المنقذ من الضلال میں امام غزالی نے اپنی آپ بیتی تحریر فرمائی ھے۔ اس میں امام ایک ایسے دور کا ذکر کرتے ہیں جب وہ ایمان و ایقان کی تلاش میں ھر ذریعہ علم (حواس، عقل وغیرہ) کو شک کے پیمانے پر جانچ کر اسے رد کرتے چلے گئے۔ جدید مغربی فلسفے میں بظاہر یہی طریقہ کار مشہور فلسفی ڈیکارٹ (جسے جدید الحادی فلسفے کا بانی بھی سمجھا جاتا ھے) نے بھی اپنایا۔ اس مماثلت سے بہت سے مسلم فلسفیوں کو یہ شبہ لگا گویا ڈیکارٹ نے یہ طریقہ امام سے سیکھا نیز امام نے بھی ڈیکارٹ ہی کی طرح حتمی علم کی تلاش کیلئے یہ طریقہ اپنایا۔ یہی نہیں بعض لوگ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ڈیکارٹ ان معنی میں امام سے بڑا فلسفی تھا کہ امام نے تشکیکیت کے اس طریقہ کار کو اختیار تو کیا مگر وہ بیچ منجھدھار گھبرا گئے اور اس طریقہ کار کی مشکلات کو حل کرکے اسکے ان الہیاتی نتائج، جو ڈیکارٹ نے اخذ کئے، تک منطقی انداز میں پہنچنے کے بجائے ایمان اور عقیدے کی پناہ لینے میں عافیت محسوس کرنے لگے۔ بعض اہل علم (شبلی) نے امام کے اس سفر کو “الحاد سے ایمان” سے بھی تعبیر کرڈالا۔ مگر یہ باتیں امام اور ڈیکارٹ کی تشکیکیت میں فرق نیز امام کے ھدف کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہیں، یہاں اختصار کے ساتھ اس فرق کی وضاحت کی جاتی ہے۔
امام غزالی کبھی الحاد کا شکار نہیں ہوئےاگرچہ بہت سے اھل علم اس رائے کی طرف گئے ہیں اسکی وجہ امام کی خود کی بیان کردہ آٹو بائیو گرافی میں “بظاہر” ایسے کچھ بیانات ملتے ہیں مگر وہ سب “قلبی یقین کے کمال کی جستجو” پر محمول ہیں نہ کہ “نفس ایمان” کی۔ بلا تمثیل یہ کچھ اسی قسم کی جستجو تھی جیسی حضرت ابراھیم علیہ السلام کو ہوئی کہ’ ارانی کیف تحی الموتی’۔ المنقذ میں امام اپنے تمام سفر کو قلبی یقین ہی کے سفر کے طور پر بیان کرتے ہیں اور اسی مقصد کے لئے آپ مختلف علوم کے ماھرین کی طرف متوجہ ہوئے۔امام کو جو تشکیک لاحق ہوئی اس کی نوعیت اس قسم کی تھی کہ کیا انسان کے پاس میسر علمی وسائل (عقل، حواس، غیبی امام سے تعلق وغیرہ) سے اس کیفیت کو پانا ممکن ہے جسے “حقیقت پر یقین” کہتے ہیں؟ امام پچیس سال کی عمر میں اپنے دور کی ھارورڈ کے ڈین رہ چکے تھے۔ اس وقت انہیں جس شے نے پریشان کیا وہ خدا کے بارے میں کوئی علمی دلائل کی کمزوری نہ تھی۔
امام اور ڈیکارٹ کی تشکیکیت میں فرق دو سطح پر دیکھا جاسکتا ھے، ایک پیراڈئیم کی سطح پر اور دوسرا اس طریقہ علم کی علمی حیثیت کی سطح پر۔ نفس مدعا کے لئے صرف دوسرے پہلو کی وضاحت ضروری ہے۔
ڈیکارٹ اور امام کی تشکیکیت کے درمیان اھم ترین فرق تشکیکیت بطور ذریعہ علم کی علمی (epistemological) حیثیت ھے۔ قصہ مختصر یہ کہ ڈیکارٹ کی تشکیکیت تعیین حقیقت کا ایک مخصوص طریقہ کار یا منھاج ھے، یعنی ڈیکارٹ نے شک کو “بطور طریقہ” اختیار کیا جو یقین کا ذریعہ بن سکے۔ اسکے خیال میں ہر قابل شک چیز پر شک کرنے سے ہی یقین تک رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔ پھر اس طریقہ کار کے ذریعے حاصل شدہ قطعی قضایا پر استخراجی منطق کے ذریعے قطعی و معروضی علم کی منزل تعمیر کرنا ممکن ہوسکے گی۔ گویا ڈیکارٹ کی تشکیکیت محض شک کرنا نہیں ہے بلکہ ایک (مخصوص قسم کی) قطعی علمیت (ومابعد الطبعیات) تخلیق کرنے کا علمی پیرایہ و طریقہ کار ہے (ایک ایسی مابعد الطبعیات جو انسانی ذات سے نکلتی ھے، جہاں خدا بھی انسان سے نکلتا ہے)۔ تعمیر و تشکیل حقیقت کے اصول ھونے کی اسی نسبت سے اسکی تشکیکیت کو methodic doubt کہتے ہیں (یعنی تعمیر حقیقت کا ایک مخصوص علمی منھج)۔ اسکے مقابلے میں امام کی تشکیکیت “منہاجی” نہیں “حقیقی” ہے، وہ تشکیکیت کو بطور ماخذ و اصول تعمیر حقیقت نہیں اپناتے، یعنی انہوں نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ حقیقت وہ ہے جو اس مخصوص طریقہ علم پر پوری اترے۔
ڈیکارٹ “یقین” کا متلاشی تھا نہ کہ “سچائی” کا، اس نے سچائی و یقین کو اس مفروضے کے تحت خلط ملط کردیا کہ جو شے شک سے بالاتر ھوگی وہی سچائی ھوگی۔ اس نے اس یقین کا منبع شک میں تلاش کیا۔ اب اس کے طریقے کے تحت ”سچائی” کا حصول ممکن ھوگا یا نہیں اسکی کوئی گارنٹی نہیں کیونکہ ذات کس کس شے کو ”بدیہی” سمجھ کر اسے یقینی مان لے گی اسکا قطعی تعین ممکن نہیں۔ اسکے مقابلے میں امام سچائی اور یقین میں فرق ملحوظ رکھتے ہیں، انھوں نے “سچائی” (وہ جو نبی نے بتائی) کی تلاش کو مطمع نظر بنایا۔ چنانچہ غزالی ایک لمحے کیلئے بھی مذہب (سچائی) کو ترک نہیں کرتے، انکی تشکیکیت کی حقیقت بس اتنی ہے کہ جس حقیقت کو خدا کے پیغمبر نے حقیقت بتا دیا تھا اس تک رسائی کا ایسا ذریعہ کیا ھے جو قلب کو اطمینان کی دولت سے مالا مال کردے۔ اس مقصد کی خاطر وہ باری باری ان تمام ذرائع علوم کی طرف متوجہ ھوتے ہیں جنکے مدعیان اس بات کے داعی تھے کہ حقیقت کا ایقان ان کے ذرائع سے ممکن ھے اور غزالی ایک ایک کرکے بالاخر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ خداوندکریم کی خاص رحمت و انعام سے حاصل ھوتا ہے نہ کہ شک کی علمیت سے۔
حقیقت یہ نہیں کہ امام اس طریقہ کار کے منطقی نتائج اخذ کرنے سے قاصر رھے بلکہ یہ ھے کہ امام اس طریقہ کار کی حدود اور غلطی کو پوری طرح بھانپ گئے اور اسی لئے اسے ترک کردیا۔ ڈیکارٹ نے اس طریقہ کار کو حتمی سمجھ کر اسکے ذریعے اپنے تئیں وجود خداوندی ثابت کرنے کی کوشش کی مگر اس کا نتیجہ جو نکلنا تھا وہ نکل کر رھا اور ڈیکارٹ کے پیروکاروں نے اسکے اسی طریقہ کار کو استعمال کرکے اسکے اخذ کردہ نتیجوں کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اسی طرح یہ بات بھی درست نہیں کہ امام گویا الحاد کی راہوں سے ہوکر ایمان و ایقان کی منزل تک پہچنے۔
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل