یہ مکالمہ ڈاکٹر مشتاق صاحب چیئرمین شعبہ قانون اسلامی یونیورسٹی، ڈاکٹر شہباز ، پروفیسر سرگودھا یونیورسٹی، ڈاکٹر زاہد مغل صاحب پروفیسر نسٹ یونیورسٹی کے درمیان ہوا۔ اس میں وہ تمام اشکالات زیربحث آئے جو کہ ایک نظریے کی اشاعت کے لیے جنگ کے جواز پر اٹھائے جاسکتے ہیں۔ اعتراضات ڈاکٹر شہباز صاحب نے اٹھائے اور انکا جواب ڈاکٹر مشتاق صاحب اور زاہد صاحب نے دیا۔ یہ ایک تھیوریٹکل اور نظریاتی بحث ہے جو صرف اکیڈیمک انٹریسٹ کے لیے پیش کی جارہی ہے ، اسکو پیش کرنے کا ہمارا بنیادی مقصد صحابہ اور بعد کے مسلم فاتحین کی جنگوں کی معقولیت کو جدید تناظر میں زیربحث لانا ہے، اور یہ دکھانا ہےکہ یہ کوششیں ناصرف اسلامی اصولوں کے مطابق بلکہ جدید بین الاقوامی قانون کی روشنی میں بھی جائز تھیں ،اس سلسلے میں ماڈرنسٹ حضرات نے جو معذرت خواہانہ تاویلات اور تحریفات کی ہیں انکی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک فطرتی بات ہے کہ جب ایک سپر پاور وجود میں آتی ہے تو وہ اپنے نظریے کو اپنے ارد گرد پھیلانے کی کوشش کرتی ہے، جیسا کہ ماضی قریب میں برطانوی ،جرمن، رشین اور آج کے دور میں امریکن کررہے ہیں ، مسلمانوں نے بھی اپنے نظریے اور الہامی دعوت کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے کی کوشش کی (گوکہ مقاصد ، انداز اور نتائج میں زمین و آسمان کا فرق ہے)۔ یہ ہر غالب طاقت کی جاب ڈسکرپشن رہی ہےہمیں دنیا کی اس تاریخی حقیقت کو سمجھنا ہوگا ۔ اس لیے بلاوجہ کا آئیڈیلسٹ بننے کے بجائے حقیقت پسند بننا ذیادہ بہتر ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اعتراض: کیا آج کا مغرب دین کے نفاذ اور اس کی شان و شوکت کے قیام میں رکاوٹ نہیں ہے؟ اور کیا اس کی بنیاد پر اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا جائز نہیں ہے؟
جواب :
بالکل رکاوٹ ہے، اور جو اسے رکاوٹ نہیں سمجھتا وہ حقیقت سے آنکھیں چراتا ہے۔ رکاوٹ صرف فوجی لحاظ سے ہی نہیں ہے بلکہ اصلاً اس لحاظ سے ہے کہ مغرب پوری دنیا، اور بالخصوص مسلمانوں سے، اپنی اقدار کو “آفاقی” اقدار کے طور پر جبراً منوا رہا ہے اور اسلام کو یہ موقع دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ بھی اپنی اقدار کو بطور آفاقی اقدار لوگوں کے سامنے پیش کرسکے۔ حقوقِ انسانی اور مذہبِ انسانیت کے نام پر اس وقت سب سے بڑا چیلنج مسلمانوں کے لیے یہی ہے۔
باقی رہی اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی بات، تو ہر فریضے کی ادائیگی کے لیے کچھ شروط اور کچھ موانع ہوتے ہیں۔ فرضیت کا سبب موجود ہو لیکن کوئی شرط مفقود ہو، یا کوئی مانع موجود ہو، تو فریضہ ادا نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ فریضہ ہے ہی نہیں، بلکہ شرائط پوری کرنے اور موانع دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ استطاعت ایسی ہی ایک شرط ہے۔
اعتراض :یعنی اگر استطاعت ہو تو آج بھی مغرب سے اپنے مذہب کی بنیاد پر اعلان جنگ ہو سکتا ہے؟
جواب:بالکل اسی طرح جیسے وہ “مذہبِ انسانیت” کے نام پر اس وقت بھی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔یہ تو طے شدہ ہے کہ جمہور فقہاء کے ہاں قتالی جہاد کی علت ” حرابہ ” ہے ۔اب اگر مغرب اسلام کو اپنی اقدار بطور افاقی اقدار پیش کرنے سے محروم کرے کما ھو المشاھد تو اس کو بھی ہم طعن فی الدین کی کیٹگری میں جو حرابہ کی ایک قسم ہے’ شامل کریں گے ۔
یہاں مخالفین کا کہنا ہوتا ہے کہ مغرب نے اسلام کی تبلیغ پر تو کوئی پابندی نہیں لگائی ہوئی، ان کے یہاں جمہوریت ہے۔ اگر انکی عوام کو مسلمان بنا لیا جائے تو وہاں اسلامی قانون ہوگا۔ لہذا انکے خلاف جہاد کی ضرورت نہیں۔یہ “اسلام کی تبلیغ” کا اصل میں ایک بہت ہی ناقص تصور ہے ۔ کیا اسلام کی تبلیغ کا مسلمانوں کو اسی طرح کا حق دیا گیا ہے جس طرح وہ “مذہبِ انسانیت” کا پرچار کررہے ہیں؟ “حقوقِ انسانی” کو جس طرح “عالمی اقدار” (universal values) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ وہ دراصل ایک خاص زمانی و مکانی سیاق میں “مغربی اقدار” ہیں، کیا اسلام کو یہ دعوی کرنے دیا جارہا ہے کہ اس کی اپنی اقدار عالمی ہیں؟ کیا بین الاقوامی نظام میں کہیں کسی ایک جگہ بھی اسلامی قانون کو برابر کی سطح پر مانا گیا ہے؟
اعتراض. آج اسلام کی راہ میں اسرائیل رکاوٹ ہے.ترکی,ملیشیا,انڈونیشیاکےپاس طاقت ہے.کیا روم و کسری کاوقعہ ان کےلیےیہ جوازفراہم نہیں کرتاکہ وہ اس پرچڑھ دوڑیں….??…اگروہ مصلحت کےتقاضون کوپوراکررہےہیں توپھر طالبان,داعش,القائدہ اپنےحصےکی شمع جلارہےہین توٹھیک نہین کیا..?
جواب:آپ چیلنج کو بہت ہی معمولی سمجھ رہے ہیں ۔ مسئلہ اسرائیل یا چند ممالک کا نہیں بلکہ پورے بین الاقوامی نظام کا ہے۔ اس کا مقابلہ طالبان، داعش یا القاعدہ کے ذریعے نہیں بلکہ پوری فکری اور مادی تیاری کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ جب تک وہ مرحلہ نہ آئے تب تک بچی کھچی قوت کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے لیکن منزل سامنے رکھ کر۔ طالبان، داعش اور القاعدہ اپنے حصے کی شمع کیا جلاتے، الٹا اپنے حصے کے گھروندے ہی جلارہے ہیں۔
اعتراض :وہ ہماری اقدار کو داعش وغیرہ کے پیکج کے ساتھ دیکھتے ہیں تو ہماری اقدار کے بارے میں ساری خوش گمانیاں ہوا ہو جاتی ہیں۔
جواب :داعش وغیرہ تو ایک دو دھائیوں کا فنامینا ہے ، وہ بھی ان معنی میں مشکوک کہ انکے اندر بھی انکے اپنے ایجنٹ موجود ہیں۔ ایسی تحریکوں کے برپا ہونے میں امریکہ اور اس کے حواریوں کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پھر یہ داعش تو ابھی کل کی پیداوار ہے۔ مغرب کے ساتھ یہ کشمکش تو اس وقت سے جاری ہے جب پوپ اربن ثانی نے صلیبی جنگ کا اعلان کیا تھا ۔
اعتراض :کچھ اصول اور اخلاقیات تو طے ہونے چاہیں، جو دونوں میں مشترک ہوں، جب ہی مستقل جنگ سے نجات مل سکتی ہے، جو اسلام کی بھی خواہش ہے۔۔۔۔ورنہ ہر کوئی اپنے مذہب کے مطابق جنگ کا جواز بتائے گا، مثلاً اگر ہم اپنے مذہب کو قائم کرنے کے لیے جنگ جائز سمجھتے ہیں، تو وہ اپنے مذہب کے لیے اس کو جائز سمجھتے ہیں تو ہمیں برا کیوں لگتا ہے؟
جواب : ہمیں اس لئے برا لگتا ہے کیونکہ ان کا مذہب باطل ہے
اعتراض :وہ ہمارے مذہب کو باطل سمجھتے ہیں
جواب :مجھے معلوم ہے کہ آپ ایسا ہی کہیں گے، لیکن انکے ایسا سمجھنے سے کیا ہوتا ہے۔ حقیقت میں”مستقل جنگ” سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے جب تک وہ کم از کم اتنا نہ تسلیم کرلیں کہ ہمیں اپنی اقدار کو اسی طرح عالمی اقدار کے طور پر پیش کرنے کا حق ہے جیسے وہ اپنی اقدار کے لیے پوری دنیا سے منواتے ہیں۔ اور پھر یہ کہ وہ اس وقت بھی اپنے مذہب، یعنی مذہبِ انسانیت، کے نام پر جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں جو صرف مسلح جنگ کی صورت میں نہیں ہے بلکہ تصورات کی جنگ (war of ideas) کی صورت میں اس سے کہیں زیادہ شدت سے چل رہی ہے۔مولانا مودودی نے بہت عمدہ بات کہی تھی کہ اگر “دین” کے معاملے میں آپ مداخلت نہیں کریں گے تو اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ کفر آپ کے دین میں مداخلت چھوڑ دے گا، وہ یہ عمل جاری رکھے گا۔
باقی یہ یہ خواہش کہ “ایسے اصول طے کرلئے جائیں کہ کوئی مداخلت نہ کرے وغیرہ اور جنگ نہ ہو” یہ ایک خوش فہمی ہے، ایسا ممکن نہیں۔ ایسے فرضی اصول صرف کمزور کو طاقتور کا غلبہ قبول کئے رکھنے کے طریقے ہیں۔ ظاہر ہے، ہر امن “کسی نہ کسی رائے کے غلبے” پر ہی ممکن ہے۔ امن ایسے تھوڑی قائم ہوتا ہے کہ طاقتور اور کمزور کسی گول میز کانفرنس پر بیٹھ کر شئیرڈ اخلاقیات طے کرکے پھر کہتے ہیں کہ آج سے ہم مداخلت نہیں کریں گے۔ ایسا نہ ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ امن طاقتور کی رائے کے غلبے سے ہوا کرتا ہے۔۔یہ راستہ بھی اس وقت طے نہیں کیا جاسکتا جب ایک فریق پوری طاقت سے حاوی ہورہا ہو اور کمزور فریق مذاکرات کے لیے آواز بلند کرے۔ بالکل برابر کی سطح پر نہ سہی، کم ازکم کچھ تو طاقت کا تناسب ہو ۔
پھر یہ کہ وہ تو اپنی اقدار کو ہم سے منوانے میں لگے ہوئے ہیں پورے زور شور سے۔ ہم کیوں اپنے اقدار کو عالمی اقدار کہلوانے سے ہچکچائیں؟ مغرب نے دیکھ لیا ہے کہ اس کے سامنے جم کر کھڑے ہیں تو صرف مسلمان ہی، جنھیں وہ تین صدیوں سے قائل نہیں کرسکے ہیں کہ وہ اپنی اقدار کی عالم گیریت کا دعوی چھوڑ دیں۔ باقی تو سب ہمت ہار چکے ہیں۔
آج مغرب (امریکہ اور اسکے حواری) جو بہت امن کی باتیں کرتے ہیں اور بظاہر کہتے دکھائی دیتے ہیں ہم نظریات کے لئے جنگ نہیں کرنا چاھتے (اگرچہ کررہے ہوتے ہیں) ذرا کسی جگہ انکے سیاسی آئیڈئیلز کے خلاف کوئی ریاست قائم تو ہونے دیجئے پھر دیکھئے گا کہ کیسے بھیڑیوں کی طرح لپکتے ہیں۔ اور اگر وہ طاقتور ہوئی تو اسکے خلاف سفارتی، سیاسی، معاشی محاظ کھول دیں گے۔ چاہے وہ مسلمان ہو، سوشلسٹ ہو یا کچھ اور، جب وہ مغربی اقدار کی عالمگیریت اور آفاقیت تسلیم نہیں کریں گے تو انھیں عالمی نظام میں رہنے نہیں دیا جائے گا۔ لاطینی امریکا میں دیکھیں افریقہ میں دیکھیں۔
آج کی دنیا کوئی قبائلی دنیا نہیں جہاں قبائل الگ تھلگ رہ سکتے تھے، آج “عالمی نظام” کی لڑائی ہے۔ یہاں عین ممکن ہے کہ کوئی ریاست کسی محدود سطح پر اس عالمی نظام کے خلاف محدود سی سطح پر کوئی الگ حیثیت قائم کرلے یا اسے برقرار رکھ سکے۔ مگر جونہی بات عالمی نظام کی آئے گی، تب معلوم ہوگا کہ کشمکش کی نوعیت کیا ہے۔
اعتراض:ہم یہ کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ ان کو بھی اپنی اقدار کو پروموٹ کرنے کا اتنا ہی حق دیں، وہ کیوں تسلیم کریں گے!
جواب :جی ہاں۔ نہ ہم تسلیم کرسکتے ہیں، نہ ہی وہ تسلیم کرسکتے ہیں۔ اسی لیے تو مستقل مزاحمت/ جنگ جاری ہے اور اس سے جان چھڑانے کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔
سوال : کیا ہماری کوئی قدر یا ان کی کوئی قدرہم سے نہیں مل سکتی?کیا کہیں اتفاق رائے ہوسکتا ہے؟
جواب (اقدار میں فرق اتنا ہے کہ انکا ایک جگہ جمع ہونا مشکل ہے )کئی اقدار جو الگ الگ (in isolation) یکساں نظر آسکتی ہیں لیکن جب ان اقدار کو ایک پورے پیکیج کے ساتھ دیکھیں تو ساری یکسانیت ہوا ہوجاتی ہے۔ اس کو ایک مثال سے دیکھیے۔ توہینِ رسالت کا مسئلہ لے لیں۔ یہاں مذہبی شخصیت پر تنقید، بلکہ تنقیص، کو بھی وہ اظہار رائے کا لازمی نتیجہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں جبکہ ہمارے نزدیک ترتیب ہی بالکل اس کے برعکس ہے، حالانکہ مذہب کے احترام اور اظہار رائے کی آزادی کی اقدار کو دونوں نظاموں نے تسلیم کیا ہوا ہے۔زنا کے مسئلے کو لے لیں۔ اگر رضامندی سے دو نوجوان آپس میں یہ تعلق قائم کرلیں تو مغربی اخلاقیات اور قانون کی رو سے کسی کو ان پر اعتراض کا حق نہیں ہے لیکن اگر ایک فریق زبردستی کرے تو یہ جرم بن جاتا ہے جو فرد نہیں بلکہ معاشرے کے خلاف جنگ ہے۔ اسلامی قانون میں دونوں ہی جرائم ہیں۔ حالانکہ دونوں نظام الگ الگ رضامندی کی اہمیت بھی تسلیم کرتے ہیں اور خاندان کی حرمت کے بھی قائل ہیں۔ اس لیے مسئلہ اقدار کو الگ الگ دیکھنے کا نہیں بلکہ پورے پیکیج کو دیکھنے کا ہے۔
اعتراض: وہ اپنے پیکج کے لیے رکاوٹ دور کر رہے ہیں تو ہمیں ان سے کیوں تکلیف ہے
جواب :ہمیں اس لیے تکلیف ہے کہ ہم ان کے پیکیج کو گمراہی مان رہے ہیں ۔ یہی تکلیف ان کو بھی ہے کہ وہ ہمارے پیکیج کو وحشت قرار دیتے ہیں۔ پھر اگر وہ رکاوٹ دور کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں تو ہم کیسے دستبردار ہوسکتے ہیں اس حق سے جبکہ ہمارا دعوی ہے کہ ہم حق پر ہیں؟ آپ اس مسئلے کو “معروضیت” کے زاویے سے دیکھ رہے ہیں جبکہ وہ بھی اور ہم بھی اسے اپنے سچے اور حق پر ہونے کا تقاضا مانتے ہیں۔
اعتراض : تو پھر دونوں ہی ٹھیک ہوئے نا، اپنے موقف میں۔
جواب :نہیں ، حق تو ایک ہی ہوتا ہے۔ اصولی اتفاق کو اتفاق عقائد پر محمول نہیں کیا جا سکتا. دونوں کا اصول پہ اتفاق ہے یہ تو اس اصول کے صحیح اور عام فہم ہونے کی دلیل ہے. دو ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے سے جنگ پہ اتر آئیں تو اس اصولی اتفاق سے دونوں کو ایک صف میں کھڑا نہیں کیا جائے گا.ہر جھنڈا بردار کے اپنے اخلاقی ضابطے ہوتے ہیں، یہی تو جھگڑے کی وجہ بھی ہوتی ہے. اخلاق خود عقیدے سے ہی پروان چڑھتے ہیں. اخلاقی اقدار میں فرق ہے تو لازم ہے عقیدے کا بھی فرق تھا. دلیل کی کمزوری اصول کو واقعات کے تابع کر دیتی ہے. یہ وہ نکتہ ہوتا ہے جہاں سے خلط مبحث کی ابتدا ہوتی ہے.
سوال : جب آپ دوسروں پر اپنا دین نافذ کرنے نکلیں گے تو ان کے اپنے شرعی حقوق متاثر نہ ہوں گے۔
جواب :ان کے اپنے “شرعی حقوق” سے مراد کیا ہے؟ اگر ہماری شریعت میں ان کے حقوق، تو وہ تو نہیں متاثر ہورہے اگر شریعت نے ہی ہمیں یہ حکم دیا ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم صرف یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ہمیں اپنا پیکیج دنیا کے آگے رکھنے دیں اور وہ ایسا نہیں کرنے دے رہے تو ہم اس رکاوٹ کو دور کریں گے، اس میں غلط کیا ہے؟ اس دعوے سے تو ہم صرف تبھی دستبردار ہوسکتے ہیں جب یہ مان لیں کہ ہماری دعوت پوری دنیا کے لیے نہیں ہے یا اس کی اقدار کی حیثیت عالمی نہیں ہے۔
ہمارے بعض مفکرین مسلمانوں کو پر امن رہنے اور عدم مداخلت کا سبق یوں دیتے ہیں گویا انیسویں و بیسویں صدی میں خلافت عثمانیہ و مغل سلطنت نے دنیا بھر میں استعمار برپا کررکھا تھا اور پھر اپنی ترجیحات کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں “قوموں” کی جغرافیائی لکیریں انہوں نے ہی کھینچی تھیں، اکیسویں صدی کے مابعد استعماری دور میں دنیا بھر کے ممالک میں سیاسی و معاشی مداخلت کا سلسلہ مسلمانوں نے شروع کررکھا ہو، پچھلی ایک صدی میں مسلمانوں نے سرخ و سفید (جمہوری) انقلابوں کے نام پر کروڑوں لوگ قتل کر دئیے ہوں، اقوام عالم میں غیر مسلموں کی زمینوں پر قبضے کر کے انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کا الزام مسلمانوں کے خلاف چل رہا ہو، مسلمان دنیا بھر کے غیر مسلموں کو خود غیر مسلم ممالک میں شرعی حقوق پر عمل کرنے پر مجبور کررہے ہوں اور جو انکی خلاف ورزی کرے ان پر میڈیا سے لے کر عسکری یلغار کررہے ہوں، اپنے مقاصد کے لئے یورپ و امریکہ کی ریاستوں کے خلاف بغاوتیں ایکسپورٹ کرنے میں پیش پیش ہوں۔
یہ بحثیں محض ذہنی عیاشی ہے کہ ایک طرف “بالفعل” مداخلت و جبر ہے جو حقوق سلب کررہا ہے مگر اسے تو ہم موضوع سخن نہ بنائیں البتہ جو “بالقوۃ” ایک آفاقی نظرئیے کی بنا پر مداخلت و جبر کی بات کررہا ہو اس کی باتوں کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے کہ “کہیں ایسا تو نہیں ہوجائے گا کہ تم فلاں کا حق مار لو گے، اور چونکہ تم بدمعاش ہو اور یقینا مارو گے (دیکھو تمہارے دوست داعش والے ایسا کررہے ہیں) لہذا تمہیں قوت جمع کرنے کا حق نہیں”
باقی حملہ بوقت ضرورت رکاوٹ ھٹاکر دعوت کے پھیلاؤ اور اسکے نفاذ کا موقع پیدا کرنے کیلئے مناسب مقدار میں ہی کیا جاتا ھے۔ یہی روس کرتا تھا، یہی امریکہ کرتا ھے اور یہی ھر تصور زندگی کو لیکر چلنے والا کرتا ھے؛ مسلمانوں کی بھی اس میں کوئی تخصیص نہیں۔ اگر اسلام واقعی کوئی دین ھے، تو بوقت صلاحیت و ضرورت حملہ کرنے کے جواز کیلئے کسی دلیل شرعی کی کوئی ضرورت سرے سے ھے ہی نہیں، یہ ‘تصور دین’ کا منطقی لاحقہ و لازمہ ھے (لوگ بلاوجہ اس معاملے میں قرآن کی آیات کی تاویلات کرنے میں لگے رھتے ہیں)۔ رہ گئی آج کی صورت حال، تو حملہ کرنے کی ضرورت کبھی ختم نہیں ھوجاتی، بس موقع و ضرورت دیکھنا ھوتی ھے (یہ کبھی داخلی ھوتا ھے تو کبھی خارجی)۔ اگر آج یہ ضرورت ختم ھوگئی ھوتی تو امریکہ کو درجنوں ممالک کے ساتھ اندرونی و داخلی طور پر سینگ پھنسانے کی کوئی ضرورت نہ ھوتی۔