اسلام انقلابی جماعتیں، ماردھاڑاوراسکاجوابی بیانیہ

سیاست کے باب میں یہاں کاانقلابی منہج دین کا یہ کلاسیکل ڈسکورس رکھتا ہے کہ تاریخی طور پر مسلمانوں کے منہجِ استطاعت کو جاننا اور ’’ایک دی ہوئی صورتحال میں ممکنہ طور پر بہترین کردار ادا کر جانے پر اکتفاء کرنا، اور ’شر کو جتنا دفع کیا جا سکتا ہے‘اسی کا روادار ہونا۔اصلاح بقدرِ استطاعت یعنی ’دیے گئے حالات میں‘ ہی جو کچھ ممکن اور جو ’مواقع‘ میسر ہیں ان کودینِ حق کے حق میں بہترین طور پر استعمال کر تے اور اسی میں ایک اعلیٰ کارکردگی دکھاتے چلے جانا۔ کل کیا ہوتا ہے، اسے کل پر چھوڑنا۔ البتہ آج کیا ہو سکتا ہے، اس معاملہ میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دینا۔اسی کے رجال انکے ائمہ و اساتذہ۔ اسی کے اندر یہ اسلام کا اِحیاء اور قوت دیکھتے ہیں۔ اس منہج میں جو ایک کمال لچک flexibility اور فاعلیت dynamism ہے.. یہ ائمہ وقت کے سماجی، سیاسی وتہذیبی عوامل پر پوری قوت کے ساتھ اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔ بس یہ اندازہ رکھتے تھے کہ ایک ’دی ہوئی صورتحال‘ میں in a given situation کیا چیز ملنے کی ہے جسے منہ پر لایا جائےاور حکمران یا عوام طبقوں میں اس کی تحریک اٹھا دی جائے… اور کیا چیز ایسی ہے جو اندریں صورت ہونے والی نہیں ہے اور اسے مانگ کر یا اس کا شور اٹھا کر کہیں اس چیز سے بھی جائیں جو ہو سکتی ہے۔ نیز اندریں صورت ’’جو نہیں ملنے والا‘‘ اس کی ’جدوجہد‘ میں لگ کر وہ بہت سے شعبے موقوف یا متاثر ہوں جو اندریں صورت چلنے والے بھی تھے اور امت کے حق میں فوری و ناگزیر بھی۔

انقلابی منہج اور فرسٹریشن:.

’’انقلاب‘‘ اپنے رونما نہ ہونے کی صورت میں بعض لوگوں کو ’’جمود‘‘ کی جانب دھکیلتا ہے، جیساکہ پیچھے بیان ہو چکا۔ اور یہ جمود البتہ کچھ جذباتی نفوس میں فرسٹریشن اور بےچینی بھی پیدا کر دیتا ہے۔یہاں پہنچیں.. تو ایک ’ماردھاڑ‘ کا بیانیہ آتا ہےاور ایک اس کا ’جوابی بیانیہ‘۔ دونوں ایک دوسرے سے بھیانک۔ نیز ایک دوسرے سے باقاعدہ تقویت پانے والے۔

ماردھاڑ کا بیانیہ کہتا ہے: دیکھا سیدھی انگلی سے گھی نکالنے کا نتیجہ! انگلی ٹیڑھی کیے بغیر چارہ ہی نہیں۔ آؤ ہمارے ساتھ، بندوق اٹھاؤ اور خون کا ایک کھیل شروع کرو۔

یہاں اس کا ’جوابی بیانیہ‘ آتا ہے: دیکھا ’انقلاب انقلاب‘ کرنے کا نتیجہ! یہ ساری خونریزی دراصل تمہاری وجہ سے ہوئی ہے۔ نہ تم ’اسلامی ریاست‘ یا ’اسلامی حکومت‘ کا نام لیتے اور نہ نوجوان اس کےلیے طاقت کے استعمال پر اترتے۔ جب تم پُراَمن طریقے سے اپنا یہ خواب پورا نہ کر سکے تو انہوں نے غیرپُراَمن طریقوں کا سہارا تو لینا ہی تھا (استدلال!!!) اصل قصور یہ خواب دکھانے والوں کا ہوا (ہو سکے تو مودودیؒ کو قبر سے جا کر پکڑو!) نہ یہ خواب تم دکھاتے اور نہ یہ نوجوان اس سے اگلا کوئی قدم اٹھاتے!

