سوال: ترک مذھب کے بعد سیکولر لوگوں کی جنگ و جدل کی علمی بنیاد کیا ھے؟
سیکولر، لبرل، سوشلسٹ و مذہب مخالفین حضرات کا مذہب پر اعتراض ھے کہ مذہب کے نتیجے میں نزاع و افتراق پیدا ھوتا ھے،لہذا اسے ترک کرکے عقلی بنیادوں پر معاشرت و ریاست تعمیر کی جانی چاھئے۔ مذھب کی بنیاد پر قائم معاشرت و ریاست کبھی امن قائم نہیں کرسکتی کیونکہ مذہبی اختلافات ناقابل حل ھوتے ہیں, خدا کی مرضی کیا ھے یہ طے کرنا ممکن نہیں نیز مذہبی خیر بطور ‘الحق’ (واحد خیر) کا ادراک انسان میں یہ اخلاقی ذمہ داری پیداکرتا ھے کہ وہ دوسروں تک اس سچائ کو پہنچاۓ جو بالآخر ‘خدائ فوجداری’ (جہاد یا Holy war) کے نظریے میں تبدیل ہو کر رھتی ھے۔ لہذا انکے خیال میں مذھب کے بجائےعقلی بنیادوں پر معاشرت و ریاست تعمیر کی جانی چاھئے۔
مگر۔۔!
ان کی اپنی تین سو سالہ تاریخ یہ ثابت کرتی ھے کہ عقل کے نام پر تراشیدہ نظریات کی آڑ میں جتنے انسانوں کا قتل کیا گیا، جس طرح پوری پوری اقوام کی نسل کشی کردی گئی، جس قدر استحصال اور لوٹ کھسوٹ سے کام لے کر پورے پورے بر اعظم لوٹ لئے گئے، جس طرح کمزور اقوام کو دبا کر رکھنے کیلئے خود اپنی ہی تراشیدہ اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیری گئیں پوری انسانی تاریخ اسکی نظیر پیش کرنے سے قاصر ھے۔چنانچہ یہاں فطری طور پر سوال پیدا ھوتا ھے کہ آخر سیکولر اور عقل کے نام لیوا لوگوں کے اس جارحانہ اور بربریت انگیز رویے کی علمی بنیاد کیا ھے؟
اس رویے کی توجیہہ بیان کرنے کیلئے یہ عامیانہ خیال (بلکہ سیکولر لوگوں کی طرف سے عذر) پیش کیا جاتا ھے کہ اس رویے کی وجہ خود سیکولر یا عقل پرستانہ علمیت میں نہیں بلکہ انسانی کمزوریوں میں پنہاں ھے، یعنی دنیا کا کوئ بھی انسان ذاتی مفادت یا کسی دوسری انسانی کمزوری کی بنا پر جذبات سے مغلوب ہرکر ایسا کرسکتا ھے۔
اگرواقعی معاملہ ایسا ہی ھے تو سیکولر حضرات یہی توجیہہ مذھب کیلئے قبول کیوں نہیں کرلیتے؟ درحقیقت یہ توجیہہ پیش کرتے وقت سیکولر حضرات دورخی پالیسی اختیار کرتے ہیں، یعنی مذہبی نزاعات کو یہ ‘اہل مذہب نہیں’ بلکہ خود ‘مذہبی علمیت’ کا نتیجہ و تتمہ گردانتے ھیں لیکن عقل سے تراشیدہ نظریات کے اختلافات کو یہ ان نظریات نہیں بلکہ ‘ان کے ماننے والوں’ کی ‘بشری کمزوریوں’ میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔اب ظاہر بات ھے اس توجیہہ کو ‘ایک عذر’ تو کہا جاسکتا ھے لیکن خود انکے اپنے علمی پیمانوں پر یہ کوئ علمی دلیل نہیں (یہ دلیل تو ہر کوئ اپنے دفاع میں دے سکتا ہے)۔
توسوال یہ ھے کہ آخر سیکولر اور عقل کے نام لیوا لوگوں کے اس جارحانہ اور بربریت انگیز رویے کی علمی بنیاد کیا ھے؟
سیکولر اور عقل پرست حلقوں کی جنگ و جدل اور بربریت کی علمی بنیادیں:
مذھب کو رد کرکے جب یہ لوگ عقل کے نام پر آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں تو ان میں اس بات پر کوئ اتفاق نہیں ھوپاتا کہ ‘انسان آزاد کیسے ہوتا ھے’، اور اس اختلاف کے بنا پر یہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ بعینہہ مذہبی پیروکار کی طرح آزادی کے ہر نظریے پر ایمان لانے والا اسے اپنی اخلاقی ذمہ داری محسوس کرتا ھے کہ پوری انسانیت کو اس سچ سے روشناس کراۓ کیونکہ جب تک THE OTHERS کا وجود ھے اسکے آفاقی سچ کو خطرہ لاحق رھتا ھے۔ لہذا اشترکیت کا چمپئین روس ھو یا نسل پرست جرمنی اور یا پھر ہیومن رائٹس کا داعی امریکہ، ہر ایک ‘انسانیت کی بھلائ’ کے نام پر (In the name of people) اپنے نظریئے کے فروغ کیلیے لازما ‘علم جہاد’ بلند کرتا ہے۔
درحقیقت ‘عقل’ کا نعرہ لگانے والا خود کو ‘عقل کے جبر’ کا شکار پاتا ھے۔ ‘عقل کے ہر مخصوص تصور’ پر یقین کے نتیجے میں وہ تمام لوگ جو اس تصور پر یقین نہیں رکھتے خود بخود ‘غیر عقلی’ irrational بن جاتے ہیں، یعنی ‘عقل کے دائرے سے باہر’ نکل جاتے ہیں (مثلا جو لوگ ہیومن رائٹس پر ایمان نہیں لاتے لبرلز کے نزدیک وہ غیر عقلی، جاہل اور وحشی لوگ ہیں) ۔چنانچہ یہی وجہ ھے کہ عقل کے نام لیوا انتہائ ڈاگمیٹک اور کنزرویٹو ھوتے ھیں اور اپنے علاوہ ہر کسی کو جاہل اور بے وقوف سمجھتے ھیں۔۔۔دنیا کا کوئ نظریہ ‘عقلی’ (civilized) اور ‘غیر عقلی’ (barbaric) رویے کو مساوی معاشرتی و ریاستی حیثیت نہیں دیتا۔ ‘عقل’ اس سے یہ اخلاقی تقاضا کرتی ھے کہ ‘غیرعقلی’ کو مغلوب کردیا جاۓ کیونکہ وہ تو ھے ہی غیر عقلی، اسکے غالب وجود کا کیا مطلب، ایسا وجود تو ‘عقل’ اور ‘انسانیت’ (civilization) کیلیے خطرہ ھے، لہذا ‘تحفظ عقل’ کیلیے ‘غیر عقلی’ کو مغلوب ہونا ہی پڑے گا، this is inevitable۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہیومن رائٹس پر مبنی لبرل سیکولرازم کا نعرہ لگانے والی یورپی اقوام نے ریڈ انڈین کا قتل عام اسی بنیاد پر کیا کہ یہ انسان نہیں بھینسے (جان لاک کے الفاظ) اور بھیڑئیے (جیفرسن کے الفاظ) ہیں۔ اسی طرح آج امریکہ دنیا بھر میں لوگوں کو نان ہیومن سمجھ کر مارتا ھے اور انکے قتل کو ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی نہیں سمجھتا کہ ہیومن رائٹس تو ہیومن کے ہوتے ہیں۔ اب چونکہ عقل کا کوئ معروضی و آفاقی تصور ممکن ہی نہیں اور نہ ہی کسی مخصوص تصور عقلیت کی کوئ آفاقی عقلی توجیہہ پیش کی جاسکتی ھے لہذا عقلیت کے مختلف و متضاد تصورات ہمیشہ اور لازما کشا کش کا شکار رہتے ہیں اور عقل کے فریم ورک میں اس نزاع کا کوئ حل موجود و ممکن نہیں، گویا یہاں ‘الجہاد ماض الی یوم القیامہ’ والی کیفیت برپا رہتی ھے۔
چونکہ عقل پرست سوائے اپنے نفس کے علاوہ کسی کے آگے جوابدہ نہیں ھوتا،لہذا اسکی بربریت پھیلانے کی صلاحیت پر کوئ داخلی اخلاقی چیک موجود نہیں ھوتا کیونکہ اخلاق اسکے نزدیک ایک سبجیکٹو شے ہوتی ھے۔ لہذا اپنے تراشیدہ اخلاقیات کی ہر خلاف ورزی پر وہ خود کو معاف کرسکتا ھے۔ چنانچہ مشہور پوسٹ ماڈرن فلسفی رارٹی Rorty کہتا ھے کہ یقینا ہم نے ریڈ انڈینز پر ظلم کئے اور ہمیں اسپر افسوس ہے مگر چونکہ ہم خود مختار ہیں لہذا ہمیں حق ھے کہ ہم خود کو معاف کردیں (چنانچہ امریکہ ہیومن رائٹس کی تمام تر خلاف ورزیوں کے بعد خود کو معاف کردیتا ھے)۔ یہی وہ علمی بنیاد ھے جسکی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جدید الحادی تہذیب سے قبل کسی انسانی تہذیب نے اس منظم طور پر نہ تو کبھی انسانی نسل کشی کی اور نہ ہی براعظموں کے براعظم لوٹ لئے اور نہ ہی ایسے مہلک ہتھیار بنانے کا سوچا جسکے ذریعے لاکھوں انسانوں کو indiscriminately آنا فانا لقمہ اجل بنایا جاسکے۔