تہذیبی نرگسیت کے شہرت یافتہ مبارک حیدرکی یہ تصنیف حال ہی میں ختم کی ۔ تہذیبی نرگسیت پر راقم کا تبصرہ مندرجہ زیل لنکس پر دیکھا جاسکتا ہے۔ علمی و تنقیدی دیانت کے زمن میں اور مکمل انکشاف کی مد میں یہ کہتے چلیں کہ ہمارا صاحب کتاب سے نظریاتی اختلاف کچھ پوشیدہ نہیں لہذا ہماری مغرضانه تحریر کے عوامل کو نظر میں رکھا جاے۔۔
1. تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب –حصہ اول
2. تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ دوم
3. تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ سوم
اس کتاب کے تیرہ عدد ابواب میں بحث کا جواز، مبالغےاور مغالطے: اسلامی سلطنت کا مغالطہ، پارسائی کا مبالغہ، آزاد میڈیا کا مبالغہ، عدلیہ کے تقدس کا مبالغہ، علم کی ملکیت کا مبالغہ، نگران جماعت کا مبالغہ، قیام خلافت کا مبالغہ، اسلام دشمنی کا مبالغہ، مغربی تہذیب کا مغالطہ اور سیکولرازم کا مغالطہ شامل ہیں۔ تہذیبی نرگسیت کی طرح یہ کتاب بھی تحقیقی حوالہ جات سے عاری ہے جو ابواب و کتاب کے آخیر میں دیے جایا کرتے ہیں۔ جدید تہذیب جسے محترم نے ” احیائے علوم کی تحریک” کے نام سے جگہ جگہ یاد کیا ہے، میں اس زمن کی کتابوں میں اپینڈکس و فٹ نوٹ یا حاشیے کا اندازمستعمل ہے۔ ایسی کتاب جو احیائے علوم کی تحریک کے گن گاتی ہو اگر خود بھی اسکا استعمال کرلے تو کیا ہی اچھا ہو۔
کتاب کا انداز بیاں تقریری ہے اور مغالطوں سے عبارت۔ اپنی پہلی کتاب کی کئی چیزیں دہرائی گئی ہیں جن میں منطقی مغالطے سرفہرست ہیں۔ تہذیب مغرب کی شان میں رطب اللسان ہیں اور اسے جدید انسانی تہذیب قرار دیتے ہیں لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نا آنے کے مصداق اس غالب و دانا تہذیب کی لڑی گئی دو جنگوں پر صاحب کتاب کا قلم بنیادی طور پر معذرت خواہ اور خاموش ہے۔ لیکن جب جناب اسلامی تہذیب کے بخیے ادھیڑنے ہوں تو ہر طرح کی اینکڈوٹ ایک حقیقت بنا کر سامنے لای جاتی ہے ۔ ہیروشیما و ناگاساکی کی تباہ کاریاں ہوں یا ایٹم بم و ہایڈروجن بم کی ایجاد یا نوآبادیاتی نظام ہو، ان سب کے لیے صاحب کتاب کے قلم سے جس قسم کی معذرتیں نکلتی ہیں ان پر بڑے بڑے اپالجسٹس بھی رشک کرتے ہونگے۔ لکھتے ہیں۔
“اگرچہ یورپ کی اقوام نے ان شاندار نظریات کے باوجود دنیا بھر میں نو آبادیات قائم کیں اور ان قوموں پر تسلط جمایا، پھر آج کی دو بڑی جنگیں بھی انہوں نے لڑیں لیکن فاشزم اور نوآبادیاتی نظام کے باوجود ان نظریات کی قوت ان معاشروں میں کم نہیں ہو سکی. بلکہ یہ نظریات دنیا بھر میں نوآبادیات کی آزادی کے لئے بنیاد بن گئے.”
یعنی کہ تم قتل کرے ہو کہ کرامات کرے ہو۔ پھر مغربی تہذیب کی مادر پدر آزادی کے دفاع میں مزید خامہ فرسا ہوتے ہیں کہ:
” اس جدید تہذیب نے انسانوں کی آزادی اور حقوق کو جس انداز سے تسلیم کیا اور اس کے نتیجہ میں یہ فطری تھا کہ ان کے معاشروں میں بعض مبالغہ آمیز ذاتی آزادیاں بھی رائج ہوئیں.خاندان کی شکست و ریخت اور اولاد کی اپنے والدین کے ساتھ حقوق کی برابری کے تصور نے بعض الجھنیں پیدا کیں لیکن یہ اس تہذیب کی بنیادی شناخت نہیں، نہ ہی اس تہذیب کے مفکروں کا اصرار ہے یہ فلسفہ ہے کہ اس تہذیب کے یہ پہلو اپنائے جائیں. جو الجھنیں آزادی کے استعمال سے پیدا ہوئیں ان کے باوجود یہ معاشرے سلامت ہیں یا ان الجھنوں کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.”
کاش محترم نے کبھی یورپ و امریکہ کے جنسی جرائم کا ریکارڈ دیکھا ہوتا۔۔ پھر ایک دور کی کوڑی لاتے ہوے کہتے ہیں
“اصل بات یہ ہے کہ جاگیرداری دور کی وہ ظالمانہ فضیلتیں جو انسان پر انسان کے تسلط کی ضمانت دیتی ہیں اس نئے نظام کے آنے سے خطرے میں پڑ گئیں اور چونکہ مسلمانوں کی بادشاہتوں کا خاتمہ اس صنعتی معاشرے کے ہاتھوں ہوا تھا لہذا اقتدار سے محروم ہونے والے طبقوں کو اس کا بہت قلق تھا”
یعنی اصولا تو یہ نظام بلکل درست لگتا ہے لیکن چونکہ مولانا حضرات کو اپنی سلطنت جانے کا غم تھا، اس وجہ سے وہ اسکے مخالف ہوگئے(مصنف اگر مرعوبیت کی عینک اتار کے دیکھتے تو سب سے ذیادہ انسان پر انسان کے تسلط کی راہ انکے پسندیدہ سرمایہ دارانہ نظام نے ہی ہموار کی ہے)۔
مغالطے مبالغے کے مصنف کی سوانح کچھ ہوں ہے کہ مبارک حیدر صاحب نے نے 1963 میں گارڈن کالج راولپنڈی سے انگریزی ادبیات میں ماسٹرز کیا، وہیں پوسٹ گریجویٹ یونین کے صدر تھے جب ذوالفقارعلی بھٹو سے پہلی ملاقات ہوئی .64ء میں اسلامیہ کالج سے وابستہ ہوئے. کتاب کہتی ہے کہ شاعر اور انقلابی کی حیثیت سے ملک بھر میں پذیرائی ملی. پھر جب پاکستان پیپلز پارٹی معرض وجود میں آئی تو 68ء میں بھٹو نے انھیں لیبر ونگ کا سربراہ مقرر کیا. غالبا یہی وہ نمک ہے جس کو وہ آزاد میڈیا کے مغالطے نامی باب میں حلال کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا قلم عدلیہ کے مغالطے نامی باب میں ایک محقق سے زیادہ ایک جیالے کا خامہ نظر آتا ہے جس کی حب الوطنی کا یہ عالم ہے کہ لکھتے ہیں
“اگرچہ پاکستان عالمی منظر پر کسی مثبت یا پیداواری عمل کی وجہ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا.تا ہم تخریب اور نفی کے کئی میدان ایسے ہیں جن میں ہماری اہمیت دنیا میں نمبر ایک ہے۔”
پھر نفرت از خود کا یہ عالم ہے کہ اپنے افکار بھی میگنا کارٹا کے سر باندھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ رقم طراز ہیں
“بنیادی مفہوم جو احیائے علوم کی تحریک نے سمجھا اور اپنایا، یہ تھا کہ تمام انسان برابر ہیں، تمام انسانوں کو برابر حقوق حاصل ہیں، ان حقوق میں انسانی آزادی، آزادی فکر، آزادی اظہار، آزادی مذہب اور آزادی تنظیم سب شامل ہیں. کسی گورے کو کالے پر، کسی مرد کو عورت پر، کسی ایک نسل کو دوسری نسل پر، کسی ایک مذہب کو کسی دوسرے مذہب پر فوقیت نہیں. رنگ نسل اور قومیتوں کے تعصبات مہمل اور باطل ہیں، بنی نوع انسان کی اس دنیا میں زندگی سب سے بڑی صداقت ہے، یہ زندگی مقدّس ہے اور اس کے تحفظ کے لئے ساری انسانیت کی متحدہ جدوجہد ضروری ہے.”
