مسلمان اہلِ علم کااس بات پر اصولاََ اتفاق ہےکہ غیر مقاتلین کو جنگ میں نشانہ نہیں بنایاجائےگا۔اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ غیر مقاتلین جنگ میں حصہ لیں تو نشانہ بنایا جاسکتا ہے ، لیکن عصرِ حاضر کے تناظر میں چند امور ایسے ہیں جن پراختلاف پایاجاتاہے،جومزید غوروفکرکے متقاضی ہیں:
اولاََ:غیر مقاتلین میں کون لوگ شامل ہیں؟خواتین اور بچوں کو بالعموم غیر مقاتلین میں شامل کیاجاتاہے لیکن کیا وہ مرد جو فوج میں شامل نہ ہوں کیا ان کو بھی غیر مقاتل کہاجائےگا؟
ثانیاََ: پرانے زمانے میں جوان مرد کو بالفعل یا بالقوۃ جنگجو سمجھا جاتا تھا اور عورتوں کواصولاََ غیر مقاتل ہی سمجھاجاتاتھا لیکن کیا یہ بات عصرِ حاضر کے تناظر میں بھی صحیح ہے؟
ثالثاََ:کیا موجودہ حالات میں”غیر فوجی” کو ہی غیر مقاتل سمجھاجائےگا؟بہت سے اہلِ علم نےشہری(Civilian)اور غیر مقاتل کو مترادف مانا ہے۔<تفصیل کےلئےدیکھئے:محمدمنیر،احکام المدنیین فی شریعۃ الاسلامیۃ والقانون الدولی الاسلامی۔دراسۃ مقارنۃ(غیرمطبوعہ مقالہ برائے ایل ایل ایم شریعہ و قانون، کلیہء شریعہ و قانون،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد،1996ء)،ص48 ومابعد>undefinedایک یہ رائے بھی پیش کی گئی ہے کہ چونکہ شہریوں کے ٹیکسوں سے فوج کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں اس لیےبلواسطہ ہی سہی شہری بھی جنگ میں حصہ لیتے ہیں اس لیے ہر ٹیکس دینے والا(Tax-payer)مقاتل تصور ہوگا۔
رابعاََ: بین الاقوامی قانون نے مقاتل کی حیثیت کے لئے چار شرائط کا پوراکرنا لازم ٹھہرایا ہے کہ ایک کمان کے ماتحت ہو،غیر مقاتلین سے ممتاز لباس یا نشان رکھتا ہو، واضح طور پر ہتھیار سے مسلح ہو، آداب القتال کی پابندی کرے۔ شرعی لحاظ سے ان شرائط کی کیا حیثیت ہے؟
٭کیا تمام مرد مقاتلین ہیں؟
دونوں نظام ہائے قوانین نے لازم ٹھہرایا ہےکہ حملے کا جائزہدف صرف مقاتلین ہی ہوسکتے ہیں اور حتی الامکان اس بات کی کوشش کی جائےگی کہ غیر مقاتلین حملے کی زد پر نہ آئیں۔تاہم مقاتل اور غیر مقاتل کے تعین کے اصولوں میں بظاہر فرق نظر آتا ہے۔جیساکہ اوپر واضح کیاگیا،مبنی بر بین الاقوامی قانون کی رُو سے”غیرمقاتل”(Non Combatant) اور”شہری” یا”غیرفوجی”(Civilian)تقریباََ مترادف اصطلاحات ہیں۔اس قانو ن کی رُو سے باقاعدہ فوجی یا جنگجو تو مقاتل ہے اِلا یہ کہ وہ کسی وجہ سے جنگ سے باہرہوجائیں،اور عام شہری،خواہ مردہویاعورتیں،غیرمقاتل ہیں اِلا یہ کہ وہ کسی جنگ میں باقاعدہ حصہ لیں۔اس کے برعکس فقہاء کے نصوص پرسرسری نظردوڑائی جائے تو بظاہریہ محسوس ہوتاہے کہ ان کے نزدیک برسرِ جنگ قوم کاہر عاقل بالغ مرد اصلاََمقاتل ہے اِلا یہ کہ وہ کسی اور سبب سے اسے مقاتل نہ سمجھاجائے ،اور نابالغ بچے اورعورتیں غیرمقاتل ہیں اِلا یہ کہ وہ جنگ میں حصہ لیں۔عورتوں کواصلاََغیرمقاتلین میں شمار کرنے سےتواتنے بڑے مسائل پیدا نہیں ہوتے لیکن تمام مردوں کو اصولاََ مقاتلین فرض کرلینےسے بظاہر بڑے مسائل پیدا ہوسکتےہیں۔تاہم اگراس اصول کا تفصیلی قانونی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہےکہ یہاں بھی اسلامی شریعت اوربین الاقوامی قانون میں توافق اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
مردوں کو فقہاء نے اس وجہ سے اصولاََ مقاتلین میں شمار کیا ہے کہ زمانہ قدیم میں،جبکہ فقہاء نے اسلامی قانون کےاصولوں کااستخراج کیا،جنگوں میں بنیادی کردار مرد ہی ادا کرتے تھے اور کسی قوم کے تمام ہی عاقل بالغ مرد جنگ میں حصہ لیتے تھے۔البتہ بعض حالات کی وجہ سے بعض مرد جنگ میں حصہ نہیں لے پاتے تو فقہاء ان کو مقاتلین میں شمارنہیں کرتے تھے۔مثلاََ فقہاء نے ایک طرف یہ اصول طے کیاہےکہ ہر مردمقاتل ہے اوردوسری طرف یہ بھی قراردیاہےکہ دشمن کے علاقے میں داخل ہونے والا تاجر مالِ غنیمت میں حصہ لینے کےمستحق نہیں ہیں کیونکہ وہ قتال میں حصہ لینے کے لیے نہیں بلکہ تجارت کےلیےوہاں جاتےہیں۔پس وہ صرف اسی صورت میں غنیمت میں حصہ لینے کےمستحق ہونگے جب وہ قتال میں باقاعدہ شرکت کریں گے۔امام سرخسیؒ اس حکم کے پیچھےکارفرما قانونی اصول کی وضاحت کرتے ہوئےکہتےہیں:”فانہم کانوا تجارا قبل ھذا، لا غزاۃ”( کیونکہ وہ قتال میں حصہ لینے سےپہلے تاجرتھے،نہ کہ غازی۔)(شرح الکتاب السیر الکبیر،باب سھمان الخیل فی دارالحرب،ج3،ص 48)
پس اصل قاعدہ یہ ہےکہ مقاتل اور غیرمقاتل کی حیثیت کاتعین کسی شخص کی جنس سے نہیں بلکہ اس کے قتال میں حصہ لینے یا نہ لینے سے ہوتاہے۔چونکہ اس زمانے میں تمام مرد قتال میں حصہ لیتے تھے اس لئے مفروضہ یہ ہوتا تھا کہ تمام مرد مقاتلین ہیں اِلا یہ کہ ان کا غیرمقاتل ہونا ثابت ہو۔
اس مسئلہ کا تجزیہ ایک اور پہلو سے بھی کیا جاسکتا ہے۔غیر مقاتلین کی ممانعت کا حکم کہاں سے اخذ کیاگیاہے؟رسول اللہ ﷺ نے جنگوں میں عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ہے۔اہلِ ظاہر قراردیتے ہیں کہ اصلاََ جنگ میں ہر غیرمسلم کاقتل جائز ہے سوائے عورتوں اور بچوں کے۔اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ سورۃالتوبہ میں تمام مشرکین کے قتل کا حکم دیاگیاہے اوررسول اللہ ﷺ کی ممانعت گویا قاعدے سے استثناہے۔<علی بن احمد ابن حزم الظاھری،المحلی بالآثار(القاہرۃ:ادارۃ الطباعۃ المنیر،1934م)ج7،ص296، 297>undefined
اس کے برعکس جمہورفقہاء عورتوں اور بچوں کے علاوہ دیگر ایسےلوگوں کو بھی غیر مقاتلین میں شمار کرتےہیں جوجنگ میں حصہ نہیں لیتے مثلاََ شیخِ فانی،خانقاہ میں باقی دنیا سے الگ تھلگ رہنے والے راہب،کھیتوں میں کام کرنے والے کسان وغیرہ۔<المغنی،ج8 ص477؛محمد بن علی الشوکانی،نیل الاوطار وشرح منتقی الاخبار،(بیروت:دارالفکر،1994م)،ج7 ص201>undefined
اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دیگر احادیث جو متشدد روایت پسندوں کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہیں،میں ان لوگوں کا ذکرآیا ہے۔نیز خلفائےراشدین کے فرامین اور احکامات میں بھی یہ استثناءات موجود ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگرسورۃالتوبہ کی آیت5 کے حکم”فاقتلواالمشرکین حیث وجتموھم”(پس مشرکین کوقتل کرو جہاں بھی ان کو پاؤ)کو عام حکم مانا جائےتو ان احادیث اورخلفاء کے فرامین نے اس عام کی تخصیص کیسے کردی؟یہ سوال شافعی فقہاء کےلئےاتنااہم نہیں ہےکیونکہ ان کے نزدیک عام ظنی الدلالۃہوتاہےجس کی تخصیص خبرِ واحد،بلکہ قیاس،کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے۔تاہم احناف کےنزدیک عام قطعی الدلالۃہوتاہے اور اس کی تخصیص کےلئے قطعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔البتہ پہلی تخصیص کے بعداحناف کےنزدیک بھی مزید تخصیص خبرِ واحداورقیاس ے ذریعے ہوسکتی ہےکیونکہ”عام مخصوص منہ البعض”ان کے نزدیکظنی الدلالۃہوجاتاہے۔(اصول السرخسی،ج1،ص144، 149)یہاں اس عام حکم کی تخصیص اس آیتِ کریمہ کے معاََ بعد والی آیت نے کردی ہے:
<(مفہوم)اگر ان مشرکین میں سے کوئی تم سے امان مانگے تو اسے امان دےدوتاکہ وہ اللہ کاکلام سن لیں۔پھر اسے اسکے امان کی جگہ تک پہنچاؤ۔>undefined(سورۃالتوبہ کی آیت6)
اس آیت نے واضح کیا کہ ماسبق آیت میں لفظ”المشرکین”بظاہر عام ہےلیکن درحقیقت عام نہیں ہے،بلکہ اس سےاک مخصوص گروہ مراد ہے کیونکہ مستامن(جسے مسلمانوں نے امان دی ہو) کو قتل کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ وہ مشرک ہو۔گویا ماسبق آیت میں مذکورحکم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ”تمام مشرکین”کو قتل کرو ۔اب جب لفظ”المشرکین”عام نہیں رہا تو دیگر دلائل،احادیثِ مبارکہ،صحابہ کرام کے فیصلوں اور قیاس کے ذریعے اس بظاہر عام حکم کی عام تخصیص ہوسکتی ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ عورتوں، بچوں،بوڑھوں،راہبوں اور کسانوں کو اس حکم سے کیوں مستثنیٰ کیا گیا؟تواس کاجواب یہ ہے کہ انہیں مستثنیٰ کرنےکی وجہ وہی ہے جو ہ مستامن کو مستثنیٰ کرنےکی ہے۔جیسےمستامن مسلمانوں سے لڑتا نہیں بلکہ ان سے امن کا معاہدہ کرتاہے اسی طرح یہ لوگ بھی جنگ میں حصہ نہیں لیتے۔بہ الفاظ دیگر،یہ لوگ “غیر مقاتلین”ہیں۔یہ رسول اللہ ﷺکی ایک حدیثِ مبارکہ سے براہِ راست بھی معلوم ہوتی ہے۔جب آپﷺ نے جنگ میں ایک خاتون کی لاش دیکھی تو سخت ناراضگی کا اظہار کرتےہوئے فرمایا:”ما کانت ھذہ فیمن یقاتل”<یہ تو لڑنے والوں میں نہیں تھی۔>undefined( ابنِ ماجۃ،کتاب الجہاد،باب الغارۃ والبیات وقتل النساء وااصیبان،حدیث رقم2832)
پس جن سے لڑنےکاحکم دیاگیاہےوہ صرف وہ ہیں جن کو”مقاتلین” کہاجاسکےاورجوغیر مقاتلین ہیں وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہوئے۔البتہ غیر مقاتلین میں سے کوئی فرداگرقتال میں حصہ لےتواس پر حملہ جائز ہوجاتا ہے کیونکہ جس علت کی وجہ سےاس پرحملہ ناجائز تھا وہ علت معدوم ہوگئی تھی،یایوں کہئےکہ جس” علت” کی وجہ سےکسی پر حملہ جائز ہوجاتا ہے وہ علت اس میں اب پائی جاتی ہے۔چنانچہ اگر عورت جنگ میں حصہ لے تواسے ہدف بنایاجاسکتاہےکیونکہ اسے استثناء عورت ہونے کی وجہ سے نہیں دیاگیا بلکہ غیر مقاتلہ ہونےکی وجہ سے دیاگیاتھا اوراب وہ غیر مقاتلہ نہیں رہی۔
پس اصل چیزجودیکھنےکی ہے،جس پر حکم کےوجود اورعدم کامدارہے،وہ یہ ہےکہ کون جنگ میں حصہ لیتاہے اور کون نہیں لیتا؟اول الذکر کو مقاتل کہاجائے گا اور ثانی الذکر کوغیر مقاتل۔چونکہ عصرِ حاضر میں جنگوں میں، ماسوئے استثنائی حالات کے،عام شہری حصہ نہیں لیتے اس لئے عام شہریوں کو غیر مقاتلین ہی کہا جائے گا جب تک وہ جنگ میں براہِ راست حصہ نہ لیں۔
استفادہ تحریر: ڈاکٹر مشتاق احمد، چیرمین شعبہ قانون ، اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد