جناب غامدی صاحب “قانونِ دعوت “میں لکھتے ہیں :
“اللہ کے جو پیغمبر بھی اس دنیا میں آئے ، قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت الی اللہ اور انذار و بشارت کے لیے آئے۔ سورۂ بقرہ کی آیت کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ الببیین مبشرین و منذرین میں یہی بات بیان ہوئی ہے۔ ان نبیوں میں سے اللہ تعالیٰ نے جنھیں رسالت کے منصب پر فائز کیا ، ان کے بارے میں البتہ قرآن بتاتا ہے کہ وہ اس انذار کو اپنی قوموں پر شہادت کے مقام تک پہنچادینے کے لیے بھی مامور تھے۔ قرآن کی اصطلاح میں اس کے معنی یہ ہیں کہ حق لوگوں پر اس طرح واضح کردیا جائے کہ اس کے بعد کسی شخص کے لیے اس سے انحراف کی گنجایش نہ ہو: لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل۔ ۔۔ نبیوں کا انذار و بشارت تو کسی وضاحت کا تقاضا نہیں کرتا ، لیکن رسولوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے ۔ انذار و بشارت کے ساتھ وہ شہادت کی جس ذمہ داری کے لیے مامور ہوتے ہیں ، اس کے تقاضے سے ان کی دعوت کے چند مراحل اور ان مراحل کے چند لازمی نتائج ہیں جو انھی کے ساتھ خاص ہیں ۔ یہ دعوت کی کسی دوسری صورت سے متعلق نہیں ہیں ۔ ” (میزان ، 2001ء ایڈیشن، ص 184- 185)
یہ اقتباس بار بار پڑھیے تاکہ اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ وہ نبی اور رسول میں کس طرح فرق کررہے ہیں ؟ وہ قطعی الدلالہ الفاظ میں تصریح کر رہے ہیں کہ رسول کا کام نبی سے اس طرح زیادہ ہوتا ہے کہ انذار و بشارت کے علاوہ وہ شہادت کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں اور یہ کہ شہادت کےفریضے سے مراد یہ ہے کہ وہ اس مفہوم میں اتمام حجت کرتے ہیں کہ مخالفین کے پاس نہ ماننے کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی ۔
یہ بھی دیکھ لیجیے کہ وہ اس کے لیے سورۃ النساء کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں : رسلاً مبشرین و منذرین لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل ۔
ساتھ ہی وہ قطعی الدلالہ الفاظ میں تصریح کرتے ہیں کہ رسول کی دعوت کے جو مراحل ہیں وہ رسول کی دعوت کے ساتھ ہی خاص ہیں اور یہ کہ رسول کا معاملہ نبی کے معاملے سے مختلف ہوتا ہے ، بلکہ یہ بھی تصریح کرتے ہیں کہ رسول کی دعوت کے مراحل “دعوت کی کسی دوسری صورت سے متعلق نہیں ہیں ۔ ”
غامدی صاحب کے استاد مولانا اصلاحی نےبھی اتمامِ حجت کے اصول کو اس فرق کے ساتھ متعلق کیا ہے جو انھوں نے نبی اور رسول کے درمیان ذکر کیا ہے۔ ان کے موقف کے مطابق ہرچند کہ نبی اور رسول دونوں اللہ کی جانب سے مبعوث اور صاحبِ وحی ہوتے ہیں لیکن ان میں فرق یہ ہے کہ رسول اپنے مخاطبین کے لیے حق اس طرح واضح کردیتے ہیں کہ اس کے بعد ان کے پاس نہ ماننے کے لیے کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔ اس کے بعد بھی وہ انکار پر اڑے رہیں تو ان پر رسول کی زندگی میں ہی اللہ تعالیٰ کا عذاب آجاتا ہے۔اس موقف کے لیے وہ جن آیات سے استدلال کرتے ہیں، ان میں ایک یہ ہے: رسلاً مبشرین و منذرین لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل۔
اب دیکھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ کیا یہ آیت یہ بتا رہی ہے کہ دنیا میں ان لوگوں کے پاس حجت باقی نہیں رہتی یا آخرت کے دن کی بات ہورہی ہے کہ اس دن یہ اللہ کے سامنے کوئی حجت پیش نہیں کرسکیں گے؟
آگے بڑھیے اور یہ دیکھیے کہ یہ آیت کیا یہ بات صرف ان “رسل” کے متعلق کہہ رہی ہے جن پر دنیا میں ہی اللہ کا عذاب آیا یا ان “انبیاء” کے متعلق بھی یہی بات کہہ رہی ہے جن کے مخاطبین پر ان کی زندگی میں عذاب نہیں آیا (مولانا اصلاحی و جناب غامدی کے الفاظ میں ان پر “اتمامِ حجت” نہیں ہوا)؟ اس کے لیے اس آیت سے ذرا پیچھے جانا پڑے گا:
انا اوحینا الیک کما اوحینا الی نوح و النبیین من بعدہ۔ و اوحینا الی ابراھیم و اسمٰعیل و اسحٰق و یعقوب و الاسباط و عیسیٰ و ایوب و یونس و ھٰرون و سلیمٰن۔ و آتینا داود زبورا۔ و رسلاً قد قصصنٰھم علیک من قبل و رسلاً لم نقصصھم علیک۔ و کلم اللہ موسیٰ تکلیما۔ رسلاً مبشرین و منذرین لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل۔ و کان اللہ عزیزاً حکیماً۔
اب اتمامِ حجت والے اصحاب پہلے یہ تو ثابت کریں کہ ان آیات میں مذکور تمام انبیاء اس مفہوم میں رسول تھے جو مفہوم مولانا اصلاحی اور جناب غامدی نے متعین کیا ہے؟ یعنی ان کے مخاطبین پر اتمامِ حجت کے بعد ان کی زندگی میں ہی ان پر عذاب آٰیا اور ان کو اپنے مخالفین پر دنیوی غلبہ حاصل ہوا۔
غامدی صاحب قانون ِ دعوت میں آگے رسول کی دعوت کے وہ مراحل بتاتے ہیں جو بقول ان کے صرف رسول کی دعوت میں ہوتے ہیں اور نبی سمیت کسی اور کی دعوت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
یہ مراحل درج ذیل ہیں : انذار ، انذار ِعام ، اتمامِ حجت ،ہجرت و براءت اور ،جزاوسزا ۔
باقی مراحل کو فی الحال نظرانداز کرکے ہم آخری مرحلے پر آتے ہیں ۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں :
“یہ آخری مرحلہ ہے ۔ اس میں آسمان کی عدالت زمین پر قائم ہوتی ہے ، خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا ہے اور پیغمبر کی قوم کے لیے ایک قیامتِ صغریٰ برپا ہوجاتی ہے ۔ “( میزان ، ص 194)
آگے لکھتے ہیں کہ جب رسول کے ساتھ معتد بہ تعداد میں ساتھی ہوں اور دار الہجرت بھی میسر ہو تو پھر اللہ تعالیٰ ان کے اور مخالفین کے درمیان معرکہ برپا کردیتا ہے اور پھر جنگ کے ذریعے مخالفین کااستیصال کردیتا ہے ۔ استدلال میں وہ یہ آیات پیش کرتے ہیں : ان الذین یحآدون اللہ و رسولہ اولٰئک فی الاذلین ۔ کتب اللہ لاغلبن انا و رسلی۔ ان اللہ قوی عزیز ۔ (سورۃ المجادلۃ) آگے استخلاف کی آیت کو بھی وہ اسی سے متعلق قرار دیتے ہیں ۔ دوسرے مقام پر وہ سورۃ التوبہ کی آیات کا بھی یہی محل بتاتے ہیں ۔ اس تصور پر ہی “سیاسی اسلام” کے خلاف ان کا ڈسکورس قائم ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : برہان میں ان کا مضمون “تاویل کی غلطی ” ۔
اب یہاں چند مزید طالب علمانہ سوالات پیش کرنا مناسب ہے ۔
اگر رسول کے لیے غلبہ لازمی ہے اور ان کی زندگی میں ہی ان کے مخالفین پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے جو ان کا مکمل استیصال کرتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام کو غزوۂ احد میں یہ پریشانی لاحق ہوگئی تھی کہ کہیں آپ کو قتل ہی نہ کیا گیا ہو؟
پھر مزید کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام کو یہ تو کہہ دیا کہ اگر “رسول” قتل ہوں یا فوت ہوجائیں ، تو کیا آپ الٹے پاؤں پھر جائیں گے ، لیکن یہ نہیں کہا جب ابھی انھیں غلبہ حاصل ہی نہیں ہوا تھا اور ان کے مخالفین کا استیصال ہی نہیں ہوا تھا تو وہ کیسے قتل کیے جاسکتے تھے یا فوت ہوسکتے تھے؟
و ما محمد الا رسول ۔ قد خلت من قبلہ الرسل ۔ افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم۔ و من ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئا ۔ و سیجزی اللہ الشٰکرین۔
یہ بھی ملاحظہ کیجیے کہ اس سے ایک آیت بعد اسی سلسلۂ بیان میں رسول کی جگہ نبیوں کا ذکر آیا ہے اور کسی فرق کا اشارہ تک نہیں دیا گیا :
و کاین من نبی قٰتل معہ ربیون کثیر ۔ فما وھنوا لما اصابھم فی سبیل اللہ و ما ضعفوا و مااستکانوا ۔ واللہ یحب الصٰبرین۔
پھر یہ بھی دیکھیے کہ خود رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کتنے ہی مقامات پر یہ فرمایا ہے کہ اگر ان مشرکین کو سزا دینے سے قبل ہم نے آپ کو اٹھالیا تو پھر بھی ان کی واپسی تو ہماری ہی طرف ہے اور ہم ہی ان کو سزا دیں گے:
و اما نرینک بعض الذی نعدھم او نتوفینک فالینا مرجھم ثم اللہ شھید علی ما یفعلون (سورۃ یونس )
و ان ما نرینک بعض الذی نعدھم او نتوفینک فانما علیک البلاغ و علینا الحساب (سورۃ الرعد)
اس سے زیادہ تصریح سورۃ الزخرف میں کی گئی ہے :
فاما نذھبن بک فانا منھم منتقمون ۔ او نرینک الذی وعدنٰھم فانا علیھم مقتدرون ۔
یہ بھی ملاحظہ کریں کہ سیدنا مسیح علیہ السلام جناب غامدی صاحب کے موقف کے مطابق محض نبی نہیں بلکہ رسول بھی تھے اور اگرچہ وہ یہ مانتےہیں کہ انھیں قتل یا مصلوب نہیں کیا جاسکا لیکن وہ ان کی قدرتی موت کے قائل ہیں اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کو اپنے مخاطبین پر دنیوی غلبہ حاصل نہیں ہوسکا تھا ، نہ ہی ان کی زندگی میں وہ “آسمانی عدالت” قائم ہوئی جس کے ذریعے ان کے مخالفین کا استیصال ہوا ہو ۔ پھر “جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیٰمۃ” سے دنیوی غلبہ کیسے مراد لیا جاسکتا ہے جبکہ آپ کے حواریین آپ کے بعد بھی یہود اور روم دونوں کے سامنے مغلوب اور مقہور ہی تھے ؟
پھر یہ ایک اور مستقل بحث ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا مشن اگر جزیرۂ عرب تک محدود نہیں تھا بلکہ قیصر وکسریٰ کی طاقت توڑنا بھی اس مشن میں شامل تھا تو یہ مشن آپ کی زندگی میں مکمل ہونے کے بجائے آپ کے صحابہ کے ہاتھوں کیوں تکمیل تک پہنچا ؟ آپ کے وصال تک تو گویا آپ کا مشن صرف جزیرۂ عرب کی حد تک ہی مکمل ہوا تھااور وہ بھی عارضی طور پر کیونکہ آپ کے وصال کے ساتھ ہی عرب میں ارتداد کی آگ پھیل گئی جس پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہی قابو پایا جاسکا ۔ اس لیے جزیرۂ عرب کی حد تک بھی آپ کے مشن کی تکمیل سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی ، اگر مشن سے مراد دنیوی غلبہ اور مخالفین کا “استیصال” ہے۔
قیصر و کسری کی سلطنتوں کو وہ کذالک جعلنکم امۃ وسطا لتکونوا شہداء علی الناس کے تحت صحابہ کے ذریعے مانتے ہیں۔ مگر یہ بات بھی مسئلے کو حل نہیں کرتی کیونکہ صحابہ کے دور میں صرف قیصر و کسری ہی نہیں بلکہ بات اس سے آگے چلی گئی تھی۔
تحریر ڈاکٹر مشتاق احمد، چیرمین شعبہ قانون ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد