہیں جن کی موجودگی میں ہی یہ فرضیت عائد ہوگی۔شرط مفقود ہوتومشروط بھی مفقود ہوتاہے(اذا فات الشرط فات المشروط )۔البتہ بسا اوقات شریعت نے کسی شرط کی عدم موجودگی میں اسکے “بدل” کا تصور دیاہےاور اس”بدل” کی موجودگی شرط ہی کی موجودگی تصور ہوتی ہے، جنانچہ فرضیت بدل کی موجودگی میں بھی قائم رہتی ہےاور بدل کے ذریعے ادائیگی بھی صحیح متصور ہوتی ہے،یعنی فرض ذمے سے ساقط ہوجائےگا۔اس کی مثال یہ ہےکہ نماز کی صحت کےلئے وضو شرط ہے۔البتہ پانی کی عدم دستیابی یا کسی اور شرعی عذر کی بناء پر تیمم وضو کا بدل اور قائم مقام بن جاتاہے۔ایسی صورت میں تیمم کے ذریعے ادائیگی نہ صرف صحیح بلکہ شرعاََ مطلوب ہوتی ہے۔

اسی طرح جہاد کی ادائیگی کی صحت کےلئے بنیادی شرط یہ ہےکہ وہ حکومت اور اجتماعی نظم کے ماتحت رہ کرکیاجائے۔رسول اللہﷺ کا ارشادِ مبارک ہے:

“جنگیں دو قسم کی ہیں:جس شحص نے خاص اللہ کی خوشنودی کےلئےجنگ کی،امام کی اطاعت کی،اپنا مال خرچ کیا اور فساد سے اجتناب کیااس کا سونا اور جاگنا سب اجر کا مستحق ہے۔اور جس نے دکھاوے اور شہرت کےلئےجنگ کی،امام کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد پھیلایاوہ برابر بھی نہیں چھوٹےگا۔) سنن النسائی،کتاب البیعۃ،باب التشدید فی عصیان الامام،حدیث رقم 4124؛ سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد،باب فیمن یغزو ویلتمس الدنیا،حدیث رقم2154(

ایک اور موقع پررسول اللہﷺ نے فرمایا:”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے امیرکی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی، اور جس نے امیرکی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔امام توڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر جنگ کی جاتی ہے اور جس کے ذریعے اپنا بچاؤ کیاجاتاہے۔پس اگروہ اللہ سے ڈرنےسےحکم کرےاورعدل کرے تواس سب کا اجر اسکوملےگا،اوراگروہ اس کے سوا کچھ اور حکم دےتواس کا وبال بھی اس پر آئےگا) صحیح البخاری،کتاب الجھاد والسیر، باب یقاتل من وراءالامام ویتقی بہ،حدیث رقم 2737،صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،،باب امام الجنۃ یقاتل من وراءویتقی بہ،حدیث رقم3818(

رسول اللہ ﷺنے یہ بھی واضح فرمایاکہ حاکم چاہے اچھاہویابرا،جہاد اسی کی امارت میں کیاجائےگا:”جہاد ہرامیر کی معیت میں،خواہ نیک ہویا بد،واجب ہے۔)سننَ ابی داوڈ،کتاب الجھاد،باب الغزو مع ائمۃ الجور،حدیث رقم2171)

ایک اور موقع پرفرمایا:”جنت میں صرف مومن ہی داخل ہونگے،البتہ اللہ تعالیٰ اس دین کی مدد کسی فاجر آدمی سے بھی کرتاہے۔)صحیح البخاری،کتاب الجھاد والسیر، باب ان اللہ یؤید الدین بالرجل الفاجر،حدیث رقم2834؛صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب غلظ تحریم القتل الانسان نفسہ،حدیث رقم126)

اسی بناءپر تمام فقہاءنےقراردیاکہ جہاد حکمران کی اطاعت میں کیاجائےگا۔ ابوحنیفہؒ کے عظیم المرتبت شاگرد اوراپنے عہد کے چیف جسٹس امام ابویوسفؒ نے صراحتاََ قراردیاہےکہ کوئی جہادی کاروائی حکمران یا اس کے نائب کی اجازت کے بغیر نہیں کی جائےگی۔”کوئی لشکرکشی امام یا اس کے نائب کی اجازت کے بغیر نہیں کی جائےگی، نہ ہی مسلمانوں کےلشکر سےکوئی شخص امیر کی اجازت کے بغیر مشرکین کےکسی شخص پر حملہ یا اس کے ساتھ مبارزت کرےگا۔ (ابویوسف یعقوب بن ابراھیم،کتاب الخراج(القاہرۃ:المطبعۃ السلفیۃ،1396ھ)،ص215)

مشہور حنبلی فقیہ ابن قدامہؒ کاقول ہے:” جہادکامعاملہ امام اور اس کے اجتہاد کے حوالے ہے،اوروہ اس معاملے میں جو فیصلہ کرے رعیت پر لازم ہےکہ اس کی اطاعت کرے۔”(المغنی،ج8 ص352)بلکہ امام ابوحنیفہؒ کےدوسرے اہم شاگرد امام محمدؒ بن الحسن الشیبانی نے،جو بین الاقوامی قانون کےاولین مدونین اورماہرین میں تھے،تو صراحت کی ہےکہ ہم اسی قاعدے کوغیرمسلموں پر بھی لاگو کریں گے۔چنانچہ اگر دارالموادعہ کے چندافراد نے دارالاسلام کے کسی علاقے پر حملہ کیاتو حملہ آوروں کے خلاف کاروائی توکی جائےگی لیکن اسے اس دارالموادعہ کی جانب سے حملہ اس وقت تک تصور نہیں کیاجائےگا جب تک یہ ثابت نہ ہوجائےکہ یہ حملہ حکومت کی اجازت سےہواہے۔پس اسےمعاہدے کے خاتمے کا سبب صرف اسی صورت میں قراردیاجائےگاکہ جب یہ ثابت ہو کہ یہ کاروائی حکومت کی ایماء پرہوئی تھی۔گویا وہاں کی حکومت ملوث نہ ہو تو اس کے ساتھ اور وہاں کی باقی رعایا کے ساتھ امن کا معاہدہ بدستور باقی رہے گا۔(بدائع الصنائع،ج6،ص77)

یہ قاعدہ اور اصول کہ جنگی کاروائی حکومتی نظم کے تحت ہو صرف حملے ہی کے لئے نہیں بلکہ دفاع میں بھی اصول یہی ہے۔جب دارالسلام پرحملہ ہوتوحکومت ہی مدافعت کرےگی اوروہی مختلف محازوں پر فوجیں بھیجےگی۔اسی طرح حکومت ہی نفیر عام کا فریضہ اداکرےگی،یعنی وہی اعلان کرےگی کہ سارے ہی لوگ دفاع کےلئےاٹھ جائیں۔(المغنی،ج8،ص353) مزید برآں فقہاء نے اسکی صراحت کی ہے کہ جنگ سے متعلق دیگر جتنے امور ہیں۔۔۔۔۔جیسے مقبوضہ علاقوں اور آبادی نیز جنگی قیدیوں کے مستقبل کے متعلق فیصلہ،جنگ بندی یا مستقل امن کا معاہدہ طےکرناوغیرہ۔۔۔۔۔۔تویہ سب حکومت کےکرنےکے کام ہیں۔(تفصیل کےلئےدیکھئےUse of Force for the right of Self-Determination,pp 216-226 )

البتہ یہاں دوباتوں کی وضاحت ضروری ہے:

ایک یہ کہ موجودہ دور میں اس شرط سے عام طور پر یہ نتیجہ اخذ کیاجاتاہےکہ یہ حکومت کا حق(Prerogative) ہے. جبکہ فقہاء اسکے برعکس جہاد کو حکومت کا فریضہ قراردیتےہیں۔ظاہرہے کہ فریضےکو حق میں تبدیل کرنےسے پورا مفہوم اور مدعاہی بدل جاتاہے۔ دوسرے یہ کہ بعض استثنائی صورتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں یہ شرط ساقط ہوجاتی ہے،یاتو اس وجہ سےکہ اس شرط پرعمل ممکن ہی نہیں رہ جاتا اوریااس وجہ سےکہ اس شرط کاشرعی بدل موجودہوتا ہے۔ان صورتوں کی کچھ وضاحت یہاں کی جاتی ہے:

٭ اولاََ:اچانک حملہ(Surprise Attack)اور حق دفاعِ شخصی ( Right of Private Defence)

اگر حملہ اچانک ہو اور مرکزی حکومت یا اس کے نائبین کےساتھ رابطہ ممکن نہ ہو،یااس میں بہت سخت نقصان کا اندیشہ ہو تو پھر حملے کی زد میں آئے ہوئے لوگ خود ہی مدافعت کا فرض ادا کریں گے اور انکے لیے حکومت یا کسی بھی شخص کی اجازت ضروری نہیں ہوگی، اسکا ایک سبب تو وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا کہ ایسی صورت میں دفاع کا فریضہ عینی کی حیثیت حاصل کرلیتا ہے اور فرض عینی کی ادائیگی میں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دوسرا سبب اسکا یہ ہے کہ ایسی صورت میں دفاع کا فریضہ ہی نہیں بلکہ حق بھی ہوتا ہے۔ اپنی جان، مال اور عزت بچانا ہر شخص کا حق ہے اور حملہ آور کے خلاف اسکے حملے کو روکنے اور خطرہ دفع کرنے کے لیے طاقت کا استعمال بھی ہر انسان کا حق ہے ، اس لیے اس سلسلے میں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اسکی ایک مثال حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کی کاروائی ہے جو انہوں نے اچانک حملہ کرنے والوں کے خلاف کی تھی اور جس کے لیے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے موقع پر باپیشگی اجات نہیں لی تھی ۔ (صحیح البخاری،کتاب الجھاد والسیر،باب من راءٰ فنادی باءلی صوتہ یا صباحاہ،حدیث رقم 2814)

٭ثانیاََ:حکومت کی خاموش تائید جواجازت کے قائم مقام ہوجاتی ہے:

بعض اوقات کسی فرد یاجتھے کوحکومت باقاعدہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ جاکر مخالفین کےخلاف فوجی کاروائی کرے۔تاہم حکومت کے مختلف اقدامات،بلکہ بعض اوقات اس کی خاموشی بھی،اجازت کے قائم مقام ہوجاتی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل امام سرخسیؒ نے یوں بیان کی ہے کہ مخالفین کےخلاف کاروائی کرنے والے چار طرح کے ہوسکتے ہیں:یاتووہ ایک چند ہی افراد ہونگے جوکہ کچھ خاص فوجی اورسیاسی طاقت(منعۃ) نہ رکھتےہو؛ یا وہ ایک مضبوط جتھے کی صورت میں جومنعۃ رکھتے ہوں کاروائی کریں گے ۔ہردوصورتوں میں انہیں یا توحکومت کی اجازت حاصل ہوگی یا نہیں ہوگی۔

1۔پس اگر وہ چند ہی لوگ ہوں جومنعۃ نہ رکھتےہو اور انہیں حکومت کی اجازت بھی حاصل نہ ہو تو (امام)سرخسیؒ کے الفاظ میں وہ گویا چوراورڈاکوؤں کی طرح(علی سبیل التلصص) وہاں گئےہیں۔اگروہ وہاں پھنس جائے تومسلمانوں کی حکومت پر ان کی مدد واجب نہیں ہوگی اوراگروہ کچھ مال حاصل کرلیں تواسے مالِ غنیمت کی حیثیت حاصل نہیں ہوگی،کیونکہ مالِ غنیمت اس مال کو کہا جاتا ہے جو اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں مل جائے ۔”اسی وجہ سے اسکا پانچواں حصہ اللہ کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے اور یہ معنی اس مال میں نہیں پایا جاتا جسے کوئی تنہا شخص چوروں کی طرح حاصل کرے” (المبسوط ، کتاب السیر، باب ما اصیب فی الغنیمۃ ، ج 10، ص 83)