غرض انقلابی بیانیہ تھا: پُراَمن عوامی راستوں سے ایک اسلامی انقلاب برپا کرنا:

o ’ماردھاڑ بیانیہ‘ کا حملہ ہوا اس کے پہلے حصے پر، یعنی پرامن عوامی راستوں کے تصور پر اور وہ اس کی جگہ ’بندوق‘ لے آیا۔

o ’جوابی بیانیہ‘ کا حملہ ہوا اس کے دوسرے حصے پر، یعنی خود انقلاب ہی کے مقصد اور غرض و غایت پر۔ اس کا کہنا تھا، اصل فساد یہاں ہے۔ اور یہ اس کی جگہ ’مغربی ریاست‘ کو قبول کروانے کی فرضیت لے آیا۔ بلکہ جو شخص آج ’مغربی ریاست‘ کو قبول نہ کرے اس کو قریب قریب گردن زدنی بھی قرار دینے لگا۔ (اپنی افتاد میں یہ ’جوابی بیانیہ‘ بھی اتنا ہی فاشسٹ ہے جتنا کہ وہ ’ماردھاڑ بیانیہ‘)۔

غرض ان دونوں بیانیوں کے نتیجے میں ہمارا امن بھی گیا (یہاں تک کہ ہمارے بہت سے مسلم ملکوں کی سالمیت خطرے میں پڑ گئی) اور ہمارا اسلامی ریاست کا تصور بھی دریابُرد ہوا۔ خدانخواستہ ہم ملک سے بھی گئے اور اسلام کی عملداری سے بھی!

’ماردھاڑ بیانیہ‘ پر ذرا آگے چل کر ہم بات کریں گے۔ البتہ ’جوابی بیانیہ‘ کی یہ موقع پرستی جو وہ ’’اسلامی ریاست‘‘ یا ’’اسلامی حکومت‘‘ کے تصور کو ’فساد کی اصل جڑ‘ قرار دینے کےلیے سامنے آتی ہے اور اس پر تمام عالمی فورمز کی تائید و نصرت کے مزے لوٹتی ہے… اس پر چند کلمات کہہ دینا ضروری ہے:

ان لوگوں کا بیانیہ یہ ہے کہ نہ آپ مغربی ریاست کو غلط کہتے اور اسلامی شریعت کی مکمل عملداری کی تحریک اٹھاتے اور نہ یہ نوجوان تمہارے اس خواب کو پورا کرنے کےلیے خونیں راستوں کا رخ کرتے۔ ہم ان سے کہتے ہیں:

چلو ریاست کے ’’اسلامی‘‘ ہونے کو تم فرض نہیں کہتے یا شاید درست بھی نہیں سمجھتے۔ ٹھیک ہے۔ لیکن ریاست کے ’’جمہوری‘‘ ہونے کو تو فرض یا ضروری کہتے ہو؟ کسی بیرونی قبضے سے آزادی حاصل کرنے کی ’بات‘ کرنے کو تو حق جانتے ہو؟ تو کیا اگر کسی ملک میں کچھ جذباتی لوگ ’’جمہوریت‘‘ کےلیے ہتھیار اٹھا لیں تو اُس خونریزی کی ذمہ داری آپ قبول کریں گے؟ کہیں مارشل لا کے خلاف کوئی ’الذولفقار‘ نکل آئے اور ملک بھر میں تخریب کاری کرتی پھرے، یا کہیں بادشاہت کے خلاف کوئی ’انقلابِ فرانس‘ اٹھ کھڑا ہو جو ہزاروں یا لاکھوں کی جان لے لے، یا بیرونی قبضے سے آزادی کےلیے کوئی سبھاش چندر بوس ہتھیار اٹھا لے… تو اس پر آپ کو پکڑ لیا جائے؟ اس لیے کہ آپ ’مارشل لا‘ کو یا ’بادشاہت‘ کو یا ’بیرونی اقتدار‘ کو اصولاً مسترد کرتے ہیں اور اس کی جگہ پر ایک ’مقامی‘ یا ’جمہوری‘ حکومت کے قیام کو اصولاً ضروری گردانتے ہیں؟

کیا آپ کے اس بیانیے سے قاعدہ یہ اخذ کیا جائے کہ: دنیا میں جو بھی شخص کسی طرزِریاست کو مسترد کرے اور اس کی جگہ کسی دوسرے طرزِریاست کو لازم قرار دے… تو اگر اس کے مستردکردہ نظام کو گرانے اور اس کے تجویز کردہ نظام کو قائم کرنے کا نعرہ لگا کر کسی وقت کوئی سرپھرا گروہ ہتھیار اٹھا لیتا ہے (اور اِس راہ سے، دانستہ یا نادانستہ، خود اُس شخص کے کیس کو ہی تباہ و برباد بھی کر دیتا ہے) تو اس تمام خونریزی کا ذمہ دار بہرحال اُسی پہلے شخص کو قرار دیا جائے گا جس نے ایک نظام کو غلط اور اس کی جگہ کسی دوسرے نظام کو ضروری کہنے کی ایک پُراَمن بات کر دی تھی؟

یعنی ایک سرپھرے گروہ کے ہاتھوں اِس بھلےمانس کا ایک پُراَمن کیس لُوٹا بھی گیا اور اُس لُوٹنے والے کی سب غارت گری کی چَٹی بھی اب یہی دے گا؟ وہ اُس سے بھی مار کھائے اور آپ سے بھی، اس لیے کہ اس نے کسی نظامِ موجودہ status quo کو غلط کہنے کا پاپ کر لیا تھا! اگر قاعدہ یہی ہے تو پھر صاف لفظوں میں یہ کیوں نہ کہا جائے کہ معاملہ دراصل کسی اسلامی یا غیر اسلامی ریاست کا سرے سے نہیں ہے، بلکہ ایک سٹیٹس کو کے خلاف آواز اٹھانا ہی درحقیقت ’’فساد‘‘ کی بنا ڈالنا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ سٹیٹس کو اسلامی ہے یا جمہوری یا استبدادی یا بادشاہی یا مارشل لائی یا مغربی یا مشرقی یا جنوبی یا شمالی۔ سٹیٹس کو جیسا بھی ہے، اس پر ایمان لانا بجائےخود فرض ہے اور اس کو مسترد کرنا بجائےخود فساد! یعنی مطلق دینِ اکبری!

غرض اس سے بودا بیانیہ شاید نظریات کی تاریخ میں کبھی نہ پایا گیا ہو۔ بخدا، اگر عالمی سٹیٹس کو کی یہ ایک ناگزیر ضرورت نہ ہوتا اور اِس کی پزیرائی کرانے کو ایسی دیوہیکل ابلاغی مشینری مسخر نہ ہوتی تو ایسا ’نکتہ‘ نکال لانے والے پر دنیا صرف ایک قہقہہ لگانے کی روادار ہوتی۔ مگر میڈیائی قوت کا کرشمہ ہے کہ ’’اسلامی ریاست‘‘ کے بیانیہ کے خلاف اب یہ ایک برہانِ قاطع ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں! بھائی اِس کا جواب فی الواقع نہیں!

یعنی آدمی چیختا رہ جائے کہ ایک طرزِریاست کو مسترد کرنے اور اس کی جگہ ایک دوسرے طرزِریاست کو قائم کرنے کی بات میں نے سو فیصد پُراَمن بنیادوں پر کی تھی اور اس معاملہ میں تشدد میرے ہاں سو فیصد مذموم ہے، جس پر میری پوری تحریک اور میرے زبان و بیان کا ہر ہر انداز شاہد ہے… آزادیِ افکار کے چیمپئن عباقرہ کی جانب سے مگر اس کو ایک ہی جواب دیا جائے گا: افکار کی دنیا میں یہی تو اصل جرم ہے!

غرض اصول تو ہے یہی، البتہ لاگو یہ صرف ’’اسلامی ریاست‘‘ کی بات کرنے والوںپر ہو گا۔ دنیا میں تبدیلی کی یہ بس ایک ہی صدا لائقِ قدغن ہے؛ باقیوں کےلیے یہ مکمل دورِ آزادی ہے!

*****

جہاں تک ماردھاڑ والے منہج کا تعلق ہے… تو انقلابی جماعتوں کا بلاشبہ کبھی اِس راہ سے سروکار نہیں رہا۔ نہ انہوں نے اپنے ’آئندہ کسی مرحلہ‘ کے طور پر ہی کبھی اِس منہج کی تبلیغ کی ہے۔ یہ بات حقیقتاً سراہنے کے لائق ہے، جس کی آج بھی قدر نہیں کی جا رہی۔ ان (انقلابی) جماعتوں کی کل امید اور وابستگی عوامی عمل سے رہی ہے؛ اور زمانہ اِس پر شاہد۔ مایوس سے مایوس کن حالات بھی انہیں اس سے نہ ہٹا سکے۔ ان جماعتوں میں اپنے ملک کے لوگوں اور اداروں کے ساتھ امن پسندی وخیرخواہی کے رویے شروع سے لے کر آج تک ایک حقیقت ہیں۔ میڈیا کے ظالم ایک طرف پاکستان کی تاریخ کا خلاصہ کرتے ہوئے ’’مُلا مِلٹری الائنس‘‘ کی پھبتی کستے ہیں۔ دوسری طرف ان دینی جماعتوں پر ملک دشمنی کا ملبہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں (یہ ایک الگ بات کہ ملک کے اِن ’دردمندوں‘ میں سے بہت سوں کی اپنی تاریخ روس اور پھر اب بھارت اور امریکہ کی کاسہ لیسی سے عبارت ہے)۔ جہاں تک واقعہ ہے تو یہاں کی تقریباً سبھی اسلامی انقلابی جماعتیں ہر مشکل گھڑی میں ملکی اداروں کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہیں خواہ وہ کسی بیرونی دشمن کے مقابلے پر ہو یا کسی قدرتی آفت یا کسی اندرونی بحران سے نمٹنے کے معاملے میں۔ اور یہ معاملہ آج تک برقرار ہے۔ اور اپنے لوگوں پر تو یہ سب جماعتیں ہمیشہ فدا ہوتی ہیں۔ اِن ملکوں کا کچھ نہ کچھ سنوارا گیا ہو گا تو اِنہی اسلامی جماعتوں کے دم سے؛ سیکولر پارٹیوں نے تو آج تک اجاڑا اور کھایا ہے۔ مشرقی پاکستان اور پھر کشمیر میں اِن کی قربانیاں تصور سے باہر ہیں۔

پچھلے کچھ عرصہ سے بہت سے مسلم ممالک میں رونما ہونے والے عسکریت پسند ڈسکورس کو بھی نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام بھر میں پائی جانے والی اسلامی انقلابی جماعتوں نے بلاشبہ رد ہی کیا ہے اور ان کے منہج کی کبھی تائید نہیں کی ہے۔ اس لحاظ سے یہ انقلابی جماعتیں ان حالیہ عسکریت پسند رجحانات سے قطعی بریءالذمہ ٹھہرتی ہیں۔ رہی وہ فرسٹریشن frustration جو ایک بند راستے dead end پر ہونے کی وجہ سے انقلابی منہج پیدا کر کے دیتا ہے… اور جس سے یہ عسکریت پسند اپنے بیانیہ کو تقویت دینے کےلیے ایک موقع پاتے رہے ہیں تو یہ معاملہ سٹیٹس کو کو رد کرنے والی کسی بھی پُراَمن سے پُراَمن دعوت کے ساتھ پیش آسکتا ہے، جیساکہ ’جوابی بیانیہ‘ کے رد میں پیچھے گزر چکا۔

پھر اگر ’فرسٹریشن‘ کی بات ہے… تو خود یہ عسکریت پسندی اپنی نہاد میں انقلابی منہج کی نسبت ایک کہیں زیادہ بند راستہ ہے۔ کئی ملکوں میں ڈھیروں نقصان کر والینے کے بعد لوگوں کو یہ بات سمجھ آئی کہ یہ عسکریت پسندی انہیں کسی بھی ہدف پر پہنچانے والی نہیں۔ (علاوہ اس بات کے کہ یہ اصولاً ایک بےحد غلط راستہ ہے)۔ تاہم ’فرسٹریشن‘ جس چیز کا نام ہے وہ کسی منطقی طرزفکر کو خاطر میں لانے کی گنجائش بہت کم چھوڑتی ہے اور ایک بار تو بہرحال نقصان کروانے کا موجب بنتی ہے۔ علاوہ اس بات کے __ جوکہ اس معاملہ کا سب سے تشویشناک پہلو ہے __ کہ انقلابی منہج کی عدم نتیجہ خیز ی دیکھ کر تو چلیے آپ نے عسکریت پسندی میں اس کا ’متبادل‘ ڈھونڈنا چاہا البتہ جب ایک بھاری نقصان کروا لینے کے بعد عسکریت پسندی بھی آپ کا کوئی ہدف سر نہیں کروا پاتی تو ’متبادل‘ کہاں ڈھونڈا جائے گا؟ حق یہ ہے کہ وہ فرسٹریشن جو ایک ملک میں عسکریت پسندی کی تباہ کاریاں دیکھ لینے کے بعد پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ ایک گھٹاٹوپ اندھیرا چھا جاتا ہے، معاشرے کی سطح پر تب جو آپ سے آپ ایک ’متبادل‘ سامنے آتا ہے وہ غامدیت یا وحیدالدین خانیت یا مدخلیت/جامیت نما آفتوں کا نزول ہوتا ہے، جس کا حملہ وہاں کے مذہبی اذہانپر ہوتا ہے، اور جوکہ عام لوگوں کی سطح پر معاشرے کو لبرلائز کر دینے کےلیے ایک پل کا کام دیتا ہے۔

یہ ایک واقعہ ہے اور براہِ کرم اس کو خصوصی طور پر نوٹ کیا جائے کہ:جب تک انقلابی جماعتوں کی اپیل عروج پر رہی تب تک یہاں کے دین پسند پڑھے لکھوں میں المورد و وحیدالدین ایسی آوازوں کا یوں غلغلہ نہیں ہوا تھا بلکہ تقریباً کوئی اِنہیں نہ پوچھتا تھا۔ حالانکہ یہ منحنی آوازیں پہلے بھی یہاں موجود ہی رہی تھیں؛ آج یکدم بہرحال نہیں آ گئیں (مقبول یکدم اب ہوئی ہیں)۔ لیکن اب جب انقلابی ڈسکورس کسی حد تک پس منظر میں چلا گیا اور عسکریت پسندی کا آہنگ اس کی نسبت بلند ہوا تو یکلخت یہاں المورد وغیرہ کا بھی طوطی بولنے لگا۔ بلکہ فی الوقت آپ کو دو ہی ’بیانیے‘ میدان میں نظر آتے ہیں: یا ماردھاڑ یا غامدیت۔ (موخرالذکر، لبرلزم کی راہ ہموار کرنے کا ایک اسلامی فکری اوزار)۔ ہماری نظر میں المورد وأخواتُا’ کی یہ غیرمعمولی پزیرائی اِسی عسکریت پسندی کی مرہونِ منت ہے جس نے ان کو مقبولیت کے کچھ غیرطبعی مواقع دے ڈالے۔ آخر کیسے ہو سکتا تھا لبرل ایجنڈا کے زیرتحریک کام کرنے والے چینل یہ موقع ہاتھ سے جانے دیتے اور ملکی تاریخ کے اِس عظیم خلا کے موقع پر ایسے ’اصل اسلام‘ بیان کرنے والوں کو ہاتھوں ہاتھ نہ لیتے! المورد کی دریافت پر کوئی ان لبرلز کا خوشی سے چہکنا دیکھے! تاریخ انسانی میں پنسلین کی دریافت بھی شاید ہی اتنی ’بروقت‘ کہی جا سکتی ہو جتنی کہ عالمِ اسلام کی تشکیلِ نو کا تاریخی پراجیکٹ لانچ کرتے وقت ’المورد‘ کی دریافت! آپ خود تصور کر لیں آج کی اِس دنیا میں المورد نہ ہوتا تو لبرل ایجنڈا کو مطلوب ’اسلامی‘ دلیلوں کا بندوبست کہاں سے ہوتا!

کلاسیکل منہج پر رہنا آپ کو اِس پورے گنجلک سے کفایت کرتا۔ واللہ الموفِق

استفادہ تحریر حامدکمال الدین، سہ ماہی ایقاظ