جناب غامدی صاحب کے مکتبِ فکر کےنظریۂ “اتمامِ حجت” ،جسے یہ مکتبِ فکر “قانون” کے طور پر پیش کرتا ہے ،کافی تفصیلی بحث ہم کرچکے ہیں ۔اس بحث کا ایک موضوع یہ بھی تھا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے روم و فارس کے خلاف جو جنگیں لڑیں ، کیا وہ “اتمامِ حجت” کے بعد لڑی گئی تھیں؟ کیا قیصر و کسریٰ کو خطوط لکھنے سے ان کی اقوام پر حجت تمام ہوگئی اور وہ اس بنا پر عذاب کے مستحق قرار پائے ؟
ان جنگوں کے بارے میں ایک دوسری رائے ان لوگوں کی ہے جنھوں نے جہاد پر مغربی تنقید کے سامنے معذت خواہی کا رویہ اپنایا ہوا ہے ۔ ان اصحاب نے کوشش کی ہے کہ کسی طرح ان جنگوں کو اس وقت کے سیاسی و اجتماعی حالات کا ناگزیر تقاضا ثابت کیا جائے اور دکھا یا جائے کہ مسلمانوں پر یہ جنگیں دوسرے فریق کی جانب سے مسلط کی گئی تھیں اور ان کی نوعیت گویا مدافعانہ تھی ۔ پہلےنظریے کی طرح یہ نظریہ بھی چند سوالات کے جواب تو دے دیتا ہے لیکن بہت سے نئے سوالات بھی پیدا کرلیتا ہے ۔
ان دونوں نظریات میں بظاہر کتنا ہی بعد نظر آتا ہو لیکن گہری نظر سے دیکھا جائے تو ان میں ایک مشترک عنصر دکھائی دیتا ہے ، اور وہ یہ کہ یہ دونوں نظریات اسلام کی اس حیثیت کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ یہ تمام نوعِ انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے واحد صحیح دین ہے جس کا سب انسانوں تک پہنچانا اس دین کے پیروکاروں پر لازم ہے ۔ اس لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ان جنگوں کو صرف دفاعی جنگیں نہیں کہا جاسکتا ،نہ ہی انھیں ایک خیالی اتمامِ حجت کے بعد اللہ کی جانب سے نافذ کی جانے والی سزا قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ان جنگوں کی صحیح نوعیت یہ تھی کہ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں اپنے تسلط میں رہنے والے لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں ۔ اگر یہ حکومتیں صحابۂ کرام کو اللہ کے دین کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانے دیتیں اور اس دعوت راہ میں رکاوٹ نہ بن جاتیں تو صحابۂ کرام ان سے کبھی جنگ نہ لڑتے۔
جب صلحِ حدیبیہ کے بعد رسول اللہ ﷺ کو مشرکینِ مکہ کی جانب سے قدرے اطمینان نصیب ہوا تو آپ نے نہ صرف دیگر عرب قبائل کی طرف دعوت پھیلانے کی طرف توجہ کی بلکہ کئی ہمسایہ حکومتوں کی طرف بھی باقاعدہ اپنے سفیر بھیجے اور انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔ انھیں ان خطوط میں یہ بھی بتایا گیا کہ اگر وہ دعوت کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے تو ان پر ان کے عوام کے گناہوں کا وبال بھی آئے گا۔ ان خطوط پر قیصر و کسریٰ کی جانب سے جو ردعمل آیا وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ اگر صرف روم کی سلطنت کے ساتھ تعلق کا جائزہ لیں تو رومی گماشتوں نے رسول اللہ ﷺ کے سفیر کو قتل کیا اور یہ خود روم کے بین الاقوامی قانون (jus gentium)کی رو سے جنگی اقدام تھا ۔اس کے بعد ہی جنگِ موتہ ہوئی اور پھر فتحِ مکہ کے بعد جب بظاہر مشرکینِ عرب کی قوت ختم ہوگئی تو سورۃ التوبہ کی آیتِ جزیہ نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ان اہلِ کتاب سے (آیت میں کئی اشارات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روئے سخن خصوصاً مسیحیوں کی طرف ہے ) اس وقت تک لڑو جب تک وہ مغلوب ہوکر جزیہ دینے پر آمادہ نہ ہوجائیں ۔ غزوۂ تبوک کی عظیم مہم اس حکم کے بعد ، اور اس کے نتیجے میں ، ہوئی ۔غزوۂ تبوک سے واپسی کے کچھ عرصے بعد سورۃ التوبہ کی ابتدائی آیات کا نزول ہوا تو مشرکینِ عرب کے خلاف آخری اقدام کیا گیا اور ان کی جانب سے counter-revolution کی پہلی کوشش ناکام بنادی گئی ۔ (ایسی دوسری کوشش رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد انھوں نے کی جب ارتداد کی آگ بالخصوص ان عرب قبائل میں پھیل گئی جنھوں نے یہ پہلی کوشش کی تھی لیکن اس دوسری کوشش کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جنگ لڑ کر ہمیشہ کے لیے ناکام بنادیا ۔ )
رسول اللہ ﷺ کے وصال سے کچھ ہی قبل سورۃ التوبہ کے آخری حصے کی یہ آیت نازل ہوئی جس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو حکم دیا گیا کہ اپنے قریب کے کفار سے لڑو اور چاہیے کہ وہ تم میں سختی پائیں ۔ اس حکم کی تعمیل میں رسول اللہ ﷺ نے روم کی طرف جیشِ اسامہ روانہ کیا اور ابھی اس لشکر نے مدینہ کے باہر کچھ فاصلے پر پڑاو کیا تھا کہ آپ کا وصال ہوا ۔ اس لشکر کو پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے روانہ کیا اور پھر وہ سلسلہ چل پڑا جس کے نتیجے میں بلاد الشام پر رومی سلطنت کے تسلط کا خاتمہ کیا گیا ۔
فارس کے ساتھ بھی تقریباً اسی نوعیت کا معاملہ ہوا ۔ دیگر امور کے علاوہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک اہم مسئلہ یہ تھا کہ مجوس تو دو خداؤں کے ماننے والے تھے اور اس لحاظ سے مشرکینِ عرب کی طرح تھے لیکن ایک تو رسول اللہ ﷺ نے خود بعض مجوس سے جزیہ وصول کیا تھا اور پھر بعض صحابۂ کرام کو رسول اللہ ﷺکی یہ ہدایت یاد تھی کہ مجوس کے ساتھ وہی معاملہ کرنا ہے جو اہلِ کتاب کے ساتھ ہوتا ہے ، یعنی ان کی سیاسی طاقت ختم ہوجائے اور وہ جزیہ دیں تو ان سے مزید جنگ نہ کریں ، البتہ ان کی عورتوں سے نکاح اور ان کا ذبیحہ کھانا ناجائز ہے ۔ یہی فیصلہ صحابۂ کرام نے بطور سنت جاری کیا۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں کی حکومت جن علاقوں تک پھیل گئی تھی ان پر ایک نظر بھی ڈال لیں تو معلوم ہوجائے گا کہ اس وسعت کی وضاحت نہ تو اتمامِ حجت کے نظریے سے ہوتی ہے ، نہ ہی دفاع کے عذر سے ۔ جب تک یہ نہ تسلیم کیا جائے کہ اسلام کی دعوت پھیلانا مسلمانوں پر لازم تھا اور اس دعوت کی راہ میں اگر حکومتیں مزاحم تھیں اور مسلمان ان رکاوٹوں کو دور کرسکتے تھے تو ان کا دور کرنا بھی ان پر لازم تھا ، تب تک ان جنگوں کی صحیح نوعیت نہیں سمجھی جاسکتی ۔
اور بہت زیادہ معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے بھی نہیں ۔ معاصر بین الاقوامی قانون کی رو سے بھی بعض ‘اقدار’ ایسی ہیں جن کی ترویج لازمی قرار دی گئی ہے اور جو حکومتیں ، بلکہ ریاستیں ، ان اقدار کی ترویج کی راہ میں رکاوٹ ہوں ان حکومتوں ، اور ریاستوں ، کو ختم کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں میں اسلامی قانون اور معاصر بین الاقوامی قانون میں دفاع کے تصور پر اپنے مقالے کا ایک حاشیہ پیش کرنا چاہوں گا جس سے شاید مدعا کی وضاحت بہتر طریقے سے ہوسکے گی :
In the contemporary international legal regime, states do not express the right to use force against other states on the basis of denial of the right to preach a particular religion. However, other ‘values’ — such as the values of ‘human rights, freedom and democracy’ — are deemed so important that governments are toppled and states are occupied in order to promote these values. We also hear references to ‘rogue states’ harassing ‘human rights activists,’ or denying ‘equal rights’ to minorities or women. Ronald Reagan, the US President from 1980 to 1988, launched a series of invasions under the notion of ‘regime change’ in various parts of the globe for ‘promoting democracy.’ His successor George Bush, the US President from 1989 to 1992, invaded Panama in 1989 to kidnap the ‘undemocratic’ and ‘criminal’ General Noriega. He also invaded Iraq in 1991 to ‘liberate’ Kuwait. His son George Walker Bush, the US President from 2000 to 2008, pronounced a ‘relentless’ war, even ‘crusade,’ against ‘terrorism.’ This so-called ‘global’ war on terror is deemed to be a war that knows no ‘frontiers.’ The whole world has been divided into ‘us’ and ‘them’ and values are also designated as ‘ours’ and ‘theirs.’ These should not be deemed as isolated instances or imperialistic doctrines of the super powers. This is because we also have the notion of ‘threat to international peace’ in the UN Charter, which forms one of the bases for the UN Security Council authorising the use of force against a state. Today, because of the paradigm shift, the threat to ‘international’ peace seems a valid basis for waging war. In the same way, it can be argued that it is justified to wage war against a state which obstructs the preaching of Islam (read, promoting democracy or preserving international peace).
ترجمہ :
موجودہ مروجہ عالمی قوانین کے مطابق، ریاستوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی خاص مذہب کی تبلیغ کے حق کو رد کرنے والی ریاستوں پر طاقت کا استعمال کریں۔ اس کے برعکس “دوسری اقدار” جیسے کہ انسانی حقوق، آزادی اور جمہوریت جیسے حقوق اتنی اہمیت کے حامل ہیں کہ ان اقدار کی ترویج کے لیے حکومتیں گرا دی جاتی ہیں اور ریاستوں پر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ ہم ایسی بے اصول ریاستوں کے بارے میں بھی سنتے ہیں جو انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کرتی ہیں، یا اقلیتوں اور خواتین کو مساوی حقوق نہیں دیتی۔ 1980 سے 1988 تک امریکہ کے صدر رہنے والے رونالڈ ریگن نے دنیا کے مختلف حصوں میں جمہوریت پھیلانے کے لیے بہت سے ملکوں پر حملے کیے تاکہ وہاں کی حکومت تبدیل کی جا سکے۔ ان کے بعد آنے والے جارج بش جو 1989 سعے 1992 تک صدر رہے، انھوں نے 1989 میں پانامہ پر حملہ کیا تاکہ وہاں کے غیر جمہوری اور مجرم جنرل نوریگا کو اغوا کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ جارج بش نے 1991 میں عراق پر حملہ کیا تاکہ کویت کو آزاد کرایا جا سکے۔ اس کے بیٹے جارج واکر بش جو 2000 سے 2008 تک امریکی صدر رہے، انھوں نے دہشت گردی کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا اعلان کیا اور یہاں تک کہ اسے صلیبی جنگ کا نام دیا۔ دہشت گردی کے خلاف یہ نام نہاد عالمی جنگ ایک ایسی جنگ ہے جس کی کوئی حدود و قیود نہیں۔ اس بنیاد پر پوری دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکہ ہے جن میں مغربی ذہنیت سے ہم آہنگ حصے کو اپنا سمجھتے ہیں اور باقی تمام کو غیر اور یہی حال اقدار کا ہے۔ ان تمام کو الگ تھلگ واقعات یا کسی سپر پاور کی سامراجی پالیسی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایسا اس لیے ہے کے اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی عالمی امن کو لاحق خطرات جیسی اصطلاحات موجود ہیں، جس کی بناء پر اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کو یہ اختیار بھی دیتی ہے کہ وہ کسی ملک کے خلاف طاقت کا استعمال کریں۔ حالات کی تبدیلی کی وجہ سے موجودہ زمانے میں عالمی امن کو خطرہ کسی ملک کے خلاف جنگ کی جائز وجہ سمجھی جاتی ہے۔ اسی انداز میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایسی ریاستوں کے خلاف بھی جنگ جائز ہے جو اسلام کی تبلیغ میں رکاوٹ ہوں (پڑھیے جمہوریت کی ترویج اور عالمی قیام امن)
امریکی آئین کی بنیاد رکھنے والے جیفرسن کے خیالات ملاحظہ ہوں:
“We hold these truths to be self-evident, that all men are created equal; that they are endowed by their Creator with inherent and inalienable rights; that among these, are life, liberty, and the pursuit of happiness; that to secure these rights, governments are instituted among men, deriving their just powers from the consent of the governed; that whenever any form of government becomes destructive of these ends, it is the right of the people to alter or abolish it, and to institute new government, laying its foundation on such principles, and organizing its powers in such form, as to them shall seem most likely to effect their safety and happiness.”
ترجمہ :ہم ان سچائیوں کو شکوک سے بالاتر سمجھتے ہیں کہ تمام انسان برابر ہیں، انھیں خالق کی طرف سے جو حقوق عطا کیے گئے ہیں ان سے کوئی اعراض ممکن نہیں؛ ان حقوق میں زندگی، آزادی، خوشی کی جستجو جیسے حقوق شامل ہیں اور ان حقوق کی پاسداری کے لیے انسان کو حکومت کا اختیار تفویض کیا گیا ہے، اور ان کا یہ اختیار ان لوگوں کی وجہ سے ہے اور ان لوگوں کی منشا سے دیا گیا ہے جن پر وہ حکومت کرتے ہیں؛ اور جب کبھی کوئی حکومت ان اصولوں کے لیے تباہ کن بن جاتی ہے، تو یہ لوگوں کا حق ہے کہ وہ اسے تبدیل کریں یا ختم کریں، اور نئی حکومت کی بنیاد ایسے اصولوں پر رکھیں اور حکومت کے اختیارات کو ایسے تشکیل دیں جس سے انھیں یہ یقین ہو کہ وہ محفوظ اور خوش رہ سکیں گی۔
تحریر ڈاکٹر مشتاق صاحب، چئیرمین شعبہ قانون، اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد