ایک بوڑھی تہذیب جو اپنے آخری دموں پر ہے عالمی سطح پر ایک نوخیز تہذیبی واقعے ’’اسلام‘‘ سے شدید طور پر خائف ہے، جس کے شواہد شمار سے باہر ہیں۔ یہاں تک کہ سیموئیل ہنٹنگٹن Samuel Hintigtonایسے لوگ اس بات کو عالم اسلام پر مغرب کی ازسرنو چڑھائی کا ایک فکری اور وجدانی مقدمہ بناتے ہیں۔
وہ دیکھ رہے ہیں، کئی مغربی ممالک میں اسلام آج اُن کی ڈیموگرافی بدل رہا ہے۔ جگہ جگہ اسلامی سنٹر کھل رہے ہیں اور لوگ اِس دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ مسلم ممالک میں پچھلے تین عشروں کے اندر ’’نماز‘‘ اور ’’حجاب‘‘ کا فنامنا مسلسل زور پکڑتا رہا ہے۔ ’اتاترک کا ترکی‘ تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہوتا چلا گیا ہے اور اس کی جگہ ایک ایسا ترکی سامنے آنے لگا جو کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا۔ مغربی تہذیب کے ہاتھوں ’خاندان‘ جس طرح ٹوٹ پھوٹ گیا ہے، اور چرچ اس محاذ پر جس طرح ناکام دیکھا گیا ہے، یہ جنگ اب صرف اسلام کے لڑنے کی رہ گئی ہے، یہ تاثر ایک بڑی خلقت کے ذہنوں میں مضبوط ہوا ہے۔ مادیت نے انسان کا دل جس طریقے سے ویران کر ڈالا ہے، اس کا مداوا اسلام کے پاس ڈھونڈا جانے لگا ہے۔ ایک ایسی روحانیت جو عقل کی کامل تسکین کرتی ہے۔ اور ایک ایسی عقل جو ہرگز روحانیت کے آڑے نہیں آتی بلکہ اس کی تکمیل اور افزائش کرتی ہے۔ چرچل اور چارلس تک اسلام کی اس مخفی صلاحیت کی داد دے چکے کہ یہاں عقل اور روح، دین اور دنیا ایک دوسرے کے سر آنے کی بجائے کس طرح ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ گویا اسلام کے پاس آکر ’’انسان‘‘ مکمل ہو جاتا ہے۔ یا یہ کہ انسان ’’برآمد‘‘ ہو جاتا ہے۔ وہ انسان جو دوسری جگہوں پر بہت سارے خداؤں کے مابین کٹ پھٹ گیا تھا! اسلام ان کرچیوں کو جوڑ دیتا ہے! اسلام کی اِس فکری اور تہذیبی قوت نے صرف دورِ فتوحات ہی میں قلوب کو مفتوح اور عقول کو مسحور نہیں کیا، آج اِس دورِ مغلوبیت میں بھی ایک سطح پر اسلام اپنی اِس قوت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
البتہ انہیں بخوبی معلوم ہے، اسلام کی یہ تہذیبی قوت اس کے مظاہر میں نہیں بلکہ اسکے اندر متحرک ایک جان دار عقیدہ (ایمان بالغیب) میں ہے۔ اور وہ ایک ایسا واضح، ثابت، محکم عقیدہ ہے جسے قرآن ایسی حسیں زبان ملی ہوئی ہے۔ پھر یہ ایک کامل شریعت پر قائم ہے جو حیاتِ انسانی کی پیچیدہ سے پیچیدہ گرہیں بڑی قدرت اور کامیابی سے کھولتی ہے، اور اپنے بیان کےلیے نہایت معلوم و ثابت مراجع رکھتی ہے۔ نیز انہیں معلوم ہے، اسلام نفسِ انسانی کو ایک جامعیت دیتا ہے۔ جس کے بعد نفس انسانی ایسا خدا رخ ہوتا ہے کہ نہ ’انسان‘ کے نام پر انسان کی پیشوائی باقی رہے اور نہ ’خدا‘ اور ’مذہب‘ کے نام پر۔ یہاں سب کچھ خدا رُو ہو جاتا ہے اور غیراللہ سے انسان مکمل پھر جاتا ہے۔ زمین پر ’’خدا‘‘ کا ایسا تسلط جہاں واقعتاً انسان کی خدائی ختم ہو جائے، جہاں انسان خدا کو اپنا سب کچھ سونپ کر راحت اور سعادت کا ایک جل تھل آخرت سے پہلے اِسی دنیا میں پائے، نیز اپنے عقل و شعور، تسخیرِ کائنات کےلیے اپنی ایک ازلی تڑپ اور اپنے طبعی قِویٰ اور صلاحیتوں کےلیے ایک وسیع گنجائش پائے، اور اپنے یہ تمام شوق پورے کرتے ہوئے بھی درحقیقت ’’خدا کی عبادت‘‘ ہی کر رہا اور اُسی کے دیے ہوئے مقاصد زمین پر پورے کر رہا ہو… یہ ’’حنیفیتِ سمحۃ‘‘ جو دینِ محمدؐ کا سب سے بڑا خاصہ ہے، انبیاء کے دشمنوں کو سب سے زیادہ خوفزدہ کرتی ہے، جو انسان سے انسان کی عبادت کروانا چاہتے ہیں؛ کبھی کسی نام پر تو کبھی کسی نام پر۔
’’مسلمان‘‘ کو ایک تہذیبی واقعے کے طور پر جہان سے مٹا ڈالنے کےلیے آج وہ:
1. ’وار آف آئیڈیاز‘ ‘war of ideas’ لے آئے ہیں۔ جس کا صحیح نام war on ideas ہونا چاہئے۔ کیونکہ وہ سیدھا منہ پھاڑ کر اب یہ کہنے لگے ہیں کہ اُن افکار ہی کو اور ان کے حاملین کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دو جو لوگوں کو مغرب کے دیے ہوئے اُس فکری ڈسکورس کا باغی کرتے ہیں جو بڑی محنت کے بعد آج دنیا کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں سکۂ رائج الوقت بنا دیا گیا ہے۔ اِس رائج الوقت فکری ڈسکورس کے خلاف ذہنوں کے اندر جو ایک علمی بغاوت ہو گی وہی امنِ عالم کےلیے صاف ایک خطرہ ہے! ایسا الگ فکری ڈسکورس رکھنے والے لوگ چاہے بندوقیں نہ بھی اٹھائے ہوئے ہوں، اور چاہے ایسے لوگ بندوقیں اٹھانے والے کچھ ناپختہ لوگوں کو خود اپنے اس فکر اور دعوت کے حق میں ہی نقصان دہ کہہ کہہ کیوں نہ تھک گئے ہوں، پھر بھی یہ گردن زدنی ہیں! رائج الوقت (مغربی) فکری ڈسکورس کے خلاف علمی بغاوت بجائے خود ایک جرم اور بدامنی کی ایک سرعام دعوت ہے! ایک دو سو سالہ عمل کے نتیجے میں دنیا اب ’حقیقتوں‘ کے تعین کے معاملہ میں جس ڈسکورس پر لے آئی گئی ہے اس سے ذہنوں کو ہٹانا آج بجائےخود ایک ’فساد‘ ہے جسے آہنی ہاتھ سے ختم کردینا چاہئے! وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَلْيَدْعُ رَبَّهُ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ ۔(غافر: 26) ’’اور فرعون نے کہا: مجھے چھوڑ دو میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور وہ اپنے رب کو پکارے۔ میں ڈرتا ہوں کہ وہ تمہارے دین کو بدل ڈالے گا یا یہ کہ زمین میں فساد پھیلائے گا‘‘۔
2. مسلم دنیا کے کالجوں یونیورسٹیوں میں الحاد (خدا، نبی، قرآن کا سیدھا سیدھا انکار) اور لادینیت کے غول چھوڑ دیے گئے ہیں۔ بےشمار خفیہ گروپ اس پر کام کر رہے ہیں اور اپنی سرگرمی کےلیے ایک مضبوط پشت پناہی رکھتے ہیں۔
3. مسلمانوں کے شہروں میں بدکاری اور کنڈوم کلچر کو عام کرنے کے غیرمعمولی انتظامات عمل میں لائے جا رہے ہیں۔ این جی اوز کی ایک فوج ظفر موج اندھے وسائل لے کر کچھ نہایت سائنٹیفک منصوبوں کے ساتھ یہاں کی پسماندگی اور معاشی بدحالی کا فائدہ اٹھانے کےلیےمیدان میں اتر آئی ہے۔ یہاں کے بااثر طبقے اکثر و بیشتر یا اُن کے کانے ہیں یا سرے سے اندھے۔
4. تعلیم کے شعبے میں پرائمری کی سطح تک ’اصلاحات‘ کا جو ایک بھاری بھرکم پروگرام رُو بہ عمل ہے اور جس میں بہت کچھ نہایت مفید بھی ہے، اس شہد میں لادینیت کا ایک نہایت زوداَثر زہر بھی گھول دیا گیا ہے۔ اس کے نتائج دیکھ کر آپ عنقریب سر پکڑ کر رہ جائیں گے۔ 5. مسلمانوں کے تمام مسلَّمات پر ’’تشکیک‘‘ کا حملہ کر دیا گیا ہے۔ ہمارے پڑھےلکھے طبقوں کی نظر میں ہماری ہر چیز ’نظرِ ثانی‘ کی ضرورتمند ٹھہرا دی گئی ہے۔ اسلام کی ایک ’تفسیرِ نو‘ کی ضرورت بجابجا منوائی جا رہی ہے۔ آپ خود جانتے ہیں مسلم معاشروں پر چھائی ہوئی جہالت، علم اور علماء کی کمی، مغربی ڈسکورس کے غلبے اور، اذہان کی غلامی اور ماتحتی کے اِس دور میں اسلام کی جو ایک ’تفسیرِ نو‘ ہو گی، اور پزیرائی پائے گی، وہ کیسی تباہ کن ہو گی۔
6. ناموسِ رسالت پر مسلم غیرت کا مذاق اڑانا ایک فیشن بنا دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں نفوس کے اندر پیدا ہونے والی مزاحمت ذہنوں کے اندر کچلی جا رہی ہے۔
7. ادیان کے فرق کو ملیامیٹ کرایا جا رہا ہے۔ باطل ملتوں کے شرک کو بربادی کا موجب ٹھہرانا اور اس پر جہنم کی قرآنی وعیدیں منہ پر لانا تہذیب کے منافی ٹھہرا دیا گیا ہے اور کافر ملتوں سے قربت و ہم آہنگی اختیار کرنا ایک نہایت قابل تحسین ’تہذیبی رویہ‘۔ ’نماز روزہ‘ شاید ابھی کچھ دیر ہمارے پاس بچا رہے (ان لوگوں کےلیے جو بےحیائی کے اِس طوفان میں بھی نماز روزہ پر باقی رہنا چاہیں) البتہ ’’اسلام دنیا کا واحد سچا دین ہے اور اس کے ماسوا ہر دین باطل اور صاف جہنم کا موجب‘‘ یہ عقیدہ سمجھو مسلمان کے ہاتھ سے گیا کہ گیا(ألا ھل بلَّغتُ؟)۔ ’گلوبلائزیشن‘ کو پہلا کام ہی یہاں پر یہ کرنا ہے۔
8. اس سے پہلے صرف ’سیاست‘ کو ہی دین پسندوں کےلیے شجرِ ممنوعہ ٹھہرایا جاتا تھا۔ مگر اب نہیں۔ مسلمانوں کی ان جماعتوں کو آج ایک خطرہ اور خوف کی علامت بنایا جا رہا ہے جو ’سیاست‘ تک سے کوئی سروکار نہیں رکھتیں مانند تبلیغی جماعت اور الہدیٰ وغیرہ۔ ان جماعتوں کی کل محنت اور توجہ لوگوں کو گناہگاری کی زندگی سے نکال کر تقوی اور پاکیزگی کی زندگی پر لانا ہے۔ ان جماعتوں کو بھی بےرحمی کے ساتھ ہدف بنایا جاتا ہے تو اس کی ایک واضح دلالت ہے، جس سے صرفِ نظر کرنا درست نہیں: دراصل اُن کی ہمارے ساتھ جنگ اب ’سیاسی اسلام‘ سے بہت آگے گزر چکی ہے۔ اسلام کو فی الوقت وہ کسی ’سیاسی‘ نہیں بلکہ ایک ’’تہذیبی‘‘ چیلنج کے طور پر زیادہ دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا اسلام کی روحانیت اور پرامن دعوت بھی اب انہیں تکلیف دے رہی ہے۔
9. ’مدارس‘ کے خلاف ایک طریقے سے اعلانِ جنگ ہو چکا۔ ہمارے زیادہ لوگ اس مسئلہ کو محض ’دہشتگردی‘ کے سیاق میں دیکھ رہے ہیں۔ بےشک دہشتگردی کے کچھ واقعات میں مدارس میں پڑھنے یا پڑھانے والے بعض افراد ملوث ہوں گے۔ مگر ایسی کسی تشویش کا تعلق ہمارے سیکورٹی اداروں سے ہو گا۔ انکل سام اور اُس کے معتمد لبرلز کی پریشانی ’مدارس‘ کی بابت یہ نہیں ہے۔ ’مدارس‘ دراصل وہ ایک ایریا area ہے جہاں اِس اکیسویں صدی میں بھی انسانی عقل ’جدید‘ ڈسکورس سے ہٹ کر سوچتی ہے! اِس جزیرے کو لازماً اسی ’جدید‘ طوفان کے زیرآب آنا ہے؛ اور جلد از جلد آنا ہے۔ اصل بغاوت یہ ہے انکل سام اور اس کے مقامی معتمدین کے نزدیک۔ باوجود اس کے کہ ہمارے مدارس کی حالت آج بہت ہی پسماندہ اور دگرگوں ہے اور یہاں کسی جاندار فکر کی پرورش اور افزائش سرے سے نہیں ہو رہی، اس کے باوجود یہ (مدارس کی دنیا) جدید ڈسکورس کی بیعت شدہ بہرحال نہیں ہے۔ یہ بجائےخود کوئی چھوٹا جرم نہیں ہے۔ مدارس کو ’وجود‘ برقرار ہی رکھنا ہے تو اِسے ادارۂ استشراق کی بیعت کرنا ہو گی۔ اس ’بیعت‘ کےلیے ڈھیروں انتظامات عمل میں لائے جا رہے ہیں۔ خوف کی ایک بھیانک فضا بےوجہ قائم نہیں کرائی گئی۔ اور توقع کی جا رہی ہے کہ مدارس کی جانب سے جلد از جلد مغرب کے اس دین اکبری کےلیے ایک اظہارِ اطاعت سامنے آجائے۔ ’ہینڈزاَپ‘ ایک بار ہو جائے تو پھر دیکھیں گے مولوی کی ’جدید‘ تعلیم و تربیت کی کیا عملی صورتیں سامنے آتی ہیں۔
10. سب سے بڑا ہدف ہمارے اِس تہذیبی قتل کےلیے بڑھنے والی مہم کا: ہمارے وہ ادارے ہیں جو عالم اسلام میں ایک فکری خوداختیاری intellectual independence پیدا کرنے کا منبع ہیں۔ یہاں؛ خطرے کی سب سوئیاں سعودی جامعات کی طرف گھوم جاتی ہیں جہاں ’جدید‘ پڑھایا بھی خوب جاتا ہے مگر ’قدیم‘ کے تابع وماتحت رکھ کر۔ جہاں اللہ کا شکر ہے ’ریلٹوازم‘ relativism کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں اور ’’مطلق حق‘‘ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو مانا اور منوایا جاتا ہے اور اس ’’مطلق حق‘‘ سے متصادم ہر نظریے کو اور ہر فلسفے کو کھلی ضلالت؛ وَکُلُّ ضَلالَۃٍ فِی النَّار۔ آدمی کو یقین نہیں آتا کہ دنیا میں کوئی ایسا علمی جزیرہ بھی ابھی باقی ہے جہاں مسائلِ سماج میں دینِ حق کی یوں تقریر ہوتی ہے۔ جہاں سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کے تھیسس اُسی ٹھیٹ ڈسکورس پہ کھڑے ہو کر کیے جاتے ہیں جس میں مغرب کے دیے ہوئے جدید افکار تو رہے ایک طرف، تاریخ اسلامی کے جہمیہ اور خوارج اور روافض اور معتزلہ تک باقاعدہ ’ضلالت‘ کے زیرعنوان ذکر ہوتے ہیں۔ جہاں ’’ملتوں کا فرق‘‘ محمد بن عبد الوھاب کی کتب سے پڑھایا جاتا ہے اور انبیاء سے اعراض کرنے والے مذاہب اور فلسفوں کا محاکمہ ابن تیمیہ کے اصول سے۔ جدید ڈسکورس کی اتنی بڑی بغاوت دنیا میں کہیں نہ ہوگی جتنی سعودی جامعات کے اندر دن دیہاڑے ہو رہی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں سعودی عرب اپنا بہت کچھ دے کر اپنا کونسا اثاثہ ابھی تک بچاتا آیا ہے اور جس کی وجہ سے وہ اِس ’عالم نو‘ کےلیے کتنا بڑا خطرہ پالتا رہا ہے۔
جدت پسند انکارِ جہاد کی تحریک کا اصل چہرہ:
قادیانی اور جدت پسند ’انکارِ جہاد‘.. انیسویں صدی والے پنجرے کا ’شرعی‘ دروازہ
