ہمارے فاضل دوست جناب ڈاکٹر زاہد صدیق مغل نے امام غزالی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کسی تحریر کے جواب میں امام غزالی سے متعلق ”عقل سے فرار“ کے الزام کی تردید فرمائی ہے۔ ہمارے نزدیک بھی امام غزالی پر عقل سے فرار کا الزام کسی طرح درست نہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی عام ناظر یا قلم کار کی بات تو الگ ہے، حیرت انگیز امر یہ ہے کہ غزالی پر عقل و سائنس کی مخالفت کا الزام بڑے بڑے نامور مسلم محققین بھی لگاتے آ رہے ہیں۔ معروف ہندوستانی فاضل سید امیر علی مرحوم نے اپنی کتاب ”سپرٹ آف اسلام“ میں بھی امام صاحب پر شدو مد سے یہ الزام عائد کیا ہے۔ لیکن غزالی پر یہ الزام، واقعہ یہ ہے، کہ عقل اور علم وسائنس سب کے ساتھ زیادتی ہے۔ فلسفے اور عقلیات میں امام صاحب کے اپنے مقام کا اندازہ آپ کے اور ابن رشد کے موازنے ہی سے لگا لیجیے۔ وہ یوں کہ فلسفے میں ابن رشد کے مقام کا کوئی عاقل انکار نہیں کر سکتا، لیکن امام غزالی کے رد میں ابن رشد کے دلائل کی کمزوری کو تہافۃ الفلاسفہ اور تہافۃ التہافۃ کو دیکھنے والا ہر قاری محسوس کر سکتا ہے۔
اگرچہ کئی فلسفہ اور سائنس مخالف راسخ العقیدہ علماء کا بھی یہی خیال ہے کہ ان لوگوں (غزالی اور ابوالحسن اشعری) نے فلسفے اور عقل کی مخالفت کی، لیکن ان بزرگوں کو سائنس و فلسفے اور جدید دریافتوں کی کوششوں کا مخالف سمجھنا راقم کے نزدیک ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ ایسا سمجھنے والے دراصل اس زمانے کے جدید فلسفے اور علم کلام کے بعض غلط نتائج کی تردید کے حوالے سے ان کی کوششوں سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ اس کی اہمیت ہی کے منکر ہیں، حالانکہ کسی علم کے غلط نتائج کا مقصد اس کی اہمیت سے انکار کسی طور قرار نہیں پا سکتا۔ ان بزرگوں نے تو خود ان علوم پر زور دیا، بلکہ معتزلہ کی تردید عقلی بنیادوں اور ان کے اپنے طرزِ بحث و استدلا ل کی روشنی ہی میں کی؛ اپنا اور اہل ِسنت کا مؤقف انھی بنیادوں پر ثابت کیا۔
اس میں شبہ نہیں کہ اسلام میں عقل کے استعمال پر جتنا زور دیا گیا ہے کسی اور مذہب میں نہیں دیا گیا۔ اسلام کوئی ایک بھی غیر عقلی یا عقل مخالف بات نہیں منواتا، ہاں! یہ الگ بات ہےکہ کوئی بات کسی وقت کسی کی عقل میں نہ آ رہی ہو، تو وہ اسے غیر عقلی کَہ دے۔ اس کے نزدیک معجزات وغیرہ بظاہر غیر عقلی باتیں بھی عین عقلی ہیں۔ راقم الحروف نے ”الشریعۃ “ میں شائع شدہ اپنے ایک تفصیلی مضمون میں بحث کرکے ثابت کیا تھا کہ اس نوع کے جن بزرگوں کو عقل و سائنس مخالف کہا جاتا ہے، وہ ہرگز اس کے مخالف نہیں، بلکہ ان کی تحریریں تو ان کو مہمیز لگاتی ہیں؛ بھلا جو مذہب خود عقلی و سائنسی ہو، اس پر پختہ ایمان رکھنے والے اور اس کے دفاع کے لیے زندگی وقف کر دینے والے عقل کی مخالفت کیسے کر سکتے ہیں! سو یہ بزرگ نہ عقل مخالف ہیں اور نہ سائنس اور فلسفہ مخالف۔ ان کی مخالفت فی الواقع اس ذہنیت سے ہے جو بس اپنی عقل ہی کو عقل مانتی ہے۔“
امام کا خیال تھا کہ عام فلسفی چیزوں کو جس انداز سے پیش کرتے ہیں، اس سے عام مسلمانوں کے عقائد میں خرابی پیدا ہوسکتی ہے۔ چناں چہ آپ نے فلسفیوں کے خلافِ اسلام افکار و نظریات کا فلسفیانہ اور عقلی بنیادوں پر نہایت زوردار محاکمہ کیا۔ فلسفہ اور کلام کی تاریخ کا یہ غیر معمولی کارنامہ آپ نے ”تہافۃ الفلاسفہ“ کے عنوان سے انجام دیا۔ مذکورہ کتابوں کے علاوہ امام غزالی نے ”احیاء علوم الدین“، ”الاقتصاد فی الاعتقاد“، ”فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ“، ”منہاج العابدین“، ”المستصفی فی علم اصول الفقہ “، ”جواہر القرآن و دررہ“، ”کیمیائے سعادت“ وغیرہ متعدد تصانیف پیش کیں۔ آپ کی کتب آپ کے تبحرِ علمی اور مختلف علوم و فنون میں غیر معمولی درک و دسترس کی ناطق شہادتیں ہیں۔ آپ کی فکری بلندی اور علمی عظمت کومشرق ومغرب میں وسیع پیمانے خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے؛ دنیا کے بڑے بڑے اداروں، جامعات اور سکالرز کی طرف سے آپ کی فکر پر تحقیقات کی گئی ہیں۔
امام غزالی پر عقل وسائنس کی مخالفت یا اس کی راہ روکنے والا کہنے والوں کو خود مغربی اہل قلم کی درج ذیل نوعیت کی تحقیقات کو دیکھ لینا چاہیے، جن کے مطابق:
(1) طبِ اسلامی میں سرجری اور علمِ تشریح الاعضا پر امام غزالی کی تصنیفات کے اثرات ہیں، جنھوں نے ان علوم کو تخلیقاتِ خداوندی کے ادراک کے لیے استعمال کرنے پر زور دیا۔
(Emilie Savage-Smith, “Attitudes toward Dissection in Medieval Islam.” Journal of the History of Medicine and Allied Sciences)
(2) پندرھویں صدی کے مسلم ماہرِکونیات علی القوشجی نے ارسطاطالیسی تصورِ سکونِ زمین کو غزالی وغیرہ ایسے عظیم مسلم ماہرینِ علومِ دین کی تنقیدِارسطو سے تحریک پاکر رد کیا تھا۔
(F. Jamil Ragep, “Tusi and Copernicus: The Earth’s Motion in Context.” Science in Context)
(3) امام غزالی نے ارسطو کے تصور کائنات کو رد کرتے ہوئے تعددِ عوالم کا تصور پیش کیا تھا۔
(Taneli Kukkonen, “Possible Worlds in the Tahafut al-Falasifa: Al-Ghazali on Creation and Contingency.” Journal of the History of Philosophy)
- ڈاکٹر محمد شہباز منج، پروفیسر سرگودھا یونیورسٹی