جنگ میں براہ راست اور بالواسطہ حصہ لینےوالےکاقتل

شریعت نے مباشراورمتسبب کے حکم میں فرق کیاہے اور یہ کہ شریعت کے قواعد کی رو سے فعل مباشر ہی کیطرف منسوب کیاجاتاہے،الا یہ کہ مباشر متسبب کے ہاتھ میں ایک آلےکی حیثیت رکھتاہوں۔ظاہرہےووٹرز یا ٹیکس دہندگان کویہ طاقت حاصل نہیں ہوتی کہ حکومت اور فوج کی حیثیت ان کے ہاتھ میں ایک آلے کی سی رہ جائے۔اس لئےووٹرز یا ٹیکس دہندگان کی طرف”المباشرۃ بالقتال”کافعل منسوب نہیں کیاجاسکتا۔

اس امر کی مزید وضاحت کےلئےکہ،شریعت نے براہِ راست اور بلواسطہ جنگ میں حصہ لینے کے درمیان فرق برتاہے،عہدِ رسالت میں جنگوں میں خواتین کی شرکت کے مسئلہ پرذراتفصیلی بحث پیش کی جاتی ہے۔یہ ایک معلوم اورمسلم حقیقت ہے کہ خواتین نے کئی غزوات میں زخمیوں کی مرہم پٹی اوردیگرخدمات انجام دی ہیں۔دیکھنایہ ہےکہ ان کی اس نوعیت کی شرکت کو فقہائےکرام کس طرح دیکھتےہیں اوراس کا کیا حکم متعین کرتےہیں؟امام محمد بن الحسن الشیبانی اس ضمن میں فرماتےہیں: <جہاں تک عمررسیدہ خواتین کا تعلق ہے تواس میں کوئی حرج نہیں کہ زخمیوں کی طبی مدد کےلئے بڑےلشکروں کےساتھ نکلیں>undefined۔(شرح الکتاب السیر الکبیر، باب الجہاد ما یسع منہ وما لا یسع،ج1 ص128)

آگے وہ امِ عطیہ رضی اللہ عنہا کی مثال پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مقصد کےلئے سات غزوات میں رسول اللہ ﷺ کےساتھ شرکت کی اور وہ کھانا پکاتی، پیاسوں کوپانی پلاتی اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔اسکے بعد انتہائی اہم تصریح کرتےہیں : <لیکن یہ بات مجھے پسند نہیں ہیں کہ وہ لڑائی میں حصہ لیں۔>undefined

۔(ایضاََ)

اس سے معلوم ہواکہ میدانِ جنگ میں جاکر بھی مقاتلین کےلیے کھانا پکانے،پانی پلانے اوران کے زخمیوں کی مرہم پٹی کرنےکے اعمال کو بھی براہِ راست لڑائی میں حصہ لینے(المباشرۃ بالقتال)سے یکسر مختلف کام ہیں۔اسی لئے اس کا حکم بھی مختلف ہے۔مثال کے طور پر مالِ غنیمت میں صرف اسی کا مقررہ حصہ(سھم)ہوتا تھاجو لڑائی میں حصہ لیتاتھا۔جو لوگ میدانِ جنگ میں موجودتوہوتے مگرجنگ میں حصہ نہیں لیتے،جیسے بچے،عورتیں یا غلام،تو انہیں مالِ غنیمت میں حصہ نہیں ملتا ۔البتہ غلام یادیگر غیرمقاتلین جنگ میں حصہ لیتے تو انہیں مناسب سا انعام(رضخ)،جس کی مقدار حکمران کی صوابدید پر منحصر ہوتی تھی،دیاجاتا۔خواتین کےلئے حکم یہ تھا کہ اگر جنگ میں براہِ راست حصہ لینے کے بجائے دیگر نوعیت کی خدمات سرانجام دیں تو انہیں رضخ دیاجاتا۔چنانچہ امام شیبانی فرماتےہیں:

<ہمارے نزدیک بچے کےلئےغنیمت میں حصہ نہیں ہے۔۔۔۔۔بچوں کےعلاوہ دیگرغیرمقاتلین کو غیر مقدر حصہ ملےگا بشرط یہ کہ وہ لڑائی میں شریک ہوں۔البتہ عورتوں کو یہ غیر مقدر حصہ ملےگا (خواہ وہ لڑائی میں براہِ راست حصہ نہ لے)جب وہ زخمیوں کی دیکھ بھال اور غازیوں کےلئے کھانا پکانے کےلیے(فوج کےساتھ )جائیں۔>undefined۔(ایضاََ،ج3 ص67)

عورتوں کا غنیمت میں حصہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ جنگ میں حصہ نہیں لیتیں۔ تاہم یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہےکہ اگر وہ جنگ میں زخمیوں کی تیمارداری کریں یا کسی اور طریقے سے جنگ میں حصہ لیں تب بھی ان کو مالِ غنیمت میں مقررہ حصہ (سھم)نہیں ملے گا۔البتہ اس صورت میں امام ان کی کارکردگی کے اعتراف میں انہیں مالِ غنیمت میں ہی کچھ مال بطورِ انعام (رضخ)دےگا۔اسکی وجہ یہ ہےکہ مالِ غنیمت میں مقررہ حصہ مقاتلین کے لیےہے جبکہ عورتوں کے متعلق مفروضہ یہ ہےکہ اصلاََ غیرمقاتلہ ہے۔تاہم قتال میں حصہ لینے کی وجہ سے وہ غنیمت میں سے کچھ حصہ لینے کی مستحق ہوجاتی ہے۔یہ حصہ باقاعدہ مقاتل کے حصہ کے برابر تو نہیں ہوتا لیکن اسے اس بات کے اعتراف میں دیاجاتاہے کہ اس جنگ میں حصہ لیاتھا۔گویا وہ وقتی طور پر مقاتلہ ہوگئی تھی۔امام سرخسیؒ نے واضح کیاہےکہ سھم ہویا رضخ،چونکہ ہر دوصورتوں میں اس کی ادائیگی مالِ غنیمت میں ہوتی ہے اس لئے ادائیگی کا استحقاق جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے ہوتا ہے۔( شرح الکتاب السیر الکبیر،باب سھمان الخیل فی دارالحرب،ج3،،ص49) ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ سھم باقاعدہ مقاتل کو ادا کیا جاتاہے جب کہ رضخ اس کو ادا کیا جاتاہے جوباقاعدہ مقاتل نہ ہو مگر کسی موقع پر قتال میں حصہ لے۔

یہاں اس معاملے سے متعلق ایک اور اہم اصول کی طرف بھی توجہ دلانی ضروری ہےکہ اسلامی قانون کی رو سے دشمن مقاتلین کو امان دینے کا اختیارصرف اسی مسلمان کو حاصل ہوگا جوجنگ میں حصہ لے۔چنانچہ مسلمان تاجر کو خواہ وہ دارالحرب میں گیا ہو،یہ اختیار حاصل نہیں ہےکیونکہ وہ دارالحرب میں تجارت کےلئےجاتاہے،جسے جہاد میں شامل نہیں سمجھاجاتا۔جبکہ مسلمان عورت کو یہ اختیار حاصل ہے خواہ وہ مجاہدین کےساتھ محض کھانا پکانے یا مرہم پٹی کےلئے جاتی ہوکیونکہ اس کے یہ افعال جہاد میں شمار سمجھےجاتےہیں۔

امام شیبانی عورت کے امان کےاختیار کےلئے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اورسیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے واقعات سے استدلال کرتے ہیں۔امام سرخسی اس ضمن میں قانونی اصول کی وضاحت جن الفاظ میں کرتے ہیں وہ اہم ہیں:<اس حکم کا سبب یہ ہےکہ عورت جہاد کی اہلیت رکھتی ہے کیونکہ وہ مال کےذریعے جہاد کرتی ہے اور جان کےذریعے بھی کیونکہ وہ بیماروں کو طبی امداد فراہم کرنے اور روٹی پکانےکےلئےجاتی ہے اور اس کی جانب سے جہاد ہے۔>undefined۔(المبسوط،ج10 ص73)

اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ طبی امداد کی فراہمی، جنگ کےلئے مالی تعاون اور اس نوعیت کے دیگر کاموں کو فقہائےکرام “جہاد” میں شامل سمجھتے ہیں اور اس اصول پر بعض احکام کی بنا بھی کرتے ہیں لیکن وہ اسےالمباشرۃ بالقتال نہیں مانتے اور اسی وجہ سے عورتوں کو جنگ میں جائز ہدف نہیں مانتے تھے۔یہی حکم ان تمام لوگوں کےلئے ہیں جوجنگ میں” براہِ راست”حصہ نہیں لیتے۔

معاہد ومستأمن (غیر ملکی سفیر وسیاح وغیرہ) کوعمداً یا خطاً قتل کرنے کی حرمت:

اوپر کی بحث میں اس متعلق بھی تفصیل موجود ہے مسئلے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اسکو الگ سے بھی واضح کیا جاتا ہے۔ اسلام میں ذمی (وہ غیر مسلم جو مسلم ملک میں جزیہ(ٹیکس)دے کر رہتے ہیں) معاہد (جو اسلامی ملک میں معاہدے کے تحت آیا ہو) اور مستأمن (جسے مسلمانوں نے امان دی ہو) کو قتل کرنا حرام ہے۔ غیر ملکی سفیر یا سیاح انہی صورتوں کے تحت ہی مسلم ملکوں میں آتے ہیں اس لیے انکا قتل بھی حرام ہے۔ انکو قتل کرنے کے بارے میں شدید وعید وارد ہوئی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری حدیث نمبر: 3166 میں حدیث روایت فرمائی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی رحمۃ للعالمین ﷺ نےفرمایا:’’مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا‘۔‘ ترجمہ:

(جس کسی نے معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا حالانکہ اس کی خوشبو تو چالیس سال کی مسافت سے بھی سونگھی جاسکتی ہے)۔

امام بخاری رحمہ اللہ اسے کتاب الجزیۃ میں باب ’’إِثْمِ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا بِغَيْرِ جُرْمٍ‘‘ (جو کسی معاہدکو بلاجرم کے قتل کرے اس کا گناہ)کے تحت لے کر آئے ہیں ۔

اسی طرح سے اسے کتاب الدیات میں باب ’’إِثْمِ مَنْ قَتَلَ ذِمِّيًّا بِغَيْرِ جُرْمٍ‘‘ (جو کسی ذمی کو بلاجرم کے قتل کرے اس کا گناہ)کے تحت بھی لائے ہيں اور وہاں یہ الفاظ ہیں:’’مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا‘‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں اسی حدیث کے ضمن میں ذمی اور معاہد کی تعریف کرتے ہوئےفرماتےہیں: اس سے مراد ہر وہ شخص جس کا مسلمانوں سے عہد ہو چاہے جزیہ کے ذریعے ہو یا حکمران کی جانب سے کسی معاہدے کے تحت ہو یا کسی بھی مسلمان نے اسے امان دی ہو۔

سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ كُنْهِهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ‘‘۔ ترجمہ :(جس کسی نے معاہد کو بے وقت قتل کیا اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام فرمادی)۔اسےامام ابو داود رحمہ اللہ نے حدیث نمبر:2760 اور امام نسائی رحمہ اللہ نےحدیث نمبر: 4747 میں صحیح سند کے ساتھ روایت فرمایا۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے حدیث نمبر:4748 میں ان الفاظ کا اضافہ نقل فرمایا:’’أَنْ يَشُمَّ رِيحَهَا‘‘۔ ترجمہ :(اللہ تعالی نے اس پر حرام کردیا کہ وہ جنت کی خوشبو بھی سونگھ پائے)۔امام المنذری رحمہ اللہ نے الترغیب والترہیب 2/635 میں فرمایا: ’’فِي غَيْرِ كُنْهِهِ‘‘ کا معنی ہے بے وقت یعنی ایسے وقت میں قتل نہيں کیا جب اس کا قتل جائز تھا یعنی اس کا کوئی عہد ومعاہدہ نہیں تھا۔اور فرمایا: اسے ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت فرمایا اور اس کے الفاظ ہیں:’’مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهَدَةً بِغَيْرِ حَقِّهَا، لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَ إِنَّ رِيحَ الْجَنَّةِ لَتُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ مِائَةِ عَامٍ‘‘۔ ترجمہ :(جس کسی نے ناحق کسی معاہد جان کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا حالانکہ اس کی خوشبو تو سو سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے)۔

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے۔ جہاں تک معاملہ ہے کسی معاہد کو خطاً قتل کرنا تو اللہ تعالی نے اس بارے میں دیت اور کفارہ واجب قرار دیا ہے۔

فرمان الٰہی ہے:﴿وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَھْلِهٖ وَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنة ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ۡ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيْمًا حَكِيْمًا﴾

ترجمہ :اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیمان ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا بھی ضروری ہے، پس جو نہ پائے اس کے ذمے لگاتار دو مہینے کے روزے ہیں اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لئے ، اور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔(النساء: 92)

استفادہ کتاب’ جہاد، مزاحمت اور بغاوت از ڈاکٹر مشتاق احمد