محترم حسن نثار صاحب! آداب
آپ عالمِ اسلام کے زوال کا ذمہ دار، مولوی کو گردانتے ہیں اور اس ضمن میں اکثر یہ حوالہ دیا کرتے ہیں کہ ترکی کے شیخ الاسلام نے پرنٹنگ پریس کو حرام قرار دیا تھا ورنہ آج ہم ستاروں پہ کمند ڈال چکے ہوتے-
معذرت چاہتا ہوں کہ یہ واقعہ ایسے نہیں ہوا تھا جس رنگ میں آپ لپیٹ کر بیان کیا کرتے ہیں(آگے میں اصل واقعہ بیان کروں گا)، لیکن صاحب! یہی فرض کرلیتے ہیں کہ ترکی کا اسلامی خلیفہ، ایک مولوی کے ہاتھوں بلیک میل ہوگیا تھا تو عین اسی زمانے میں ، ہندوستان میں تو آپکے سیکولر ہم قبیلہ یعنی شہنشاہ اکبر کی حکومت تھی اور بڑی پاورفل حکومت تھی-وہ تو مولویوں سے دبا ہوا نہیں تھا تو اس نے پرنٹنگ پریس کیوں نہ منگوا لیا تاکہ ” بیربل” کی بجائے “نیوٹن” ہماری نوکری کرتا ؟
حسن نثار صاحب!
بہت ممکن ہے کہ ماضی کا فیصلہ یا فہم غلط ہو لیکن بار بار ماضی کے طعنے دینا معقول رویہ ہرگز نہیں-یہ خاکسار، آپ کا ایم آرڈی کے زمانے سے مداح ہے جب آپ پیپلز پارٹی کے ترجمان رسالے”زنجیر”کے ایڈیٹر تھے-آج تو آپ چائے کی پیالی ہضم کرنے کےلئے بھی، پیپلز پارٹی کو گالی دینا، قبض کشا سمجھتے ہیں-توکیا میں بھی اٹھتے بیٹھتے یہی طعنہ دینے کا حق رکھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی، آپ نے ہی تو ہم پہ مسلط کی تھی؟
حضور! وقت سے ساتھ فرد اور قوموں کے خیالات بدل جایا کرتے ہیں-جیسے آپکے ماضی کا طعنہ آپکو ناگوار گذرے گا، ویسے ہی، اسلاف کو ہر وقت نوکِ دشنام پہ رکھنا، صحت مند ذہنی علامت نہیں-
یہ بھی ممکن ہے کہ اسلاف میں سے کچھ مولویوں نے قرآن وحدیث کا غلط مفہوم سمجھ کرکوئ فتوی دیاہو مگراس میں اتنا لال پیلا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ فہم و تشریح میں اختلاف معمول کی بات ہے-
مسٹرجناح کو مرے ہوئے 70 سال بھی نہیں ہوئے اور آپ کوابھی تک اسکی تقریروں کی درست تشریح میں اختلاف ہے کہ وہ اسلامی پاکستان چاہتا تھا یا سیکولر؟ توجناب! قرآن و حدیث کو پندرہ سو سال گذر گئے –سیاسی کی طرح ،دینی فہم میں اختلاف بھی ایک منطقی سی بات ہے-
اچھا حضور! آپ نے اپنا ” بیلی پور ویلج” تو بنا لیا مگر یہ فرمائیے کہ ملکی ترقی کےلئے آپ نے کیا کارنامہ انجام دیا؟
آپکا مد مقابل اور مولویوں کا حمایتی،اوریا مقبول جان صاحب تو پھر بھی سول سروس جائن کرکے اس ملک کی تعمیر میں اچھا، برا عملی کردار ادا کرچکا ہے-مگر خود موصوف کی کیا کارگذاری ہے؟
کاش کہ تحریک انصاف کے حق میں ادرک مرچی لگے کرارے جملوں کے علاوہ آپ نے پی ٹی آئ کے آئین کی تشکیل میں ہی اپنی دانشوری دکھائ ہوتی تو ہم سمجھتے کہ آپ نے نئے پاکستان کے لئے ، مولوی سے زیادہ بہتر کردار ادا کیا ہے؟(سنا تو یہ ہے کہ اس آئین کوبھی ایک مولوی فاروق صاحب مردانوی نے لکھا تھا)-
سرکار، نکتہ چینی کرنا کوئ فن نہیں ہوتا بلکہ مسائل کا حل بتانا ہی دانشوری کہلاتا ہے-اگر جگت بازی ہی دانشوری کا نام ہے توکیوں نہ آپ کی بجائے “عزیزی” کو امت کا مسیحا مان لیا جائے؟
اس تمہید کے بات، پرنٹنگ پریس والے واقعہ کی طرف آتے ہیں-
سولہویں صدی میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد ہوئ-ترکی میں پڑھنے لکھنے کا رواج، صرف قرآن پڑھنے تک تھا-
مشرقی ثقافت کا المیہ یہ ہے کہ ایلیٹ کلاس میں کم ہی لوگ تعلیم و فنون کی طرف توجہ کرتے ہیں ورنہ صرف بی اے کی ڈگری کی شرط پر، آپکی آدھی پارلمنٹ فارغ نہ ہوجاتی-یہ تو بیچارے غریب گھرانے ہوتے ہیں جوتلاش معاش کے ذرائع سوچتے رہتے ہیں-سعودی عرب کی مضبوط اکانومی کے طفیل، سعودی نوجوان، برگر کی اقسام بتا سکتے ہیں مگر کیمسٹری کی نہیں-سو یہی حال ترکی کا تھا-پیٹ بھرے لوگ تھے-نہ انکو نئے فنون سیکھنے کی حاجت تھی، نہ یورپ کی طرح، کساد بازاری سے نکلنے کو سرگرداں تھے-
اس وقت کے شیخ الاسلام کے سامنے فتوی یہ رکھا گیا کہ کیا پرنٹنگ پریس ترکی میں لگانا جائزہے جس پہ قرآن شریف پرنٹ ہوگا؟
جی ہاں جناب! صرف قرآن ہی پرنٹ ہونا تھا-
ترکی لوگ، قرآن لکھنے کو عبادت سمجھتے تھے-باوضو کاتب، خطاطی کے عشق بھرے نمونے دکھاتے تھے-شیخ الاسلام نے قرآن مجید کے اوراق کو مشین پہ پرنٹ کرنے کو بے ادبی قرار دیتے ہوئے، پرنٹنگ پریس لگانے سے روک دیا-
تاریخ کے اس ایک واقعہ کو ٹوئسٹ کرکے، جناب حسن نثار، ہر ٹاک شو میں ہلہ بول دیتے ہیں کہ مولویوں نے پرنٹنگ پریس کو حرام قرار دے کر، علم کی راہیں مسدود کردیں-جناب، یہ فتوی ترکی میں دیا گیا تھا اوراس وقت کا سارا عالم اسلام ، ترکی کا پابند نہیں تھا-تو کیا باقی عالم اسلام کو بھی مولوی نے نتھ ڈال رکھی تھی؟
براعظم افریقہ تو ہم سے بھی زیادہ پسماندہ ہے تو کیا وہاں بھی مولویوں نے ترقی کا راستہ روک رکھا ہے؟
خیر، پرانی باتیں چھوڑیں-اب تو ہزار ڈالر کی کتاب کی نقل مطابق اصل، صرف ہزار روپے میں اردو بازار سے دستیاب ہے- دنیا بھر کا علم، آپکی فنگر ٹپس پہ ہے لیکن آپکے بچوں کے فنگر چپس بھی یورپ سے ہی تیار ہوکر آرہے ہیں تو کیا اس سے بھی آپکو بخاری شریف نے روک رکھا ہے؟
سرکار، یہ عاجز آپ جیسی دانش نہیں رکھتا،مگرعرض یہ ہے کہ فرد یا جزو کو کل پہ منطبق کرنا بھی تلبیسِ حق کی ایک صورت ہوتی ہے-ایک جنرل نیازی کو ساری فوج کے کردار کا چہرہ نہیں قرار دیا جاسکتا-
اسی طرح ،واحد کو جمع دکھانا بھی فریب دہی ہوتا ہے-جنرل ضیاء نے بھٹو کو پھانسی دی-اس ایک واقعے کو یوں بیان کرنا کہ “پاکستانی فوج، منتخب وزیراعظموں کو پھانسی پہ لٹکا دیا کرتی ہے”،سفید جھوٹ شمار ہوگا-
آپ شوق سے تعمیری تنقید کیجئے-مگر آپکی بے لاگ تنقید میں ملّا کا تقدس اور فوج کا ڈنڈا، حائل نہیں ہونا چاہئے- سیلیکٹیو تنقید شکوک کے سائے گہرے کردیتی ہے-اگر آپکی تنقید ریٹنگ کےلئے نہیں بلکہ کسی منزل کی طرف رہبری واسطے ہوتو خاکسار، “بیلی پور” آکر قدم بوسی کرےگا-والسلام-
سلیم جاوید