2۔ اگر وہ چند ہی لوگ ہوں اور انہیں حکومت نے اجازت دی ہو تو انکی حیثیت حکومت کے نمائندوں یا جاسوسوں یا چھاپہ مار دستوں کی سی ہوگی ، انکی مدد بھی حکومت پر واجب ہوگی اور انہیں جو مال وغیرہ ملے تو اسکی حیثیت مال غنیمت کی ہوگی۔ “کیونکہ اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو امام پر ان کی مدد لازم ہوتی ہے،اوردوسری وجہ یہ ہے کہ امام کسی تنہا شخص کودشمن کے علاقے میں کسی کام سے داخل ہونے کی اجازت تبھی دیتا ہے جب وہ جانتا ہوکہ وہ اس کام کو تنہا انجام دے سکتا ہے۔پس ایسی صورت میں اس تنہا شخص کو ایک فوجی دستے کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے،جیساکہ روایت میں آیا ہےکہ رسول اللہ ﷺ نےعبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کو تنہا فوجی دستے کے طور پر بھیجا اور جنگِ خندق کے موقع پر تنہا دحیۃ کلبی رضی اللہ عنہ کو جاسوس طور پر بھیجا۔”(ایضا، ص 86)

۳۔اگر بہت سارے لوگ منعۃ بھی رکھتے ہوں حکومت کی اجازت سے دوسرے ملک میں کاروائی کریں تو ان کی حیثیت فوج کے مختلف دستوں کی ہو گی ۔حکومت پر ان کی نصرت واجب ہو گی اور جو مال وہ حاصل کریں وہ مال غنیمت متصور ہو گا ۔(ایضآ)

۴۔اگر بہت سارے لوگ جو منعۃ بھی رکھتے ہوں دوسرے ملک میں کاروائی کریں لیکن انھیں حکومت نے باقاعدہ صریح اجازت نہ دی ہو تب بھی قانوناًپوزیشن یہی ہو گی کہ ان کی حیثیت فوج کے مختلف دستوں کی ہو گی ۔اس کی وجہ سرخسی نے یہ ذکر کی ہے کہ ایک مضبوط جتھا جو فوجی طاقت اور شوکت کا حامل ہو اور وہ کاروائی کے لئے اسلامی ملک سے کسی دوسرے ملک جاتا ہے تو یہ حکومت کے علم میں آئے بغیر نہیں ہو سکتا ،اور جب حکومت نے باوجود علم کے انھیں جانے دیا تو یہ ان کی جانب سے خاموش تائید ہے جو صریح اجازت کے قائم مقام ہو جاتی ہے اس لئے حکومت پر ان کی نصرت بھی واجب ہو گی اور جو مال وہ حاصل کریں وہ مال غنیمت ہی متصور ہو گا ۔(ایضا)

ہمارے نزدیک امام سر خسی کا یہ تجزیہ بالکل صحیح ہے اور اس کی روشنی میں جہادی تنظیموں کی صحیح حیثیت باآسانی متعین ہو جاتی ہے ۔جب حکومت نہ صرف یہ کہ لوگوں کو مسلح تنظیمیں بنانے کا موقع دیتی ہے ،بلکہ انھیں ہر قسم کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے ۔۔۔ان کی ٹریننگ ،ان تک اسلحہ کی فراہمی ،ان کو سرحد پار کروائی میں مدد دینا اور پھر واپس آنے پر محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا ،وغیرہ۔۔۔جب ان میں سے ہر ہر مرحلہ حکومت کی تائید اور حکمرانی میں طے پاتا ہو تو پھر صریح اجازت محض ایک کا غذی کاروائی ہو جاتی ہے ۔اس کاغذی کاروائی کے بغیر بھی ان مسلح تنظیموں کی کاروائیوں کے متعلق قانون کا مفروضہ یہی ہو گا کہ یہ حکومت کی اجازت سے ہی ہو رہی ہے اور ان کاروائیوں کے لئے حکومت ہی ذمہ دار ٹھرے گی ۔

السیر الکبیر میں امام شیبانی نے اس مسئلہ کے دیگر پہلووں پر بھی روشنی دالی ہے ۔مثال کے طور پر وہ ایک جگہ قرار دیتے ہیں کہ اگر اس قسم کا گروہ اپنے لئے امیر مقرر کر لے تو اس امیر کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے جو حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر مقرر کئے گئے امیر کو حاصل ہوتے ہیں ۔”اگر مسلمانوں میں سے کسی قوت والے گروہ نے اپنا مام مقرر کیا اور دشمن کے علاقہ میں حکومت کی اجازت کے بغیر داخل ہو کر غنائم حاصل کئے تو جو کچھ بھی انھیں حاصل ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے خاص کیا جائے گا اور باقی ان میں غنیمت کے حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا ۔پھر اگر ان کے امیر نے کسی کے لئے اضافی انعام مقرر کیا ہو تو اسے اس کا اسی طرح اختیار ہو گا جیسے اس امیر کے پاس اختیار ہوتا ہے جسے حکمران نے مقرر کر کے بھیجا ہو ۔” (شرح کتاب السیر الکبیر، باب ما یجوز من الن88فل بعد اصابۃ الغنیمۃ، ج 6، ص 659)

اس حکم کی وضاحت میں امام سرخسی ایک دفعہ پھر نہایت اہم قانونی اصول واضح کرتے ہیں :”اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اس کی امارت پر راضی ہوئے اور ان کی رضا ان کے اپنے معاملات میں معتبر ہے ۔پس وہ ان کے اتفاق سے ان کا امیر بن گیا ۔کیا تم دیکھتے نہیں کہ امامت عظمی جیسے امام اعظم کی جانب سے نامزدگی کے ذریعے ثابت ہوتی ہے ،ایسے ہی کسی شخص پر مسلمانوں کے اتفاق سے بھی ثابت ہوتی ہے”۔(ایضا)

اسلامی حکومت کی عدم موجودگی میں شخصی دفاع کے لیے منظم جدوجہد

جیسا كہ اوپر اشارہ كیا گیا، كبھی كبھار شرط كی عدم موجودگی میں اس كا بدل اس كا قائم مقام بن جاتا ہے۔ اس اصول پر اگر كبھی دارالاسلام كے كسی حصے پر حملے كے نتیجے میں وہاں كی حكومت كا عملاً خاتمہ ہوجائے اور ابھی جنگ جاری ہو تو دفاع كا فریضہ ادا كرنے كے لیے كسی جگہ باقاعدہ نظمِ حكومت قائم كرنے كی ضرورت نہیں رہتی بلكہ مزاحمت كرنے والے آپس میں كسی كو امیر چن كر اس كی اطاعت كا اقرار كریں تو یہ حكومت كا بدل ہوجائے گا۔ اس كی وجہ یہ ہے كہ حكومت اور ریاست بذاتِ خود مقصد نہیں، بلكہ فریضہٴ دفاع و اعلاء كلمة اللہ كے اچھے طریقے سے انجام دینے كے لیے ایك ذریعہ ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو كسی ظالمانہ نظام سے آزادی چاہتے ہوں تاكہ اپنے حقوق كا تحفظ كریں تو ان پر بھی ریاست و حكومت كے تحت لڑنے كی شرط لاگو نہیں ہوتی، بلكہ وہ تو لڑیں گے ہی اس مقصد كے لیے كہ اپنی ریاست اور حكومت قائم كرسكیں۔ یہ حق انہیں موجودہ بین الاقوامی قانون نے بھی دیا ہے اور شریعت نے بھی۔ (تفصیل كے لیے دیكھیے: Use of Force for the Right of Self-determination, pp95-111)

اس ضمن میں پہلے اصول كی تصریح امام شیبانی نے یوں كی ہے كہ اگر كوئی غیر مسلم قوم دارالاسلام پر حملہ كرے اور حملہ آور قوم كے دار(الحرب) میں چند مسلمان عارضی یا مستقل طور پر مقیم ہوں تو ان پر جہاد كا فریضہ عائد نہیں ہوتا۔ جہاد اور نصرت كا فریضہ اصلاً دارالاسلام میں مقیم مسلمانوں پر ہی عائد ہوتا ہے۔(المبسوط ، كتاب السیر، باب ما اٴصیب فی الغنیمة مما كان المشركون اٴصابوہ من مال المسلم، ج10، ص71)

یہ حكم اس وقت بھی ہوگا جب حملہ آور مسلمان مردوں كو قیدی بنائیں۔ تاہم اگر وہ مسلمان عورتوں اور بچوں كو قید كریں تو اب ان كا چھڑانا ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو اس كے لیے جدوجہد كی استطاعت ركھتا ہو، چاہے وہ اس دارالحرب میں بطور مستامن ہی مقیم ہو۔”مسلمان جہاں مستامن كی حیثیت سے گئے ہوں اگر اس دارالحرب كے لوگوں نے مسلمانوں كے كسی دار پر حملہ كركے مسلمانوں كے بچوں كو غلام بنالیا تو ان مستامن مسلمانوں كے پاس اور كوئی راستہ نہیں ہوگا سوائے اس كے كہ وہ اپنا عہد توڑدیں اور اگر جنگ كی طاقت ركھتے ہوں تو ان بچوں كے چھڑانے كے لیے جنگ كریں۔” (المبسوط، کتاب السیر،باب النکاح اھل الحرب و دخول التجار الیہم بامان، ص 106-107)

اس حكم كی وضاحت میں امام سرخسی كہتے ہیں:”كیونكہ ان بچوں كو اپنے دار میں لے جانے كے باوجود ان پر ان كی ملكیت قائم نہیں ہوتی۔ پس انہوں نے ان كو غلام بنا كر ظلم كا ارتكاب كیا۔ اس وجہ سے ان مستامن مسلمانوں كے پاس ان بچوں كو ان كے قبضے سے چھڑانے كے لیے جنگ كرنے كے سوا اور كوئی راستہ نہیں ہے۔ اموال كا معاملہ اس كے برعكس ہے كیونكہ ان كو اپنے دار میں لے جاكر وہ ان كے مالك بن جاتے ہیں اور مستامن نے ان سے عہد كیا ہوتا ہے كہ وہ ان كے ملوكہ اموال كو نقصان نہیں پہنچائے گا۔”(ایضا)

امام شیبانی نے یہ بھی واضح كیا ہے كہ یہ حكم اس صورت میں بھی ہے جب دارالحرب كے لوگوں نے دارالاسلام كے باغیوں كے بچے قید كیے ہوں: “یہی حكم اس صورت میں بھی ہوگا جب وہ خوارج پر حملہ كركے ان كے بچوں كو غلام بنائیں۔)ایضا، ص 107)

امام سرخسی اس كی تشریح كرتے ہوئے كہتے ہیں:”كیونكہ وہ مسلمان ہیں۔ اس وجہ سے ان كے بچوں كو دارالحرب میں لے جانے كے باوجود ان پر اہلِ حرب كی ملكیت قائم نہیں ہوتی۔)ایضا)

آگے امام شیبانی نے یہ بھی ذكر كیا ہے كہ اگر باغیوں پر دارالحرب كے لوگوں نے حملہ كیا اور باغیوں كے علاقے میں كچھ لوگ ایسے ہوں جن كا تعلق مركزی حكومت كے زیرِتسلط علاقے سے ہو تو ان لوگوں پر لازم ہوگا كہ وہ اس حملے كے خلاف باغیوں كی كمان كے تحت لڑیں:”اسی طرح اگر اہلِ حرب كے حملے كی زد میں آئے ہوئے خوارج كے علاقوں میں اہلِ عدل كے كچھ لوگ ہوں تو ان كے پاس سوائے اس كے كوئی راستہ نہیں ہوگا كہ وہ مسلمانوں كی عزت و آبرو اور جان و مال كی حفاظت كے لیے خوارج كا ساتھ دیتے ہوئے لڑیں۔”(ایضا)

اس حكم كی وضاحت میں امام سرخسی نے جو كچھ كہا ہے اس كے ایك ایك لفظ پر غور كرنے كی ضرورت ہے۔ وہ كہتے ہیں:”اس كی وجہ یہ ہے كہ خوارج مسلمان ہیں۔ چنانچہ جنگ میں ان كا ساتھ دینے میں دین كی سربلندی ہے۔ ایك اور وجہ یہ ہے كہ اس جنگ كے ذریعے وہ مسلمانوں كو دشمن سے بچائیں گے اور مسلمانوں كو دشمن سے بچانا ہر اس شخص پر واجب ہے جو اس كی استطاعت ركھتا ہو۔”(ایضا)

ایسی صورت میں اگر وہ مسلح كارروائی كریں گے تو اس كے لیے یہ ضروری نہیں ہوگا كہ وہ پہلے باقاعدہ حكومت قائم كریں، بلكہ اتنا ہی كافی ہوگا كہ وہ منظم ہوكر امیر كی اطاعت میں جنگ كریں۔

٭جاوید احمد غامدی صاحب کی رائے:

جاوید غامدی صاحب كے مكتبِ فكر كی رائے یہ ہے كہ جب تك یہ لوگ كسی آزاد خطے میں اپنی باقاعدہ حكومت قائم نہ كریں، انہیں جنگ كی اجازت نہیں ہے۔ (قانونِ جہاد، ص244-243) یہ رائے اسلامی قانون كے خلاف تو ہے ہی، بین الاقوامی سے بھی متصادم ہے۔ نیز عملاً یہ كیسے ممكن ہوگا؟ كیا حكومت انہیں آزاد علاقے میں اپنی حكومت قائم كرنے دے گی؟ یا جبراً روكے گی؟ اگر روكے گی تو كیا وہ مزاحمت كر پائیں گے یا نہیں؟ Back to square one!

جنیوا معاہدات كے تحت بھی تسلیم كیا گیا ہے كہ یہ ضروری نہیں ہے كہ جس كمان كے تحت جنگجو جنگ میں حصہ لے رہے ہوں اس كمان كو لازماً ہی جنگ كے دوسرے فریق نے جائز تسلیم كیا ہو، بلكہ صرف اس قدر ضروری ہے كہ كمانڈر اور جنگجو كے درمیان امیر اور مامور كا تعلق واضح طور پر موجود ہو۔ چنانچہ تیسرے جنیوا معاہدے كے مطابق مندرجہ ذیل لوگ بھی مقاتلین میں شمار ہوں گے اور گرفتار ہونے پر انہیں جنگی قیدی كی حیثیت حاصل ہوگی:” باقاعدہ فوج كے اركان جو كسی ایسی حكومت یا طاقت كے وفادار ہیں جسے قید كرنے والی طاقت نے تسلیم نہیں كیا۔(تیسرا جنیوا معاہدہ، دفعہ4 الف، ذیلی دفعہ2)

پہلے اضافی پروٹوكول میں اس اصول كو مزید وسعت دی گئی ہے اور غیر ملكی تسلط كے خلاف مزاحمت كرنے والوں كو باقاعدہ مقاتل تسلیم كیا گیا ہے۔”تصادم كے كسی فریق كے فوجیوں میں تمام منظم فوجی، گروہ اور یونٹ شامل ہیں جو كسی ایسی كمان كے ماتحت ہیں جو اس فریق كے سامنے اپنے ماتحتوں كے افعال كے لیے جوابدہ ہے، خواہ اس فریق كی نمائندگی ایسی حكومت یا طاقت كرے جسے مخالف فریق نے تسلیم نہیں كیا۔ ایسے فوجی اندرونی طور پر ایك تنظیمی ڈھانچے میں بندھے ہوں گے جو دیگر امور كے علاوہ مسلح تصادم پر لاگو ہونے والے بین الاقوامی قانون كے ضابطوں كی پابندی كو یقینی بنائے گا۔” (پہلا اضافی پروٹوکول ، دفعہ 43)

نیز آزادی كی جنگ كو پہلے اضافی پروٹوكول نے ’’بین الاقوامی جنگ‘‘ قرار دیا گیا ہے حالانكہ ظاہر ہے كہ آزادی كے لیے لڑنے والوں كے امیر اور كمانڈر كو دوسرا فریق جائز تسلیم نہیں كرتا، نہ ہی آزادی كے لیے لڑنے والے كسی ’’ریاست‘‘ كی جانب سے لڑتے ہیں۔

٭ریاست کی ذمہ داری کیلئے بین الاقوامی قانون کے اصول:

معاصر بین الاقوامی قانون كی رو سے بھی كسی كارروائی كے لیے كسی ریاست كو ذمہ دار ٹھہرانے كے لیے اصول یہ نہیں ہے كہ آیا وہ ریاست اس كارروائی كی باقاعدہ ذمہ داری لیتی ہے یا نہیں؟ بلكہ معاصر بین الاقوامی قانون میں State Responsiblity كے قاعدے كا تجزیہ كریں تو معلوم ہوتا ہے كہ اس كے پیچھے بھی یہی اصول كارفرما ہیں جو امام سرخسی نے ذكر كیے ہیں۔(State Responsibility کے قواعد کی وضاحت کے لیے دیکھیے: Malcolm N. Shaw, International Law 694-752, Cambridge university press)) مثال كے طور پر مشہور Curfo Channel Case میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے بارودی سرنگوں كے ذریعے واقع ہونے والے نقصانات كے لیے البانیا كو اس بنا پر ذمہ دار ٹھہرایا ہے كہ اسے سمندر میں ان سرنگوں كی موجودگی كا علم تھا۔(ICJ 1949 Rep 4 at 155)

جب Nicaragua Case میں یہ سوال اٹھایا گیا كہ نكاراگووا میں چھاپہ مار دستوں كی كارروائی كے لیے كیا امریكا ذمہ دار ہے جس نے ان دستوں كو مالی امداد دی اور ہتھیار فراہم كیے؟ تو بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے قرار دیا كہ امریكا كو ان دستوں كی كارروائی كے لیے ذمہ دار ٹھہرانے كے لیے ضروری ہے كہ یہ ثابت كیا جائے كہ ان دستوں كی كارروائی امریكا كے كنٹرول كے تحت ہورہی تھی۔(ICJ 1986 Rep 14 at 64-65)

Tadic Case میں بین الاقوامی فوجداری عدالت برائے یوگوسلاویا نے قرار دیا كہ ’’كنٹرول‘‘ كے لیے كوئی لگا بندھا معیار نہیں مقرر كیا جاسكتا اور مختلف سطح كی كارروائی كے لیے دركار كنٹرول كا معیار مختلف ہوسكتا ہے۔(38ILM 1999, 1518 at 1541)

Namibia Case میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے یہ بھی طے كیا ہے كہ ’’كنٹرول‘‘ كے لیے ضروری نہیں كہ كارروائی ایسے علاقے سے ہوئی ہو جس پر ریاست كو قانونی اختیار (sovereignty) حاصل ہو، بلكہ اگر وہ ایسے علاقے سے ہوئی ہو جس پر ریاست كو صرف واقعتاً (Physical) كنٹرول حاصل تھا تب بھی اس كارروائی كے لیے ریاست ذمہ دار ٹھہرے گی(ICJ1971 Rep 17 at 54)۔

بلكہ Caire Case كے فیصلے سے یہ بھی واضح ہے كہ اگر كسی ریاستی ادارے كے كسی فرد نے اپنے اختیارات سے تجاوز كركے (ultra vires) كوئی كارروائی كی تب بھی اس كارروائی كے لیے وہ ریاست ذمہ دار ٹھہرے گی اگر اس فرد نے ریاستی ذرائع و وسائل اور سہولیات كا استمال كیا ہو۔(5 RIAA 516 at 530)

جنیوا معاہدات كے پہلے اضافی پروٹوكول میں یہ اصول طے كیا گیا ہے كہ ماتحتوں كی كارروائی كے لیے افسر بالا ذمہ دار ہوگا اگر اسے ماتحت كی جانب سے كارروائی كا علم تھا اور ماتحت كو روكنے كے لیے اس نے وہ اقدامات نہیں اٹھائے جنہیں اٹھانے پر وہ قادر تھا۔ (1977 کے پہلے اضافی پروٹوکول کی دفعات 86-86)یہی اصول بین الاقوامی فوجداری عدالت كے منشور میں بھی طے كیا گیا ہے۔ (بین الاقوامی فوجداری عدالت کے منشور 1998 کی دفعات 25-28)

استفادہ کتاب’ جہاد، مزاحمت اور بغاوت ‘ازڈاکٹر محمد مشتاق احمد، ایسوسی ایٹ پروفیسر قانون بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد