یہ بات مختلف مرتبہ لکھی گئی ہے کہ مسلم فکری روایت میں اگر مختلف علمی امور موجود ہیں تو ان سے ناجائز فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن یہ بات ہرگز اس کو مستلزم نہیں کہ اس سے دہشت پسندی ہی کا بیانیہ تیار ہو۔ غامدی مکتبہ فکر کے ایک صاحب علم نے ایک تحریر لکھی ہے اس میں ایک مرکزی دعوی شامل ہے، جو ہم سمجھتے ہیں کہ بہت سی غلطیوں کی بنیاد ہے جسے بانداز دگر بار بار دہرایا جاتا ہے۔ آغاز میں لکھتے ہیں :” آج مذھبی عسکریت پسندی کے ‘ناجائز بچے’ کو کوئی اپنے نام سے منسوب کرنے کو تیار نہیں، لیکن اس پر ایسا بھی وقت گزرا ہے کہ جب اسے گود لینے کے لیے اہل مدارس میں مسابقت برپا تھی۔”
ان الفاظ سے محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا ایک اداریہ یاد آیا، انھی کے الفاظ میں پیش خدمت ہے۔ کیا مذکورہ الفاظ کی زد میں غامدی صاحب بھی کسی درجے میں آ سکتے ہیں یا نہیں؟ میرے خیال میں موجود وقت اور حالات کے تناظر میں بات الگ انداز میں ہوتی ہے اور کافی وقت گزرنے کے بعد تجزیے کی شکل مختلف ہوتی ہے۔ یہ تاریخ کا ایک ایسا جبر ہے جس پر کئی مثالیں لائی جا سکتی ہیں۔ اہل علم کو حرامی بچوں کی اصطلاحات کے بجائے اس عمرانی حقیقت کے زاویے سے بھی سوچنا چاہیے۔ غامدی صاحب کا ایک ادرایہ پیش خدمت ہے۔
طبعے بہم رساں کہ بسازی بعالمے
یا ہمتے کہ از سرِ عالم تواں گزشت
(ایک ایسی طبیعت فراہم کر کہ جو اس جہان سے اتفاق کر لے، یا پھر ایسی ہمت لے آ کہ اس عالم سے بھی گزر جائے۔)
رات سونے سے پہلے ابوالکلام کی ’غبار خاطر‘ دیکھ رہا تھا کہ یہ شعر سامنے آگیا۔مجھے خیال ہوا کہ ابو طالب کلیم نےان دو مصرعوں میں جو حقیقت بیان کی ہے،وہ فرد کے بارے میں جتنی صحیح ہے،اس سے زیادہ، اسے اقوام وملل کے بارے میں صحیح مانناچاہیے۔یہاں ، فی الواقع، ہر قوم کے لیے زندہ رہنے کے لیے دو ہی طریقے ہیں۔وہ دنیا سے لڑے گی اور اسے اس بات پر مجبور کر دے گی کہ اس کے سامنے سرنگوں ہو کر رہے یا اس کے ساتھ سازگاری کی راہیں تلاش کرے گی اور بالآخر اس کے حضور میں سرنگوں ہو جائے گی۔لیکن ہم مسلمان بھی کیا ان دونوں میں سے جو طریقہ چاہیں، اختیار کر سکتے ہیں؟ میرے خیال ہے کہ ان میں سے دوسرا طریقہ ہمارے لیے کبھی روا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ہمارے وجود کی بنا ہی اس اعلان پر قائم ہوئی ہے کہ پورا حق صرف ہمارے پاس ہے۔ہم اگر اس اعلان سے دستبردار ہو جائیں تو ہمارا وجود باقی نہیں رہتا اور اس پر قائم رہیں تو ہمارے لیے دنیا کے ساتھ سازگاری کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوتی۔
میں نے آج لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو خیال تھا کہ ’توبازمانہ ستیز‘(تو زمانے سے جنگ برپا کر) کی یہ حکایت کچھ شرح و بسط کے ساتھ سناؤں گا۔لیکن اب سوچتا ہوں کہ لوگ یہاں اسے سننے کے لیے تیار بھی ہوں گے؟ میرا خیال ہے کہ ان کے لیے اب اس سے زیادہ شاید کوئی بات اجنبی نہیں رہی۔پھر کیا کہوں اور کس سے کہوں؟
دریں مے خانہ اے ساقی ندارم محرمے دیگر
کہ من شاید نخستیں آدمم از عالمے دیگر
(اے ساقی! اس مے خانے میں میرا کوئی اور محرم راز نہیں، کیوں کہ میں شاید تنہا وہ فرد ہوں جو کسی اور عالم سے تعلق رکھتا ہے۔)
اکتوبر 1986ء
اس کو وقت کی ستم ظریفی ہی کہا جا سکتا ہے کہ جاوید صاحب “توبازمانہ ستیز” کا مقدمہ قائم کرتے وقت بھی کسی محرم راز سے محروم تھے اور آج “تو با زمانہ بساز” کی حکایت سوز میں بھی عالم دیگر کے فرد ہیں، یکا و تنہا !(سید متین احمد)
یہ باتیں جملہ معترضہ کے طور پر کی گئیں اصل سوال’ عسکریت پسندی میں مدارس کے کردار ‘کی طرف آتے ہیں ۔
پاکستان کی تاریخ پر ہی نگاہ دوڑائی جائے تو نظر آتا ہے عسکریت پسندی ، دہشت گردی کی تعلیم اور ٹرینگ میں دینی مدارس کا کبھی کوئی کردار نہیں رہا۔ مدارس قرآن وسنت کی تعلیم دیتے ہیں اور اسلامی عقائد کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرت کے فروغ اور مسلم معاشرہ میں اسلامی احکام وقوانین کے نفاذ کی تعلیم وترغیب دیتے ہیں ۔ چونکہ یہ مسلح تحریکیں اپنا مقصد اور ایجنڈا بھی اسی کو بتاتی ہیں، اس لیے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تنظیمیں مدارس کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔ ان مذکورہ بالامقاصد کے لیے ملک میں جو جماعتیں اور افراد پرامن طور پر اور سیاسی وجمہوری جدوجہد کے ذریعے کام کر رہی ہیں، وہ بھی انھی دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ہیں اور جو لاکھوں علماء کرام، مدرسین اور خطبا وائمہ ملک بھر میں انتہائی امن وسکون کے ساتھ اور پورے امن وسلامتی کے ماحول میں دینی خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہیں، انھوں نے بھی انھی مدارس میں تعلیم پائی ہے۔ دینی مدارس سے تعلیم پانے والے وہ حضرات جونہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں پرامن طور پر تعلیمی اور دعوتی خدمات بجا لا رہے ہیں اور وہ حضرات جو مسلح جدوجہد کاراستہ اختیار کیے ہوئے ہیں، ان کے درمیان تناسب آٹے اور نمک کا بھی نہیں ہے۔
اس لیے یہ کہناکہ انتہا پسندانہ تنظیموں کے قیام میں دینی مدارس کا کوئی کردار ہے، قطعی طور پر درست بات نہیں ہے۔ بالخصوص مجاہدین کے گروپوں کی تنظیم سازی تو جہاد افغانستان کے دور میں آئی ایس آئی کے زیر سایہ ہوئی ہے اور اسی کا تسلسل اب بھی چلا آرہا ہے۔ یہ ٹریننگ بھی مدارس کے ماحول میں نہیں ہوئی بلکہ ان کی تنظیم سازی اور لانچنگ کی راہ ہموار کرنے والوں نے ہی ان کی ٹریننگ کے سارے مراحل طے کرائے ہیں۔ پھرایک اور پہلو پر غور کرنابھی ضروری ہے کہ عالمی سطح پر القاعدہ کے جس نیٹ ورک کو مبینہ دہشت گردی کی سب سے بڑی علامت قرار دیا جاتا ہے، اس کے بیشتر ارکان یونیورسٹیوں اور کالجوں کے تعلیم یافتہ ہیں، لیکن ان کی وجہ سے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو انتہا پسندی کا سرچشمہ قرار نہیں دیا جاتا اسی طرح اگردینی مدارس کے تعلیم یافتہ حضرات کی کچھ تعداد اس عمل میں شریک ہے تو اس کی ذمہ داری دینی مدارس پر ڈال دینا بھی انصاف کی بات نہیں ہے۔
آپ عالمی حالات پر غور کریں یہی مسئلہ آپ کو تمام عالم اسلام میں نظر آئے گا۔ اگر یہ مسئلہ عراق ، شام، لیبیا اور مصر میں بھی موجود ہے تو سوال یہ ہے کہ وہاں پر کونسے مدارس ہیں جن کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہے؟۔ یہ مسئلہ اگر صرف پاکستان کا ہوتا تو ہمارا اسکو صرف لوکل یا علاقائی تناظر میں دیکھنا فائدہ مند ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے ۔یہ کچھ بین الاقوامی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے ۔ سامراجی طاقتیں دنیا کے نئے جغرافیے بنارہی ہیں، اسلامی ملکوں کو ڈی سٹیبلائز کیا جارہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسوقت پورا عالم اسلام اسی قسم کے حالات سے دوچار ہیں اور اسی قسم کی انارکی اور خانہ جنگی وہاں بھی پھیلی ہوئی ہے۔پاکستان اورچائنہ کا سی پیک پروجیکٹ پر پڑوسی ممالک کی بے چینی کس سے ڈھکی چھپی ہے۔؟ پاکستان میں شدت پسندی اور اس کے ذریعے مختلف طبقات کے درمیان کشمکش کا یہ ماحول بعض عالمی اور علاقائی قوتوں کی ضرورت ہے جس کے لیے وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ یہ مسلح شدت پسندی اور دہشت گردی کراچی میں قومیت اور زبان کے حوالے سے اپناکام دکھا چکی ہے۔ بلوچستان میں یہی ایجنڈا قومیت کے نام سے پیش رفت کررہا ہے۔ سوات اور وزیرستان میں اس نے شریعت کے نفاذ کاعنوان اختیار کیا ہے۔ سنی او ر شیعہ مسلح تصادم کے پیچھے یہی بیرونی مفادات کار فرما ہیں۔
جب کسی مسئلے میں عالمی قوتوں کے مفادات شامل ہوجائیں، عالمی قوتیں اس میں انوالو ہوجائیں اور ملکوں کے جھگڑے اور آس پڑوس کی جنگوں اور نظریات کے مسائل اس میں داخل ہوجائیں تو آپ اس علاقے کے لوگوں کی کسی ایک چیز کو ہی قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے ، ان لوگوں کی صرف مذہبی پسند ناپسند کو ہی سارے مسئلے کی جڑ قرار نہیں دیا جاسکتا ، وہاں یہ کہنا دانشمندی نہیں ہوگی کہ اس علاقے کے لوگوں کے دینی ادارے ہی اس سارے مسئلے کے ذمہ دار ہیں۔؟ یقینا بہت سے عناصر میں سے ایک عنصر مذہب کا بھی شامل کیا جاسکتا ہے ۔ جن کے اس مسئلے سے مفادات وابستہ ہیں انہوں نے جہاں اور بہت ساری چیزوں کو استعمال کیا ہے وہ اس چیز کو بھی استعمال کرسکتے ہیں ، لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس میں سارے لوگ صرف مذہب کے نام پر استعمال ہورہے ہو ں اور مذہب اور مذہبی ادارے ہی سارے مسئلے کے ذمہ دار ہوں ۔ہر شخص جانتا ہے کہ ہمارے اس سارے مسئلے میں عالمی قوتیں انوالو ہوچکی ہیں،انکی جانب سے فنڈنگ ہورہی ہے، انکی جانب سے ٹارگٹ دیے جارہے ہیں لیکن پھر بھی بڑی معصومیت کے ساتھ ہمیشہ اسکا سارا ملبہ ان لوگوں پر گرا دیا جاتا ہے جن کا طاقت کے اس کھیل میں کوئی حصہ یا کوئی کردار ہے ہی نہیں ۔
مزیدیہ بات سب کے علم میں ہے کہ برصغیر میں دینی مدارس کے موجودہ آزادانہ نظام کا آغاز ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد ہوا تھا اور ان کی تاریخ کم وبیش ڈیڑھ سو سال پر محیط ہے، جب کہ موجودہ شدت پسندی کی تنظیموں کی عمرربع صدی کے لگ بھگ ہے، اس لیے بھی مدارس کے ڈیڑھ سو سالہ پرامن کردار کو نظر انداز کر کے انھیں شدت پسندی اور انتہا پسندی کے موجودہ گروپوں کی تنظیم وتشکیل کاذمہ دار قرار دینا درست نہیں ہے۔
استفادہ تحاریر: مولانا زاہد الراشدی ، مولانا سید عدنان کاکا خیل صاحب