مغربی سائنس جس نے مسلمانوں کی نظروں کو خیرہ کر کے انہیں احساسِ کمتری کا شکار بنادیا ہے، اس برگ وبار کو انہی مسلمانوں کے اسلاف ہی نے کئی صدیوں تک اپنے خونِ جگر سے سینچ کر پروان چڑھایا ہے۔ یہ سائنس جس سے دنیا آج لطف اندوز ہورہی ہے اور جو دیگر ضروریاتِ زندگی کی طرح انسانی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ اور لازمہ بن چکی ہے، اس کی تخم ریزی ہمارے پرکھوں ہی نے بدستِ خویش کی تھی۔سائنس کی دنیا میں اقوامِ عالم نے ہمارے ہی بزرگوں کی انگشت پکڑ کر چلنا سیکھا ہے۔ سائنس جس پر آپ اہلِ مغرب کی اجارہ داری ہے یہ درحقیقت مسلم خانوادے کی چشم وچراغ ہے، اغیار کے گھرانے اس کے لیے بانجھ تھے۔ اہلِ یونان صرف اس کی تمنا ہی گوشہِ جگر میں پال سکتے تھے کیونکہ ان کے یہاں اس کی تخم پاشی کے لیے سرے سے عوامل ہی ناپید تھے اور یورپ میں حال یہ تھا کہ وہاں ایسی اولاد کی تمنا حاشیہِ خیال میں لانا بھی جرم تھا۔ اگر کوئی اس کی خواہش بھی کرتا تو کلیسا کی آگ میں جلا کر خاکستر کردیا جاتا۔ سائنس اپنے وجود کی بقا اور ترقی کے لیے ہمارے آبا واجداد کی صدیوں تک مرہونِ منت رہی ہے، بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ انکے گلی کوچوں میں کاسہ گداگری وکشکول لیے تحقیقات اور انکشافات کی بھیک مانگتی رہی ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس آج وہ ہمارے لیے متاعِ گمشدہ ہے۔
اس بات سے قطعا ً انکار نہیں کہ انسان ہر دور میں ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کی خاطر کائنات کی مختلف اشیاء کے مابین ربط پیدا کر کے کچھ نہ کچھ ایجاد کرتا رہا ہے لیکن اگر اسلام کے عہدِ زریں خلافتِ راشدہ سے لے کر مسلمانوں کے عروج بلکہ اسلامی سلطنتوں کے رو بہ زوال ہونے تک کئی صدیوں پہ محیط ایک طویل عرصے پر اگر دنیا خصوصاً مغربی دنیا تعصب کا عینک اتار کر حقیقت پسندی و حق شناسی کی نگاہوں سے دیکھے تو اس میدان میں مسلمانوں کے علاوہ دور دور تک اور کہیں سے کہیں تک کوئی دوسرا نظر نہیں آئے گا۔ عہدِ وسطی میں مسلمانوں نے دنیاوی علوم وفنون میں جس دیدہ روی اور تحقیق وتفتیش کا ثبوت دیا آج تک دنیا اس کی نظیر پیش نہ کر سکی، انہوں نے تاریخ، جغرافیہ ، معدنیات، نباتات، حیوانات، علمِ کیمیا، طبعیات، فلکیات، ریاضیات، طب اور فلسفہ جیسے علوم میں انسانیت کو اپنے کارہائے نمایاں کی جو سوغات پیش کی ہے انہیں پڑھ کر عقل محوِ حیرت رہ جاتی ہے۔ ساتویں صدی سے پندرہویں عیسوی تک صفِ اول کے فلسفی، منطقی، کیمیا داں، ریاضی داں، تاریخ نگار، طبیب، محقق یعنی سائنس کے تمام شعبوں میں عرب، ایران، اندلس، اور ہندستان میں وہ علمی سرمایہ چھوڑ گئے ہیں جس کی بدولت آج اہلِ یورپ کو ترقی حاصل ہے۔ایک غیر جانبدار معروف امریکی سائنسی مورخ چارلس گیلسپی نے اپنی مایا ناز کتاب ڈکشنری آف سائنٹفک بایوگرافی میں عہدِ وسطی کے ایک سو بتیس ان سائنس دانوں کی فہرست مرتب کی ہے جنہوں نے اپنی تحقیقات سے سائنس کو فروغ دیا اور ان کی تحقیقات آج سائنس کی بنیاد بنیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ اس فہرست میں ایک سو پانچ سائنس دانوں کا تعلق اسلامی دنیا سے ہے۔ دس بارہ یوروپ سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ باقی کا تعلق یوروپ کے علاوہ دیگر قوموں سے ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عہدِ وسطی میں کم وبیش اسّی سے پچاسی فیصد سائنس داں مسلمان تھے جب کہ آج دنیا کی کل آبادی کے مقابلےمسلمانوں کی پوری آبادی پچیس فیصد سے زیادہ ہے لیکن سائنس کے میدان میں انکا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
پندرہوں صدی عیسوی کے بعد جب اہلِ مغرب کے اندر سائنس کا ذرا ذوق اور روشنی کے لیے تڑپ پیدا ہوئی ، اورعلم وآگہی کے آنگن میں جھانکنے کی ان کے دلوں میں للک بیدار ہوئی تو بغداد، اندلس اور قرطبہ کا سفر کیا اور وہاں کے مدارس میں صدیوں تک سائنسی تحقیقات کی بھیک مانگتے رہے۔ ان کے اندر اختراع اور ایجاد کی جو صلاحیت پیدا ہوئی وہ ہمارے اسلاف ہی کی دین ہے۔راجر بیکن جسے جدید سائنس کا بانی مانا جاتا ہے ،امریکی مورخ ولیم جیمس ڈیورانٹلکھتا ہے کہ اگر ابن الہیثم نہ ہوتا تو راجر بیکن کا نام سننے میں نہ آتا۔ کوپرنکس، نیوٹن، کیلر، گلیلیو اور ٹائیکو براہے جنہیں یوروپ وامریکہ کے سائنسی دنیا کا ہیرو مانا جاتا ہے یہ سب مسلم سائنس دانوں کے چیلے ہیں ۔
علمی سرقے کا ناپسندیدہ عمل دوسری قوموں کے مقابلے اہلِ یوروپ میں زیادہ عام ہے۔ اہلِ یوروپ نے مسلمانوں کے علمی کتابوں کی جس قدر چوری کی اور جس بے دردی کے ساتھ مسلمانوں کے ورثے پر ہاتھ صاف کیا وہ علم ودانش کا طویل ترین سیاہ باب ہے۔ کوپرنکس ہوں یا کیلر، گلیلیو ہوں یا ٹائیکو براہے سب نے مسلمانوں کے علمی انکشافات اور ایجادات پر ہاتھ صاف کر کے اس دزدِ دلاور کی طرح انہیں اپنے نام سے مشہور کردیا جو رات کا مال ِمسروق صبح کو سرِ عام اپنا مال چلا چلا کر نیلام کردیتا ہے۔ دورانِ خون کی دریافت ابن النفیس کی ہے جبکہ اہلِ مغرب اسکا موجد مائیکل سرفیٹس اور ریلڈو کولمبو کو ٹھہراتے ہیں ، وقت کی پیمائش کے لیے پنڈولم کا استعمال سب سے پہلے ابن یونس نے کیا مگر اہلِ مغرب اسے گلیلیوکی دریافت بتاتے ہیں ،کشش کے کنسیپٹ کا ذکر مسلم سائنسدانوں کی کتابوں میں عام ہے مگر اسے مغرب کی متاعِ دریافت کہا جاتا ہے۔ اس طرح سینکڑوں ایجادات ہیں جو مسلمانوں کی ایجادات ہیں لیکن انکا سہرہ مغربی سائنسدانوں کے سرباندھا جاتا ہے۔ یوروپ نے جابر بن حیان کو جیبر ، ابنِ رشد کو اویروز ، ابنِ سینا کو اویسینا ، ابن الہیثم کو الہازین ، الفارابی کو الفرابی اس، اور موسی بن میمون کو مائمونائڈس کہنا شروع کیا تاکہ ان کا مسلمان ہونا ثابت نہ ہو۔ مستشرقین یوروپ کی یہ خاص عادت رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کی ایجاد یا ان کے کسی کارنامے کو یوروپ ، چین یا کسی یا کسی دوسرے مشرقی ملک کے غیر مسلم شخص سےمنسوب کرتے جاتے ہیں ، آج اگر عہدِ وسطی کے مسلم دانشوروں اور سائنس دانوں کے متعلق کچھ معلوم کرنا چاہیں تو مغربی ممالک کے کتب خانوں اور لائبریریوں میں جانا ہوگا جہاں جابر بن حیان ، ابنِ سینا، زکریا الرازی، البیرونی، الخوارزمی، الکندی، ابونصرالفارابی، ابنِ رشد، ابنِ زہر، ابنِ خلدون، ابو معثر، ابن الہیثم، اور نصر الدین الطوسی جیسے بے شمار مسلم سائنس دانوں کی تصنیفات، کتابیں، رسائل اور دیگر اسلامی لٹریچرس محفوظ ہیں۔
تیرہویں صدی عیسوی میں خلافت عباسیہ اور اندلس کا سیاسی زوال، وسطِ ایشیا میں تاتاریوں کے مسلسل حملے، ہلاکو کے ذریعہ بغداد کی تباہی، بغداد، قاہرہ اور اسکندریہ میں موجود سیکڑوں لائبریریوں کا نذرِ آتش کرنا، بعد میں سامراجی یلغار اور مغلیہ سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ، یہ وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے مسلمان زوال کا شکار ہوگئے اور ان کی سیاسی ، علمی، سائنسی ساری قوتیں مفلوج ہو کر رہ گئیں ۔ آخری دور میں تاریخی اعتبار سے عالمِ اسلام ایک اہم غلطی کا مرتکب ہوا۔ وہ سولہویں اور سترہویں صدی کی ایک فعال اور ترقی یافتہ تہذیب کی حیثیت سے داخلی امور اور الجھنوں میں پھنسا رہا اور اس نے یورپ کی مسلسل ترقی اور ایک غالب طاقت کی حیثیت سے ابھرنے کی طرف توجہ نہ کی اور غفلت برتی۔ مسلمان اہلِ یورپ کو ایک تندخو جنگجو ٹولے سے زیادہ‘ جو طاقتور بھی ہو‘ اہمیت نہ دیتے تھے۔ اگر عالمِ اسلام بھی اپنی تمام تر قوت کو کشف اور فلسفی‘ دینی اور عرفانی تحقیق کی بجائے دنیاوی طاقت کے حصول میں صرف کر دیتا تو دنیا کی تسخیر کے وسائل و آلات اس کے ہاتھ میں ہوتے۔ گزشتہ صدی میں عالمِ اسلام کے زیادہ تر ممالک سیاسی استقلال و آزاری سے ہمکنار ہوئے لیکن مسلمان ثقافتی اور معاشرتی استقلال و آزادی کے لیے اب بھی چشم براہ ہیں۔ مسلمان اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود خود کو مغربی اقتصاد اور ٹیکنالوجی کے چنگل سے آزاد نہ کر سکے اور سیاسی لحاظ سے انہوں نے اپنے آپ کو ایک ایسے طبقے کے تسلط میں پایا جس نے مغرب میں تعلیم پائی تھی اور مغرب زدہ تھا اور اب اہلِ مغرب ان ہی کی حمایت سے اُن پر حکمرانی کر رہا تھا ۔
افضل ضیاء شہزادہ ، ریسرچ اسکالر کنگ سعود یونیورسٹی