۲۰۱۱ء میں عالم عرب کے کئی ممالک میں آمریت سے نجات کی لہر اُٹھی۔ تیونس، مصر، لیبیا، شام اور یمن میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ان میں سے ہر ملک کے حالات مختلف اور تفصیل طلب ہیں۔ اس لیے اختصار کی خاطر صرف شام ہی کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ شامی عوام ۱۹۶۵ء سے حافظ الاسد اور پھر بشار الاسد کے جابرانہ قہر و تسلط کا شکار ہیں۔ اس دوران وہاں ان پر وہ مظالم توڑے گئے کہ بیان کرتے ہوئے پتھر سے پتھر دل بھی تھرا جائیں، لیکن عوام نے مسلسل صبر سے کام لیا۔ تیونس اور مصر میں عوام کو عارضی رہائی ملی، تو شامی عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے۔ بشار الاسد نے پُرامن مظاہرین پر بارود کی بارش کردی۔ گذشتہ چار سال سے جاری شام کی خانہ جنگی نہ صرف اب ایک علاقائی جنگ کی صورت اختیار کرگئی ہے، بلکہ اس آگ میں فرقہ واریت اور علاقائی نفوذ کی دوڑکا تیل بھی چھڑکا جارہا ہے۔لیبیا میں قذافی کے خاتمے کے لیے ناٹو افواج آن دھمکی تھیں۔ بدقسمتی سے شام میں بشار کو بچانے کے لیے ایرانی افواج میدان میں ہیں۔ پہلے اسے ایک الزام کہا جاتا تھا، اب اس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جارہا ہے۔ روس بھی اپنے اسلحے اور کامل سیاسی سرپرستی کے ساتھ بشار کی پشت پر کھڑا ہے۔ امریکا اور سعودی عرب بشار کی مخالفت کررہے ہیں، لیکن عملاً شامی عوام کی ایسی کوئی مدد نہیں کررہے کہ وہ بشار سے نجات حاصل کرسکیں۔ پڑوسی ہونے کے ناتے ترکی پر لاکھوں شامی مہاجرین کا اتنا بوجھ آن پڑا ہے کہ شامی عوام کی کوئی عسکری معاونت اس کے بس میں نہیں رہی، اور نہ زمینی حقائق کی روشنی میں اس کا ارادہ ہے کہ بشار کے مقابل لڑتے لڑتے بالآخر ایران کے مقابل ہی آن کھڑا ہو۔
٭داعش: قیام اور پس منظر
اس ماحول میں ۲۰۱۳میں اچانک وہاں ایک مسلح گروہ سامنے آیااور تین سالہ جدوجہد کے بعد بشار انتظامیہ سے آزاد ہوجانے والے علاقوں میں اپنی اسلامی ریاست: الدولیۃ اسلامیۃ کے قیام کا اعلان کردیا۔ پھر ۲۰۱۴ء کے وسط میں اس کی کارروائیوں کا دائرہ عراق کے کئی علاقوں تک پھیل گیا اور ریاست اسلامی در عراق و شام: الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق و الشام (داعش) میں بدل گئی۔ حیرت انگیز طور پر اس کی کارروائیوں کے سامنے عراق کے اہل سنت اکثریتی علاقوں میں موجود عراقی فوج، جن کا ۹۹ فی صد شیعہ مذہب کا پیروکار تھا، بلاادنیٰ مزاحمت اپنا جدید ترین اسلحہ چھوڑتے ہوئے پسپا ہوگئی۔ بدقسمتی سے عراق میں امریکی افواج کی آمد کے بعد وہاں عرب کرد اور شیعہ سنی تقسیم اتنی گہری کردی گئی ہے کہ نوری المالکی کی شیعہ افواج کے مقابلے میں ایک سُنّی مسلح گروہ کا کامیاب ہونا، آغاز کار میں سنی عوام کو اپنی فتح یابی محسوس ہوا۔ قبائلی سرداروں، ان کے مسلح جتھوں اور صدام حسین کے سابق فوجیوں نے بھی داعش کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق چند ہفتوں میں ہی داعش نے سب سے اپنی بیعت پر اصرار کرتے ہوئے اپنے ہرمخالف کی گردن اُڑانا شروع کردی۔ عمومی احکام شریعت کے بارے میں بھی کوئی دوسری راے رکھنے والوں کو اسی انجام سے دوچار ہونا پڑا۔
داعش کا دعویٰ ہے کہ وہ خلافت اسلامیہ کے احیاء کے لیے برسر پیکار ہے جو اس کے بقول عراق اور شام میں قائم ہو چکی ہے اور وہ اس کا دائرہ دنیا بھر میں پھیلانا چاہتی ہے۔ اسے عراق اور شام کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول حاصل ہے اور وہ اپنے اقتدار کو قائم رکھنے اور توسیع دینے کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کر رہی ہے۔ تکفیر اور قتال اس کے خصوصی عنوانات ہیں۔ داعش کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ جو مسلمان ان کا ساتھ نہیں دے رہے یا ان کے خیال میں ان کے مخالف حکمرانوں کی تائید کا سبب بن رہے ہیں، نہ صرف وہ کافر ہیں بلکہ واجب القتل ہیں۔ چنانچہ مبینہ طور پر بے شمار مسلمان اس تکفیر اور قتال کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔اس سب پر مستزاد یہ کہ شام اور عراق میں داعش کی ۸۰ فی صد کارروائیوں کا نشانہ وہی عوام بنے اور بن رہے ہیں، جو پہلے ہی بشار الاسد اور مذہبی منافرت کے ہاتھوں بدترین مظالم کا شکار تھے۔ داعش بشار کے خلاف کارروائیوں کا اعلان بھی کرتی ہے لیکن اس کی سب سے زیادہ کارروائیاں خود بشار کے خلاف برسرپیکار مختلف جہادی تنظیموں ہی کے خلاف ہورہی ہیں۔
عراق میں الاخوان المسلمون کے ایک بزرگ رہنما، اخوان کی سیاسی تنظیم ’حزب اسلامی‘ کے سابق سربراہ اور بغداد یونی ورسٹی کے علاوہ عالم عرب کی کئی جامعات میں شریعت اسلامی کے سابق پروفیسر، ڈاکٹر محسن عبدالحمید نے راقم (عبدالغفار عزیز)سے ایک حالیہ ملاقات میں بتایا کہ داعش کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کا نام ایاد السامرائی ہے اور وہ ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ کسی نے جنابِ بغدادی سے پوچھا کہ آپ کے استاد ڈاکٹر محسن عبد الحمید نے آپ کی بیعت نہیں کی، اگر وہ آپ کے ہاتھ آگئے تو کیا آپ انھیں بھی ذبح کردیں گے؟ خلیفہ صاحب نے جواب دیا: بہرحال وہ میرے استاد ہیں، میں خود تو انھیں ذبح نہیں کروں گا، لیکن اگر میرے کسی ساتھی نے ایسا کردیا تو میں اسے منع نہیں کروں گا۔ داعش کا فکر و فلسفہ جاننے کے لیے شاید اس سے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ دہشت گردی اور تکفیر و قتال کا راستہ اختیار کرنے پر یہ امت مسلمہ کے کسی بھی سنجیدہ طبقہ کی حمایت سے محروم ہیں۔ چنانچہ ان کی مذمت اور ان کے خلاف کاروائیوں میں امت مسلمہ بھی باقی دنیا کے ساتھ برابر کی شریک دکھائی دے رہی ہے۔
٭اسلامی تاریخ میں داعش کے طرز عمل کا فکری سرچشمہ کیا ہے ؟
اگر اس کو ایک جملہ میں کہا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس عہد کے ’ خوارج ‘ ہیں ، خروج کے معنی نکلنے اور بغاوت کرنے کے ہیں ، عراق کے ایک گروہ نے ، جو حروراء اور نہروان میں مقیم تھا، حضرت علیؓ کے خلاف بغاوت کی تھی ؛ اس لئے وہ خوارج کہلائے ، ( معجم الفرق الاسلامیہ : ۱۲۲ ، القاموس الفقہی : ۱۱۵) ا تذکرہ اہل سنت والجماعت کی کتابوں انکے ایک فرقے ’ ازارقہ ‘ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ازارقہ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جو لوگ ان کے ساتھ نہیں ہیں ، وہ سب کافر و مشرک ہیں ، جو مسلمان حکمراں ان کے خیال میں ظالم ہوں ، ان کے خلاف بغاوت کرنا واجب ہے ، جو نہیں کرتے وہ تمام لوگ اگرچہ کلمہ پڑھتے ہیں ان کے خیال میں مشرک و کافر ہیں ، قتل کرنا ان کے بچوں کا قتل اور ان کو قید کرنا بھی جائز ہے ، ان کی عورتیں بحیثیت باندی حلال ہیں ، ان سے لوٹا ہوا مال اور ان کی رکھوائی ہوئی امانتیں بھی حلال ہیں ، نہ ان سے نکاح جائز ہے نہ ان کا ذبیحہ ، اگر کوئی شخص عذر کی وجہ سے ظالم حکمرانوں کے خلاف نہ نکل سکے ، تب بھی وہ مجرم ہے ، اور جس سرزمین پر ایسے لوگوں کی حکومت ہو ، وہاں سے ہجرت کر جانا واجب ہے ، اسلامی فرقوں پر لکھی گئی کتابوں میں امام اشعری ؒ، ابن حزم ظاہری ؒ، عبد الکریم شہرستانیؒ اور عبد القادر اسفرائنی ؒوغیرہ نے ان کے افکار پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔اگر غور کیا جائے تو داعش کی فکر اور ان کا طرز عمل بالکل وہی ہے جو ازارقہ نے اختیار کیا تھا ، اور جن کے گمراہ اور مفسد ہونے پر پوری اُمت کا اجماع و اتفاق ہے ،
داعش کے عروج میں مغربی ہاتھ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کچھ عرصہ پہلے امریکی کمانڈر کا بیان اخبار میں آچکا ہے کہ ہم لوگوں نے داعش کی تربیت کی ہے ، ایڈورڈ اسنوڈین (وکی لیکس)نے N.S.A رپورٹ کا افشاء کرتے ہوئے بتایا تھا کہ امریکہ ، اسرائیل اور برطانیہ ہی نے آئی ، ایس ، آئی ، ایس کی تخلیق کی ہے ، نیز جس جدید ٹکنالوجی کا داعش استعمال کررہے ہیں ، یا ان کے پاس جو جدید ترین اسلحہ ہیں ، یہ سوائے اسرائیل اور امریکی قوتوں کے کوئی اور فراہم نہیں کرسکتا ، مسلمان اس وقت ان وسائل میں اتنے پسماندہ ہیں کہ ان سے توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسی چیزوں کو وجود میں لائیں گے ۔ ۔
چند مزید غور طلب پہلو:
* شام اور عراق میں مسلح گروہ تو وہاں امریکی قدم پہنچنے کے بعد سے ہی وجود میں آنا شروع ہوگئے تھے۔ کئی تنظیمیں براہِ راست امریکی استعمار سے مقابلے کے لیے ہی وجود میں آئیں۔ ان سب کو کسی عالمی ابلاغیاتی مہم کے ذریعے اتنا نمایاں نہیں کیا گیا، جتنا داعش کی تنظیم کو چند ہفتوں کے اندر بڑھا چڑھا کر پیش کردیا گیا۔فوراً ہی ۴۰کے قریب ممالک کو جمع کرتے ہوئے اس کے خلاف ایک عالمی بلاک بنادیا گیا اور ۵۵۰؍ارب ڈالر کی خطیر رقم اس کے مقابلے کے لیے مختص کردی گئی جس کا زیادہ حصہ خود مسلمان ملکوں ہی سے وصول کیا جائے گا۔چند ہزار افراد سے جنگ کے لیے خطیر بجٹ ساتھ ہی یہ بھی اعلان کردیا گیا کہ یہ جنگ آیندہ ۱۰ برس تک جاری رہے گی۔
*ایک طرف داعش سے اتنی بڑی جنگ لڑی جارہی ہے اور دوسری طرف اسی سے تیل کے اہم عراقی کنوؤں سے نکالا جانے والا تیل بلیک مارکیٹ میں خریدا جارہا ہے۔
*۴۰ممالک کے داعش مخالف بلاک اور ۵۵۰؍ارب ڈالر کے بجٹ کے بعد بھی داعش کے خلاف فوجی کارروائیاں صرف فضائی حملوں تک محدود ہیں۔ خود امریکی عسرہی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ جب تک زمینی کارروائیاں نہ کی گئیں یہ فضائی حملے بے ہدف اور بے مقصد رہیں گے۔ لیکن اس فوجی حکمت عملی کی بلی بھی اس وقت تھیلے سے باہر آگئی جب امریکا بہادر دُہائیاں دینے لگا کہ زمینی کارروائیاں ناگزیر ہوگئیں۔ ہم بوجوہ یہ کارروائیاں نہیں کرسکتے، پڑوس میں واقع ترکی اگر واقعی دہشت گردی کے خلاف ہے تو اپنی زمینی افواج شام میں اتارے۔ گویا اصل مقصد ترکی کو پرائی آگ میں جھونکتے ہوئے اس کا خون بھی مسلسل نچوڑنا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ترکی اس پھندے میں نہیں پھنسا۔
٭ عراق و شام میں داعش کے اُبھرنے کا سب سے زیادہ فائدہ بھی اسرائیل اور فرعونِ وقت بشار الاسد ہی کو پہنچ رہا ہے ، بظاہر اس کا مقصد یہی لگتا ہے کہ بالاخر شام و عراق کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جائے، اسرائیل کے عرب پڑوسیوں کو آپس میں لڑا بھڑا کر کمزور کردیا جائے تاکہ اس خطے میں کوئی ایسا ملک نہ رہے جو اسرائیل کی طرف آنکھ اُٹھاکر بھی دیکھ سکے ۔یہ اور اس طرح کے کئی بنیادی پہلو ہر واقف حال کو اصل حقائق سے قریب تر پہنچا دیتے ہیں۔
٭خطرے کے تین الگ الگ پہلو :
ایک پہلو مبینہ دہشت گردی کا ہے جس کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور امریکہ اور یورپ بھی اس کی زد میں دکھائی دے رہے ہیں ۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے مسلمان حکمرانوں کا دہشت گردی اور داعش کے خلاف مغربی ملکوں کے عالمی اتحاد کا ساتھ دینا اور اس کا حصہ بننا بھی ان کی مجبوری بن کر رہ گیا ہے ۔
اس مسئلہ کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ عالم اسلام میں اسلام کے معاشرتی اور عدالتی کردار کی بحالی کی وہ تحریکات جو دہشت گردی اور تشدد پسندی سے مکمل گریز کرتے ہوئے پُر امن طور پر سیاسی و جمہوری عمل کے ذریعہ نظام شریعت کے قیام و نفاذ کی جد و جہد میں ایک عرصہ سے مصروف ہیں وہ ان دونوں بلکہ تینوں کے درمیان سینڈویچ بن کر رہ گئی ہیں ، وہ نہ تو اس مقصد کیلئے جد و جہد اور مسلم حکومتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو جائز سمجھتی ہیں، نہ مسلم حکومتوں کی موجودہ پالیسیوں اور انتظامی ڈھانچوں سے مطمئن ہیں اور نہ ہی ان کے لئے مغربی قوتوں کا یہ ایجنڈا کسی بھی صورت میں قابل قبول ہے کہ اسلام کے معاشی، سیاسی اور عدالتی کردار کی مکمل نفی کرتے ہوئے دنیا کے کسی بھی حصہ کوئی اسلامی ریاست کسی صورت میں قائم نہ ہونے دی جائے ۔خود ہم اس تیسرے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے کہ جہاں داعش اور اس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کے شدت پسندانہ کردار سے نفرت و برأت کا اظہار ہم ضروری سمجھتے ہیں وہاں اسلامی شریعت کے نفاذ کی نفی اور اس کا راستہ ہر قیمت پر روکنے کی پالیسی اور طرز عمل کو قبول کرنا یا اس پر خاموشی اختیار کر لینا بھی ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف صرف اس وجہ سے کہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے لیے مذہب اور خلافت کا نام استعمال کر رہے ہیں اور بعض مذہبی تعلیمات کو اپنے انداز میں غلط طور پر پیش کر رہے ہیں، جدت پسندوں کی طرف سے دینی جماعتوں کو انکے مسلک پر ہونے کا طعنہ دیا جارہا اور مذہب کے ساتھ معاشرہ اور ریاست کے تعلق پر نظر ثانی اور سوسائٹی میں مذہب کے کردار کی حدود ازسرنو طے کرنے کا مشورہ دیا جانے لگا ہے۔
استفادہ تحریر مولانا زاہد الراشدی، عبدالغفار عزیز