’’اسلام، دہشت گردی یا ایک مثالی دین‘‘؟ یہ عنوان ایک کتاب کا نام ہے جس کے مصنف کوئی عالم دین یا کوئی مسلم دانشور نہیں بلکہ ہندو اسکالر سوامی لکشمی شنکر اچاریہ ہیں۔ موصوف کی پیدائش ۱۹۵۳ء میں اُتر پردیش کے ضلع کانپور میں ایک برہمن خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد جناب سیتا رام ترپاٹھی اور والدہ محترمہ کوشلیا دیوی ٹیچر تھے۔ سوامی جی نے کانپور اور الٰہ آباد سے تعلیم حاصل کی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ٹھیکیداری کے پیشہ سے جڑ گئے۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہی انھوں نے مادیت کو چھوڑ کر روحانیت کی طرف رُخ کرلیا۔ اس درمیان اسلام کے خلاف کئے جارہے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر سوامی جی نے ایک کتاب ’اسلامک آتنک واد کا اتہاس‘ لکھی۔ ہندو حلقوں میں کتاب کی زبردست پذیرائی ملنے کے بعد اس کا انگریزی میں ترجمہ The History of Islamic Terrorism کے نام سے ممبئی سے شائع ہوا۔ جبکہ اس سے پہلے اس کا ہندی ایڈیشن لکھنو سے شائع ہوا تھا۔ لیکن بعد میں حق کا علم ہونے پر سوامی جی نے اس پہلی کتاب پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے ہندی زبان میں ایک اور کتاب ’’اسلام آتنک یا آدرش‘‘لکھی جو لکھنو سے شائع ہوئی اور اس کتاب کا اردو ترجمہ ’’اسلام، دہشت گردی یا ایک مثالی دین‘‘ کے نام سے بھی لکھنو سے شائع ہوا ہے۔ اس کتاب کے صفحات کی تعداد ۱۰۴ ہے۔ مجھے یہ کتاب موضوع و مضمون کے اعتبا رسے اس قدر پسند آئی کہ میں نے اسے ایک ہی نشست میں پڑھ لیا۔ یہ کتاب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت اور اسلامی جہاد کی حقیقت سمجھنے کے لیے بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب کا پسِ منظر اور اس کے لکھنے کے وجوہات اور محرکات کے بارے میں مصنف کتاب جناب سوامی لکشمن شنکر اچاریہ ایک جگہ ’جب میں حق سے آشنا ہوا‘ کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
’’کئی سال قبل میں نے ’’دینک جاگرن‘‘ (ہندی اخبار) میں جناب بلراج مدھوک کا مضمون ’’فسادات کیوں ہوتے ہیں؟ پڑھا تھا، اس مضمون میں ہند و مسلم فسادات ہونے کے اسباب قرآن مجید میں کافروں سے لڑنے کے لیے اللہ کے فرمان بتائے گئے تھے۔ مضمون میں قرآنِ مجید کی آیتیں بھی درج کی گئی تھیں۔اس کے بعد دہلی سے شائع کردہ ایک پمفلٹ (پرچہ) ’’قرآن کی چوبیس آیتیں‘‘ جو دیگر مذاہب کے لوگوں سے جھگڑا کرنے کا حکم دیتی ہیں کسی شخص نے مجھے دیا۔ اسے پڑھنے کے بعد میرے دل میں طلب پیدا ہوئی کہ میں قرآن پڑھوں۔ اسلامی کتابوں کی دکان سے قرآن کا ہندی ترجمہ مجھے ملا۔ قرآن مجید کے اس ہندی ترجمہ میں وہ سبھی آیتیں ملیں جو پمفلٹ میں درج تھیں اس لیے میرے دل میں یہ غلط تصور قائم ہوا کہ تاریخ میں ہندوراجاؤں او رمسلم بادشاہوں کے درمیان جنگ میں ہوئی مار کاٹ اور آج کے فرقہ وارانہ فسادات، دہشت گردی کا سبب اسلام ہے۔ دماغ میں غلط فہمی بیٹھ چکی تھی۔ اس لیے ہر دہشت گردانہ واقعہ مجھ کو اسلام سے وابستہ دکھائی دینے لگا۔اسلام، تاریخ اور آج کے واقعات کو جوڑتے ہوئے میں نے ایک کتاب لکھ ڈالی، اسلامی دہشت گردی کی تاریخ، جس کا انگریزی ترجمہ The History of Islamic Terrorism کے نام سے سُدرشن پرکاشن، سیتا کنج، لبرٹی گارڈن، روڈ نمبر ۳، ملاڈ (مغرب) ممبئی ۴۰۰۰۶۴ سے شائع ہوا۔
حال ہی میں میں نے اسلام دھرم کے عالموں کے بیانات کو پڑھا کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام تو محبت،خیر سگالی اور بھائی چارے کا مذہب ہے۔ کسی بے گناہ کو قتل کرنا اسلام دھرم کے منافی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف فتوے بھی جاری ہوئے۔اس کے بعد میں نے قرآنِ مجید میں جہاد کے متعلق وارد آیات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے مسلم علماء سے رابطہ کیا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ قرآن مجید کی آیتیں اس وقت کے مختلف حالات کے تناظر میں نازل ہوئیں۔ اس لیے قرآن مجید کے صرف ترجمے ہی کو نہ دیکھ کر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کون سی آیت کس حالت اور سیاق میں اتری۔ تبھی اس کا صحیح مفہوم اور مقصد کا پتا چل پائے گا۔ساتھ ہی یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید اسلام کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اتارا گیا تھا۔ اس لیے قرآن کو صحیح معنی میں جاننے کے لیے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے واقفیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔
مسلم علماء نے مجھ سے کہا کہ اسلام کے متعلق صحیح معلومات نہ ہونے کے سبب لوگ قرآن مجید کی مقدس آیتوں کا مطلب سمجھ نہیں پاتے۔ اگر آپ نے پورے قرآن مجید کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کا مطالعہ کیا ہوتا تو آپ غلط فہمی کا شکار نہ ہوتے۔مسلم علماء کے مشوروں کے مطابق میں نے سب سے پہلے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کا مطالعہ کیا۔ سیرت کی اس کتاب (جیونی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مصنف محمد عنایت اللہ سبحانی مترجم نسیم غازی فلاحی) کامطالعہ کرنے کے بعد اس نظریئے سے جب خلوص نیت کے ساتھ قرآن مجید کا مطالعہ از اول تا آخر کیا تو قرآن مجید کی آیتوں کا صحیح مطلب اور مقصد میری سمجھ میں آنے لگا۔حق کے واضح ہونے کے بعد اپنی بھول کا احساس ہوا کہ میں لاعلمی کے سبب غلط فہمی کا شکار تھا اور اسی وجہ سے میں نے اپنی مندرجہ بالا کتاب ’’اسلامی دہشت گردی کی تاریخ‘‘ میں دہشت گردی کا تعلق اسلام سے جوڑا ہے جس کا مجھے بے حد افسوس اور دلی قلق ہے۔میں اللہ کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے اور سبھی مسلمان بھائیوں سے علی الاعلان اجتماعی طور پر معافی مانگتا ہوں اور لاعلمی میں لکھے بولے ہوئے الفاظ کو واپس لیتا ہوں، عوام سے میری اپیل ہے کہ ’’اسلامی دہشت گردی کی تاریخ‘‘ (The History of Islamic Terrorism) نامی میری کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اسے صفر سمجھیں‘‘۔ (ص: ۹تا۱۱)
علمی اور اخلاقی دنیا میں سب سے بڑا اور سخت مرحلہ وہ ہوتا ہے جب آدمی کو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا ازالہ کرنے کی بھی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اصل میں یہ صاحب عزیمت لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ میں نے اس طرح کے بہت کم لوگ دیکھے ہیں جو اپنی غلطی مان کر معافی مانگیں۔ سوامی جی نے اس سلسلہ میں ایک ایسی مثال قائم کی ہے جس کی نظیر دور دور تک نظر نہیں آتی ہے۔
کتاب کے صفحہ ۷ پر ’’چند اسلامی اصطلاحات‘‘ کے عنوان کے تحت ’’ایمان، اہل کتاب، کافر، رسول، نبی اور جہاد کے لغوی اور اصطلاحی معانی بتائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر لفظ ’’کافر‘‘ کی وضاحت سوامی جی اس طرح فرماتے ہیں۔
’’کافر، کفر کرنے والا یعنی انکار کرنے والا، سچائی کو چھپانے وال، ناشکرا، وہ لوگ جو ان سچائیوں کو ماننے اور قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جن کی تعلیم خدا کے پیغمبر نے دی ہے۔ ’کافر‘ لفظ لغوی اعتبار سے اسم صفت ہے، یہ ہتک آمیز لفظ نہیں ہے۔ قرآن میں جہاں بھی خدا اور اس کی تعلیمات اور اس کے احکام کا انکار کرنے والوں کے لیے ’کافر‘ لفظ کا استعمال ہوا ہے تو اس کامقصد گالی، نفرت اور تذلیل نہیں، بلکہ ان کے انکار کرنے کے سبب اظہار حقیقت کے لیے ایسا کہا گیا ہے، کافر، لفظ ہندو کا مترادف بھی نہیں جیسا کہ غلط پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ کافر، لفظ کا تقریباً ہم معنی ’ناستک‘ ہے اسلام کی نگاہ میں کسی شخص کے بھی اس انکار کے سبب نہ تو اسے اس دنیا میں کوئی سزا دی جاسکتی ہے اور نہ کسی انسانی حق سے اسے محروم رکھا جاسکتا ہے۔ وہ دنیاوی معاملات میں مساوی حقوق رکھتا ہے۔ہر دھرم میں اُس دھرم کے بنیادی عقائد اور تعلیمات کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے لیے الگ الگ مخصوص الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہند دھرم میں ان لوگوں کے لیے ناستک، اناریہ، اسبھیہ، دسیو اور ملیچھ الفاظ کا استعمال ہوا ہے۔ جو ہندو دھرم کے پیرو نہ ہوں‘‘۔
اور اسی طرح جہاد کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں’’جہاد، انتھک جد وجہد کرنا، مقصد کے حصول کے لیے پوری طاقت لگادینا، جنگ کے لیے قرآن میں ’’قتال‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جہاد کا مفہوم قتال کے معنی میں کہیں زیادہ وسیع تر ہے۔ جو شخص سچائی کے فروغ کے لیے اپنے مال، اپنے قلم، اپنی زبان وغیرہ سے کوشش میں مصروف ہو اور اس کے لیے خود کو تھکاتا ہو، وہ جہاد ہی کررہا ہے۔ سچائی کے لیے جنگ بھی کرنی پڑسکتی ہے اور اس کے لیے جانوں کو قربان بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی جہاد کا ایک حصہ ہے۔ جہاد کو اس وقت اسلامی جہاد کہا جائے گا جبکہ وہ خدا کے لیے ہو اور خدا کی ہدایت کے موافق ہو، نہ کہ مال و دولت کے حصول کے لیے‘‘۔ (ص: ۷،۸)۔
آگے پھر ایک عنوان ایک ’’منصوبہ بند سازش‘‘ کے تحت ایک جگہ لکھتے ہیں:’’شروعات کچھ اس طرح ہوئی کہ ہندوستان سمیت دنیا میں اگر کہیں بھی دھماکہ ہوا یا کسی فرد یا افراد کا قتل ہوا اور اس حادثے میں اتفاق سے کوئی مسلمان شامل ہوا تو اسے اسلامی دہشت گردی سے موسوم کیا گیا۔تھوڑی ہی مدت میں میڈیا سمیت کچھ طاقتوں نے اپنے اپنے ذاتی مفاد کے لیے اسے خوبصورت منصوبہ بندی کے ذریعے اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح میں تبدیل کردیا۔ اس منصوبہ بند سازش کے تحت کئے گئے اس پروپیگنڈے کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج کہیں بھی بم دھاکہ ہوجائے تو اسے فوراً اسلامی دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔اسی ماحول میں پوری دنیا میں عوام کے درمیان میڈیا کے ذریعے سے اور مغربی دنیا سمیت کئی الگ الگ ممالک میں الگ الگ زبانوں میں سینکڑوں کتابیں لکھ لکھ کر اس بات کو پھیلایا گیا کہ دنیا میں دہشت گردی کی جڑ اسلام ہے۔ اس غلط پروپیگنڈے میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ کی آیتیں مسلمانوں کو حکم دیتی ہیں کہ وہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں یعنی کافروں سے لڑیں۔ انھیں بے رحمی سے قتل کریں۔ یا انھیں خوف زدہ کر کے زبردستی مسلمان بنائیں۔ ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کریں، یہ جہاد ہے اور اس جہاد کرنے والوں کو اللہ جنت عطا کرے گا۔ اس طرح منصوبہ بند طریقے سے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے اسے بے گناہوں کا قاتل دہشت گرد مذہب قرار دے دیا گیا اور جہاد کا مطلب دہشت گردی بتایا گیا‘‘۔ (ص: ۱۲)
آگے پھر سوامی جی نے اسلام کے تئیں بنیادی ماخذ قرآن، سیرت نبوی اور احادیث کو بنیاد بنا کر واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے تاہم انھوں نے قرآن سے استدلال و استشہاد کرنے سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت مقدسہ پر ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مختصر سوانح حیات‘‘ کے عنوان کے تحت انتہائی جامع انداز میں روشنی ڈالی ہے کہ دوران مطالعہ یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ ہم کسی مسلم مصنف کی نہیں بلکہ ایک ایسے ہندو مصنف کی کتاب کو دیکھ رہے ہیں کہ جو کبھی خود اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر افشانی او رہرزہ سرائی کرتے تھے اور دہشت گردی کا رشتہ اسلام اور مسلمانوں سے جوڑتے تھے۔ انھوں نے آپؐ کی سیرت طیبہ کو صرف ۱۳ صفحات میں اس طرح سمیٹ دیا ہے کہ جیسے کہتے ہیں کہ سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ سیرت طیبہ کے اس مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں :’’پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سیرت پاک سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کا مقصد اصلی دنیا میں سچائی اور امن کا قیام اور دہشت گردی کی مخالفت ہے۔ لہٰذا اسلام کو تشدد اور دہشت گردی سے جوڑنا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ اگر کوئی (تشدد کا) واقعہ ہوتا ہے تو اس کواسلام سے یا پوری مسلم امت سے جوڑا نہیں جاسکتا‘‘۔ (ص: ۲۶)
صفحہ ۲۷ تا ۳۳ تک ’’اسلام او ردہشت گردی‘‘ کے عنوان سے ایک پُر مغز اور بصیرت افروز مضمون ہے۔ جس میں سوامی جی نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آیا اسلام دہشت گردی کا نام ہے یا پھر وہ ایک مثالی دین؟ اس سلسلہ میں وہ قرآن کی چند آیات پیش کرکے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک مثالی اور امن پسند دین ہے اور انھوں نے اس مضمون میں یہ بھی واضح کردیا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ قرآن کی سورتوں اور آیتوں کا پس منظر جانے بغیر قرآن کا مطالعہ نہ کریں او رنہ کرسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں انھیں کیا کرنا چاہے؟ آگے پھر تحریر فرماتے ہیں:’’یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید کاترجمہ کرتے وقت اس بات کا خاص لحاظ رکھنا پڑتا ہے کہ کسی بھی آیت کا مفہوم ذرا بھی تبدیل نہ ہونے پائے۔ کیونکہ کسی قیمت پر بھی تبدیلی روا نہیں۔ اس لیے الگ الگ زبانوں میں الگ الگ مترجموں کے لکھے ہوئے ترجمے کا مفہوم ایک ہی رہتا ہے۔ غیر مسلم بھائی اگر اس ترجمے کے مشکل الفاظ کو نہ سمجھ پائیں تو وہ — مولانا محمد فاروق خان کا ترجمہ کردہ ’’پوتر قرآن‘‘ (ہندی) کا بھی سہارا لے سکتے ہیں‘‘۔ (ص: ۲۷)
مزید آگے پھر درجنوں آیات کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور قرآن کے تعلیمات میں کہیں پر بھی دہشت گردی کا نام و نشان تک نہیں ملتا ہے۔ جیسا کہ وہ مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں:’’پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اور قرآن مجید کی ان آیتوں کو دیکھنے کے بعد واضح ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور قرآن کی تعلیمات میں کہیں بھی دہشت گردی کا نام و نشان نہیں ملتا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی ناقص معلومات رکھنے والے ہی لاعلمی کے سبب اسلام کو دہشت گردی (آتنک واد) سے جوڑتے ہیں‘‘۔ (ص: ۳۳)
صفحہ ۳۴تا ۶۰ ’’قرآن کی وہ چوبیس آیتیں‘‘ کا مضمون ہے جس میں سوامی جی واضح کرتے ہیں کہ قرآن کی جن چوبیس آیات کو لے کر بعض غیر مسلم دانشور یہ شوشہ پھیلاتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی (آنتک واد) پھیلاتا ہے اور وہ قرآن کی ان آیات کو ان کے سیاق سے کاٹ کر پیش کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات وہ پوری آیت بھی نقل نہیں کرتے ہیں اور پھر ان کی من مانی تاویل و تعبیر کرتے عام ہندؤوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے مصنف کتاب سوامی جی نے اپنے اس مضمون میں ان تمام چوبیس آیات کو ان کے سیاق اور پسِ منظر کے ساتھ نقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان آیات کا کسی مفروضہ اسلامی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں مصنف کتاب اپنے بارے میں خود ہی یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ وہ کیسے غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں۔ چنانچہ اس مضمون کے آغاز ہی میں تحریر فرماتے ہیں:’’کچھ لوگ قرآن کی ۲۴ آیتوں والا ایک پمفلٹ کئی برسوں سے ملک کے عوام کے درمیان تقسیم کررہے ہیں جو ہندوستان کے تقریباً سبھی علاقائی زبانوں میں شائع ہوتا ہے۔ اس پمفلٹ کا عنوان ہے ’’قرآن کی کچھ آیتیں جو ایمان والوں (مسلمانوں) کو دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے کا حکم دیتی ہیں‘‘ جیسا کہ کتاب کی ابتداء میں ’جب میں حق سے آشنا ہوا‘ میں میں نے لکھا ہے کہ اس پرچہ کو پڑھ کر میں غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا تھا‘‘۔ (ص: ۳۴)
اس کے بعد قرآن کی ان چوبیس آیات کی وضاحت تفصیل کے ساتھ کرتے ہوئے ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:’’عوام ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں، جو اپنے سیاسی مفاد کے لیے اس طرح کے کاموں سے ملک میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ کیا نہیں جانتے کہ دوسروں سے عزت پانے کے لیے پہلے خود دوسروں کی عزت کرنی چاہئے۔ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ پہلے خلوصِ دل سے قرآن کو اچھی طرح پڑھ لیں اور اسلام کو جان لیں، پھر اس کے بعد ہی اسلام پر تنقید و تبصرہ کریں ورنہ نہیں‘‘۔ (ص: ۵۹)
اسی طرح صفحہ ۶۱ تا ۷۷ تک ’’قرآن کی اعلیٰ تعلیمات‘‘ کے عنوان سے بھی ایک جامع مضمون پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس مضمون کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنفِ کتاب نے قرآن کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اور انھوں نے اپنے مضمون میں درجنوں قرآنی آیات کا ترجمہ دیا اور واضح کیا کہ اسلام نہ صرف مثالی اور عدل پر مبنی دین ہے بلکہ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ فلاح انسانیت کے لیے قابل عمل نمونہ صرف اسلام میں ہے۔ جیسا کہ وہ ایک جگہ اسلام کے اعلیٰ ترین نظام عدل کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’اسلام کے اعلیٰ ترین نظام عدل کے سبب ہی اسلامی ملکوں میں (جہاں یہ نظام نافذ ہے) قتل، ڈکیتی، راہ زنی، عصمت دری، زنا اور چوری وغیرہ نہیں ہے۔ دنیا کے لوگ بڑی حیرت سے دیکھتے ہیں کہ دو بئی، ایران، عراق، سعودی عرب، کویت وغیرہ مسلم ممالک میں جمعہ کی اذان ہوتے ہی دکاندار اپنی اپنی دکانوں میں کروڑوں کی قیمت کا کنٹلوں سونا چھوڑ کر نماز پڑھنے کے لیے چل دیتے ہیں، دکان میں کسی کے نہ رہنے پر بھی کبھی کوئی چوری نہیں ہوتی۔ آج ساری دنیا میں نوجوانوں کو افیون سے بنی نشیلی دوائیں ڈس رہی ہیں۔ لیکن یہ اسلامی نظام عدل کا ہی کمال ہے کہ اسلامی نظام عدل کا نفاذ کرنے والے ممالک ان سماجی برائیوں سے محفوظ ہیں‘‘۔ (ص: ۷۳)
اسی طرح صفحہ ۷۸تا ۸۰ تک ایک مضمون ’’پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور ہدایات‘‘ کے عنوان سے ہے۔ جس میں سوامی جی نے واضح کردیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و احادیث اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے احکام و تعلیمات کا ہی نام اسلام ہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے بہت سی مستند حدیثیں بخاری شریف کے حوالے سے نقل کر کے ثابت کیا ہے کہ اسلام کا پیغام سچائی اور انسانیت کا پیغام ہے اور اس میں دہشت گردی کی تعلیم دی گئی ہے او رنہ اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق۔ چنانچہ مضمون کے آخر میں سوامی جی تحریر فرماتے ہیں:’’اس سے خود بہ خود ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں کہیں بھی دہشت گردی کی تعلیم نہیں ہے بلکہ دہشت گردی کی مخالفت ہی ہے اور جہاد دہشت گردی نہیں بلکہ اپنی حفاظت کے لیے دہشت گردی کے خلاف ایک کوشش ہے۔جیسے میں نے اپنی کتاب ’’اسلامک آتنک واد کا اتہاس‘‘ (اسلامی دہشت گردی کی تاریخ) میں ہندو راجاؤں و مسلم بادشاہوں کے درمیان جنگ میں ہوئے خون خرابے کا ذکر کیا تھا اس کے بارے میں اب میری سمجھ میں آیا ہے کہ خون ریزی جنگ کی تھی، خاص فرد کی تھی نہ کہ اسلام کی، جنگ کے دوران میں ایسے خون خرابے ہر ملک میں ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں۔ جیسے تاریخ میں سکندر سے لے کر ہٹلر تک یہی کرتے رہے، اپنے ملک ہندوستان میں اشوک کی کلنگ فتح میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے تھے، ان کے ان دہشت گردانہ کاموں کے لیے ان کا دھرم (دین) مجرم نہیں ہے۔ مسلم بادشاہوں کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا‘‘۔ (ص: ۸۰)
صفحہ ۸۱ تا ۹۸ تک ایک مضمون ’’سنساتن ویدک اور اسلام‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں سوامی جی نے ہندو دھرم کی قدیم کتابوں کے حوالے سے ہندو دھرم اور اسلام کے درمیان توحید کے معاملے میں حیرت انگیز یکسانیت و مماثلت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح انھوں نے واضح کردیا ہے کہ ہندو دھرم کی اصل توحید ہے۔ لیکن بعد میں توحید کی جگہ شرک اور بہت سے خداؤں کا غلط نظریہ داخل ہوگیا ہے۔ جیسا کہ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:’’یہاں بدقسمتی کی بات ہے کہ توحید کی اس حقیقت کو بتلانے والے سنساتن ویدک دھرم آج کتابوں میں ہی سمٹ کر رہ گیا ہے۔ اس کی جگہ شرک اور بہت سے خداؤں کا غلط نظریہ داخل ہوگیا ہے۔ یہاں آج بھی نئے نئے دیوتا، خدا کے نئے نئے اوتار بنتے جارہے ہیں۔ اگر ٹی وی یا کسی فلم میں کسی شخص کو ایشور کا اوتار بنادیا جائے، بڑائی کا پرچار کردیا جائے تو یہاں عوام اس کی پوجا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ان میں سے کئی کئی تو خود کو مجسم خدا ہی کہتے پھر رہے ہیں اور عوام ان کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ افسوس اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ باطل اور جھوٹ کا جتنا بول بالا ہمارے یہاں ہے اتنا کہیں نہیں ہے۔ خدا سب کو عقل سلیم دے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگ اپنی عقل و شعور دونوں سے ہی کام نہیں لے رہے ہیں‘‘۔ (ص: ۹۳)
ایک جگہ لکھتے ہیں’’مسلم مدرسوں او ردینی وسماجی تنظیموں نیز مسلم علماء کے بارے میں یہ غلط پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی پر لوگوں کو ابھارتے ہیں۔ اس کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے میں نے تقریباً تمام معروف سماجی و دینی مسلم تنظیموں کا مطالعہ کیا۔ لیکن وہاں مجھے کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی موید نہیں ملا۔ کہا جاتا ہے کہ مدرسوں میں دہشت گرد بنائے جاتے ہیں۔ مدرسوں میں بنائے گئے ان دہشت گردوں کو تلاش کرنے کے لیے میں لکھنو میں قائم مدرسہ ندوہ کالج سمیت کئی دیگر مدرسوں میں گیا۔ لیکن وہاں دہشت گردی کی جگہ پر مجھے امن وسلامتی، نظم وانصرام، تہذیب، بڑوں کا احترام اور انسانیت کے تئیں محبت دیکھنے کو ملی— یہ کتاب لکھنے سے پہلے ہی متعدد مسلم علماء سے میں مل چکا تھا۔ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی الحسنی الندوی (علی میاں) کے ذریعہ قائم کردہ پیام انسانیت فورم نے ملک کے مختلف حصوں میں سیمینار منعقد کئے، جن میں انسانیت پر اظہار خیال کرنے کے لیے مجھے مدعو کیا جانے لگا۔ اس کے علاوہ ملک کی مختلف مسلم تنظیموں اور اداروں نے بھی مجھے اپنے عوامی پروگرواموں میں اظہارِ خیال کا موقع دیا۔ ان سبھی مواقع پر میں بہت سے علماء سے ملا۔ ان سبھی علماء کی سادگی، شرافت اور انسانیت کے لیے ان کے دل کی تڑپ نے مجھے بہت متاثر کیا۔ مسلم سماجی و دینی تنظیموں او رمسلم علماء سے ملنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ عوام کے درمیان جان بوجھ کر اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے‘‘۔ (ص: ۱۰۰)
غرض یہ کہ زیر نظر کتاب ’’اسلام دہشت گردی یا ایک مثالی دین‘‘ نہ صرف اول سے آخر تک بلکہ اس کی ایک ایک سطر اور اس کا ایک ایک لفظ پڑھنے اور غور کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف غیر مسلم بھائیوں کو بلکہ عام مسلمانوں کو بھی کرنا چاہئے۔ سوامی جی نے اپنی اس کتاب کو جس محنت وعرق ریزی او رخلوص و محبت سے لکھا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرکے عام مسلمانوں سے معافی بھی مانگی ہے۔ اس سے انھوں نے جہاں ایک طرف مسلمانوں کے دل بھی جیتے ہیں تو وہاں دوسری طرف انھوں نے اپنے سچے اور سلیم الفطرف انسان ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے۔ بلاشبہ اس کتاب کے لکھنے پر سوامی جی خراج تحسین اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔
تحریر غلام نبی کشافیؔ, بشکریہ ماہنامہ زندگی نو