علم وتہذیب میں یورپ کی مرکزیت[Eurocentrism] کانظریہ

علم کی ترسیل اور حصول علم کا ماخذ اور ذریعہ کتابیں ہیں تاہم اس میں اساتذہ کا کردار پل جیسا ہوتا ہے۔ سماجی علوم یا تاریخ کی کتابوں میں جو نقطء باربار دہرایا جاتا ہے تو ایک سطح پر یہ نقطء ہمارا بیانیہ بن جاتا ہے۔یہی بیانیہ ہماری سوچ و افکار کو متاثر کرتا ہے۔ جغرافیہ اور تاریخ کی کتابوں میں ہمیں ایشیائی اقوام، افریقہ کے لوگوں سے متعلق تہذیبی پسماندگی کی داستانیں پڑھائی جاتی ہیں۔تاریخ کے ارتقائی عمل میں ہمیں ڈارون سے متاثرہ نظریات پڑھائے جاتے ہیں بلکہ اس کے گرد گھومتے تصورات بذریعہ کتابیں ہمارے ذہنوں میں اُنڈیلے جاتے ہیں۔

اس سارے عمل میں ہمیں باور کرایا جاتا ہے کہ انسانی ذہن کے ارتقائی سفر کا مرکز یورپ ہے۔ جے ایم بلاٹ کہتا ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ پہلی وحشیانہ تہذیب کی ابتداء بائبل کی سرزمین سے ہوئی تھی۔اسی سرزمین کے کوہ قاف والے علاقہ سے دو نسلیں پروان چڑھی تھیں جنہوں نے دُنیا کی تاریخ کی تشکیل میں حصہ لیا تھا۔ان میں سے ایک سامی النسل تھی کہ جس نے شہر آباد کیے اور عظیم سلطنتیں قائم کیں، وحدت کی تعلیم دی اور عیسائیت کو پیدا کیا۔آرین یا انڈو یورپین اگرچہ آزادی کے متوالے تو تھے مگر ترقی میں پیچھے تھے، یہ جنوب مشرقی یورپ، مغربی ایشیاء سے ہجرت کر کے یورپ میں پھیل گئے۔اور یہاں انہوں نے صحیح معنوں میں پہلی حقیقی مہذب سوسائٹی کو قائم کیا جو کہ قدیم یونان کا معاشرہ تھا۔ اس کے بعد رومیوں نے اس تہذیب کو آگے بڑھایا اور یوں دُنیا کی تہذیب یہاں سے شمال مغرب کی جانب پھیلی۔


اس خطے میں تعلیمی اداروں اور تاریخی کتابوں کے ذریعے ہمیں بتایا گیا کہ برطانوی نوآبادیاتی دور میں ہم نے تہذیب سیکھی اور جدید دُنیا سے ہمارا تعلق پیدا ہوا۔ہمیں یہ باور کرایا جاتا ہے یورپین ذہین، سمجھدار، تعلیم یافتہ ہیں جبکہ ان کے مقابلے پر اس خطے میں ذہنی پسماندگی اور انتشار عام تھا۔یہ تاریخ جو یورپین نے لکھی اس نے تاریخ کو ایک سرنگ میں بند کر دیا ہے جس کے ارد گرد برتری کی اونچی اونچی دیواریں کھڑی ہیں۔ اس سرنگ میں کھڑے ہوکر جب اہل یورپ یا پھر یورپ سے متاثرہ افراد تاریخ کو دیکھتے ہیں تو اُنہیں وہی نظر آتا ہے کہ جو ان کے ارد گرد ہے۔


تاریخ کے اس نظریہ میں غیر یورپی دُنیا کو بالکل نظر انداز کیا گیا۔ نصاب کی کتابوں میں غیر یورپی ممالک کو بہت کم جگہ دی گئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس نظریے کو تیزی سے فروغ دیا گیا۔سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقاء کے ساتھ یورپ میں جدید ایجادات ہوئیں، مشین کی ایجاد نے یورپ کے سماج کو بدلا۔اس پس منظر میں تاریخ کی کتب میں جو تصویر کشی کی گئی اس میں تہذیب کی ترقی کی وجوہات کو یورپ کے اندر تلاش کیا گیا۔


اس سارے عمل کو یورپی مرکزیت یا یوروسینٹرازم کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح ماضی اور حال دونوں میں اہل یورپ کی برتری کو غیر یورپیوں پر ثابت کرتی ہے۔


یوروسینٹرازم کا شکار افراد اس پر اصرار کرتے ہیں کہ یورپ نے جمہوریت، سائنس، فیوڈل ازم، سرمایہ داری اور جدید قومی ریاستوں سے دُنیا کو روشناس کرایا۔ یہ افراد ان حقائق کو اپنی دلیل کا مرکز بنا لیتے ہیں۔اس لیے یورپی مرکزیت ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ہم اپنے ذہن سے تمام تعصبات کو نکال دیں اور خود کو وسیع ذہن کا مالک سمجھیں مگر اس کے باوجود یورپی مرکزیت اپنے سائنسی اور ترقیاتی نقطء نظر کی وجہ سے ہمارے ذہنوں پر چھائی رہے گی۔اس لیے اس کو رد کرنے کے لیے ان ہی دلائل کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر اس کی پوری عمارت کھڑی ہے۔


جب کبھی کسی کیمونٹی میں کوئی کلچرل تبدیلی آتی ہے تو اس تبدیلی کی وجہ کوئی ایجاد ہوتی ہے جو کیمونٹی کے اندر روشناس ہوئی ہو اور جس نے اس کے پورے نظام کو متاثر کر دیا ہو۔لیکن تبدیلی کی ایک دوسری وجہ وہ تاریخی عمل ہوتا ہے جو کسی ایجاد، فکر اور خیال کو جو کسی اور جگہ پر تخلیق ہوا ہو مگر اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتا ہے۔پہلے والے طریقہ کو آزادانہ ایجاد کانام دیتے ہیں جبکہ دوسرے طریقہ کو ایکسپینشن اینڈ ڈیفیویژن یعنی پھیلاؤ اور نفوذ کی اصطلاح میں استعمال کیا جاتا ہے۔پھیلاؤ اور نفوذ کے حامیوں اور مخالفین میں مباحثہ ایک صدی سے جاری ہے۔ مخالفین جو خود کو ارتقاء پسند یا آزاد ایجاد کے حامی کہتے ہیں وہ پھیلاؤ اور نفوذ کے حامیوں پر دو الزامات لگاتے ہیں؛


اول یہ کہ لوگوں میں تخلیقی صلاحیتیں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ نئی نئی اختراعات کرتے رہتے ہیں۔ اسی لیے نئے کلچر اور نئی تخلیقات و ایجادات برابر وجود میں آتی رہتی ہیں۔ اور بعض معاشرے تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہیں۔


مخالفین دوسرا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ پھیلاؤ اور نفوذ کے حامیوں کا تعلق اعلیٰ طبقہ سے ہے۔


مخالفین کا نقطء نظر ہے کہ ایجاد ایک معاشرے میں پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ دوسرے معاشروں میں پھیلتی ہے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ تمام انسان برابر ہیں تو لہذا ایجاد کے لیے کسی خاص انسانی گروپ یا جگہ کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔


پھیلاؤ اور نفوذ کرنے والے اس پر یقین رکھتے ہیں کہ صرف بعض گروہ ایجاد اور تخلیق کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ دوسرے گروہ صرف دوسری تہذیبوں کے پھیلاؤ کے نتیجہ میں اپنے اندر تبدیلی لاتے ہیں۔اس نظریہ کے تحت تخلیقی و ایجاداتی صلاحیتیں صرف چند گروہوں میں مخصوص ہوکر رہ جاتی ہیں اور ایجاد و تحقیق کے صرف چند مستقل مراکز باقی رہ جاتے ہیں۔


پھیلاؤ اور نفوذ کی بنیاد دو دلائل پر ہے۔اول انسانی برادریوں، جماعتوں کی اکثریت میں تخلیقی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ دوئم صرف چند معاشرے اور جگہیں ہیں جہاں تہذیب و تمدن پیدا ہوتے ہیں اس لحاظ سے یہ کلچر کی تبدیلی اور ترقی کے مستقل مراکز ہیں۔

اس نقطء نظر کے تحت عظیم تر یورپ وہ واحد مرکز ہے کہ جہاں تہذیب پیدا ہوئی اور پھر یہاں سے یہ اپنے اطرافی علاقوں یا حاشیائی علاقوں میں پھیلی۔اس ماڈل میں ایک متعین شدہ مرکز ہے لیکن اس سے باہر جیسے جیسے وہ مرکز سے دور جاتی ہے تہذیب، تخلیق، ایجادات اور تبدیلی کے عمل میں مرحلہ وار زوال نظر آتا ہے۔پھر یہ نقطء پیش کیا گیا کہ یورپین کی خصوصیات میں تخلیقی صلاحیتیں، تخیل پسندی، ایجاد کرنا، استدلالی طریقہ اختیار کرنا اور اعلیٰ اخلاقی معیار ہیں اور یہ تمام پہلو غیر یورپین کے پاس نہیں ہیں اس لیے وہ ترقی سے محروم رہے ہیں۔


پھیلاؤ اورنفوذ کے نظریہ کے حامی کہتے ہیں کہ یورپ کے علاوہ باقی دُنیا کلچرل اداروں سے خالی ہے۔ اس لیے اہل یورپ پر جائز ٹھہرا کہ وہ وہاں پر اپنی نوآبادیات بنا کر انہیں ترقی دیں۔ یہی تصور نوآبادیاتی طاقت کے وجود کا باعث بنا۔پھر تاریخ کی کتابوں میں یورپین نوآبادیاتی نظام کا جواز پیش کیا گیا کہ غیر یورپین ملکوں کی ترقی صرف اسی میں ہے کہ وہ کسی یورپی طاقت کی نوآبادیات ہوں تاکہ انہیں جمود، روایت، پرستی اور پسماندگی سے نکالا جائے۔اب اس تصور کے نتیجے میں نوآبادیاتی طاقت جو تہذیب پھیلاتی ہے۔ اس محکوم قوم کو نئے نظریات سے روشناس کراتی ہے تو اس کے بدلے میں یہ ملک اپنی زرعی پیداوار، معدنیات، آرٹس، کرافٹ، نوادرات اور اپنے لوگوں کی محنت مزدوری اس نوآبادیاتی طاقت کے حوالے کر دیتی ہے۔ یعنی یہ قوم اسے نوآبادیاتی طاقت کے سامنے گروی رکھ دیتی ہے۔


کولونیل ازم چاہے وہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ دونوں صورتوں میں منافع بخش رہا ہے اور اس کاروبار میں مستقل طور پر سرمایہ کاری کی گئی۔ برطانوی آبادکاروں نے ہندستان میں اپنی نوآبادیات قائم کی، یہاں انگریزوں کو لایا گیا۔سیاسی اقتدار قائم کر کے انہیں انتظامی ڈھانچہ کے تحت لایا گیا۔ اورپھر قوم کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کی گئی۔اس طرح سے نوآبادیاتی طاقت نہ صرف کلچرل لحاظ سے بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی مقامی باشندوں کے ساتھ غیر ہمدردانہ رویہ رکھتی ہے۔ نوآبادیاتی دور میں ان طاقتوں نے جہاں منتظمین کا سہارا لیا وہیں پر مشنری اداروں کو بھی استعمال کیا گیا۔


پھر تاریخ کی ایسی کتابیں مرتب کرائی گئیں جن کی بنیاد پر اُنیسوویں صدی میں بہت سی تھیوریز تشکیل ہوئیں۔جن میں غیر یورپین کے بارے میں علم بشریات، جغرافیہ، سیاسیات، معاشیات کی تھیوریز شامل ہیں۔ ان تھیوریز میں غیر یورپیوں کی تہذیبوں کو مسخ شدہ شکل میں پیش کیا گیا۔یعنی جب معاشیات کی بات ہوگی تو ایڈم سمتھ کے نظریات پڑھائے جائیں گے اور یہ باور کرایا جائے گاکہ نوآبادیاتی ملک کے پاس کوئی ایسا معاشی ماڈل موجود نہیں جو ان کی ترقی کا باعث بنے۔سیاسیات کا مضمون پڑھایا جائے گا تو یورپین مفکرین کی عظمت کو باور کرانا اور کالونیل تعلیمی اداروں کے ذریعے وہاں کے طلباء کو یہ نظریات پڑھائے گئے۔


ہندستان میں برطانوی سامراج کے خلاف جو تحریک آزادی چلائی گئی اسے غدر کا نام دیا گیا ۔ تحریک ریشمی رومال اور تحریک آزادی کے بڑے بڑے نام جن میں رشید احمد گنگوہی، محمود الحسن المعروف شیخ الہند، عبید اللہ سندھی اور حسین احمد مدنی جیسے افراد کے نظریات کو مسخ کرنے کی کوشش ہوئی۔بلکہ تاریخی کتابوں کے ذریعے سے ان تحریکوں کے مقاصد کو مسخ کر کے پیش کیا گیا۔نصابی کتب کے ذریعے ان نظریات کو پیش کرنے سے یورپین برتری قائم ہوئی اور کالونیل ازم مضبوط ہوا سائنسی و قانونی تھیوریز کو شکل دینے میں پالیسی بنانے والوں اور دانشوروں کا گٹھ جوڑ تھا۔جب ہندستان پر برطانوی قابض ہوئے تو انگلستان میں مورخوں، ماہرین سماجی علوم، ناول نگاروں کی ایک بڑی تعداد ایسٹ انڈیا کمپنی، کولونیل آفس اور سرکاری اداروں کے ساتھ مضبوط روابط رکھے ہوئے تھی۔


دوسری جنگ عظیم کے بعد جب بڑی سلطنتیں ٹوٹ رہی تھیں اور تیسری دُنیا آزادی کے ساتھ اُبھر رہی تھی اور سامراج سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے تھے۔تو کلاسیکل کالونیل ازم کے ماڈل میں اب یہ تصور پیش کیا گیا کہ نوآبادیاتی خطوں کی معاشی و سماجی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ جدیدیت کے اُس عمل کو قبول کرلیں جو کالونیل طاقت نے شروع کیا۔یہاں جدیدیت کا مطلب جدید پھیلاؤ اور نفوذ کا نظریہ جس میں جدید معیشت یعنی کالونیل ملک کی بڑی کمپنیوں کو مواقع دینا، جدید پبلک ایڈمنسٹریشن یعنی کالونیل انتظامی وسیاسی ڈھانچہ اور جدید ٹیکنیکل ڈھانچہ یا اسی قسم کی دیگر عمارتیں جو کالونیل دور میں تھیں انہیں جاری رکھا جائے۔


جدید نوآبادیاتی دور میں اب معاشی ڈویلپمنٹ کی مہم چلائی گئی اور اس کا مرکز نوآبادیاتی ممالک ٹھہرے۔نوآبادیاتی ملکوں میں اس جدیدیت کی اس تحریک کے پس منظر میں سرمایہ دارانہ تصورات کار فرما ہیں۔


پھیلاؤ اور نفوذ کے نظریہ کی حقیقت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے خاص طور پر پاکستان کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم نوجوان کو اس مسئلے پر اپنے علم کی چھان بین کرنی چاہیے۔ہمیں کلچر کے اہم عناصر کو مختلف اقوام، برادریوں اور نسلوں کے نقطء نظر سے دیکھنا ہوگا جن کی بنیاد پر عقائد کی تشکیل ہوئی۔علم اقوام کی مدد سے جب ہم یورپی معاشرہ میں خیالات و افکار کی بنیاد پر بنے عقائد کی تحقیق کرتے ہیں تو ہم یورپی کالونیل ازم کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔جب عقائد کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے ساتھ ان گروہوں کا بھی مطالعہ کیا جائے جو ان عقائد پر ایمان رکھتے ہیں۔ کلچر اور طبقاتی مفادات برادریوں کے درمیان ربط اور تعلق رکھتے ہیں۔


کالونیل دور میں جو نظریات تشکیل ہوئے آج ہم اس کے اثر میں ہیں۔کالونیل ازم کی تھیوریز کو سمجھنے کے لیے ہمیں عظیم تر یورپ کے تصورات کے محرکات کو سمجھنے ہوگا جس کی پشت پر کلاسیکل اور جدید سرمایہ دارانہ نظام کا فلسفہ عمل پیرا ہے۔جب یورپ کی مرکزیت کا نظریہ ہمیں مستقل طور پر پڑھایا گیا تو ہم مرعوبیت کا شکار ہوئے اور اپنی صلاحیتوں پر شک میں مبتلا ہوگئے۔ گویا نوآبادیاتی دور میں اس خطے میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ اور برطانوی استحصال کو ہم نظر انداز کر دیا۔یہ نظریہ ہمیں اپنی مقامی تاریخ، مقامی فلسفیوں،اس خطے میں دُنیا کی قدیم تہذیب، کلچر حتیٰ کہ اس مٹی سے بیگانگی کا شکار کر رہی ہے۔ ہمیں نوآبادیاتی بیانیہ کو بدلنے کے لیے اپنے نصاب کو ازسر نو مرتب کرنا ہوگا اور اس کے لیے یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو موثر تحریک چلانا ہوگی۔


اکمل سومرو