متبادل بیانیے والے حضرات بڑی چالاکی سے تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں گویا یہ کوئی نئی بات کر رہے ہیں حالانکہ ان کا نظریہ سرسید احمد خان والا ہی ہے۔ مناسب محسوس ہوتا ہے کہ درست تاریخی آئینہ سامنے رکھا جائے۔
برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے ساتھ یہاں سرمایہ دارانہ اداروں کو فروغ و استحکام دینے کی پالیسی پر عمل شروع کیا گیا۔ 1857ء کے جہاد میں ناکامی کے بعد یہاں چند قسم کے رد عمل سامنے آئے۔
1) تجدد پسندی: یہ کہ تاریخی فہم اسلام کو رد کرکے اسلام کی معروضی (حاضر و موجود کے تناظر میں) تشریح کی جائے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جو کچھ مغرب کرتا ہے وہی اسلام کا اصل تقاضا ہے۔ اس رویے کو اسلام کی مغرب کاری کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں اس فکر کے سرخیل سرسید احمد خان تھے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
2) ترمیمیت پسندی: یہ کہ اسلام اور مغرب کے مابین کچھ اصولی مشترکات موجود ہیں، البتہ بعض اصولوں و جزیات میں اختلاف بھی ہے۔ چنانچہ لازم ہے کہ مغرب کے ساتھ ”جو کچھ اچھا ہے وہ لے لو اور جو برا ہے وہ ترک کردو“ کے اصول پر تعلق قائم کیا جائے۔ اس رویے کو مغرب کی اسلام کاری کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں اس جدوجہد کے بڑے مظاہر اسلامی بینکاری، اسلامی جمہوریت، جدید علوم کی اسلام کاری اور مسلم قوم پرستی کی مہمیں ہیں۔
3) سیاسی غیر جانبداری: اس دور میں فروغ پانے والا تیسرا بڑا رویہ سیاسی غیر جانبداری کا ہے، یعنی یہ کہ فرد و معاشرے کی اصلاح کی جدوجہد کی جائے۔ اس کا اظہار کرنے والی بڑی معاشرتی دینی تحریکیں تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی ہیں
4) سیاسی نوعیت کی جدوجہد کو مربوط کرنے کا ایک اور نظریہ وہ ہے جسے مولانا مودودی (اور عرب دنیا میں سید قطب شہید) نے پیش کیا۔ ان حضرات کی قائم کردہ جماعتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ آج تک جمہوری سیاسی عمل کے ذریعے ہی جدوجہد کرنے کی قائل رہی ہیں
چنانچہ برصغیر کی حد تک یہ بات دو اور دو چار کی طرح کہی جاسکتی ہے انیسویں صدی کے آخر سے لے کر آج تک یہاں کی تمام دینی قوتوں کا غالب ترین بیانیہ بالخصوص آخری تین کے اندر محصور رہا ہے۔ 1857ء کے بعد سیاسی عمل سے علیحدگی اختیار کرکے مدارس کے قیام پر پوری توجہ مرکوز کرنے کے فیصلے نیز 1920ء میں تحریک خلافت کو رد کرکے تحریک استخلاص وطن کی سیاسی تحریک میں حصہ لینے کے فیصلے کے ذریعے علماء نے اسی بیانئے کو قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ سب بیانئے اپنی وضع میں خود کو حاضر و موجود نظام میں ”سمونے“ اور اس میں ”شمولیت“ کے بیانئے ہیں، نہ کہ انہیں تباہ و برباد کرنے کے۔ استعمار سے آزادی حاصل کرنے والے تقریبا تمام مسلمان ممالک نے اسی بیانئے کے فروغ کے لیے اپنے وسائل کو استعمال کیا۔ پاکستان میں اسلامیانے کے عمل کی تاریخ اسی بیانئے کی بازگشت ہے۔
اب یہ بات کس قدر حیرانی کے ہے کہ اکیسویں صدی کے مخصوص حالات (جس پر یہاں گفتگو مقصود نہیں) میں ابھرنے والی چند شدت پسند تحریکوں کے نتائج کو سامنے رکھ کر آج کچھ لوگ دور کی کوڑیاں ملا ملا کر یہاں کے روایتی بیانئے کو اس شدت پسندی کی بنیاد قرار دے رہے ہیں۔ ”ایک صدی“ سے زیادہ طویل عمل کو نظر انداز کرکے کیے جانے والے ایسے تجزیوں کو ہم علمیت نہیں بلکہ کذب بیانی سمجھتے ہیں۔
اب ذرا اس پر غور کرلیجیے کہ یہ جسے متبادل بیانیہ کہہ کر پھولے نہیں سمایا جارہا، وہ کتنا نیا اور کتا پرانا ہے؟ جناب یہ سرسید احمد خاں والا وہی پرانا بیانیہ ہے، بس ذرا کپڑے بدل دئیے گئے ہیں، نتیجے تو سب وہی پرانے ہیں کوئی ایک بھی تو نیا نہیں!
میرے پاس یونیورسٹی کے ایک ڈپارٹمنٹ میں پی ایچ ڈی کے مقالے کی تیاری کرنے والے ایک طالب علم مشورے کے لئے تشریف لائے۔ ان کے مقالے کا موضوع تھا ” Religious Discourse Analysis of Current Terrorism in Muslim World ” (یعنی مسلم دنیا میں جاری دھشت گردی کے مذھبی بیانئے کا تجزیہ) جس ہر وہ تفصیلی پروپوزل لکھ کر لائے تھے۔ مقالے کا مضمون دیکھتے ہی بندے کے ذھن میں غامدی صاحب کا بیانیہ گھوم گیا البتہ انجان بن کر سوال پوچھا کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ کہنے لگے کہ مسلم دنیا میں دھشت گردی کے حوالے سے دو بیانئے ہیں، ایک یہ کہ یہ استعمار کی مداخلت کا نتیجہ ہے اور ایک یہ کہ یہ مسلمانوں کی مذھبی فکر کا نتیجہ ہے، میں اس دوسرے مفروضے کے تحت جہاد وغیرہ کے نظریات کی روشنی میں حالیہ دھشت گردی کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ بندے نے پوچھا یہ بتائیں آپ نے غامدی صاحب کو پڑھا اور سنا ہوا ہے؟ معصومیت کے ساتھ کہنے لگے نہیں تو۔ میں سمجھ گیا کہ سچ بولنے سے ھچکچا رہے ہیں۔
بندے نے ان سے کہا کہ جس مفروضے پر آپ کام کرنا چاہتے ہیں یہ نہایت ہی سادگی (over simplification) پر مبنی ہے اور پی ایچ ڈی کے مقالے میں اگر تجزئیے و دلیل کی عمارت اس پر کھڑی کریں گے تو وہ کمزور ہوگی۔ جن حضرات نے یہ مفروضہ پیش کیا ہے ان کے خیال میں برصغیر میں “عالمگیری سیاسی اسلام” کا نظریہ پیش کرنے والی شخصیت مولانا مودودی ہیں، اگر یہ فکر اس دھشت گردی کی بنیادی وجہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ خود ان کی اپنی جماعت جہاد کے بجائے جمہوری جدوجہد کرتی ہے؟ یہ تو ہوا پہلا سوال۔ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حضرات کے بقول مسلمانوں کو مدارس میں بعض ایسے فقہی مسائل سکھائے جاتے ہیں جن کے بعد کفار کو مارنا وغیرہ ایک جائز بات بن جاتی ہے۔ لیکن یہ مسائل تو ان کے بقول صدیوں پہلے سے کتب فقہ میں لکھے ہوئے ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ 1980 سے قبل مسلم معاشروں میں یہ دھشت گردی نہ تھی؟ اور کیا وجہ ہے کہ بھارت کے مدارس میں بعینہہ یہی کتب پڑھانے کے باوجود وہاں یہ سب نہیں ہورہا مگر پاکستان میں ہورہا ہے؟
یہ دونوں سوالات سن کر وہ خاصے مایوس اور پریشان ہوگئے۔ بندے نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ ان دونوں سوالات نیز موجودہ اکثر و بیشتر جہادی جتھوں اور قومی و عالمی ریاستوں کے آپسی تعلق کی روشنی میں اپنے پروپوزل پر دوبارہ غور و فکر کریں کہ آیا ان دو مفروضات میں سے زیادہ قرین قیاس کونسا ہے۔ پی ایچ ڈی کے مقالے اور ٹی وی پروگرام میں فرق ہوتا ہے، دنیا اتنی سادہ نہیں جتنی کہ ٹی وی پروگرام میں بیٹھ کر اسے بتانے کی کوشش کی جاتی ہے۔