پچھلے کچھ عرصے سے کچھ احباب کی طرف سے یہ اعتراض دہرایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی بعض تنظیموں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے پس پشت ایک بڑی وجہ مولانا مودودی (رح) کا پیش کردہ “سیاسی اسلام” کا تصور ہے جس کی رو سے مسلمانوں پر “عالمی خلافت” کا قیام لازم ہے۔ یہ مقدمہ نہایت ہی سادگی (over simplification) پر مبنی ہے، اس تحریر میں اس کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں پہلی حیران کن بات یہ ہے کہ “غلبہ دین” جیسے نظریات کی بنا پر جن اشخاص نے تنظیم سازی کی، ان میں سے کسی کی بھی تنظیم وہ جہاد نہیں کر رہی جو دہشت گردی کا پیش خیمہ بن گئی ہو! مثلا برصغیر میں مولانا مودودی کی جماعت اسلامی اور عرب دنیا میں اخوان المسلمون دونوں اسی تعبیر دین پر کھڑی کی گئیں جس سے یہ شکوہ کیا جارہا ہے مگر یہ دونوں تنظیمیں اپنی عمل داری (jurisdiction) میں آنے والے ممالک میں غلبہ دین کے لیے جہاد نہیں کرتیں بلکہ جمہوری عمل پر خود ہمارے یہاں کی جمہوریت پسند سیکولر جماعتوں سے زیادہ جازم ہیں (یہاں تک کہ جماعت اسلامی کی تو داخلی تنظیم سازی تک جمہوری اصولوں پر قائم ہے)۔ تو اگر جہاد کی یہ روایتی تعبیر ہی دہشت گردی کی بنیاد ہے تو خود یہ جماعتیں کیونکر اس سے محفوظ ہوگئیں؟
دہشت گردی کے ضمن میں جن مذہبی تنظیموں کا نام لیا جاتا ہے (مثلا القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، داعش) ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو اس معنی میں کسی نظریاتی بنیاد پر قائم کی گئی ہوں جیسے جماعت اسلامی وغیرہ۔ ایسی زیادہ تر “مقامی جماعتیں” تو مسلم ممالک میں عالمی (اور “اندرونی”) طاقتوں کی دخل اندازیوں کے ردعمل کے طور پر دفاع کے لیے وجود میں آئیں، چنانچہ ان میں سے کوئی بھی ایسی تنظیم نہیں جو “غلبہ اسلام” کے مقصد کے تحت وجود میں لائی گئی ہو۔ اور پھر جیسے کسی بھی تنظیم و مقصد کو اپنے جواز کے لیے ایک نظریاتی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے سو “رد عمل پر مبنی ان وقتی (spontaneous) تنظیموں” کے عمل کو جواز دینے کے لیے کچھ دلیل اس مذہبی تعبیر سے بھی فراہم کردی گئی۔ چنانچہ اس طور پر کسی فکر کو استعمال کرلینا کوئی مشکل کام نہیں۔ آج کل جو احباب دین کی اس روایتی فکر کے مقابلے میں “غیر روایتی فکر” پر مبنی تصور جہاد پیش کر رہے ہیں، عین ممکن ہے کہ حالات میں تبدیلی اس کے بھی غلط استعمال کو ممکن بنا دے۔
مثلا اگر کل کوئی طاقتور مسلم ریاست کچھ ویسی ہی پوزیشن میں آجائے جیسے آج امریکہ ہے اور اس میں کوئی سخت مزاج حکمران حکومت کررہا ہو جو الیکشن ہی سے چنا گیا ہو تو کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ حاکم کسی غیر مسلم ریاست کے کسی بھی فعل کو “فساد” و “ظلم” کے زمرے میں شمار کرکے ہمارے ان بھائیوں کے نظریہ جہاد کو اپنے استعمارانہ مقاصد کو جواز دینے کے لیے استعمال کرنے لگے؟ دور کیوں جائیں، کیا آج کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ چائنہ کے خلاف اس دلیل کے زور پر چڑھ دوڑے کہ دیکھیے وہاں مسلمانوں کو روزہ رکھنے کی اجازت نہیں جو ظلم (persecution) کی واضح شکل ہے؟ ایسے حالات میں ہمارے یہ بھائی کیا اپنے اس نظریے کو بھی چھوڑ دیں گے؟ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک خاص فکری ذہن و مزاج کھنے والے شخص کے لیے کسی طرح کے مخصوص حالات میں کسی بھی نظریے کو ایک مقصد کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کرلینا ممکن ہوتا ہے. اگر آج کے مخصوص حالات (کہ جن میں مسلمان کمزور ہیں مگر پھر بھی لڑ رہے ہیں) میں آپ کا تصور جہاد بظاہر “امن کی امید” دلاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے (کہ اس نظریے کی عمومیت کے بعد مسلمان غلبہ دین کے لیے لڑنے سے باز آجائیں گے لہذا امن ہوجائے گا) تو لازم نہیں کہ یہ نظریہ تمام حالات میں ایسے ہی نتائج کا پیش خیمہ بنے۔
اپنے اس مقدمے کو تقویت دینے کے لیے یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو مدارس میں بعض ایسے فقہی مسائل سکھائے جاتے ہیں جن کے بعد کفار کو مارنا وغیرہ ایک جائز بات بن جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مسائل تو ان کے بقول صدیوں پہلے سے کتب فقہ میں لکھے ہوئے ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ 1980 سے قبل مسلم معاشروں میں یہ دہشت گردی نہ تھی؟ اور کیا وجہ ہے کہ بھارت کے مدارس میں بعینہ یہی کتب پڑھانے کے باوجود وہاں یہ سب نہیں ہو رہا مگر پاکستان یا چند دیگر مسلم ممالک میں ہو رہا ہے؟ چنانچہ موجودہ دور کے اکثر و بیشتر جہادی جتھوں اور قومی و عالمی ریاستوں کے آپسی تعلقات اور ان کا انہیں استعمال کرنے جیسے حقائق سے سہو نظر کرتے ہوئے کوئی مقدمہ قائم کرنا صرف سادہ لوحی پر مبنی تجزیہ ہے۔
پھر اس ضمن میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ مولانا مودودی نے اپنے مخصوص انداز میں صرف خلافت اسلامیہ کا تصور ہی پیش نہیں کیا بلکہ اسے برپا کرنے کا طریقہ بھی واضح کیا (جس کی وضاحت برادر عمار خان ناصر نے تفصیل کے ساتھ کی ہے، وہ اگلی تحریر میں پیش کی جائے گء )۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مولانا نے ایک جماعت بنا کر اس طریق کار کو عملا برت کر بھی دکھایا۔ چنانچہ علمی لحاظ سے یہ طریق کار درست نہیں کہ اپنے دعووں کی بنیاد ادھورے تجزیوں پر رکھی جائے۔ پھر جب یہ بات صاف کردی جائے کہ مولانا مودودی (رح) کی فکر کو دہشت گردی کی بنیاد ثابت کرنا غلط ہے کیونکہ مولانا نے صرف اہداف ہی مقرر نہیں کیے بلکہ اپنے بیان کردہ اہداف کے لیے طریق کار بھی تجویز کیا اور اس پر عمل پیرا ہوکر بھی دکھایا، تو پھر احباب کہنے لگتے ہیں کہ جناب حکومت الہیہ کے قیام کا جو فکری پودا مولانا نے لگایا تھا بالاخر مناسب موسم (یعنی حالات) اور غذا ملنے (کسی فوجی کے اسے استعمال کرلینے) پر اس سے ایسا ہی نتیجہ نکلنا تھا، لہذا یہ جو دہشت گردی ہے یہ مناسب موسم میں یونہی کہیں سے نہیں اگ آئی، اصل قصور پودے کا ہی ہے۔ لیکن نجانے کیوں یہ احباب اس امر پر غور نہیں کرتے کہ اگر ایک ہی پودا (نظریہ) مختلف موسموں اور غذا (انسانی فکری ساخت اور اسے استعمال کرنے والوں) میں مختلف قسم کے پھل دے تو معلوم ہوا کہ موسم اور غذا بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں جنھیں نظر انداز کرکے پودے کو کوستے رہنا صرف یکطرفہ تجزیہ ہے۔ دیکھ لیجیے، جماعت اسلامی مولانا مودودی کے اھداف کی سب سے بڑی وارث جماعت ہے مگر وہ ان اہداف کے لیے جمہوری جدوجہد کے سوا کسی جدوجہد کی قائل نہیں۔
سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے ان احباب کے نزدیک ساری دہشت گردی کا سبب بس مسلمانوں کا یہ عالمگیری “تصور” ہے کہ “رب کی دھرتی پر رب کا نظام”۔ لیکن یہ جو “غریب پروری”، “انسانی حقوق” اور “آزادی و جمہوریت کے فروغ” کے نام پر دنیا بھر میں پچھلے دو سو سال سے “عملی” دھما چوکڑی مچا کر نوآبادیاتی نظام کو فروغ دیا جارہا ہے، ان نظریات کا دہشت گردی کے فروغ سے بھلا تھوڑی کوئی ربط ہے۔ بیسویں صدی سرمایہ داری کے دو بڑے نظریے یعنی لبرل ازم اور سوشل ازم باہمی رسہ کشی کا شکار رہے۔ ان میں سے ہر نظریے کے پس پشت ایک سیاسی نظریہ موجود ہے جو اپنی بنیاد اور فروع میں عالمگیر (universal) ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک نظریہ عالمی معاشی سٹرکچرز تشکیل دیتا اور سب کو ان کے تابع کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ بس ایک مسلمان اپنے منہ سے اگر “آفاقی دین” کے مدعی ہونے کا اعلان کردے تو گویا “دھشت گردی”، “انتہا پسندی” اور “عالمگیریت” کے فروغ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ کچھ تو انصاف ہونا چاہیے. ایک عالمگیریت وہ ہے جو “بالفعل” مسلط ہے، اور ایک صرف وہ جس کا “بالقوۃ” اظہار کیا جاتا ہے۔ اپنی نوعیت میں یہ تمام لیبل صرف “بالفعل” کی طرف سے “بالقوۃ” کو غیر معتبر ثابت کرنے کے لیے بطور پروپیگنڈہ اچھالے جاتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے کچھ دانشور بھی اس عمل میں “بالقوۃ استعمار” کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجاتے ہیں
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل