فلسفہ یونان اوراسکےمسلم مقلدین پرامام ابن تیمیہ کی تنقید

فلسفۂ یونان کا عالم اسلام پر اثر و اقتدار


یونانی فلسفہ ومنطق کی کتابوں کا ترجمہ کا کام خلیفہ منصور کے زمانہ ( تقریبا ۱۳۶ھ) سے شروع ہوگیا تھا، معتزلہ نے ان کتابوں کا مطالعہ اور ان سے استفادہ کیا تھا، ان کی کتابوں میں فلسفۂ یونان کی اصطلاحات کا استعمال اسی زمانہ سے شروع ہوگیا تھا، لیکن علوم یونان کا اصل فروغ مامون کے زمانہ میں شروع ہوا، مامون نے ترجمہ کی تحریک کی شاہانہ سرپرستی کی، وہ بذات خود یونانی علوم کا بڑا قدردان اور حریص تھا، صاعد اندلسی نے”طبقات الامم” میں لکھا ہے کہ “اس نےشاہانِ روم سے حکمائے یونان کی کتابوں کی فرمائش کی، انھوں نے افلاطون ،ارسطو، بقراط، جالینوس، اقلیدس اور بطلیموس وغیرہ کی تصنیفات تحفۃ بھیجیں اور مامون نے بڑے اہتمام سے ان کا ترجمہ کرایا، اور لوگوں کو ان کے مطالعہ کی ترغیب دی، اس کے زمانہ میں ان کتابوں کا عام چلن ہو گیا، اور فلسفہ نے عروج حاصل کیا، اس کی قدر دانی کی وجہ سے ذہین و ذکی نوجوانوں اور اہلِ علم نے ان مضامین پر عبور پیدا کیا، اور اپنی اپنی جنسِ کمال مامون کے ہنر پرور دربارمیں لے کر آئے اور انعام و اکرام و مراتب و مناصب سے سرفراز ہوئے، اس طرح سلطنتِ عبّاسیہ ان علوم میں رومۃ الکبریٰ کی ہمسر و ہم چشم نظر آنے لگی۔”( طبقات الامم ص۴۷ )

ترجمہ کا یہ کام مامون کے بعد تک جاری رہا، اور تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ چوتھی صدی ہجری تک یونان کے علمی ذخیرہ کا بڑا حصّہ عربی میں منتقل ہو چکا تھا۔( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، فہرست ابنِ ندیم، طبقات الاطباء (ابن ابی اصیعبہ) اخبار الحکماء قفطی وغیرہ)

اس علمی ذخیرہ میں اگرچہ افلاطون اور دوسرے حکمائے یونان کی تصنیفات و تحقیقات بھی تھیں، لیکن شاید مترجمین (جو زیادہ تر نسطوری اور یعقوبی، عیسائی اور جندیسابور اور حرّان کے علمائے فلسفہ تھے) کے ذاتی رحجان کی وجہ سے یا اس بنا پر کہ ارسطو کا زمانہ قریب تر ہے، اور اس کی تصنیفات میں فلاسفئہ متقدمین کے مباحث زیادہ مدّون و مرتب ہیں، ارسطو کی کتابوں نے عالم اسلامی کے علمی و درسی حلقوں میں زیادہ قبولیت و رواج حاصل کیا، اور بالآخر وہی فلسفئہ یونان کا نمایندہ اور وکیل اور عالمِ اسلام میں فلسفہ کا رمز اور نشان بن کر رہ گیا، عالمِ اسلام کی بدقسمتی تھی کہ حکمائے یونان میں سے اس کے حصہ میں وہ فلسفی عالم آیا، جو بہت سے اسباب و وحوہ کی بنا پر (جن میں سےبعض کی تفصیل امام ابن تیمیہ کے بیانات و انتقادات میں آئے گی) ادیان سماوی کی روح اور دینی مفاہیم و تصّورات و حقائق سے زیادہ بعید و نا آشنا اور مادّی فکر و نظر کا پرجوش حامی وداعی ہے۔

٭فلسفہ کا دور تقلید


ابتداء میں عالم اسلام کے علمائے فلسفہ نے ارسطو کے فلسفہ و منطق کو آنکھ بند کرکے قبول کرنے سے انکار کیا اور اس کو تنقید و تحقیق سے بالاتر اور مستغنی نہیں سمجھا بہت سے علماء نے اس کی تردید میں کتابیں لکھیں اور اس کے فلسفیانہ و منطقی مباحث پر آزادانہ و ناقدانہ نظر ڈالی اور جو چیز ان کو مخدوش اور کمزور نظر آئی برملا اس کا اظہار کیا ۔اس سلسلہ میں ابتدا میں معتزلہ پیش پیش تھے ان میں سے نظام اور ابو علی جبائی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔تیسری صدی میں حسن بن موسی نوبختی نے کتاب الآراء والدیانات لکھی اور اس میں ارسطو کی منطق کے بعض اہم مسائل کا رد کیا ۔چوتھی صدی میں امام ابوبکر باقلانی نے “دقائق” کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں فلسفہ کا رد لکھا اور یونانیون کی منطق پر اہل عرب کی منطق کی ترجیح ثابت کی۔ پانچویں صدی میں علامہ عبد الکریم شہرستانی ( صاحب الملل والنحل) نے برقلس اور ارسطو کے رد میں ایک کتاب لکھی اور قواعد منطق کے موافق ان پر دلائل کا نقض کیا، اسی صدی کے آخر میں امام غزالی فلسفہ کے مد مقابل ہوئے اور انہوں نے تہافة الفلاسفہ کے نام سے وہ کتاب لکھی جس سے سو برس تک فلسفہ کے ایوان میں تزلزل رہا ۔چھٹی صدی میں ابو البرکات بغدادی نے اس سلسلہ کو بڑی ترقی دی اور المعتبر کے نام سے ایک معرکة الآراء کتاب لکھی جس میں اکثر مسائل میں ارسطو کے خیالات کو غلط ثابت کیا۔ اس صدی میں امام رازی نے متکلمین اسلام اور اشاعرہ کا وکیل بن کر فلسفہ کو اپنے اعتراضات کا نشانہ بنالیا۔ لیکن عالم اسلام کا وہ علمی حلقہ جو فلسفہ یونان کا اصل علم بردار اور ترجمان سمجھاجاتا تھا، ارسطو کی شخصیت و عظمت سے مسحور تھا اور ایک طرح اس کو تنقید و تحقیق سے بالاتر سمجھتا تھا۔ زمانہ کے ساتھ ساتھ علمائے فلسفہ کی ارسطو کی ذات کے ساتھ یہ گرویدگی اور شیفتگی بھی بڑھتی جارہی تھی اور فلسفہ کے حلقوں میں ارسطو رفتہ رفتہ تقدّس و عظمت کے مقام پر فائز ہوتا جا رہا تھا، ہر بعد کا فلسفی اپنے پیشرو سے اس عظمت و تقدیس میں فائق اور مقدم نظرآتا ہے، ابو نصر فارابی (سنہ۳۳۹ھ سنہ۹۵۰ء) افلاطون اور ارسطو کی نسبت لکھتا ہے:-

یہ دونوں حکیم فلسفہ کےموجد اور اس کے مبادی و اصول کے بانی و مرتب ہیں، اور فلسفہ کے مسائل و مباحث میں تمام تر انہی دونوں پر بنیاد ہے۔( الجمع بین رأی الحکیمین)

بو علی سینا ( سنہ۴۲۸ھ) فارابی سے بھی زیادہ ارسطوکی عظمت کا قائل اور کلمہ گو ہے، وہ ” منطق الشفاء” میں لکھتا ہے کہ ” ارسطو کو اتنا زمانہ ہوا لیکن آج تک اس کے ان مسائل و تحقیقات پر کچھ اضافہ نہ ہوسکا۔”( مضمون ” فلسفۂ یونان اوراسلام” از مولانا شبلی نعمانی رحہ الندوہ جلد۱،بحوالئہ منطق الشفاء)

بوعلی سینا کے بعد فلسفہ کےحلقہ نے ابن رُشد (م سنہ۵۹۵ھ) سے بڑا عالم اور وکیل پیدا نہیں کیا، ارسطو کی عظمت و تقدیس میں اس کا قدم بو علی سینا سے بھی آگے ہے، اور اگر اس موقع پر تصوف کی اصطلاح میں ( دخل در معقولات نہ ہو تو) یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ارسطو کی ذات میں فنا فی الشیخ کا درجہ حاصل ہے، اس کا ایک سوانح نگار اس کی اس خصوصیت کا ان الفاظ میں اظہار کرتا ہے:”ارسطو کی عظمت و تقدیس کے سلسلہ میں ابن رشد اتنا آگے ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں، یہاں تک کہ وہ اس کو خدا بنانے کی حد تک پہونچ گیا، اور عقل و فضل کے اندر انسانی کمال کے درجات سے بھی بہت اونچے اس کے اوصاف بیان کئے اور اگر ابن رشد تعدّد آلہہ کا قائل ہوتا تو ارسطو کو رب الارباب بنا دیتا”۔( تاریخ فلاسفۃالاسلام فی المشرق والمغرب( لطفی جمعہ)ص۱۵۵)

ساتویں صدی میں فلسفہ کےحلقہ میں نصیرالدین طوسی (م سنہ۶۷۲ھ) کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے، جن کو فلسفہ کے مدرسی حلقہ نے محقّق طوسی کے لقب سے یاد کیا ہے، یہ وہ زمانہ تھا کہ تاتاریوں کے حملے اور بغداد کے سقوط نے عالم اسلام کو بے حواس بنا رکھا تھا، اور ایک عام علمی زوال پورے عالمِ اسلام پر سایہ فگن تھا، اس وقت نصیرالدین طوسی ہی ( جو ہلاکو خاں کے مقرب و معتمد تھے) یونانی علم و فلسفہ کے علم بردار تھے، انہی کے شاگردوں نے ( جن میں قطب الدین شیرازی اور ان کے ہم نام قطب الدین رازی خاص طور پر نامور ہیں) درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا کام سنبھالا اور انہی سے ایران کے اس طرزِ تعلیم کی بنیاد پڑی، جس میں فلسفہ و منطق کو مرکزی مقام حاصل تھا۔ نصیرالدین طوسی اس مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے، جو ارسطو کو کُل کا درجہ دیتا تھا، اور اس کی تحقیقات کو حرف آخر سمجھتا تھا، انھوں نے امام رازی کے مقابلہ میں ارسطو کے فلسفہ کی زورشور سےحمایت و مدافعت کی تھی، اور ارسطو کے فلسفہ میں نئی جان ڈال دی تھی۔

٭فلسفہ و منطق کا علمی محاسبہ اور ابن تیمیہ کا کارنامہ


شیخ الاسلام ابن تیمیہ نصیرالدین طوسی کی وفات سے دس برس پہلے پیدا ہوئے، ان کی علمی زندگی کا آغاز ہوا تو نصیرالدین طوسی اور ان کے تلامذہ کے اثر سے یونانی فلسفہ و منطق یعنی ارسطو کے فلسفہ و منطق کا طوطی بول رہا تھا، اس کے مسائل و مباحث کے سمجھ لینے ہی کو منتہائے ذکاوت اور معیارفضیلت سمجھا جاتا تھا، کسی کو اس کےمقابلہ میں یا اس کی مخالفت میں لب کشائی کی جرات نہ تھی، محدثین و فقہاء اس میدان کے حریف نہیں تھے، وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے تھے کہ اس کی حرمت کا فتویٰ دے دیں، مگر اس سے یہ سیلاب رک نہیں سکتا تھا، عالمِ اسلام کے علم و فکر پر اس کا رعب چھایا ہوا تھا، اس مرعوبیت سے ایک حلقہ میں ( جو فلسفہ سے قریبی، اور براہِ راست تعلق رکھتا تھا) تشککُّ و ارتیابیت کادور دورہ تھا، اور سوفسطائیت ( حقائق، اشیاء کا انکار) کا رحجان بھی پایا جاتا تھا، جو حلقہ براہِ راست تعلق نہیں رکھتا تھا، احساس کمتری اور مرعوبیت کا شکار تھا، اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لئے فلسفہ و منطق کے بےلاگ علمی محاسبے اور جائزے، اور اس کی علمی کمزوریوں کا پردہ فاش کرنے کی ضرورت تھی، وقت کی یہ ضرورت شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے پوری کی، اور اس کو مستقل موضوع بنا کر یونانی فلسفہ و حکمت کی مفصّل و مدلّل تنقید اور اس کے علمی محاسبے کا کام انجام دیا، اور ایک ایسی شخصیت ( ارسطو) سےحریفانہ گفتگو اور علمی مناظرہ کیا، جس کو علمائے فلسفہ ما فوق البشر ہستی اور تنقید و تردید سے بالاتر سمجھنے لگے تھے۔

ان کے کام کی نوعیت اور ان کے تنقید و محاسبہ کی حیثیت، ان کا نقطۂ نظر اور بنائے اختلاف کیا تھی؟ بہتر یہ ہے کہ اس کے لئے ان ہی کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے، ذیل میں مختلف عنوانات کے تحت ان کی تحریروں کے بعض خلاصے اور ان کی کتابوں کی بعض اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں، جن سے ان کا نقطۂ نظر اور طریقِ فکر واضح ہوجائے گا۔

٭ طبعیات و ریاضیات کا اعتراف:


اس علمی ذخیرہ کے بارے میں جو فلاسفۂ یونان و ارسطو کی طرف منسوب تھا، ان کی رائے بہت معتدل اور متوازن ہے، وہ طبعیات، ریاضیات اور الہٰیات میں فرق کرتے ہیں، اور اپنے پیشرو امام غزّالی کی طرح طبعیات اور ریاضیات کے بہت سے مسائل کی صحت و معقولیت کا اقرار اور اس بارے میں علمائے یونان کی ذہانت کا اعتراف کرتے ہیں، ایک جگہ لکھتے ہیں:- “ان فلاسفہ کی طبعیات میں جو گفتگو اور بحث ہے، اس امر کا بڑاحصہ اچھا ہے اور ان کا یہ کلام خاصا وسیع اورمفصل ہے ان باتوں کو سمجھنے اور معلوم کرنے کے لئے وہ اچھا دماغ رکھتے تھے، بہت سے مباحث میں وہ حق کےجو یا اور طالب نظر آتے ہیں اور ضد اور زبردستی سے کام نہیں لیتے”۔( الرد علی البکری ص۱۴۳)

وہ ایک جگہ صاف اعتراف کرتے ہیں کہ طبعیات و ریاضیات وغیرہ فلاسفہ یونان کا اصل موضوع اور ان کے غور و فکر کا میدان ہے، فرماتے ہیں: ” امورِ طبیعہ سےان کی واقفیت اچھی خاصی ہے، درحقیقت یہی ان کا دائرہ فکر اور فنِّ خاص ہے، اور اسی میں انھوں نے اپنے اوقات کا بیشتر حصہ صرف کیا”۔ (تفسیرسورۃالاخلاص ص۵۷)

یونان کے علم ریاضی کے متعلق “الرّدعلی المنطقیین” میں اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں: “ریاضی کے یہ مسائل جن سے اہلِ حساب بحث کرتےہیں، ایسے معقول مسائل ہیں، جن پرتمام اہل عقول کا اتفاق ہے اور ہر شخص اس سے کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتا ہے، اس لئےکہ وہ علم اور عمل دونوں کے لئے ضروری ہے، اس سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ الواحد نصف الاثنین، اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس کے سب قضایا کلّی ہیں، واجب القبول ہیں، اور ان پر کوئی نقض وارد نہیں ہو سکتا”۔( الرد علی المنطقیین ص۱۳۴)

٭اختلاف کااصل میدان فلسفۂ الٰہیات


امام ابن تیمیہ کو (امام غزالی ؒ کی طرح) فلسفۂ یونان کےجس دائرہ سے اصل اختلاف ہے، وہ الٰہیات کا دائرہ ہے، الٰہیات کے بارے میں وہ فلسفۂ یونان کی بے بضاعتی اور بے مایگی اور فلسفۂ یونان کی ناکامی و بےحاصلی اور ان کے جہل مرکّب میں مبتلا ہونے پر بار بار زور دیتے ہیں، ان کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ فلسفۂ یونان کا فن اور ان کے غور و فکر اور بحث و نظر کا میدان نہ تھا، انھوں نےاس دائرہ میں قدم رکھ کر اپنےحدود سے تجاوز کیا ہے، اور اپنی تحقیر و تضحیک کاسامان بہم پہونچایا ہے، وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:

“فلسفہ سے اشتغال کرنے والے فنِ طبعیات میں غور و فکر اور تفصیل سے کام لیتے ہیں اور ان کا امتیاز نظر آتا ہے لیکن الٰہیات میں وہ جاہل محض اور حق سے بالکل ناآشنا معلوم ہوتے ہیں، اس سلسلہ میں ارسطو سے جو کچھ منقول ہے، وہ ہھی بہت تھوڑا اور غلطیاں بہت زیادہ ہیں”۔( معارج الوصول من مجموعۃ الرسائل الکبریٰ ص۱۸۶)

ایک دوسری جگہ طبعیات میں ان کی واقفیت کااعتراف کرتے ہوئے ” الٰہیات” میں ان کی نامرادی و تہی دستی کا ذکر کرتے ہیں:”جہاں تک اللہ تعالٰے کی معرفت کا تعلق ہے اس کے بارے میں فلاسفہ بڑے محروم اور نامراد نظر آتے ہیں، رہے ملائکہ، اللہ کی کتابیں اور اس کے رسول، تو اس کا ان کو قطعاً علم نہیں ہے، اور اس بارے میں ان سے نفیاً اور اثباتاً کوئی چیز منقول نہیں ہے، اس بارے میں درحقیقت متاخرین فلاسفہ نے گفتگو کی ہے، جن کامذاہب و ادیان سے تعلق رہا ہے۔”( سورۃ الاخلاص ص۵۷)

امام ابن تیمیہ کا بیان ہےکہ فلسفۂ یونان کے اصل ارکان و اساطین کو خود بھی اس کا اعتراف ہے کہ ان کو اس علم کے حصول کے ذرائع اور مقدمات و مبادی حاصل نہیں اور اس بارے میں یقین تک پہونچنا ان کے لئے بہت مشکل ہے، وہ لکھتےہیں:-“ان لوگوں نےجو فلسفہ میں ستون کا درجہ رکھتے ہیں، اس بات کو صاف طریقہ سے کہا ہے کہ علومی الٰہیہ میں یقین تک پہونچنے کا کوئی راستہ نہیں، ان مسائل میں جو کچھ کہا جائے گا، اس کی حیثیت زیادہ سے زیادہ یہ ہوگی کہ یہی لگتی ہوئی بات ہے، یا زیادہ مناسب بات ہے، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فلاسفہ کے پاس الّہیات میں ظن و تخمین کے سوا کچھ نہیں اور جیساکہ قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ “ظن و تخمین کبھی حق کا قائم مقام نہیں ہوسکتا”۔( نقض المنطق ص۱۷۸)

٭

یونانی الٰہیات اور پیغمبروں کےعلوم و تعلیمات کا تقابل


ایک جگہ وہ فلسفۂ یونان کے الٰہیات کے بارے میں اقوال و قیاسات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان لوگوں پر تعجب کرتے ہیں، جو انبیاء علیہم السلام کے علوم وحقائق سامنے لاتے ہیں، اور ان سے مقابلہ کرنے لگتے ہیں، وہ بڑے جوش و اثر سے لکھتے ہیں

:”الٰہیات کے بارے میں جب معلم اول ارسطو کے کلام پر نظر ڈالی جاتی ہے، اور ایک پڑھا لکھا آدمی اس کو غور سے دیکھتا ہے تو وہ اضطراراً اس نتیجہ پر پہنچتا ہےکہ ان فلاسفہ یونان سے بڑھ کر رب العالمین کی معرفت سے کوئی بہرہ ور اور نا آشنا نہیں تھا۔ وہ دریائے حیرت میں غرق ہوجاتا ہے، جب دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ یونان کی الٰہیات کا پیغمبروں کے علوم و تعلیمات سے مقابلہ کرنے لگتے ہیں۔

یہ بات ایسی ہی نظر آتی ہے جیسے کوئی لوہاروں کا فرشتوں سے یا گاؤں کے زمینداروں کا شاہان عالم سے مقابلہ کرنے لگے، بلکہ اس میں بھی کسی قدر علم و عدل کا شائبہ ہے، لیکن جو فلاسفہ کا انبیاء سے مقابلہ کرنے لگتے ہیں،وہ تو سخت ظلم و جھل سے کام لیتے ہیں۔ اسلئے کہ گاؤں کا زمیندار بہرحال گاؤں کا منتطم ہے۔ اور اس میں اس کو بادشاہ کے ساتھ کسی نوع کی مشابہت اور کسی جزء کی شرکت ہے۔ لیکن فلاسفہ اور انبیاء کا حال تو یہ ہے کہ انبیاء جو کچھ لےکر آتے ہیں، فلاسفہ کو اس کی مطلق خبر نہیں بلکہ وہ اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ واقعہ یہ ہے کہ کفار یہود و نصاری بھی ان فلاسفہ کے مقابلے میں امور الٰہیہ سے زیادہ باخبر ہیں، میری مراد اس سے وحی کا وہ علم خاص نہیں ہے، جو صرف انبیاء کی خصوصیت ہےاور دوسروں کو نصیب نہیں ہے۔ اسلئے کہ یہ علم تو خارج از بحث ہے۔ میری مراد ان علوم عقلیہ سے ہے، جن کا تعلق اللہ تعالی کی معرفت، توحید، اس کے اسماء و صفات کی معرفت، نبوت و رسالت، معاد اور ان اعمال سے ہے جو آخرت میں سعادت کا موجب ہیں، اور جن میں سے اکثر کو انبیاء علیھم السلام نے براہین عقلیہ سے بیان کیا ہے۔ یہ الٰہی و دینی و شرعی عقلیات بھی وہ ہیں، جن کی ان فلاسفہ کو ہوا بھی نہیں لگی، اور نہ ان کے علوم میں ان کا کوئی پتہ اور نشان ہے۔ باقی وہ علوم و معارف اور حقائق غیبیہ جو انبیاء کے خصائص میں سے ہیں، ان کے ذکر کا اس سلسلے میں موقع ہی نہیں، اور فلسفہ اور علوم نبویہ کے مقابلہ میں وہ بحث میں ہی نہیں آتے (الرد علی المنطقیین ۳۹۵)

علوم الٰہیہ میں فلاسفہ کی بے بضاعتی ان کے علم و بیان کی کوتاہی اور بہت سے غیبی حقائق و موجودات کے انکار کی وجہ امام ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں:

“جس غیب کی انبیاء علیھم السلام خبر دیتے ہیں، اور وہ کلیات عقلیہ جو تمام موجودات پر حاوی اور شامل ہوں اور جو موجودات کی ضحیح تقسیم کرتی ہیں، ان سے فلاسفہ با لکل نا آشنا ہیں۔ اس لئے کہ اس پر اسی کو قدرت ہو سکتی ہے، جو موجودات کی تمام انواع کا احاطہ کرسکے اور ان فلاسفہ کا حال یہ ہے کہ یہ صرف حساب اور اس کے بعض لوازم سے واقف ہیں۔ اور یہ بہت تھوڑے موجودات کی واقفیت ہے۔ اس لئے کہ جن موجودات کا انسانوں کو مشاہدہ نہیں ہے، وہ ان موجودات کے مقابلے میں کہیں زیادہ کثیر اور وسیع ہیں، جن کا ان کو مشاہدہ ہوتا ہے۔ اسی بناء پر جن لوگوں کا علم فلاسفہ کی معلومات تک محدود ہے جب وہ انبیاء، ملائکہ، عرش، کرسی، جنت، جہنم، کا ذکر سنتے ہیں، اور وہ اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ جب موجود وہی ہے جو ان کو معلوم ہے، اور ان کی معلومات کے دائرے سے باہر موجودات کا وجود نہیں، تو وہ حیران رہ جاتے ہیں۔ اور اپنی معلومات کے مطابق انبیاء علیھم السلام کے کلام کی تاویل کرنے لگتے ہیں۔ اگرچہ یہ سرے سے کوئی دلیل نہیں ہے۔

اور ان کو موجودات کے نہ ہونے کا کوئی مثبت علم نہیں، اس لئے کہ کسی چیز کے وجود کا علم نہ ہونا الگ چیز ہے، اور کسی چیز کے معدوم ہونے کا علم ہونا الگ چیز ہے، یہ ضروری نہیں کہ جو ہمیں معلوم نہیں وہ معدوم بھی ہو، وہ جب ان غیبی حقائق کا انکار کرنے لگتے ہیں تو ان کا اندار ایسا ہی ہوتا ہے کہ جیسے کوئی طبیب جنات کے وجود کی اس بناء پر نفی کرے کہ فن طب میں جنات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ حالانکہ فن طب میں جنات کے وجود کا انکار بھی نہیں ہے۔

اسی طرح تم دیکھو گے کہ جس شخص کو کوئی فن آتا ہے، اور اس میں وہ عوام کے مقابلے میں کچھ امتیاز رکھتا ہے، تو وہ اپنی نا واقفیت سے ان چیزوں کی نفی کرنے لگتا ہے، جو اس کے فن سے خارج ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ لوگوں نے چیزوں کے ماننے اور اقرار کرنے میں اتنی ٹھوکر نہیں کھائی، جتنی نہ ماننے میں، اور انکار کرنے میں، جس چیز کی حقیقت سے انسان پورے طور پر واقف نہیں ہے، اس کو جھٹلانے اور اس کے وجود کے انکار کرنے کا رحجان انسانوں میں بہت قدیم اور عام ہے، اللہ تعالٰے فرماتا ہے:-

بَلْ کَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۔ترجمہ:”ان کفار نے ان چیزوں کو جھٹلایا جن کا ان کو پورا علم حاصل نہیں تھا، حالانکہ ابھی تک ان پر ان کی پوری حقیقت منکشف نہیں ہوئی”۔( سورۃیونس – ۳۹)

یونان قدیم کی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ دنیا کو طبعیات و ریاضیات اور علوم و آداب کا یہ وسیع اور عظیم سرمایہ عطا کرنے والا ملک جس نے ہزاروں برس تک دنیا کی عقلی و فکری قیادت کی ہے، اپنی تاریخ کے بیشتر حصہ میں بُت پرست اور ستارہ پرست واقع ہوا تھا اور صدہا توہّمات و خرافات میں گرفتار تھا، جدید تاریخ نے یونان کے علم الاصنام اور اس کے قومی دیومالا کو بےنقاب کردیا ہے، اور اب اس میں کوئی شبہہ نہیں رہا کہ یونان قدیم دیوتاوں، اور دیویوں اور ستاروں کے معبدوں اور ہیاکل کا ایک جال بچھا ہوا تھا، یونان کا جو فلسفہ عالم اسلام میں ترجمہ ہوکر آیا اور پھر اس کے ذریعہ یورپ تک پہونچا وہ اسی صنم پرستی اور ستارہ پرستی کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے، یونانی فلاسفہ نے اپنے مذہبی اعتقادات اور مشرکانہ تصورات کو فلسفہ کی مہیب اصطلاحات میں منتقل کردیا اور مسلمان علمائے فلسفہ نے جو یونان کی مذہبی تاریخ سے واقف نہیں تھے، ان کو علمی حقائق سمجھ کر اپنے غور و فکر کا موضوع بنا لیا، اور ان کو ثابت کرنے کے درپے ہوئے، امام ابنِ تیمیہ کی یہ بڑی ژرف نگاہی اور ذہانت ہے کہ انھوں نے کئی صدی پہلے اس نکتہ کو فاش کیا، وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:”جہاں تک قدمائے یونان کا معاملہ ہے تو واقعہ یہ ہے کہ وہ پکّے مشرک تھے، اور ان کو سحر سے بھی بڑی دلچسپی تھی، وہ ستاروں اور بتوں کی پرستش کرتے تھے، علم ہیئیت اور کواکب کی طرف غیر معمولی توجہ کرنے کا یہی راز ہے، اس لئے کہ وہ ان کی پرستش کرنا چاہتے تھے اور ان کے لئے معبد ہیکل تعمیر کرتےتھے”۔( تفسیرسورۃالاخلاص ص۵۷)

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:”ان کے متقدمین و متاخرین پیشوا شرک کاحکم دیتے ہیں متقدمین کواکب (ستاروں)کو الہہ صغری ( چھوٹےخدا) کے لقب سے یاد کرتے ہیں، اور مختلف طریقوں پر ان کی عبادت کرتے ہیں، مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے ان کی پیروی اختیار کی ان کا بھی حال یہ ہے کہ وہ شرک سے نہیں روکتے، اور توحید کو ضروری قرار نہیں دیتے بلکہ شرک کو یا تو جائز قرار دیتے ہیں، یا کم سے کم توحید کو ضروری قرار نہیں دیتے”۔( نقض المنطق ص۱۷۷)

٭متقدمین و متاخرین فلاسفہ یونان کا فرق

امام ابن تیمیہ کی یہ بھی ایک بڑی باریک بینی اور حقیقت شناسی تھی کہ انھوں نے یونان کے فلاسفۂ متقدمین اور متاخرین میں فرق کیا، ان کے نزدیک فلاسفۂ متقدمین اور ارسطو کے پیشرو غیبی حقائق اور دینی مفاہیم و تصورات سے زیادہ آشنا اور قریب تھے، اور ان کے اندر غیب اور غیر مادی حقائق کے انکار کا وہ رحجان نہیں پایا جاتا، جو ارسطو میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے، وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:-

” یہ فلاسفہ جو ارسطو کے پیرو ہیں، انھوں نے فلاسفۂ متقدمین کی پیروی نہیں کی جو فلسفہ کے ستون و ارکان تھے، وہ فلاسفہ متقدمین میں عالم کےحدوث کے قائل تھے، اور اس کے بھی قائل تھے، کہ اس عالم سے اوپر ایک دوسرا عالم ہے، اور اس عالم علوی کی بعض ایسی صفتیں بیان کرتےتھے، جو حدیث میں جنت کے متعلق آئی ہیں، اسی طرح وہ حشرِ اجساد کے قائل تھے، جیسا کی سقراط و تالیس وغیرہ اساطین فلسفہ کے کلام میں نظر آتاہے”( تفسیر سورۃ الاخلاص ص۶۷)

ان کے نزدیک اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ قدماء فلاسفہ کو ان ملکوں میں آنے جانے کا اتفاق ہوا جہاں انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے تھے، اور اس طرح وہ دینی حقائق سے واقف ہوئے لیکن ارسطو کو اس کا اتفاق نہیں ہوا، وہ بعض مورخین کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں:-

” جن لوگوں نے فلاسفہ کی تاریخ و تذکرہ مرتب کیا ہے، ان کا بیان ہے کہ فلسفہ کے ابتدائی ارکان ( فیثاغورث، سقراط، افلاطون) شام وغیرہ ارض انبیاءکی طرف آمدورفت رکھتے تھے۔ اور لقمان حکیم وغیرہ سے اور حضرت داؤد علیہ السلام،سلیمان علیہ السلام کے اصحاب سے استفادہ کرتے تھے، لیکن ارسطو کو کبھی اس سر زمین کی طرف سفر کرنےکا اتفاق نہیں ہوا، جو انبیاء کی بعثت سے مشرف ہوئی، نہ اس کے پاس انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا کوئی حصہ تھا، جیسا کہ اس کے پیشرووں کے پاس تھا، اس کے پاس ستارہ پرستی کے مذہب کا کچھ حصہ تھا، اس نے ان قیاسی تعلیمات کی بنیاد ڈالی۔اور وہ ایک ایسا قانون بن گیا جس پر اس کے پیرو آنکھ بند کرکے چلتے رہے۔”( نقض المنطق ص۱۱۳)

بد قسمتی سے عالمِ اسلام میں جو فلسفہ رائج اور مقبول ہوا، وہ ارسطو ہی کا فلسفہ تھا، اور وہی آخری دور میں یونان کا فلسفہ سمجھا جانے لگا، امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:-

” یہ فلسفہ جس کی فارابی، ابن سینا، ابن رشد اور سہروردی مقتول وغیرہ پیروی کرتے ہیں، یہ مشائین کا فلسفہ ہے، اور یہ تمام تر ارسطو سے منقول ہے جس کو معلم اول کے نام سے فلاسفہ یاد کرتے ہیں”۔( الرد علی البکری ص۲۰۶ )

ارسطو کے اس فلسفہ میں خدا کی ہستی اور اس کا تصور محض وجود ذہنی بن کر رہ جاتا ہے، وہ لکھتے ہیں:”جب ایک صاحبِ عقل ان کے اقوال پر غور کرتا ہے، جو خدا کی ہستی کے متعلق ہیں تو اس پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس واحد کو ان فلاسفہ نے ثابت کیا ہے اس کے وجود کا تصورصرف ذہن میں ہو سکتا ہے، خارج میں کہیں اس کا وجود نہیں”۔( تفسیر سورۃ الاخلاص ص۳۷)

فلاسفہ نے خدا کے افعال و صفات کی نفی و انکار میں جس مبالغہ سے کام لیا ہے، اور اس کو جس طرح صفاتِ کمالیہ اور ان تمام محاسن اور اختیارات سے مجرد ثابت کیا ہے، جو ادنی مخلوقات میں پائے جاتے ہیں، اس کی بنا پر ان کا خیال ہے کہ اس سے بڑھ کر خدا کی توہین ممکن نہیں، وہ کسی کا قول نقل کرتے ہوئے اس حقیقت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:-

” کسی کا مقولہ ہے کہ فلاسفہ کی توحید سے تو تھپڑ مار دینا ہی بہتر ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس کے کہنے والے نے بھی رعایت سے کام لیا۔”( الرّد علی المنطقیین ص۲۲۱)

ان کے نزدیک فلسفۂ متاخرین جو اسلامی عہد میں پیدا ہوئے، اس فلسفہ یونانی کے لکیر کےفقیر ہیں، اور ارسطو کےمقلّد محض ہیں، اور اسی تقلید کی پابندی کی وجہ سے ان کے یہاں فاش غلطیاں اورسخت تناقض پایا جاتا ہے، ان کو اس بات کی سخت شکایت اور رنج و غصہ ہے کہ ان مسلمان فلاسفہ نے اس نعمت کی بالکل قدر نہ کی جو رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان تک پہونچی تھی، اور اس روشنی و ہدایت سے کچھ فائدہ نہیں اٹھایا جو ان کی دسترس میں تھی، بلکہ انھوں نے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی، وہ لکھتے ہیں:-

“یہ پچھلے دور کے مسلمان فلسفی اہلِ علم و ایمان کے نزدیک جاہل ترین مخلوق نظر آتے ہیں، ان کی گمراہی تضادبیان ایسا کھلا ہوا ہے کہ ذرا ہوشیار بچے بھی اس کو سمجھ سکتے ہیں ۔انھوں نےجب اس بات کو طے کرلیا کہ ان کے پیشرووں اورپیشواوں کے راستے پر چلنا ہےجن کو خود راستہ نہیں ملا تھا، اور ان کے قوانین پر استدلال کی جو عمارت کھڑی ہوتی ہےاسی کو تسلیم کرنا ہے، اور اس روشنی اور ہدایت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا ہے جس نے دلوں اور کانوں کے پردے اٹھادیئے تھے تو اب ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص آفتاب کی روشنی کو پھونک مار کر بجھانا یا اپنے دامن کے نیچے چھپانا چاہے”۔( الرد علی البکری ص۱۱۲)

عہد اسلامی کے جن فلاسفہ نے فلسفہ کی تقلید اور ارسطو کےاتباع میں دینی حقائق اور عقائد کی تشریح کی کوشش کی، اور فلسفہ کی روشنی اور اس کے سہارے سے ان حقیقتوں کو سمجھنا اور سمجھانا چاہا اور جو حکمائے اسلام کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں،، امام ابن تیمیہ ان فلاسفہ پر بھی سخت تنقید کرتے ہیں۔ان کے نزدیک ان غیبی حقائق اور علوم کو فلسفہ یونان کی تنہا مدد اور اس کے اصول و ضوابط سے نہیں سمجھا جاسکتا۔

اس سلسلہ میں ان کی سب سے بڑی تنقید ابن سینا پر ہے، جو اسلامی مشرق میں ارسطو کے فلسفہ کا سب سے بڑا شارح اور ترجمان سمجھا جاتا ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں:-

” ابن سینا نے ثابت کیا ہے کہ منصبِ نبوت بھی نفس کی قوتوں میں سے ایک قوت ہے، اور نفوس کی قوتیں باہم بہت متفاوت ہیں۔ یہ بات ایک ایسا ہی شخص کہہ سکتا ہےجو نبوت کی حقیقت سے محض ناآشنا اور اس سے بعید ہے۔یہ بات ایسی ہےجیسے کوئی شخص صرف شعراء کے طبقوں اور ان کے گروہ سے واقف ہواور وہ یہ ثابت کرنا چاہے کہ دنیا میں فقہاء اور اطباء کا بھی گروہ ہےاور وہ شعراء کے وجود سے فقہاء اور اطباء کے وجود پر دلیل لائے۔بلکہ یہ مثال بھی پوری پوری چسپاں نہیں ہوتی، اس لئے کہ نبی اور غیر نبی میں اس سے بھی زیادہ تفاوت اور بُعد ہے جتنا کہ فقیہ و طبیب اور شاعر کے درمیان ہیں، لیکن یہ فلاسفہ نبوت کے مفہوم سے بالکل آشنا ہیں، جب انبیاء کرام کا چرچا ہوا، تو ان کے متبعین نے اس کو بھی ان فلاسفہ کے اصول سے ثابت کرنا چاہا جن کو نبوت کا کوئی اندازہ اور انبیائے کرام سے کوئی واقفیت نہیں تھی۔”( النبوات ص۲۲)

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:-

“ان گروہوں میں نبوت کے مفہوم و حقیقت سے سب سے زیادہ بعید فلسفہ یونان کے پیرو ( متفلسفہ) اور باطنیہ و ملاحدہ ہیں، ان کے نزدیک نبوت کی بنیاد وہ قدر مشترک ہے جو تمام انسانوں کے درمیان پایا جاتا ہے، اور وہ خواب ہے۔حقیقتہً ارسطو اور اس کے متبعین کے یہاں نبوت پر کوئی بحث نہیں ملتی، فارابی نے نبوت کو محض خواب کی ایک قسم قرار دیا ہے، اس لئے وہ اور اس کے ہم خیال فلسفی کو نبی پر ترجیح دیتے ہیں، ابنِ سینا کے نزدیک نبوت کا پایہ اس سے کچھ بلند ہے، اس نے نبی کو تین خصوصیتیں قرار دی ہیں، ایک یہ کہ اس کو علم بغیر تعلّم کے حاصل ہوتا ہےاس کا نام اس کے نزدیک قوت قدسیہ ہے، اور اس کی حقیقت اس کے نزدیک وہی ہےجو قوتِ حدسیہ کی ہے، دوسرے یہ ہے کہ نفس میں کسی معلوم چیز کا تخیل قائم کرتا ہےاور اس کو اپنے اندرون میں کچھ نورانی صورتیں نظر آنے لگتی ہیں اور وہ اپنے باطن میں کچھ آوازیں سننے لگتا ہےجیسے کوئی سونے والا نیند کی حالت میں کچھ صورتیں دیکھتا ہےجو اس سے ہم کلام ہوتی ہیں اور ان کا کلام سنتا ہےاور اس سب کا وجود صرف اس کے اندر ہوتا ہےخارج میں کوئی وجود نہیں ۔اس طرح ان سب لوگوں کے نزدیک ایک نبی جو کچھ سنتا ہے اور جو کچھ دیکھتا ہےاور لوگ اس کے دید و شنید میں اس کے شریک نہیں ہوتے، یہ سب اس کے اندرون میں پیش آتا ہے اور اس کے باطنی مشاہدات موجدات ہیں جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں۔ یہی بات ایسے شخص کو پیش آسکتی ہےجس کے دماغ پر کوئی اثر ہویا صفرا و سودا کا غلبہ ہو۔ان کے نزدیک نبی کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کو ایک ایسی قوت حاصل ہوتی ہے جس کے ذریعہ سے وہ عالم کے ہیولٰی میں تصرف کرتا ہےاور غریب امور اور حوادث ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک یہی انبیاء کے معجزات ہیں، اس لئے کہ ان کےنزدیک عالم میں جو حادثہ بھی پیش آتا ہے، وہ قوتِ نفسانیہ یا قوتِ ملکیہ یا قوتِ طبعیہ کا نتیجہ ہوتا ہے۔

ان متفلسفہ کے نزدیک انبیاء کے نفوس میں جو کچھ بھی واقع ہوتا ہے، وہ سب عقل فعال کا فیضان ہے۔ پھر جب انھوں نے انبیاء علیہم السلام کا کلام سنا تو انھوں نے ان کے اور اپنے اقوال کے درمیان جمع و تطبیق کی کوشش کی، اس لئے وہ یہ کرتے تھے کہ الفاظ تو انبیاء علیہم السلام کے لیتے تھے، اور اس کی تشریح اپنے اصول کے مطابق کرتے تھے، اور اپنے مفہوم و معانی کو انبیاء علیہم السلام کے الفاظ میں ادا کرتے تھے، اس طرح وہ بحث کرتے ہیں اور انبیاء علیہم السلام سے حاصل کئے ہوئے الفاظ اور اصطلاحات میں کتابیں تصنیف کرتے ہیں ۔جس شخص کو اس کی خبر نہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی مراد کیا ہے اور ان فلاسفہ کی مراد کیا ہے اور دونوں کے مفہوم میں کتنا بڑا فرق ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان فلاسفہ کی مراد وہی ہے، جو انبیاء علیہم السلام کی تھی۔ اس طرح بہت سے گروہ اور جماعتیں گمراہ ہوئیں، ابن سینا اور اس کے متبعین کے کلام میں یہ بات صاف نظر آئے گی۔”( النبوات ص۱۶۸)

٭

منطق یونانی کا سحر اور رعب عالم اسلام پر


امام ابن تیمیہ نے فلسفہ الہیات پر اجمالی و تفصیلی تنقید کرنے اور اس کے بکثرت مسائل و مباحث کو خالص عقلی و استدلالی طریقہ پر رد کرنے اور ان کو کمزور و بے بنیاد ثابت کرنے کے بعد یونان کے مایہ ناز علم منطق پر بھی ناقدانہ نظر ڈالی ہے، علمائے اسلام پر منطق کا سحر فلسفہ سے کچھ زائد ہی غالب تھا اور اس کے سرتاپا معقول و مدلل اور محکم مبرہن ہونے پر عام طور پر اتفاق تھا۔ ساعد قرطبی کے بیان کے مطابق تیسری ہی صدی میں منطق کی کتابوں کا عام رواج ہوگیا تھا، پانچویں صدی میں امام غزالی رحمۃاللہ علیہ نے بھی منطق کو بڑی اہمیت دی اور اس کو تمام علوم کا مقدمہ قرار دیا، اپنی معرکہ الاراء کتاب ” المستصفی” کے مقدمہ میں لکھتے ہیں ” منطق تمام علوم کا مقدمہ ہے، اور جس کو اس پر عبورنہیں، اس کو اپنے علوم پر مطلقاً اعتبار نہیں کرنا چاہئے”۔ (المستصفہ حصہ اول ص۱۰) اپنی دوسری کتاب ( مقاصد الفلاسفہ) میں لکھتے ہیں:-

“جہاں تک منطقی مسائل و مباحث کا تعلق ہے تو واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر درست اور ثابت ہیں، اور ان میں غلطی شاذ و نادر ہے، اگر ان یونانی علمائے منطق کا اہلِ حق سے کوئی اختلاف بھی ہے تو محض اصطلاحات اور اعتراضات کا ہے، معانی اور مقاصد کا نہیں، اس لئے کہ اس فن کی غرض طرقِ استدلال کی درستگی اور اصلاح ہے، اور اس بارے میں تمام اہلِ نظر متفق ہیں۔( مقاصد الفلاسفہ ص۳ )

ساتویں صدی کے مشہور حکیم و فلسفی ابن رشد کو منطق کےبارے میں اتنا غلو اور اعتماد تھا کہ وہ اس کو انسانی سعادت کا سرچشمہ اور معیار سمجھتا تھا، اور اس کے بغیر حقیقت تک پہنچنا اس کے نزدیک ناممکن تھا، اس کا سوانح نگار لکھتا ہے:- “ابنِ رشد کو ارسطو کی منطق سے عشق تھا۔ اس کے بارے میں اس کا قول ہے کہ وہ انسانوں کےلئے سعادت کا منبع ہے، کسی انسان کی سعادت کے لئے صحیح پیمانہ یہ ہے کہ وہ منطق کتنی جانتا ہے۔ منطق ایک ایسا آلہ اور ذریعہ ہے، جو اس حقیقت تک پہونچنے کا راستہ آسان کر دیتا ہے، جس تک عوام تو کیا بعض خواص بھی نہیں پہنچ سکتے۔( تاریخ فلاسفہ اسلام محمد لطفی جمعہ ص۱۲۰-۱۲۱)

یونان کی اس منطق کے دفتر کو علمائے اسلام نے ہمیشہ ادب اور احترام کے ہاتھوں سے لیا اور وہ اس کے دعاوی و مقدمات اور اصول و کلیات سے مرعوب رہے، فلسفہ پر تنقید اور اس کی تشریح (چیربھاڑ) کا کام تو طول طویل وقفوں کے بعد کسی حد تک ہوا لیکن ہمارے علم میں کسی نے مستقل طور پر منطق یونانی کے علمی محاسبے و محاکمے کی ضرورت نہیں سمجھی، اور اس موضوع ہر کوئی بڑی محققانہ اور مفصل کتاب نہیں ملتی۔

ابن تیمیہ پہلے شخص ہیں،جنھوں نے اس کو مستقل موضوع بنایا اور اس پر آزادانہ اور مجتہدانہ تبصرہ اور تنقید کی، اس موضوع پر ان کی ایک مختصر اور مجمل کتاب ” نقض المنطق” اور دوسری مفصل کتاب ” الرّد علی المنطقیین” ہے ، آخر الذکر کتاب میں انھوں نے فنّی اور علمی طور پر منطق کے قضایا، دعاوی اور حدود و تعریفات اور جزئیات و کلیات سے بحث کی ہے۔( یہ کتاب حال ہی میں مطبعہ قمّیہ کی طرف سے شائع ہو گئی ہے، جس پر مولانا سید سلیمان ندوی رحمتۃ اللہ علیہ کا مقدمہ ہے، اس کتاب کی ضخامت ۵۴۵ صفحات ہے، علمائے فن کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے)۱ور ثابت کیا ہے کہ اس فن کو علمائے اسلام نے جتنی اہمیت دی ہے اور اس کو جس قدر مسلَّم الثبوت اور محکم سمجھا ہے، وہ صحیح نہیں ہے، ان کو اس بات سے انکار ہے کہ وہ علومِ عقلیہ کی میزان ہے اور اس پر استدلال و استنتاج کا اور علم یقین تک پہونچنے کا انحصار ہے، وہ لکھتے ہیں:-

” یہ لوگ کہتے ہیں کہ منطق علوم عقلیہ کی میزان ہے اور اس کی رعایت و پابندی ذہن کو فکری غلطی سے بچا لیتی ہے جیسے فنِ عروض شعر کے لئے، نحو و تصریف عربی کے مرکب مفرد الفاظ کے لئے میزان کا درجہ رکھتے ہیں، اور جس طرح آلات ہیئیت اوقات کے لئے میزان ہیں۔لیکن واقعہ یہ نہیں ہےاس لئے کہ عقلی علوم ان اسباب ادراک کے ذریعہ سےحاصل کئے جاسکتے ہیں جو اللہ تعالٰے نے بنی آدم کی فطرت میں ودیعت کئے ہیں ان کا کسی شخص معین کے وضع کئے ہوئے میزان پر انحصار نہیں اور جس طرح عربیت میں تقلید کے بغیر چارہ نہیں اس لئے کہ وہ ایک قوم کی عادت ہےجو صرف سماع سے معلوم کی جاسکتی ہے اور اس کے قوانین کا زریعۂ علم صرف استقراء ہے اس طرح عقلیات میں تقلید نہیں چلتی اسی طرح سے کیل، وزن، عدد و شمار، اور زراعت وغیرہ میں پیمانوں وغیرہ کی ضرورت ہے۔منطقِ یونانی کی وضع و ایجاد سے پہلے بھی دنیا کی قومیں حقائق اشیاء کو جانتی تھیں اور تمام دنیا کی قوموں کے اکثر عقلاء ارسطو کے ان اصول و قواعد کو سیکھے بغیر حقائق کو سمجھتے ہیں، اور یہ لوگ بھی اپنی حالت پر غور کریں گے تو ان کو محسوس ہو گا کہ ان کے نفوس کو اس وضعی فن کے بغیر حقائق کا علم حاصل ہوتا ہے۔”( الرد علی المنطقیین ص۲۷-۲۸)

ان کو اس سے بھی انکار ہے کہ منطقی حدود و تعریفات پورے طور پر جامع و مانع اور فنی طور پر مکمل ہیں، اور ان پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں، وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:-

“اہلِ منطق حدود منطقیہ کی اہمیت میں بڑا مبالغہ کرنے لگے، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اس فن کے محقق ہیں اور یہ کہ ان کے علاوہ دوسرے علماء جو حُدود بیان کرتے ہیں وہ لفظی ہوتی ہیں اور ماہیت اور حقیقت کو پورے طور پر بیان نہیں کرتیں، بخلاف ان کے حدود کے اور اہل منطق بڑے دشوار اور طویل راستے اختیار کرتے ہیں اور بڑی مشکل اور مرعوب کرنے والی عبارتیں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن واقع یہ ہے کہ سوائے اضاعت وقت، دماغی تکان، کثرت ہذیان اور تحقیق کے دعویٰ اور لاف زنی کے اس کا کوئی فائدہ نہیں، یہ نفوس کو ایسی چیزوں میں مشغول کرتے ہیں جو کچھ مفید نہیں، بلکہ بعض اوقات گمراہی اور جہالت آفرینی کے سوا جو قلوب کےنفاق کا ذریعہ ہےکچھ اور حاصل نہیں اگرچہ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ معرفت اور تحقیق کی بنیاد ہے۔( الرد علی المنطیقین ص۳۱)

ایک جگہ وہ ثابت کرتے ہیں کہ منطق در حقیقت ایک ” کوہ کندن اور کاہ برآودن کا سا عمل ہے کہ محنت اور بحث بہت زیادہ اور حاصل محصول بہت کم، نقض المنطق” میں فرماتے ہیں:-

“یہ بات واضح ہے کہ منطق کو واجب قرار دینا محض ان لوگوں کا قول ہےجو غالی اور حقیقت سے ناآشنا ہیں، خود ماہرین فن بھی اپنے تمام علوم میں منطق کے قوانین کی پابندی نہیں کرتے، بلکہ بعض اوقات کبھی تو ان کی طوالت کی وجہ کبھی غیر مفید ہونے کی بناء پر اور کبھی بعض قوانین کے فاسد ہونے کی وجہ سے اور کبھی ان کےاجمال اور اشتباہ کی وجہ سے وہ ان سے خود اعراض کرتے ہیں، اس میں متعدد ایسے مقامات ہیں، جو کوہ کندن اور کاہ برآوردن کا مصداق ہیں”( نقض المنطق ص۱۵۵)

ان کےنزدیک منطق سےاکثر اوقات یہ نقصان بھی پہنچا ہےکہ طبعیت کی جولانی اور زبان و خیالات کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ چنانچہ جو لوگ قواعدِ منطقیہ اور منطقی اسلوب کی بڑی پابندی کرتے ہیں ان میں ژولیدہ بیانی، مشکل پسندی و اغلاق اور ایک طرح کی ذہنی کجی پیدا ہو جاتی ہے، چنانچہ متاخرین کے متون اور پچھلے دور کی نصابی کتابیں اس کا واضح نمونہ ہیں، امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:-

“مسلمان اہلِ نظر و مناظرہ شروع سےاہلِ منطق پرکڑی تنقید کرتے رہے کہ اس سے اشتغال کرنے والوں میں اکثر یہ عیب پیدا ہوجاتا ہے کہ بے تکلف اظہارِ خیال نہیں کرسکتے، ان کی زبان و قلم میں ایک طرح کی بندش اور رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے، ذہن اپنا پورا کام نہیں کرتا اور زبان ساتھ نہیں دیتی، اور وہ اس بات کو واضح کرتے رہے کہ بجائے ذہن اور زبان کی ترقی اور تقویت کے اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ ذہن اور زبان کو اس نے نقصان پہنچایا ہے”۔( الرد علی المنطیقین ص۱۹۴)

دوسری جگہ لکھتے ہیں:-

“قاعدہ یہ ہے کہ جب عقول وتصورات میں وسعت ہوتی ہے تو عبارتوں میں بھی وسعت ہوتی ہے،اور جب دماغ تنگ اور تصورات محدود ہوتے ہیں تو انسان ایسا معلوم ہوتا ہے گویا وہ عقلی اور لسانی طور پر محبوس ہے جیسے کہ منطق یونانی سے اشتغال کرنے والوں کو اکثر پیش آتا ہے،تم دیکھو گے کہ وہ اپنے علم و بیان میں بڑے تنگ دامن اور اپنے تصوّر و تعبیر میں بڑے عاجز نظر آتے ہیں، اسی لئے ان میں سے جو ذکی بھی معلوم ہوتا ہے جب علوم میں تصرف کرتا ہےاور اہلِ منطق کا راستہ اختیار کرتا ہے تو تطویل و تضیق اور تکلف و مشقت سے کام لیتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اس کا کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ ایک معلوم چیز کو بیان اور ایک واضح چیز کو زیادہ واضح کردےاور اس کا نتیجہ ہے کہ منطق کے اشتغال سے اس کے ذہن و زبان پر قفل سے پڑ گئے ہیں بعض اوقات وہ سفسطہ اور حقائق اشیاء کے انکار کےمرض میں مبتلا ہو جاتا ہے، جس سے وہ لوگ محفوظ ہیں جنھوں نےان اہلِ منطق کا راستہ اختیار نہیں کیا ہے۔( الرد علی المنطیقین ص۱۶۷)

٭بعض مستثنیات


امام ابن تیمیہ کے سامنے بعض ایسے اشخاص بھی ہیں جو یونانی علم وحکمت میں انہماک رکھنے اور ان علوم میں درجہ امامت تک پہونچنے کے باوجود بڑے شگفتہ قلم، خوش تحریر اور ادیب تھےمثلاً اب سینا جس کا قصیدہ روحِ عربیت کا بڑا عمدہ تمونہ اور جس کی تحریروں میں اہلِ حکمت کے برخلاف حلاوت و بلاغت پائی جاتی ہے، ان کےنزدیک یہ اسلامی اور عربی ادب و لٹریچر سے اشتغال اور علوم اسلامیہ کا فیض ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ابن سینا کےحالات و سوانح سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، وہ لکھتے ہیں:-

“ان فلاسفہ و اہلِ منطق میں سے جس شخص کے کلام میں کچھ فصاحت یا بلاغت محسوس ہوتی ہے، جیسے کہ ابن سینا کی بعض تحریروں میں نظر آتی ہے تو یہ مسلمانوں کے عقول و آداب سےفائدہ اٹھانے کا نتیجہ ہے، ورنہ اگر وہ اپنے پیشرووں کے راستہ پر چلتا رہتا، اور اس نے مسلمانوں سے جو علوم حاصل کئے ہیں، ان سے اعراض کرتا تو اس کی عقل و زبان بھی ان ہی کے عقل و زبان کی طرح کوتاہ اور قاصر نظر آتی”۔( الرد علی المنطیقین ص۱۹۹)

٭منطق کے متعلق اجمالی رائے


ان تنقیدات اور تبصروں کے بعد اس فن کے متعلق ان کی اجمالی رائے خود ان کے الفاظ میں یہ ہے: “منطق کا جتنا حصہ درست اور مفید ہے وہ تو فطری ہے جس کی ( ایک سلیم الفطرت کو) ضرورت نہیں، اور جتنے حصے کی ضرورت ہے اس کا بھی فائدہ صرف اتنا ہے کہ اہلِ فن کی اصطلاحات،ان کا طریقہ استدلال یا ان کی غلطیاں معلوم ہو جاتی ہیں”۔(الرد علی المنطقیین ص۲۰۱)

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:- “میرا ہمیشہ سے یہ خیال تھا کہ جس شخص کو اللہ تعالٰے نے فطری ذکاوت عطا فرمائی ہےاس کو تو اس یونانی منطق کی ضرورت نہیں، اور جو اس ذکاوت سے محروم ہے اس کو اس منطق سے کوئی بڑا فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔( ایضاًص۳)

منطق یونانی کے بارے میں امام ابن تیمیہ کے ان آراء و خیالات میں خواہ کسی قدر انتہا پسندی اور غلو کا رنگ نظر آئے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ منطق کی عظمت و تقدیس کےاس طلسم پرجو تمام عالمِ اسلام پر پانچویں صدی کے بعد سے چھایا رہا ہے، ابنِ تیمیہ کی تنقیدوں سے ایک ضرب لگی اور ایسا ہونا ضروری تھا۔ اس کے بارےمیں ہمارے درسی اور علمی حلقوں میں جس قدر غالیانہ اور مبالغہ آمیز عقیدت قائم رہی ہے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جو منطق سے نا آشنا ہو، اس کو اس کے تمام علوم و کمالات اور فطری ذکاوت کے باوجود جاہل اور احمق سمجھا جاتا رہا ہے اور عرصہ تک ہندوستان میں منطق و فلسفہ کو “دانشمندی” اور ان کتابوں کو “کتب دانشمندی” کے نام سے یاد کیا جاتا رہا ہے، اس غلو اور عقیدت کے خلاف ردّ عمل بھی قدرتی امر ہے اور اسی ردّ عمل سے اس بات کا امکان ہے کہ اس کے بارے میں معتدل رائے قائم کی جائے گی اور اس کو اس کا صحیح مقام دیا جائے گا۔ منطق ایک طرح کی ذہنی ورزش اور دماغی ریاضیت ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سے تشحیذ ذہن کا کام لیا جا سکتا ہے اور اگر اس کو اسی حد تک رکھا جائے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔خود امام ابن تیمیہ کو اس کا اعتراف ہے، “الردّ علی المنطقیین” میں ایک جگہ لکھتے ہیں:-

“یہ بات بھی ہے علوم دقیقہ میں غور و مطالعہ سے ذہن کھلتا ہے اور اس کی مشق ہوتی ہےاور علم کی طاقت حاصل ہوتی ہے بالکل جس طرح سے تیر اندازی اور شہسواری کی مشق سے نشانہ ٹھیک ہوتا ہےاور گھوڑے کی سواری آسان ہو جاتی ہے اور لوگ جنگ سے پہلے بھی ان چیزوں کی مشق کرتے ہیں یہ ایک اچھا مقصد ہے۔ لیکن لوگوں نےجس طرح اس کو بجائے وسیلہ کے مقصود، اور بجائے مقدمہ کے اصل علم سمجھ لیا ہے،اس سے ہر منصف اور بالغ نظر کو اختلاف ہوگا۔(الرد علٰی المنطقیین ص۲۵۵)

ابن تیمیہ ؒ کی منطق پر تفصیلی و فنی تنقید اور اجتہادات و اضافات


منطق و فلسفہ کے بارے میں ایک غلو شروع سے یہ چلا آرہا ہے کہ جس طرح اس قواعد واصول کو علوم عقلیہ میں فیصلہ کن اور حکم سمجھا جاتا ہے،اس طرح دینی والہٰی، حقائق کےبارے میں بھی ان سے بے تکلف کام لیا جاتا ہے،اور ان کے فیصلہ کو تسلیم کیا جاتا ہے، امام ابن تیمیہ اس بات کو پوری طاقت سے واضح کرتے ہیں کہ اگر منطق کو ایک میزان و ترازو کا بھی درجہ دیا جائے تو اس ترازو کا کام اور اس کادائرۃ عمل بہر حال محدود رہے گا۔اس ترازو پر حقائقِ دینیہ کو تولنا ایسا ہی ہے جیسے لکڑی، سیسہ اور پتھر تولنے کی ترازو پر سونے چاندی اور جواہرات کو تولا جائے . نویں صدی کے ایک دوسرے سلیم الطبع اور نقاد عالم ابن خلدون کا ایک اقتباس بھی پیش کر دیا جائےجو بالکل اس مفہوم و معنی کو ادا کرتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں مختلف اور متعددسلیم الطبع انسان محض اپنی سلامتِ طبع سے کس طرح ایک حقیقت تک پہونچ جاتےہیں اور ان میں خیالات و افکار کا کیسا توراد ہوتا ہے، عقل کے محدود ہونے اورحقائق دینیہ و غیبیہ کا احاطہ کرنے سے قاصر ہونے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

” عقل ایک صحیح ترازو ہے اس کےفیصلے یقینی ہیں جن میں کوئی جھوٹ نہیں لیکن تم اس ترازو میں امور توحید، امورآخرت، نبوت، صفاتِ الہٰی اور وہ تمام امور و حقائق جو ماوراء عقل ہیں تول نہیں سکتے یہ لاحاصل کوشش ہوگی۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے ایک ترازو دیکھی جو سونے کا وزن کرنے کے لئے ہے اس کو اس ترازو میں پہاڑوں کے تولنے کا شوق پیدا ہوا، جو ناممکن ہے۔اس سے ترازو کی صحت پر کوئی حرف نہیں آتا لیکن اس کی گنجائش کی ایک حد ہے، اس طرح عقل کےعمل کا بھی ایک دائرہ ہے جس سے باہر وہ قدم نہیں نکال سکتی، وہ اللہ اور اس کےصفات کااحاطہ نہیں کرسکتی اس لئے کہ وہ اس کے وجود کا ایک ذرہ ہے۔” (مقدمہ ابن خلدون ص۴۷۳)

امام ابنِ تیمیہ نےفن منطق پرمحض اجمالی تبصرہ اور اصولی اعتراضات پر اکتفا نہیں کی، بلکہ پورے فن پر ایک ناقدانہ اور مجتہدانہ نظرڈالی اور اس کا علمی احتساب کیا۔انھوں نے اس کے بہت سے اصول و مسلّمات کےتسلیم کرنے سے انکار کیا اور ان پر خالص عقلی اور فنی حیثیت سے بحث کی، اس کی بہت سی تعریفات و حدود کو مخدوش و کمزور ثابت کیا، اور ان سے بہتر تعریفات و حدود پیش کئے۔ اس کے بہت سے قضایا اور ان کی ترتیب سے اختلاف کیا، قیاس کے مقابلہ میں جو ارسطو کے منطق کی اساس ہے استقراء کی ترجیح ثابت کی اور اس کو حصولِ علم و یقین کا زیادہ طبعی سہل اور محفوظ طریقہ بتلایا، اسی کے ساتھ انھوں نےمنطق و فلسفہ میں کئی جدید نظریات پیش کئے اور فن میں اضافے کئے۔ مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم ” الرد علی المنطقیین” کے مقدمہ میں ان کی اس خدمت و عظمت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-

” اگر تم اس کتاب کا غور و فکر سے مطالعہ کرو گے تو تم کو متعدد ایسے منطقی اور فلسفی مسائل ملیں گے جن کے ابن تیمیہ موجد ہیں اور وہ اس وقت کے مغربی فلاسفہ کی تصنیفات و نظریات سے بالکل مطابقت رکھتے ہیں، مثلاً تمام مسلمان علمائے منطق نے اس بارے میں ارسطو کی پیروی کی ہے کہ کلیات علم کی بنیاد ہیں اور اس بناء پر انھوں نے برہانیات کو ترجیح دی ہے اور اصول استقراء کی تحقیر کی ہے، اس بناء پر بعض علمائے فرنگ نے یہاں تک لکھا کہ مشہور انگریز منطقی عالم مل (MILL) پہلا شخص ہے جس نے استقراء کے اصول کو مرتب کیا اور منطق جدید کی بنیاد رکھی ( حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اس سے کئی صدی پہلے امام ابن تیمیہ اس پر زور دے چکے ہیں۔ اسی طرح انھوں نےحقیقتِ حد، جنس، فصل، لزوم، حقیقت، علت، قیاس، استقراء، استدلال بالمشہورات، قیاس میں ایک مقدمہ پر اکتفا وغیرہ جیسے اہم اور پیچیدہ مباحث کو جس طرح حل کیا ہے اور محکم دلائل سے اپنےنظریات ثابت کئے ہیں، وہ ان کی ذکاوت و اجتہاد پر گواہ ہے، علت و لزوم کے بارہ انھوں نےجو کچھ کہا ہے، بعینہ وہی نظریہ ہے جس کو مشہور فلسفی ہیوم(HUME) نے اپنی کتابوں میں ثابت کیا ہے کہ لزوم و علّیت ان دشوار ترین مسائل میں سے ہے جن میں دماغوں نے بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں اور اسی سے طبائعین ( نیچر کو ماننے والے) اور ملحدین کی بہت سی گمراہیاں نکلی ہیں، اس کتاب میں امام ابن تیمیہ کہ بہت سی جدید تحقیقات اور جدید نظریات ہیں، جو ان کی علمی عظمت اور غیر معمولی ذکاوت کی دلیل ہے۔”( مقدمہ الرد علی المنطقیین ص ق)

٭علومِ عقلیہ میں تقلید درست نہیں ہے


امام ابنِ تیمیہ کو اس بات کا احساس ہے کہ لوگ ان کےان اعتراضات اور اختلافات کو دیکھ کر یہ کہیں گے کہ یونانی علوم ایک بڑا قدیم علمی ذخیرہ ہے جس کی ترقی و تہذیب میں کئی نسلوں کے بہترین دماغوں نے حصہ لیا ہے اور ان کو ترقی و کمال کے اعلٰی مقام تک پہونچا دیا ہے اس لئےاب ان میں غلطی کا بہت کم احتمال رہ گیا ہے اور ان پر پچھلے دور کے کسی ناقد کا تنقید اور اعتراض کرنا ایک بڑی علمی جسارت اور اضاعت وقت ہے۔، امام ابن تیمیہ اس مقدمہ کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ جب یہ علوم محض عقلی ہیں اور ان کی بنیاد غور و فکر اور مطالعہ پر ہے تو ان میں محض تقلید کا کیا جواز ہے؟خود اس کے ناقل اس کو کسی وحی و الہام پر مبنی نہیں بتاتے بلکہ اس کی بنیاد عقل پر رکھتے ہیں اس لئے ہر زمانہ کے اہل عقل کو یہ حق ہے کہ ان پر ناقدانہ نظر ڈالے اور عقل کے ترازو پر تولے اور جو چیز خلافِ عقل ہو اس کو بے تکلف رد کردے، وہ ” الرد علی المنطقیین” میں ایک جگہ بعض شیوخِ منطق کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ” یہ علوم وہ ہیں جن کو ہزار برس تک بہترین دماغوں نے صیقل کیا ہے اور ہر زمانہ کے اہل فضل نے قبول کیا ہے، پھر اس کا جواب دیتے ہیں”:-

“فرض کرو کہ بات یوں ہی ہے لیکن یہ علوم تو خالص عقلی علوم ہیں جن میں کسی کی تقلید کی ضرورت نہیں ۔یہ تو مجرد عقل سے معلوم کئے جاتے ہیں اور اس لئے نقل کے ذریعہ ان کی تصحیح درست نہیں اور ان میں خالص معقولات کی بناء پر کلام کیا جاتا ہے ۔تو جب معقول صریح ان میں سےکسی باطل کے بطلان پر دلالت کرے تو اس کا مسترد کرنا جائز نہیں اس لئے کہ خّود علمائے منطق نے یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ وہ کسی ایسی ہستی یا ذریعہ سے ماخوذ ہے جس کی تصدیق واجب ہے۔وہ خود کہتے ہیں کہ ان کا تعلق عقل محض سے ہے اس لئے ان کے بارے میں عقل صریح کے موجبات ہی کی طرف رجوع کرنا صحیح اور اس کے فیصلہ کو قبول کرنا ضروری ہوگا۔(الرد علی المنطقیین ص۲۰۸)

واقعہ بھی یہی ہے کہ معقول کو ہمیشہ معقول ہی رہنا چاہئے منقول نہیں بننا چاہئے لیکن عالمِ اسلام پر جب علمی و فکری زوال طاری ہو ااور دماغوں اور قوتِ فکریہ نے اپنا کام آزادی سے کرنا چھوڑ دیا تو تمام علمائے حکمت و فلسفہ بھی اپنے پیشرووں کی لکیر کے فقیر بن گئے اور ان کی تحقیقات و تصنیفات کے ناقل و شارح بن کر رہ گئے اور معقولات اور منقولات میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔متاخرین کی بڑی سے بڑی پرواز یہ تھی کہ وہ متقدمین کے کلام کی شرح کر دیں اوران کےمطالب کو کم سےکم الفاظ میں اداکریں، یہی مشرق کا وہ دور انحطاط ہے، جب علم و حکمت میں اضافہ، تجدید، اجتہاد اور “تخلیقی” کام کا دروازہ بالکل بند ہو گیا، یورپ میں ( جس نے یونان کے منطق و فلسفہ کو مسلمانوں کے واسطے حاصل کیا تھا اور حکمائے یونان کے افکار و فلسفہ کو ابن سینا اور ابن رشد کے ذریعہ سمجھا تھا) کچھ عرصہ تک اس علمی میراث پر قناعت کرنے کے بعد فکر و نظر اور تحقیق و تجربہ کا کام آزادانہ طریقہ پر شروع ہوا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یونانیوں کی منطق و فلسفہ کی بساط الٹ گئی، قیاس کے بجائے استقراء پر منطق کی بنیاد رکھی گئی، مابعد الطبعیات اور الہٰیات کے بجائے جن کا عملی اور علمی زندگی میں کچھ حاصل نہ تھا’ طبعیات پر زور دیا گیا اور اس فکری انقلاب نے نہ صرف یورپ کی دنیا کو بلکہ سارے عالمِ انسانی کو متاثر کیا، اس کے برخلاف ہمارے قدیم علمی و مدرسی حلقوں میں یونانی علوم اور ان کے مشرقی شارحین اور پھر آخر میں ایرانی مصنّفین کی کتابوں اور شرح و حوشی کو اس مضبوطی سے پکڑا گیا کہ وہ العروۃ الوثقیٰ اور فکر و نظر کا سدرۃ المنتہیٰ ہیں، اس عقلی جمود و تقلید کے دشت بے نشان میں امام ابن تیمیہ کا یہ مجتہدانہ کارنامہ اور فلسفہ و منطقِ یونانی کی علمی تنقید و محاسبہ ایک سنگِ میل اور چراغِ راہ کی حیثیت رکھتاہے، اور نئے اجتہاد و تفکر کا دروازہ کھولتا ہے۔

استفادہ کتاب تاریخ دعوت و عزیمت مولانا ابوالحسن علی ندوی