سورۃالتوبہ کی ابتدائی پانچ آیات کی تفسیرواقعات کی روشنی میں

بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ Ǻ۝ۭفَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مُخْزِي الْكٰفِرِيْنَ Ą۝وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْۗءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ڏ وَرَسُوْلُهٗ ۭ فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۭ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِــيْمٍ Ǽ۝ۙاِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ Ć۝فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ĉ۝

آیات ترجمہ : یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دستبرداری کا اعلان ہے ان تمام مشرکین کے خلاف جن سے تم نے (بلاتعین مدت)معاہدہ کیا ہوا ہے۔ (١)لہذا (اے مشرکو) تمہیں چار مہینے تک اجازت ہے کہ تم (عرب کی) سرزمین میں آزادی سے گھومو پھرو، اور یہ بات جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے، اور یہ بات بھی کہ اللہ اب کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔ (2) اور حج اکبر کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمام انسانوں کے لیے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ بھی مشرکین (کو امن دینے ) سے دست بردار ہوچکا ہے، اور اس کا رسول بھی۔ اب (اے مشرکو) اگر تم توبہ کرلو تو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہوگا، اور اگر تم نے (اب بھی) منہ موڑے رکھا تو یاد رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے، اور تمام کافروں کو ایک دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دو ۔ (3) البتہ (مسلمانو) جن مشرکین سے تم نے معاہدہ کیا، پھر ان لوگوں نے تمہارے ساتھ عہد میں کوئی کوتاہی نہیں کی، اور تمہارے خلاف کسی کی مدد بھی نہیں کی، تو ان کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے کی مدت کو پورا کرو۔ بیشک اللہ احتیاط کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (4) چناچہ جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو ان مشرکین کو (جنہوں نے تمہارے ساتھ بدعہدی کی تھی) جہاں بھی پاؤ قتل کر ڈالو، اور انہیں پکڑو، انہیں گھیرو، اور انہیں پکڑنے کے لیے ہر گھات کی جگہ تاک لگا کر بیٹھو۔ ہاں اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (5)

سورة توبہ کی آیات مذکورہ کو پورے طور پر سمجھنے کے لئے چند واقعات کا جاننا ضروری ہے جن کے سبب سے یہ آیات نازل ہوئی ہیں اس لئے پہلے ان واقعات کی مختصر تفصیل لکھی جاتی ہے۔

(١) پوری سورة توبہ میں چند غزوات اور ان سے متعلقہ واقعات کا اور ان کے ضمن میں بہت سے احکام و مسائل کا بیان ہوا ہے مثلا تمام قبائل عرب سے معاہدات کا ختم کردینا فتح مکہ، غزوہ حنین، غزوہ تبوک۔ ان واقعات میں فتح مکہ سب سے پہلے ٨ ہجری میں پھر غزوہ حنین اسی سال میں پھر غزوہ تبوک رجب ٩ ہجری میں پھر تمام قبائل عرب سے معاہدات ختم کرنے کا اعلان ذی الحجہ ٩ ہجری میں ہوا۔

٢) نبذ عہد یعنی معاہدات ختم کردینے کے متعلق جو مضامین ان آیات میں مذکور ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ٦ ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرہ کا قصد فرمایا اور قریش مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا اور مقام حدیبیہ میں ان سے صلح ہوئی۔ اس صلح کی میعاد روح المعانی کی نقل کے مطابق دس سال کی تھی۔ مکہ میں علاوہ قریش کے دوسرے قبائل بھی تھے معاہدہ صلح کی ایک دفعہ یہ بھی رکھی گئی کہ قریش کے علاوہ دوسرے قبائل میں جس کا جی چاہے وہ قریش کا حلیف اور ساتھی بن جائے اور جس کا جی چاہے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حلیف ہو کر آپ کے ساتھ ہوجائے۔ چناچہ قبیلہ خزاعہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حلیف بننا پسند کیا اور آپ کے ساتھ ہوگئے اور قبیلہ بنی بکر نے قریش کے ساتھ ہونا اختیار کرلیا۔ اس معاہدہ کی رو سے یہ لازمی تھا کہ دس سال کے اندر نہ باہمی جنگ ہوگی نہ کسی جنگ کرنے والے کو کسی جانب سے کوئی مدد دی جائے گی اور جو قبیلہ کسی فریق کا حلیف ہے وہ بھی اسی کے حکم میں سمجھا جائے گا کہ اس پر حملہ کرنا یا حملہ آور کو مدد دینا معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔

یہ معاہدہ ٦ ہجری میں ہوا ٧ ہجری میں معاہدہ کے مطابق رسول اللہ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مع صحابہ کرام کے فوت شدہ عمرہ کی قضاء کرنے کے لئے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور تین روز قیام کرکے حسب معاہدہ واپس تشریف لے آئے۔ اس وقت تک کسی فریق کی طرف سے معاہدہ صلح کی کوئی خلاف ورزی نہ تھی۔

اس کے بعد پانچ چھ ماہ گزرے تھے کہ قبیلہ بنی بکر نے قبیلہ خزاعہ پر رات کے وقت چھاپہ مارا اور قریش نے بھی یہ سمجھ کر کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت دور ہیں اور رات کا وقت ہے آپ تک واقعہ کی تفصیلات پہنچنا مشکل ہے اس حملہ میں بنی بکر کو ہتھیاروں اور اپنے جوانوں سے امداد دی۔ان واقعات اور حالات کے مطابق جن کو بالآخر قریش نے بھی تسلیم کرلیا وہ معاہدہ صلح ٹوٹ گیا جو حدیبیہ میں دس سال کے التواء جنگ کا ہوا تھا۔

قبیلہ خزاعہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف تھے انہوں نے اس واقعہ کی اطلاع آپ کو دے دی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کی عہد شکنی کی خبر پاکر قریش کے خلاف جنگ کی خفیہ تیاری شروع کردی۔قریش کو بدر و اُحُد اور احزاب کے معرکوں میں مسلمانوں کی غیبی اور ربانی طاقت کا اندازہ ہو کر اپنی قوت و طاقت کا نشہ اتر چکا تھا اس وقت عہد شکنی کرنے کے بعد مسلمانوں کی طرف سے جنگ کا خطرہ تو پیدا ہو ہی چکا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع پہنچنے کے بعد مکمل خاموشی سے یہ خطرہ اور زیادہ قوی ہوگیا۔ مجبور ہو کر ابو سفیان کو مدینہ بھیجا کہ وہ خودجا کر حالات کا اندازہ لگائیں اور اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے جنگ کی تحریک کا اندازہ ہو تو پچھلے واقعہ پر عذر و معذرت کرکے آئندہ کے لئے تجدید معاہدہ کرلیں۔ ابو سفیان کو مدینہ پہنچ کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنگی تیاریوں کا کچھ علم ہوا تو پریشان ہو کر اکابر صحابہ میں سے ایک ایک کے پاس گئے کہ وہ سفارش کرکے معاہدہ کی تجدید کرادیں مگر سب نے ان کے سابقہ اور لاحقہ تلخ معاملات کے سبب انکار کردیا۔ اور ابو سفیان ناکام واپس آئے۔ قریش مکہ پر خوف و ہراس طاری ہوگیا۔ ادھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسب روایت بدایتہ و ابن کثیر ١٠ رمضان ٨ ہجری کو مدینہ طیبہ سے صحابہ کرام کی بڑی جمعیت کے ساتھ مکہ پر حملہ کرنے کے قصد سے کوچ فرمایا۔ اور بالآخر مکہ مکرمہ فتح ہوگیا۔

