آیت :
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۰ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۰ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ﴿256﴾
ترجمہ
: دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہوچکا، اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے گا، اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں، اور اللہ خوب سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن، مفتی تقی عثمانی)
ملحدین کا اعتراض:۔
متقدمین میں سے چند مفسرین نے یہ لکھا کہ یہ آیت اس دور میں نازل ہوئی جب کفار سے جہاد اور قتال کا حکم نازل نہیں ہوا تھا ‘ جب ان کی زیادتیوں پر معاف کرنے اور در گزر کرنے کا حکم تھا ‘ اور یہ حکم تھا کہ ان کی برائی کو اچھائی سے دور کرو اور عمدہ طریقہ سے ان سے بحث کرو ‘ اور جب جاہل مسلمانوں سے بات کرتے تو وہ سلام کہتے۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہ حکم منسوخ ہوگیا ” فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم “۔ ترجمہ : پس تم مشرکین کو جہاں بھی پاؤ انہیں قتل کردو۔ (التوبہ : ٥) اسی طرح وہ روایت جو بخاری میں بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے لوگوں سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے حتی کہ وہ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ کی گواہی دیں جب وہ ایسا کرلیں گے تو وہ مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کرلیں گے ماسوا حق اسلام کے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٨‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ) اسی قول کو لے کر مستشرقین و ملحدین یہ دعوی کرتے ہیں لا اکرہ والی آیت منسوخ ہے اب غیر مسلموں کے لیے دو ہی آپشن ہیں اسلام یا تلوار ۔ جمہور علمائے امت کی رائے اس سے مختلف ہے اور مسلمانوں کا تاریخی تعامل بھی ان علماء کے قول کی تائید کرتا ہے۔
ہم گزشتہ کچھ تحاریر میں اس آیت اور حدیث کا تفصیلی جائزہ پیش کرچکے ہیں کہ یہ ایک مخصوص سیاق و سباق رکھتی ہیں۔ مزید ان علماء کے موقف کو سمجھنے کے لیے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کے نزدیک نسخ کا مفہوم کیا ہے؟
آیت اور متقدمین مفسرین:
لفظ ’’نسخ ‘‘ کے استعمال میں علماء متقدمین اور علماء متاخرین کے درمیان اصطلاح کاایک فرق رہاہے ، متقدمین کی اصطلاح میں لفظ ’’نسخ ‘‘ ایک وسیع مفہوم کاحامل تھا اوراس میں بہت سی وہ صورتیں داخل تھیں جو بعد کے علماء کی اصطلاح میں ’’ نسخ‘‘ نہیں کہلاتیں۔مثلاً متقدمین کے نزدیک عام کی تخصیص اور مطلق کی تقید وغیرہ بھی ’’نسخ‘‘ کے مفہوم میں داخل تھیں‘ چنانچہ اگر آیت میں عام الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور دوسری میں انھیں کسی خاص صورت سے مخصوص کردیا گیاہے توعلماء متقدمین پہلی کو منسوخ اوردوسری کاناسخ قراردید تےہیں جس کا مطلب یہ نہیں ہوتاتھاکہ پہلا حکم بالکلیہ ختم ہوگیا، بلکہ مطلب یہ ہوتا تھا کہ پہلی آیت سے جو عموی سمجھ میں آتاتھادوسری آیت نے اس کو ختم کردیاہے۔مثلاً قرآن کریم کاارشادہے:۔لاتنکحو المشرکات حتی یومن :”مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو، یہاں تک کہ و ہ ایمان لے آئیں ۔