جیسا کہ ہم نے کہا، وہ ایک رخنہ جو یہاں کے شدت پسندوں نے پیدا کر کے دیا، یہاں بہت سے طبقوں کےلیے ’جاب امکانات‘job opportunities پیدا کر لایا۔ اسلام دشمنی کے بڑےبڑے پرانے پراجیکٹ ہرے ہو گئے۔
کسی فکر کے ’سامنے آنے‘ کی تاریخ ہی دیکھ لی جائے تو اس پر ’علمی‘ بحث کی ضرورت خاصی حد تک ختم ہو جاتی ہے۔ ’انکارِ جہاد‘ کا پہلا نعرہ ایک بڑی سطح پر امت کی تاریخ میں انیسویں صدی کے اندر لگا تھا، جب استعمار کو اس نعرے کی اشد ضرورت تھی۔ استعمار کی اِس ضرورت کو پورا کرنے کےلیے قادیانی نے دلائل کا صغریٰ و کبریٰ ملا کر یہ نکتہ پیش کیا کہ ’’جہاد‘‘ کے نام پر استعماری طاقتوں کے خلاف اٹھنا خلافِ شریعت ہے۔ قادیانی کی یہ دوکان کوئی دن اور چلتی، مگر اللہ نے استعمار کو یہاں سے چلتا کیا اور مسلم قوموں کو آزادیاں دلوا دیں کہ جاؤ اپنا ایک آزاد جہان پیدا کرو اور اُس غلامی کے اسباب دوبارہ پیدا کرنے سے احتراز کرو۔ یہاں؛ قادیانی ڈسکورس اپنی موت آپ مر گیا، بحثوں اور مناظروں کی ضرورت جاتی رہی۔ وہ مسلم سرفروش جو دورِ استعمار میں اِن سرزمینوں کی آزادی کےلیے جہاد کرتے رہے تھے، پسِ آزادی اِن مسلم قوموں کے ہیرو ٹھہرے۔ اُس دور کا ہر بطلِ حریت یہاں کے جیسےکیسے نصابوں میں آج سراہا اور ہیرو ہی مانا جاتا ہے، وللہ الحمد۔ تب سے انکارِ جہاد کی ’دلیلیں‘ بوسیدہ ہو رہی تھیں؛ اور امید تو یہ تھی کہ اب یہ کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ جو بھی ان کا ذکر کرتا دورِ غلامی کی ایک یادگار کے طور پر کرتا۔ اور ہے بھی یہ دورِ غلامی کے ساتھ ہی مخصوص۔ ہمارے تاریخ نگار تک یہ لکھنے لگے تھے کہ دورِ استعمار ہم پر یہ نوبت لے آیا کہ مسلمانوں کے یہاں جہاد کا انکار ہونے لگا۔ روس کے خلاف جہاد کے سالوں میں بھی یہ ’دلیلیں‘ تھیلے سے باہر نہ آئیں؛ کیونکہ اُس وقت یہ مغربی بلاک کی ضرورت ہی نہ تھی۔ بلکہ تب مغربی بلاک کو الٹا جہاد کے حق میں فتوے درکار تھے۔ سو ’انکارِ جہاد‘ کا وہ قادیانی مقدمہ بوسیدہ پڑا رہا؛ کوئی اس کا خریدار نہ تھا۔ (اس کے ’خریدار‘ باہر سے ہی ہو سکتے ہیں؛ اور باہر والے اللہ کا شکر ہے جا چکے تھے)۔
تاآنکہ استعمار کو عالم اسلام میں پھر سے ایک مہم درپیش ہوئی، پورے سوا سو سال بعد۔ سن 2001ء۔ جہاد کو شریعت کے خلاف ثابت کرنے کی ایک بار پھر ’ضرورت‘۔ زمانہ اب وہ نہیں؛ ہماری آزادی کے ساتھ قادیانی بھی دائرۂ اسلام سے خارج قرار پا چکے (یہ الگ سے ایک ’دُکھتی رگ‘ ہے!)۔ اب عالم اسلام پر قابض قوتوں کے خلاف جاری مزاحمت کے خلاف بولے تو کون؟ یہاں؛ استعماری ضرورت کو پورا کرنے کےلیے ’جدت پسند‘ تحریک اٹھی۔ وہی پرانی شراب نئے جام میں: افغانستان، فلسطین، کشمیر وغیرہ میں مسلمانوں کاکافر حملہ آور کے خلاف ہتھیار اٹھانا خلافِ شریعت ہے! یعنی خدا کو ناراض کرنے کا سبب! دین اس کو فساد کہتا ہے! افغانی، فلسطینی، عراقی، کشمیری مجاہد نہیں درحقیقت فسادی ہیں! اب آپ خود اندازہ کر لیجئے، ایک مزاحمت جو اپنا تمام جذبہ ’’دین‘‘ اور ’’ایمان‘‘ سے لیتی اور غاصب کےلیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے، اسے کچلنے کےلیے ایسی ’شرعی دلیلوں‘ سے بڑھ کر اور اُسے کیا چاہئے؟ ’بندوق‘ تو پہلے ہی اُس کے پاس ہےجس سے وہ ہمارے نوجوان کی کھوپڑی چھلنی کر رہا ہے۔ ’دلیل‘ اب اس کو یہ جدت پسند عطا کر رہاہے؛ کیونکہ قادیانی اب دنیا میں نہیں رہا۔ یا یہ کہ دائرۂ اسلام میں نہیں رہا۔
غرض یہ فتاویٰ اپنی حقیقت میں ’انیسویں صدی‘ والے سیناریو کا حصہ ہیں۔ یہ ہمیشہ اس وقت زندہ ہوں گے جب استعمار ہم پر حملہ آور ہو گا۔ (قرآن پر ’گہرے غور و خوض‘ کے پیچھے بسااوقات کچھ نفسیاتی اور وجدانی عوامل بھی ہوتے ہیں!)
لیکن ان فتاویٰ کی دھڑادھڑ فروخت کا یہ موقع بنا کیسے؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور اس پر ہمارے تحریکی حلقوں کو غور کرنا ہے۔ (پچھلے مبحث’’]پاکستان کے دینی حلقے اپنی تاریخ کے بدترین بحران میں<سے اس کا تعلق جوڑتے ہوئے)۔ شدت پسند ڈسکورس کو اپنے آگے بڑھنے کےلیے یہاں جو کچھ زمین خالی ملی، اور جوکہ ماننا چاہئے ہماری اپنی کسی کوتاہی کا نتیجہ تھا، اور جسے میڈیا نے ’مذہبی‘ رنگ دے کر خوب خوب نشر کیا، وہاں سے ایک ’جوابی بیانیہ‘ counter narrative کےلیے زبردست ویکیوم vacume بنا۔ (مائک بدستور میڈیا کے پاس!)۔ جسے پُر کرنے کےلیے وہی انیسویں صدی کا قادیانی والا بیانیہ بلکہ جناب نادر عقیل انصاری>undefinedسابق مدیر اشراق، نائب مدیر سہ ماہی ’’جی‘‘ لاہور<کے الفاظ میں ایکاستعماریہ ’دلائل‘ کی ایک اَپ ڈیٹ کے ساتھ لا حاضر کیا گیا۔ یعنی پہلے ایک ’مذہبی‘نیریٹو نشر کروایا گیا، جوکہ دینی حلقوں کی مین سٹریم کا نیریٹو ہرگز ہرگز نہیں تھا (ہماری اس مین سٹریم کو خدا جانے کیا سانپ سونگھ گیا جو کوئی مضبوط آوازیں ہی یہاں دستیابنہیں رہیں؛ تاریخ کے ایسے نازک ترین موڑ پر۔ یہ اس سارے بحران کا مرکزی ترین نقطہ ہے، بلکہ ہماری نظر میں یہ اس سارے بحران کی واحد وجہ)۔ ظاہر ہے یہ ایک بھیانک نیریٹو تھا جو نہ دلیلِ شرعی پر قائم اور نہ کسی عقلی تجزیے پر (اس کے بھیانک پن میں ’ایفیکٹس‘ effects ڈالنا تو میڈیا کا تخصص ٹھہرا)۔ اور پھر انیسویں صدی والے ’’استعماریہ‘‘ کو، یا اس سے بھی پیچھے جائیے تو ایک دینِ اکبری کو، ’جوابی بیانیہ‘ بنا کر ذہنوں میں پیوست کرایاجانے لگا۔ گویا پہلے ایک خوفناک شیر دکھایا گیا اور پھر جب پوری طرح دہل گئے تو ہمارے آگے ایک پنجرہ لا دھرا گیا جس میں جانا قبول کر کے آپ ’شیر‘ سے تو وقتی طور پر شاید ’محفوظ‘ ہو جائیں گے لیکن استعمار کے قیدی ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بن جائیں گے، جوکہ اِس ’شیر‘ کے جانے کے ساتھ ہی پنجرے پر اپنا وہی انیسویں صدی والا پرانا بدبودار ’شٹر‘ ڈال دے گا اور تب اِس ’بھٹکے ہوئے آہو‘ کا حال پوچھے گا جو عالمی جنگوں اور سرد جنگ کی بھگدڑ کا فائدہ اٹھا کر اس پنجرے سے بھاگ نکلا تھا!
غرض معاملے کی ترتیب یوں رہی:
1. دینی طبقوں کی مین سٹریم کا اس سارے معاملے میں نہ ہونے کے برابر کوئی کردار ہونا۔ (نہ تو اس ’پوسٹ-کولڈ- وار‘ post-cold-war صورتحال کو بھانپ کر قوم کو بروقت راہنمائی دے پانا۔ اور نہ یہاں کے عمل پسند نوجوانوں میں کوئی ایسی فکری قلعہ بندی کررکھنا کہ یہاں کچھ چھوٹےموٹے فکری جھٹکے آئیں تو سہے جا سکیں۔ یہاں تک کہ اس موقع پر کوئی اچھی ترجمانی spokesmanship تک نہ رکھنا۔ یوں متعدد پہلوؤں سے یہاں ایک خلا چھوڑنا)۔
2. استعمار کا سرد جنگ کے خاتمہ کے تاریخی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے (اپنے صیہونی وبھارتی حلیف کو باقاعدہ ساتھ on board رکھتے ہوئے) ہماری سرزمینوں پر ایک نئی لشکر کَشی کرنا، اور عالم اسلام کو ’انیسویں صدی‘ والے پوائنٹ پر (جزوی طور پر) واپس پہنچانے کےلیے کچھ فوری تو کچھ دُوررَس منصوبے لانچ کرنا۔ علاوہ ازیں، ضیاءالحق دَور کے جلاوطن یا یہیں پر دبک کر بیٹھے ہوئے قادیانی نیز ’سرخا‘ عناصر کےلیے ایک نئی نوکری تخلیق کرتے ہوئے یہاں پر ایک ’لبرل سویرے‘ کا ڈول ڈالنا جسے اس بار ’میڈیا ریوولیوشن‘ کی رَو پر سوار ہو کر آنا تھا اور پھر رفتہ رفتہ یہاں کی مادرہائے علمی پر بھی چھا جانا تھا (دونوں یو-ایس-ایڈ اور اسی جیسے ’پاکستان کی ترقی کےلیے بےچین‘ مالیاتی پروگراموں کے سپانسرڈ اور فنڈڈsponsored and funded )۔ ایک لحاظ سے ہمارے بیرونی محاذ پر مغرب کے ادارہ استعمار Colonialist کی پیش قدمی تو ہمارے اندرونی محاذ پر ادارہ استشراق Orientalist کی پیش قدمی۔ دونوں نپی تلی well-studied ، ہم آہنگaligned ، منسَّق coordinated اور دقیق sycronized ۔ جسے یہاں کے سب فکری، سیاسی اور سماجی عوامل کے ساتھ پوری ذہانت کے ساتھ کھیلنا تھا۔ (ادھر ہمارے دینداروں کے پاس مل کر بھی منصوبہ بندی کا کوئی ایک ادارہ نہیں، شاید اس کی ضرورت بھی محسوس نہ کی گئی ہو!)
3. عالم اسلام میں استعمار کے اودھم مچانے اور یہاں کی سرزمینوں پر قبضے جماتے چلے جانے کےلیے ’دہشتگردی‘ ایک بہت اچھی اوٹ تھی۔ اس کا نام لے کر جو مرضی کرتے چلے جاؤ! کچھ دیر تک یہ اصطلاح ہمارے اُس جائز جہادی عمل کےلیے مستعمل رہی جو مسلم سرزمینوں پر بیرونی جارحیت کے خلاف انجام پا رہا تھا مثلاً امریکی قبضہ کاروں کے خلاف ہمارے افغان بھائیوں کی جدوجہد، یا صیہونی غاصبوں کے خلاف ہماری فلسطینی بھائیوں یا بھارتی قبضہ کاروں کے خلاف ہماری کشمیری بھائیوں کی جدوجہد، وغیرہ۔ طبعی بات تھی کہ اسے ’دہشتگردی‘ کہنے کے خلاف ہماری قوم کا ایک طبقہ مزاحم ہوتا: بھئی یہ تو ہماری وہ جنگ آزادی ہے جو مسلم سرزمینوں پر چڑھ آنے والے کافروں کے خلاف ہم ہمیشہ لڑتے آئے ہیں۔ اپنی زمینوں کے دفاع کا حق ہمیں انسانی اصولوں نے بھی دیا ہے۔ اور اس سے پہلے ہمارے دین نے بھی ہم پر یہ فرض کر رکھا ہے۔ لہٰذا یہ تو ہماری قوم کے ہیرو ہوئے جو ہم سب کی جانب سے فرضِ کفایہ ادا کر رہے ہیں۔
یہاں تک؛ ایک جنگ پوری طرح ہمارے لڑنے کی تھی۔ ہمارا دین تو ہماری پشت پر تھا ہی۔ ہم اگر منہ میں زبان رکھتے تو انسانی اصول بھی ہمارے مؤید تھے۔ اس سے ہم نہ صرف اپنی قوم پر بلکہ باہر کے انصاف پسند طبقوں پر بھی اپنے دشمن کو ایک برہنہ غاصب جارح قبضہ کار ثابت کر سکتے تھے۔ یوں اپنے دشمن کے پاس ہمارے اور پوری انسانیت کے ’نجات دہندہ‘ کے روپ میں آنے کا موقع ہی ہم نہ چھوڑتے اور وہ ایک صریح ’غاصب‘ کے طور پر ہی دنیا کے اندر دیکھا جاتا۔ مغرب کے بہت سے انصاف پسند اپنی حکومتوں پر تنقید کےلیے اس بنیاد کو اختیار کرتے بھی رہے ہیں تاوقتیکہ ’اسلام‘ اور ’جہاد‘ کے نام پر ماردھاڑ کا ایک خوفناک ناقابل توجیہ فنامنا ہر کسی کو خاموش کرانے لگا۔ پس اس جنگ کا اسی نقشے پر رہنا ہمارے حق میں بہت سے پوائنٹ لا رہا تھا۔ اس سے ہم کئی محاذوں پر جیت پانے والے تھے۔ کاش معاملہ اسی محور پر رکھا جاتا۔ اس پالیسی پر رہتے ہوئے: ہمارے نوجوان کا جذبۂ شہادت تو سب کا سب دین سے ہی پھوٹتا اور اپنے نوجوان کےلیے حوالہ ہمارا وہ خالص اسلامی پیراڈائم ہی ہوتا۔ البتہ عالمی سطح پر ہم دنیا کے مانے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر بھی اپنا کیس ثابت کر رہے ہوتے، کیونکہ یہ دنیا فی الحال ہمارا ’اسلامی‘ حوالہ نہیں مانتی۔ غرض یہاں تک معاملہ ہمارا ہی طرفدار تھا، کچھ کمی تھی تو ترجمانی spokesmanship کی۔ باقی عملی جنگ تو لڑنے سے لڑی جانی تھی، اور یہ ایک گوریلا وارفیئر تھا جو ہمیشہ وقت مانگتا ہے۔
4. تاآنکہ کچھ دینی طبقوں نے ایک ہیجان خیز صورتحال میں جذباتیت کی راہ چلتے ہوئے اِنہی مسلم سرزمینوں کے اندر محاذ کھول ڈالے۔ ادارہ استشراق orientalist بڑی دیر سے یہاں کے فکری رجحانات کا مطالعہ کر رہا تھا۔ وہ ایسا کوئی موقع ہاتھ سے کیونکر جانے دیتا۔ یہاں سے؛ مسلم سرزمینوں کو نہ صرف غیرمستحکم کردینے بلکہ آگ اور خون میں نہلا دینے کی ایک صورت اُس کے ہاتھ لگی۔ کیا ’بلیک واٹر‘، کیا ’را‘، کیا ’خاد‘ اور نجانے کون کون سے سیکریٹ گروپ یہاں ’جہاد‘ کے پردے میں یوں سرگرم ہوئے کہ الامان والحفیظ۔ ہماری اِن قوموں کو جہاد سے ’توبہ‘ کروا دینے کی یہ صورت سب سے سوا تھی۔ مسلمانوں پر ایسا الٹا پڑنے والا ’جہاد‘ تو ان کی پوری تاریخ میں کبھی نہ ہوا ہو گا! اوپر سے لبرلز کے کورَس! کوڑوں والی فلموں ایسے چیختے دھاڑتے ’چشم کشا حقائق‘! چنانچہ ایک شدت پسند ڈسکورس سے سامنے آنے والی عسکریت پسندی جس کا میدان پاکستان اور سعودی عرب وغیرہ ایسی مسلم سرزمینیں تھی، یہاں ایک ایسی غیرمعمولی دریافت ثابت ہوئی کہ اس کے پردے میں آگے بڑھتے ہوئے معاملے کا سارا نقشہ بدل ڈالا گیا۔
5. ’دہشتگردی‘ کو جب یہ سب معانی پہنا لیے گئے اور پوری قوم اس سے نجات پانے کےلیے بلبلا اٹھی تو… یہاں سابقہ قادیانی اور حالیہ جدت پسند ڈسکورس میدان میں آیا: انکارِ جہاد، جس کو سمجھنے میں فقہاء مسلسل ’غلطی‘ کھاتے رہے تھے! ’دہشتگردی‘ سے اسلام کا چہرہ صاف کرنے کےلیے یہاں کچھ جدت پسند مفسرین آگے بڑھے جو اِس ’حقیقت‘ سے پردہ اٹھائیں کہ اصل فساد کی جڑ اِس دور میں ’’جہاد‘‘ کا نام لینا ہے۔ بھائی ’’جہاد‘‘وغیرہ ایسے سب احکام تو اُسی دور کے ساتھ مخصوص ہیں جب قرآن مجید نازل ہوا؛ بعد کے ادوار کےلیے تو جہاد وغیرہ کی یہ آیات ہیں ہی نہیں۔ یہ ظلم اور فساد تو پونے چودہ سو سال سے امت کی تاریخ میں ہوتا آ رہا ہے؛ لہٰذا یہ صفائی تو بڑی پیچھے سے ہونی چاہئے! یہ سب مدرسے اور ان کے اندر پڑھانے والے دماغ چونکہ اسلام کے اُسی تاریخی ڈسکورس کو لے کر چلتے ہیں لہٰذا ’دہشتگردی‘ ان کی گھٹی میں بیٹھی ہوئی ہے۔ ’دہشتگردی‘ سے نمٹنا ہے تو پہلے اس روایتی علمیت classical discourse سے چھٹکارا حاصل کرو جو یہاں کے علماء اور اساتذہ کے دماغوں میں بیٹھی ہے! آپ اسے ’حسنِ اتفاق‘ co-incidence کہئے یا ’توارُد‘ یا کچھ اور، ادارہ استشراق کا سب سے بڑا پراجیکٹ عالم اسلام کےلیے یہی تو ہے جو یہاں کی ’تحقیق پسند‘ زبانوں پر آپ سے آپ جاری ہے!… لہٰذا ایسے تفسیری ’انکشافات‘ اگر مسلمانوں پر آج ہو جائیں تو سونے پر سہاگہ! ایسا بروقت کام! دوبارہ کب موقع ہے! وہ جہاد جس نے بارہ صدیوں تک کافر کی ناک میں دم کیے رکھا اور ’دورِ نزولِ قرآن‘ کے صدیوں بعد بھی اللہ کے فضل سے براعظموں کے براعظم اسلام کے زیرنگیں لے آتا رہا (جن میں آپ کا یہ ہند بھی شامل ہے: ہند کے بتکدے میں مسجدوں اور اذانوں کی یہ دل آویز گونج میسر آئی تو ہمارے اسی جہاد کے دم سے جو ’دورِ نزولِ قرآن‘ کے صدیوں بعد ہوا) اس تاریخی ’’جہاد‘‘ سے کوئی ’نظمِ قرآن‘ کے نام پر اب ہمیشہ کےلیے آپ کی جان چھڑوا دے، اس سے بڑی کیا نعمت ہو سکتی ہے! آپ جانتے ہیں اس ایک مقصد کےلیے ہی تو یہاں مرزا قادیانی کو ہائر hire کیا گیا تھا جو ایک جعلی نبوت کی جھک مار بیٹھا! مسلمانوں کی لغت سے ’’جہاد‘‘ کو خارج کروا دینے کا مطلب مسلمانوں کی زندگی سے استعماری لشکروں کے خلاف مزاحمت ختم کروا دینا ہی تو ہے؛ جس میں نجانے ابھی کیسےکیسے موڑ آنے ہیں! لہٰذا مسلمانوں کو اِس طرف سے بھی مارو اور اُس طرف سے بھی۔ پہلے ’’جہاد‘‘ کے نام پر اِنہیں ایک مار مارو اور پھر ’’انکارِ جہاد‘‘ کی راہ سے اُس سے بھی بری ایک مار!
یہ ہے نتیجہ؛ جب ’’جہاد‘‘ کا مفہوم اور عمل اپنے محل پر نہ رہے۔ تب یہاں دو ہی ڈسکورس سنے جائیں گے: ایک شِدَّت پسند اور ایک جِدَّت پسند۔ جبکہ سنت کے حقیقی ترجمان غائب؛ میڈیا ان کی بھلا کیوں سنائے گا جو اِس پورے منصوبے میں کہیں فٹ ہی نہیں بیٹھتے!
پوسٹ کولڈ وار سیناریو اور ہمارے جیدعلماء و مشائخ کی فراست:
’’سرد جنگ‘‘ کے خاتمہ کے ساتھ ہی عالم اسلام پر مغرب کی فوج کَشی کی جو ایک لہر آئی، جس کے ساتھ عالم اسلام کو یکلخت ایک نئی صورتحال کا سامنا تھا، اور اسی لحاظ سے یہاں پر اسلامی تحریکوں کو بھی اپنے خطاب میں کچھ نئی جہتیں لانا تھیں… ہمارا دیکھنا ہے، ہمارے مشائخ نے اس کا ادراک بہت جلد کر لیا تھا۔بلادِعرب میں شیخ سفر الحوالی اور کچھ دیگر تحریکی علماء نے نوّے کی دہائی کے آغاز میں امریکی افواج کے جزیرۂ عرب لنگرانداز ہونے کی بڑی کھل کر مخالفت کی تھی اور اس پر جیل کی ہوا بھی کھائی تو اس کا سیاق دراصل یہی تھا کہ صلیبی بوٹوں کا جزیرۂ عرب پر آ لگنا ان مشائخ کے ہاں ایک نئے آشوب ناک دور کا آغاز دیکھا جا رہا تھا اور اس کی سنگینی واضح کرنا ان کے نزدیک ضروری۔ لیکن جلد ہی ان مشائخ نے نوجوانوں میں شدت پسندی کے ممکنہ رجحانات کو بھی بھانپ لیا جس سے یہ معاملہ بےطرح الجھ سکتا تھا؛ اور اسی کے مطابق مشائخ نے اپنی حد تک ایک لائحۂ عمل بھی اختیار کیا۔ نوّے کی دہائی کے تقریباً وسط سے شیخ سفر الحوالی کا ایک جملہ داعیوں کی زبان پر سنا جانے لگا تھا: إننا بين يدي مواقف تحتاج الأمة فيها إلى التورية ضمن السياسة الشرعية ’’اس وقت ہمیں کچھ ایسے مواقف کا سامنا ہے، جہاں امت کو سیاسۃ شرعیہ کے اندر توریہ کا ایک اسلوب اختیار کرنا ہو گا‘‘۔ (توریہ: یعنی ایک ذومعنی اسلوب)۔ نوّے کی دہائی کے وسط تک سعودی عرب کے اندر شدت پسندی (بم دھماکے اور مسلح کارروائیوں) کا فنامنا خاصا توانا ہو چکا تھا۔ (اُس دور کے ایک اہم واقعہ ’’خُبر دھماکہ‘‘ کے متعلق اب جا کر بات کھلی ہے کہ اس کے پیچھے فارسی عنصر کام کر رہا تھا اور وہ خوامخواہ ’’سُنی انتہاپسندی‘‘ کے کھاتے میں ڈالا جاتا رہا تھا)۔ یعنی دو تین طرف سے مسلمانوں کو ایک مار دینے کی صورت بن رہی تھی۔
یہاں ان مشائخ نے شدت پسندی کی جانب مائل نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو داخلی جنگ کی راہ سے واپس لانے میں ایک سرگرم کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ شدت پسندی کو چھوڑنے پر آمادہ نوجوانوں کےلیے سعودی حکومت سے عام معافی کا اعلان کروانے کی بھی کوششیں کیں، تاکہ اس موقع پر ایک قومی اتفاق رائے سامنے لایا جا سکے اور داخلی استحکام کو بروقت مضبوط کر لیا جائے۔معاملہ جزیرۂ عرب کے ان مشائخ تک نہ رہا، گو پہل اِنہی کی ہے۔ دیگر عرب ممالک کے مشائخ بھی اس موقع پر آگے بڑھے اور مصر کی الجماعۃ الاسلامیۃ (جس کے امیر اس سے پہلے شیخ عمر عبدالرحمن رہے ہیں، اور جوکہ نوے کی دہائی کے آخر تک مصر میں مسلح کارروائیوں میں سرگرم تھی) کو بھی ایک فکری و منہجی مراجعہ (نظرثانی) پر آمادہ کیا۔ یہاں تک کہ اس مصری جماعت نے نوّے کی دہائی کے آخری سالوں میں اس ’مسلح عمل‘ کے منہج سے باقاعدہ رجوع کرتے ہوئے مصر میں جاری مسلح کارروائیوں کو موقوف کیا اور مشائخ کی علمی راہنمائی قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ فی الفور، اس سے فلسطینی جہاد نے ایک نئی کروٹ لی؛ اور سن ننانوے میں بیت المقدس کے اطراف و اکناف ’’انتفاضہ ثانیہ‘‘ کا ظہور ہوا۔ علاوہ ازیں، شاید آنے والے سالوں (عراق پر امریکی حملہ کے بعد بننے والی صورتحال) کو بھانپتے ہوئے کچھ داخلی صف بندی کی صورت بھی ممکن ہوئی۔
تب سے؛ ہمارے یہ مشائخ سعودیہ ودیگر مسلم ممالک کے اندر ’’داخلی استحکام‘‘ کو اسلامی تحریکوں کی بڑی ترجیحات میں رکھتے ہیں۔ کیونکہ صلیبی کی عالم اسلام میں ایک نئی مہم کو ناکام کروانے کی ایک یہی ایک صورت ہے۔ بہت سے جذباتی لوگوں کو اُس وقت وہ باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھیں اور بعض تو ہمارے ان مشائخ کی بابت طرح طرح کی قیاس آرائیاں بھی کررہے تھے کہ نوّے کی دہائی کے وسط تک جیلوں میں رہنے والے یہ مشائخ کیوں یکدم ’بدل‘ سے گئے اور حکومتوں پر تنقید کے معاملے میں ویسے ’شدید‘ نہیں رہے۔(یہی باتیں پاکستان کے علماء کے متعلق بھی سننے کو ملیں) لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں، خصوصاً روم و فارس گٹھ جوڑ کی حقیقت طشت از بام ہو جانے کے بعد، اور خطے کی نئی ’انجینئرنگ‘ کی سازشیں کھل کر سامنے آجانے کے بعد، تقریباً ہر کسی کو داخلی استحکام کی یہ اہمیت اب سمجھ آرہی ہے۔ یہاں تک کہ بظاہر بڑے بڑے دوراندیش جو اُس وقت ایران کی ’امریکہ مخالف‘ بڑھکوں کی داد دے رہے تھے آج ’ایران امریکہ گٹھ جوڑ‘ کے مقابلے پر انہی عرب ملکوں کے داخلی استحکام کےلیے دست بہ دعاء ہیں!
٭کوئی وجہ ہے کہ ہمارے مشائخ ’’جہاد‘‘ کو مسلم مقبوضہ سرزمینوں کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں
یہ وجہ ہے کہ ہم اپنی تحریروں میں بار بار اس پر زور دیتے آئے ہیں کہ وہ چیز جسے آپ ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں اس کا دائرہ متعین کر رکھنا اندریں حالات بے حد ضروری ہے:’’جہاد‘‘ کا دائرہ فی زمانہ امت کی وہ سرزمینیں ہیں:
1. جہاں پر صلیبی یا صیہونی یا بھارتی وغیرہ افواج قابض ہیں۔ مانند فلسطین، افغانستان، عراق، کشمیر وغیرہ مقبوضہ مسلم خطے۔ تاکہ
أ. ہمارے قومی جذبے اور ہماری مِلّی مزاحمت کی چوٹ براہِ راست استعماری دشمن پر پڑے؛ جو اِن مقبوضہ خطوں میں بیٹھ کر بقیہ عالم اسلام کو سبوتاژ کرنے اور مسلم دنیا میں اپنے کچھ لمبے چوڑے منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچانے میں مصروف ہے۔
ب. اور تاکہ ہماری قربانیاں مسلسل اس جہت میں بڑھیں کہ عالمِ اسلام میں اودھم مچاتے یہ بڑےبڑے ہاتھی اور ان کی معیشتیں جن پر انہیں بڑا مان ہے، ذرا خوب نُچڑ لیں (بلِیڈ bleed کر لیں)۔ اور اِسی دوران مسلم طاقتیں کچھ مزید قوت، تجربہ اور اعتماد پید کر لیں۔
ج. نیز ایک ایسی غیرمبہم مزاحمت کے نتیجے میں امت اپنے دشمن کو بھی خوب پہچان لے۔
د. نیز اپنے دشمن سے برسرپیکار، اور اپنی زمینوں اور اپنی عزتوں کے رکھوالےمجاہدین کو بھی امت خوب پہچان لے، بلکہ حسبِ استطاعت انہیں اون own کرے۔ یوں کسی لمبی چوڑی الجھن کے بغیر، عملاً، یہ دو ملتوں کی جنگ بنے۔
ه. نیز اِس مرحلہ میں مقبوضہ مسلم خطوں کا یہ واضح، سادہ اور آسان کیس دنیا میں انسانی بنیادوں پر منوانے کےلیے، ایک مؤثر ابلاغی حکمتِ عملی کے ذریعہ سے، غیرمسلم دنیا کے غیرجانبدار ذہنوں تک کو اپنی تائید پر ابھارا جائے۔ یوں فلسطین و کشمیر وغیرہ ایسے خطوں میں برسرپیکار مجاہدین کی تنہائی کو ممکنہ حد تک کم کیا جائے۔
(یورپ اور امریکہ کا وہ طبقہ جو اپنی حکومتوں کی ظالمانہ پالیسیوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا اور کچھ منصفانہ ایشوز کے حق میں کھل کر بولتا ہے بشرطیکہ اس تک رابطے کے کچھ کامیاب پل تعمیر کیے جائیں… مسلم خطوں کے ایشو کو اٹھانے کےلیے اس فیکٹر کو ہرگز معمولی نہ جاننا چاہئے۔ ان آخری سالوں میں حماس کی جانب سے معاملے کی اس جہت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں فرانس اور برطانیہ کی حقوقِ انسانی کےلیے کام کرنے والی بےشمار تنظیمیں اور شخصیات اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے لگی ہیں۔ یہاں تک کہ غزہ کا حصار توڑنے کےلیے چلنے والے فلوٹیلا میں آزاد مغربی شخصیات اور تنظیمات بھاری تعداد میں شریک ہو کر پوری دنیا کو حیران کر گئیں۔ جس کے بعد یورپی رائے عامہ میں اسرائیل مخالف ہوائیں چلنے لگیں۔ اس کے نتیجے میں برطانوی اور امریکی ’جمہوریت‘ کی دورُخی تک آزاد ذرائع کا موضوعبننے لگی۔ حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ خطوں میں برسرپیکار مجاہدین نے اِس جہت پر یا تو سوچا نہیں یاابھی تک اِس جہت پر زیادہ سرگرم نہیں ہو پائے۔ ورنہ دشمن کی مشکل اِس ترکیب سے دوچند کی جا سکتی ہے)۔
2. ایسے مقبوضہ خطوں کے حوالے سے وہاں کے مقامی نیز عالمی اسلامی تحریکی طبقوں کی رائے عامہ تدبیری طور پر بھی وہاں پر جہاد کے حق میں ہو۔ کیونکہ کسی محاذ کو کھولنے یا نہ کھولنے کے معاملہ میں امت کی عقول کی جانب رجوع لازم ہے؛ اگرچہ شرعاً ایسے کسی مقبوضہ خطے میں قتال کی گنجائش ہو بھی۔ امت کے بڑے دماغ اور سیانی تجربہ کار عقول کی جانب ان معاملات کو تدبیری طور پر لوٹانا اشد ضروری ہے۔ وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ۔
غرض معاملے کی ترتیب یوں رہی:
1. دینی طبقوں کی مین سٹریم کا اس سارے معاملے میں نہ ہونے کے برابر کوئی کردار ہونا۔ (نہ تو اس ’پوسٹ-کولڈ- وار‘ post-cold-war صورتحال کو بھانپ کر قوم کو بروقت راہنمائی دے پانا۔ اور نہ یہاں کے عمل پسند نوجوانوں میں کوئی ایسی فکری قلعہ بندی کررکھنا کہ یہاں کچھ چھوٹےموٹے فکری جھٹکے آئیں تو سہے جا سکیں۔ یہاں تک کہ اس موقع پر کوئی اچھی ترجمانی spokesmanship تک نہ رکھنا۔ یوں متعدد پہلوؤں سے یہاں ایک خلا چھوڑنا)۔
2. استعمار کا سرد جنگ کے خاتمہ کے تاریخی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے (اپنے صیہونی وبھارتی حلیف کو باقاعدہ ساتھ on board رکھتے ہوئے) ہماری سرزمینوں پر ایک نئی لشکر کَشی کرنا، اور عالم اسلام کو ’انیسویں صدی‘ والے پوائنٹ پر (جزوی طور پر) واپس پہنچانے کےلیے کچھ فوری تو کچھ دُوررَس منصوبے لانچ کرنا۔ علاوہ ازیں، ضیاءالحق دَور کے جلاوطن یا یہیں پر دبک کر بیٹھے ہوئے قادیانی نیز ’سرخا‘ عناصر کےلیے ایک نئی نوکری تخلیق کرتے ہوئے یہاں پر ایک ’لبرل سویرے‘ کا ڈول ڈالنا جسے اس بار ’میڈیا ریوولیوشن‘ کی رَو پر سوار ہو کر آنا تھا اور پھر رفتہ رفتہ یہاں کی مادرہائے علمی پر بھی چھا جانا تھا (دونوں یو-ایس-ایڈ اور اسی جیسے ’پاکستان کی ترقی کےلیے بےچین‘ مالیاتی پروگراموں کے سپانسرڈ اور فنڈڈsponsored and funded )۔ ایک لحاظ سے ہمارے بیرونی محاذ پر مغرب کے ادارہ استعمار Colonialist کی پیش قدمی تو ہمارے اندرونی محاذ پر ادارہ استشراق Orientalist کی پیش قدمی۔ دونوں نپی تلی well-studied ، ہم آہنگaligned ، منسَّق coordinated اور دقیق sycronized ۔ جسے یہاں کے سب فکری، سیاسی اور سماجی عوامل کے ساتھ پوری ذہانت کے ساتھ کھیلنا تھا۔ (ادھر ہمارے دینداروں کے پاس مل کر بھی منصوبہ بندی کا کوئی ایک ادارہ نہیں، شاید اس کی ضرورت بھی محسوس نہ کی گئی ہو!)
3. عالم اسلام میں استعمار کے اودھم مچانے اور یہاں کی سرزمینوں پر قبضے جماتے چلے جانے کےلیے ’دہشتگردی‘ ایک بہت اچھی اوٹ تھی۔ اس کا نام لے کر جو مرضی کرتے چلے جاؤ! کچھ دیر تک یہ اصطلاح ہمارے اُس جائز جہادی عمل کےلیے مستعمل رہی جو مسلم سرزمینوں پر بیرونی جارحیت کے خلاف انجام پا رہا تھا مثلاً امریکی قبضہ کاروں کے خلاف ہمارے افغان بھائیوں کی جدوجہد، یا صیہونی غاصبوں کے خلاف ہماری فلسطینی بھائیوں یا بھارتی قبضہ کاروں کے خلاف ہماری کشمیری بھائیوں کی جدوجہد، وغیرہ۔ طبعی بات تھی کہ اسے ’دہشتگردی‘ کہنے کے خلاف ہماری قوم کا ایک طبقہ مزاحم ہوتا: بھئی یہ تو ہماری وہ جنگ آزادی ہے جو مسلم سرزمینوں پر چڑھ آنے والے کافروں کے خلاف ہم ہمیشہ لڑتے آئے ہیں۔ اپنی زمینوں کے دفاع کا حق ہمیں انسانی اصولوں نے بھی دیا ہے۔ اور اس سے پہلے ہمارے دین نے بھی ہم پر یہ فرض کر رکھا ہے۔ لہٰذا یہ تو ہماری قوم کے ہیرو ہوئے جو ہم سب کی جانب سے فرضِ کفایہ ادا کر رہے ہیں۔
یہاں تک؛ ایک جنگ پوری طرح ہمارے لڑنے کی تھی۔ ہمارا دین تو ہماری پشت پر تھا ہی۔ ہم اگر منہ میں زبان رکھتے تو انسانی اصول بھی ہمارے مؤید تھے۔ اس سے ہم نہ صرف اپنی قوم پر بلکہ باہر کے انصاف پسند طبقوں پر بھی اپنے دشمن کو ایک برہنہ غاصب جارح قبضہ کار ثابت کر سکتے تھے۔ یوں اپنے دشمن کے پاس ہمارے اور پوری انسانیت کے ’نجات دہندہ‘ کے روپ میں آنے کا موقع ہی ہم نہ چھوڑتے اور وہ ایک صریح ’غاصب‘ کے طور پر ہی دنیا کے اندر دیکھا جاتا۔ مغرب کے بہت سے انصاف پسند اپنی حکومتوں پر تنقید کےلیے اس بنیاد کو اختیار کرتے بھی رہے ہیں تاوقتیکہ ’اسلام‘ اور ’جہاد‘ کے نام پر ماردھاڑ کا ایک خوفناک ناقابل توجیہ فنامنا ہر کسی کو خاموش کرانے لگا۔ پس اس جنگ کا اسی نقشے پر رہنا ہمارے حق میں بہت سے پوائنٹ لا رہا تھا۔ اس سے ہم کئی محاذوں پر جیت پانے والے تھے۔ کاش معاملہ اسی محور پر رکھا جاتا۔ اس پالیسی پر رہتے ہوئے: ہمارے نوجوان کا جذبۂ شہادت تو سب کا سب دین سے ہی پھوٹتا اور اپنے نوجوان کےلیے حوالہ ہمارا وہ خالص اسلامی پیراڈائم ہی ہوتا۔ البتہ عالمی سطح پر ہم دنیا کے مانے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر بھی اپنا کیس ثابت کر رہے ہوتے، کیونکہ یہ دنیا فی الحال ہمارا ’اسلامی‘ حوالہ نہیں مانتی۔ غرض یہاں تک معاملہ ہمارا ہی طرفدار تھا، کچھ کمی تھی تو ترجمانی spokesmanship کی۔ باقی عملی جنگ تو لڑنے سے لڑی جانی تھی، اور یہ ایک گوریلا وارفیئر تھا جو ہمیشہ وقت مانگتا ہے۔
4. تاآنکہ کچھ دینی طبقوں نے ایک ہیجان خیز صورتحال میں جذباتیت کی راہ چلتے ہوئے اِنہی مسلم سرزمینوں کے اندر محاذ کھول ڈالے۔ ادارہ استشراق orientalist بڑی دیر سے یہاں کے فکری رجحانات کا مطالعہ کر رہا تھا۔ وہ ایسا کوئی موقع ہاتھ سے کیونکر جانے دیتا۔ یہاں سے؛ مسلم سرزمینوں کو نہ صرف غیرمستحکم کردینے بلکہ آگ اور خون میں نہلا دینے کی ایک صورت اُس کے ہاتھ لگی۔ کیا ’بلیک واٹر‘، کیا ’را‘، کیا ’خاد‘ اور نجانے کون کون سے سیکریٹ گروپ یہاں ’جہاد‘ کے پردے میں یوں سرگرم ہوئے کہ الامان والحفیظ۔ ہماری اِن قوموں کو جہاد سے ’توبہ‘ کروا دینے کی یہ صورت سب سے سوا تھی۔ مسلمانوں پر ایسا الٹا پڑنے والا ’جہاد‘ تو ان کی پوری تاریخ میں کبھی نہ ہوا ہو گا! اوپر سے لبرلز کے کورَس! کوڑوں والی فلموں ایسے چیختے دھاڑتے ’چشم کشا حقائق‘! چنانچہ ایک شدت پسند ڈسکورس سے سامنے آنے والی عسکریت پسندی جس کا میدان پاکستان اور سعودی عرب وغیرہ ایسی مسلم سرزمینیں تھی، یہاں ایک ایسی غیرمعمولی دریافت ثابت ہوئی کہ اس کے پردے میں آگے بڑھتے ہوئے معاملے کا سارا نقشہ بدل ڈالا گیا۔
5. ’دہشتگردی‘ کو جب یہ سب معانی پہنا لیے گئے اور پوری قوم اس سے نجات پانے کےلیے بلبلا اٹھی تو… یہاں سابقہ قادیانی اور حالیہ جدت پسند ڈسکورس میدان میں آیا: انکارِ جہاد، جس کو سمجھنے میں فقہاء مسلسل ’غلطی‘ کھاتے رہے تھے! ’دہشتگردی‘ سے اسلام کا چہرہ صاف کرنے کےلیے یہاں کچھ جدت پسند مفسرین آگے بڑھے جو اِس ’حقیقت‘ سے پردہ اٹھائیں کہ اصل فساد کی جڑ اِس دور میں ’’جہاد‘‘ کا نام لینا ہے۔ بھائی ’’جہاد‘‘وغیرہ ایسے سب احکام تو اُسی دور کے ساتھ مخصوص ہیں جب قرآن مجید نازل ہوا؛ بعد کے ادوار کےلیے تو جہاد وغیرہ کی یہ آیات ہیں ہی نہیں۔ یہ ظلم اور فساد تو پونے چودہ سو سال سے امت کی تاریخ میں ہوتا آ رہا ہے؛ لہٰذا یہ صفائی تو بڑی پیچھے سے ہونی چاہئے! یہ سب مدرسے اور ان کے اندر پڑھانے والے دماغ چونکہ اسلام کے اُسی تاریخی ڈسکورس کو لے کر چلتے ہیں لہٰذا ’دہشتگردی‘ ان کی گھٹی میں بیٹھی ہوئی ہے۔ ’دہشتگردی‘ سے نمٹنا ہے تو پہلے اس روایتی علمیت classical discourse سے چھٹکارا حاصل کرو جو یہاں کے علماء اور اساتذہ کے دماغوں میں بیٹھی ہے! آپ اسے ’حسنِ اتفاق‘ co-incidence کہئے یا ’توارُد‘ یا کچھ اور، ادارہ استشراق کا سب سے بڑا پراجیکٹ عالم اسلام کےلیے یہی تو ہے جو یہاں کی ’تحقیق پسند‘ زبانوں پر آپ سے آپ جاری ہے!… لہٰذا ایسے تفسیری ’انکشافات‘ اگر مسلمانوں پر آج ہو جائیں تو سونے پر سہاگہ! ایسا بروقت کام! دوبارہ کب موقع ہے! وہ جہاد جس نے بارہ صدیوں تک کافر کی ناک میں دم کیے رکھا اور ’دورِ نزولِ قرآن‘ کے صدیوں بعد بھی اللہ کے فضل سے براعظموں کے براعظم اسلام کے زیرنگیں لے آتا رہا (جن میں آپ کا یہ ہند بھی شامل ہے: ہند کے بتکدے میں مسجدوں اور اذانوں کی یہ دل آویز گونج میسر آئی تو ہمارے اسی جہاد کے دم سے جو ’دورِ نزولِ قرآن‘ کے صدیوں بعد ہوا) اس تاریخی ’’جہاد‘‘ سے کوئی ’نظمِ قرآن‘ کے نام پر اب ہمیشہ کےلیے آپ کی جان چھڑوا دے، اس سے بڑی کیا نعمت ہو سکتی ہے! آپ جانتے ہیں اس ایک مقصد کےلیے ہی تو یہاں مرزا قادیانی کو ہائر hire کیا گیا تھا جو ایک جعلی نبوت کی جھک مار بیٹھا! مسلمانوں کی لغت سے ’’جہاد‘‘ کو خارج کروا دینے کا مطلب مسلمانوں کی زندگی سے استعماری لشکروں کے خلاف مزاحمت ختم کروا دینا ہی تو ہے؛ جس میں نجانے ابھی کیسےکیسے موڑ آنے ہیں! لہٰذا مسلمانوں کو اِس طرف سے بھی مارو اور اُس طرف سے بھی۔ پہلے ’’جہاد‘‘ کے نام پر اِنہیں ایک مار مارو اور پھر ’’انکارِ جہاد‘‘ کی راہ سے اُس سے بھی بری ایک مار!
یہ ہے نتیجہ؛ جب ’’جہاد‘‘ کا مفہوم اور عمل اپنے محل پر نہ رہے۔ تب یہاں دو ہی ڈسکورس سنے جائیں گے: ایک شِدَّت پسند اور ایک جِدَّت پسند۔ جبکہ سنت کے حقیقی ترجمان غائب؛ میڈیا ان کی بھلا کیوں سنائے گا جو اِس پورے منصوبے میں کہیں فٹ ہی نہیں بیٹھتے!
پوس34);">یلنج:
آپ نے دیکھا، ہم نے ’’نفاذِ شریعت‘‘ کا ذکر فی الحال یہاں نہیں کیا۔ معاذ اللہ، اس لیے نہیں کہ ’’نفاذِ شریعت‘‘ کوئی کم اہم مسئلہ ہے۔ بلکہ اس لیے کہ معاملہ اس سے بہت آگے جا چکا۔ ایک معرکے کا نقشہ اگر آپ پر واضح نہیں تو اس کو لڑنا بھی آپ کے بس میں نہ ہو گا۔
• جہاں تک ’’گرانے‘‘ کا تعلق ہے تو مغرب ہمارے یہاں ’’شریعت کی حکمرانی‘‘ کو بہت دیر پہلے گرا چکا۔ لہٰذا ’’گرانے‘‘ کے حوالے سے ہم جس چیز کا باربار یہاں ذکر کر رہے ہیں اور قوم کو دشمن کے حملوں اور چالوں سے باربار خبردار کر رہے ہیں وہ کوئی اور چیز ہے۔ اور وہ ہے ہمارے اِن معاشروں کا دینِ اسلام پر یقین۔ شریعت کو اپنی زندگی کا دستور ماننے کا عقیدہ۔ انبیاء سے متصادم ادیان اور فلسفوں کو باطل اور جہنم کا سامان جاننے کا اعتقاد۔ وہ ’’شریعت‘‘ کو اِس وقت اقتدار کے ایوانوں سے نہیں نکال رہے؛ کیونکہ یہ کام وہ بہت پہلے کر چکے۔ وہ تو اب ’’شریعت‘‘ کو ذہنوں سے کھرچ رہے ہیں۔ دماغوں سے نکال رہے ہیں۔ شریعت کے رہے سہے اثرات اب وہ معاشروں سے ہٹا رہے ہیں۔ شریعت کو اب وہ ہمارے سماجی نقوش ہی سے محو کر رہے ہیں۔ اِس وقت تو ان کا صاف صاف ہدف ہمارے یہ عقائد ہیں۔ ہمارے تہذیبی خدوخال ہیں جن میں ہم ابھی تک کچھ نہ کچھ مسلمان تھے۔ سارا زور اب ’’مسلمان‘‘ کو اِس مقام پر مار دینے پر ہے۔ یہاں اگر انہوں نے خدانخواستہ ’’مسلمان‘‘ کو مار دیا تو باقی خطرات ان کی راہ سے خودبخود زائل ہو جاتے ہیں۔ اور یہاں اگر ہم ’’مسلمان‘‘ کو بچانے میں کسی طرح کامیاب ہو گئے تو باقی میدان جیتنے کی بھی کسی نہ کسی دن کوئی آس ہو سکتی ہے۔ البتہ اصل توجہ اس مقام پر ہونی چاہئے جہاں وہ ہمیں ’’مارنے‘‘ کےلیے اپنا پورا زور لگا چکے اور جہاں ہمیں ’’بچنے‘‘ کےلیے اپنا پورا زور صرف کر دینا ہے۔ ’’یہاں‘‘ سے توجہ ہٹا کر کسی اور طرف لے جانا، خواہ کسی اور سیاق میں وہ بات کتنی ہی اہم اور بابرکت ہو، اِس معرکہ میں دشمن کا وار ہم پر چل جانے کا ہی موجب ہو سکتی ہے۔
• اور جہاں تک شریعت کو ’’نافذ کرنے‘‘ کا تعلق ہے تو اس پوزیشن سے ابھی ہم بہت پیچھے ہیں۔ بلکہ اور بھی پیچھے دھکیلے جا رہے ہیں۔ اور دھکیل دیےجائیں گے اگر ہم اپنی پوزیشن کا صحیح تعین کرتے ہوئے، اورصورتحال کی پیچیدگیوں کا درست اندازہ کرتے ہوئے، کوئی درست حکمت عملی اختیار نہیں کرتے۔
یعنی شریعت کی حکمرانی ہم سے لے بہت پہلے گئی ہے۔ جبکہ اس کے ہمارے ہاتھ آنے کی کوئی فوری صورت بہرحال نہیں پائی جا رہی۔ البتہ جو چیز ابھی ہمارے ہاتھ میں ہے اُس پر اگر بھرپور توجہ نہ دی تو وہ ضرور ہمارے ہاتھ سے جا سکتی ہے، لا قَدَّر اللہ۔ اپنے ہاتھ کی چیز بچانا اس وقت کہیں ضروری ہے۔ اور وہ، جیسا کہ ہم نے کہا، ہمارا عقیدہ (رسول اللہﷺ کے دین سے متصادم ہر فلسفہ اور ہر تصورِ حیات کو صریح باطل وموجبِ جہنم جاننے، اور صرف ایک شرعِ محمدﷺ کو حق اور واجبِ اتباع ماننے کا ہمارا وہ ٹھیٹ پیراڈائم) ہے جسے ذہنوں سے کھرچ دینے کے منصوبے اِس وقت زوروشور کے ساتھ رُو بہ عمل ہیں۔
پس وقت ہے یہاں دینِ مغرب کے خلاف ایک نظریاتی جنگ لڑنے کا۔ ایک تہذیبی معرکے میں جا اترنے کا۔ مسجدوں، منبروں اور محرابوں کو ’’مسلَّمات‘‘ کی ایک لڑائی میں سرخرو کروانے کا۔
یہاں اگر ہم اللہ کی توفیق سے کامیاب ہو جاتے ہیں… اور حالیہ سیناریو میں ان دو محاذوں پر دشمن کو پسپا کر لیتے ہیں:
1. صلیبی و بھارتی لشکروں کو عالم اسلام کو غیرمستحکم کر دینے کے مشن میں ناکام کرکے،[1
4. اور پھر یہ سارا ملبہ ’اسلام‘ پر بھی ڈال دو۔ کہ جس کے قرآن میں ’’جہاد‘‘ پر ایسی آیتیں ہوں اس کو پڑھانے والے مدارس سے ’دہشتگرد‘ ہی تو نکلیں گے۔ یہاں سے ’دہشتگردی‘ کے خلاف اِس جنگ کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ ’قرآن پڑھنے پڑھانے والوں‘ کی طرف پھیر دو۔ ’مسجدوں اور داڑھیوں‘ کے پیچھے لگا دو۔ یوں عالم اسلام میں اپنے بہت سے رُکے ہوئے کام خاص اِسی موقع پر کروا لو: ایک پابندِ اسلام مسلمان ہونا یہاں باقاعدہ خطرے کی علامت ٹھہرا دو۔ یہاں تک کہ اسلامی شعائر کی پابندی کرتے ہوئے، کہیں یورپ میں نہیں، خود مسلم ملکوں میں لوگ اپنے آپ کو غیرمحفوظ، جبکہ بےدین مظاہر اختیار کرتے ہوئے خود کو محفوظ و مامون جاننے لگیں۔ غرض میڈیا کے اس عفریت سے کام لے کر اس جنگ کو باقاعدہ نفسیاتی حربوں میں ڈھال دو۔
دوبڑے چ