اکثر یہ چبھتا ہوا سوال پوچھا جاتا ہے کہ اگر مسلمانوں کے موجودہ مسالک(دیوبندی، بریلوی، سلفی وغیرہ) و تنظیمی گروہ ایک ہی دھارے کے نمائندے ہیں تو پھر یہ اسلامی گروہ آپس میں لڑتے ہوئے کیوں پائے جاتے ہیں؟
اس کا جواب ‘ فی الحال ایک پختہ اسلامی خلافت (ایسی ریاست جو سنجیدگی کے ساتھ رسول اللہ کی سیاسی نیابت سرانجام دیے) کا وجو نہ ہونا ہے’۔
جب ریاستی نظام موجود نہ ہوتو انفرادیت و معاشرت دونوں انتشار کا شکار ہونے لگتی ہیں ، خلیفہ کو انہی معنی میں ظل اللہ کہا جاتا ہے کہ وہ تمام دینی کاموں کو سمو دیتا ہے نیز انتشار پھیلانے والی قوتوں کو ریگولیٹ کرتا ہے۔
اگر آج سیکولر سرمایہ درانہ ریاستیں لبرل معاشرتی و معاشی تنظیم( سول سوسائٹی و مارکیٹ ) کی پشت پناہی اور ریگولیشن سے ہاتھ کھینچ لیں تو یہ چند ہفتوں میں زمین بوس ہوجائے گی،
مثلا اگر یہ ڈاکٹری، وکالت، تعلیم، بینکوں، کمپنیوں وغیرہ کے رویوں کو ریگولیٹ کرنا چھوڑ دیں تو آپ دیکھ لیں گے کہ کس طرح ان تمام شعبہ جاتا زندگی کے ماہرین نہ صرف یہ کہ عوام کا مال لوٹتے ہیں بلکہ کرپشن کا شکار اور باہمی طور پر دست و گریبان ہو کر تباہ برباد ہوجاتے ہیں
(انکے نظارے تو آئے دن ہم اسقدر سخت ریگولیشن کے باوجود بھی اس نظام کے اندر دیکھتے رہتے ہیں)۔ پس جب پختہ اسلامی خلافت قائم ہوجائے گی تو یہ چھوٹے چھوٹے طرق اور گروہ خود بخود ڈسپلن اور سیدھے ہوجائیں گے ۔