نوم چومسکی جوکہ ایک یہودی ہے اور امریکہ کا ایک بڑا مصنف دانشور شمار ہوتا ہے، لکھتا ہے :
“یہ چیز (تشدد اور عُقدۂ برتری) مغربی نفسیات میں اور مغربی تہذیب میں بڑی اندر تک اتری ہوئی ہے اور قدیم سے ہی ایسا چلا آرہا ہے، یہاں تک کہ اِس چیز کو اب مغربی ذہنیت سے نکالا نہیں جا سکتا۔دنیا میں ایک ہی ملک ایسا ہے جس کی بابت لاہائی (ہالینڈ کا ایک شہر) کی عالمی عدالت انصاف نے یہ فیصلہ دیا ہو کہ وہ ایک دہشت گرد ریاست ہے، اور وہ ہے یونائیٹڈ سٹیٹس آف امیریکہ”۔
اس کی مشہور تالیف What Uncle Sam Really Wants “انکل سام کیا چاہتاہے” اِس حوالہ سے ایک معروف کتاب ہے۔چومسکی امریکہ کے اِس حال کو اُس کے ماضی سے جوڑ کر دکھاتا ہے۔ جس میں صرف اُن سیاہ فام غلاموں کی تعداد ہی مِلیَنز میں جاتی ہے جو افریقہ کے اندر ‘شکار’ ہونے کے دوران مارے گئے؛ جب امریکی اِن آزاد پھرتے سیاہ فاموں کو اُن کے ملک سے پکڑ پکڑ کر اور رسیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر اور پھر ان کو برطانوی جہازوں کے اندر ٹھونس ٹھونس کر اس طرح اپنے ملک لے جاتے تھے کہ آج آپ کو ٹرکوں میں لدی ہوئی بھیڑ بکریاں بھی اُس کی نسبت کچھ بہتر حالت میں نظر آتی ہوں گی۔
اِن افریقیوں کو جہازوں میں لاد لاد کر یہ امریکہ لے جاتے جہاں ان کو کپاس کے کھیتوں کے اندر جوت دیا جاتا۔ یہ تک بیان کیا جاتا ہے کہ اِس ڈر سے کہ غلام بھاگ نہ جائیں اُن کے پیروں کی انگلیاں کاٹ کر ان کو اونٹ کے پیروں کے مشابہ بنا دیا جاتا۔ جس غلام کا کام بہت زیادہ چلنا نہیں اور ساری زندگی کو اس کو انہی کھیتوں میں کھڑا ہو کر کام کرنا ہے اُس کو سالم پیروں کی ایسی کونسی ضرورت ہے؟!
پہلی دوسری جنگ عظیم پھر کوریا اور ویتنام کی جنگ ۔
یوں کہئے کہ اس کے بعد تو امریکہ کے منہ کو خون لگ گیا تھااور یہ بات ایک طریقے سے امریکی صدر ٹرومین نے صاف تسلیم کی ہے؛ اور وہ یہ کہ ہمیں (یعنی امریکیوں کو) ہر دو یا تین یا چار سال بعد ایک عدد جنگ لڑ لینا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں ہر صدارتی دور میں کسی ایک آدھ غریب ملک کا شکار ہونا چاہئے۔ “تشدد” اور “دہشت” یہاں ‘قومی منصوبہ بندی’ کے اندر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِس کے بغیر تو ملک کی معیشت بیٹھ جاتی ہے!
کوریا کی جنگ اور اس کے متصل خطہ کی دیگر جنگوں میں جو انسان لقمۂ اجل بنتے ہیں، تحقیق نگاروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنوب شرق ایشیا میں اِن مرنے والوں کی تعداد بائیس ملین بنتی ہے؛ جو کہ کمبوڈیا، کوریا اور ویتنام کی امریکی جنگ میں کھیت ہوئے۔ یعنی دو کروڑ بیس لاکھ مخلوق مار دی جاتی ہے۔ جبکہ ہنری کسنجر کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار میں مبالغہ ہوا ہے؛ حقیقت میں مرنے والوں کی تعداد سات ملین سے زیادہ نہیں۔ چلیں ہم اسی تعداد کو صحیح مان لیتے ہیں جو وہ اپنے منہ سے تسلیم کر رہے ہیں۔ سات ملین، یعنی ستر لاکھ انسان جو امریکیوں کی ہوسِ جہانگیری کا نشانہ بنتے ہیں۔ رہ گئی وہ تعداد جو وسطی امریکہ اور جنوبی اور امریکہ اور دیگر خطوں کی امریکی جنگوں میں ماری گئی تو وہ ناقابل یقین ہے۔
سمجھو ایک درندہ ہے جو کئی عشروں سے دنیا کے اندر چھوٹا ہوا پھرتا ہے۔
٭تہذیب جدید کا چہرہ عیاں ہوتا ہے
ماضی قریب میں مغرب کے شدت اور قہر میں آخری حد تک چلے جانے کے حوالے سے ایک عالمی جنگوں کی مثال ہی آپ کے رونگٹے کھڑے کر دے گی۔ ایٹمی ہتھیار داغ دینے کا روح فرسا واقعہ تاریخ انسانی کے اندر پہلی بار اسی ‘مہذب’ قوم کے ہاتھوں رونما ہوتا ہے۔ شہروں کے شہر اور بستیوں کی بستیاں انہی اقوام کے ہاتھوں ملیامیٹ ہوتی دنیا نے دیکھی ہیں، اور یہ کوئی بہت قدیم تاریخ کا واقعہ بھی نہیں ہے….!
اسلامی تہذیب کی پوری تاریخ میں اِس سطح کی غارت و خونریزی کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں مارے جانے والے انسانوں کی تعداد اَسی ملین تک پہنچتی ہے۔ یعنی آٹھ کروڑ انسان؛ جو یورپی قوتوں کی آتش غضب میں لقمۂ اجل بنائے جاتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کہ آدمی یقین ہی نہ کر سکے۔ تباہی کی یہ داستانیں آپ کبھی پڑھیں اور سنیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ انسانی مخلوق تباہی پر آ جائے اور بے درد ہو کر دکھانے لگے تو وہ کس حد تک چلی جاتی ہے۔
پھر بھی انسانیت انسانیت کے دعوے ۔۔ انسانی حقوق کے عالمی ایوارڈ۔ ۔ !!
امریکہ کا معاملہ عرب کے بدووں والا ہے ۔ وہ کھجوروں کے ڈھیر سے ایک بت بناتے؛ اس کو پوجتے رہتے؛ پھر جب بھوک لگتی تو اُس کو کھا جاتے۔ ۔امریکہ بھی بہت سارے بت بناتا ہے۔ ‘آزادی’۔ ‘ڈیموکریسی’۔ ‘انسان پرستی’۔ ‘حقوقِ انسانی’۔ وغیرہ وغیرہ۔ خوب خوب اِن بتوں کی تقدیس کے اذکار جپتا ہے۔ لیکن جیسے ہی یہ بت اس کے ‘پراگ میٹک’ اہداف کے آڑے آتے ہیں، جیسے ہی امریکہ کی سیاسی اھواءکو بھوک لگتی ہے، اور جیسے ہی اس کی معیشت کے شکم میں ہول اٹھتا ہے، تب امریکہ کو اپنے اِن معبودوں کی پروا نہیں رہتی اور وہ اِن پر ہاتھ صاف کر جاتا ہے۔ سب اصول تب اپنے شکم کے چرنوں میں قربان کر دیے جاتے ہیں۔ جیسے ہی پیٹ بھرتا ہے، ‘معبود’ پھر بنائے اور جپے جانے لگتے ہیں!
امریکہ کیلئے کبھی مسئلہ نہیں رہا کہ وہ دنیا کے بدترین ڈکٹیٹر کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کر کے رہے۔ دنیا کے بدترین سے بدترین آمر کے ساتھ امریکہ کی خوب نبھتی ہے۔ البتہ شرط یہ ہے کہ اِس عمل سے امریکی مفاد کا شکم بھرا جا رہا ہو۔ اتنے چہرے ہیں جو امریکہ بڑے آرام سے اپنے اوپر سجا لیتا ہے۔ جتنی دیر کسی ڈکٹیٹر کا ساتھ دینا ہو دیتے رہو؛ البتہ جب اس کو ذبح کرو تو ‘جمہوریت’ کا نام ضرور لے لیا کرو، ورنہ وہ ذبیحہ شاید حلال بھی نہ رہے….! البتہ جب اپنا مفاد تقاضا کرے تو اپنے اِس معبود (ڈیموکریسی) کو بھی قربان کردو۔
آپ دیکھتے ہیں، امریکہ اپنی اِس ڈیموکریسی کو اپنے امریکی مفاد کی چھری سے چلی (جنوبی امریکہ کا ملک) قربان کرتا ہے اور دنیا بھر کے جمہوریت پسند اس پر چیخ پڑتے ہیں کہ چلی میں بیلٹ باکس کی راہ سے وجود میں آئی ہوئی حکومت کا دھڑن تختہ کیوں کر دیا جاتا ہے، مگر امریکہ ان سب دانشوروں کے شور کی پروا تک نہیں کرتا۔
اس کے خاصی دیر بعد الجزائر کی باری آ جاتی ہے۔ اکثریت کے ووٹ لے کر آئی ہوئی ایک اسلامی پارٹی نہ صرف حق اقتدار سے محروم کر دی جاتی ہے بلکہ سلاخوں کے پیچھے دھکیل دی جاتی ہے اور اس پر بدترین ظلم اور تشدد روا رکھا جانے لگتا ہے، لیکن امریکہ اور پورا یورپ اس کی پشت پناہی کرتا ہے۔
خودساختہ امن کامحافظ ہی اصل دہشت گرد:
امریکی تاریخ پر ایک سرسری اور طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے چلتے ہیں جس سے ہمیں آج کی انسانیت اور حقوق انسانی کے سب سے بڑے مسیحا کی تاریخ کو سمجھنے کا پورا اندازہ ہوجائے گا۔ انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں تاریخ کو ایسے دلدوز وہیبت ناک مناظر دیکھنے کو ملے جن کی تاریخ کو رقم کرنے میں امریکہ کا اہم کردار رہا ہے۔
۱۹۱۶ء میں پہلی جنگ عظیم میں کل ۱۶ سولہ ممالک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ صرف ترکی ایسا واحد ملک تھا جس نے اس خونی جنگ سے اپنے آپ کو کنارہ کش رکھا اور اس کی جنگ عظیم کا حلیف بننے سے انکار کردیا۔ یہ جنگ سربیا کے ایک قوم پرست اور اسٹریا اور ہینگری کے ولی عہد فرانس فرڈی نینڈ کے قتل سے شروع ہوئی۔ ۱۹۱۶ء میں شروع ہونے والی پہلی جنگ عظیم نے ۸۵ لاکھ ۲۸ ہزار ۸۰۰ سے زیادہ انسانی جانوں کو لقمہ تر بنالیا۔ ۱۹۱۸ء میں یہ جنگ اپنے اختتام پر پہنچی۔
۱۹۳۹ء میں شروع ہونے والی دوسری جنگ عظیم میں کل ۲۷ ممالک نے حصہ لیا اور یہ سب کے سب غیرمسلم تھے اور اسی دوران ہیروشیما کا انسانیت سوز سانحہ بھی دیکھنے میں آیا۔ جس میں موجودہ دور کے حقوق انسانی اور امن وشانتی پھیلانے کے سب سے بڑے مسیحا امریکہ نے ایک ایٹم بم کے ذریعہ لاکھوں انسانوں کو سوختہ کرڈالا۔ اوراس ملک کی آب وہوا کو مسموم و پراگندہ بناڈالا۔ جہاں کی فضا پر اب بھی موت کا سناٹا چھایا ہوا ہے۔ جہاں ماہرین سائنس جاکر اب بھی تجربہ کرتے ہیں کہ یہ شہر کب اپنی سابقہ حالت پر لوٹ سکے گا۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ تین دن کے وقفہ سے ۹/اگست ۱۹۴۵ء کو ایک اور ایٹم بم جاپان کے شہر ناگاساکی پر گرادیا اور آن کی آن میں ۲۸ہزار سے زائد انسانوں کو جلاکر راکھ کا ڈھیر بناڈالا۔ اور دوسری جنگ عظیم میں ۴۹ لاکھ ۴۰ ہزار انسان موت کے گھاٹ اتاردئیے گئے۔
۱۹۴۵ء میں ہی چین پر ڈھائی سو جنگی طیاروں کی مدد سے دولاکھ پونڈ بارود برساکر موت کا رقص عام کیا۔ اسی طرح سے وقفہ وقفہ سے مختلف ممالک امریکی جارحیت و درندگی کا نشانہ بنتے رہے۔
۱۹۵۰ء میں امریکہ نے کوریا پر چڑھائی کردی ۱۹۵۴ء میں کیوبا میں۔ ۱۹۶۴ء میں امریکہ و ویتنام کی جنگ نے ۴۵ ہزار سے زائد لوگوں کو موت کی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اس جنگ کا ایندھن بننے والوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی جو یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا جرم کیا ہے۔ کس جرم کی پاداش میں انہیں موت کی نیند سلایا جارہا ہے۔
۱۹۶۵ء میں پیروں، اور ۱۹۷۳ء میں لاوس میں، ۱۹۷۵ء میں ویتنام میں، ۱۹۸۷ء میں گرینیڈا، ۱۹۸۴ء میں لبنان میں،۱۹۸۹ء میں پناما میں، ۱۹۹۱ء میں عراق میں، ۱۹۹۸ء میں سوڈان میں، اور ۱۹۹۹ء میں یوگوسلاویہ میں۔ ان تمام خونی جنگوں کے بعد سوچا جانے لگا کہ شاید اب امریکی انسانیت جاگ اٹھی ہو۔ اس کا نعرہ امن حقیقت میں تبدیل ہوجائے اور دنیا امن وشانتی کا گہوارہ بن جائے۔ امن وامان کا بول بالا ہوجائے۔ لیکن ضمیر فروش اور مردہ دل کے جسم میں انسانیت تھی ہی کہاں کہ جاگتی کیونکہ وہ تو خون چوسنے کا عادی ہوگیا تھا۔ ۲۰۰۱ء کے بعد افغانستان و عراق میں اپنی درندگی وسفاکیت اور حیوانیت و بہیمیت کا ایسا ننگا کھیل کھیلا جاتا ہے۔