پھر یاسیت کی انتہا سے خامہ رواں ہوتا ہے کہ
“۔۔۔.لیکن سبھی جانتے ہیں کہ اس دہشت گردی اور انتشار کے پیچھے چاہے کوئی بھی ہو، چاہے پاکستان کے عسکری اندھوں کا کوئی گروہ مال ا اقتدار کے لئے اس ہتھیار کو استعمال کرے یا کوئی عرب طاقت اپنی عالمی سودا بازی میں لگی ہوئی ہو، کوئی سابقہ عالمی طاقت اپنے گرد بننے والے گھیرے کو توڑنے کے لئے کام کر رہی ہے یا کوئی ابھرتی ہوئی طاقت موجودہ واحد سپر پاور کی جگہ لینے کا خواب دیکھ رہی ہو،لیکن ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ افغانستان اور پاکستان کے بدنصیب عوام کی نوجوان نسلیں عالمی رہنما بن جائیں گی یا انہیں دنیا میں کسی بھی طرح سے کوئی فضلیت نصیب ہو سکے گی.جس علمی، معاشی، تنظیمی اور اخلاقی حالت میں ہم اس وقت ہیں یعنی نہ ہماری زراعت ہے نہ صنعت، نہ ادارے ہیں نہ افراد، نہ دنیا میں کہیں سے خوش آمدید کا کوئی پیغام، ایسی حالت میں ہم چاہے پتھر پھینک پھینک کر ساری دنیا کے باغ اجاڑ دیں، باغ ہمارے نہیں ہو سکتے، نہ یہاں کے باغ نہ اگلے جہان کے باغ. ہم شیر،لگڑ بھگے، چیتے جو بھی بن جائیں انسانوں کی کوئی بستی ہمیں اپنا بادشاہ نہ مانے گی. یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہماری میڈیا کا فیصلہ یہ رہا ہے کہ خود کشی کے اس عامل کی جو بھی مخالفت کرے، اسے مختلف بہانوں سے سخت نفرت کا نشانہ بنایا جائے۔”
میڈیا پر مصنف کی نقادانہ نظر بہرحال حقیقت سے قریب تر ہے، اس ضمن میں رقم طراز ہیں
“آسان فضلیت و اقتدار کے طلبگار عناصر نے ہماری اس مریضانہ حالت سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے.چناچہ میڈیا کے وہ دکاندار جن کی نظر میں پیشہ ورانہ صلاحیت کے معنی بلیک میل کی ٹیکنیک اور مال بنانے کی صلاحیت سے آگے کچھ نہیں،ہمارے معاشرے کی نرگسبت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں.چونکہ اس معاشرہ کے خوشحال اور کامیاب طبقوں کو کامیاب ہونے کے لئےعلم اور قدروں کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے بلکہ در حقیقت وہ کامیاب ہی تب ہوئے جب انہوں نے علم اور اقدار سے نفرت کرنا سیکھا اس لئے خبر کی بجاۓ افواہ ان کی پسندیدہ خوراک بنی،کیونکہ خبر کا تعلق تحقیق اور سچائی سے ہے،یہ علم اور اقدار کی طاقت سے نکھرتی ہے،اسے ہضم کرنے کے لئے صحت مند معدہ درکار ہوتا ہے.کھٹیاور کراری مانگنےوالوں کی طلب بڑھنے سے مزید کھٹی اور مزید کرری بیچنے والوں کی دوکانیں چلتی ہیں معدہ کے مریض الله کو پیارے ہوتے رہتے ہیں،لیکن نسل کشی کی طاقت سے مالامال اس تہذیب میں کھانے والوں کی تعداد گھٹتی نہیں،خصوصاً جب سادہ اور صحت بخش خوراک کے لئے خوشحال لوگوں کا دل مائل ہی نہیں ہوتا.دوسری طرف بدخورانی اور زہر خورانی کے زخم بھرنے کے لئے عبادت اور ثواب سہارا بن جاتے ہیں. چناچہ کھٹی اور کراری افواہوں کی ہر دوکان کے ساتھ دینی فضلیت کی دوکانیں پھلتی پھولتی ہیں.ہمارے اخبارات اور چینلز پر کھٹے اور کرارے تبصروں،مکالموں اور خبروں کے ساتھ ساتھ دینی فخرو فضلیت سے بھرپور صفحات،ایڈیشن اور تقاریر اسے حسین امتزاج کی مثالیں ہیں۔”
لیکن حقیقت پسندی، میڈیا میں اخلاقیات و استدلال و دیانت و سچای کا درس دینے کے بعد ان کا قلم یوں رواں ہوتا ہے
“موجودہ سول حکمت پہلی بدنصیب حکمت نہیں،جسے گالیوں،کرپشن کی افواہوں اور مقدموں کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں کا سامنا ہوا ہے.ذوالفقار علی بھٹو کو شہید ہونے تک ہر تذلیل کا سامنا تھا، حتیٰ کہ پار ساۓ اعظم ضیاءالحق نے جیل میں بھٹو کی لیٹرین کے پردے ہٹوا دئیے.کہتے ہیں بھٹو نے اپنی عزت نفس کے تحفظ کے لئے کھانا پینا چھوڑ دیا.ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً چھ فٹ قد کے بھٹو کا وزن پھانسی کے دیں ١٠٠ پاؤنڈ سے بھی کم تھا.ملک کے سارے اہل ایمان،سارے اہل قلم اور عدل کے نگران ضیاءالحق کے آگے سجدہ ریز تھے اور بھٹو کو گالیاں دینے میں ایک سے بڑھ کر ایک.پھر بینظیر اور نواز شریف کی باری آ آئی۔”
یہاں یقینا انہوں نے مصدقہ ذرائع سے ہی بھٹو کے باتھ روم کی صورتحال کا پتا چلایا ہوگا اور اس کا بغیر حوالہ جات کے درج کرنا انکے نزدیک عین محققانہ دیانت ہے۔ اس کتاب کے دیگر مندرجات بھی اسی قسم کے بہت سے مغالطوں اور یک رخی پند و نصایح سے بھرے پڑے ہیں جن کی تفصیلات آپ کتاب پڑھ کر خود جان سکتے ہیں، میری بس اتنی گذارش ہے کہ آپ اس کے ساتھ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی اور تجدید و احیائے دین کا بھی مطالعہ کرلیں تو بہتر ہے کہ یک طرفی معلومات سے قاری کا ذہن متنفر نا ہو۔ آخری بات اس حوالے سے یہ کرتا چلوں کہ کہ جمہوریت کہ حوالے سے لادینی قوتوں کی جو کوششیں اسلام اور جمہوری نظام کو متناقض قرار دینے کے لیے کارفرما ہیں، ان میں صاحب کتاب سرفہرست ہیں، لکھتے ہیں
“۔۔۔.مسلم معاشروں میں جمہوریت کا مقام اب تک ایک خارجی سا رہا ہے جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ مسلم معاشروں میں فضلیت و احترام کا منصب اسلامی اتھارٹی کی بنیاد پر طے ہوتا رہا ہے.بادشاہ اور جاگیردار کو دینی علما کی تائید حاصل رہی ہے اور انسانی علم وعقل یا راۓ کو کبھی وہ سعادت حاصل نہیں ہوئی جو عقائد کو حاصل رہی ہے.اپنے عقائد کو آخری سچائی ماننے والے معاشرہ میں جب فاتح کا غرور بھی شامل ہو جاۓ اور صدیوں کی حکمرانی کی سند بھی،اور جب لوگوں کو یقین ہو کہ ان کی کامرانیوں کا سبب ان کے عقائد ہیں،اور ان عقائد کا علم طبقہ علما کے پاس ہے یا پھر اہل اقتدار کے پاس، تو اجتماعی انسانی رائے یا استدلال کی ضرورت کہاں رہ جاتی ہے.مسلم معاشروں کی ہزار سالہ فتوحات اور کامرانی نے جو فخر پیدا کیا تھا،اسے پچھلے تین چار صدیوں کی پسپائی نے کم کرنے کی بجائے مسخ کردیا ہے.اب فخر کبھی یاد ماضی بن کر،کبھی احساس مظلومیت بن کر ہمیں سیکھنے سوچنے سے روکتا ہے تو کبھی فخر کی یہ مسخ شدہ شکل تشدد اور تنہائی کی طرف دھکیلتی ہے.ہمارے یہ معاشرے جو اپنا کوئی بھی اجتماعی کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتے، حتیٰ کہ خوراک تک کے لئے دنیا کے محتاج ہیں، وہ عالمی مملکت قائم کرنے کے لئے ہر دم تیار ملتے ہیں.
اس سلسلے میں ڈاکٹر فیاض عالم نے جسارت اخبار میں ایک اچھا و مدلل جواب لکھا ہے جسے یہاں نقل کرتے ہوے اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ڈاکٹر حمیداللہ ؒ اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ جیسے عظیم اسکالرز کی تحریروں کو پڑھ کر اسلام میں جس جمہوریت کی گنجائش اور اجازت نظر آتی ہے وہ مغربی سیکولر جمہوریت یقینا نہیں ہے اور نہ ہی ہوسکتی ہے۔ مغربی سیکولر جمہوریت میں کسی ریاست میں قانون سازی کے تمام حقوق عوام کو حاصل ہوتے ہیں کہ ان کے منتخب نمائندے جس طرح قانون چاہیں بنا لیں، مثلاً یہ کہ بعض مغربی ممالک نے مردوں سے مردوں کی اور عورتوں سے عورتوں کی شادی کو قانوناً جائز قرار دے دیا ہے۔ یا بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کو قانونی حیثیت عطا کردی ہے۔ اسلام میں اس طرح کی قانون سازی کے حقوق عوام یا ان کے نمائندوں کو حاصل نہیں ہیں۔ یہاں ایک بنیادی اور بالادست قانون اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عطا فرما دیا ہے جس کی اطاعت اسلامی ریاست کے ذمہ داروں اور عوام دونوں پر فرض ہے۔ اس لحاظ سے اسلامی حکومت جمہوری حکومت نہیں ہوتی بلکہ الٰہی حکومت ہوتی ہی‘ یعنی ایسی حکومت جس میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے بجائے شرعی قوانین نافذ ہوتے ہیں۔ الٰہی حکومت کو انگریزی میں تھیوکریسی (Theocracy)کہتے ہیں۔ لیکن بقول مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ”یورپ جس طرح کی تھیوکریسی سے واقف ہے اس میں ایک مخصوص مذہبی طبقہ (Priest Class) خدا کے نام سے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرتا ہے‘ جبکہ اسلام جس تھیوکریسی کو پیش کرتا ہے وہ کسی مخصوص مذہبی طبقے کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ عام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے‘ اور یہ عام مسلمان اسے خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق چلاتے ہیں۔“ مولاناؒ نے اسلامی حکومت کو الٰہی جمہوری حکومت (Theo-Democratic Government)قرار دیا ہے۔ یعنی ایک ایسی جمہوریت جس میں خدا کے اقتدارِ اعلیٰ کے تحت مسلمانوں کو محدود عمومی حاکمیت عطا کی گئی ہے۔ گویا مسلمانوں کے نمائندے یا اراکینِ شوریٰ ایسے قوانین تو وضع کرسکتے ہیں جن کے متعلق اسلامی شریعت میں کوئی صریح حکم موجود نہ ہو، مثال کے طور پر آج کے دور میں اگر کسی ضلع، صوبے یا ملک کی حکومت کو انٹرنیٹ کے حوالے سے قانون سازی کرنی پڑے یا وہ سائبر کرائمز کو روکنے کے لیے قوانین وضع کریں تو اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق اس حوالے سے قانون سازی کی جائے۔ لیکن عورتوں سے عورتوں کی شادی جیسے غیر شرعی، غیر اخلاقی و غیر انسانی قوانین کسی بھی اسلامی ریاست میں کسی بھی نوعیت کی جمہوری حکومت نہیں بنا سکتی۔ لہٰذا یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام میں جس جمہوریت کی بات کی جاتی ہے وہ مغربی سیکولر جمہوریت نہیں ہے بلکہ قانون سازی کا محدود اختیار رکھنے والی الٰہی جمہوریت یا اسلامی جمہوریت ہے جس میں شرعی قوانین کو لازماً برتری حاصل ہوتی ہے۔ اسلام اور جمہوریت کے حوالے سے تفصیلی معلومات کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تالیف ”اسلامی ریاست“ جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب نے مرتب کیا ہے اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تصنیف ”جدید اسلامی ریاست میں قانون سازی کے مسائل“ کا مطالعہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
تحریر عدنان مسعود