یہاں ہوشیار ہوجانے کی ایک اور جہت ہے اور اس سے بھی صلیبی بھارتی دشمن کو ہمیں ایک لامتناہی خونریزی میں جھونک دینے کا موقعہ ہاتھ آسکتا ہے، اور وہ وہاں سے اپنے مفادات کےلیے بہت سا راستہ بنا سکتا ہے۔ یہ ہے ’شیعہ سنی‘ کے مابین تصادم جس کی ہزارہا طریقے سے کوششیں ہورہی ہیں۔ عالم اسلام میں شام سے لےکر لبنان اور عراق تک بےشک یہ ایک گھناؤنا کردار ہمارے سامنے ہے، البتہ ہم اس شر کی بابت جو کچھ لکھتے ہیں وہ صرف اس لیے کہ ہماری اہلسنت قوتیں کسی رافضی چقمہ کا شکار نہ ہوجائیں اور امت کے مفادات کے معاملے میں ان پر کوئی اعتماد نہ کربیٹھیں۔ رافضیت سے امت کو آگاہ کرنے کی بابت ہمارے باشعور علماء کی ساری محنت صرف اور صرف اسی غرض سے رہی ہے کہ امت کہیں اس کے زرق برق نعروں کے جھانسے میں نہ آجائے۔ اللہ کا شکر ہے کم از کم عالم عرب میں ہمارے ان علماء کی وہ محنت بڑی حد تک رنگ لاچکی ہے اور اب حال یہ ہے کہ قرضاوی صاحب جیسے لوگ، یہاں تک کہ مصر کے اخوان، رافضی ہلال کے خطرے سے اقوامِ عرب کو ہوشیار کرنے میں مصروف ہیں۔
تاہم رافضیت سے متعلق ہمارے علماء و مشائخ کی یہ سب تعلیمی وابلاغی محنت اس لیے ہرگز نہیں کہ مسلم خطوں میں شیعہ سنی فسادات کو قبول کیا جائے۔ یہ بات نہایت واضح ہوجانی چاہئے۔ کسی گروہ کے خون کو مباح کرنا خدا کی شریعت میں ایک بہت بڑی جرأت ہے۔ نصوصِ شریعت اس موضوع پر نہایت خوف دلاتی ہیں۔ علماء اس سے شدید متنبہ کرتے ہیں۔ خدا کی بارگاہ میں خون کا حساب دینا آسان نہیں۔ قتلِ ناحق ایک کافر تک کا ہو تو خدا کے ہاں جوابدہ ہونا ہوگا کجا یہ کہ اہل قبلہ کا خون یوں حلال کرلیا جائے۔ کہاں ہیں وہ اعلیٰ سطح کے علماء جنہوں نے لاکھوں کروڑوں پر مشتمل ایک گروہ کا خون مباح کردینے کا فتویٰ دیا ہو؟ پس اول تو یہ خونریزی شرعاً حرام ہے۔ پھر یہ ہمارے خلاف دشمن کا ایک بہت بڑا ہتھیار ہے ۔رافضی خطرے سے متنبہ رہنا اور ان کے کسی جھانسے میں آنے سے خبردار کرنا، اپنی جگہ ضروری ہےتاہم یہ بیان اپنی جگہ ضروری ہے کہ شیعہ سنی تصادم فی الوقت اسلام کی کوئی بھی خدمت نہیں۔ نہ صرف اسلام کی خدمت نہیں، بلکہ حالیہ مرحلے میں یہ بیرونی قوتوں کے ہاتھ میں ایک بہت بڑا ہتھیار ہے جسے وہ ہمارے خلاف بےتحاشا برتنا چاہتا ہے بلکہ بہت سے خطوں میں وہ ہمارے خلاف اس کی افادیت آزما چکا ہے۔ ہمارے افغان طالبان بھائی اس خطرے سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ امت کو بھی اس سے منتبہ کرتے ہیں۔ ان کے ترجمان کے انٹریو سے ایک قیمتی اقتباس:
سوال: شیعہ سنی اختلافات کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں اور اس بارے میں امارت اسلامیہ کی پالیسی کیا ہے ؟
جواب: شیعہ سنی کے درمیان لڑائی اور اختلافات پیدا کرنا اور ان کو گرمانا مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ، امت مسلمہ کو اس وقت کفر کے یلغار کا سامنا ہے۔ اگر اس زمانے میں بھی کوئی اسلامی ملک کے اندر جھگڑے،فسادپیداکرتا ہے اور گھر گھر دشمنی کی فضا بناتاہے تو واضح طورپر کہدوں کہ یہ عمل مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ۔ ایسے واقعات سےصرف کفار ہی کو فائدہ ہوگا ۔ آپ جانتے ہیں کہ قریبی تمام اسلامی ممالک میں اہل سنت اور اہل تشیع مشترکہ زندگی گذارتے ہیں ۔ اگر ان کے درمیان جنگ شروع ہوجائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ تمام اسلامی دنیا کے ممالک میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی ۔ اور ایسی جنگ جس کا کوئی انجام بھی نہ ہوگا ۔ انجام اس لیے نہ ہوگا کہ کثرت کے باعث کسی فریق کے لیے دوسرے فریق کاختم کردینا اور مٹاکے رکھ دینا ناممکن ہوگا ۔ اس لیے یہ ایک بے پایاں جنگ ہوگی جس کے عواقب انتہائی خطرناک ہوں گے ۔ آج امت مسلمہ میں مکمل طورپر اتحاد کی ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے سنیوں اور اہل تشیع کو خاص غور وفکر کی ضرورت ہے ۔ اب امارت اسلامیہ کی واضح پالیسی کی بنیاد پر کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی شخص کو صرف اس لیے کہ وہ شیعہ ہے اس پرحملہ آور ہو اور اسے قتل کرے ۔ امارت اسلامیہ امت مسلمہ کی اتحاد کے لیے سرگرم عمل ہے ۔ ساری امت مسلمہ کو اس آگ کی فکر کرنی چاہیے جو کافروں نے جلائی ہے جس میں بلاتفریق سارے مسلمان خاکستر ہورہے ہیں ۔
ذبیح اللہ مجاہد۔ ترجمان امارتِ اسلامیہ افغانستان
یہ انٹرویو، امارت افغانستان کی آفیشل ویب سائٹ پر آج کی ڈیٹ (30 جنوری 2013ء) تک موجود تھا۔ اس کا ویب لنک
استفادہ تحریر حامد کمال الدین ، سہ ماہی ایقاظ