حال ہی میں عراق کی جنگ کے متعلق سرکاری انکوائری کے چیئرمین سر جان چلکوٹ نے سات سال کے طویل عرصے میں مرتب کی گئی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ عراق کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے حملے سے قبل پرامن طریقے اختیار نہیں کیے گئے۔ اس رپورٹ کے مزید اہم نکات کچھ یوں ہیں:
۱۔ اس وقت عراق پر فوج کشی کرنا آخری راستہ نہیں تھا۔ نہ ہی یہ جنگ ناگزیر تھی۔
۲۔ وسیع پیمانے پر تباھی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرے کو بلاوجہ یقینی بنا کر پیش کیا گیا۔ ایسے ہتھیار عراق میں بالکل بھی نہیں تھے۔
۳۔ صدام کے بعد عراق کی صورتحال سےنمٹنے کے لیے منصوبہ بندی ناکافی تھی۔ جنگ کے قانونی جواز پر بحث نہیں کی گئی۔
۴۔ برطانیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اختیارات کی اہمیت کو کم کیا۔
۵۔ ناقص خفیہ اطلاعات پر پالیسی مرتب کی گئی۔
۵۔ ٹونی بیلئر نے صدر بش کو لکھا کہ: ’جو کچھ بھی ہو میں آپ کے ساتھ ہیں۔
۶۔ جنگ نے ایک خوفناک انسانی المیے کو جنم دیا جس کی ذمہ داری امریکہ اور برطانیہ پر عائد ہوتی ہے۔
یہی حال انکی باقی مسلط کی گئی جنگوں کا ہے ۔خود امریکا اور عالمی برادری کو بھی یہ ضرور بتانا ہوگا کہ:
*نائن الیون کی آڑ میں اور القاعدہ کے نام پر تقریباً ۱۴ سالہ جنگ کے نتائج مزید تباہی کے علاوہ کیا نکلے؟ گوانتانامو میں تذلیل آدمیت، اُسامہ بن لادن سمیت ہزاروں القاعدہ ممبروں کی جان لینے، افغانستان اور عراق میں اَربوں نہیں کھربوں ڈالر جنگ اور ہلاکت کی بھٹی میں جھونک دینے کے بعد بھی کیا یہ حقیقت نہیں کہ دنیا آج مزید غیر محفوظ ہوچکی ہے؟
*کیا یہ حقیقت نہیں کہ ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کے وہ نقشے جو خود امریکی دفاعی وتحقیقی اداروں نے شائع کیے، ان میں خطے کے تمام مسلم ممالک کو مزید تقسیم در تقسیم کرتے ہوئے صرف صہیونی ریاست کی سرحدیں مزید وسعت پزیر دکھائی گئی ہیں۔ اس نقشے پر عمل درآمد کے پہلے قدم کے طور پر عراق اب عملاً تین الگ الگ ریاستوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔
*کیا یہ حقیقت نہیں کہ افغانستان و عراق پر قبضے کے بعد امریکی دانشوروں نے ایک پالیسی کے طور پر ’’خود ساختہ و منظم فتنہ و فساد’الفوضی الخلاقہ‘ جیسی اصطلاحیں متعارف کروائیں۔ آج مشرق وسطیٰ سمیت اکثر مسلم ممالک میں مستقل، مسلسل اور ’منظم‘ فتنہ و فساد اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ کیا یہ ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کا نیا ورژن ہے؟
*کیا یہ حقیقت نہیں کہ خود امریکی پالیسیاں عالم اسلام میں پائے جانے والے اس غم و غصے کا اصل سبب ہیں جو مختلف علاقوں اور مختلف صورتوں میں سامنے آتا ہے۔ فلسطین و کشمیر پر قابض افواج کی مکمل سرپرستی، مصر، شام اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں عوام کی آزادیاں سلب کرتے ہوئے ان پر مسلط بدترین ڈکٹیٹرشپ کی کامل پشتیبانی، عراق و افغانستان پر براہِ راست قبضہ اور مختلف مسلم ممالک پر بلا تردد ڈرون حملے وہ ایندھن ہے جو دنیا میں اشتعال کا سبب بن رہا ہے۔ امریکا واقعی دہشت گردی کا شکار اور اس کے خلاف جنگ میں مخلص ہے تو کیوں وہ آگ ہی نہیں بجھا دیتا، جس سے دھواں اُٹھتا اور اُٹھ سکتا ہے۔
*کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکا میدان جنگ و جدال کے علاوہ اپنی اصل جنگ تعلیم، ثقافت اور تہذیب کے میدان میں لڑ رہا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں کے ذریعے بلامبالغہ کھربوں ڈالر کا بجٹ مسلم معاشروں میں اباحیت اور اخلاقی تباہی کو ترویج دینے پر خرچ کیا جارہا ہے۔ اس کی یہ کھلی جنگ مسلم نوجوانوں میں پائے جانے والے اضطراب کو مزید ہوا دیتی اور انھیں کسی بھی مخالف انتہا تک لے جانی کا باعث بن سکتی ہے۔ کیا دہشت گردی کے خلاف اصل جنگ یہ نہیں کہ دنیا پر مسلط اپنی اس تہذیبی دہشت گردی کو ختم کیا جائے؟
دنیا اب ایک عالمی بستی ہے۔ اس کی کوئی بھی روش اب یک طرفہ اور بلا ردعمل نہیں رہتی۔ اس عالمی بستی کے سب باسی ایک دوسرے سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ بحیثیت انسان اگر ہم اپنا اور دنیا کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ہم سب کو اپنے اپنے رویے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ آج کی دنیا میں اگر کوئی ایک فریق بھی ظلم، ہٹ دھرمی اور قتل و غارت پر بضد رہا تو یقیناًوہ خود بھی اس کا نشانہ بن کر رہے گا۔ آجطاقت ور ممالک جابرانہ تسلّط وغلبہ حاصل کرنے کی غرض سے کمزورریاستوں پر مسلسل حملے کررہے ہیں، جس کے نتیجے میں دنیا جنگی صورت حال اور خوف ناک تصادم کی طرف بڑھتی جارہی ہے، جس پر قابو پانا انتہائی مشکل ہے۔اگر یہ استعماری طاقتیں آج بھی اپنے جارحانہ اقدامات روک لیں اور تمام ممالک کو اپنے اصول وآئین کی روشنی میں جینے دیں تو دنیا امن وسکون کی آماج گاہ اور قتل وخونریزی اور جنگ وجدال سے یکسر پاک ہو سکتی ہے۔ آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے گزشتہ روز بڑی خوبصورت بات کہی ہے کہ ’’ثقافتیں مساوی نہیں ہوا کرتیں اس لیے مغرب کو اپنی بالادستی ظاہر کرنا ہوگی‘‘۔ ہم بھی اس کی تائید کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ یہ بھی عرض کریں گے کہ برتری ڈرون حملوں، طاقت کے بے محابہ استعمال، میڈیا کی اندھی یلغار اور لابنگ کی یک طرفہ مہم کے ذریعہ نہیں بلکہ دونوں ثقافتوں کو انسانی معاشرہ میں آزادانہ کردار کے مواقع فراہم کرنے کی صورت میں ہونی چاہیے۔ دنیا کے کسی بھی خطہ میں اسلامی تہذیب و ثقافت، اسلامی خلافت اور اسلامی شریعت کو اپنا کردار آزادانہ طور پر ادا کرنے کا موقع دیجیے اور پھر یہ فیصلہ انسانی سوسائٹی پر چھوڑ دیجیے کہ وہ دونوں میں سے کسی کو قبول کرتی ہے۔ انصاف کا تقاضہ یہی ہے اور موجودہ عالمی مخمصے کا حل بھی اسی میں ہے۔ اس لیے کہ ایک پہلوان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر دوسرے کے ہاتھ میں گرز پکڑا دینے کا نام مقابلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس طرح کسی کی برتری ثابت کی جا سکتی ہے۔
استفادہ : عبدالغفار عزیز، جمیل اصغر جامی، ریحان اختر ، ریسرچ اسکالر شعبہ سنی دینیات، علی گڑھ