اپنے سابقہ مضمون”غزالی رح اور ابنِ رشد کا قضیہ” میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ امام غزالی رح نے ایسا کچھ نہیں لکھا جس سے انہیں علم،عقل اور سائنس وفلسفہ کی کاوشوں کامنکر قراردیاجاسکے،بلکہ اس کے برعکس ان کے ہاں متواتر ایسی عبارات ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود ان لوگوں کے سخت مخالف ہیں جو اسلام کو فلسفہ وسائنس اور عقلی علوم کے تمام اجزاء اور شعبوں کا مخالف کہتے ہیں۔ہم نے ایسی کئی عبارات وہاں نقل کی ہیں جن سے قاری بخوبی اندازہ کرسکتا ہے کہ اما م غزالی رح کو تمدن دشمن قراردینا،عقلی علوم کی تمام تر انسانی روایت کا مخالف باور کروانا یا مذہب اور سائنس کی ہم آہنگی کےخلاف سمجھنا،محض ان کے مخالفین کا خیالی پلاؤ ہےاور غزالی رح پر تو ایسا الزام خود ان کے حریف ابنِ رشد نے بھی عائد نہیں کیا تھا۔
ہم اپنے محولہ بالامضمون میں غزالی رح کی طرف منسوب مسخ شدہ موقف کی اصل حقیقت آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ غزالی رح اور ابنِ رشد کے اصل متعلقات پربھی خود انکی اپنی عبارات کی روشنی میں ایک محاکمانہ نظر ڈال چکےہیں جس سے نہ صرف قضیہ کی اصل صورتِ حال سامنے آتی ہے،بلکہ یہ بھی کہ ابنِ رشد ،غزالی رح کے ساتھ اپنی آویزش کے ساتھ کتنی سادہ پوزیشن پر کھڑے ہیں،اور کس طرح انہوں نے غزالی رح کا جواب لکھ کر غزالی رح ہی کے مقدمہ کو مضبوط کیا ہے۔غزالی رح کے موقف اور منہج کی علمی ومتونی تحقیق کا فریضہ ہم نے اس مضمون میں انجام دیاتھا اور یہاں ہمیں غزالی رح کے حوالے سے ترقی پسندوں کے واویلے کے کچھ تاریخی پہلوؤں پر روشنی ڈالنی ہے۔
لبرلز کی زبان پر جب غزالی رح اور ابنِ رشد کا تقابلی تذکرہ آتا ہے تو غزالی کا نا م اسلامیت کاحوالہ بن کر اور ابنِ رشد کا نام دینی انحراف کا حوالہ بن کر سامنے آتا ہے۔ ابنِ رشد کے نام کو کسی نے نہیں،خود ان کے شیدائیوں نے اباحیت اور دینی انحراف کا استعارہ بنا دیا ہے۔ اس کی ایک معمولی سی مثال عالمِ عرب میں جدیدیت کو فروغ دینے کے لئے سرگرم مؤسسۃ ابن الرشد للفکر الحر ( من اجل الحریۃ والدیمقراطیۃ و حقوق الانسان فی العالم العرب) ہے جس کی طرف سے ہر سال برلن(جرمنی) کے سالانہ تقریب میں عالمِ عرب کے اندر اباحیت اور جدیدیت کے لئے سرگرم کسی شحصیت یا ادارہ کو جائزہ ابن الرشد کے نام سے انعام نوازا جاتا ہے جو اپنے حلقوں میں کافی باوقعت سمجھا جاتاہے۔اسی برلن میں ایک کنیسہ کے ساتھ قائم مسجدؐ ابن رشد دیکھ لیجئے جہاں خاتون امامت کرواتی ہے اور کسی نقاب بلکہ سر ڈھانپنے والی عورت کا وہاں داخلہ ممنوع ہے۔الحاد وجدیدیت کے متاثرین ایسا نہیں کہ ابنِ رشد کے فرسودہ فلسفیانہ افکار سے تعلق رکھتے ہوں اور اسی وجہ سے اس کی تعظیم کرتے ہوں ،بلکہ جیسا کہ ایک سلفی عالم شیخ صالح المنجد نے لکھا ہے کہ، اس کا سبب وحید اس کے دینی انحرافات ہیں،وہ اس کی کسی فکر سے نہیں، بلکہ اس کے دینی انحراف سے متاثر ہیں۔شیخ صالح نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے نہایت عمدہ انداز میں غزالی اور ابنِ رشد کے قضیہ پر روشنی ڈالی ہے،اس قضیہ کی بابت امام ابنِ تیمیہ رح کا قول نقل کیا ہے کہ کس طرح اس میں ابنِ رشد کمزور پوزیشن میں کھڑا ہوتا ہے اور حق اس میں عموماََ امام غزالی رح کے ساتھ ہی ہوتا ہے،نیز اباحیت پسند لبرلز کے اس کی تعظیم کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے کہ ابنِ رشد باوجود اپنے فکری انحراف کے عملی شریعت کے تعطیل میں اس حد تک نہیں پہنچا ہو تھا جس حد تک اس کے شیدائی پہنچے ہوئےہیں،جبکہ اس کے فلسفیانہ افکار بھی عرصہ ہوا خود فلسفے ہی کی دنیا ہیں اپنی علمی وقعت کھو چکے ہیں, لیکن اس کے باوجود اگر لبرلز نے ابنِ رشد کو اپنی تعظیم کا شعا ر بنایا ہوا ہے تو اس کا سبب وحید اس کےدینی انحرافات ہیں اور بس،خواہ وہ خود بھی اس کے افکار سے من وعن اتفاق نہ رکھتے ہوں ۔ غزالی رح اور ابنِ رشد کے اس قضیہ میں ہمارا مقصود محض غزالی رح کی ہی وکالت کرنا نہیں ،بلکہ اسلامیت کی وکالت اور اسی کا دفاع کرنا مطلوب ہے۔
“ترقی پسندوں” کی طرف سے دانستہ یا نادانستہ طور پر ناصرف یہ کہ غزالی رح کے موقف کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے، بلکہ ایک اور یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ مسلم امہ کے زوال کے ذمہ دار بھی غزالی رح ہیں اور فلسفہ پر ان کی تنقید ہی سے مسلم امہ پہلے علمی اور بعد ازاں سیاسی زوال کا شکار ہوگیا جس کا یہ تسلسل ہے کہ عالمِ اسلا م کو آج یہ ذلت کے دن دیکھنے پڑرہےہیں۔ان کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ عالمِ اسلام غزالی رح کے بجائے ابنِ رشد کے ساتھ اپنا رشتہ استوار کرے۔اس سے اس کے ایامِ بہار پھر سے لوٹ آئیں گے۔عالمِ اسلام کے بہی خواہ کے بقول آٹھویں یا بارھویں صدی عیسوی کادور جو مسلمانوں کی علمی و عقلی ترقی کا دورِ عروج تھا، گیارہویں صدی میں غزالی رح کی تنقید سے ہی زوال پذیر ہوگیا۔مسلم معاشرے میں علم وعقل اور سائنس و فلسفہ کے زوال کا آغاز ہوا اور چونکہ سیاسی و معاشرتی استحکام لازمی طور پر علمی و عقلی سرگرمیوں سے مشروط ہے،اس لئے علمی و عقلی سرگرمیوں کے انحطاط کے ساتھ مسلمان کلی طور پر زوال و انحطاط کا شکار ہوتے چلے گئے۔گویا جب تک مسلم معاشرہ”تلقینَ غزالی” کا شکار نہیں ہواتھا،تب تک وہ علمی و عقلی اعتبار سے بھی عہدِعروج پر تھا اور اقوامِ عالم کی قیادت کے مقام پر بھی فائز تھا، بعدِ ازاں جب اس نےتلقینِ غزالی کو اپنے سینے سے لگایا تو علمی وعقلی اعتبار سے زوال کا شکار ہوگیا اور دنیاوی وجاہت اور وقار سے بھی محروم ہوگیا۔
جسٹس امیر علی نے اپنی کتاب”روحِ اسلام” میں اس بات کا برابر اعتراف کیا ہے کہ “غزالی سائنس کے تمام انکشافات کو اور ریاضی و ہئیت کے تمام نتائج کو قبول کرتا ہے۔”اور یہ سچ ہے کہ غزالی رح کی کتابوں سے معمولی سی مناسبت رکھنے والا کوئی شخص بھی انہیں اس کے برخلاف کسی ایسے مسخ شدہ موقف سے متہم نہیں کرسکتا جس میں تمام عقلی اور سائنسی علوم کو بیک جنبش مسترد کردیا ہو۔نیز بقول امیر علی کے غزالی رح سلطان سنجر کے وزیر اور نظام الملک کے بیٹے فخر الملک کے نہایت قریبی دوستوں میں سے تھے اور بغداد کو انہوں نے تب ہی چھوڑا تھا کہ جب فخرالملک کو قتل کردیاگیا۔جبکہ سلطان سنجر کے زمانہ میں علمی وعقلی سرگرمیاں اتنے عروج پر تھیں کہ انہیں مامون کے دور پر قیاس پر قیاس کیا جاتاہے جس کی تاریخی تفصیل آئندہ سطور میں مذکور ہونگی،ان شاء اللہ!
تاہم یہی امیر علی چونکہ انگریزی لٹریچر کے خوشہ چین ہیں، خود اسلامی تاریخ کو بھی انگریزی لٹریچر کے ذریعے سمجھنے کوترجیح دیتے ہیں اور انگریز مصنفین کے علمی رعب کا شکار ہیں، اس لئے وہ غزالی رح کے بارہ میں اعترافِ حقیقت کے باوجود خود کو غزالی رح کے بارہ میں مسخ شدہ موقف کے اثر سے محفوظ نہ رکھ سکے اور اس کی رَو میں بہتے ہوئے وہ یہ تک بھول گئے کہ کہیں وہ تضاد بیانی کا تو شکار نہیں ہورہے۔چنانچہ اسی “روح ِ اسلام” میں اعترافِ حقیقت کے باوجود سادگی کے ساتھ غزالی رح کے بارہ میں ایک انگریز کا ایسا اقتباس بلا نکیر نقل کرتے ہیں جو علمی و عقلی افلاس میں اپنی مثال آپ ہے،لکھا ہے کہ
“البیرونی کی انڈیکا کا مشہور ومعروف مترجم ڈاکٹر شاشو لکھتا ہے؛ اگر عربوں میں اشعری اورغزالی نہ پیداہوتے تو عرب قوم کا ہر فرد گلیلیو اور نیوٹن ہوتا۔”
ڈاکٹر شاشو کا یہ اقتباس نقل کرنے کے بعد بھی جب ان کا جی نہیں بھرا تو اسی کتاب میں چند صفحات کے بعد ایک بار پھر یہ اقتباس نقل کرتے ہیں اور اور اسے نہایت عمدہ تبصرہ قراردیتے ہوئے مزید اضافہ کرتے ہیں کہ:
“یہ دونوں بزرگ سائنس اور فلسفہ کی مذمت کرکے اور اس پر زور دے کے کہ دینیات اور فقہ کے علاوہ کوئی علم قابلِ تحصیل نہیں،اسلامی دنیا کی ترقی کو مسدود کرنے میں سبقت لے گئے۔ان کی مثال آج تک جہالت اور ذہنی جمود کے جواز میں پیش کی جاتی ہے۔”
کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اشعری یا غزالی کے بارہ میں ایسے بےوقعت تبصرے کوئی ان کو واقعتاََ پڑھنے کے بعد کررہا ہے؟لیکن الحاد اور جدیدیت کے متاثرین کا المیہ یہ ہے کہ وہ اس رائے کو کئی دہائیوں سے بڑے طمطراق سے دہرائے چلے آرہے ہیں جس کا سرے سے کوئی سر پیر نہیں اور جس کا کوئی ایک ثبوت بھی خود غزالی کی عبارات سے پیش نہیں کیا جاسکتا۔کاش ہمارے روشن خیا ل مفکرین، انگریز مصنفین کے علمی رعب کے اثر سے آزاد ہوپاتے تو ان کے بعض انتہائی احمقانہ بیانات پر ناقدانہ نظر ڈالنے کے قابل ہوتے۔
غزالی رح کو مسلم امہ کی زوال کا ذمہ دار ٹھہرانا ہماری نظر میں کم وبیش ایسا ہی ہے جیسا ایک امریکی فاضل کے بقول مسلمانوں کے زوال کا آغاز تب ہواتھا جب انہوں نےپندرہویں صدی میں شراب چھوڑ کر قہوہ پینا شروع کردیا تھا یا ایک اور مغربی نابغہ کے بقول مسلمانوں کے زوال کا سبب ان کا سود سے کنارہ کشی کرنا ہے۔مسلمانوں کے یہ بہی خواہ بجا طور پر اس لائق ہیں کہ ان کے اس عقلی افلاس اور ذہنی دیوالیہ پن پر ان کے ساتھ تہہِ دل کے ساتھ اظہارِ افسوس اور اظہارِ ہمدردی کیا جائے۔یقیناََ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے اس لئے اگر کوئی خواب دیکھنا چاہتا ہے تو اس کو ہم روک نہیں سکتے،مگر ہم نہایت معذرت کے ساتھ عرض کریں گے کہ زوالِ امت کے بارہ میں یہ تمام تر نقشہ کشی ناقص اورادھوری ہے۔غزالی رح کو فلسفہ کے تمام اجزاء کا ناقد ٹھہرانے کی جو حقیقت ہے،وہ بالتفصیل بیان کی جاچکی ہے۔اس لئے مسلم معاشرہ اگر مفید انسانی علوم کی تحقیق و ترقی کے اعتبار سے انحطاط پذیر ہوا تو اس کے اسباب خواہ کوئی بھی رہے ہوں، مگر امام غزالی رح کو اس کا ذمہ دار ٹحہرانا ایک من پسند خواب دیکھنے یا دکھانے کے مترادف ہے کیونکہ جب غزالی رح نے مفید انسانی علوم پر کوئی تنقید سرے سے کی ہی نہیں،الٹا ایسا کرنے والے کو موردِ تنقید بنایاتو اس حوالے سے مسلم معاشرے میں پیدا ہونے والے انحطاط کو ان کے سر ڈالنا بہرحال بالکل بلاجواز اور خود فریبی کے مترادف ہے۔جبکہ اگر تاریخی حقائق کو دیکھا جائے تو وہ بھی واقعات کی ایک الگ تصویر پیش کرتے ہیں اور غزالی کےحریفوں اور رقیبوں کے پروپیگنڈےکی کوئی تصدیق وہاں سے بھی نہیں ہوتی۔ہم غزالی رح کے حوالے سے یہی تاریخی حقائق آپ کے سامنے لانا چا ہتے ہیں۔
تاریخی حقائق کی رو سے اول تو، آٹھویں صدی تا بارہویں صدی عیسوی کو مسلمانوں کے عروج کا قابلِ رشک دور قراردینا ہی محلِ نظر ہے۔بےشک وہ دور بعد کے ادوار سے تو بہتر تھا ہی اور ہونا بھی تھا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق زمانہ جس قدر بُعد کی طرف جائے گا،اس میں شر اور فساد بڑھتا ہی جائے گا۔نیز یہ بھی سچ ہے کہ اس دور میں علمی وعقلی نوعیت کی سرگرمیاں مسلمانوں میں عروج پر تھیں۔مگر اس بنیاد پر اس دور کو ہر اعتبار سے قابلِ رشک دور قراردینا درست نہیں،ہے۔ نیز یہ تاثر دینا کہ آٹھویں صدی تا بارہویں صدی عیسوی کے آخر میں مسلم معاشرہ علمی و عقلی سرگرمیوں کےاعتبار سے انحطاط کا شکار ہوا تو اس کے بعد ہی ان کی سیاسی تنزلی بھی شروع ہوئی،اس دور کی نہایت ادھوری تصویر ہے اور اس میں بہت سی تاریخی حقائق سےعمداََ یا سہواََ غماض کیا جاتاہے۔پھر غزالی کی سیرت کو پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ غزالی رح نے اگر عملی اعتبار سے مسلمانوں کی سیاسی عروج وزوال میں کوئی کردار ادا کیا بھی تھا تو وہ مسلم معاشرہ،سلطنت اور ریاست کے بقاء و استحکام اور ارتقاء پر منتج ہواتھا،نہ کہ زوال و انحطاط پر۔تاریخی حقائق کے مطابق مسلمانوں کے علمی و عقلی عروج کا زمانہ بعض دوسر ے پہلوؤں کی وجہ سے صرف قابلِ رشک نہیں، بلکہ اس میں مسلمان اجتماعی سطح پر کچھ مسائل اور پریشانیوں کا سامنا کررہے تھے،غزالی رح نےان امور کی اصلاح کے لئے حصہ ڈالا اور انہی کی برکت سے مسلمانوں کو سیاسی اور تمدنی سطح پر بیش بہا فائدہ ہوا۔اس حوالے سے ہم نے دیگر چند حوالوں کے ساتھ ساتھ خاص طور پر اندلس کی تاریخ کے ایک دو اوراق کا انتخاب کیا ہے۔میری مراد وہی اندلس ہے جو مسلمانوں میں علمی،عقلی اور سائنسی عروج کی تاریخ میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر کہلاتاہے اور مسلمانوں کا علمی و صنعتی سرگرمیوں کا عہدِ یادگار اس سے وابستہ ہے۔آئیے دیکھتے ہیں،مگر اس سے قبل چند تمہیدی متعلقات پر ڈال لیتے ہیں۔
علمی و عقلی عروج کے عہد میں سیاسی انحطاط کے چند پہلو!
(آٹھویں تا بارہویں صدی عیسوی کی اصل تصویر)
ایک خاص عہد،خصوصاََ آٹھویں صدی تا بارہویں صدی عیسوی کے مسلم سلاطین کی شہرہ آفاق علمی و عقلی سرگرمیوں کے بارہ میں ہم سب نے یقیناََ بہت کچھ سن رکھا ہے،مگر کیا ہم جانتے ہیں کہ ان سرگرمیوں کے چند منفی پہلوں بھی تھے جو مسلم سلاطین کی جانب سے نظر انداز کئے گئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی مین اسٹریم اور صالح قیادت کوان سرگرمیوں پر چند تحفظات تھے اور مسلم مؤرخین نے بھی ان سرگرمیوں کو کچھ ذیادہ تحسین آمیز انداز میں نقل نہیں کیا؟
ہمیں جاننا چاہئے کہ مسلمانوں کی اصل تاریخ ہارون و مامون کے زمانے سے شروع نہیں ہوتی اور نہ ہی غیر اقوام کے علوم و تجربات سے استفادہ اس دور میں شروع ہوا۔ ان کی تاریخ کا اصل قابلِ تقلید اور قابلِ رشک عہد وہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عہد ہے۔مسلمان اس عہد میں بھی غیر اقوام کے مفید تجربات اور عقلیات سے فائد ہ اٹھاتے رہے،جس کی ایک سے زیادہ مثالیں دی جاسکتی ہیں۔بعد میں اموی اور خصوصاََ عباسی خلفاء بھی اگر غیر اقوام کے علوم و فنون سے استفادہ کرنے میں اس حد تک محدود رہتے تو یقیناََ ان کے اس کردار پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ حادثہ یہ ہوا کہ بعد کے مسلم خلفاء نے کتاب پرستی کو خود ایک آرٹ بنا لیا،غیر اقوام کی دیمک زدہ کتابوں کو اور اپنی موت آپ مر جانے والے فلسفوں کو سونا اور چاندی میں تول تول کر برآمد کرتے رہے،اور ان فلسفو ں کے ساتھ اسلام کے تخیلاتی تقابلی مطالعے شروع کروائے اور اس سلسلے میں حرام وحلال کی تمیز بھی بھول گئے۔موسیقی، تصویر سازی اور طلسمیات جیسے خالص غیر اسلامی آرٹس بھی طب وطبابت کی طرح ان کی دلچسپی کا محور بن گئے۔اب ظاہر ہے کہ یہ سب اسلام کے تصورِ علم اور آداب، علم سے سراسر انحراف تھا اور مسلمانوں کو اس کی قیمت چکانی پڑی۔
چنانچہ ہمارے دور میں ان سلاطین کی علمی تابناکیوں کا غوغا ایک جگہ،مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک دور میں مسلمان بادشاہوں نے یونانی،فارسی اور رومی فلسفوں کو درآمد کرنے کے بعد مسلمانوں کی علمی و عقلی کاوشوں کو جو رُخ دیا تھا اور ان سلاطین کی تہذینی و تمدنی خدمات نے مسلم معاشرہ میں جو فساد اور انتشار پیدا کیا تھااس تنا ظر میں صالح مسلمانوں کی “مین اسٹریم” نے کبھی بھی اپنے سلاطین کے ان سرگرمیوں کو بنظرِ تحسین نہیں دیکھا،مسلم معاشرے میں مرجعیت رکھنے والے علماء اور شرفاء اِن کی اِن سرگرمیوں پر مضطرب تھے اور یہ تاثر صرف اس دور تک محدود نہ رہا ، ان سرگرمیوں کی تاریخ،ان کے دیرپا مضرات اور ان کے نتائج و قبائح کو دیکھتے ہوئے ہر دور میں دینی وابستگی رکھنے والے مسلمان اہلِ علم اور مسلم معاشرہ کا تاثر اس دور کے موروثی سلاطین کے بارہ میں یہی رہا ہے ۔ سید مودودی اس پر تنقید کرتے ہوئے اور ان سرگرمیوں سے مسلم معاشرہ میں پیدا ہونے والے مفاسد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“یونان اور عجم کے فلسفہ اور علوم و آداب نے اس سوسائٹی میں راہ پائی جو اسلام کی طرف منسوب تھی اور اس لٹریچر کے اثرات سے مسلمانوں میں “کلامیات” کی بحثیں شروع ہوگئیں،اعتزال کا مسلک نکلا، زندقہ اور الحاد پَر پُرزے نکالنے لگا اور عقائد کے موشگافیوں نے نئے نئے فرقےپیدا کردئے۔اسی پر بس نہیں بلکہ رقص، موسیقی اور تصویر کشی جیسے جاہلی آرٹس بھی از سرِ نو ان قوموں میں بار پانے لگے جن کو اسلام نے ان فتنوں سے بچایا ہوا تھا۔”
انحطاط کا مفہوم اگر یہ کہ کوئی قوم سیاسی طور پر غیر مستحکم ہو،معاشرتی طور پر اس میں انتشاروفساد ہو،فرقہ بندیاں ہوں، اس قوم کے آباء نے جن صفات کے عامل و داعی ہوکر دنیا میں عزت و عروج اورترقی کے منازل طے کی تھیں،اس قوم کے اربابِ بست و کشادان صفات کو اپنانے میں غفلت و تغافل برتنا شروع کردیں اور ریاست اپنے عروج کی اصل حقیقت اور علت کو ہی بھول جائے تو پھرجان لیجئے کہ انحطاط کا یہ مفہوم مسلم امت میں غزالی رح سے بہت پہلے ہی وارد ہوچکا تھا۔جس دور کومسلم علمی و عقلی عروج کا دور کہا جاتا تھا، وہ سیاسی اور معاشرتی اعتبارسے سےنہایت زبوں حالی کا دور تھا اور غزالی رح کے بارہ میں تاریخی حقائق یہ ہیں کہ انہوں نے دراصل اس زبوں حالی کےتدارک کے لئے حصہ ڈالا تھا۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ مسلمانوں نے جب انحطاط کا سفر شروع کیا تو نہ تو اس وقت تک غزالی رح پیدا ہوئے تھے اور نہ ہی مسلم سلاطین کی ” علم دوست” رویوں میں کچھ کمی آئی تھی ۔ یہ محض ایک تخیل ہے کہ مسلمان جب تک علمی و عقلی سرگرمیوں میں مگن تھے جو آٹھویں تا بارہویں صدی عیسوی کا عہد ہے،تو سیاسی و معاشرتی اعتبار سے بہت مستحکم تھے۔ذیل میں اس سلسلہ کے چند حالات و واقعات ہم آپ کے سامنے رکھتے ہیں اور حالات و واقعات کے تجزیہ کی ساری سعی اصل علمی مراجع کے بجائے عمداََ اردو لٹریچر کے ان نامور مصنفین کی تحریروں کی روشنی میں کریں گے جو گویا آٹھویں تا بارہویں صدی عیسوی کی علمی و عقلی سرگرمیوں کا گویا دورِ جدید کے مسلمانوں میں احیاء چاہتے ہیں، مسلمانوں کو اس ماضی سے رشتہ استوار کرنے کی پرزور دعوت دیتے ہیں اور اس عہد کی علمی سرگرمیوں کے قابلِ مذمت پہلوؤں کی برملا مذمت سے اغماض برتتے ہیں۔ نیز اس سلالہ میں روبہ زوال ایک بڑی مسلم ریاست کو آخری دموں میں سقوط سے بچا لے جانے کے سلسلے میں امام غزالی رح کا جو ناقابلِ فراموش کردار تھا، اس پر ہم قدرے روشنی ڈالیں گے۔
