محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے جوابی بیانیے میں، سفرِ امریکا میں اور دیگر مواقع پر بکرات ومرات اس بات کا ذکر کیا ہے موجودہ دور میں مسلمانوں کی طرف سے جو ٹکراؤ اور شدت پسندی کی مہم جاری ہے، وہ نتیجہ ہے اس دینی فکر کا جو مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہے اور جدید تحریکیں اس سے اثر پاتی ہیں۔(او کمال قال) . اسی طرح جاویداحمد غامدی صاحب نے جنگ اخبار میں’ اسلام اور ریاست – ایک جوابی بیانہ’ کے نام سے اپنے کالم میں لکھا “اِس وقت جو صورت حال بعض انتہا پسند تنظیموں نے اپنے اقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے پوری دنیا میں پیدا کر دی ہے، یہ اُسی فکر کا مولود فساد ہے جو ہمارے مذہبی مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، اور جس کی تبلیغ اسلامی تحریکیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں شب و روز کرتی ہیں۔”غامدی صاحب کی فکر سے تعلق رکھنے والے احباب بھی چونکہ یہی بات دہراتے ہیں اور 12 اپریل 2017 کو شائع ہونے والے خورشید احمد ندیم صاحب کے کالم میں بھی یہی بات کہی گئی ہے، اس لیے اس دعوے میں پائے جانے والے ایک بنیادی علمی مغالطے پر توجہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔اس دعوے میں بدقسمتی سے جدید ٹکراؤ پر مبنی تحریکوں کے بیانیے اور مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب کی فکر کو بنیادی طور پر ایک ہی چیز کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو ایک غلط بات ہے اور شدید غلط فہمیوں کا سبب ہے۔ اس میں اصولی طور پر جو غلطی کارفرما ہے منطقی مغالطوں کی رو سے اس کا نام Hasty Generalization ہے جس میں کچھ ظاہری مشابہتوں کی وجہ سے مختلف چیزوں پر عمومی انداز میں ایک ہی حکم صادر کر دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے بنیادی چیز علتِ قتال ہے جو غیر مسلموں کے ساتھ قتال کو Justify کرتی ہے۔اسی کے ساتھ یہ تصور وابستہ ہے کہ آیا غیر مسلموں کے ساتھ مسلسل جنگ (Perpetual War) کی کیفیت میں رہنا کیا دینی لحاظ سے کوئی مطلوب شے ہے یا نہیں!یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا مدارس میں پڑھائی جانے والی روایتی فقہ میں اس قتال کی علت کوئی ایسی چیز قرار دی گئی ہے جس کے نتیجے میں غیر مسلموں کے ساتھ پر امن بقاے باہمی کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہ ہو، ان کے ساتھ مسلسل پیکار اور جنگ ہی اسلام کا مطمحِ نظر ہو، ان کے ساتھ کوئی معاہدۂ امن قابلِ قبول ہی نہ ہو اور ہمہ دم “گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زَن” کا ماحول پیدا کیے رکھنا اس فقہ کا مقصود و منتہا ہو؟
ان سوالات کا اجمالی جواب یہ ہے کہ “مدرسوں میں پڑھائی جانے والی فقہ” (اور خاص طور پر چوں کہ بات پاکستانی مدرسوں کے تناظر میں ہوتی ہے جہاں حنفی فقہ ہی نصاب کا حصہ ہے۔) میں ایسی کسی علت کا وجود نہیں ہے جس میں غیر مسلموں کے ساتھ مسلسل قتال اور جنگ کا ماحول بنائے رکھنا اسلام کے مطمحِ نظر کے طور پر سمجھایا جاتا ہو۔اس وقت پاکستان میں چوں کہ سب سے زیادہ الزام دیوبندی مدارس پر ہے اور دیوبندی مدارس فقہی اعتبار سے چوں کہ حنفی فقہ سے وابستہ ہیں، اس لیے حنفی فقہ کی اس سلسلے میں پوزیشن کا سامنے رہنا ضروری ہے۔مختلف متون اور شروح کو کھنگالے بغیر اس سلسلے میں حنفی پوزیشن کی نہایت عمدہ اور خوب صورت وضاحت کے لیے ممتاز ماہرِ قانون وفقہ پروفیسر مشتاق احمد صاحب کی عمدہ کتاب “جہاد، مزاحمت اور بغاوت” میں جو کچھ بیان کیا ہےوہ ہم جہاد کی علت کے بیان پر مشتمل اپنی تحاریر میں پیش کرچکے ہیں ۔
٭خوارج کی فقہ کا مدارس کی فقہ کے ساتھ تعلق -سانحہ پشاور کے تناظر میں:
جب پشاور کا سانحہ پیش آیا تو ڈاکٹر مشتاق صاحب نے اس کا ایک فقہی تجزیہ پیش کیا تھاجو ماہنامہ الشریعہ میں بھی شائع ہوا اور اب انکی کتاب ‘جہاد، مزاحمت اور بغاوت ‘ میں بھی شامل ہے۔ اس میں انہوں نے اس سوال کو زیر بحث لایا کہکیا واقعتاً اسلامی قانون میں کچھ ایسے اصول و ضوابط ہیں جن کی رو سے یہ کاروائی مستحسن ،یا کم سے کم جائز تھی؟اس تجزیے کا خلاصہ پیش ہے۔
قانونی حیثیت کا تعین :مجرم ،باغی یا خارجی؟
قانونی تجزیہ کے لئے سب سے پہلے اس بات کا تعین کرنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں پر اسلامی قانون کے کس حصہ کا اطلاق ہوتا ہے ؟کیا یہ دیگر مفسدین اور مجرموں کی طرح ہیں جن پر فوجداری قانون کے تحت مقدمہ چلایا جاتا ہے اور پھر جرم ثابت ہونے پر ان کو سزا دی جاتی ہے؟یا یہ باغی ہیں جن پر جنگ کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے ؟ڈاکووں کے گروہ کے پاس بھی طاقت ہوتی ہے ،ایک مضبوط جتھا ہوتا ہے اور مقابلہ کی صلاحیت ہوتی ہے؛یہی کچھ باغیوں کے پاس بھی ہوتا ہے۔تاہم عام مفسدین اور باغیوں میں فقہائے احناف اس طرح فرق کرتے ہیں کہ باغیوں کے پاس ’’تاویل ‘‘بھی ہوتی ہے،یعنی وہ خود کوبرسرحق اور حکمران کو ناجائز سمجھتے ہیں اور اپنے تئیں باطل کوحق کے ذریعے تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔قانونی اصطلاح میں بات اس طرح کی جاتی ہے کہ ڈاکووں کے پاس صرف ’’منعۃ‘‘ ہوتا ہے جبکہ باغیوں کے پاس ’’منعۃ ‘‘کے علاوہ تاویل بھی ہوتی ہے ۔یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کی تاویل صحیح ہو۔کیا حکمران مسلمانوں پر حکمرانی کا حق کھو بیٹھا ہے یا نہیں ؟اس معاملہ میں اختلاف رائے ممکن ہے اور اسی وجہ سے بعض کے نزدیک باغیوں کی تاویل صحیح اور بعض کے نزدیک فاسد ہو گی۔لیکن بہر صورت ان پر بغاوت کے قانون کا اطلاق ہی ہو گا۔
دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ بغاوت کی صورت میں باغی اور حکمران دونوں’’ مومن ‘‘ہی رہتے ہیں اور اسی لئے فریقین پر’’کفار‘‘ سے لڑنے کے دوران میں عائد ہونے والی پابندیوں کے علاوہ بعض مزید پابندیاں بھی عائد ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر مسلمان کا مال’’ غنیمت ‘‘ نہیں قرار دیا جا سکتا ،نہ ہی مسلمان عورت پر’’ ملک یمین ‘‘کا اطلاق ہوتا ہے ۔اس لئے اگر باغیوں کا موقف یہ ہو کہ ان کے مخالفین کا خون بہانا ان کے لئے ویسے ہی حلال ہے جیسے کفار کا ہے،یا وہ ان کے مخالفین پر غنیمت یا ملک یمین کے حکام کا اطلاق ہوتا ہے،تو ایسی صورت میں وہ محض باغی نہیں بلکہ’’خارجی کہلاتے ہیں ۔
پس قانون توڑنے والے کسی گروہ کے پاس محض’’ منعۃ‘‘ ہو تو وہ ڈاکو ہیں اور ان پر فوجداری قانون کا اطلاق ہوتا ہے ؛اگر اس ’’منعۃ ‘‘کے علاوہ ان کے پاس تاویل بھی ہو تو وہ باغی ہیں اوران پر جنگ کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے ؛اور اگر ’’منعۃ ‘‘اور تاویل کے علاو ہ یہ گروہ اپنے مخالفین کی تکفیر بھی کرتا ہو تو پھر یہ خارجی ہیں ۔خوارج پر بھی جنگ کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے لیکن ان کا مسئلہ صرف ’’عملی ‘‘ نہیں بلکہ ’’اعتقادی‘‘ بھی ہوتا ہے۔
حملہ آور جس گروہ کا حصہ تھے ،اس کے پاس’’ منعۃ ‘‘ہے ،یہ حقیقت تو سالہا سال سے تسلیم شدہ ہے ۔اس گروہ نے اپنے برسر حق ہونے کے لئے تاویل کا سہارا لیا ہے،یہ بات بھی کافی عرصہ سے ، کم از اکم اہل علم کے لئے ،ایک معلوم حقیقت کی حیثیت رکھتی ہے۔اس لئے اس گروہ کی حیثیت باغیوں کی ہے ، یہ بات اہل علم کے لئے واضح تھی ۔سانحہء پشاور نے ایک اور حقیقت واشگاف کر دی ہے جس سے کئی لوگ اب تک نظریں چرا رہے تھے ۔وہ حقیقت یہ ہے کہ اس گروہ کے نزدیک ان کے مخالفین،بلکہ وہ سبھی لوگ جو اس گروہ میں شامل نہیں ہیں خواہ اس گروہ کی مخالفت بھی نہ کریں ،’’کافر‘‘ ہیں ۔جیسا کہ آگے واضح کیا جائے گا کہ اس گروہ کا طرز عمل اور اس طرز عمل کے جواز کے لئے ان کا استدلال دونوں ہی یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں کر دیتے ہیں کہ اس گروہ سے باہر کے افراد اس گروہ کے نزدیک مسلمان نہیں رہے۔پس اس گروہ کی حیثیت صرف باغیوں کی نہیں رہی ،بلکہ ان پر خوارج کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔
٭کفار کے ساتھ جنگ کے حدود و قیود
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا کفار کے ساتھ جنگ میں ’’سب کچھ‘‘ جائز ہوتا ہے؟یا اس میں جائز و ناجائز کے کچھ پیمانے مقرر کئے گئے ہیں ؟اصولی طور پر تو یہ گروہ بھی “سب کچھ” کے جواز کا قائل نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہماری فقہ کی رو سے ناجائز ہے کیا وہ ان کی فقہ کی رو سے بھی نا جائز ہے؟ اہل علم کے لئے یہی اصل سوال ہے۔ اسی سوال کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ اس گروہ کی اپنی ایک مخصوص فقہ ہے جو کم سے کم فقہ حنفی سے یکسر مختلف ہے۔
مثال کے طور پر فقہ حنفی کی رو سے عین حالت جنگ میں بھی کفار کے بچوں کا قتل ناجائز ہے، الا یہ کہ بچہ حملہ کرے اور دفاع کے لیے سوائے اس کے قتل کے اور کوئی راستہ نہ ہو۔ اما محمد بن الحسن الشیبانی نے السیر الصغیر کی ابتداء اس مشہور روریت سے کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جنگ پر روانہ ہونے سے قبل ہدایات دیتے ہیں اور جسے فقہائے احناف جنگ کے قانون کے لیے گویا اصل اصول کے طور پر مانتے ہیں۔ اس روایت میں ایک ہدایت یہ مذکور ہوئی ہے: ولا تقتلوا ولیدا(اور کسی بھی بچے کو قتل نہ کرو)۔فقہائے احناف کا دوسرا اصول ہے کہ نفی کے سیاق میں نکرہ آئے توہو عموم کے لیے ہے۔ اس کے ساتھ فقہائے احناف کا ایک دوسرا اصول ملائیے کہ عام اپنی دلالت پر قطعی ہوتا ہے اور اس کی تخصیص کے لئے قطعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔
تاہم اس گروہ کے نزدیک جنگ میں کفار کے بچوں کا قتل جائز ہے اور استدلال اس روایت سے کرتے ہیں جس میں آیا ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں کفار کے بچوں کے قتل ہونے کے بارے میں فرمایا: ھم منھم( وہ ان میں سے ہیں)۔ اب حنفی فقہا کے نزدیک پہلی روایت اصل اصول کی حیثیت رکھتی ہے اور نیز وہ دیگر آیات، احادیث اور اسلامی قانون کے قواعد عامہ کی رعایت ضروری سمجھتے ہیں، اس لیے وہ اس حدیث کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ اس میں بچوں کو نشانہ بنانے کا حکم نہیں دیاگیا بلکہ ان تک پہنچنے والے غیر ارادی نقصان کو اضطرارا برداشت کیا گیا ہے۔ تاہم اس گروہ کی فقہ یہ نہیں کہتی، بلکہ وہ ھم منھم کا مفہوم کچھ اور متعین کرتی ہے اور اسی کو اصل اصول مانتی ہے۔
اسی طرح فقہ حنفی کی رو سے بدلے کی کاررورائی میں، یا معاملۃ بالمثل کے نام پر، بھی بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنانا قطعا ناجائز ہے۔ امام شیبانی نے یہ جزئیہ کفار کے ساتھ معاہدات کے ضمن میں بھی ذکر کیا ہے اور باغیوں کے ساتھ معاہدات کے باب میں بھی کہ اگر ان کے ساتھ معاہدے میں طے پایا کہ فریقین ایک دوسرے کو اپنے بعض افراد ضامن کے طور پر دے دیں گے اور اگر ایک فریق نے دوسرے کے ضامنوں کو قتل کیا تو دوسرا فریق بھی جوابا اس کے ضامنوں کو قتل کرسکے گا، تب بھی ہمارے لیے یہ ناجائز ہوگا۔ امام سرخسی نے عباسی خلیفہ ابوجعفر المنصور کے ایک اسی طرح کے معاہدے کا ذکر بھی کیا ہے جس کے بعد دوسرے فریق نے مسلمانوں کے ضامنوں کو قتل کردیا تھا اور منصور نے اس فریق کے ضامنوں کے قتل کے جواز کے بارے میں فقہا سے رہنمائی طلب کی۔ امام ابو حنیفہ نے واضح کیا کہ یہ شرط ہی شریعت کے خلاف تھی اور یہ کہ ایک شخص کے جرم کی سزا دوسرے شخص کو نہیں دی جاسکتی۔ تاہم اس گروہ کی فقہ کی رو سے اگر ایک فریق دوسرے کے بچوں کو نشانہ بنائے تو دوسرے فریق کو بھی پہلے فریق کے بچوں کو نشانہ بنانے کی اجازت مل جاتی ہے اور اس نوعیت کی کاررورائی کو یہ گروہ برابر کا بدلہ، قصاص اور معاملہ بالمثل قرار دیتا ہے۔
پھر فقہ حنفی کی رو سے تو کفار میں بھی وہ تمام لوگ، بشمول بچوں، عورتوں، بوڑھوں، معزوروں، کسانوں اور تاجروں کے، جو جنگ میں “براہ راست حصہ نہیں لیتے”، غیر مقاتلین ہیں اور ان کو جنگ میں عمدا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اسی طرح فقہ حنفی مباشر اور متسبب کے حکم میں فرق کرتی ہے اور فعل کو مباشر کی طرف ہی منسوب کرتی ہے، الایہ کہ مباشر کی حیثیت متسبب کے ہاتھ میں محض ایک آلے کی سی ہو۔ نیز فقہ حنفی فعل کو قریب ترین اور قوی ترین سبب کی طرف منسوب کرتی ہے۔ ان قواعد کا لازمی نتیجہ ہے کہ فقہ حنفی کی رو سے کفار کا ہر “عام شہری” اور “ٹیکس ادا کرنے والا” مقاتل نہیں ہوسکتا بلکہ صرف وہی لوگ مقاتل ٹھہرتے ہیں جو جنگ میں براہ راست حصہ لیں۔ تاہم اس گروہ کی فقہ کی رو سے ہر شہری، یہاں تک کہ سکول میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں بھی محض اس بنا پر مقاتل قرار دیے جاتے ہیں کہ وہ طبعی بلوغت کی عمر تک پہنچ چکے تھے۔
اس گروہ کی فقہ کی رو سے جنگ میں ہر وہ کام جائز، بلکہ مستحسن اور باعث ثواب ہے، جس سے دشمن کو تکلیف پہنچتی ہو، جو نکایۃ للعدو کیا جائے، اور اس کے جواز کے لیے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چنانچہ اس گروہ کے نزدیک عام طور پر بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنانے سے گریز بہتر ہے لیکن اگر اس طرح دشمن کو دلی اذیت ملتی ہوتو یہ کام باعث ثواب بن جاتاہے۔ اس کے برعکس فقہ حنفی کی رو سے شریعت کے حرام کردہ بعض کام جنگ میں بھی، اور اضطرار اور اکراہ تام کی صورت میں بھی، بدستور حرام ہی رہتے ہیں۔
چنانچہ حنفی فقہا کا موقف یہ ہے کہ خودکشی اضطرار کی صورت میں بھی ناجائز ہی ہوتی ہے اور یہ کہ شہید صرف اسی شخص کو کہا جائے گا جس کی موت دشمن کے فعل سے واقع ہو یہاں تک کہ اگر کسی مسلمان کے سینے میں دشمن نے نیزہ گھونپ دیا ہو اس پر اس وقت بھی یہ سوچنا لازم ہے کہ آگے بڑھنے کی صورت میں کہیں وہ خودکشی کا مرتکب تو نہیں ہو جائے گا، جبکہ اس گروہ کی فقہ کی رو سے دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے، یا خود کو گرفتاری سے بچانے کے لیے، خودکشی نہ صرف جائز بلکہ شہادت کی اعلٰی قسم ہے ۔
اس گروہ کی فقہ کی روسے دشمن کو اذیت دینے کے لیے عورتوں کو زندہ جلانے کی سزا دی جاسکتی ہے، جبکہ حنفی فقہا کے نزدیک آگ کے ذریعے جلانے کی سزا صرف آگ کا پروردگار ہی دے سکتا ہے ۔
اس گروہ کی فقہ کی رو سے اگر کسی شخص کی جان کی حرمت اور حلت میں شبہ ہوتو حلت کو ترجیح حاصل ہے، جبکہ فقہ حنفی کی روسے ایسی صورت میں حرمت کو ترجیح حاصل ہے۔
٭یہ چند خاص اور مسائل میں کیا گیا موازنہ ہے اس سے واضح ہے کہ ان تشددپسند وں کی اپنی ایک فقہ ہے اسکا کسی مکتبہ فکر یا مدارس کی فقہ سے کوئی تعلق نہیں ۔(تفصیلی جائزہ) مدارس کو انکا یا انکی دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرانا صریح الزام اور علمی بددیانتی ہے۔ عام سمجھ آنے والی بات ہے اگر مدارس ہی شدت پسندی کی وجہ ہیں تو یہ تو برسہا برس سے اس خطے میں موجود ہیں ، شدت پسندی آج کیوں سامنے آرہی ہے اور وہ بھی اکیسویں صدی کی ابتدا میں ْ؟؟ دوسری بات یہ کہ اگر فقہ ہی شدت پسندی کی وجہ ہےتو یہ فقہ تو پڑوسی ملک انڈیامیں ہمارے ہاں سے زیادہ ٹھیٹھ انداز میں پڑھائی جارہی ہے وہاں فقہ کایہ بیج شدت پسندی کے برگ وبار کیوں نہیں لاتا؟؟ پھر اگر فقہ ہی جدید شدت پسندی کی ذمہ دار ہے تو بتایا جائے کہ جماعۃ التکفیر و الھجرہ کی بنیاد رکھنے میں کون سے مدرسے کے فقہاء شریک تھے ؟جدید بیانیے والے کبھی کہتے ہیں دہشتگردی کے پیچھےمودودی و قطب ہیں، کبھی کہتے ہیں مدارس ہیں، کبھی کہتے ہیں ابن تیمیہ و ابن حنبل ہیں۔ رینڈ کارپوریشن صاف صاف کہتی ہے کہ اس کے پیچھے قرآن ہے۔ اگر ہم نے دہشت گردی کے تمام تہہ در تہہ عوامل سے صرف نظر کر کے ایک ابیض و اسود کی سی سہل کوشی کی خاطر اس کو صرف اور صرف چند نظری داخلی محرکات کے سر ہی منڈنا ہے تو پھر ’’روایتی بیانیے‘‘ سے بہت آسان ہے کہ اس کو قرآن ہی طرف منسوب کر دیا جائے۔