اگر حالت ِجنگ میں خود کش حملوں میں تین شرائط پوری کی جائیں تو ان کو بین الاقوامی قانون کی رو سے ناجائز نہیں کہا جاتا یا جائے گا:اولاً: یہ کہ حملہ کرنے والا مقاتل ہو۔ثانیاً: یہ کہ حملے کا ہدف فریق مخالف کے مقاتلین ہوں۔ثالثاً: یہ کہ حملے میں ایسا طریقہ یا ہتھیار استعمال نہ کیا جائے جو قانوناً ناجائز ہو۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان شرائط کی پابندی شریعت کے تحت بھی لازم ہے؟ اس مضمون میں خود کش حملوں کی شرعی حیثیت کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا گیا ہے اور ان نصوص اور فقہی جزئیات کی وضاحت پیش کی گئی ہے، جن سے عام طور پر خود کش حملوں کے جواز کے لیے استدلال کیا جاتا ہے۔
٭فصل اول: خود کش حملوں کا جواز؟
عام طور پر خود کش حملوں کے جواز کے لیے فقہ کے جس جزئیے سے استدلال کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ فقہاء نے اسے جائز ٹھہرایا ہے کہ کوئی غازی تنہا دشمنوں کی صفوں میں گھس جائے، اگر اسے یقین ہو کہ اس طرح کے حملے سے وہ دشمن کو شدید نقصان پہنچائے گا، یا اس طرح وہ دشمن کو مرعوب کردے گا۔ اس جزئیے کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔
امام شیبانی کہتے ہیں:لا باس بان یحمل الرجل وحدہ و ان ظن أنہ یقتل، اذا کان یری أنہ یصنع شیئاً یقتل او یجرح أو یھزم۔ ترجمہ :اس میں کوئی حرج نہیں کہ تنہا ایک آدمی دشمن پر حملہ کرے، خواہ اس کا گمان ہو کہ اسے قتل کردیا جائے گا، بشرطیکہ اس کی رائے یہ ہو کہ وہ کچھ بڑا کام کرلے گا، دشمن کو قتل کرکے، یا زخمی کرکے، یا پسپا کرکے۔(شرح کتاب السیر الکبیر، باب من یحل لہ الخمس و الصدقۃ ، جلد 1 صفحہ 115)
اس کی تشریح میں امام سرخسی کہتے ہیں:فقد فعل ذلک جماعۃ من الصحابۃ بین یدی رسول اللہ ﷺ یوم أحد، و مدحھم علی ذلک۔ ترجمہ کیونکہ ایسا کام بہت سے صحابہ نے احد کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کیا اور آپ نے ان کی تعریف کی۔(ایضاَ)
تاہم اس جزئیے پر معمولی غور سے بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ حکم اس موقع کے لیے ہے جب دو فوجیں جنگ کر رہی ہوں یا جنگ کرنے والی ہوں، اور ہر فریق دوسرے کے متعلق جانتا ہے کہ وہ مقاتل ہے اور اس پر حملہ کرنے کے لیے آیا ہے۔ پس پہلی بات تو یہ ہے کہ اس قسم کے حملے جنگ کے دوران میں بطور مقاتل کیے جائیں، نہ کہ غیرمقاتل کے بھیس میں۔ اس کے برعکس خودکش حملوں میں ہوتا یہ ہے کہ حملہ آور بالعموم غیر مقاتل کے بھیس میں آکر اس گروہ کے بیچ میں پہنچ جاتا ہے، جسے وہ ہدف بنانا چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ اس جزئیے سے خود کش حملوں کے جواز کے لیے استدلال بالکل باطل ہے، جیسا کہ ہم آگے واضح کریں گے۔
٭فصل دوم: شہادت یا خود کشی؟
خود کش حملوں کے جواز پر جب شریعت کی روشنی میں بحث کی جاتی ہے تو بعض ایسے سوالات کا جواب بھی دینا پڑتا ہے جن کی کوئی اہمیت بین الاقوامی قانون برائے آداب القتال کی رو سے نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر بین الاقوامی قانون کی رو سے اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ اس طرح کے حملوں میں حملہ آور خود کو ہلاک کرنے کا باعث بنتا ہے، یا بہ الفاظ دیگر خود کشی کرتا ہے، تو کیا اس کا یہ فعل جائز ہے؟ تاہم اسلامی شریعت کی روشنی میں یہ سوال نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی شریعت نے خود کشی کو بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے اور اس پر بڑی سخت وعید کا اعلان کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
من قتل نفسہ بحدیدۃ فحدیدتہ فی یدہ یجأ بھا نفسہ فی نار جھنم خالداً مخلداً و من تردی من موضع فھو یتردی فی نار جھنم خالداً مخلداً و من شرب سماً فمات فھو یشربھا فی نار جھنم خالداً مخلداً۔ ترجمہ :جس نے اپنے آپ کو لوہے کے ذریعے قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ اس لوہے کو اپنے جسم میں گھونپتا رہےگا۔ اور جس نے کسی بلند جگہ سے چھلانگ لگائی تو جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھلانگ لگاتا رہے گا۔ اور جس نے زہر پی کر خود کو ہلاک کیا تو اسے جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے پیتا رہےگا۔(صحیح بخاری ، کتاب الجنائز ، باب ما جاء فی قاتل النفس، حدیث 1675)
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس قسم کے حملوں میں اپنی زندگی ختم کرنے والا حملہ آور شہید ہوگا یا اسے خود کشی کا مرتکب ٹھہرایا جائے گا؟ اس سلسلے میں اولین بات تو یہ ہے کہ اوپر مذکور جزئیے سے خود کش حملوں کے جواز کے لیے استدلال ناجائز ہے اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ خودکش حملہ آور بھی ان صحابۂ کرام کی طرح دشمنوں کی صف میں گھس کر ان میں بہت سوں کو قتل کر دیتا ہے اور اس حملے کے نتیجے میں خود بھی قتل ہوجاتا ہے۔اس کی ایک وجہ تو اوپر ذکر کی گئی کہ صحابۂ کرام کے ان حملوں میں غدر کا شائبہ بھی نہیں تھا کیونکہ وہ جنگ کے دوران میں اس طرح کا حملہ کرتے تھے، جبکہ خود کش حملہ آور بالعموم اس طرح کا حملہ غیر مقاتل کے بھیس میں کرتا ہے جو غدر ہے اور حرام ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ دشمن کی صفوں میں تنہا مجاہد کےگھسنے کے نتیجے میں مجاہد کا قتل ہونا یقینی نہیں بلکہ محض ایک امکان کے طور پر ہوتا ہے اور اسے اس لیے جائز قرار دیا گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں دشمن کو سخت مادی یا نفسیاتی نقصان پہنچتا ہے۔ چنانچہ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگر اس طرح کے حملے میں دشمن کو مادی یا نفسیاتی نقصان نہ پہنچتا ہو تو پھر اس قسم کا حملہ ناجائز ہے کیونکہ یہ خود کشی کے مترادف ہے۔ امام شیبانی کہتے ہیں:فأما اذا کان یعلم أنہ لا ینکی فیھم فانہ لا یحل لہ أن یحمل علیھم۔ ترجمہ :اگر وہ جانتا ہو کہ اس طرح دشمن کے حوصلے پست نہیں کرسکے گا تو اس کے لیے جائز نہیں کہ ان پر اس طرح تنہا حملہ کرے۔(شرح کتاب السیر الکبیر، باب من یحل لہ الخمس و الصدقۃ ، جلد 1 صفحہ 115)
اس کی تشریح میں امام سرخسی کہتے ہیں:لأنہ لا یحصل بحملتہ شیء مما یرجع الی اعزاز الدین، ولکنہ یقتل فقط، و قد قال اللہ تعالیٰ: و لا تقتلوا أنفسکم۔ ترجمہ :کیونکہ اس کے اس حملے سے کوئی ایسا نتیجہ برآمد نہیں ہوتا جس سے دین کو سرفرازی حاصل ہو، بلکہ اس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ وہ قتل کردیا جائے گا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے: ”اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔“ (ایضاَ)
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اس قسم کے حملے میں مجاہد کے قتل ہونے کا صرف امکان ہی ہوتا ہے پھر بھی فقہاء اس حملہ آور کو اپنے قتل کا ذمہ دار گردانتے ہیں تو اس صورت میں جبکہ حملہ آور کا قتل ہونا یقینی ہوتا ہے، بلکہ جب دشمن کی موت کے لیے ضروری ہو کہ حملہ آور خود کو قتل کردے، تو اسے کیسے خود کشی قرار نہیں دیا جائے گا؟
تیسری وجہ، جو قانونی لحاظ سے زیادہ اہم ہے، یہ ہے کہ جب مجاہد دشمن کی صفوں میں گھس کر ان کو قتل اور زخمی کرنے لگتا ہے اور پھر دشمن کے حملے کے نتیجے میں وہ قتل ہوجاتا ہے تو درحقیقت اس کے قتل کا باعث دشمن کا فعل بنا ہے۔ اس کے برعکس خود کش حملے میں حملہ آور کی موت کا باعث خود اس کا اپنافعل ہوتا ہے۔ فقہاء نے قرار دیا ہے کہ اگر جنگ کے دوران میں حملہ آور نے دشمن پر تلوار چلائی اور غلطی سے وہ تلوار خود اس حملہ آور کو ہی لگ گئی جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی تو ایسا شخص، خواہ آخرت کے احکام کے لحاظ سے شہید ہو، دنیوی احکام کے لحاظ سے شہید نہیں کہلائے گا کیونکہ اس کے قتل کا باعث اس کا اپنا فعل بنا ہے۔ امام سرخسی کہتے ہیں:فأما من ابتلی بھذا فی الدنیا یغسل و یکفن و یصلی علیہ، لأن الشہید الذی لا یغسل من یصیر مقتولا بفعل مضاف الی العدو، و ھذا صار مقتولا بفعل نفسہ۔ و لکنہ معذور فی ذلک، لأنہ قصد العدو لا نفسہ، فیکون شہیداً فی حکم الآخرۃ، و یصنع بہ ما یصنع بالمیت فی الدنیا۔ ترجمہ :البتہ جس پر اس قسم کی آزمائش آئی تو دنیا میں اس کے لیے حکم یہ ہے کہ (شہید کے برعکس) اسے غسل دیا جائے گا، اسے کفن پہنایا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حکم کہ اسے غسل نہیں دیا جاتا (اور کفن نہیں پہنایا جاتا) اس شہید کے لیے ہے جو کسی ایسے فعل سے قتل ہوجائے جسے دشمن کی طرف منسوب کیا جاسکے، جبکہ یہ شخص خود اپنے فعل کے نتیجے میں قتل ہوا۔ تاہم چونکہ وہ اس معاملے میں معذور تھا کہ اس نے دشمن کے قتل کا ارادہ کیا تھا نہ کہ اپنے آپ کو قتل کرنے کا، اس لیے آخرت کے احکام میں وہ شہید ہوگا۔ اور دنیا میں اس کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا جو عام میت کے ساتھ دنیا میں کیا جاتا ہے۔(ایضا، باب من قاتل فاصاب نفسہ ، صفحہ 73)
پس جب مجاہد دشمن پر حملہ کرتے ہوئے غلطی سے خود کو زخمی کرلے اور اس زخم سے اس کی موت واقع ہوجائے تو اسے آخرت کے احکام کے لحاظ سے تو شہید کہا جائے گا لیکن اس پر شہید کے دنیوی احکام کا اطلاق نہیں ہوگا۔ جو شخص قصداً اپنی موت کا باعث بنے ظاہر ہے کہ اس پر شہید کے دنیوی کا احکام کا اطلاق تو قطعاً نا ممکن ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسے آخرت کے احکام کے لحاظ سے شہید کہا جاسکے گا؟ قرآن و سنت کے نصوص اور فقہاء کی تشریحات کی روشنی میں ہماری ناقص رائے تو یہ ہے -و اللہ اعلم- کہ ایسا شخص آخرت کے احکام کے لحاظ سے بھی شہید نہیں کہلا سکتا کیونکہ اپنے قتل کا آپ باعث بن کر وہ شریعت کے ایک بنیادی حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ غزوۂ خیبر کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ نے حملہ روک دینے کا حکم دیا تو اس کے بعد آپ کو اطلاع ملی کہ فلاں شخص شہید کیا گیا۔ جب پوچھنے پر آپ کو معلوم ہوا کہ اسے حملے کی ممانعت کے حکم کے بعد قتل کیا گیا تو آپ نے فرمایا:ان الجنۃ لا تحل لعاص۔یقینا جنت میں نافرمان داخل نہیں ہوسکتا۔(کنزالعمال، جلد 1 صفحہ 507)ایک وقتی حکم کی مخالفت پر اتنی سخت وعید سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ ایک ابدی حکم کی مخالفت کرنے والا خود کو کتنی بڑی سزا کا مستحق بناتا ہے! و العیاذ باللہ۔
٭فصل سوم: بعض فقہی جزئیات سے غلط استدلال
بعض لوگوں نے ایک اور فقہی جزئیے سے بھی خودکش حملوں کے جواز کے لیے استدلال کیا ہے۔ امام کاسانی فرماتے ہیں:و لو طعن مسلم برمح، فلا باس بان یمشی الی من طعنہ من الکفرۃ حتی یجھزہ، لانہ یقصد بالمشی الیہ بذل نفسہ لاعزاز دین اللہ سبحانہ و تعالیٰ و تحریض المؤمنین علی الا یبخلوا بانفسھم فی قتال اعداء اللہ، فکان جائزاً۔ ترجمہ :اگر کسی مسلمان کو نیزے سے زخمی کیا جائے تو اس حالت میں (جبکہ نیزہ اس کے جسم میں موجود ہے) اس کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ زخمی کرنے والے کافر پرحملے کی نیت سے اس کی طرف جائے کیونکہ اس طرح جانے سے اس کا ارادہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنی جان قربان کرے اور دیگر مومنوں کو بھی ترغیب دے کہ اللہ کے دشمنوں سے لڑنے میں وہ اپنی جان کی پروا نہ کریں۔ اسی لیے یہ جائز ہے۔(کاسانی، بدائع الصناع، جلد9، صفحۃ 387)
اس عبارت سے ”خود کش حملے“ کے جواز کے لیے استدلال بہت کمزور ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اس موضوع پر امام سرخسی سے اس مسئلے کی دیگر تفصیلات حاصل کی جائیں تاکہ مسئلے کی پوری تصویر اور صحیح نوعیت سامنے آسکے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک دفعہ پھر یہاں متن امام شیبانی ہے اور شرح امام سرخسی کی جن سے ان اصولوں کی مزید توثیق ہوجاتی ہے جن کی روشنی میں خود کش حملوں کے بہر صورت عدم جواز کا مسلک ہی صحیح ثابت ہوتا ہے۔
امام شیبانی فرماتے ہیں:و لو ان مشرکا طعن مسلما برمح، فانفذہ، فاراد ان یمشی فی الرمح الیہ لیضربہ بالسیف: فان کان یخاف الھلاک ان فعل ذلک، و یرجو النجاۃ ان خرج من الرمح؛ فعلیہ ان یخرج۔ ترجمہ :اگر کسی مشرک نے کسی مسلمان کو نیزے سے زخمی کرکے نیزہ اس کے بدن میں گھونپ دیا اور پھر وہ مجروح مسلمان اس حملہ آور مشرک کو تلوار سے زخمی کرنے کے لیے اس کی طرف چلے جبکہ یوں وہ نیزہ مزید اپنے بدن میں گھونپ رہا ہوتا ہے تو: اگر اسے ایسا کرنے میں اپنی موت کا اندیشہ ہو اور نیزہ بدن سے نکل جانے کی صورت میں اسے زندگی بچ جانے کی امید ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ نیزہ سے نجات حاصل کرلے۔(شرح کتاب السیر الکبیر، باب ما یسع الرجل ان یفعل ایھما شاء، جلد 4، صفحہ 249)
امام سرخسی قانونی اصول ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں:لان المشی الیہ فی الرمح اعانۃ علی قتل نفسہ؛ و الواجب علی کل الدفع عن نفسہ بجھدہ اولاً، ثم النیل من عدوہ۔ ترجمہ :کیونکہ اس کی طرف حرکت کی کوشش میں وہ نیزہ مزید اپنے بدن میں گھونپ کر اپنے قتل میں اعانت کرتا ہے اور ہر شخص پر لازم ہے کہ پہلے اپنی جان بچائے اور اس کے بعد اپنے دشمن کو نقصان پہنچائے۔(ایضاَ)
امام شیبانی آگے اس مسئلے کے دیگر پہلووں کی وضاحت کے لیے مزید فرماتے ہیں:و ان استوی الجانبان عندہ فی التیقن بالھلاک فیھما، او رجاء النجاۃ فیھما۔ ترجمہ :اگر اس (مجروح مسلمان) کے خیال میں دونوں صورتیں (دشمن پر حملہ اور بدن سے نیزہ نکالنا) اس لحاظ سے برابر ہوں کہ دونوں میں موت یقینی ہو، یا دونوں میں بچ جانے کی یکساں امید ہو۔(ایضاَ)
امام سرخسی وضاحت فرماتے ہیں:من حیث انہ لا یزید فی جراحتہ۔ ترجمہ کہ دونوں صورتوں میں وہ اپنے زخم میں اضافہ نہیں کرے گا۔(ایضاَ)
تو اس صورت میں امام شیبانی حکم کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں:فلا باس بان یمشی الیہ فی الرمح حتی یضربہ بالسیف؛ و ان شاء خرج من الرمح۔ ترجمہ :تو اس حالت میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ بدن میں پیوست نیزے سمیت دشمن پر حملہ کرکے اس پر تلوار سے ضرب لگائے؛ اور اگر وہ چاہے تو نیزے سے نجات حاصل کرلے۔(ایضاَ)
امام سرخسی فرماتے ہیں:لانہ لابد من ان یخرج الرمح من ای الجانبین شاء۔ ترجمہ کیونکہ اس کے پاس کوئی راستہ اس کے سوا نہیں کہ نیزہ بدن سے نکالے خواہ آگے سے ہو یا پیچھے سے۔(ایضاَ)
آگے امام سرخسی مزید واضح کرتے ہیں کہ اس صورت میں اور پہلی صورت میں فرق ہے اور اس فرق کو وہ امام شیبانی کے الفاظ میں ہی نقل کرتے ہیں:و فرق محمد رحمہ اللہ بین ھذا و بین ما سبق، و قال: لیس ھناک فی القاء نفسہ معنی النیل من العدو، و ھا ھنا فی المشی الیہ فی الرمح معنی النیل من العدو؛ و ھذا القصد یبیح لہ الاقدام۔ ترجمہ : اور امام محمد رحمہ اللہ نے اس میں اور پچھلے مسئلے میں فرق کرتے ہوئے کہا: وہاں وہ اپنی جان کھوکر دشمن کو کوئی نقصان نہیں پہنچارہا، جبکہ یہاں نیزے میں آگے حرکت کرنے سے وہ دشمن کو نقصان پہنچاسکتا ہے۔ اس لیے یہاں اس کے لیے اقدام جائز ہوجاتا ہے۔(ایضاَ، صفحہ 249، 250)
پس یہ مسئلہ اسی قاعدے کا ایک جزئیہ ہے اور اسی کے ضمن میں ذکر کیا گیا ہے کہ جب دونوں طرف موت یقینی ہو، جیسے کشتی میں آگ لگی ہو اور ڈوبنے میں بھی موت یقینی ہو، تو کیا انسان کے لیے جائز ہے کہ جس موت کو وہ کم اذیت ناک سمجھے اس کو اختیار کرے؟ اس موضوع پر کتاب ِ ہذا(جہاد، مزاحمت اور بغاوت از ڈاکٹر مشتاق) میں اکراہ اور اضطرار کے ضمن میں بحث ہوئی ہے۔ پس اس سے خود کش حملوں کے جواز کے لیے استدلال قطعاً بے بنیاد ہے۔
بعض لوگوں نے خود کش حملوں کے جواز کے لیے چند دیگر جزئیات کا بھی حوالہ دیا ہے جن پر مختصر تبصر ہ ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ ان جزئیات سے استدلال بھی باطل ہے۔
ایک مثال جو عام طور پر پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ بعض جنگوں میں بعض صحابۂ کرام نے دشمن کے قلعے کا دروازہ کھلوانے کے لیے یہ تدبیر اختیار کی کہ ان کے دیگر ساتھی کسی طرح انھیں قلعے میں ”پھینک دیں“ تو وہ دروازہ کھولنے کی کوشش کریں گے، اور یوں گویا وہ خود ہی موت کے منہ میں کود گئے ۔ اس کا جواب وہی ہے جو اس باب میں تفصیل سے پیش کیا گیا کہ اولاً تو اس صورت میں موت کا واقع ہونا یقینی نہیں ہوتا تھا، بلکہ اس کا غالب امکان ہوتا تھا۔ دوسرے اس صورت میں جب موت واقع ہوبھی جاتی تو دشمن کے وار سے واقع ہوتی تھی، اور قانوناً یہی چیز اسے ”خود کشی“ سے ممیز کرتی ہے۔
بعض دوسرے لوگوں نے اس جزئیے سے استدلال کیا ہے کہ اگر کسی شخص کو ایک جانب ڈوبنے کا یقین ہو اور دوسری جانب آگ میں جلنے کا بھی یین۔ ہو تو وہ ان میں سے موت کا کوئی طریقہ اپنے لیے خود منتخب کرسکتا ہے، یعنی چاہے تو پانی میں چھلانگ لگا کر ڈوب جائے اور چاہے تو آگ میں جلنے کی موت اختیار کرلے اور ان میں کسی بھی صورت میں اسے خود کشی کا مرتکب قرار نہیں دیا جائے گا۔
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اولاً تو اس صورت میں واقع ہونے والی موت کو خود کشی نہیں کہا جاسکتا اور اسی بنا پر اس شخص کو خود کشی کا مرتکب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہم اضطرار اور اکراہ پر بحث میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ اگر کسی شخص کو قتل کی دھمکی دے کر مجبور کیا گیا کہ وہ آگ میں کود جائے تو شرعی حکم یہ ہے کہ وہ گنہگار نہیں ہوگا۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب کسی کو قتل کی دھمکی دے کر کسی اونچی جگہ سے چھلانگ لگانے پر یا اسے دریا میں کود جانے پر مجبور کیا جائے۔ اسی طرح ہم دشمن کے قبضے میں موجود مسلمان قیدی کے حوالے سے بھی اس جزئیے کا ذکر کرچکے ہیں کہ اگر اسے قتل کی دھمکی دے کر آگ میں کودنے کے لیے کہا جائے تو وہ آگ میں نہیں کودے گا کیونکہ اس طرح وہ خود کشی کا مرتکب ہوگا، الا یہ کہ جس طریقے سے قتل کی دھمکی اسے دی جارہی ہو وہ زیادہ اذیت ناک ہو، یا آگ میں سے بچ نکلنے کا امکان ہو۔ پس جب دو طریقوں میں سے ایک میں موت یقینی ہو اور دوسرے میں زندگی بچ جانے کا امکان ہو تو اسی دوسرے طریقے کو اختیار کرنا واجب ہوگا، ورنہ اسے خود کشی کا مرتکب قرار دیا جائے گا۔ تاہم جب دونوں صورتوں میں موت یقینی ہو تو پھر اسے اختیار ہوگا کہ جس موت کو وہ کم اذیت ناک سمجھتا ہو اسے اختیار کرلے۔
ثانیاً: اگر ایک لمحے کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ اس جزئیے کی بنیاد پر خود موت کا کوئی طریقہ اختیار کرنے کی اجازت ملی سکتی ہے تب بھی یہ اجازت اضطرار اور اکراہ کی حدود کے اندر ہی ہے اور اسے اس صورت پر منطبق نہیں کیا جاسکتا جب کوئی شخص خود ہی موت کے منہ میں جاکودے کیونکہ کسی شخص کو شرعاً اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ خود کو اضطرار یا اکراہ کی حالت میں لے آئے۔ خود کش حملہ آور حملے کے لیے طریقہ ہی وہ چنتا ہے جس میں دشمن کی موت تبھی واقع ہوتی ہے جب پہلے حملہ آور خود اپنی موت واقع کرنے کے لیے بٹن دبادے!
اس کے جواب میں بعض لوگوں نے یہ کہا کہ مجبوری ہی کی بنا پر تو یہ حملہ آور اس طریقے کا انتخاب کرتا ہے؛ دشمن بہت طاقتور ہے؛ اس تک رسائی عام طریقوں سے مشکل، بلکہ ناممکن، ہے؛ اس لیے اس طریقے کے سوا اور کوئی طریقہ نہیں ہے جو اسے پسپائی پر مجبور کردے۔ اگر واقعی صورتِ حال یہی ہے تو پھر ایسی صورت میں اس شخص اور اس کے ساتھیوں کے لیے قتال کا حکم ہی نہیں ہے کیونکہ وہ قتال کی استطاعت ہی نہیں رکھتے جو فرضیت ِ جہاد کی بنیادی شرط ہے۔
٭فصل چہارم: فعل کی نسبت کس کی طرف ہے؟
جہاد کی حقیقت اور خود کش حملوں کے جواز اور عدم جواز کے متعلق ایک اہم تحقیقی کتاب جناب مولانا محمد چشتی چترالوی نے الفداء و الجھاد فی الاسلام کے عنوان سے لکھی ہے۔ جناب مولانا منطق کے میدان کے شہسوار ہیں اور اسی لیے پوری کتاب منطق کی اصطلاحات اور تراکیب سے بھری ہوئی ہے۔ ہر مقام پر وہ خود ہی واضح کردیتے ہیں کہ ان کا مقدمۂ صغری کیا ہے، مقدمۂ کبری کیا ہے اور پھر نتیجہ وہ کیا نکالتے ہیں؟ اہل ِ علم کے لیے اس کتاب میں غور و فکر کا بہت سامان ہے۔
ایک مشہور حدیث سے استدلال کرتے ہوئے مولانا نے واضح کیا ہے کہ اس حدیث میں من أراق دمہ و عَقر جوادہ نہیں فرمایا گیا، بلکہ صیغۂ مجہول یعنی من أھریق دمہ و عُقر جوادہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ مولانا یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ ”فعل مجہول کا فاعل کلام کے اندر ہمیشہ غیر مذکور ہونے کے باوجود حقیقت میں موجود و متعین ہی ہوتا ہے جس کو کسی خاص مقصد کی خاطر متکلم نے قصداً و ارادتاً ترک کیا ہوا ہوتا ہے۔“ (مولانا محمد چشتی چترالوی، الفداء و الجہاد فی الاسلام، اسلا م میں فدائی حملوں کی شرعی حیثیت ، صفحہ 21)
تاہم اس کے بعد مولانا جو نتیجہ نکالتے ہیں اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ وہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں اراقۃ الدم اور عقر جواد کا فاعل ”فدائی عمل کے سوا کچھ نہیں ہے۔“ (ایضاَ، صفحہ 22)مولانا نے آگے جو شواہد ذکر کیے ہیں ان میں کسی سے بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس حقیقت ثابت ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر وہ یہ حدیث ذکر کرتے ہیں:من فصل فی سبیل اللہ، فمات، أو قتل فھو شھید، أو وقصہ فرسہ، أو بعیرہ، أو لدغتہ ھامۃ، أو مات علی فراشہ، او بأیّ حتف شاء اللہ، فانہ شھید، و ان لہ الجنۃ۔ (سنن ابی داؤد ، کتاب الجہاد، باب فی من مات غازیا، ھدیث 2141)