مسلمانوں کے مفروضہ علمی عروج کے عہد میں سے چوتھی صدی ہجری(بمطابق دسویں یا گیارہویں صدی عیسوی) مسلمانوں کی تاریخ میں بالعموم سائنسی اعتبار سے سب سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے، مگر ٹھیک اس دور میں مسلمانوں کا سیاسی استحکام کس قدر زوال کا شکار تھا،مولانا عبدالسلام ندوی اس کی صحیح تصویر آپ کے سامنے رکھتے ہیں:”چوتھی صدی ہجری میں مسلمانوں کا زوال انتہائی درجہ کو پہنچ کیا تھا اور ہر جگہ طوائف الملوکی پھیل گئی تھی،لیکن اس کے ساتھ مسلمانوں کی عقلی زندگی نہایت ترقی یافتہ ہوگئی تھی اور تمام دنیا کے قوموں کے علوم و فنون اسلامی تمدن کا جزو ہوگئے تھے۔”
مولانا عبدالسلام ندوی کی مذکورہ بالا عبارت میں کافی اجمال ہے،ہم اس کی کچھ تفصیل آپ کے سامنے رکھتے ہیں اورصرف چوتھی صدی ہجری کے بجائےمسلم علمی عروج کے پورے مزعومہ اسلامی عہد پر نظر ڈالتے ہیں۔نویں صدی عیسوی (تیسری صدی ہجری)کےوسط مین عباسی خلافت کا زوال شروع ہوگیا تھا، مرکزکی کمزوری سے فائدہ اٹھا تے ہوئے مختلف صوبوں میں کئی خود مختار ریاستیں (طاہریہ،سامانیہ،صفاریہ،بوریہ اورطولونیہ وغیرہ) قائم ہوگئیں۔طوائف الملوکی کے اس دور کی تین قابلِ ذکر حکومتیں یہ ہیں؛سامانیہ، بنی بوریہ اورخلافتِ فاطمیہ۔بوعلی سینا بنی سامانیہ کے عہد میں اور ابن مسکویہ بنی بوریہ کے عہد میں پیدا ہوا۔پھر دسویں صدی عیسوی میں سامانیہ حکومت کے اندر زوال آیا تو اس کی قلم رو میں شامل علاقے مزید تقسیم در تقسیم کا شکار ہو گیا اور یہاں کئی خودمختار ریا ستیں قائم ہوگئیں،نویں صدی عیسوی کے وسط میں مرکزِ خلافت کےضعف سےشروع ہونے والا طوائف ا لملوکی کا دور تقریباََ دوسو سال یعنی گیارہویں صدی عیسوی کے وسط تک محیط ہے۔
سلجوقی سردار ارطغرل کے ہاتھوں گیارہویں صدی عیسوی کے نصف اول میں اس طوائف الملوکی اور ضعف و افتراق کا کافی حد تک خاتمہ ہوا،اور مسلمانوں کی ایک مضبوط ریاست قائم ہوئی جو سلطنتِ سلجوقیہ کہلاتی ہے۔امام غزالی رح اسی دور مین پیدا ہوئے۔ مگر یہ سلطنت بھی پچاس سال کے اندر اندر ہی یعنی گیارہویں صدی عیسوی کے نصف اخیر میں زوال کا شکار ہوئی تو کئی خودمختار ریا ستیں قائم ہوگئی۔ مسلمانوں کے داخلی ضعف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس دور میں صلیبی ،عالمِ اسلام پر حملہ آور ہوئے۔گیارہویں صدی عیسوی کے اخیر میں وہ بیت المقدس پر قابض ہوگئے اور فلسطین کے ایک بڑے حصے پر ان کی حکومت قائم ہوگئی۔بارہویں صدی عیسوی ان صلیبیوں کے ساتھ نبرد آزمائی میں گزری،سلجوقی سلاطین کا پروردہ عماد الدین زنگی، اس کا بیٹا نورالدین زنگی اور اس کا جانشین صلاح الدین ایوبی (رحمہ اللہ علیہم) یکے بعد دیگرے صلیبیوں سے ٹکراتے رہیں اور بارہویں صدی عیسوی کے اخیر میں بیت المقدس کی فتح اور واپسی کے بعد یورپ میں غیض و غضب کی آگ بھڑک ٹھی۔ تقریباََ پورا یورپ ملکِ شام پر اپنی پوری قوت کے ساتھ آتش و دہن اگلنے لگا۔ تقریباََ پانچ برس کی تھکا دینے والی جنگ کے بعد 1192ء میں فریقین کے درمیان صلح ہوئی اور بیت المقدس سمیت تمام مسلمانوں کے تمام علاقے مسلمانوں کے پاس ہی رہنے پراتفاق ہوا۔
سلجوقی سلطنت سے جدا ہونے والے حصوں میں ایک بڑا نام خوارزم شاہی سلطنت کا ہے،بارہویں صدی عیسوی کے اختتام پر اس حصہ پر تاتاری مسیحی حملہ آور ہوئے جو بغداد تک عالمِ اسلام کو روندتے چلے گئے اور اسی کے بعد بغداد کے آخری برائے نام خلیفہ مستعصم باللہ کے ساتھ بغداد کی عباسی خلافت کا نام ختم ہوگیا۔کتب خانوں کو جلادیا گیا اور بیت الحکمت جل کر راکھ ہوگیا۔تاہم مسلمانوں کی افواج اور کتابوں سے شکست نہ کھانے والے یہ تاتاری مسلمانوں کے دین کے اتنے گرویدہ ہوئے کہ کعبے کو صنم خانے سے پاسباں مل گئے۔
یہ تھی مشرقی اسلامی دنیا کے علمی و عقلی عروج کا عہد میں مسلمانوں کے انحطاط و زوال کے اجمال کی تفصیل جس کی طرف مولانا عبدالسلام ندوی نے اپنی عبارت میں اشارہ کیا۔ہمارا مدعا یہ نہیں کہ علم دوستی مسلمانوں کے لئے مضر چیز ہے۔نہیں،بلکہ ہمارا مدعا یہ ہے کہ محض علم دوستی اور کتاب پروری کا رویہ کسی ریاست کی تمام ضرورتوں کے کفالت کے لئے کافی نہیں ہے،چنانچہ علمی عروج کے مزعومہ عہد میں مسلمان حکمرانوں کی تمام تر علم دوستی کے باوجودمسلم ریاستیں انحطاط کا شکار تھیں،اس وجہ سے ہم اس دور کو ہر اعتبار سے قابلِ رشک دور نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس مفروضہ سے اتفاق کرتے ہیں کہ علمی عروج کے عہد میں مسلمانوں کی سیاست ترقی اور استحکام کے معیا ر پر پورا اترتی تھی۔عرب میں عجمی فلسفہ کی بنیاد مستحکم بنیادوں میں رکھنے کے لئے مسلمانوں کوابتداء میں ہی جو قیمت چکانی پڑی،وہ کوئی معمولی قیمت نہ تھی۔شبلی رح کے الفاظ ہیں:”منصور ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے عرب کا زور گھٹانے کے لئے عوماں کا رسوخ بڑھایا اور تمام بڑے بڑے عہدے ان کے ہاتھ دیے،اگر چہ منصور کی یہ کاروائی پولیٹیکل اعتبار سے نہایت خراب تھی لیکن اس غلطی سے اتنا فائدہ ہوا کہ عرب میں فلسفہ کی بنیاد قائم ہوئی اور آج مسلمانوں میں عقلی علوم کا جو رواج ہے،وہ اسی غلطی کے بدولت ہے۔”
پھر کیا ہم جانتے ہیں کہ اسی فلسفہ کی بنیاد رکھے جانے کے بعد ہی عباسیہ خلافت کے دورِ عروج میں مسلمانوں میں شعوبیت(عرب دشمنی) اور الحاد و زندقہ کی تحریک پیدا ہوئی؟سوال یہ ہے کہ جس فلسفہ کی بنیاد قائم کرنے اور اسے رواج دینے کے لئےہمارا سیاسی استحکام داؤ پر لگا،ہمارے دین کے خلاف خود ہماری ہی غلطی کے بسبب ایک انتشار کھڑا ہوا،ہم اس کو اپنی ترقی کیسے کہہ سکتے ہیں؟ہمارامنصب تو یہ تھاکہ ہم لوگوں کو اللہ کے دین کے معاملہ میں تقدیس کی تلقین کرتے اور اس معاملے میں طفلانہ اورغیر ذمہ دارانہ بحث سے باز رہنے کی تلقین کرتے،مگر ہم خود اس کا م کے نقیب بن گئے۔
کہا جاتا ہے کہ تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاریوں کے حملہ کے بعد مسلمانوں کا علمی زوال شروع ہوا۔کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ عالمِ اسلام پر تاتاریوں کے حملہ کو جس چیز نے کامیاب بنایا تھا،کیا وہ تاتاریوں کا علمی و فنی ترقی میں مسلمانوں سے فائق ہونا تھا؟ظاہر ہے کہ نہیں،کیونکہ اس وقت عالمِ اسلام علمی وفنی اعتبار سے تاتاریوں سے کہیں آگے تھا اور آگے عالمِ اسلام پر غلبہ پانے کے بعد دجلہ وفرات کو مسلمانوں کی کتابوں کی سیاسی سے جنھوں نے سیاہ کیا تھا،وہ تاتاری ہی تھے۔نیز کیا کوئی بتا سکتا ہےکہ تیرہویں صدی میں تاتاریوں کے حملہ کے بعد اگر عالمِ اسلام میں علمی زوال شروع ہوا جو اب تک ختم نہیں ہورہا تو کیا عالمِ اسلام کا سیاسی اورمجموعی زوال بھی اسی وقت شروع ہوگیا تھا؟تاریخ بتاتی ہے کہ تاتاریوں کے حملہ کے بعد ایک وقتی اور عارضی زوال کے باوجود مسلمان ڈوبے نہیں،بلکہ ڈوبنے کے بعد ایک بار پھر ابھرے اور زبردست شان کے ساتھ ابھرے۔مسلمانوں کے عروج اس کے بعد بھی تقریباََ پانچ سو سال تک باقی رہا۔مسلمانوں کا عہدِ عروج کسی بھی قوم کے عہدِ عروج سے زیادہ یعنی ایک ہزار سال پر محیط ہے جو 1700ء تک باقی رہا۔
تاریخِ اندلس کے چند دلچسپ اوراق:
مشرقی اسلامی دنیا کی کہانی کے بعد ہم اس سلسلہ میں بطورِ خاص اندلس پر بھی روشنی ڈالیں گے۔اندلس کا دور مسلمانوں کی علمی و عقلی ترقی کا یادگار ترین زمانہ تھا۔مسلمانوں کی علمی و عقلی عروج کی تاریخ کا تذکرہ جب بھی آئے گا تو سب سے اندلس، غرناطہ اور قرطبہ کا ذکر ہوگا،مسلم علمی وعقلی عروج کے حوالہ سے اس خطہ کو بہت یاد گار اور عہد ساز سمجھا جاتا ہے، مگر کیا ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے پہلا سقوط بھی اندلس میں ہوا اور وہ عیسائی جو فاتح بن کر یہاں وارد ہوئے،وہ دراصل ان علوم اور کتابوں میں مسلمانوں کے شاگرد تھے؟مسلمانوں کی تاریخ میں سائنسی اور علم پروری کے اعتبار سے سب سے تابناک اور قابلِ رشک دور اندلس کا تھا۔غزالی رح کے ضرب کےبعد جب فلسفہ کا منحرف دبستاں مشرق سے راہئ عدم ہوا تو ابنِ باجہ، ابنِ طفیل اور ابنِ رشد لوگ بھی اندلس ہی میں پیدا ہوئے تھے۔اندلس کبھی عباسی خلافت کی زیرِ نگیں نہیں آسکا،بلکہ گیارہویں صدی عیسوی تک یہ امویوں کے پاس رہا۔1030ء تک یہاں قائم رہنے والا اموی خاندان کا دورِ حکومت سید قاسم محمود کے الفاظ میں: “اندلس کی تاریخ کا سب سے شاندار دور ہے اور اس دوران یہاںسائنسی ترقی پوری تیزی سے ہوئی اور کئی ممتاز سائنسدان پیدا ہوئے۔”
مگر گیارہویں صدی عیسوی میں اموی خلافت کے سقوط کے بعداسلامی اندلس طوائف الملوکی کا شکار ہوکر سات حصوں میں بٹ گئی۔شبلی رح کے بقول چوتھی صدی ہجری (تقریباََ دسویں یا گیارہویں صدی عیسوی جو اندلس میں اموی خلافت کے زوال کا آخری عہد ہے) میں عالمِ اسلام کاسب سے بڑا کتب خانہ اندلس کا تھا،جو اتنا بڑا تھا کہ ملک بھر کا ٹیکس اس کے مصارف کے لئے ناکافی تھا،سینکڑوں گماشتےاطراف واکناف کے اضلاع میں اس کے لیے مقرر تھےکہ جدید و قدیم کتابیں بروقت فراہم کی جائیں،صرف اشعارو قصائد کی کتابیں اس میں اتنی تھیں کہ آٹھ سو اسی صفحات پر ان کی فہرست مشتمل تھی۔کتاب پروری کایہ شوق اتنا عام تھا کہ صرف حکمران نہیں،عام امراء بھی کتب خانے قائم کیا کرتےتھے۔قرطبہ میں اس کا عام دستور تھا اور امراء کے مابین اس کی بنیاد پر فخر و نمود ہوتی تھی۔تفصیل شبلی کے مضمون”اسلامی کتب خانے” میں دیکھئے۔لطف یہ ہوا کہ اموی خلافت کے سقوط کے بعد طوائف الملوکی کا شکار تمام چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حکمران بھی بلا کے علم دوست نکلے۔سید قاسم محمود کے الفاظ میں: “علمی لحاظ سے ان حکومتوں نے بہت ترقی کی۔بادشاہ بذاتِ خود حکمت و دانش اور علم وادب کا شغف رکھتے تھے۔”
پھر یہ ہوا کہ طوائف الملوکی کا شکار اندلس محض ستر،اسی سال کے اندر اندر ان علم دوست لیکن نااہل حکمرانوں کے ہاتھ سے نکل کردوحصے تو عیسائیوں کے پاس جاتا رہ،جبکہ باقی ماندہ حصہ سے باقاعدہ عیسائیوں کو جزیہ جاتا تھا۔تاہم اس حصہ میں ایک تبدیلی کی ہوا چلی، اس حصہ میں طوائف الملوکی کےدور کا خاتمہ ہوا،نہایت مضبوط حکومتیں قائم ہوئیں جنھوں نے صلیبیوں کے ساتھ آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کی۔یوں یہ علاقہ جو گیارہویں صدی عیسوی میں ہی آخری دموں کے اندر پڑا تھا،مزید تقریباََ ساڑھے تین سو سالوں تک کے لئےصلیبیوں کے ہاتھوں لگ نے سے بچ گیا اور ظاہری اسباب کے تحت گویا اس کا کلی سقوط 1492ء تک کےلئے مؤخر ہوگیا۔حالت کی اس خوش کن اور غیر متوقع تبدیلی کے اسباب کیا تھے؟ آئیے غور کرتے ہیں۔
ہم نے لکھا ہےکہ خلافتِ امویہ کے بعد جو دور شروع ہوا،وہ طوائف الملوکی کا دور کہلاتا ہے، اس دور میں ریاست سات حصوں میں بٹ گئی تھی۔ ضعف و افتراق اس حد تک بڑھ گیا تھا کہاس دور میں اندلس ‘ صلیبیوں کا باج گزار بنا ہوا تھا، ڈیڑھ ڈیڑھ انچی ریاستوں کے امراء صلیبیوں کو باقاعدہ جزیہ دیتے تھے، پھر اسی پر بس نہیں،مذکورہ حصوں میں سے دو حصے یکے بعد دیگرےعیسائی ہتھیا لے گئے۔اس وقت مسلمان جس طرح بےسمت،تفرق و تشتت کا شکاراور آپس میں گتھم گتھ تھے،اس پر اندیشہ ہو چلا تھا کہ بقیہ حصے پر بھی عیسائی جلد قابض ہوجائیں گے۔مگر صلیبیوں کی پھرتیوں کو تقریباََ تین سو سالوں کی بریک لگ گئی،جس کے ظاہر ی اسباب کچھ یوں تھے۔
تفرق،انحطاط اور اہلِ صلیب کے مغلوبیت کے زمانہ میں اندلس کے مسلمان اہلِ حل و عقد سرجوڑے بیٹھے۔اس وقت اندلس کے پڑوس میں مراکش کے اندر یوسف بن تاشفین رح کی حکومت تھی،یہ مرکزی خلافت کا ماتحت اور نہایت بارعب حکمران تھا۔اندلس کے شرفاء اور علماء نے قاضی قرطبہ عبدللہ بن محمد بن ادہم کے ساتھ مل کر ان سے متعلق مشاورت کی اور اس تجویز پر اتفاق ہوا کہ مراکش کے بوڑھے برگدامیر المسلمین یوسف بن تاشفین رح کوخط لکھ کر اپنے احوال کی اطلاع کی جائے اور اس سے اپنے لئے سہارا طلب کیا جائے۔اہلِ دل اور اہلِ فکر کا یہ اجتماع قرطبہ میں ہوا جو اس وقت بنو عباد کے قلم رو میں تھا،طوائف الملوکی کے دور میں اندلس کی مختلف حکومتوں میں سےسب سے بڑی اور مضبوط حکومت بنو عباد کی تھی۔لیکن صلیبیوں کے مقابلہ میں اس حکومت کی بھی نقاہت اور بے بسی کا یہ عالم تھا کہ جس وقت قرطبہ میں اہلِ دل کایہ اجتماع ہورہاتھا،اس وقت بنو عباد کا وارث لمعتمد علی اللہ اس علاقہ کا تخت نشین تھا۔مگر وہ نصاریٰ کا باج گزار تھا،خود کو نصاریٰ کے مقابلہ میں بےبس پاتا تھا اور جب صلیبیوں کی طرف سے اشبیلیہ کا محاصرہ کیا گیا تو اس کے پاس ان کے مقابلہ کی قوت نہیں تھی،خود اس کی ذاتی سیرت یہ تھی کہ شراب کارسیا تھا،بعض چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے خلاف زورآزمائی میں صلیبیوں کا ساتھ دیا تھا،لیکن بہرحال مسلمان تھا اور اشبیلیہ کے محاصرہ کے بعد اس کی آنکھ قدرے کھل گئی تھی۔یہ خود بھی یوسف بن تاشفین رح کو مدد کے لئے بلانا چاہتا تھا۔چنانچہ جب قاضی عبداللہ نے شہر کے شرفاء کی رائے معتمد کو پہنچائی تو معتمد نے اس کی تصویب کی۔بعض مشیروں نے اشارہ کیا، ممکن ہے یوسف بن تاشفین رح یہاں آنے کے بعد واپس جانے کا نام نہ لے،اس پر معتمد کی رگِ اسلامی پھڑکی اور اس نے ایک تاریخ ساز جملہ کہا کہ”رعی المغنم خیر من رعی الخنازیر”یعنی امیر یوسف کا قیدی بن کر ریوڑ چرانا ہمارے لئے صلیبیوں کاقیدی بن کر خنزیز چرانے سے بہتر ہے”۔چنانچہ معتمد کی تصویب کے بعد پہلی بار امیر یوسف کے پاس سرکاری وفد گیا،امیر یوسف اس سے قبل بعض نجی وفود کے ذریعے بھی اندلس کے حالات سنتے رہے تھے۔
امیر یوسف بن تاشفین رح مراکش کی اس اصلاحی تحریک کے ایک کارکن تھے جس کے بانی ایک نہایت خدا رسیدہ بزرگ شیخ عبداللہ بن یٰسین رح تھے اور جن کی تحریک مرابطین کی تحریک کہلاتی تھی۔امیر یوسف رح کی امارت کا قصہ یہ ہے کہ ان کے پیش رو شیخ ابوبکر بن عمراللمتونی رح جو خود بھی مذکورہ اصلاحی اور دعوتی تحریک ہی کے ایک بزرگ کارکن تھے،خدا نے ان کو دعوت و عبادت کا ایک خاص ذوق عطاکیا تھا،انہوں نے اپنے ماتحت علاقہ کی قلم رو یہ کہہ کر امیر یوسف بن تاشفین رح کے حوالہ کردی تھی کہ امورِ ریاست کی نگہبا نی میرےذوق کے خلاف ہے، اس کو میری جگہ تم سنبھالو،اور میری بقیہ زندگی اپنے ذوق کے میدان میں صَرف کرنا چاہتا ہوں۔امیر یوسف نے اپنے پیش رو کی امانت کو نہایت حسنِ تدبیر کے ساتھ سنبھالا۔اندلس کے مسلمانوں نے جب انہیں پکارا تو انہوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اوراندلس میں پہنچ کر صلیبیوں کے ساتھ ایک زبردست معرکہ لڑا جو معرکہء زلاقہ کے نام سے مشہور ہے۔اس معرکہ میں گھمسان کا رن پڑا جس کی وجہ سے بعض مصنفین نے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہونے والےقادسیہ اور یرموک کے معرکوں پر قیاس کیا۔ اس معرکہ میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور بڑی تعداد میں غنیمتیں حاصل ہوئیں،مگر امیر یوسف رح نے ان غنیمتوں میں کوئی حصہ لینے کے بجائے وہ سب اندلس کےحوالہ کیا،انہیں افتراق سے بچنے اوراتحاد سے رہنے کی تلقین کی اور خود مراکش چلے گئے۔
تاہم اندلس کے مسلمانوں میں زوال کے جو اسباب پیدا ہوچکےتھے،ان کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس قدر تعلیم و تلقین سے سنبھل جاتے۔چنانچہ امیر یوسف رح کی واپسی کے بعدا ندلس دوبارہ اپنی پرانی روش پر آگیا،طوائف الملوکی ویسے کی ویسے رہی،نصاریٰ کی چھیڑ چھاڑ پہلے سے زیادہ بڑھ گئی،بلنسیہ پر ان کا قبضہ ہوگیا جو اب تک کی ان کی کامیابیوں میں سے سب سے پڑی کامیابی تھی اور چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستوں کے امراء ویسے ہی آپس میں لڑتے رہے،امیر یوسف رح کی نصیحت کسی کو یاد نہ رہی۔امیر یوسف رح کی طرف سے مختلف موقعوں پر بہرحال ان کے پاس ا مداد آتی رہی۔ان میں سے بعض موقعوں پر امیر یوسف رح کوان امراء کی اقتدار پرستی،صلیبیوں سے درپردہ دوستی اورمسلمانوں کی اجتماعیت پر عین وقت پر چھرا گھونپنے کے بعض ایسے شدید تجربات ہوئے کہ انہیں ان امراء سے خیر کی توقع نہ رہی۔انہیں صاف نظر آرہا تھا کہ اندلس کو اگر ایک حکومت پر جمع نہیں کیا گیا تو اس کا مستقبل تاریک ہے۔ان کے پاس اس کی قوت تھی کہ وہ چھوٹے چھوٹے امراء کو بزورِ جبر ایک طرف کرکے اندلس میں اجتماعیت پیدا کردیتے،مگر ظاہر ہے اس صورت میں مسلم آبادیوں کے اندر خون خرابہ ہوتا اور امیر یوسف رح اس کی شرعی پوزیشن کے حوالے سے اپنے اضطراب کو دور کرنے کے لئے کسی مستند و فقہی حوالہ کے خواہش مند تھے،نیز امیر یوسف رح اپنی تمام تر قوت کے باوجود خود کو خود مختار سمجھنے کے بجائےبغداد کے مرکزی خلافت کے ماتحت سمجھتے تھے،اس لئے وہ اس اقدام سے قبل مرکز سے اجازت لینا بھی ضروری سمجھتے۔
ان کی ان دونوں ضرورتوں کو ایک مالکی فقیہ ابو محمد العربی اور ان کے بیٹے ابوبکر (جو امام غزالی رح کے شاگرد تھے)نے پورا کیا۔وہ بغداد گئے،وہاں ان دنوں امام غزالی رح رونق افروز تھے،ان سے ملاقات کی،اندلس کے حالات سنائے،وہاں کے حکمرانوں کی بےتدبیری،بد اندیشی اور نصرانیت نوازی کو بےنقاب کیا اور امیر یوسف بن تاشفین رح کے لئے شرعی سند اور حوالہ کی استدعا کی۔امام غزالی رح نے بداندیش حکمرانوں کے خلاف راست اقدام کے حق میں فتویٰ لکھ کران باپ بیٹے کو دیا،نیز یوسف بن تاشفین رح کے نام ازخود ایک خط لکھ کر روانہ کیا جس میں ساری تفصیلات لکھیں کہ مجھے اندلس کے کیاکیا احوال پہنچے ہیں،نیز یہ کہ میں نے یوسف بن تاشفین رح کے نام ایک فتویٰ لکھ کر اپنے شاگردوں کے حوالے کردیا ہے،نیز یہ کہ وہ کس طرح عالمِ اسلامی میں یوسف بن تاشفین رح کے حق میں فضا ہموار کرنے کے لئے سرگرم ہیں اور یہ کہ وہ جلد ہی خلافتِ بغداد کے سرکاری اجازت نامہ کے ساتھ آپ کے پاس آپہنچیں گے۔بعد ازاں فقیہ ابن العرب 493ء کو وفات پاگئے اور ان کے فرزند ابوبکر’امام غزالی رح کا فتویٰ اور خلافتِ بغدادکا اجازت نامہ لے کر اندلس میں یوسف بن تاشفین رح کے پاس پہنچ گئے۔۔۔
تو یہ ہے زوالِ امت میں غزالی رح کے کردار کی حقیقت اور اندلس کی تاریخ کا ایک روشن ورق ،آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اندلس کو صلیبیوں کی جھولی میں گرنے سے بچانے کے لئے امام غزالی رح کوشاں ہیں۔امیر یوسف بن تاشفین رح کو اگر بروقت صحیح سمت راہ نمائی نہ دی جاتی اور انہیں راست اقدام کے لئے تیار نہیں کیا جاتا تو اندلس کا کلی سقط ظاہر ی اسباب کے تحت اپنے اصل وقت سے گویا تین سو سال قبل ہی ہوجاتا،جیسا کہ ہاتھ سے نکلتے ہوئے علاقےاس کے اشارے دے رہے تھے۔امیر یوسف بن تاشفین رح کے راست اقدام نے اندلس میں ایک مضبوط اور یکسو حکومت کی بنیاد رکھی جو خلافتِ امویہ کے سقوط کے بعد اندلس میں پہلی بامعنیٰ حکومت تھی۔اس عہد میں وہ بہت سے علاقے صلیبیوں سے واپس لے لئے گئے جو ان کے قبضے میں چلے گئے تھے،لیکن ایک بڑا شہر طلیطلہ بدستو ان کے پاس رہا اور باوجود کوشش کے واپس نہ لیا جاسکا۔(1)
امیر یوسف رح کی وفات کا بعد ان کا بیٹا علی بن یوسف بن تاشفین تحت نشین ہو ا اور ان دونوں باپ بیٹے کادورِ حکومت اندلس میں مرابطین کا دور کہلاتا ہے۔علی بن یوسف میں بہت سی اچھی صفات موجود تھیں،جہاد بھی ہوتا رہا اور علماء کا احترام بھی کیا جاتا تھا، مگر دوسری طرف ریاست میں شرعی احکام کے حوالے سے کافی کچھ تساہل پایا جاتا تھا،شراب کی خرید و فروخت عام ہوتی تھی،سرکاری فوج علانیہ لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے تھے،شہریوں کی عزت و ناموس کو تار تار کرتے اور علی بن یوسف کے خاندان میں یک اور قبیح رسم یہ چلی آتی تھی کہ مرد نقاب پہنتے جبکہ عورتیں کھلے منہ پھرتیں۔اسی دور میں غزالی رح کی احیاء العلوم الدین کو بھی اندلس میں جلایا گیا۔
مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کا اول و آخر دین ہے،انہوں نے جب اپنے دین سے بے وفائی کی تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں زوال سے نہیں روک پائی اور اسباب و وسائل کے باوجود یہ ناکام ہوکر رہ۔جبکہ جب انہوں نے اپنے دین سے وفاکی،اس کے احکام کو اپنی نظروں کے سامنے رکھا، اور ظاہری اسباب و وسائل کے بجائے اپنے خدا پر اعتماد کیا تو کوئی دنیا کی کوئی طاقت انہیں زوال کا شکار نہیں کرسکی،بلکہ یہ آگے سے آگے بڑھتے رہیں۔
علی بن یوسف کی بعض نیک خصلتوں کے باوجود جس طرح بدعات ومنکرات پھل پھول رہے تھےاگر ااس خرابی کے سامنے بند نہ باندھا جاتا تو ظاہر ہے کہ اندلس میں مسلمانوں کو قوت کوایک بار پھر زوال کا شکار ہونے سے کوئی نہیں رووک سکتا تھا۔اس دور میں محمد بن تومرت کی سربراہی میں ایک اور اصلاحی تحریک اندلس میں چلی،اس کا ابتدائی مقصد ریاست میں منکرات کی روک تھام ہی تھا،لیکن اس کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ اندلس کے اندر ایک اورخاندان کی حکومت کی داغ بیل پڑی جو موحدین کی حکومت کہلائی۔محمد بن تومرت کے بارہ میں مشہور یہ ہے کہ حکومت کے خلاف اپنی تحریک سے قبل وہ بھی امام غزالی رح سے ملے تھے، ان سےاپنی تحریک کے حق میں مشاورت لی اور انہی کی تائئد سے اپنا کا م شروع کیا۔علامہ ابن خلدون رح نے اس ملاقات اور مشاورت کی روایت نقل کی ہے اور اردو لٹریچر میں شبلی، سید ابوالحسن علی ندوی اور سید قاسم محمود وغیرہ میں اسی روایت کی اتباع میں اس کو غزالی رح کا شاگرد تسلیم کرتے ہوئے اس کی تحریک ِ مواحدین کو نہ صرف غزالی رح کی ایماء کا نتیجہ کہا گیا ہے بلکہ اس انقلاب کو ایک بروقت اور صحیح اسلامی انقلاب بتایا گیا ہے اور شبلی رح نے لکھا ہے کہ مواحدین کی ریاست امام غزالی رح کی منشاء اور اسلامی اصولوں کے عین مطابق تھی۔ (36 )2)
تاہم علامہ ابنِ اثیر کی رائے میں محمد بن تومرت کی امام غزالی رح سے ملاقات نہیں ہوئی اور ماضی قریب کے عرب محققین نے باقاعدہ اس موضوع پر داد تحقیق کی ہے کہ محمد بن تومرت کی امام غزالی رح سے تلمذ اور ملاقات کی بات غلط ہے۔نیز عرب محقیقین میں بالعموم محمد بن تومرت کے حوالے سے بھی عموماٰٰ کوئی مثبت رائے نہیں ملتی اور یہ سچ ہے کہ تاریخ میں اس کی تحریک ِ اصلاح وجہاد کے بعض پہلو ایسے بیان ہوئے ہیں جو سخت ناگوار ہیں اور جن کے ہوتے ہوئے اس کی تحریک کی مجموعی تحسین کی گنجائش کم ہی نکلتی ہے ۔ابنِ تیمیہ رح کی چند عبارات،ذہبی رح کی سیر العلام النبلاء اور ابن ِ حجر عسقلانی رح کی الدررالکامنۃ کے مطابق وہ خود کو مہدی اور معصوم کہتا تھا،اپنے دعویٰ کی سچائی لوگوں کے دلوں میں مستحکم کرنے کے لئے اس نے کچھ عجیب وغریب حرکتیں بھی کی تھیں، شیخ ابن ِ تیمیہ رح کے مطابق وہ اعتزال کی طرف مائل تھا اور صفات سے متعلق مشہور اعتزالی مؤقف ہی کی بناء پر اس نے اپنی تحریک کا نام موحد رکھا ہوا تھا۔تاہم بعض محققین کے مطابق ابنِ تومرت کے حوالہ سے مشرق کے مؤرخین نے انصاف سے کام نہیں لیا،وہ اتنا بُرانہیں تھا کہ جتنا کہا جاتا ہے۔نیز سہکی نے طبقات الشافعیہ میں اس کا جو ذکر کیا ہے،اس سے اس کے کردار کا کوئی منفی پہلو سامنے نہیں آتا،ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ وہ اشعری تھا اور محض اشعری ہونا شائد تنا بڑا “عیب ” نہیں ۔مولانا ابوالحسن علی ندوی رح نے بھی اس کے بارہ میں سہکی کے الفاظ بلانکیر نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے اور شبلی و ابنِ خلدون کی عبارات سے اس کی مزید توثیق کی ہے۔ (7 3)3)
یہاں ہمیں اس تفصیل میں نہیں جانا کہ محمد بن تومرت درحقیقت کیا تھا اور کیا نہیں؟اور کیا امام غزالی رح سے فی الواقع اس کی ملاقات ہوئی تھی یا نہیں ؟نیز ہمیں یہاں اس بحث میں اپنا کوئی محاکمہ پیش نہیں کرنا کہ محمد بن تومرت کتنا صحیح تھا اور کتنا غلط،اور نہ ہی امامِ غزالی رح اور ابنِ تیمیہ رح کی سلفی اور اشعری فکر کا کوئی تقابل پیش کرنا ہے۔ہمیں تو یہاں صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ امامِ غزالی رح پر زوالِ امت کا الزام کتنا غلط ہے اور امت کے زوال وانحطاط کے حوالہ سے ان کا کردار اگر تاریخ میں ملتا بھی ہے تو مثبت ہے، نہ کہ منفی۔ابنِ تومرت کے بارہ میں یہ پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ بعض محققین سرے سے امامِ غزالی رح کے ساتھ اس کی ملاقات سے انکاری ہیں،جبکہ جو مصنفین اس ملاقات کاذکر کرتے ہیں تو یہ وہی ہیں جو ابنِ تومرت کے انقلاب کوایک صحیح اسلامی انقلاب کہتے ہیں اور اسے امام غزالی رح کے کارناموں میں سے ایک کارنامہ شمار کرتے ہیں،اب ان دونوں میں سے کونسی بات صحیح ہے،اس کے بارہ میں کوئی ٹھوس رائے دینا ممکن نہیں ہے۔
اگر محمد بن تومرت کے بارے میں شبلی وغیرہ کی یہ رائے درست تسلیم کرلی جائے کہ وہ صحیح الفکر آدمی تھا، اس کی تحریک اندلس کے لئے متقاضائے حال کے مطابق تھی اور موحدین کی قائم کردہ حکومت بھی اسلامی اصولوں کے عین مطابق تھی تو انہی کے نزدیک ابنِ تومرت کی اس ساری کاوش کی بنیاد امام غزالی رح سے اس کی مشاورت تھی۔پس اگر اس انقلاب کو صحیح فرض کرلیا جائے جو تحریکِ موحدین نے برپا کیا تھا تو جو اس انقلاب کو صحیح کہتے ہیں،انہی کے بقول اس انقلاب کی خمیر میں غزالی رح کی مشاورت شامل تھی۔تاہم ہمیں ذاتی طور پر اس بات کاہرگز اصرار نہیں کہ ابنِ تومرت صحیح الفکر تھا اور اس کا انقلاب بھی صحیح بنیادوں پر قائم تھا،بلکہ صورت اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہےمگر اس صورت میں امام غزالی رح سے اس کی ملاقات کو تاریخی اعتبار سے ثابت کرنا بھی ایک مشکل کام ہوگا۔کیونکہ جو مؤرخین ابنِ تومرت کے کردار سے متفق نہیں، انہیں اس کی امام غزالی رح کے ساتھ ملاقات سے بھی اتفاق نہیں،بلکہ ابنِ اثیر سے لیکر دکتور راغب السرجانی تک یہ تمام مؤرخین اور محققین جو ابنِ تومرت کو بھٹکا ہواسمجھتے ہیں،غزالی رح سے اس کی ملاقات سے بھی سخت انکاری ہیں۔(38)4)
ہماری ذاتی رائے میں ابنِ تومرت کے ہاتھوں تشکیل پانے والی موحدین کی حکومت میں یا ابنِ تومرت کی ذات میں خواہ کوئی عیب رہے ہوں،مگر موحدین کی حکومت سے بظاہر ایک بڑی خیر بھی برآمد ہوئی۔مرابطین کے ہاتھوں مراکش اور اندلس کے باقی ماندہ علاقے جو ایک بار پھر ضعف کا شکار ہورہے تھے اور ان کے بارہ میں اندیشہ تھا کہ عیسائی اس کمزوری سے شہ پاکرکہیں ان پر بھی حملہ آور نہ ہوجائیں،موحدین کی وجہ سے ایک بار پھر مضبوط ہاتھوں میں چلے گئے اور اس حکومت کی تشکیل میں کسی نہ کسی درجہ کے اندر غزالی رح کے بلواسطہ کردار کو بہرحال مسترد نہیں کیا جاسکتا۔چنانچہ امام غزالی رح کے شاگرد ابو بکر بن العربی(جنہوں نے اپنے والد کے ساتھ اس سے قبل یوسف بن تاشفین رح کا اقتدار استوار کرنے میں کردار اداکیاتھا) نے آگے بڑھ کر اس وقت عبدالمومن کا اندلس کی طرف سے استقبال کیا تھا جب وہ اندلس پر حملہ آور ہوا تھا۔عبدالمومن ؛موحدین حکومت کا پہلا تاجدار اور ابنِ تومرت کا انتہائی قریبی ساتھی تھا،اس کے مزاج میں اپنے پیش رو ابنِ تومرت کی طرح کچھ سختی تھی،مگر تاریخ سے ایسا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ اس نے اپنی حکومت کی بنیاد ابنِ تومرت کی معصومیت کے عقیدے پر،توحید کے مخصوص اعتزالی تصور پر یا اس طرح کی اور گمراہیوں پر رکھی ہو، بلکہ اس کے بر عکس یہ نظر آتا ہے کہ اس حوالے سے سکوت کی پالیسی اختیار کرکے گویا اس نے ابنِ تومرت کے اثرات کو مٹنے کا موقع دیا اور ان علماء کو عزت دی جو کسی بھی لحاظ سے ابنِ تومرت کی گمراہیوں سے متفق نہیں کہلائے جاسکتے،جبکہ اسی خاندان کے تیسرے یا چوتھے حکمران نےباقاعدہ ریاستی سطح پر ابنِ تومرت کی گمراہیوں سےبراءت کا اعلانِ عام کردیا (5) لیکن عرفِ عام میں ان کے لئے موحدین کا نام استعمال ہوتا رہا۔
سید قاسم محمود کے الفاظ میں صلاح الدین ایوبی رح کے ہم عصر عبدالمومن نے جتنی بڑی حکومت قائم کی،اتنی بڑی حکومت شمالی افریقہ کے کسی مسلمان نے اب تک قائم نہیں کی تھی اور نہ اس کے بعد مسلمانوں کی اتنی بڑی حکومت پھر قائم ہوئی۔نیز عہدِ موحدین کا تیسرا حکمران یعقوب المنصور سب سے زیادہ مشہور ہے،اس کو ارک کے میدان میں عیسائی حکمران الفانسو پر فتح حاصل ہوئی،وہ نہایت علم دوست تھا اور اس کے دور میں بےشمار رفاہی کام ہوئے۔(39) 6)سبھی اتفاق کرتے ہیں کہ یہ نہایت مضبوط حکومت تھی، اس سے اندلس میں مسلمانوں کے قدموں کو مزید ثبات اور استحکام نصیب ہوا۔اندلس پر اس خاندان کی حکومت تقریباََ سوا صدی قائم رہی۔بعد ازاں اس کے بعد پھر انحطاط شروع ہوا جو 1492ء میں مکمل سقوط پر منتج ہوا۔یوں اندلس کا سقوط جو گیارہویں صدی عیسوی میں اموی خلافت کے سقوط کے بعد شروع ہوا تھا اور اندلس مسلسل صلیبیوں کی لپیٹ میں آتا جارہا تھا،ابنِ تاشفین،غزالی اورمرابطین و موحدین کی بروقت مداخلت سےمکمل سقوط تک پہنچنے میں اسے تقریباََ ساڑھے تین سو سالوں تک کی بریک لگ گئی۔
ان تاریخی حقائق کی روشنی میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ غزالی رح پر اس اعتراض کی قطعاََ کوئی حقیقت نہیں ہے کہ فلسفہ پر ان کی تنقید سے عالمِ اسلام اولاََ علمی بعد ازاں سیاسی زوال کا شکار ہوگیا جس کا تسلسل یہ ہے کہ آج عالمِ اسلام کو ذلت کے یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔تایخی حقائق یہ ہے کہ اگر غزالی نے علمی و فکری سطح سے ہٹ کر عملی میدان میں بلواسطہ یا بلا وسطہ کوئی کردار ادا کیا بھی تو وہ مسلمانوں کے وقار پرمنتج ہوا، نہ کہ زوال پر۔تاریخ میں اس کے برعکس اگر کوئی اور تصویر ملتی ہے تو ہوائی باتیں کرنے کے بجائے اس کا ثبوت فراہم کیا جائے۔