فتح کے وقت بہت سے رؤ ساء قریش جو پہلے سے اسلام کی حقانیت کا یقین رکھتے تھے مگر برادری کے خوف سے اظہار نہ کرسکتے تھے اب ان کو موقع مل گیا وہ مشرف باسلام ہوگئے۔ اور جو اس وقت بھی اپنے قدیم مذہب کفر پر جمے رہے ان کو بھی بجز معدودے چند افراد کے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو جان و مال کا امان دے کر پیغمبرانہ اور معجزانہ اخلاق کا وہ ثبوت دیا جس کا دوسرے لوگوں سے تصور بھی نہیں ہوسکتا ان کی تمام گذشتہ عداوتوں اور مظالم اور بےرحمی کے واقعات کو یکسر نظر انداز فرما کر ارشاد فرمایا کہ میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے اس وقت کہی تھی جب کہ وہ والدین کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) کے پاس مصر پہنچے تھے۔ (آیت) لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۔ یعنی تمہارے ظلم و جور کا انتقام لینا یا کوئی سزا دینا تو کیا ہم تم کو ملامت کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

٭مشرکین کی ریشہ دوانیاں

مکہ جو اب تک کفر و شرک کا ایک ناقابل تسخیر قلعہ بنا ہوا تھا سنہ ٨ ھ میں فتح ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے بےخانماں مہاجروں اور انصار نے پھر حرم خلیل میں توحید کا پرچم لہرا دیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ عرب کے بیشتر قبائل خود بخود آکر مشرف باسلام ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ اسلام کا اثر و نفوذ جزیرہ عرب کی سرحدوں کو عبور کرکے دوسرے ہمسایہ ممالک میں بھی محسوس ہونے لگا۔ عرب خصوصاً حجاز کا بےآب وگیاہ خطہ کسی فاتح کے لیے اپنے اندر کوئی دلکشی نہیں رکھتا تھا۔ اسی لیے دائیں بائیں دو جابر سلطنتیں ہونے کے باوجود کسی نے اس کو زیر نگین کرنے کی خواہش ہی نہیں کی۔ اسی وجہ سے یہاں کے داخلی حالات سے بھی انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ حضور رحمت عالمیاں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے جو انقلاب زوپذیر ہو رہا تھا اس کی اطلاعیں وقتا فوقتا قیصر روم تک پہنچتی تھیں لیکن اس نے کوئی توجہ نہ دی کیونکہ اسے یقین تھا کہ یہ ایک داخلی معاملہ ہے اور اس میں اتنی تاب نہیں کہ کسی دن اس کے لئے بھی خطرے کا باعث بن سکے۔ لیکن اسی اثناء میں چند واقعات ایسے رونما ہوئے جنہوں نے اسے اس نئی طاقت کی اہمیت کا احساس دلا دیا۔

حضور رحمت عالمیان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ کوشش فرمائی کہ تمام غیر مسلم قوموں کے ساتھ صلح و سلامتی سے رہیں۔ اسی مقصد کے لیے ان کے ساتھ صلح کے معاہدے کیے گئے۔ لیکن فریق ثانی نے ان کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اور جب کبھی موقع ملا عہد شکنی کردی۔ جیسے پہلے کئی بار مذکور ہوا کہ حضور کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرب کے تمام قبائل کے ساتھ امن اور دوستی کے معاہدے کیے لیکن مسلمانوں کی ظاہری کمزوری کے پیش نظر وہ ان معاہدوں کا احترام شاذ و نادر ہی ملحوظ رکھا کرتے اور جب کبھی انہیں موقع ملتا مسلمانوں کو زک پہنچانے سے گریز نہ کرتے۔ اب جبکہ حضور تبوک کے سفر پر روانہ ہوئے جو مدینہ طیبہ سے سینکڑوں میل دور تھا اور قیصر کی فوج سے بنردآزما ہونے کا ارادہ تھا تو شرک و کفر کے پرستاروں کے ہاں گھی کے چراغ جلنے لگے۔ انہیں یقین تھا کہ قیصر مسلمانوں کو پیس کر رکھ دے گا اور اب مسلمان ان کی عہد شکنی کے متعلق ان سے باز پرس نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے طرح طرح کی جھوٹی افوا ہیں پھیلانے لگے اور ہر ممکن ذریعہ سے عہد شکنی کرنے لگے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ حضور اپنے غلاموں کے ہمراہ مظفر ومنصور واپس تشریف لائے۔ اب فیصلہ طلب امریہ تھا کہ کیا ان مارہائے آستین کو کھلی چھٹی ملی رہے کہ جس وقت موقع دیکھیں اسلام دین اور اسلامی ریاست کو ڈستے رہیں۔ جب کبھی مسلمان کسی بیرونی دشمن کی طرف متوجتہ ہوں تو پیٹھ میں خنجر پیوست کردیں۔ اس لیے تبوک سے واپسی کے بعد جب ذیقعد سنہ ٩ ھ میں مسلمانوں کا قافلہ سفر حج پر روانہ ہوچکا تو یہ آیات نازل ہوئیں۔

٭فتح مکہ کے وقت مشرکین کی چار قسمیں اور ان کے احکام :

بہرحال اس وقت مکہ پر مسلمانوں کا مکمل قبضہ ہوگیا مکہ اور اطراف مکہ میں رہنے والے غیر مسلموں کو جان و مال کا امان دے دیا گیا۔ لیکن اس وقت ان غیر مسلموں کے مختلف حالات تھے۔

1. ایک قسم تو وہ لوگ تھے جن سے حدیبیہ میں صلح کا معاہدہ ہوا اور انہوں نے خود اس کو توڑ دیا اور وہی فتح مکہ کا سبب ہوا۔

2. دوسرے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن سے صلح کا معاہدہ کسی خاص میعاد کے لئے کیا گیا اور وہ اس معاہدہ پر قائم رہے جیسے بنی کنانہ کے دو قبیلے بنی ضمرہ اور بنی مدلج جن سے ایک مدت کے لئے صلح ہوئی تھی اور سورة براءت نازل ہونے کے وقت بقول خازن ان کی میعاد صلح کے نو مہینے باقی تھے۔

3. تیسرے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن سے معاہدہ صلح بغیر تعیین مدت کے ہوا تھا۔

4. چوتھے وہ لوگ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ تھا۔

فتح مکہ سے پہلے جتنے مشرکین یا اہل کتاب سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدات کئے ان سب کا یہ تلخ تجربہ مسلسل ہوتا رہا کہ انھوں نے خفیہ اور علانیہ عہد شکنی کی اور دشمنوں سے سازش کرکے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی مقدور بھر پوری کوششیں کیں۔ اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مسلسل تجربہ اور اشارات الٰہیہ کے ماتحت یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ آئندہ ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی معاہدہ صلح نہ کیا جائے گااور جزیرة العرب کو ایک اسلامی قلعہ کی حیثیت سے صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص کردیا جائے گا جس کا مقتضی یہ تھا کہ مکہ اور جزیرة العرب پر اقتدار حاصل ہوتے ہی اعلان کردیا جاتا کہ غیر مسلم یہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں۔ لیکن اسلام کے اصول عدل و انصاف اور رحیمانہ سلوک اور رحمۃ للعالمین کی رحمت عامہ کے ماتحت بلا مہلت کے ایسا کرنا مناسب نہ تھا۔ اس لئے سورة براءت کے شروع میں ان چاروں قسم کی غیر مسلم جماعتوں کے جدا جدا احکام نازل ہوئے۔

پہلی جماعت جو قریش مکہ کی تھی جنہوں نے میثاق حدیبیہ کو خود توڑ دیا تھا (اور کفر پر قائم تھے)اب یہ کسی مزید مہلت کے مستحق نہ تھے مگر چونکہ یہ زمانہ اشہر حرم کا زمانہ تھا جن میں جنگ و قتال منجانب اللہ ممنوع تھا اس لئے ان کے متعلق تو وہ حکم آیا جو سورة توبہ کی پانچویں آیت میں مذکور ہے (آیت) فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ ، جس کا حاصل یہ تھا کہ ان لوگوں نے عہد شکنی کرکے اپنا کوئی حق باقی نہیں چھوڑا مگر اشھر حرم کا احترام بہرحال ضروری ہے اس لئے اشھر حرم ختم ہوتے ہی یا وہ جزیرة العرب سے نکل جائیں یا مسلمان ہوجائیں ورنہ ان سے جنگ کی جائے۔

اور دوسری جماعت جن سے کسی خاص میعاد کے لئے معاہدہ صلح کیا گیا اور وہ اس پر قائم رہے ان کا حکم سورة توبہ کی چوتھی آیت میں یہ آیا۔ (آیت) اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ ۔ یعنی وہ مشرک لوگ جن سے تم نے معاہدہ صلح کرلیا پھر انہوں نے معاہدہ پر قائم رہنے میں کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے مقابلہ میں تمہارے کسی دشمن کی مدد کی تو تم ان کے معاہدہ کو اس کی مدت تک پورا کردو کیونکہ اللہ تعالیٰ احتیاط رکھنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہ حکم بنو ضمرہ اور بنو مدلج کا تھا جس کی رو سے ان کو نو مہینے کی مہلت مل گئی۔

اور تیسری اور چوتھی دونوں جماعتوں کا ایک ہی حکم آیا جو سورة توبہ کی پہلی اور دوسری آیت میں مذکور ہے۔ (آیت) بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ۝ۭفَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مُخْزِي الْكٰفِرِيْنَ ۔ یعنی اعلان دست برداری اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے ہے ان مشرکین کے لئے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا سو تم لوگ اس سرزمین میں چار مہینے چل پھر لو۔ اور یہ جان رکھو کہ تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے اور یہ کہ بیشک اللہ تعالیٰ کافروں کو رسوا کریں گے۔غرض پہلی دوسری آیتوں کی رو سے ان سب لوگوں کو جن سے بلا تعیین مدت کوئی معاہدہ تھا یا جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ تھا چار مہینے کی مہلت مل گئی۔

اور چوتھی آیت کی رو سے ان لوگوں کو تا اختتام معاہدہ مہلت مل گئی جن کے ساتھ کسی خاص میعاد کا معاہدہ تھا اور پانچویں آیت سے مشرکین مکہ کو اشھر حرم ختم ہونے تک مہلت مل گئی۔

٭کفار سے معاہدات ختم ہوجانے پر بھی ان کو مہلت دینے کا کریمانہ سلوک :

ان احکام کا نفاذ اور مہلت کا شروع اس وقت سے تجویز ہوا جبکہ ان احکام کا اعلان تمام عرب میں ہوجائے۔ اس اعلان عام کے لئے یہ انتظام کیا گیا کہ ٩ ہجری کے ایام حج میں منیٰ و عرفات کے عام اجتماعات میں اس کا اعلان کیا جائے جس کا ذکر سورة توبہ کی تیسری آیت میں اس طرح آیا (آیت) وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْۗءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ڏ وَرَسُوْلُهٗ ۭ فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۭ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِــيْمٍ ۔ یعنی اعلان عام ہے عام لوگوں کے سامنے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑے حج کی تاریخوں میں اس بات کا کہ اللہ اور اس کا رسول دونوں دست بردار ہوتے ہیں ان مشرکین سے پھر اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ اور اگر تم نے اعراض کیا تو یہ سمجھ رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے اور ان کافروں کو ایک دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے۔

چنانچہ اس حکم ربانی کی تعمیل کے لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٩ ہجری کے حج میں حضرت صدیق اکبر اور علی مرتضی (رض) کو مکہ مکرمہ بھیج کر میدان عرفات اور منٰی میں جہاں تمام قبائل عرب کا اجتماع تھا یہ اعلان کرادیا اور یہ بھی ظاہر تھا کہ اس عظیم الشان مجمع کی معرفت پورے عرب میں میں اس حکم کا مشتہر ہوجانا لازمی تھا۔ پھر احتیاطًا حضرت علی کی معرفت یمن میں بالتخصیص اس کا اعلان کرادیا۔

اس اعلان عام کے بعد صورت حال یہ ہوگئی کہ پہلی جماعت یعنی مشرکین مکہ کو اشھر حرم کے خاتمہ یعنی محرم ١٠ ہجری کے ختم تک اور دوسری جماعت کو رمضان ١٠ ہجری تک اور تیسری چوتھی جماعتوں کو ١٠ ربیع الثانی ١٠ ہجری تک حدود سے خارج ہوجانا چاہئے اور جو اس کی خلاف ورزی کرے وہ مستحق قتال ہے۔ اس طرح اگلے سال کے زمانہ حج تک کوئی کافر داخل حدود نہ رہنے پائے گا جس کا ذکر سورة توبہ کی اٹھائیسویں آیت میں آئے گا جس میں ارشاد ہے (آیت) فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا۔ یعنی یہ لوگ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس نہ جاسکیں گے۔ اور حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ا رشاد’ لا یحجن بعد العام مشرک’ کا یہی مطلب ہے۔ سورة توبہ کی ابتدائی پانچ آیتوں کی تفسیر واقعات کی روشنی میں سامنے آچکی۔

٭مذکورہ پانچ آیات سے متعلق چند مسائل اور فوائد :

اول یہ کہ فتح مکہ کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ اور دوسرے دشمن قبائل کے ساتھ جو معاملہ عفو و درگزر اور رحم و کرم کا فرمایا اس نے عملی طور پر مسلمانوں کو یہ اخلاقی درس دیا کہ جب تمہارا کوئی دشمن تمہارے قابو میں آجائے اور تمھاے سامنے عاجز ہوجائے تو اس سے گذشتہ عداوتوں اور ایذاؤں کا انتقام نہ لو بلکہ عفو و کرم سے کام لے کر اسلامی اخلاق کا ثبوت دو ۔

(٢) دوسرا مسئلہ جو آیات مذکورہ سے سمجھا گیا یہ ہے کہ عفو و کرم کے یہ معنی نہیں کہ دشمنوں کے شر سے اپنی حفاظت نہ کرے اور ان کو ایسا آزاد چھوڑ دے کہ وہ پھر ان کو نقصان اور ایذاء پہنچاتے رہیں۔ بلکہ عفو و کرم کے ساتھ تقاضائے عقل یہ ہے کہ پچھلے تجربوں سے آئندہ زندگی کے لئے سبق حاصل کرے اور ان تمام رخنوں کو بند کرے جہاں سے یہ خود دشمنوں کی زد میں آسکے۔ اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکیمانہ ارشاد ہے لا یلدغ المرء من حجر واحد مرتین۔ یعنی عقلمند آدمی ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ جس سوراخ سے ایک مرتبہ کسی زہریلے جانور نے اس کو کاٹا ہے اس میں دوبارہ ہاتھ نہیں دیتا۔٩ ہجری کے قرآنی اعلان براءت اور مشرکین کو مہلت و اطمینان کے ساتھ حدود حرم خالی کردینے کی ہدایات اسی حکمت عملی کا ثبوت ہیں۔

٣) تیسرا فائدہ سورة توبہ کی ابتدائی آیات سے یہ معلوم ہوا کہ کمزور قوموں کو بلا مہلت کسی جگہ سے نکل جانے کا حکم یا ان پر یکبارگی حملہ بزدلی اور غیر شریفانہ فعل ہے۔ جب ایسا کرنا ہو تو پہلے سے اعلان عام کردیا جائے اور ان کو اس کی پوری مہلت دی جائے کہ وہ اگر ہمارے قانون کو تسلیم نہیں کرتے تو آزادی کے ساتھ جہاں چاہیں بسہولت جاسکیں۔ جیسا کہ مذکورہ آیتوں میں ٩ ہجری کے اعلان عام اور اس کے بعد تمام جماعتوں کو مہلت دینے کے احکام سے واضح ہوا۔

(٤) چوتھا مسئلہ آیات مذکورہ سے یہ معلوم ہوا کہ کسی قوم کے ساتھ معاہدہ صلح کرلینے کے بعد اگر میعاد سے پہلے اس معاہدہ کو ختم کردینے کی ضروری پیش آجائے تو اگرچہ چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت ہے مگر بہتر یہی ہے کہ معاہدہ کو اس کی میعاد تک پورا کردیا جائے جیسا کہ سورة توبہ کی چوتھی آیت میں بنو ضمرہ اور بنو مدلج کا معاہدہ نو مہینہ تک پورا کرنے کا حکم آیا ہے۔

(٥) پانچواں مسئلہ ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ دشمنوں کے ساتھ ہر معاملہ میں اس کا خیال رہنا چاہئے کہ مسلمانوں کی دشمنی ان کی ذات کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے کافرانہ عقائد و خیالات کے ساتھ ہے جو انھیں کے لئے دنیا و آخرت کی بربادی کے اسباب ہیں۔ اور مسلمانوں کی ان سے مخالفت بھی درحقیقت ان کی ہمدردی اور خیر خواہی پر مبنی ہے۔ اسی لئے جنگ و صلح کے ہر مقام پر ان نصیحت و خیر خواہانہ فہمائش کسی وقت نہ چھوڑنا چاہئے۔ جیسا کہ ان آیتوں میں جابجا اس کا ذکر ہے کہ اگر تم اپنے خیالات سے تائب ہوگئے تو یہ تمہارے لئے فلاح دنیا و آخرت ہے۔ مذکورہ آیتوں میں اعلان براءت کے ساتھ ہمدردانہ فہمائش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

(٦) چھٹا مسئلہ یہ ہے کہ چوتھی آیت میں جہاں مسلمانوں کو میعاد صلح کے ختم ہونے تک عہد کو پورا کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ آیت کو اس جملہ پر ختم کیا گیا ہے (آیت) اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ ۔ یعنی بیشک اللہ تعالیٰ احتیاط رکھنے والوں کو پسند کرتے ہیں جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ معاہدہ پورا کرنے میں بڑی احتیاط سے کام لیں۔ عام قوموں کی طرح اس میں حیلے اور تاویلیں نکال کر خلاف ورزی کی راہ نہ ڈھونڈیں۔

(٧) ساتواں مسئلہ مذکورہ پانچویں آیت کی تفصیلات سے یہ معلوم ہوا کہ جب صحیح مقصد کے لئے کسی قوم سے جنگ چھڑ جائے تو پھر ان کے مقابلہ کے لئے ہر طرح کی قوت پورے طور پر استعمال کرنا چاہئے اس وقت رحم دلی یا نرمی درحقیقت رحم دلی نہیں بلکہ بزدلی ہوتی ہے۔

(٨) آٹھواں مسئلہ مذکورہ پانچویں آیت سے یہ ثابت ہوا کہ کسی غیر مسلم کے مسلمان ہوجانے پر اعتماد تین چیزوں پر موقوف ہے۔ ایک توبہ دوسرے اقامت صلوٰة تیسرے ادائے زکوٰة جب تک اس پر عمل نہ ہو محض کلمہ پڑھ لینے سے ان کے ساتھ جنگ بند نہ کی جائے گی۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد جن لوگوں نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا تھا ان کے مقابلہ پر صدیق اکبر نے جہاد کرنے کے لئے اسی آیت سے استدلال فرما کر تمام صحابہ کو مطمئن کردیا تھا۔

خلاصہ:

چونکہ عرب کا نظم و نسق بالکلیہ اہل ایمان کے ہاتھ میں آگیا تھا اور تمام مزاحم طاقتیں بےبس ہوچکی تھیں، اس لیے وہ پالیسی واضح طور پر سامنے آجانی چاہیے تھی جو عرب کو مکمل دارالاسلام بنانے کے لیے اختیار کرنی ضروری تھی، چناچہ وہ حسب ذیل صورت میں پیش کی گئی سورة توبہ کی ابتدائی پانچ آیتوں میں اس کا ذکر تھا کہ فتح مکہ کے بعد مکہ اور اس کے اطراف کے تمام مشرکین و کفار کو جان و مال کا عام امان دے دیا گیا مگر ان کی سابقہ غداری اور عہد شکنی کے تجربہ کی بنا پر آئندہ کے لئے ان سے کوئی معاہدہ نہ کیا جانا طے ہوگیا۔ اس قرارداد کے باوجود جن لوگوں سے کوئی معاہدہ اس سے پہلے ہوچکا تھا اور انہوں نے عہد شکنی نہیں کی تو ان کا معاہدہ ختم میعاد تک پورا کرنے کے احکام ان آیات میں نازل ہوئے۔ اور جن سے کوئی معاہدہ نہیں تھا یا کسی معین میعاد کا معاہدہ نہیں تھا ان کے ساتھ بھی یہ رعایت کی گئی کہ ان کو فوری طور پر مکہ چھوڑ دینے کے حکم کے بجائے چار مہینہ کی وسیع مہلت دے دی گئی کہ اس عرصہ میں وہ مکہ چھوڑ کر جہاں مناسب سمجھیں سہولت و اطمینان کے ساتھ چلے جائیں۔ یا اگر اسلام کی حقانیت ان پر روشن ہوچکی ہے تو مسلمان ہوجائیں۔ ان احکام کا نتیجہ یہ تھا کہ سال آئندہ تک مکہ مکرمہ سہولت کے ساتھ ان سب غدار مشرکین سے خالی ہوجائے اور چونکہ یہ خالی کرنا بھی کسی انتقامی جذبہ سے نہیں بلکہ مسلسل تجربوں کے بعد اپنی حفاظت کے پیش نظر عمل میں لایا گیا تھا اس لئے ان کی اصلاح و خیر خواہی کا دروازہ اب بھی کھلا رکھا گیا۔ جس کا ذکر چھٹی آیت میں ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپ سے پناہ مانگے تو آپ کو پناہ دینی چاہئے تاکہ وہ آپ کے قریب آکر اللہ کا کلام سن سکے اور اسلام کی حقانیت کو سمجھ سکے اور صرف یہی نہیں کہ وقتی طور پر اس کو پناہ دے دی جائے بلکہ جب وہ اپنے اس کام سے فارغ ہوجائے تو اپنی حفاظت اور نگرانی میں اس کو اس مقام تک پہنچانا بھی مسلمانوں کے ذمہ ہے جہاں یہ اپنے آپ کو محفوظ و مطمئن سمجھتا ہے۔ آخر آیت میں فرمایا کہ یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ لوگ پوری خبر نہیں رکھتے قریب آکر باخبر ہو سکتے ہیں۔

اس آیت سے بھی چند مسائل اور فوائد حاصل ہوئے جن کو امام ابوبکر جصاص نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔

آگے ساتویں آٹھویں نویں دسویں چار آیتوں میں اس اعلان برأت کی حکمت کا بیان ہے جو سورة توبہ کی ابتدائی آیات میں ذکر کیا گیا ہے اس آیت میں عہد شکنی کرنے والے مشرکین کی طبعی خسّت اور مسلمانوں سے بغض وعناد کی شرت کا ذکر کرکے یہ بتلایا گیا ہے کہ ان سے وفاء عہد کی امید رکھنا ہی غلط ہے۔ ارشاد فرمایا کہ بجز چند لوگوں کے جن سے مسجد حرام کے پاس تمہارا معاہدہ ہوا تھا ان مشرکین کا کوئی عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک قابل رعایت کیسے ہوسکتا ہے جب کہ ان کا یہ حال ہے کہ اگر ان کو کسی وقت بھی ذرا موقع مل جائے تو وہ تمہارے بارے میں نہ کسی قرابت داری کی رعایت کریں نہ عہد و پیمان کی اور وجہ اس کی یہ ہے کہ لوگ معاہدہ کرنے کے وقت بھی دل میں اس کے پورا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے بلکہ صرف الفاظ سے تمہیں خوش کرنا چاہتے ہیں اور ان میں سے اکثر لوگ فاسق یعنی عہد شکن غدار ہیں۔

(استفادہ تحریر تفسیر معارف القرآن از مفتی شفیعؒ، تفسیر ضیا ء القرآن از پیر کرم شاہ الازہریؒ)