اس حدیث میں دیکھیے کہ موت واقع ہونے کی جن صورتوں کا ذکر ہے ان میں کسی میں بھی آدمی کا اپنا فعل اس کی موت کا باعث نہیں بنتا۔ یا تو وہ قدرتی موت کا شکار ہوجاتا ہے، یا اسے ”قتل کیا جاتا ہے“، یا گھوڑا یا اونٹ اسے روند دیتا ہے، یا کوئی زہریلا کیڑا اسے کاٹتا ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ان تمام صورتوں میں وہ اخروی احکام کے لحاظ سے یقینا شہید ہوگا لیکن کیا دنیوی احکام کے لحاظ سے ان میں سے ہر صورت میں اسے شہید کہا جاسکے گا؟ اس کے لیے مولانا کی پیش کی گئی دوسری مثال پر غور کریں۔
یہ وہی مثال ہے جو ہم اس باب میں ذکر کرچکے ہیں کہ ایک جنگ میں ایک صحابی دشمن پر حملہ کرتے ہوئے غلطی سے اپنی تلوار سے خود کو زخم لگا بیٹھے اور نتیجتاً ان کی موت واقع ہوئی تو بعض صحابہ کو خودکشی کا شبہ ہوا جسے رسول اللہ ﷺ نے رفع کیا اور فرمایا کہ ان کی موت مجاہد کی موت ہے۔ ہم واضح کرچکے ہیں کہ فقہا دیگر نصوص کی بنا پر قرار دیتے ہیں کہ ایسے شخص کو آخرت کے احکام کے لحاظ سے شہید کہا جائے گا لیکن دنیوی احکام کے لحاظ سے اس پر عام مسلمان میت کے احکام کا اطلاق ہوگا۔
خود مولانا نے جو حدیث نقل کی ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص پر شہید کے دنیوی احکام کا اطلاق نہیں ہوگا کیونکہ اس روایت میں ہے کہ صحابہ کو اس کا جنازہ پڑھنے میں اس بنا پر تذبذب تھا کہ کیا اس نے خود کشی کی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے خود کشی کا اشتباہ رفع کیا لیکن یہ نہیں کہا کہ جنازہ نہ پڑھو کیونکہ یہ شہید ہے۔ مولانا نے اس سلسلے میں جو دوسری روایت نقل کی اس میں ان صحابی کے لیے دوہرے اجر کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ اس پر شہید کے دنیوی احکام کا اطلاق نہیں ہوگا۔
آگے مولانا نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس میں ایسے صحابی کا ذکر ہے جن کی موت کے متعلق معلوم نہیں تھا کہ دشمن کے تیر لگنے سے یا خود اپنا تیر لگنے واقع ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی والدہ کو تسلی دی کہ وہ جنت میں ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے جنگ میں بڑی بہادری دکھائی لیکن آخر میں زخموں سے چور ہونے کے بعد خود کشی کی اور رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے وعید کا ذکر کیا۔ اس روایت سے واضح طور پر معلوم ہوا جب کسی شخص کی موت اس کے اپنے فعل کے نتیجے میں واقع ہوجائے تو اسے شہید نہیں کہا جائے گا۔ مولانا نے یہ روایت نقل نہیں کی تاہم بحث کے آخر میں وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جب مسلمان جہاد فی سبیل اللہ کی نیت سے میدان ِ جنگ میں آئے ”تو اس کے بعد اس کی موت چاہے جس عمل سے بھی واقع ہوجائے، بشرطیکہ اس کے اپنے کسی ارادی عمل سے نہ ہو، تو اس کی شہادت اور افضل الجہاد ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔“(چترالوی، الفداء و الجہاد، صفحہ 24)
یہاں مولانا نے یہ جو شرط لگائی ہے کہ موت اس کے اپنے ارادی عمل سے نہ ہو، یہی ہمارے نزدیک خود کشی اور شہادت کے درمیان فرق کے لیے اصل معیار ہے۔ آگے مولانا نے مزید فرمایا ہے:
”مجاہد کی موت چاہے اس کے اپنے کسی غیر ارادی عمل سے واقع ہوجائے، یا مدمقابل کے ہاتھ سے، یا کسی اور حادثے سے، بہر تقدیر اسلامی روایات کے مطابق اسے مجاہد فی سبیل اللہ ہی کہا جاتا ہے۔ اس کے اس کردار کو افضل الجہاد اور اس کی موت کو شہادت کہاجاتا ہے۔“(ایضاَ، صفحہ 25، 26)
اس سے مولانا یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اپنی ہلاکت کا یقین ہونا حرام موت کو مستلزم نہیں ہے۔ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے مولانا جن احادیث سے استدلال کیا ہے ان میں کسی سے بھی یہ نتیجہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ان احادیث میں ذکر ہے کہ جس نے شہادت کی دعا کی اسے شہید کا اجر ملے گا، خواہ وہ قتل کیا گیا، یا اسے قدرتی موت آئی۔ شہادت کی دعا سے یہ کیسے معلوم ہوا کہ موت یقینی ہوگئی؟ تاہم مجھے اس نتیجے سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ موت کا یقینی ہونا حرام موت کو مستلزم نہیں ہے لیکن جب موت یقینی ہو تو حملہ نہیں کیا جائے گا، الا یہ کہ دشمن کو بہت زیادہ نقصان پہنچانے، یا اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے، کا یقین ہو۔ نیز اس صورت میں بھی یہ شرط برقرار رہے گی کہ موت اپنے ارادی فعل سے واقع نہ ہو۔
پس خلاصہ یہ ہوا کہ میدان ِ جنگ میں کسی شخص کی موت واقع ہونے کے کئی اسباب ہوتے ہیں:
1۔ اگر اس کی موت دشمن کے فعل سے واقع ہوئی تو یہ شخص دنیا و آخرت دونوں لحاظ سے شہید ہوگا؛
2۔ اگر اس کی موت دشمن کے فعل کے بجاے کسی حادثے، یا اپنے غیر ارادی فعل، کے نتیجے میں واقع ہو، تو ایسا شخص اخروی احکام کے لحاظ سے شہید کہلائے گا لیکن اس پر شہید کے دنیوی احکام کا اطلاق نہیں ہوگا۔
3۔ اگر میدان ِ جنگ میں کسی شخص کی موت اسلحے کے ذریعے واقع ہوئی لیکن کسی قرینے سے یہ معلوم نہ ہورہا ہو کہ اس کی موت دشمن کے فعل سے واقع ہوئی یا اپنے فعل سے، تو ظاہر پر فیصلہ کرتے ہوئے اس شخص پر شہید کے دنیوی احکام کا اطلاق ہوگا۔ آخرت کا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن ہم امید رکھیں گے کہ وہ آخرت میں بھی شہادت کے اجر عظیم کا مستحق ہوگا۔
4۔ البتہ اگر کسی شخص کی موت اس کے اپنے ارادی فعل سے واقع ہوئی تو وہ شہید نہیں کہلائے گا، بلکہ اسے خود کشی کا مرتکب قرار دیا جائے گا۔ و اللہ تعالیٰ اعلم، و علمہ اتم و احکم۔
٭فصل پنجم: خود کش حملے اور مسلمانوں کا قتل ناحق
قرآن و سنت میں جن کاموں پر انتہائی سخت وعید آئی ہے ان میں ایک مسلمان کا قتل بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْماً (سورۃ النساء، آیت ۳۹)
ترجمہ :اور جو کوئی کسی مسلمان کو عمداً قتل کرے گا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس پر خدا کا غضب اور اس کی لعنت ہے، اور اللہ نے اس کے لیے ایک عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جہاد کے دوران میں خصوصاً اس بات کا حکم دیا کہ مسلمان حملے کے دوران میں خصوصی احتیاطی اقدامات اٹھائیں تاکہ حملے کی زد میں کوئی مسلمان نہ آجائے، بلکہ اگر کسی کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہو کہ وہ مسلمان ہے تو وہ حملے سے محفوظ سمجھا جائے اور اس کے متعلق یہ نہ کہا جائے کہ وہ مسلمان نہیں ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوا وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْْکُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِناً (سورۃ النساء، آیت ۴۹)
ترجمہ :اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو تو اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو اور جو تمہیں سلام کرے اس کو یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے۔
فقہائے کرام واضح کرچکے ہیں کہ اضطرار کے قاعدے کے تحت بھی کسی معصوم مومن کا قتل جائز نہیں ہوسکتا۔
قرآن و سنت کے نصوص اور فقہاء کی تصریحات کے بعد جب خود کش حملوں کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ نظر آتی ہے کہ ان حملوں میں ان تمام نصوص اور تصریحات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں اب تک کتنے معصوم مسلمانوں کو قتل کیا گیا ہے؟ اس کا کوئی صحیح اندازہ اس وقت تک نہیں لگایا جاسکتا جب تک ان حملوں کے پورے ریکارڈ کا تجزیہ نہ کیا جائے۔ تاہم اتنی بات تو بالکل واضح ہے کہ مسجد، جنازگاہ، جرگہ کی مجلس اور بازاروں میں کیے جانے والے ان حملوں کا نشانہ معصوم مسلمان ہی بنتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے ان حملوں کا رخ فوج کے علاوہ دیگر سیکیورٹی فورسز بالخصوص پولیس کی طرف ہوا ہے۔ کیا یہ فوجی اور پولیس غیر مسلم ہیں؟ کیا ان کا قتل عمد جائز ہے؟
اس قسم کے سوالات سے بچنے کے لیے ہی خود کش حملہ آور کو تیار کرنے والے لوگوں کا زور اس کی جسمانی تربیت کے علاوہ اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ حملہ آور کو یہ پختہ یقین دلایا جائے کہ جس ہدف پر حملے کے لیے اسے تیار کیا جارہا ہے وہ بالکل جائز ہے کیونکہ یہ لوگ مسلمان نہیں بلکہ مرتد ہیں اور اس وجہ سے واجب القتل ہیں۔ فوجیوں اور پولیس کو مرتد کیسے قرار دیاجا سکتا ہے؟ اس کا انہوں نے بڑا سیدھا حل نکالا ہے۔ عام طور پر استدلال اس طرح کیا جاتا ہے:
۔ امریکہ اور اس کے اتحادی کفار نے مسلمانوں پر حملہ کیا ہے۔
۔ ان کفار کا ساتھ دینا حرام ہے۔
۔ مسلمان حکمران جو ان کفار کا ساتھ دیتے ہیں وہ مرتد ہوچکے ہیں۔
۔ ان حکمرانوں کی حفاظت کرنے والے اور ان کے پشتیبان بننے والے بھی ان کے ساتھ شامل ہیں اور ظاہر ہے کہ حکومت کا دفاع کرنے والوں میں فوجی پہلے درجے میں اور دوسری سیکورٹی فورسز ان کے بعد دوسرے درجے میں آتے ہیں۔
یہ استدلال بالبداہت غلط ہے لیکن اس پر بحث اس باب کی حدود سے باہر ہے۔ یہاں صرف اس بات کی طرف اہل علم کی توجہ دلانا مقصود ہے کہ خود کش حملوں کے جواز اور عدم جواز کی بحث میں ”مسلمان کی تکفیر“کا مسئلہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے جسے خود کش حملوں پر بحث میں بالعموم نظر انداز کیا گیا ہے۔
٭فصل ششم: خود کش حملے اور عامۃ المسلمین کی تکفیر کا مسئلہ
خود کش حملوں کے عدم جواز پر بحث میں یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ اس مسئلے کا تعلق مسلمان کی تکفیر کے مسئلے سے بھی ہے۔ اس لیے یہاں اس مسئلے کے اہم اصول مختصراً ذکر کیے جاتے ہیں:
1۔ کسی بھی ایسے قول یا فعل کی بنیاد پر تکفیر نہیں کی جاسکتی جس کے کفر ہونے یا نہ ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہو۔ علامہ علاؤ الدین محمد بن علی الحصکفی فرماتے ہیں:
لا یفتی بکفر مسلم أمکن حمل کلا مہ علی محمل حسن أوکان فی کفرہ اختلا ف ولو روا ےۃ ضعیفہ۔
ترجمہ :مسلمان کے کفر کا فتوی نہیں دیا جائے گا اگر اس کے کلام کی بہتر تاویل ممکن ہو، یا اس کے کفر میں اختلاف ہو، خواہ اختلاف ضعیف روایت سے مروی ہو۔ (ابن عابدین ، رد المحتار، جلد3، صفحہ 316)
علامہ خیر الدین الرملی نے وضاحت کی ہے کہ اگر کسی بات کے کفر ہونے کے متعلق ہمارے مسلک میں کوئی اختلافی روایت نہ ہو لیکن کسی دوسرے مسلک میں وہ کفر کی موجب نہ ہو تب بھی کفر کا فتوی نہیں دیا جائے گا۔ اس کی تائید میں ابن عابدین تکفیر کے لیے اس مسلمہ شرط کا ذکر کرتے ہیں:
و یدل علی ذلک اشتراط کون ما یوجب الکفر مجمعاً علیہ۔ترجمہ :اس کی دلیل یہ ہے کہ کسی بات کے موجب کفر ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ اس پر اجماع ہو۔ (ایضاَ)
2۔ اسی طرح اگر کسی قول یا فعل کی ایک سے زائد تعبیرات ممکن ہوں اور ان میں کوئی تعبیر ایسی ہو جس کی رو سے اسے کفر نہ قرار دیا جاسکتا ہو تو اسی تعبیر کو اپنایا جائے گا۔ ملا علی القاری فرماتے ہیں:
المسئلۃ المتعلقۃ با لکفر اذا کان لھا تسع و تسعون احتمالا للکفر، وا حتمال واحد فی نفیہ، فا لأولی للمفتی والقاضی أن یعمل بالاحتمال النافی، لأن الخطاء فی ابقاء ألف کافر ا ئھون من الخطا ء فی افناء مسلم واحد۔ترجمہ :کفر سے متعلق مسئلے میں اگر ننانوے احتمالات کفر کے ہوں اور ایک احتمال کفر کی نفی کا ہو تو مفتی اور قاضی کو چاہیے کہ کفر کی نفی کے احتمال پر عمل کرے کیونکہ ایک ہزار کافروں کے باقی چھوڑنے کی غلطی ایک مسلمان کے قتل کرنے کی غلطی کی بہ نسبت ہلکی غلطی ہے۔ (شرح الفقہ الاکبر، ملا علی القاری، صفحہ 195)
3۔ پس ملزم سے پوچھا جائے گا کہ اس قول یا فعل سے اس کی مراد کیا تھی، الا یہ کہ وہ کفر بواح کا مرتکب ہوا ہو۔ چنانچہ جن نصوص میں قرار دیا گیا ہے کہ کسی شخص نے اگر کفر کی موجب کوئی بات کہی تو اس کا یہ عذر قبول نہیں کیا جائے گا کہ اسے اس بات کے کفر ہونے کا علم نہیں تھا، بلکہ اسے تجدید ایمان کے لیے کہا جائے گا، ان کا محل یہی ہے کہ جب بات بالکل صریح اور قطعی طور پر موجب کفر ہو، اور اس کی بہتر تاویل ممکن نہ ہو، تو اسے کفر ہی سمجھا جائے گا۔ (رد المحتار، جلد 3، صفحہ 316)
4۔ اگر ملزم کفر سے انکاری ہو تو اس کے انکار کو قبول کیا جائے گا خواہ اس کے خلاف گواہ موجود ہوں کیونکہ اس کے اس انکار کو رجوع اور توبہ سمجھا جائے گا۔فقہاء نے صراحت کی ہے:
اذا شھدوا علی مسلم بالردۃ، وھو منکر، لا یتعرض لہ، لا لتکذیب شھود العدول، بل لأن انکارہ توبۃ و رجوع۔
ترجمہ :اگر گواہ کسی مسلمان کے ارتداد کی گواہی دیں، اور وہ اس سے انکاری ہو، تو اس کے خلاف کاروائی نہیں کی جائے گی، اس لیے نہیں کہ سچے گواہوں کو جھوٹا سمجھا جائے گا، بلکہ اس لیے کہ ملزم کے انکار کو توبہ اور رجوع سمجھا جائے گا۔(ابن الہمام، فتح القدیرر، جلد5، صفحہ 332)
ان اصولوں کی رو سے دیکھیے تو عامۃ المسلمین کی تکفیر کے مسئلے میں جس بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے وہ نہایت ہی افسوسناک ہے۔
٭فصل ہفتم: مقتولین کی دیت، زخمیوں کا ارش اور املاک کو پہنچنے والے نقصان کا ضمان
اگر ایک لمحے کے لیے اسلام اور کفر کے مسئلے سے صرف نظر بھی کیا جائے اور فرض کیا جائے کہ خود کش حملہ آور کا ہدف بنیادی طور پر صحیح ہوتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرض کیا جائے کہ اس کا ارادہ بے قصور لوگوں کو مارنے کا نہیں ہوتا تب بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان بے قصور مقتولین کی دیت کی ادائیگی لازم نہیں ہے؟ اسی طرح کیا زخمی ہونے والوں کے زخموں کے ارش یا ضمان کی ادائیگی لازم نہیں ہے؟ اگر دیت، ارش اور ضمان کی ادائیگی لازم ہے تو اس کی ادائیگی کا کون ذمہ دار ہے؟ یہی سوال املاک کو پہنچنے والے نقصان کے متعلق بھی ہے۔ کیا غلطی سے کسی کا مال ضائع کرنے یا خراب کردینے والے کو شریعت نے ضمان ادا کرنے کا پابند نہیں کیا؟
فقہ اسلامی کا مسلمہ اصول ہے کہ جنگ کے دوران میں بھی اگر کوئی شخص غلطی سے کسی ایسے شخص کو قتل کرلے جس کا قتل اس کے لیے جائز نہیں ہے تو دیت کی ادائیگی واجب ہوتی ہے۔ چنانچہ قتل خطا کی تمثیل میں بالعموم یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ مسلمان نے کسی شخص کو حربی سمجھ کر اس پر حملہ کیا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تو مسلمان تھا، یا اس نے حربی کو نشانہ بنایا لیکن غلطی سے کوئی دوسرا مسلمان اس کی زد میں آکر قتل ہوا۔ امام شیبانی کہتے ہیں:
و اذا کان القوم من المسلمین یقاتلون المشرکین فقتل مسلم مسلماً ظن أنہ مشرک، أو رمی الی مشرک فرجع السھم فأصاب مسلماً فقتلہ فعلیہ الدیۃ و الکفارۃ۔
ترجمہ :اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ مشرکین سے لڑ رہا ہو اور کسی مسلمان نے کسی دوسرے مسلمان کو مشرک سمجھ کر قتل کیا، یا اس نے مشرک کی طرف تیر پھینکا مگر وہ پلٹ کر کسی مسلمان کو لگا جس کے نتیجے میں وہ قتل ہوگیا، تو ہر دو صورتوں میں اس پر دیت اور کفارہ لازم ہے۔(شرح کتاب السیر الکبیر، باب من قاتل فاصاب نفسہ، جلد 1، صفحہ 75)
امام سرخسی اس کی وضاحت میں کہتے ہیں:لأن ھذا صورۃ الخطا، و الدیۃ و الکفارۃ فی قتل الخطأ واجب بالنص۔ترجمہ :کیونکہ یہ خطا کی صورت ہے، اور قتل خطا میں دیت اور کفارے کا وجوب نص سے ثابت ہے۔(ایضاَ)
دیت کا حکم اس صورت میں بھی ہے جب حملے کی زد میں ایسا غیر مسلم آئے جس کا قتل ناجائز ہو، مثلاً وہ مسلمان ملک میں مستقل اقامت پذیر ہو (اہل ذمہ)، یا وہ ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہو جس کے ساتھ مسلمانوں نے امن کا معاہدہ کیا ہو (اہل موادعہ)، یا وہ مسلمانوں سے اجازت لے کر مسلمانوں کے درمیان آیا ہو (مستامن)۔ ارش اور ضمان کا بھی یہی حکم ہے۔ یہ اصول بھی فقہاء کے نزدیک مسلمہ ہے کہ دیت کی ادائیگی قاتل کی عاقلہ کرتی ہے بشرطیکہ قتل عمد نہ ہو یا دیت کی ادائیگی صلح کے نتیجے میں لازم نہ ہوئی ہو۔ ان آخری دو صورتوں میں دیت کی ادائیگی کے لیے تنہا قاتل ذمہ دار ہوگا۔ ( الھدایۃ، کتاب الدیات، جلد 4، صفحہ 470)
پس اگر خود کش حملوں کے نتیجے میں قتل و زخمی ہونے والوں میں کوئی ایسا ہو جس پر حملہ ناجائز ہو (اور بالعموم ان حملوں کی زد میں وہی لوگ آتے ہیں جن پر حملہ ناجائز ہوتا ہے) اور یہ فرض کیا جائے کہ یہ غلطی سے حملے کی زد میں آئے تو ان کی دیت کی ادائیگی قاتل کے عاقلہ پر لازم ہوگی، اور اگر یہ مانا جائے کہ ان لوگوں کو قصداً نشانہ بنایا گیا تو پھر اس کی ادائیگی کی ذمہ داری قاتل پر ہوگی۔ اول الذکر صورت میں یہ تعین کرنا بھی ضروری ہوگا کہ قاتل کا عاقلہ کسے سمجھا جائے؟ کیا اس کے اہل خاندان کو؟ یا اس کے ان مربّیوں کو جن کو اس نے اپنا اہل و عیال چھوڑ کر اپنایا ہوتا ہے اور جن کی رہنمائی میں وہ اس حملے پر آمادہ ہوتا ہے؟ ثانی الذکر صورت میں دیت کی ادائیگی اس کے ترکے سے کی جائے گی کیونکہ قاتل تو خود بھی اس حملے میں ہلاک ہوجاتا ہے۔ اگر قاتل کے متعلق معلوم نہ ہو کہ وہ کون تھا؟ یا اس کے عاقلہ کا تعین نہ ہوپارہا ہو، یا اس نے جو ترکہ چھوڑا ہو اس میں سے تمام مقتولین و مجروحین کی دیت، ارش اور ضمان کی ادائیگی ممکن نہ ہو تو پھر اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔ کیا حکومت اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے تیار ہے؟
اسی طرح شریعت نے ضمان کے سلسلے میں عقل، بلوغت یا عمد کی شرائط نہیں رکھیں۔ اس لیے کسی کی املاک کو اگر بچہ یا مجنون بھی نقصان پہنچائے، یا کوئی عاقل بالغ شخص غلطی سے نقصان پہنچائے تب بھی ان تمام صورتوں میں شریعت نے لازم کیا ہے کہ نقصان پہنچانے والے کے مال سے اس نقصان کی تلافی کی جائے۔ اس نقصان کی تلافی کے لیے عاقلہ ذمہ دار نہیں ہوتی۔ اگر نقصان پہنچانے والے کا تعین نہ ہوپارہا ہو تو یہاں بھی آخری ذمہ داری حکومت پر آتی ہے۔
٭فصل ہشتم: خود کش حملے سے پامال ہونے والے قواعد عامہ
اس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ خود کش حملوں کے نتیجے میں اسلامی آداب القتال کے کئی قواعد عامہ پامال ہوتے ہیں۔ ان میں سے چند اہم قواعد عامہ یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:
اولاً: غدر کی ممانعت۔ خود کش حملہ آور بالعموم غیر مقاتل کے روپ میں ہوتا ہے اور اس وجہ سے غدر کا مرتکب ہوتا ہے۔
ثانیاً: غیر مقاتلین پر حملہ۔ ان حملوں کی زد میں آنے والے لوگوں کی اکثر یت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن پر حملہ کرنا ناجائز ہوتا ہے۔
ثالثاً: اندھا دھند حملے کی ممانعت۔ حملہ بالعموم میدان جنگ کے بجائے عام شہری آبادی میں کیا جاتا ہے جس میں عام شہریوں کے قتل اور زخمی ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
رابعاً: خود کشی کی ممانعت۔ چونکہ حملہ آور کی موت کا باعث خود اس کا اپنا فعل ہوتا ہے، نہ کہ دشمن کا کوئی فعل، اس لیے وہ خود کشی کا مرتکب ہوتا ہے۔
خامساً: مثلہ کی ممانعت۔ حملہ آور بم اور بارود کا استعمال کرکے خود اپنی لاش کا اور دوسروں کی لاشوں کا مثلہ کرتا ہے۔
سادساً: قتل مومن کی ممانعت۔ اگر حملہ مسلمانوں پر ہو تو خود کش حملہ آور ان کے قتل کے گناہ کبیرہ کا بھی ارتکاب کرتا ہے۔
سابعاً: دیت، ارش اور ضمان ادا کرنے کے حکم کی خلاف ورزی۔ حملے کی زد میں آنے والے بے قصور مقتولین اور مجروحین کے قتل یا زخمی ہونے، اور لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے لازم ہونے والی دیت، ارش یا ضمان کی ادائیگی نہیں کی جاتی۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری محسوس ہوتی ہے کہ خود کش حملوں کے جواز کے لیے ”اضطرار“ کا قاعدہ بھی ناکافی ہے۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل نکات پر غور کیجیے:
اولاً: یہ صحیح ہے کہ اگر مقاتلین اور غیر مقاتلین میں تمییز ممکن نہ ہو اور غیر مقاتلین کو حملے سے بچانے کے لیے تمام ممکنہ احتیاطی اقدامات اٹھائے جائیں تب بھی چند غیر مقاتلین حملے کی زد میں آجائیں تو اضطرار کے قاعدے کے تحت اس کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس صورت میں اضطرار کی پابندیوں پر عمل لازم ہوتا ہے۔ پس شہری آبادی میں حملہ بہر صورت ناجائز ہوگا کیونکہ اس حملے کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں غیر مقاتلین بلا ارادہ ضمنی طور پر نشانہ بنے۔
ثانیاً: دیت، ارش یا ضمان کی ادائیگی کے حکم کو اضطرار کے نام پر معطل نہیں کیا جاسکتا۔
ثالثاً: چونکہ حملہ آور کا غیر مقاتل کے بھیس میں آنا غدر ہے اس لیے اسے بھی اضطرار کے نام پر جواز نہیں مل سکتا۔
رابعاً: مسلمان کا قتل عمد اضطرار کے قاعدے سے بھی جائز نہیں ٹھہرتا، بلکہ اس کے لیے چند اضافی شرائط کی پابندی لازمی ہے جو بہت ہی مخصوص حالات کے ماسوا ممکن نہیں ہوسکتا۔
خامساً: عام حملوں میں بم اور بارود کے استعمال کو اضطرار کے قاعدے کے تحت جائز قرار دیا جاسکتا ہے اور مثلہ کی ممانعت کے حکم کو اضطرار کے قاعدے کے تحت غیر مؤثر سمجھا جاسکتا ہے لیکن خود کش حملے میں ان کے استعمال کو اس وجہ سے جائز نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اس کے نتیجے میں حملہ آور خود اپنی موت کا باعث بنتا ہے۔ گویا اگر اس اجازت دی گئی تو یہ خود کشی کی ممانعت کے حکم کو معطل کرنے کے مترادف ہوگا۔ کیا خود کشی کی ممانعت کو اضطرار کے تحت معطل کیا جا سکتا ہے؟
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر اسلامی شریعت کے قواعد کی پابندی کرتے ہوئے حملہ کیا جائے تو وہ ”خود کش حملہ“ نہیں ہوگا۔ پس اسلامی آداب القتال کی پابندی کرتے ہوئے خود کش حملوں کے جواز کے لیے کوئی راہ نہیں نکالی جاسکتی۔
ھذا ما عندی ، و العلم عند اللہ !
استفادہ کتاب: جہاد، مزاحمت اور بغاوت، اسلامی شریعت اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں ، ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، چئیرمین شعبہ قانون، اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد