ہر آئیڈیا کسی بھی ایجاد میں بیج کی طرح ہوتا ہے۔ ہر دریافت ،ہر ایجاد، ہر انقلاب، ہر تحریک کے پیچ ہے کوئی نہ کوئی آئیڈیا کارفرما ہو تا ہے۔ آئیڈیا کسی ایٹم میں پنہاں ایٹمی قوت کی طرح ہوتا ہے ، آئیڈیا جتنا طاقت ور ہو گا اس سے جنم لینے والی چیز اتنی ہی کوہ شکن ہو گی۔ آئیڈیاز دوسرے آئیڈیاز سے ہی جنم لیتے ہیں۔ نئے آئیڈیاز کے لئے دانشوروں سے ملنا، گفتگو کر نا، بحث کرنا، کتابیں پڑہنا، مطالعہ کرنا، تنہائی میں غور و فکر کرنا، دوسروں کے آئیڈیاز پر تنقید کر نا اور تنقید کو حوصلے کے ساتھ قبول کرنا ، آئیڈیاز کو بیان کر نے کے لئے ہمت ہونا، ہر آئیڈیا کو ضروری سمجھنا اور نوٹ کر لینا، آئیڈیاز کو پرکھنا، یہ سب ضروری عوامل ہیں۔
امریکہ کے رائٹ برادرز سے ایک ہزار سال قبل اندلس کے ایک اسٹرانومر، میوزیشن اور انجنئیر عباس ابن فرناس نے سب سے پہلے ہوا میں اڑنے کی کوشش کی تھی۔ ایک مؤرخ کے مطابق 852ئ میں اس نے قرطبہ کی جامع مسجد کے مینار سے چھلانگ لگائی تاکہ وہ اپنے فضائی لباس کو ٹیسٹ کر سکے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے گلا ئیڈر سے پرندوں کی طرح پرواز کر سکے گا۔ 875ئ میں ا س نے گلائیڈر سے ملتی جلتی ایک مشین بنائی جس کے ذریعہ اس نے قرطبہ کے ایک پہاڑ سے پرواز کی کوشش کی۔ یہ فضائی مشین اس نے ریشم اور عقاب کے پروں سے تیار کی تھی۔ وہ دس منٹ تک ہوا میں اڑتا رہا مگر اترتے وقت اس کو چوٹیں آئیں کیونکہ اس نے گلائیڈر میں اترنے کے لئے پرندوں کی طرح دم نہ بنائی تھی۔
(Dictionary of Scientific Biography, Vol 1, page 5)
دنیا کا سب سے پہلا پلینی ٹیریم (Planetarium ) اسلامی سپین کے سائنسداں عباس ابن فرناس (887ء) نے قرطبہ میں نویں صدی میں بنا یا تھا۔ یہ شیشے کا تھا اس میں آسمان کی پر و جیکشن اس طور سے کی گئی تھی کہ ستاروں ، سیاروں ، کہکشاؤں کے علاوہ بجلی اور بادلوں کی کڑک بھی سنائی دیتی تھی۔
قدیم یونانی حکماء کا نظریہ تھا کہ انسان کی آنکھ سے شعاعیں (لیزر کی طرح) خارج ہوتی ہیں جن کے ذریعہ ہم اشیا کو دیکھتے ہیں۔ دنیا کا پہلا شخص جس نے اس نظریہ کی تردید کی وہ دسویں صدی کا عظیم مصری ریاضی داں اور ما ہر طبیعات ابن الہیثم تھا۔ اس نے ہی دنیا کا سب سے پہلا پن ہول کیمرہ ایجاد کیا۔ اس نے کہا کہ روشنی جس سوراخ سے تاریک کمرے کے اندر داخل ہوتی ہے وہ جتنا چھوٹا ہو گا پکچر اتنی ہی عمدہ (شارپ ) بنے گی۔ اس نے ہی دنیا کا سب سے پہلا کیمرہ آبسکیورہ (camera obscura ) تیار کیا۔ کیمرا کا لفظ کمرے سے اخذ ہے جس کے معنی ہیں خالی یا تاریک کوٹھڑی۔
علم بصریات پر دنیا کی سب سے پہلی اور شاہکار تصنیف کتاب المناظر ابن الہیثم نے لکھی تھی۔ (Age of Faith, Will Durant)۔ کروی اور سلجمی (spherical/parabolic)آئینوں پر اس کی تحقیق بھی اس کا شاندار کارنامہ ہے۔ اس نے لینس کی میگنی فا ئنگ پاور کی بھی تشریح کی تھی۔ اس نے اپنی خراد پر آتشی شیشے اور کروی آئینے (curved lenses )بنائے۔ حدبی عدسوں پر اس کی تحقیق اور تجربات سے یورپ میں ما ئیکرو سکوپ اور ٹیلی سکوپ کی ایجاد ممکن ہوئی تھی۔ ابن الہیثم نے محراب دار شیشے (concave mirror) پر ایک نقطہ معلوم کر نے کا طریقہ ایجاد کیا جس سے عینک کے شیشے دریافت ہوئے تھے۔
ابن الہیثم نے آنکھ کے حصوں کی تشریح کے لئے ڈایا گرام بنائے اور ان کی تکنیکی اصطلاحات ایجاد کیں جیسے ریٹنا (Retina)، کیٹاریکٹ (cataract)، کورنیا(Cornea) جو ابھی تک مستعمل ہیں۔ آنکھ کے بیچ میں ابھرے ہوئے حصہ (پتلی)کو اس نے عدسہ کہا جو مسور کی دال کی شکل کا ہوتا ہے۔ لا طینی میں مسور کو لینٹل (lentil)کہتے جو بعد میں Lens بن گیا۔
ابن الہیثم نے اصول جمود (law of inertia) دریافت کیا جو بعد میں نیوٹن کے فرسٹ لائ آف موشن کا حصہ بنا۔ اس نے کہا کہ اگر روشنی کسی واسطے سے گزر رہی ہو تو وہ ایسا راستہ اختیار کرتی جو آسان ہو نے کے ساتھ تیز تر بھی ہو۔ یہی اصول صدیوں بعد فرنچ سائنسداں فرمیٹ(Fermat )نے دریافت کیا تھا۔ (ارمان اور حقیقت، عبد السلام صفحہ 283)۔
دنیا کی سب سے پہلی پن چکی ایران میں سا تویں صدی میں بنائی گئی تھی۔ شہرہ آفاق مورخ المسعودی نے اپنی کتاب میں ایران کے صوبہ سیستان کو ہوا اور ریت والا علاقہ لکھا ہے۔ اس نے مزید لکھا کہ ہوا کی طاقت سے باغوں کو پانی دینے کے لئے پمپ پن چکی کے ذریعہ چلائے جاتے تھے۔
خلیفہ ہارون الرشید ایک عالی دماغ انجنئیر تھا۔ سو ئیز نہر کھودنے کا خیال سب سے پہلے اس کو آیا تھا تاکہ بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو آپس میں ملا دیا جائے۔ اس نے عین اس مقام پر نہر کھودنے کا سوچا تھا جہاں اس وقت سوئیز کینال موجود ہے
(The empire of the Arabs, Sir John Glubb, page 287)
یورپ سے سات سو قبل اسلامی دنیا میں گھڑیاں عام استعمال ہوتی تھیں۔ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے ہم عصر فرانس کے شہنشاہ شارلیمان کو گھڑی (واٹر کلاک )تحفہ میں بھیجی تھی۔ محمد ابن علی خراسانی (لقب الساعتی 1185ء) دیوار گھڑی بنانے کا ماہر تھا۔ اس نے دمشق کے باب جبرون میں ایک گھڑی بنائی تھی۔ اسلامی سپین کے انجنیئرالمرادی نے ایک واٹر کلاک بنائی جس میں گئیر اور بیلنسگ کے لئے پارے کو استعمال کیا گیا تھا۔ مصر کے ابن یونس نے گھڑی کی ساخت پر رسالہ لکھا جس میں ملٹی پل گئیر ٹرین کی وضاحت ڈایاگرام سے کی گئی تھی۔ جرمنی میں گھڑیاں 1525ء اور برطانیہ میں 1580ء میں بننا شروع ہوئی تھیں۔
الجبرا پر دنیا کی پہلی کتاب عراق کے شہر ہ آفاق سائنس داں الخوارزمی (850ء ) نے لکھی تھی۔ اس نے 1ـ9 اور صفر کے اعداد 825ئ میں اپنی شاہکار کتاب الجبر و المقابلہ میں پیش کئے تھے۔ اس سے پہلے لوگ حروف استعمال کر تے تھے۔ اس کتاب کے نام سے الجبرا کا لفظ اخذ ہے۔ اس کے تین سو سال بعد اطالین ریاضی داں فیبو ناچی (Fibonacci) نے الجبرا یورپ میں متعارف کیا تھا۔ الخوارزمی کے نام سے الگو رتھم یعنی ایسی سائنس جس میں 9 ہندسوں اور 0 صفر سے حساب نکالا جائے (process used for calculation with a computer )کا لفظ بھی اخذ ہوا ہے۔
الخوارزمی دنیا کا پہلا موجد مقالہ نویسی ہے۔ ہوا یہ کہ اس نے علم ریاضی پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا اور بغداد کی سا ئنس اکیڈیمی کو بھیج دیا۔ اکیڈیمی کے سائنسدانوں کا ایک بورڈ بیٹھا جس نے اس مقالے کے بارے میں اس سے سوالات کئے۔ اس کے بعد وہ اکیڈیمی کا رکن بنا دیا گیا۔ یونیورسٹیوں میں مقالہ لکھنے کا یہ طریق اب تک رائج ہے۔
مصر کے سائنسداں ابن یو نس (1009ئ )نے پینڈولم دسویں صدی میں ایجاد کیا تھا۔ اس ایجاد سے وقت کی پیمائش پینڈولم کی جھولن(oscillation) سے کی جانے لگی۔ اس کی اس زبردست ایجاد سے مکینکل کلاک دریافت ہوئی تھی۔ ((Science and civilization is Islam, Dr. S.H. Nasr, page 1
ایران کا محقق زکریا الرازی (925ئ ) دنیا کا پہلا کیمیا دان تھا جس نے سلفیورک ایسڈ تیار کیاجو ماڈرن کیمسٹری کی بنیادی اینٹ تسلیم کیا جا تا ہے۔ اس نے ایتھونول بھی ایجاد کیا اور اس کا استعمال میڈیسن میں کیا۔ اس نے کیمیائی مادوں کی درجہ بندی(نا میاتی اور غیر نا میاتی ) بھی کی۔
زکریا ا لرازی پہلا آپٹو میٹر سٹ تھا جس نے بصارت فکر اور تحقیقی انہماک سے نتیجہ اخذ کیا کہ آنکھ کی پتلی روشنی ملنے پر رد عمل ظاہر کرتی ہے۔ الرازی نے اپنے علمی شاہکار کتاب الحاوی میں گلاؤ کوما کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔ اس نے چیچک پر دنیا کی پہلی کتاب ‘ الجدری والحسبہ لکھی جس میں اس نے چیچک اور خسرہ میں فرق بتلایا تھا۔ اس نے سب سے پہلے طبی امداد (فرسٹ ایڈ) کا طریقہ جاری کیا تھا۔ اس نے عمل جراحی میں ایک آلہ نشتر setonبنا یا تھا۔ اس نے ادویہ کے درست وزن کے لئے میزان طبعی ایجاد کیا۔ یہ ایسا ترازو ہے جس سے چھوٹے سے چھوٹا وزن معلوم کیا جا سکتا ہے۔ سا ئنس روم میں یہ اب بھی استعمال ہو تا ہے۔ الکحل بھی رازی نے ایجاد کی تھی۔ زکریا ا لرازی پہلا انسان ہے جس نے جراثیم (bacteria) اور تعدیہ (infection) کے مابین تعلق معلوم کیا جو طبی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ بغداد میں کس مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے تو اس نے تجویز کیا کہ جہاں ہوا میں لٹکا گوشت دیر سے خراب ہو اسی مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے۔ الرازی نے ہی طب میں الکحل کا استعمال شروع کیا۔ اس نے حساسیت اور مناعت (allergy & immunology) پر دنیا کا سب سے پہلا رسالہ لکھا۔ اس نے حساسی ضیق النفس (allergic asthma) دریافت کیا۔ اس نے ہی ہے فیور(hay fever) دریافت کیا تھا۔
ابوبکر رازی نے کتاب ھیئتہ العالم میں بیان کیا کہ زمین کی شکل کردی ہے ان کے بعد البیرونی نے اپنی تصانیف تحلید نھایات الاماکن اور کتاب الھند میں زمین کی ہیئت پر مدلل اندازی میں یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین قطعی طورپر کروی الشکل ہے اوراس کا گول ہونا ایک طبعی ضرورت ہے۔چھٹی صدی ہجری میں ادریسی نے زمین کی گولائی کو نبیاد بنا کر اپنی مشہور تخلیقات پیش کیں ۔ان کے بعد زکریا بن محمد القروینی نے بھی علمی بنیاد پر انکشاف کیا کہ زمین گول ہے۔ سمند ر میں مدوجزر یا جوار بھاٹا کی توجیہ سے لوگ نابلد تھے، مشہور مسلم سائنسداں ابو معشر بلخی (المتوفی ۲۷۳ھ/۸۸۶ء)نے پہلی بار اس کا انکشاف کیاکہ اس کا تعلق چاند کی کشش سے ہے۔
ابوبکر رازی نے نیوٹن سے کئی سو سال قبل کشش ثقل کا نظریہ پیش کیاانھوں نے ایک تصنیف کتاب سبب وقوف الارض فی السماء کے عنوان سے تحریر کی ، جس میں انھوں نے بتایا کہ زمین کشش کے سہارے فضا میں معلق ہے۔’موخر الذکر نے ابو معشر بلخی کے بعد مدوجز کا مطالعہ کرکے بتایا کہ اس کا اصل سبب چاند کی کشش ہے۔ انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سیارے سورج کی کشش کی بنا پر اس کے گرد حرکت کرتے ہیں ۔ مسلم علماء اس امر سے واقف تھے کہ گرتے ہوئے اجسام کی اسراع کا تعلق ان کی کمیت سے نہیں ہوتا نیزوہ اس سے بھی آگاہ تھے کہ دوجسموں کےدرمیان قوت کشش اس وقت بڑھ جاتی ہے ۔ جب ان کا باہمی فاصلہ کم ہوتاہے۔
کوپرنیکس سے صدیوں پہلے شام کے سا ئنسداں علاء الدین ابن شاطر نے تیرھویں صدی میں اس سائنسی مشاہدہ کا انکشاف کیا تھا کہ سورج اگرچہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے مگر اس کے باوجود زمین سورج کے گرد گردش گرتی ہے۔ علم ہئیت میں ابن شاطر کی متعدد دریافتوں کا سہرامغربی سائنسدانوں کے سر باندھا جا تا ہے جیسے سیاروں کی گردش کے بارے میں بھی سب سے پہلے دعویٰ ابن شاطر نے کیا تھا مگر اس کا کریڈٹ کیپلر کو دیا جا تا ہے۔
اصطرلاب کا آلہ اگرچہ یونان میں ایجاد ہوا تھا مگر اس کا سب سے زیادہ استعمال اور اس میں اضافے سب سے زیادہ مسلمانوں نے کئے۔ مسلمانوں نے درجنوں قسم کے اصطرلاب بنائے جو ایک ہزار سال گزرنے کے باوجود ابھی تک برطانیہ،امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کے عجائب گھروں میں محفوظ ہیں۔ اصطرلاب ستاروں کو تلاش کر نے اور ان کا محل وقوع کا تعین کر نے کا آلہ ہے۔ اس کے ذریعے لوگ صحرا یا سمندر میں راستہ تلاش کر تے تھے نیز اس کے ذریعہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا وقت بھی معلوم کیا جا تا تھا۔ شہرہ آفاق اسٹرانومرعبد الرحمن الصوفی نے دسویں صدی میں اصطرلاب کے ایک ہزار فوائد گنائے تھے۔
طبیبوں کی رجسٹریشن کا کام سنان ابن ثابت نے (943ء ) بغداد میں شروع کیا تھا۔ اس نے حکم دیا کہ ملک کی تمام اطباء کی گنتی کی جائے اور پھر امتحان لیا جائے۔ کامیاب ہو نے والے 800 طبیبوں کو حکومت نے رجسٹر کر لیا اور پر یکٹس کے لئے سرکاری سر ٹیفکیٹ جاری کئے۔ مطب چلانے کے لئے لا ئسنس جاری کر نے کا نظام بھی اس نے شروع کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں ڈپلوما دینے اور رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ابھی تک جاری ہے۔
مشاہدہ افلاک کے جامع النظر ماہر محمد بن جابرالبتانی (929ء ) نے ایک سال کی مدت معلوم کی جو 365دن، 5گھنٹے ، اور 24سیکنڈ تھی۔ اس نے سورج کا مدار بھی معلوم کیا تھا۔
عبد الر حمن الصوفی (903ـ986 ء ،ایران) پہلا عالمی ماہر افلاک تھا جس نے 964ء میں اینڈرو میڈا گیلکسی(M31 andromeda galaxy )کو دریافت کیا تھا۔ ہمارے نظام شمسی سے باہر کسی اور سٹار سسٹم کے ہونے کا یہ پہلا تحریری ثبوت تھا جس کا ذکر اس نے اپنی تصنیف کتاب الکواکب الثا بت المصور( Book of Fixed Stars )میں کیا۔ یہی کہکشاں سات سو سال بعد جر من ہئیت دان سا ئمن Simon Marius d1624))نے دسمبر1612ء میں ٹیلی سکوپ کی مدد سے دریافت کی تھی۔
علم طب کی آبرو شیخ بو علی سینا (1037ء ) نے سب سے پہلے تپ دق کا متعدی ہو نا دریافت کیا تھا۔ شیخ الرئیس نے پانی کے ذریعہ بیماری کے پھیلنے کا بھی ذکر کیا۔ اس نے شہرہ آفاق تصنیف ”القانون” میں انکشاف کیا کہ پانی کے اندر چھوٹے چھوٹے مہین کیڑے (ما ئیکروب) ہوتے جو انسان کو بیمار کر دیتے ہیں۔ اس نے مریضوں کو بے ہوش کر نے کے لئے افیون دینے کا کہا۔ اس نے ہی پھیپھڑے کی جھلی کا ورم (Pleurisy) معلوم کیا۔ اس نے انکشاف کیا کہ سل کی بیماری (Phthisis) متعدی ہوتی ہے۔ اس نے فن طب میں علم نفسیات کو داخل کیا ا ور دواؤں کے بغیر مریضوں کا نفسیاتی علاج کیا۔ اس نے بتلایا کہ ذیابیطس کے مریضوں کا پیشاب میٹھا ہوتا ہے۔ اس نے سب سے پہلے الکحل کے جراثیم کش (اینٹی سیپٹک) ہونے کا ذکر کیا۔ اس نے ہرنیا کے آپریشن کا طریقہ بیان کیا۔ اس نے دماغی گلٹی (برین ٹیومر) اور معدہ کے ناسور (سٹامک السر) کا ذکر کیا۔ اس نے انکشاف کیا کہ نظام ہضم لعاب دہن سے شروع ہوتا ہے۔
علم طبیعات میں ابن سینا پہلا شخص ہے جس نے تجربی علم کو سب سے معتبر سمجھا۔ وہ پہلا طبیعات داں تھا جس نے کہا کہ روشنی کی رفتار لا محدود نہیں بلکہ اس کی ایک معین رفتار ہے۔ اس نے زہرہ سیارے کو بغیر کسی آلہ کے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا۔ اس نے سب سے پہلے آنکھ کی فزیالوجی، اناٹومی، اور تھیوری آف ویڑن بیان کی۔ اس نے آنکھ کے اندر موجود تمام رگوں اور پٹھوں کو تفصیل سے بیان کیا۔ اس نے بتلایا کہ سمندر میں پتھر کیسے بنتے ہیں ، پہاڑ کیسے بنتے ہیں ، سمندر کے مردہ جانوروں کی ہڈیاں پتھر کیسے بنتی ہیں۔
عمل کشید کی دریافت نویں صدی کے عظیم کیمیا داں جا بر ابن حیان نے کوفہ میں کی تھی۔ جابر نے کیمیا کے بہت سے بنیادی آلات اور عوامل بھی ایجاد کئے جیسے oxidisation, evaporation, filtration, liquefaction, crystallisation & distillation۔ اس نے سلفیورک ایسڈ اور نا ئٹرک ایسڈ ایجاد کیا۔ اس کو ماڈرن کیمسٹری کا با وا آدم تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ قرع انبیق کے آلے کا موجد تھا جس سے اس نے شورے کا تیزاب( نٹرک ایسڈ) بنایا۔ اس نے نوشادر، گندھک کی مدد سے شورے کے علاوہ گندھک کا تیزاب ایجاد کیا۔ عمل کشید اور فلٹر کا طریقہ اس کی ایجادات ہیں۔
مغربی ممالک کے ہسپتالوں میں سرجری کے آلات بالکل وہی ہیں جو دسویں صدی کے جلیل القدر اندلسی سرجن ابو القاسم زہراوی (1013ء )نے ایجاد کئے تھے۔ اس نے 200سے زیادہ سرجری کے آلات بنائے تھے جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں : scalpels, bone saws, forceps, fine scissors for eye surgery.۔ وہ پہلا سر جن تھا جس نے کہا کہ گھوڑے کی آنتوں سے بنے ٹانکے قدرتی طور پر جسم میں تحلیل ہو جا تے ہیں۔ یہ دریافت اس نے اس لمحہ کی جب اس کے عود کی تار (string) بندر ہڑپ کر گیا۔ اس نے دوائیوں کے کیپسول بھی ایسی آنتوں سے بنائے تھے۔ (مسلمانوں کے سائنسی کارنامے ، زکریا ورک 2005ء علی گڑھ،صفحہ 47)
مسلمان اطباء نے افیون اور الکحل کو بطور (anaesthetics ) کے استعمال کیا تھا۔ مسلمانوں نے موتیا بند کے آپریشن کیلئے hollow needlesایجاد کیں جو اب بھی استعمال ہو تی ہیں۔
پن چکی جو اس وقت یورپ اور امریکہ میں اس قدر مقبول عام ہے اور جس کے ذریعہ قدرتی طریق سے بجلی پیدا کی جا تی ہے یہ سب سے پہلے 634ء میں ایران میں بنائی گئی تھی۔ اس کے ذریعہ مکئی کو پیسا جا تا اور آب پاشی کے لئے پانی نکا لا جا تا تھا۔ عرب میں جب ندی نالے خشک ہو جاتے تو ہوا ہی رہ جاتی جو ایک سمت سے کئی مہینوں تک چلتی رہتی تھی۔ ایرانی پن چکی میں چھ یا بارہ کپڑے کے بنے پنک ہے لگے ہوتے تھے۔ یورپ میں پن چکی اس کے پانچ سو سال بعد دیکھنے میں آئی تھی۔
یگانہ روزگار اسحٰق الکندی (866ء )نے سب سے پہلے Frequency analysisکا آغاز کیا جس سے ماڈرن کر پٹالوجی (cryptology)کی بنیاد پڑی تھی۔ اس نے باقاعدہ رصد گاہی نظام کی ابتداء کی تھی۔
علی ابن نافع (زریاب857ء ) نویں صدی میں عراق سے ہجرت کر کے اسلامی سپین آیا تھا۔ یہاں آ کر اس نے بہت سے نئی چیزوں کو رواج دیا جیسے اس نے کھانے میں تین ڈشوں کو رواج دیا یعنی پہلے سوپ، اس کے بعد مچھلی یا گوشت اور آخر پر فروٹ یا خشک پھل۔ اس نے ہی مشروبات کے لئے کر سٹل گلاس کا استعمال شروع کیا۔ اس نے کھانے کی میز پر میز پوش کو رواج دیا۔ اس نے سپین میں شطرنج اور پولو کا کھیل شروع کیا۔ اس نے چمڑے کے فر نیچر کو رواج دیا۔ اس نے کھا نے کے آداب کو رواج دیا۔ اس نے ہی پر فیوم ، کاسمیٹکس، ٹوتھ برش، اور ٹوتھ پیسٹ کو رواج دیا۔ اس نے چھوٹے بالوں کے فیشن کو رواج دیا۔ اس نے دنیا کا سب سے پہلا زیبائش حسن کا مرکز (بیوٹی سیلون) قرطبہ میں کھولا تھا۔ اس نے گرمیوں میں سفید کپڑے اور سردیوں میں گہرے رنگ کے کپڑے پہننے کا کہا اور اس کے لئے تاریخ بھی معین کی۔
مسلمانوں کے لئے صفائی نصف ایمان ہے۔ صابن مسلمانوں نے ہی ایجاد کیا تھا جس کے لئے انہوں نے سبزی کے تیل کو سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ میں ملا کر صابن تیار کیا تھا۔ یورپ کے صلیبی سپاہی جب یروشلم آئے تو مقامی عربوں کو ان سے سخت بد بو آتی تھی کیونکہ آج کے تہذیب یافتہ فرنگی غسل نہ لیتے تھے۔ برطانیہ میں شیمپو ایک ترک مسلمان نے متعارف کیا جب اس نے 1759ء میں برائی ٹن (Brighten )کے ساحل پر Mahomed’s Indian vapour bath کے نام سے دکان کھولی۔ بعد میں یہ مسلمان، بادشاہ جارج پنجم اور ولیم پنجم کا شیمپو سرجن مقرر ہوا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ غسل لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھی اس لئے وہ خوشبو بہت استعمال کرتی تھی۔
قالین مسلمانوں نے سب سے پہلے بنانے شروع کئے تھے۔ مسلمانوں کی قالین بنانے کی تکنیک (weaving technique ) بہت اعلیٰ قسم کی تھی۔ مسلمان یہ قالین فرش پر استعمال کرتے تھے جبکہ یورپ میں لوگوں کے گھر وں میں فرش مٹی گارے کے ہوتے تھے۔ یورپ میں ان قا لینوں کے آنے سے گھر کا ماحول بدل گیا۔
چیک (cheque ) کا لفظ عربی لفظ سک سے اخذ ہے۔ جس کے معنی تحریری وعدہ کے ہیں کہ اشیائءکے ملنے پر رقم ادا کر دی جائیگی۔ بجائے اس کے کہ تاجر رقم اٹھاتا پھرے۔ عہد وسطیٰ میں چیک کے ذریعہ کہیں بھی مال خریدا جا سکتا تھا۔ نویں صدی میں کوئی مسلمان تاجر چین میں چیک کیش کر سکتا تھا جو بغداد کے کسی بینک نے جاری کیا ہوتا تھا۔
البیرونی نظام شمسی پر یقین رکھتا تھا جس کے مطابق زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور اپنے محور پر بھی۔ زمین کے گول ہو نے پروہ دیگر سائنسی مشاہدات اور قوانین سے اس قدر مطمئن تھا کہ اس کو کسی مزید دلیل کی ضرورت نہ تھی۔ (Age of Faith,by Will Durant, page 244)۔ اسلامی سپین کے اسٹرانومر ابن حزم نے زمین کے گول ہونے کی جو دلیل دی وہ یہ تھی: Sun is always vertical to a particular spot on Earth. گیلی لیو کو یہ بات پانچ سوسال بعد سمجھ آئی۔ البیرونی (1048ء ) نے زمین کا محیط سب سے پہلے 1018ء میں جہلم (پنجاب) سے 42میل دور ایک مو ضعہ دھریالہ جلوپ کے 1795فٹ اونچے پہاڑ پر سے سائنسی تجربے کے ذریعہ دریافت کیا تھا جو اس کی تحقیق کے مطابق 24779میل تھا۔ آج کی تحقیق کے مطابق یہ 24858 میل ہے یعنی صرف 78میل کا فرق۔
ابو اسحق الزرقلی اندلس کا مانا ہوا اسٹرونامیکل آبزرور تھا۔ الزرقلی نے ایک خاص اصطرلاب الصفیحہ کے نام سے بنا یا جس سے سورج کی حرکت کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ اس نے اصطرلاب پر ایک آپر یٹنگ مینوئیل لکھا جس میں اس نے اس سائنسی حقیقت کا انکشاف کیا کہ آسمانی کرے بیضوی مدار میں گردش کر تے ہیں۔ یہی انکشاف صدیوں بعد کیپلر نے کیا تھا۔
مقناطیسی سوئی اگرچہ چین میں دریافت ہوئی تھی مگر اس کا صحیح مصرف مسلمانوں نے نکالا تھا۔ مسلمانوں نے جہاز رانوں کے لئے آلہ قطب نما (Mariner’s compass ) ایجاد کیا۔ اسی طرح سروے کر نے کے لئے جو آلہ تھیوڈو لائٹ استعمال کیا جا تا ہے وہ بھی مسلمانوں نے ایجاد کیا تھا۔ اندلس کے سائنسداں امیہ ابو صلت نے 1134ء میں ایک حیرت انگیز مشین ایجاد کی جس کی مدد سے ڈوبے ہوئے بحری جہاز کو سطح آب پر لایا جا سکتا تھا۔
جب اسلامی دور حکومت دنیا میں اپنے عروج پر تھا تو ایران کے حاتم اسفرازی نے مختلف دھاتوں کا وزن کر نے کے لئے دو اکائیوں کا استعمال شروع کیا یعنی درہم ا ور اوقیہ۔ جب مسلمانوں کے علمی خزانے یورپ منتقل ہوئے تو یہ وزن بھی وہاں پہنچے۔ رفتہ رفتہ درہم گرام بن گیا ا ور اوقیہ اونس بن گیا۔
ابو عبد اللہ محمد بن احمد (980ء ) نے دنیا کا سب سے پہلا انسا ئیکلو پیڈیا ‘مفا تح العلوم’ ترتیب دیا تھا۔ اس نے مضامین کی ترتیب کا ایک نیا طریقہ اختیار کیا اور اپنی ضخیم کتاب کو حروف ابجد کے اصول پر مرتب کیا۔ یہی اصول آج بھی جد ید انسا ئیکلو پیڈیاز میں استعمال کیا جاتا ہے۔
مو تیا بند کا سب سے پہلا آپریشن طبیب حاذق اور امراض چشم کے ماہر ابو القاسم عمار موصلی (1005ئ ) نے کیا تھا۔ امراض چشم پر اس کی کتاب علاج العین کا جرمن ترجمہ 1905ء میں شائع ہوا تھا۔ اس نے آپریشن کے لئے خاص قسم کا نازک آلہ ایجاد کیا، آپر یشن کے اصول اور قواعد مرتب کئے اور علاج کا طریقہ بتا یا۔
زمین کا محور(axis) دیکھنے میں تو بظاہر قطب تارے کی طرح ساکن نظر آتا ہے مگر حقیقت میں یہ ساکن نہیں بلکہ آہستہ آہستہ مدھم رفتار سے دائرے کی صورت میں گردش کر تا ہے۔ اس حرکت کے بہت خفیف ہونے کے باعث یہ ہمیں محسوس نہیں ہوتی ہے۔ یہ دریافت مصر کے سا ئنسداں عبد الرحمن ابن یونس (1009 ء ) نے کی تھی۔ یہ پیمائش اتنی چھو ٹی ہے کہ اسے معلوم کر لینا ابن یونس کی ہئیت دانی کا کمال تھا۔ (مسلمان سا ئنسداں اور ان کی خدمات از ابراہیم عمادی ندوی صفحہ 92)
دنیا کا سب سے پہلا فا ؤنٹین پین مصر کے سلطان کے لئے 953ء میں بنایا گیا تھا۔ ایسا پین جو سلطان کے ہاتھ یا کپڑے دستخط کر تے وقت گندے نہ کرے۔ اس پین کے اندر روشنائی محفوظ رہتی اور کشش ثقل سے نب تک پہنچتی تھی۔
مشہور ہئیت داں ابو الوفا بوزجانی (1011ء ) نے ثابت کیا کہ سورج میں کشش ہے اور چاند گردش کرتا ہے۔ اس نظریے کے تحت اس نے یہ دریافت کیا کہ زمین کے گرد چاند کی گردش میں سورج کی کشش کے اثر سے خلل پڑتا ہے اور اس وجہ سے دونوں اطراف میں زیادہ سے زیادہ ایک ڈگری پندرہ منٹ کا فرق ہو جا تا ہے۔ اس کو علم ہئیت کی اصطلاح میں ایوکشن (Evection) یعنی چاند کا گھٹنا بڑھنا کہتے ہیں۔ اس نظریے کی تصدیق سولہویں صدی کے یورپ کے ہئیت داں ٹا ئیکو براہی نے کی تھی۔
ابو الحسن علی احمد نسوی (1030ء) کی اہم دریافت وقت کی تقسیم در تقسیم کے لئے ایک نئے طریقے کی ایجاد ہے جسے حساب ستین کہتے ہیں۔ اس نے وقت کی ایک ساعت یا زاویہ (گھنٹہ) کو 60 پر تقسیم کیا، اس ساٹھویں حصے کو اس نے دقیقہ کہا جس کے لفظی معنی ہیں خفیف۔ اس دقیقہ کو اس نے دوبارہ تقسیم کیا جسے اس نے ثانیہ کہا یوں ساعت کی تقسیم دقیقہ اور ثانیہ میں ہو گئی۔ دقیقہ کے لئے انگریزی میں لفظ منٹ وضع ہو گیا جس کے معنی خفیف یا باریک کے ہیں۔ ثانیہ کے لئے انگریزی میں سیکنڈ کا لفظ بن گیا۔ گھڑی کے ڈائیل پر جو ہندسے کندہ ہوتے ہیں اور جو منٹ (دقیقہ) اور سیکنڈ (ثانیہ)میں تقسیم ہیں وہ ابو الحسن کی ذہانت کا کرشمہ اوراس کی یاد دلاتے ہیں۔
یگانہ زمانہ عمر بن خیام (1123ء )نہ صرف نکتہ آفریں شاعر بلکہ علم ہئیت اور ریاضی کا بھی ما ہر کامل تھا۔ اس نے ایران میں ایک نیا جلالی کیلنڈر شروع کیا جو جولی این اور گر یگورین کیلنڈروں سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ اس کیلنڈر کے مطابق 3770 سالوں میں ایک دن کا فرق پڑتا ہے۔ لیپ ائیر کا تصور سب سے پہلے اس نے ہی پیش کیا تھا۔ اہل ایران ان کو دزدیدہ (چرائے ہوئے دن) کہتے ہیں۔ عمر خیام کا یہ شمسی کیلنڈر آج بھی پوری دنیا میں رائج ہے اس نے ایک سال کی مدت 365.24219858156 نکالی جبکہ کمپیوٹر نہیں ہوتے تھے۔
عبد اللہ الادریسی (1166ء )سسلی کے بادشاہ راجر دوم (1154ء )کا سا ئنسی مشیر تھا۔ علم جغرافیہ پر اس کی شہرہ آفاق تصنیف کا نام ”نزہتہ المشتاق فی احتراق الآفاق ”ہے۔ الادریسی نے دنیا کا ایک چاندی کا ماڈل تیار کیا جواس نے قیاس اور تجربے کی بنائ پر گول بنا یا۔ یہ دنیا کا سب سے پہلا ماڈل تھا۔ اپنی کتاب میں اس نے دنیا کے ممالک کے ستر سے زیادہ نقشے بھی دیے جو یورپ میں تین سو سال تک رائج رہے۔ کتاب مسلمانوں کے سا ئنسی کارنامے میں اس ماڈل کی ڈایاگرام صفحہ 145 پر موجود ہے۔
شام کے ملک میں پیدا ہو نے والا با کمال طبیب علائ الدین ابن النفیس القرشی (1289ء ) پہلا انسان ہے جس نے کہا کہ انسانی جسم میں خون گردش کرتا ہے۔ یہ دریافت اس نے ولیم ہاروے (1687ئ )سے چار سوسال قبل کی تھی۔ اس نے کہا کہ خون وریدی شریان (veinous artery) سے ہو کر گزرتا ہے اور پھر پھیپھڑوں میں پہنچ کر تازہ ہوا سے ملتا ، اس کے بعد صاف ہو کر پورے جسم میں دورہ کرتا ہے۔ اس طرح خون جسم کے ہر حصے میں پہنچتا رہتا ہے۔ اس نظریے کو Pulmonary circulation of blood کہا جا تا ہے۔
لسان الدین ابن الخطیب (1374ء) دنیا کا پہلا مایہ ناز طبیب اور محقق تھا جس نے طاعون کا جراثیم کے ذریعہ پھیلنے کا نظریہ پیش کیا۔ اس نے کہا کہ امراض دو قسم کے ہوتے ہیں : متعدی اور غیر متعدی امراض۔ متعدی امراض کے پھیلنے کی وجہ وہ نہایت باریک کیڑے ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے مگر وہ مرض کے کیڑ ے ہو تے ہیں۔ چودھویں صدی میں یورپ میں چرچ کی حکومت تھی۔ یورپ میں اس وقت طاعون کا دور دورہ تھا۔ عیسائیت کے اثر کے تحت عوام الناس طا عون کو خدا کا عذاب سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ مگر طبیب اعظم ابن الخطیب نے اس مرض پر تحقیق کی اور لوگوں کو کہا کہ وہ مریض کے کپڑے ، برتن یا کان کی بالیاں ہرگز استعمال نہ کریں۔ جو مریض سے نہیں ملتے وہ بیمار نہیں ہوتے اس سے ثابت ہوتا کہ یہ خدا کا عذاب نہیں بلکہ متعدی بیماری ہے۔
قلزم انسانیت کا مینارہ ضوبار ابو القاسم الزاہراوی (1013ء قرطبہ) قرون وسطیٰ کا سب سے عظیم سرجن تھا۔ سرجری کے موضوع پر اس کی کتاب”التصریف لمن عجز عن التالیف ”ہے۔ اس میں جراحی کے 200 آلات کی ڈایاگرام دی گئیں ہیں جن میں کئی ایک ابھی تک آپریشن روم میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں اس نے کیٹاریکٹ (موتیا بند) کے آپریشن کا تفصیل سے ذکر کیا۔ زخموں کو سینے کے لئے اس نے ریشم کا دھاگہ استعمال کیا۔ اس نے نقلی دانت گائے کی ہڈی سے بنائے۔ اس کے سات سو سال بعد امریکہ کا صدر جارج واشنگٹن لکڑی کے ڈینچر لگا یا کرتا تھا۔ یوں اس نے آرتھو ڈینسٹری کی بنیاد رکھی۔ اس نے کاسمیٹکس میں کئی چیزوں کو شروع کیا جیسے ڈیوڈرنٹ، بال نکالنے کے لئے مو چنا ، ہینڈ لوشن، بالوں کے لئے خضاب، سن ٹین لوشن، بد بو دار سانس کے لئے اس نے الائچی اور دھنیے کے پتے چبانے کو کہا۔ زکام سے نجات پا نے کے لئے اس نے کافور، مشک اور شہد کا ایک مکسچر تیار کیا (امریکہ میں اس کو vapor rub) کہتے ہیں۔
اسلامی سپین کا جلیل القدر طبیب اور فلاسفر ابن رشد (1198ء ) دنیا کا پہلا طبیب ہے جس نے آنکھ کے اس پردہ جس میں بصارت کی حس ہوتی یعنی ریٹینا(retina) کا صحیح سائنسی عمل بیان کیا تھا۔ (The retina and not the lens in the eye is the photoـreceptor)۔ ایک اور تہلکہ خیز طبی انکشاف اس نے یہ کیا کہ جس شخص کو ایک بار چیچک ہو جائے پھر وہ اس کو دوبارہ لاحق نہیں ہوتی ہے۔ سورج میں سن سپاٹس سب سے پہلے ابن رشد نے دریافت کئے تھے۔ (سوانح ابن رشد از زکریا ورک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 2006ء )
یورپ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ دھبے پہلے پہل گلیلو کی دوربین کو نظر آئے ،جنھوں نے ابن رشد کی آنکھ بند ہوئے۳۶۶سال بعد انکھیں کھولی ہیں ۔
ابن الخطیب کے مطابق متعدی امراض نہ نظر آنے والے نہایت باریک جانداروں سے ہوتے ہیں جنہیں جراثیم(microbes)کہا جاتا ہے۔اس نے بتایا کہ یہ جراثیم مریض کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے اور اس کی استعمال شدہ اشیاء کے استعمال سے دوسرے افراد میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ اس انسان نے مائیکرو بیالوجی کی بنیاد رکھی۔
یورپ کی سب سے پہلی رصدگاہ اشبیلیہ (اسلامی سپین) کی جامع مسجد کا تین سو فٹ اونچا مینارہ ، گیرالڈا ٹاور(Geralda Tower) تھا جہاں جا بر ابن افلاح (1240ء ) نے اجرام فلکی کے مشاہدات کئے تھے۔
اندلس کے شہر اشبیلیہ کا مکین ابو مروان ابن زہر (1162ء ) دنیا کا سب سے پہلا پیرا سائٹالوجسٹ (Parasitologist ) تھا۔ اس نے خارش کے کیڑوں (scabies) کو بیان کیا۔ علاوہ ازیں طب میں اس کی پانچ دریافتیں قابل ذکر ہیں : رسولی(tumors)، درمیانی کان کا التہاب (inflammation of middle ear) التہاب غلاف قلب (pericarditis)، فالج حلقوم (paralysis of pharynx)، قصبة الریہ کی عمل جراحی( Tracheotomy)۔
مایہ ناز مسلمان انجنئیر بد یع الزماں الجزاری نے 1206ء میں ایک ایسی مشین بنائی جس کے ذریعہ پانی بلندی تک لے جایا جاتا تھا۔ ماڈرن مشینوں میں کر ینک شافٹ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے پانی کو اوپر لے جا نے کیلئے (یعنی آب پاشی کیلئے ) کرینک کنیکٹنگ راڈ سسٹم (Crank connecting rod system) بنایا۔ اس ایجاد نے ٹیکنالوجی پر دیرپا اثر چھوڑا اور انجنئیرنگ کی فیلڈ میں انقلاب آگیا۔ یہ سسٹم با ئیسکل میں بھی استعمال ہو تا ہے۔ اس نے پانی سے چلنے والے پسٹن پمپ کا بھی ذکر کیا جس میں دو سیلنڈر اور ایک سکشن پائپ تھا۔ الجزاری نے 1206 ء علم الحیال یعنی انجنئیرنگ پر جو قاموسی تصنیف (الجامع بین العلم و العمل النافع فی صنعت الحیال ) سپرد قلم کی اس میں والوز اور پسٹن کا بھی ذکر کیا۔ اس نے ایک میکنکل کلاک بنائی جو وزن سے چلتی تھی۔ اس کو فادر آف روباٹکس بھی کہا جا تا ہے۔ وہ 50 سے زیادہ مشینوں کا موجد تھا۔ کمبی نیشن لاک بھی اس کی ایجاد ہے سا ئنس میوزیم لندن میں ورلڈ آف اسلام کا جو 1976ئ میں فیسٹول منعقد ہوا تھا اس میں الجزاری کی بنائی ہوئی واٹر کلاک کو دوبارہ اس کی ڈایاگرام کے مطابق بنا یا گیا تھا۔ الجزاری کی کتاب کا انگلش ترجمہ ڈینیل ہل ( Daniel Hill 1974) نے کیا ہے۔
شام کے محقق اور مو جد حسن الرماہ نے ملٹری ٹیکنالوجی پر ایک شاندار کتاب 1280 ء میں قلم بند کی جس میں راکٹ کا ڈایا گرام پیش کیا گیا تھا۔ اس کا ماڈل امریکہ کے نیشنل ائیر اینڈ سپیس میوزیم، واشنگٹن میں موجود ہے۔ کتاب میں گن پاؤڈر بنانے کے اجزائے ترکیبی دیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ بارود میر فتح اللہ نے ایجاد کیا تھا۔ پندرھویں صدی میں مسلمانوں نے تارپیڈو بھی بنا یا تھا جس کے آگے نیزہ اور بارود ہو تا تھا۔ یہ دشمن کے بحری جہازوں کے پرخچے اڑا دیتا تھا۔
نابیناؤں کے لئے پڑھنے کا سسٹم ( بریلBraille) 1824 ء میں فرانس میں لو ئیس بریل (Braille ) نے ایجاد کیا تھا۔ اس کے حروف ابجد میں 63 حروف ہوتے ہیں۔ نا بینا لوگ اپنی انگلیاں ان حروف پر رکھ کر الفاظ بنا لیتے اور کتابیں پڑھ لیتے ہیں۔ لیکن اس سسٹم سے چھ سو سال قبل شام کا علی ابن احمد العمیدی (وفات 1314 ء ) کتابیں پڑھ لیا کر تا تھا حالانکہ وہ بھی نابینا تھا۔ العمیدی کی انگلیاں super sensitive تھیں۔ وہ شیلف پر پڑی کتابوں کو ہاتھ لگاکر ان کا نام بتا دیتا تھا، بلکہ کتاب کے کل صفحات بھی بتا دیتا تھا۔ لائنوں کے درمیان خالی جگہ سے وہ اس کی قیمت فروخت بتا دیتا تھا۔ حقیقت میں بریل سسٹم کا موجد العمیدی تھا۔
کولمبس سے پہلے امریکہ کو چین کا مسلمان بحری سیاح زینگ ہی (Zheng He 1371ـ1433 ) دریافت کر چکا تھا۔ زینگ ہی چین کا سب سے عظیم ایڈمرل تھا۔ 1405ء میں وہ اس نیول ایکس پیڈیشن کا سربراہ مقرر ہوا جس نے اگلے 28سالوں (1405ـ33ئ ) میں جہازوں کے سات بیڑوں سے 37 ممالک کا دورہ کیا۔ اس زمانے میں چین کے پاس سب سے بڑے بحری جہاز ہو تے تھے۔ زینگ ہی کے بحری بیڑے میں 27000 سپاہی اور 317 بحری جہاز تھے۔ کو لمبس کا جہاز 85فٹ لمبا جبکہ زینگ ہی کا جہاز 400فٹ لمبا تھا۔ چین میں اس کے مقبرے کے اوپر اللہ اکبر کندہ ہے۔
یورپ میں بہت سارے آلات موسیقی فی الحقیقت عرب اور ایرانی آلات کی نقل ہیں۔ جیسے عود سے Guitar بنا، قانون سے ہارپ Harp بنا، رباب سے فڈلFiddle بنا، نے َسے فلوٹFlute بنی۔ بکری کی کھال سے بنے ہوئے غا ئیتہ سے بیگ پائپ bagpipe بنا۔
علم بشریات (انتھروپالوجی) کی سائنس کا آغاز امام الؤرخین عبدالرحمٰن ابن خلدون(1406ء ) نے کیا تھا۔
کسی بیماری سے محفوظ رہنے کے لئے اسی بیماری کے جراثیم کا ٹیکہ لگانے کا رواج (inoculate) اسلامی دنیا میں سب سے پہلے ترکی میں شروع ہوا تھا۔ ترکی میں انگلینڈ کی سفیر کی شریک حیات یہ طریقہ 1724ئ میں استنبول سے لندن لے کر آئی تھی۔ ترکی میں بچوں کو گائے کی وائرس (cowpox) کے ٹیکے لگائے جاتے تھے تا چیچک سے محفوظ رہ سکیں۔
تحریرمحمد زکریا ورک ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، انڈیا
For more in English See:List of Muslim scientists – Wikipedia