چند دن پہلے مفتی منیب الرحمن صاحب اور جاوید احمد غامدی صاحب کے مابین ایک مباحثہ ہوا ۔ اس پر طرفین نے خود بھی بولا اور لکھا۔ تاہم مسئلہ چونکہ ’بیانیہ‘ کے نام پر ملک کے منہ میں ایک زبان دینے کا ہے، اور وہ ’زبان‘ آدھی پونی تو میڈیا خود ہے، صرف اس کا مذہبی حصہ اور وہ بھی میڈیا ہی کی قوت سے نہ کہ کسی ’عوامی خواہش‘ پر، ملکی زبان بنانے کی سر توڑ کوشش ہو رہی ہے. لہٰذا بہت سے احباب اِس مسئلہ کو توجہ دیے بغیر نہیں رہے۔ مسئلہ کے متعدد پہلوؤں پر صاحبانِ علم پہلے ہی بہت کچھ فرما چکے۔ کچھ پر مزید اظہارِ خیال فرمائیں گے۔ اور یہ بحث شاید ابھی چلتی رہے۔ مجھے یہاں مسئلہ کی ایک ایسی جہت پر مختصر بات کرنی ہے جو کوئی علمی نکتہ نہیں ہے البتہ جاوید احمد غامدی صاحب کی طرف سے بار بار وہ ایک دلیلِ قاطع کے طور پر لائی جا رہی ہے۔ مفتی منیب الرحمن صاحب کے مدمقابل شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں وہ اب بھی بڑے زور سے پیش کی گئی۔
اس ’دلیل‘ کا لب لباب یہ ہے کہ علماء (جی ہاں سب مسالک کے علماء یک آواز، جو مذہبی طور پر یہاں کی مین سٹریم کے واحد نمائندہ ہیں) جب ریاست کو اسلام کا پابند کرنے وغیرہ سے متعلق ایسی باتیں کہتے ہیں جن پر واقع میں عملدآمد نہیں تو یہاں سے ہی دراصل ٹی ٹی پی اور داعش وغیرہ جیسے تخریب کار یہ گنجائش پاتے ہیں کہ ریاست کو اسلام کے تابع کرنے کے نام پر ہتھیار اٹھائیں! نہ ہو بانس نہ بجے بانسری۔ نہ علماء شریعت کی بالادستی کی کبھی بات کرتے اور نہ تخریب کاروں کو اسلام کا نام لینے کی گنجائش ملتی. یہاں سے دہشت گردی کا کھُرا علماء تک جا پہنچا، اور اب توبہ کی صورت یہ کہ متبادل بیانیہ! (بہت اچھا اور بروقت استعمال ہے یہ اس دہشت گردی کا!)
یہاں سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے ایک طرف پاکستان اور ترکی وغیرہ ایسی عالم اسلام کی کچھ ابھرتی ہوئی قوتوں کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے یہاں کی قوم پرست علیحدگی پسند تحریکوں کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی اور داعش ایسی ’اسلامی‘ اشیاء کا ڈول ڈالا تاکہ عالم اسلام کا وہ مذہبی جنونی عنصر جو علماء کے کہنے میں نہیں، اپنا ہی گھر ڈھانے کےلیے بےتحاشا استعمال ہو (ٹی ٹی پی کا افغانستان میں امریکی پناہ کے اندر اور اپنی کارروائیوں کے معاملہ میں بھارت کے زیراثر ہونا کسے معلوم نہیں؟).. تو دوسری جانب ٹی ٹی پی اور داعش کے ذریعے یہاں کی اقوام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ’شریعت‘ سے توبہ کروا دی جائے۔ (عالم اسلام میں مغرب کے کچھ دیرینہ خواب!)۔ اس لحاظ سے، ٹی ٹی پی اور داعش اس بھیانک تصویر کے ایک حصے کو مکمل کرتی ہے تو ’متبادل بیانیہ‘ اس کے دوسرے حصے کو۔ یعنی یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔
جاوید احمد غامدی صاحب اپنے ان سوالات میں ’خلافت اور نیشن سٹیٹ‘ ایسے کچھ دور دراز مسائل کو بھی موضوع بناتے ہیں جنہیں ہم نے کبھی علماء کے بیانیہ میں درج پایا اور نہ قراردادِ مقاصد وغیرہ کے اندر ان کا کوئی ذکر، جبکہ یہ واضح ہے کہ میڈیا اور جاوید احمد غامدی صاحب کا اصل محلِ اعتراض یہاں قراردادِمقاصد ہے (جوکہ ریاست کو صاف صاف ’’غیرسیکولر‘‘ اور ’’اسلامی‘‘ بناتی ہے) یا پھر قراردادِمقاصد کے مضمون سے متصل وہ مضامین جو یہاں کے مین سٹریم علماء کے زبان و بیان میں آتے ہیں (اور جن میں ’خلافت‘ کا بہرحال کوئی ذکر نہیں)۔ لہٰذا اِس مختصر تحریر میں ہم خلافت وغیرہ ایسے مسائل کو تو زیربحث نہیں لائیں گے تاکہ گفتگو کسی اور طرف کو نہ چلی جائے۔ صرف اس مسئلہ کو زیربحث لاتے ہیں جو واقعتاً علماء کا باقاعدہ مطالبہ رہا ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی رہےگا اور وہ ہے مملکتِ خداداد پاکستان کو بطور ریاست اسلام کا پابند ٹھہراتے ہوئے یہاں شریعتِ اسلام کی بالادستی۔ اسی ایک بات پر جاوید احمد غامدی صاحب کی ذکر کردہ بقیہ تین اشیاء خودبخود قیاس ہو جائیں گی.
ان کی دلیل یوں ہے کہ علماء کی طلب کردہ یہ ’’شریعت کی بالادستی‘‘ کچھ شدت پسند طبقوں کو جب یہاں عملی جامہ پہنے نظر نہیں آتی تو اس مقصد کو یقینی بنانے کےلیے خودبخود وہ عسکریت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ان کے بقول، یہاں علماء کا یہ کہنا کافی نہیں رہ جاتا کہ وہ شریعت کی بالادستی کےلیے عسکریت کو ’’بطور طریق کار‘‘ رد کرتے ہیں، جبکہ شریعت کی بالادستی کو ’’بطور ایک مقصد‘‘ خود ان علماء نے ہی جائز قرار دے رکھا ہوا تھا۔ گویا آپ ایک مقصد ہی کو جائز نہ کہیں ورنہ اس کےلیے اختیار کیے گئے کسی بھی طریقے اور اس کے بھیانک نتائج کی بھی ذمہ داری قبول کرنے کےلیے تیار رہیے!
یہ جس ’’تلازم‘‘ کو جاوید احمد غامدی صاحب کے ہاں بار بار دلیل بنایا جا رہا ہے (غور فرمائیں تو مفتی منیب الرحمن صاحب کے مقابلے پر انہوں نے اِس ’’تلازم‘‘ کے سوا کوئی جوہری دلیل پیش نہیں کی) وہ ایک نہایت سطحی ’صغریٰ و کبریٰ‘ ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ’دلیل‘ بھی ان کو صرف اس وجہ سے لگی کہ پورے جہان کا سٹیٹس کو اب اس رخ پر بیٹھا ہے جس میں تبدیلی کی کوئی بات ہی ان (جاوید احمد غامدی صاحب) کو اصل میں قبول نہیں ہے۔ اس دلیل کا ’لازم القول‘ اصولاً یہی بنتا ہے کہ کسی دور میں ’سٹیٹس کو‘ کی تبدیلی کا مطالبہ زبان پر لے آنا ہی اصل میں فساد کا موجب ہے! اس لیے کہ سٹیٹس کو میں تبدیلی سے متعلق آپ کا اپنا مطالبہ خواہ کتنا ہی پر امن ہو اور وہ اپنے رُو پذیر ہونے کےلیے عقلاء کے ہاں رائج چلے آتے راستے اختیار کرنے کی شرط لگانے میں خواہ کتنا ہی واضح ہو، لیکن چونکہ آپ یہ ضمانت نہیں اٹھا سکتے کہ کل کوئی اور شخص آپ سے ہٹ کر کوئی طریق کار اختیار نہیں کرے گا یا اس مقصد کا ڈھونگ نہیں رچائے گا لہٰذا آپ کا ’سٹیٹس کو‘ میں کسی تبدیلی کا پرامن مطالبہ زبان پر لے آنا ہی دراصل ایک ظلم اور فساد کی بنیاد رکھ دیتا ہے! اِس کا ’جواب‘ ظاہر ہے مفتی منیب الرحمٰن کیسے دے سکتے ہیں!
یہ واقعتاً کوئی تلازم ہو تو مین سٹریم علماء اس پر غور کریں! یہاں پر بات طویل کرنے کے بجائے ہم اس کو ایک آسان سوال میں پیش کر دیتے ہیں:
اگر کسی ملک میں جمہوریت نہیں ہے، آمریت اور مارشل لا کا راج ہے تو کیا جاوید احمد غامدی صاحب وہاں جمہوریت کا مطالبہ کریں گے؟ ان کے اب تک کے اقوال و آراء سے واضح ہے کہ ایک آمریت کے راج والے ملک میں جمہوریت کا مطالبہ پرامن طریقے سے ضرور کر لینا چاہیے، صرف تشدد کی راہ اپنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ (عین وہ پوزیشن جو ایک دوسرے سیناریو میں شریعت کی بالادستی کا مطالبہ کرنے والے علماء کی ہوتی ہے)۔ تو پھر کیا خیال ہے ضیاء الحق کے مارشل لا اور ’آمریت‘ کے خاتمہ کےلیے الذوالفقار نامی کوئی تنظیم ہتھیار اٹھا لے؟ ’جمہوریت کے پرامن مطالبے کو جائز‘ کہنے والے کیا اس خونریزی کی ذمہ داری قبول کریں گے؟ ’بادشاہت‘ کو غلط کہنے والے کیا انقلابِ فرانس میں بہنے والی خون کی ندیوں کو اون own کریں گے؟ سرمایہ داری ظلم کے خلاف بات کر بیٹھنے والے کیا کمیونسٹوں کی قتل و غارت کے ذمہ دار ہوں گے؟ بلا لحاظ اس سے کہ وہ خود مار دھاڑ کے راستے کو جملۃً و تفصیلاً رد کرنے والے کیوں نہ رہے ہوں یا پُر امن ہونے کے مبلغ کیوں نہ رہے ہوں؟ یہ ہے ’استدلال‘؟
مفتی منیب صاحب، اور ان کی معیت میں علماء کی مین اسٹریم، چونکہ ریاست کو سیکولر کرنے کی مؤید نہیں ہے اور عالمی فکری سٹیٹس کو کے ہاتھ میں ہاتھ دینے میں بھی کوئی رغبت نہیں رکھتی، اور وہ تسلسل کے ساتھ اِس ملک کو ایک صحیح اسلامی مملکت بنانے پر یک آواز اور شریعت کی جملہ خلاف ورزیوں پر معترض چلی آتی ہے.. اور آج بھی اسی پر قائم ہے.. لہٰذا ’شریعت‘ کا نام لے کر اب جو بھی جرم دنیا میں کیا جائے گا، کسی نہ کسی سطح پر یہ سب اس کے ذمہ دار ہوں گے! اور مسئلے کو جڑ سے ہاتھ ڈالنے کا طریقہ یہ کہ ایک سیکولر ریاست کو آپ اپنے مذہبی پیراڈائم میں قبول کریں ورنہ اس عالمی لٹھ سے نہیں بچ سکتے جو ’دہشتگردی‘ کے سر میں مارنے کےلیے رکھ چھوڑی گئی ہے! سادہ لفظوں میں یہ بیانیہ یوں ہے کہ کسی عالمی فکری سٹیٹس کو کے خلاف آپ منہ ہی بند رکھیں اور اس کی تمام فکری مصنوعات کو اپنے مذہب کے اندر قبول کریں۔ (فاشزم کی انتہا)۔ اور اگر یہ نہیں تو اِس ’حق پرست میڈیا‘ کے ناپسندیدہ تو آپ ہوں گے! کیا کوئی اور بھی دلیل ہے آپ کے خلاف؟!
کیا یہ عین وہی بات نہیں جس پر مغرب کے کچھ مستشرق بار بار زور دے رہے ہیں (جبکہ عملاً شروع دن سے یہ ہو رہا ہے)۔ ان کا کہنا ہے، جنگ کا محور پورے زور کے ساتھ ’وار آن ٹیرر‘ war on terror سے ’وار آف آئیڈیاز‘ war of ideas پر لے جایا جائے۔ یعنی عالم اسلام میں ’’شریعت‘‘ وغیرہ سے متعلقہ کئی دیرینہ افکار کا اِسی ہلے میں گھونٹ بھر لیا جائے، جب یہاں کے عوام بھی اس پر تالیاں بجانے کےلیے تیار ہوں گے۔ اپنے اِس ’متبادل بیانیہ‘ کو داد دینی چاہیے جو مغرب کے منہ کی بات اچک لیتا اور اس کا بہترین اسلامی ترجمہ پیش کر دیتا ہے!
استفادہ تحریر حامد کمال الدین، سہ ماہی ایقاظ