لکژری (یعنی عیش و عشرت، طاؤس و رباب اور اسراف ) وہ دیمک ہے جو دنیا کی بڑی بڑی تہذیبوں اور حکومتوں کو کھا چکی ہے۔ روم کی سلطنت، ،یو نان کی بادشاہت اور ہسپانیہ کی ریاست ہو یا مغل اور ترک شہنشاہیت دنیا کی بڑی بڑی مملکتیں اسی لکژری، آرام طلبی اور سستی پیوند خاک ہو کر عبرت کا نشان بنیں ۔ رومن امپائر چھے بر اعظموں پر محیط تھی لیکن جب وہاں لکژری اور اسراف کا دور دورہ ہوا تو وہاں ظلم اور نا انصافی بھی شروع ہو گئی اور پھر ایک دن وہ عظیم سلطنت تاریک کے کوڑے دان کا حصہ ہو گئی۔ سکندر اعظم کی سلطنت دنیا کے اکیاون (51) ملکوں پر قائم تھی اور اس نے صرف دس برسوں میں آدھی دنیا کو روند ڈالا تھا لیکن جب ظلم اور ناانصافی حد سے بڑھی تو اس کی حکومت بھی محض تاریخ کے سیاہ اوراق کا ایک حصہ بن کے رہ گئی۔ ایران کے بادشاہ کسریٰ کا حکم بھی کم و بیش آدھی دنیا پر چلتا تھا لیکن لکژری، اسراف اور ظلم نے اسے بھی تاریخ کا جُو ہڑ بنا کر رکھ دیا۔ مغلوں نے بھی بھارت پر قریب چھے سات سو سال حکومت کی لیکن با لآخر طاؤس و رباب اور لکژری اور اسراف انہیں بھی لے ڈوبا۔ ہندستان کے آخری حکمراں نے جس کی حکومت پہلے ہی دلی سے پالم تک سمٹ چکی تھی اور پھر محض قلعہ معلیٰ تک محدود رہ گئی تھی اپنی عمر کی آخری گھڑیاں رنگون(موجودہ یانگون۔ میانمار،سابق برما ) کے قید خانے گزار دیں اور مرنے کے بعد بھی اسے دلی میں دو گز زمین تک نصیب نہ ہو سکی۔
مسلمان اندلس (ہسپانیہ۔ اسپین ) پر فخر کرتے ہیں اور بے شک انہیں فخر کرنا بھی چاہیے کہ جب لندن، پیرس اور ایمسٹر ڈم کی گلیوں میں کیچڑ بہتا تھا اُس وقت قرطبہ (موجودہ کارڈوبا ) شہر میں ڈھائی لاکھ پکے مکان، اَسّی ہزار چار سَو دوکانیں، صاف ستھری اور پکی سڑکیں اور گلیاں اور ایک ہزار چھے سو شاندار مسجدیں تھیں۔ ! جب یورپ جہالت کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اُس وقت قرطبہ کی گلیوں میں چراغ جلا کرتے تھے لیکن ہسپانیہ کے سائنسی طور پر ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ اور مہذب مسلمانوں کا بھی ان کی لکژری سے بھر پور پُر تَعیُّش زندگی اور اسراف نے بیڑہ بھی غرق کر دیا۔28 فروری 1492 کو اُندلس کا آخری بادشاہ اَبو عبد ا للہ محمد، عیسائی بادشاہ فردیننڈ کو ’قصر ِ اَلحمَرا ‘ کی چابیاں سونپ کر مراکش کے شہر ’ فیض ‘ چلا گیا اور وہاں اُس نے اپنی آخری عمربھیک مانگ مانگ کے بسر کی !اور سقوط ہسپانیہ کے ٹھیک پانچ برس بعد 1497 میں وہاں ایک بھی مسلمان باقی نہیں بچا تھا۔ جو رہ گئے تھے انہوں نے عیسائیت قبول کر لی تھی لیکن پھر بھی وہ’ مور ‘ کہلاتے تھے اور ایک سو سال بعد ان کا بھی نام نشان مٹا دیا گیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کو دیکھیں تو اس میں اعداء اسلام کے ساتھ جو معرکہٴ آرائیاں ہوئیں ، اکثر جنگوں میں ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء پر فقر و فاقہ کی آزمائش ہوتی ، دوسری طرف یہ جذبہٴ سرفروشی اور جانبازی و جان نثاری بھی دو ش بدوش ، اسی ماحول میں اسلام کا سورج جزیرة العرب کے افق پر طلوع ہوا ، وہ بلندی کا سفر طے کرتا گیا؛ یہاں تک کہ اس کی کرنیں مشرق سے مغرب تک پھیل گئیں ۔ دنیا کی سپرپاورز اپنے مال و دولت کے انبار،اپنی شان و شوکت کے مصنوعی محلوں سمیت انکے قدموں میں گر گئیں ؛ ان کا رعب وجلال ان کی فقرو دُرویشی میں پنہاں تھا ، بڑے بڑے بادشاہوں کو ان سے گفتگو کا یارانہ ہوتا تھا ۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوف دامن گیر نہیں تھا کہ میری امت معاشی اعتبار سے پسماندہ ہوجائے گی اور اس فقر و پسماندگی کی وجہ سے اسے ذلت ورسوائی سے دو چار ہونا پڑے گا ؛بلکہ آپ کو ڈر اس بات کا تھا کہ یہ امت جد و جہد کے جذبہ سے محروم ہوکر عیش و عشرت میں مبتلا نہ ہوجائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
” خدا کی قسم ! مجھے تم پر فقر و محتاجی کا خوف نہیں ہے ؛ لیکن میں تم پر جس بات کے بارے میں ڈرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم پر دنیا کی نعمتیں بچھادی جائیں گی ، جیسے تم سے پہلوں کے لیے بچھادی گئی تھیں ، پھر پچھلی قوموں کی طرح تم دنیا کے سلسلہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے اور جیسے دنیا کی حرص نے انھیں غفلت اور لہو ولعب میں مبتلا کردیا تھا ، کہیں تم کو بھی غفلت اور لہوو لعب میں مبتلا نہ کردے “ (بخاری ،باب ما یحذر من زہرة الدنیا والتنافس بہا ، حدیث نمبر : ۶۴۲۵)
رسول اللہ لی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں آج عمومی طور پر مسلمانوں کا اور خاص طور پر مسلمان حکمرانوں کا حال دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے بارے میں جس چیز سے ڈرتے تھے ، آج امتِ مسلمہ عملی طور پر اسی مرض میں مبتلا ہے ۔ شاعرِ حقیقت شناس علامہ اقبال نے خوب کہا تھا :
آ ، تجھ کو بتاؤں میں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سنان اول ، طاوٴس و رباب آخر
یعنی جب کوئی قوم ترقی و عروج کا سفر طے کرتی ہے تو وہ تلواروں اور نیزوں سے مزین ہوتی ہے ، وہ مشکل حالات کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے ، وہ عیش و عشرت کے خاکوں میں رنگ بھرنے کے بجائے جد وجہد کے میدان میں آگے بڑھتی ہے ، اور جب قوموں کے زوال و انحطاط کا زمانہ آتا ہے تو وہ عیش و عشرت کے نقشے بنانے لگتی ہے اور رقص و سرود سے اپنے دل کو بہلانے کی عادی ہوجاتی ہے ، ساز ، باجے انکی گٹھی میں پڑ چکے ہوتے ہیں۔تان سین جیسے مراثی انکےآئیڈیل اور بہادر شاہ اور شاہ رنگلیلا جیسے عیاش انکے لیڈر بن چکے ہوتے ہیں۔
یہ بات جب کی جاتی ہے تو ایک اشکال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر ترقی اسلام پر ہی چلنے میں ہے تو غیر مسلم کیسے اتنے ترقی یافتہ ہوگئے ہیں ؟
یہ سوال ہی بے محل ہے کیونکہ اس کی بنیاد اس مفروضے پر قائم کی گئی ہے کہ ہر تہذیب کی عام فعالیت علم الکائنات اور ریاضیات کے شعبوں میں ہوتی ہے۔ یہ مفروضہ درست نہیں ہے۔ جب ہم سائنس کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں مثلاً عراق میں بابلی تہذیب کے ہزاروں سال پر مشتمل تاریخ، مصری تہذیب کی ہزاروں سال پر مشتمل تاریخ، یا رومن، چینی اور انڈین تاریخ وغیرہ ان طویل تاریخوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مفروضہ درست نہیں ہے۔ اکثر و بیشتر صورتوں میں زیادہ فعال سائنسی سرگرمی فی الحقیقت اُس وقت دیکھنے میں آئی جب وہ تہذیب مررہی تھی۔ جارج سارٹن بھی یہی کہتا ہے۔ مثال کے طور پر بابلی تہذیب میں جو اپنے عظیم سائنسی شاہکاروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ سائنس نے اُس وقت عروج پایا جب وہ تہذیب ختم ہورہی تھی۔ بعض سائنسی علوم کے حوالے سے مصری تہذیب کی بھی یہی کیفیت ہے۔ یونانی تہذیب کا بھی یہی حال ہے۔ یونانی سائنس کے عظیم شاہکار، مثلاً بطلیموس اور اقلیدس اور اُن کے معاصرین کے کارنامے اُس وقت ظہور میں آئے، جب یونان کے حضے بخرے ہوگئے تھے۔ اُس کا مذہب مررہا تھا۔ اُس کی ثقافت دم توڑ رہی تھی اور اُس کی سیاسی زندگی پر رومیوں کا تسلط قائم ہورہا تھا۔ یہ ناقابل تردید تاریخ حقائق ہیں۔ انڈین، چینی اور دوسری تہذیبوں میں بھی جن کی تاریخ بہت طویل ہے۔ ایک وقت ایسا آیا تھا، جب سائنسی علوم اپنے جوبن پر تھے مثلاً ریاضی، طبیعیات، فلکیات اور کیمیا وغیرہ ایسا وقت بھی آیا جب سائنس سے زیادہ لگائو نہ تھا اور جس وقت سائنس سے لگائو نہ تھا تو اُس وقت فنون سے زیادہ لگائو ہوگیا اور فن تعمیر، ادبیات، سیاستِ مدن اور ایسے دوسرے فنون نے بہت ترقی کی۔
سائنس بابلی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کے دورِ اول ہی میں شروع ہوگئی تھی۔ یعنی اسلامی سائنس اسلامی تہذیب کے آغاز ہی میں اپنے عروج پر تھی۔ مثال کے طور پر جابر بن حیان دوسری صدی ہجری کا آدمی ہے۔ آج تک الکیمیا جابر سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ نویں صدی میں تو ایک سے بڑھ کر ایک عظیم علمائے فلکیات اور ریاضی داں کام کررہے تھے۔ دسویں صدی میں البیرونی اور ابن سینا جیسے عظیم لوگ برسر عمل تھے۔ پھر ایک طویل عرصے تک کئی صدیوں تک نشیب وفراز آتے رہے۔ پھر اسلامی تہذیب کی صلاحیتوں اور توانائیوں کے دھارے نے رفتہ رفتہ اپنا رُخ بدل لیا۔ ۱۵۰۰ء کے آتے آتے مغرب طاقت پکڑ چکا تھا۔ انکشافات اور دریافتوں کا دور شروع ہوچکا تھا۔ یورپیوں نے امریکا دریافت کرلیا۔ پھر وہ افریقہ کے گرد چکر کاٹ کر بحرِ ہند کو عبور کرکے ایشیا کے ساحلوں تک پہنچ گئے لیکن وہ دارالسلام میں داخل نہ ہوسکے۔ اُس زمانے میں دنیائے اسلام اب تک بہت بڑی طاقت تھی۔ اُس وقت دنیا کی طاقتور ترین سلطنتیں عثمانیوں اور صفویوں کی تھی اور امیر ترین ہندوستان کی سلطنتِ مغلیہ تھی۔ یہ تینوں مسلم سلطنتیں معاشی، سیاسی اور عسکری لحاظ سے اُس وقت بھی بہت مضبوط، مستحکم اور طاقتور تھیں۔ ان کے فنون کو دیکھیے۔ تاریخ انسانیت کے عظیم ترین فن پارے اس دور میں تخلیق ہوئے۔ آگرہ کا تاج محل، اصفہان کی شاہی مسجد، استنبول کی مسجد سلطان احمد۔ یہ فن تعمیر کے ان۔مٹ نقوش ہیں۔ پھر خطاطی، ادبیات اور دوسرے فنون کے شاہکار ہیں جن کے نام گنوائے جاسکتے ہیں۔۔
سو کسی تہذیب کو جانچنے کے لیے یہ سوال عائد کرنا کہ ’’اُس میں سائنس کو زوال کیوں آیا؟‘‘ اور پھر سائنس کے زوال کا موازنہ اُس تہذیب کے زوال سے کرنا بالکل غلط ہے۔ اس لیے کسی بھی تہذیب میں معلومہ تہذیبوں میں سے بھی تمام تخلیقی توانائیوں کو بہ تمام وکمال صرف علم الکائنات اور ریاضی پر نہیں جھونک دیا جاتا۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب تہذیب صرف اپنے تصورِ کائنات ہی میں مطمئن ہوجاتی ہے اور بعد ازاں کسی بھی وقت اُس کی تخلیقی فعالت کا رُخ فلسفے، آرٹ، تصوف، ادب، قانون اور دوسرے میدانوں کی طرف مڑ جاتا ہے۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ سوال کی نوعیت ہی غلط ہے۔ آج جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں سائنس کی ترویج و اشاعت کے مسئلے کو ہمیں اسلامی تہذیب ہی کے دائرے میں رکھ کر اسلامی تہذیب کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
استفادہ تحریر خالدسیف اللہ رحمانی، سید حسین نصر عالم نقوی