اس میں ’’مشرک عورتوں ‘‘ کا لفظ عام ہے، اور اس بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہرقسم کی مشرک عورتوں سے نکاح حرام ہے، خواہ وہ بت پرست ہوں یااہل کتاب ، لیکن ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے:۔’’والمحصنت من الذین اوتولکتب”اور(تمھارے لئے حلال ہیں ) اہل کتاب میں سے باعفت عورتیں ‘‘۔اس سے معلوم ہو اکہ پہلی آیت میں ’’مشرک عورتوں ‘‘سے مراد وہ مشرک عورتیں تھیں جو اہل کتاب نہ ہوں لہٰذ اس دوسری آیت نے پہلی آیت کے عام الفاظ میں تخصیص پیداکردی ہے اور بتادیاہے کہ ان الفاظ سے مراد مخصوص قسم کی مشرک عورتوں ہیں ‘ متقدین اس کوبھی’’نسخ‘‘ کہتے ہیں اور پہلی آیت کومنسوخ اور دوسری کوناسخ قراردیتے ہیں۔ مذکورہ مسئلے میں بھی ان علماء کے قول کی حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ محض مشرکین مکہ کے متعلق اتری آیات کو آیت لا اکرہ کی ناسخ قرار دیتے ہیں ۔
اس کے بر خلاف متاخرین کے نزدیک’’نسخ‘‘کا مفہوم اتنا وسیع نہیں وہ صرف اس صورت کو’’نسخ ‘‘ قرار دیتے ہیں جن میں سابقہ حکم کا بالکلیہ ختم کردیا گیاہومحض عام میں تخصیص یامطلق میں تقییید پیدا ہوجائے تواسے وہ’’نسخ ‘‘ نہیں کہتے،چنانچہ مذکورہ بالامثال میں متاخرین کہتے ہیں کہ اس میں نسخ نہیں ہوا، کیونکہ اصل حکم (یعنی مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت ) بدستور باقی ہے، صرف اتنا ہواہی کہ دوسری آیت سے یہ واضح ہوگیا کہ پہلی آیت کامفہوم اتنا عام نہیں تھاکہ اس میں اہل کتاب عورتیں داخل ہوجائیں ، بلکہ وہ صرف غیر اھل کتاب کے ساتھ مخصوص تھی۔
اصطلاح کے اس فرق کی وجہ سے متقدمین کے نزدیک قرآن کریم میں منسوخ آیات کی تعد اد بہت زیادہ تھے‘ اور وہ معمول فرق کی وجہ سے ایک آیت کو منسوخ اور دوسری کو ناسخ قرار دیتے تھے، لیکن متاخرین کی اصطلاح کے مطابق منسوخ آیات کی تعداد بہت کم ہے۔( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الاتقان ‘ص ۳۳ج ۲ ۲)
متقدمین نے عام طور پر “نسخ” کو اسی عام معنی میں استعمال فرمایا ہے، اس میں کسی حکم کی پوری تبدیلی بھی داخل ہے اور جزوی تبدیلی، قید، شرط، یااستثناء وغیرہ کا اضافہ بھی؛ اسی لیے ان حضرات کے نزدیک قرآن میں منسوخ آیات پانچ سوتک شمار کی گئی ہیں۔ جبکہ متاخرین نے صرف اس تبدیلی کا نام نسخ رکھا، جس میں حکم بالکل ہی باقی نہ رہے، اس اصطلاح کے مطابق آیات منسوخ کی تعداد بہت گھٹ جاتی ہیں؛ چنانچہ علامہ سیوطیؒ نے”الاتقان” میں صرف بیس آیتوں کومنسوخ قرار دیا ہے، ابن عربی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں، اس کے بعد شاہ ولی اللہؒ نے ان میں بھی تطبیق کی صورت پیدا کی اور صرف پانچ آیتوں کومنسوخ مانا۔(الفوز الکبیر مقدمہ ارشاد الراغبین:۳۱)
یہ ہے ان مفسرین کے شاذ قول کی حقیقت ہے اب ہم اس آیت کی طرف آتے ہیں ۔
آیت کا شاون نزول :
اس آیت کے شان نزول کے متعلق علماء کے بہت سے اقوال ہیں ایک قول کا ہم اوپر تذکرہ کرچکے، ان میں سے وہ قول جو مستند ہیں اور جمہور مفسرین نے انہیں اپنی کتابوں میں آیت کے شان نزول کے تحت لایا ہے ‘ پیش ہے:
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درد و مدینہ سے پہلے مدینہ طیبہ میں دو قسم کے لوگ تھے ایک تو یہودی تھے۔ جو پڑھے لکھے اور مالدار لوگ تھے ، دوسرے عرب تھے ، جو عام طور پر ان پڑھ اور غریب لوگ تھے۔ اسلام لانے کے بعدیہی لوگ انصار مدینہ کہلائے ، چونکہ یہ لوگ پسماندہ تھے ، اس لیے یہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے انہیں یہودیوں کے پاس چھوڑ دیتے تھے ، چناچہ اسلام آنے کے بعد جب یہودی قبائل بنو نضیر اور بنو قنیقاع کو مدینہ سے نکالا گیا تو اس وقت ایک انصاری ابو حصین کے دو بیٹے یہودیوں کی تحویل میں تھے اور انہوں نے یہودی مذہب اختیار کرلیا تھا۔ جب وہ مدینہ سے جانے لگے تو انصاری نے چاہا کہ اپنے بیٹوں کو زبردستی اسلام میں داخل کرکے انہیں اپنے پاس رکھ لے ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ لا اکراہ فی الدین دین میں جبر نہیں ہے۔ لڑکے جو ان میں ہیں ، انہوں نے یہودیت اختیار کر رکھی ہے ، اب اگر وہ اپنی مرضی سے جا رہے ہیں تو مسلمانوں کو ان کے روکنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔(سنن ابی داؤد ، کتاب الجہاد ، جلد ٢ ، صفحہ ٩) ( قرطبی ص ٢٨٠ ج ٣) (جامع البیان ج ٣ ص ‘ ١٠ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ) (تفسیر ابن کثیر)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی 1820عیسوی اپنی تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں :
ابن جریر نے بوساطت سعید یا عکرمہ حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ قبیلۂسالم بن عوف کے انصاریوں میں سے ایک آدمی تھا جس کا نام حصین تھا۔ حصین کے دو بیٹے عیسائی تھے لیکن وہ خود مسلمان ہو گئے تھے انہوں نے رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا میرے دونوں بیٹے تو عیسائیت کے سوا کسی دین کو مانتے ہی نہیں کیا میں جبر کرکے ان کو مسلمان بنا لوں اس پر آیت : لا اکراہ فی الدین نازل ہوئی ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایماندار ہونے میں جبر کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اکراہ ( جبر) کا صرف یہ معنی ہے کہ کسی سے بزور ایساکام کرایا جائے جس کو وہ اپنی خوشی سے نہ کرنا چاہتا ہو ایسا اکراہ قول و فعل میں تو ممکن ہے ایمان میں ممکن نہیں ایمان تو صر ف ایک قلبی عقیدہ کا نام ہے اور قلبی عقیدہ اکراہ سے نہیں پیدا ہوتا یا لا اکراہ فی الدین ہے تو جملۂ خبریہ منفیہ مگر اس کا معنی ( انشائی یعنی) نہی کا ہے یعنی ایمان پر کسی کو مجبور نہ کرو کیونکہ ایمان جبر سے نہیں پیدا ہوتا ۔جبر کرنا بےفائدہ ہے۔ یا ممانعت کی یہ وجہ ہے کہ ایمان اور دوسری تمام عبادتوں کا حکم آزمائش کے لیے ہے ( کہ کون کرتا ہے اور کون نہیں کرتا) اللہ نے فرمایا ہے : لیبلوکم ایکم احسن عملا اور تعمیل حکم میں خلوص کا ہی اعتبار ہے اللہ نے فرمایا : فاعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین لیکن جبر کرنے میں نہ آزمائش رہتی ہے نہ خلوص۔
مسئلہ : کیا یہ حکم عام ہے یا خاص؟ بعض علماء کا قول ہے کہ عدم اکراہ کا حکم صرف اہل کتاب کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ بیان مذکور بالا سے واضح ہو گیا ہے کہ انصاریوں کے جو بچے یہودی یا عیسائی ہو گئے تھے انہی کے سلسلہ میں آیت : لا اکراہ فی الدین کا نزول ہوا تھا۔ میں کہتا ہوں مورد کی خصوصیت حکم کی خصوصیت کو نہیں چاہتی اس لیے حکم عام رہے گا۔ بعض علماء نے کہا آیت مذکورہ کا حکم آیت : قاتلوا المشرکین کافۃً اور جاھِدِ الْکُفّارَ وَالمُنَافِقِیْن کے حکم سے منسوخ ہو گیا بقول بغوی (رح) حضرت ابن مسعود (رض) کا یہی قول ہے۔ میں کہتا ہوں نسخ تو اسی وقت ممکن ہے جب دو حکموں میں تعارض ہو ۔ مگر یہاں تو ایک حکم دوسرے کی ضد نہیں ہے قتال اور جہاد کا حکم اس لیے تو نہیں دیا گیا کہ جبراً مؤمن بنا یا جائے بلکہ زمین پر بگاڑ اور تباہی کو روکنے کے لیے جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔اسی لیے اللہ نے ادائے جزیہ کی صورت میں قتال کے حکم کو ختم کردیا اور فرمادیا : حتی یعطوا الجزیہ عن ید وھم صاغرون۔(سورت التوبہ آیت 29 ) اور یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بچوں عورتوں، درویشوں ، تارک الدنیا ، عالموں ، اپاہجوں اور اندھوں کو قتل کرنے کی ممانعت فرما دی کیونکہ ان کی طرف سے بگاڑ اور تباہی ممکن نہیں۔ جبراً ایمان کا تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا پھر اسکے منسوخ ہونے کا معنی ہی کیا ہوسکتا ہے۔
(آگے ارشاد ہے)قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ( یعنی حقیقت کھل گئی ہے) رسول اللہ کے معجزات اور عقلی شواہد نے بتا دیا کہ ایمان ہی سیدھا راستہ ہے جو لا زوال سعادت تک پہنچاتا ہے اور کفر کا راستہ ٹیڑھا ہے جو ابدی بد بختی تک پہنچاتاہے۔ اب انسانوں کا ہر عذر ختم ہو گیا ‘ حجت تمام ہو گئی ‘ آزمائش صحیح ہو گئی اکراہ کی ضرورت نہیں رہی۔ بیضاوی (رح) نے آیت کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ اکراہ کا معنی ہے کسی کو ایسا کام کرنے پر مجبور کرنا جس میں اسے خود بھلائی نظر نہ آتی ہو لہٰذا دین میں اکراہ نہیں ہوسکتا کیونکہ دین کی بھلائی گمراہی سے ممتاز ہو گئی ہے اور ہر دانشمند پر جب ہدایت واضح ہو گئی تو لا محالہ نجات و سعادت کی طلب میں وہ ہدایت کو ماننے کی طرف پیش قدمی کرے گا ہی ، اکراہ کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ (تفسیر مظہری، آیت لا اکرہ فی الدین )
اسی طرح اس آیت کو دیکھتے ہوئے بعض لوگ یہ اعتراض کرتے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں زبردستی نہیں ہے، حالانکہ اسلام میں جہاد اور قتال کی تعلیم اس کے معارض ہے۔ اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اعتراض صحیح نہیں ہے اس لیے کہ اسلام میں جہاد اور قتال کی تعلیم لوگوں کو قبول ایمان پر مجبور کرنے کے لیے نہیں ہے، ورنہ جزیہ لے کر کفار کو اپنی ذمہ داری میں رکھنے اور ان کی جان و مال و آبرو کی حفاظت کرنے کے لیے اسلامی احکام کیسے جاری ہوتے’ بلکہ دفعِ فساد ، ظلم و بربریت کو مٹانے کے لئے حکم جہاد آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اسلام قبول نہیں کرتے ان سے ایک معمولی رقم جزیہ کے نام پر لی جاتی ہے جس سے ایک غیر مسلم کی جان و مال اور مذہب کی حفاظت اسلامی حکومت کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔اسلام میں جزئیے کا نظام ہی اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ مسلمانوں نے کبھی کسی کو اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا۔ اسی طرح جنگ کے دوران نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلفاء راشدین، صحابہ (رض) و بعد کے فاتحین کا طرز عمل یہ تھا کہ کہ کمزوروں، بیماروں، عورتوں، زخمیوں ، مذہبی پیشواؤں اور پر امن شہریوں پر تلوار اٹھانے یا گھر بار، کھیتی باڑی کو جلانے کی کبھی اجازت نہیں دی کیونکہ وہ فساد کرنے پر قادر نہیں ہوتے ۔
آیت میں بھی فرمایا’ لا اکرہ فی الدین’ دین کے معاملہ میں جبر نہیں ہے کسی کو زبردستی دین میں داخل کر نیکی قطعا ً اجازت نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ’ قد تبین الرشد من الغی’ ہدایت گمراہی سے بالکل واضح ہوچکی ہے۔ اب کوئی اشتباہ باقی نہیں رہا ، نیکی اور بدی کا امتیاز کھل کر سامنے آ گیا ہے لہٰذا جو شخص اپنی مرضی سے اسلام میں داخل ہونا چاہئے ، بلا جھجھک اسلام قبول کرلے اور جس کا دل نہیں مانتا وہ ایمان نہیں لاتا تو بیشک نہ لائے ، اسے زبردستی دین میں داخل نہیں کیا جائیگا۔قرآن مجید میں اور جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ منشاء نہیں ہے کہ لوگ جبرا اسلام میں داخل ہوں۔
(آیت) ” ولوشاء ربک لامن من فی الارض کلھم جمیعا، افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مؤمنین “۔۔ترجمہ : اور اگر آپ کا رب چاہتا تو زمین میں جتنے لوگ ہیں سب ہی ایمان لے آتے تو کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کریں گے۔(یونس : ٩٩)
(آیت) ” وقل الحق من ربکم فمن شآء فلیؤمن ومن شآء فلیکفر “۔ ترجمہ : اور آپ کہیے کہ یہ حق (ہے) تمہارے رب کی طرف سے سو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔ (الکہف : ٢٩)
حضرت عمر (رض) نے ایک نصرانی بڑھیا کو اسلام کی دعوت دی تو اس کے جواب میں اس نے کہا اَنَا عَجُوْزٌ کَبِیْرَۃٌ وَالْمَوْتُ اِلَیَّ قَرِیْبٌ ” یعنی میں ایک قریب المرگ بڑھیا ہوں، آخری وقت میں اپنا مذہب کیوں چھوڑ دوں “ حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر اس کو ایمان پر مجبور نہیں کیا، بلکہ یہی آیت تلاوت فرمائی : ” لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ “ ” یعنی دین میں زبردستی نہیں ہے “۔ (تفسیر معارف القرآن)
امام ابوبکر جصاص (رح) نے ” احکام القرآن “ اور حضرت شاہ ولی اللہ (رح) نے ازالۃ الخفاء میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عمر (رض) کا وثیق نامی رومی غلام تھا۔ مدت تک آپ کی خدمت کرتا رہا ، اس نے آخر عمر تک اسلام قبول نہ کیا ۔ حضرت عمر (رض) نے غلام کو بلا کر کہا کہ تو بڑا قابل آدمی ہے۔ خاص طور پر حساب کتاب میں بڑا ماہر تھا۔ فرمایا اگر اسلام میں جبر روا ہوتا تو میں تمہیں زبردستی مسلمان بنا لیتا ، مگر میں ایسا نہیں کرسکتا ۔ اگر تم مسلمان ہوجاتے تو تمہاری قابلیت کی بناء پر کوئی اچھا عہدہ دیتا۔ اب میں یہی کرتا ہوں کہ تجھے آزاد کردیتا ہوں ، تم جہاں چاہو جاسکتے ہو۔( احکام القرآن)
تاریخ آل عثمان کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ ترکی کے سلطان سلیم خان کے زمانہ میں یہودی اور عیسائی بڑی سازشیں کرتے تھے ۔ خلیفۃ السلمین ان سے بڑے تنگ آئے اور آخر حکم جاری کردیا کہ جو بھی عیسائی اور یہودی ملے اسے زبردستی اسلام میں داخل کرلیا جائے ۔ جب یہ خبر اس زمانے کے شیخ الاسلام کو پہنچی ، تو وہ فوراً سلطان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ میں نے سنا ہے تم نے کوئی ایسا حکم جاری کیا ہے۔ سلطان نے اقرار کیا کہ ہاں میں نے ایسا سرکلر جاری کیا ہے کہ تمام عیسائی اور یہودیوں کو زبردستی مسلمان بنا لیا جائے۔ ان کے عبادت خانے موقوف کردیئے جائیں ، کیونکہ انہوں نے اپنی سازشوں کی وجہ سے سلطنت میں فتنہ برپا کر رکھا ہے ، شیخ الاسلام نے فرمایا اے خلیفہ ! آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کا حکم ہے لا اکراہ فی الدین دین میں جبر نہیں ہے۔ آپ ایسا حکم جاری کرنے کے مجاز نہیں ہیں ، چناچہ خلیفہ نے فوری طور پر یہ حکم واپس لے لیا ۔(تفسیر معالم العرفان)
اسی طرح مسلمانوں کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ، کہیں بھی غیر مسلموں کے ساتھ جبر کا ثبوت نہیں ملتا ،سپین اور برصغیر میں مسلمان آٹھ سو سال تک حکمران رہے ہیں لیکن جب انکی حکومتیں ختم ہوئیں اسوقت بھی مسلمان اقلیت میں ہی تھے ۔ مسلمان بادشاہوں کے درباروں میں کتنے غیر مسلم روسا تھے مگر کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی گئی ، کبھی کسی قوم یا فرد کو تلوار کی نوک پر مجبور نہیں کیا گیا کہ وہ اسلام کو قبول کرے۔
آیت لااکرہ فی الدین اورنام نہاد متجددین و مصلحین
قرآنِ حكيم میں الله کے فرمان “لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّين” کے حوالے سے متجددین و نام نہاد مصلحین نے بہت سی غلط فہمیاں پیدا کی ہوئی ہیں۔ اس کا رد کرتے ہوئےمولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں؛
یہ جبرِ فطری کی نفی ہے، جبر قانونی کی نہیں : قرآن مجید میں یہ مضمون مختلف اسلوبوں سے مختلف مقامات میں بیان ہوا ہے۔ ہم نے طوالت سے بچنے کے لیے صرف ایک آیت کے نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے ٹکڑے میں جس جبر واکراہ کی نفی کی گئی ہے اس سے مقصود جبر فطری کی نفی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہدایت و ضلالت کے معاملے میں یہ طریقہ نہیں اختیار فرمایا ہے کہ وہ اپنی مشیت وقدرت کے زور سے لوگوں کو ہدایت پر چلا دے یا گمراہی کی طرف ہانک دے۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہتا تو کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا تو نہیں تھا لیکن یہ بات اس کی حکمت اور اس کے عدل کے خلاف ہوتی۔ اس نے اس کے برعکس یہ طریقہ اختیار فرمایا ہے کہ اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے حق اور باطل دونوں کو اچھی طرح واضح کردیتا ہے، پھر جو لوگ حق کی راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں ان کو راہ حق اختیار کرنے کی توفیق ارزانی کرتا ہے اور جو لوگ باطل کی راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں ان کو اس کے لیے ڈھیل دے دیتا ہے۔ مقصود اس حقیقت کے واضح کرنے سے ایک تو ان کفار و مشرکین کو جواب دینا تھا جو اس جبر کی آڑ لے کر اپنے کفر و شرک کو ثواب ٹھہرانا چاہتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ان کا عقیدہ و عمل باطل ہے تو خدا کے اختیار میں تو سب کچھ ہے، وہ اپنی قدرت کاملہ سے کام لے کر ان کو ٹھیک کیوں نہیں کردیتا۔ دوسرے، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر واضح کرنا تھا کہ بحیثیت نبی اور رسول کے ان کی ذمہ داری صرف دین حق کو اچھی طرح واضح کردینا ہے۔ یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ لوگ لازماً ایمان و ہدایت کی راہ اختیار بھی کرلیں۔
اس زمانے میں بعض کم سواد اس آیت کو اس کے اس مفہوم سے ہٹا کر ‘جبر قانونی’ کی نفی کے معنی میں لیتے ہیں اور اس سے یہ دلیل لاتے ہیں کہ چونکہ اسلام میں اکراہ نہیں ہے اس وجہ سے اسلام کے نام سے فلاں اور فلاں باتوں کو جو مستوجب سزا قرار دیا جاتا ہے یہ محض مولویوں کی من گھڑت باتیں ہیں، اسلام سے ان کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس گروہ کے اس استدلال کو اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلامی ریعت حدود و تعزیرات سے ایک بالکل خالی شریعت ہے جس میں ہر شخص کو سب کچھ کر گزرنے کی چھوٹ حاصل ہے۔ نہ زنا، تہمت اور چوری پر کوئی سزا ہے۔ نہ ڈکیتی، رہزنی، فساد فی الارض اور بغوت پر کوئی تعزیر۔
حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ اسلام میں حدود و تعزیرات کا ایک پورا نظام ہے جس کا نفاذ واجباتِ دین میں سے ہے۔ اگر ایک شخص نماز نہ پڑھے یا روزے نہ رکھے تو اسلامی حکومت اس کو بھی سزا دے سکتی ہے یہ چیز لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے منافی نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان اسلام کے خلاف بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کے لیے بھی اسلامی قانون میں سزا ہے۔ یہ چیز بھی لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے خلاف نہیں ہے۔ فتنہ و فساد کو خدا کی زمین سے مٹانے کے لیے اسلام نے اہل ایمان پر جہاد بھی واجب کیا ہے، یہ چیز بھی لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے منافی نہیں ہے۔
اس امر میں شبہ نہیں ہے کہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ ایک شخص اسلام کے دائرے میں داخل ہوجانے کے بعد بھی جو اس کے جی میں آئے کرتا پھر ے اور اس پر کوئی گرفت نہ ہو بلکہ وہ اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اسلام کے حدود وقیود کی پابندی کرے۔ لادینی نظاموں میں مذہب کو نجی زندگی سے متعلق مانا جاتا ہے اس وجہ سے ان میں حکومت کی نافرمانیوں پر تو سزائیں اور تعزیرات ہیں لیکن خدا سے بغاوت کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اسلام میں مذہب کے پرائیویٹ زندگی سے مخصوص ہونے کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ اسلامی حکومت اصلاً خدا ہی کی حکومت ہوتی ہے اور ریاست کا سیاسی ادارہ صرف خدا کے احکام و قوانین کے اجرا ونفاذ کا ایک ذریعہ ہوتا ہے اس وجہ سے اس میں خدا کی ہر نافرمانی قابل گرفت ہوتی ہے۔ خواہ وہ نافرمانی مخفی ہو یا ظاہر۔ فرق ہے تو یہ ہے کہ مخفی نافرمانیوں پر خدا کی اخروی عدالت گرفت کرے گی اور ظاہری نافرمانیوں پر اسلام کی دنیوی عدالتیں گرفت کرنے اور ان پر سزا دینے کی مجاز ہیں۔ ارتداد بھی اسی زمرے کا ایک جرم بلکہ بہت بڑا جر ہے اور اس پر جو سزا ایک اسلام نظام میں دی جاتی ہے وہ اس بات پر نہیں دی جاتی کہ ایک شخص کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے بلکہ اس بات پر دی جاتی ہے کہ اس نے خدا کی حکومت اور اس کے قانون کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے۔
اسی طرح اس امر سے ہمیں انکار نہیں ہے کہ مجرد کسی قوم کے اندر کفر کا وجود اس امر کے لیے کافی وجہ نہیں کہ اسلام کے علمبردار ان کے خلاف جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور تلوار کے زور سے ان کو اسلام پر مجبور کردیں۔ کافر قوموں کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق لازماً ہر شکل میں معاندانہ ہی نہیں بلکہ مصالحانہ بھی ہوسکتا ہے۔ جہاد اصلاً فتنہ اور فساد فی الارض کے مٹانے کے لیے شروع ہوا ہے اگر یہ چیز کہیں پائی جاتی ہے تو اہل ایمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ استطاعت رکھتے ہوں تو اس فتنہ اور فساد فی الارض کو مٹانے کے لیے جہاد کریں، خاص طور پر اس فتنہ کو مٹانے کے لیے جو اہل کفر کے ہاتھوں اس لیے برپا کیا جائے کہ اہل ایمان کو ان کے دین سے پھیرا جائے یا اسلامی نظام کو برباد کیا جائے۔ اس فتنے کے استیصال کے بعد اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے بلکہ اس نے اپنے نظام میں اس بات کی پوری گنجائش رکھی ہے کہ اہل کفر اپنے کفر پر قائم رہتے ہوئے اسلامی حکومت کی رعایا رہ سکتے ہیں۔ اور ان کے حقوق کی حفاظت اسلامی حکومت کے فرائض میں داخل ہے۔ صرف مشرکین بنی اسماعیل کا معاملہ اس کلّیہ سے ایک استثنا کی نوعیت رکھتا ہے۔ (تفسیر تدبر قران، جلد ١ ص ٥٩٣-٥٩٤)
اس آیت کی تفسیر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں ” جبر نیست برائے دین “ یعنی دین اسلام میں داخلے کے لیے کسی شخص پر جبر روا نہیں ہے ، تا ہم اسلام میں فی الجملہ جبر موجود ہے اور اس سے مراد وہ تمام احکام ہیں جن کے ذریعے کسی پر سختی کی جاتی ہے۔ مثلاً جہاد کا تعلق جبر سے ہے ، جبر کے بغیر جہاد نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح حدود کا قیام ہے کوئی مجرم خوشی سے سزا قبول نہیں کرتا ۔ اسے اس کے کردہ گناہ کی سزا جبراً دینا پڑتی ہے زانی کو سنگسار کیا جاتا ہے ، چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ شرابی کو کوڑے مارنے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ جبر کی اقسام سے ہیں اور یہ جبر بالکل جائز اور ضروری ہے ۔ البتہ کسی غیر مسلم کو طاقت کے ذریعے اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے ، یہ اسلامی تعلیم کے منافی ہے ۔ اسی لیے فرمایا لا اکراہ فی الدین ۔
مولانا ادریس کاندھلوی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
” جس طرح انسان ایمان اور کفر کے قبول کرنے میں مختار ہے مجبور نہیں اسی طرح تمام اعمال خیر اور اعمال شر کرنے اور نہ کرنے میں بھی مختار ہے مجبور نہیں لیکن اچھے اور برے افعال پر ان کے مناسب جزا اور سزا کا مرتب ہونا جبرواکراہ کو مستلزم نہیں مثلا چور کا ہاتھ کاٹنا اور زانی محصن کا سنگسار کیا جانا اور خون ناحق کا قصاص لیا جانا یہ تمام تر اس کے افعال اختیاریہ کی سزا ہے جبر اور اکراہ نہیں اس شخص نے اپنے اختیار سے چوری اور زناکا ارتکاب کیا اس لیے یہ سزا بھگتنی پڑی ۔(تفسیر معارف القرآن کاندھلوی)