انسانی زندگی کے کچھ خواص ہیں، اور ان خواص کے اعتبار سے کچھ لوازم بھی۔ انسانی زندگی کا مادّی وجود جہاں اس سے بہت سی چیزوں کا تقاضا کرتا ہے، اسی طرح اس کا ایک روحانی وجود بھی ہے، جو اس سے ‘مذہب’ مانگتا ہے۔ انسان مادّی اعتبار سے خواہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہوجائے، اس کا روحانی وجود اسے سکونِ قلب کی طلب پیدا کرکے، اسے اپنے وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ بلکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ مادّیت کی دوڑ میں انسان جس قدر آج بڑھتا جاتاہے، اتنی ہی اس کی روحانی تشنگی بڑھتی چلی جاتی ہے، یہ پیاس ہی مذہب کے وجود کی سب سے بڑی، سب سے وقیع، سب سے وزنی اور عالمگیر دلیل ہے!
سائنس دورِ جدید کے انسان کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے چکی ہے۔ یہ بات بھی درست ہوگی کہ سائنس سے سائنسی ایجادات مراد لی جائیں، لیکن سائنس بذاتِ خودایک طرزِ فکر کا نام ہے، جو گذشتہ زمانے میں بدقسمتی سے، چند خارجی و داخلی وجود کے سبب، اور ابتدائی سطح پر ملنے والی کامیابیوں سے حاصل ہونے والی سرخوشی کے زعم میں مذہب اور خدا کے وجود سے ٹکرا گئی تھی، لیکن اب ہر سطح پر اس کااحساس پیدا ہوچلا ہے کہ سائنس کا میدان اور ہے اور مذہب کے فرائض اور۔ سائنس کامذہبی اُمور میں کوئی دخل نہیں ہے، البتہ مذہب کا سائنسی معاملات میں دخل ضرور ہے، جو کہ برس ہا برس کے تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہوچکا ہے۔ لیکن یہ دخل تعمیری اور مثبت نوعیت کا ہے، منفی اور تخریبی نہیں۔ لہٰذا دونوں میں ٹکراؤ اور تضاد کی کیفیت کا پیدا ہونا ممکن نہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا جب دونوں کے مفادات مشترک ہوتے، اور جب دونوں کا میدانِ عمل ایک ہوتا۔ منطق کی زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں کے مابین ‘عموم وخصوص مطلق’ کی نسبت ہے۔ زیر نظر مضمون میں اسی حوالے سے اسلا م کی تعلیمات کے تناظر میں گفتگو کی گئی ہے، اور مقصد اس غلط فہمی کا ازالہ ہے کہ کیا مذہب سائنس کا مخالف ہے؟ یا اہل مذہب اور اہل سائنس میں حقیقتاً کسی ٹکراؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے؟
سائنس اور مذہب کے اختلافات کا پس منظر :
سائنس اور مذہب کا یہ ٹکراؤ اٹھارہویں اور اُنیسویں صدی کی پیداوار ہے، اور یہی وہ دور ہے جب جدید سائنس کا ظہور ہوا، اور دنیا نے اسے کسی علم بلکہ مکتب ِفکر کے طور پر پہچانا۔ سائنسی دریافتوں میں جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لئے بڑی کشش تھی، پھر اس کا دارومدار مکمل طور پر مشاہدے اور تجربے پر تھا۔ یہ چیزیں انسانی شعور اور عقل کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں اور انسان ظاہر میں نظر آنے والی چیزوں کا اثر زیادہ تیزی سے اور شدت کے ساتھ قبول کرتا ہے۔پھر ایک اور بات بھی ہے، عربی محاورے’ کل جدید لذیذ ‘کے مطابق ہر نئی چیز لذیذ ہوتی ہے۔ سائنس مذہب کے مقابلے میں ایک نئی چیز تھی، ان اسباب و عوامل کی بنا پر لوگوں کا اس کے اثرات تیزی سے قبول کرنا ایک فطری عمل تھا، مگر خرابی یہاں سے شروع ہوئی کہ سائنسی دریافتوں سے جوماحول بنا، اس میں لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اب خدا کی کوئی ضرورت نہیں رہی، اور مذہب ایک فرسودہ روایت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ ان کے نزدیک خدا کو ماننا اس لئے ضروری تھا کہ اس کو مانے بغیر کائنات کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی، اب جدید سائنس نے یہ عقدہ حل کردیا ہے۔ اب ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ یہ کائنات اور اس میں واقع ہونے والا ہر امر ایک سبب کی وجہ سے ہے، اور وہ سبب معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ یہ سب کچھ قانون فطری ہے، Law of Nature کے لگے بندھے اُصولوں کے تحت وقوع پذیر ہورہا ہے۔
دوسری جانب یوں ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں، جو وحی الٰہی پر مبنی تھیں، وقت کے ساتھ ساتھ تغیر اور تحریف نے جگہ پکڑ لی اوریونانی فلسفے نے اس پر غلبہ حاصل کرلیا، اور رفتہ رفتہ فلسفیانہ مباحث مذہب کا جز بن کر تقدس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ فلسفہ بہت سے زمینی حقائق اور معروضی حالات کے خلاف تھا، اور اس میں خیالی اور تصوراتی مفروضوں کی بہتات تھی۔ جب سائنس کی مشاہدے اور تجربات پر مشتمل دریافتیں اور انکشافات سامنے آنا شروع ہوئے تو مذہب کا حصہ بن جانے والے ان مفروضوں میں دراڑیں پڑنے لگیں، جس سے اہل مذہب (کلیسا) نے اپنے وجود کو خطرہ سمجھا، اور یوں اہل سائنس اور اہل مذہب (عیسائیت) کے مابین ایک کشمکش کا آغاز ہوگیا، جس کے نتیجے میں پوپ کے خاص حکم کے تحت احتساب عدالت قائم ہوئی، جس میں تقریباً تین لاکھ افراد کو حاضری دینا پڑی۔ ان کو سخت سزائیں دی گئیں، اور تقریباً ۳۰ ہزار افراد کو زندہ جلا دیا گیا۔ ان سزا یافتگان میں گلیلیو اور برونو جیسے افراد بھی شامل تھے، یہ مذہب اور سائنس کی علیحدگی اور ان کے مابین چپقلش کا نقطہ عروج تھا، اور یہیں سے وہ جنگ شروع ہوئی، جو بالآخر علم اور مذہب کی جنگ بن گئی۔(۱)
جن باتوں نے مذہب (عیسائیت) اور سائنس کے مابین ان سنگین اختلافات کو جنم دیا، ان میں سے بات کو سمجھنے کے لئے صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ ارسطو نے مرکزیت ِزمین کا نقطہ نظر پیش کیا تھا، یہ خالصتاً یونانی فکر تھی جس کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں تھا، مگر چونکہ یہ نظریہ مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ مسیحی مذہب کا حصہ بن چکا تھا، اس لئے جب کوپرنیکس (۱۴۷۳ء تا ۱۵۴۳ئ) نے مرکزیت ِآفتاب کا تصور پیش کیا تو عیسائی پیشواؤں کے ہاں کھلبلی سی مچ گئی، اور انہوں نے کوپرنیکس کی زبان بندی کردی۔ کیونکہ یورپ میں اس وقت مسیحی پیشواؤں کو اقتدار حاصل تھا، جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔(۲)
اس ‘جنگ’ اور محاذ آرائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں میں یہ خیال عام ہوگیا کہ مشاہداتی علم (سائنس) اور مذہب دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، اور ایک کی ترقی دوسرے کے لئے موت کا درجہ رکھتی ہے، حالانکہ یہ خیال واضح طور پر سراسر غلط تھا۔
مگر ان حالات کا نتیجہ یہ نکلا کہ علم (سائنس) لوگوں کو خدا اور مذہب سے دور کرنے والا بن گیا۔ سائنس اور مذہب کا یورپ میں ہونے والا یہ تصادم کوئی دو صدی تک جاری رہا، حتیٰ کہ ۱۸۵۹ء میں ڈارون نے اپنی کتاب Origin of species شائع کی۔چرچ کی جانب سے اس کی بھرپور مخالفت کی گئی، مگر اب چرچ کی طاقت کمزور پڑ چکی تھی، اس لئے رفتہ رفتہ صلح کے امکانات پیدا ہونے لگے، اور بالآخر دونوں کے درمیان سمجھوتہ طے پاگیا، جو دراصل سیکولر ازم (Secularism)کی صورت میں تھا، اب مذہب اور سائنس کے درمیان حدود کار متعین کردی گئیں اور دونوں کے دائرے الگ الگ ہوگئے۔(۴)
یوں کلیسا اور اہل سائنس کے مابین جاری جنگ کا تو خاتمہ ہوگیا، مگر درحقیقت مذہب اور سائنس دونوں نے وہ راستہ اختیار کیا، جو فطرت کے سراسر خلاف تھا، اس لئے رفتہ رفتہ حالات سدھرنے کی بجائے مائل بہ انحطاط ہوتے چلے گئے اور نوبت بہ ایں جارسید کہ مذہب اور خدا ہر اعتبار سے (بزعم خود و بزعم غلط) ان کی زندگیوں سے نکل گیا۔ لیکن یہ ایک غیر فطری رویہ تھا، نتیجۃً خدا پھر بھی موجود رہا، اور مذہب کی ضرورت پھر بھی باقی رہی۔ آخر کمرے میں اپنے آپ کو بند کرکے، اور روشنی کی گزرگاہوں کو ختم کرکے، دن کے وقت میں انسان اپنے آپ کو رات ہوجانے کا تو غلط اطمینان دلا سکتا ہے، مگر سورج کی موجودگی کو تو ختم نہیں کرسکتا۔ یہ تھا سائنس اور مذہب کے اختلافات کا اصل پس منظر، اور جب ہم سائنس، مذہب تعلقات کی بات کرتے ہیں، تو اس پس منظر کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
انکارِ مذہب کا سبب
اب تک کی بحث سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ خدا کے وجود کا انکار قطعاً سائنس کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ مذہب اور مذہبی تعلیمات سے روگردانی اور ان سے لاعلمی کا نتیجہ ہے، لیکن آج کے دور میں انکارِ مذہب کا ایک اہم سبب اور بھی ہے، اور اسے بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ وہ سبب مغرب کے ہاں پھیلتا اور بڑھتا ہوا تصورِ آزادی ہے، جس کو ہم ‘مادر پدر آزادی’ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یہ آزادی رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے اب اس مقام انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ اب ان کو ہر اس معقول چیز سے بھی خوف آنے لگا ہے، جو ان کی اس خود ساختہ آزادی کو ذرابھی قدغن لگاتی ہو۔ خدا اور مذہب کے انکار کے پیچھے بھی یہی تصور کارفرما ہے، یہی وہ بنیادی خوف ہے، جو انہیں انکارِ مذہب کے لایعنی فعل پر اُکسا رہا ہے۔ ایک امریکی ماہر طبیعات جارج ہاربرٹ(George Herbert Blovnt) ان چند لوگوں میں سے ہیں، جنہیں اس امر کا اعتراف ہے، وہ کہتے ہیں :
”مذہب (خدا پرستی) کو ماننے کی معقولیت، اور خدا سے انکار کی غیر معقولیت بذاتِ خود ایک آدمی کے لئے عملاً خدا پرستی اختیار کرنے کا سبب نہیں بن سکتی۔ لوگوں کے دلوں میں یہ خوف چھپا ہوا ہے کہ خدا کو ماننے کے بعد آزادی کا خاتمہ ہوجائے گا، وہ اہل علم جو ذ ہنی آزادی کو دل و جان سے پسند کرتے ہیں، ان کے لئے اس آزادی میں کمی یا محدودیت کا کوئی بھی تصور بڑا تشویشناک ہے۔”(۵)
اللہ کا پیغام کسی نہ کسی نبی ہی کے توسط سے ہم تک پہنچا ہے ، اور اس نبی کا پیغام تسلیم کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی بات کو خدا کی بات تسلیم کیا جائے، اس لئے جب وہ کوئی بات کہے تو تمام لوگوں کیلئے اس کو تسلیم کرنا ضر وری ہوگا، اور یہ بات ان لوگوں کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتی، جو عقل کو بلکہ صرف اپنی ہی عقل کو سب کچھ تصور کرکے اس کی پیروی کو ضروری سمجھتے ہیں۔
سائنس اور مذہب –افراط و تفریط کا جائزہ
جب تک اس امرکی وضاحت نہ ہوجائے کہ سائنس اور مذہب کے درمیان کس نوع کا اختلاف ہے؟ اس وقت تک ہمارا یہ دعویٰ صحیح صورت میں سامنے نہیں آسکتا کہ سائنس اور مذہب کے مابین دراصل میدانوں کا فر ق ہے۔ دونوں کے میدان الگ الگ ہیں، اس لئے ان دونوں کی خدمات کو گڈمڈ نہیں کیاجاسکتا، اور جو خرابی بھی پیدا ہوئی ہے، اس کا سبب بھی یہی ہے کہ ہم نے دونوں کے دائرہ کار کو باہم گڈمڈ کر دیا ہے۔ اگر یہ بات واضح ہوجائے تو ظاہر ہوجائے گا کہ سائنس کو مانتے ہوئے، اس پر عمل کرتے ہوئے اور اس سے متمتع ہوتے ہوئے بھی مذہب کو خصوصاً مذہب ِاسلام کو تسلیم کیا جاسکتا ہے ، اور اس کے مطالبات پورے کئے جاسکتے ہیں، دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے…!!
اوپر بیان ہوچکا ہے کہ یہ اختلاف اس وقت پیدا ہوا، جب اہل سائنس نے یہ جان لیا کہ دنیا کا نظام قانونِ فطرت پر چل رہا ہے، اور کائنات میں پیش آنے والے واقعات ایک متعین قانونِ فطرت کے مطابق رونما ہورہے ہیں، اس لئے ان کی توجیہ کرنے کے لئے کسی نامعلوم اور غیر موجود خدا کا وجود فرض کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ضرورت اس وقت تھی، جب تک ان واقعات کی توجیہ ہمارے سامنے نہیں آئی تھی۔ حالانکہ ذرا سا غور وفکر کرنے والے پر بھی اس استدلال کی غیر معروضیت اور سطحیت واضح ہوسکتی ہے۔ سوال تو یہ تھا کہ اس کائنات کے نظام کو برقرار اور مثبت طریقوں پر قائم رکھنے والی ایک اتھارٹی ناگزیر ہے، اور اس ذات کی ناگزیریت اب بھی علی حالہٖ قائم ہے، کیونکہ اب تک کی تگ و دو سے سائنس نے جو کچھ معلوم کیا ہے، وہ قانونِ فطرت کی صورت میں صرف اس سوال کا جواب ہے کہ یہ کائنات کیا ہے؟ مگر مذہب جس سوال کا جواب دے رہا ہے، وہ یہ ہے کہ جو کچھ اس طرح طے شدہ پروگرام اور پورے نظم و ضبط کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ وقت اور مدت پر پیش آرہا ہے، وہ کیوں ہورہا ہے؟
مذہب ان واقعات کے اصل اسباب و محرکات پر گفتگو کرتا ہے، لہٰذا سائنس کی دریافتوں کے باوجود مذہب کی ضرورت موجود و برقرار ہے، بلکہ اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے، جب سائنسی توجیہات پر غوروفکر کرنے والا شخص ڈور کا اصل سرا نہیں پاتا، اور یوں اسے اپنی زندگی میں خلا محسوس ہونے لگتا ہے۔ایک امریکی ماہرحیاتیات سی سیل بوائس ہمن(Cecilboyce Hamann) اس بارے میں کہتا ہے:
”غذا ہضم ہونے اور اس کے جزوِ بدن بننے کے حیرت انگیز عمل کو پہلے خدا کی طرف منسوب کیا جاتا تھا، اب جدید مشاہدے میں وہ کیمیائی ردّعمل کا نتیجہ نظر آتا ہے، مگر کیا اس کی و جہ سے خدا کے وجود کی نفی ہوگئی؟ آخر وہ کون سی طاقت ہے، جس نے کیمیائی اجزا کو پابند کیا کہ وہ اس قسم کا مفید ردّ عمل ظاہر کریں، غذا انسان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد ایک عجیب و غریب خود کار انتظام کے تحت جس طرح مختلف مراحل سے گزرتی ہے، اس کو دیکھنے کے بعد یہ بات بالکل خارج از بحث معلوم ہوتی ہے کہ یہ حیرت انگیز انتظام محض اتفاق سے وجود میں آگیا، حقیقت یہ ہے کہ اس مشاہدے کے بعد تو اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ خدا اپنے ان عظیم قوانین کے ذریعے عمل کرتا ہے، جس کے تحت اس نے زندگی کو وجود دیا ہے۔”(۶)
درحقیقت سائنسی تگ و دو نے ہمیں واقعے کی صحیح تصویر تو دکھا دی ہے ، مگر یہ واقعہ درست طور پر کیونکر پیش آتا ہے؟ اس تک سائنس رسائی حاصل نہیں کرسکتی، قوانین فطرت کیسے وجود پذیر ہوئے؟ ان کو درست نہج پر کس نے استوار کیا؟ اور پوری کائنات کا یہ ڈھانچہ، جس سے یہ کائنات متمتع ہورہی ہے، کس طرح اس قدر صحت و توازن کے ساتھ قائم ہے کہ اس کو دیکھ کر سائنسی قوانین اَخذ و ترتیب دیے جارہے ہیں؟ ان سوالات کا جواب سائنس نہیں دے سکتی، اور اس لئے نہیں دے سکتی کہ یہ اس کے دائرئہ اختیار میں ہی نہیں آتے، اس کے لئے مذہب کی جانب رجوع کرنا ہوگا، اور یہی وہ ذریعہ ہے جو انسان کی تشنگی بجھا سکتا ہے۔
سائنس اور مذہب کے مابین مفاہمت کا درست اور قابل عمل طریقہ کار یہی ہے کہ اس ضمن میں پھیلی ہوئی غلط آرا، غلط خیالات و تصورات اور فضا کو پراگندہ کرنے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے، خصوصاً اسلام کے حوالے سے یہ بات واضح کردی جائے کہ سائنسی ایجادات اور اسلامی تعلیمات میں کوئی تباین نہیں، کوئی تضاد نہیں ہے۔ اور اگر کسی مقام پر ایسا نظر بھی آتا ہے، تو وہ عارضی ہے، اور اسلامی تعلیمات کی کنہ اور حقیقت تک رسائی حاصل نہ ہوسکنے کا نتیجہ ہے یا سائنسی تجربے اور مشاہدے کا نقص ہے۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ”سائنس علت و معلول کی ہر کڑی میں غایت (Purpose)کو ضرور شا مل کرے، اگر اس نے سلسلہ واقعات کی ہر کڑی میں مقصدیت کو تسلیم کرلیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے خدا کے وجود کو تسلیم کرلیا، اس کے ضابطہ اخلاق کو تسلیم کرلیا۔ یومِ حساب کو تسلیم کرلیا، اور سائنس کی سرکشی نے خدا کے وجود کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔(۷)
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ شرط کوئی نئی نہیں، نہ پہلی بار پیش کی گئی ہے، نہ سائنس اس سے نا آشنا ہے، بلکہ اس شرط کے ذریعے سائنس کو اس کا بھولا ہوا سبق پھر سے یاد کرایا جارہا ہے اور اسے اس بات کی دعوت دی جارہی ہے جس پر وہ اس سے پہلے خود قائم تھی۔ برٹرینڈرسل کہتا ہے
”سائنس کے دائرۂ کار میں یہ با ت پہلے بھی شامل رہی ہے، لامذہبیت اختیار کرنے سے پہلے تک سائنس واقعات کے ہر سلسلے کو مذہب کی طرح علت، معلول اور غایت پر منحصر سمجھا کرتی تھی۔”(۸)
پھر اہم بات یہ ہے کہ غایت/مقصدیت کو اگر سائنس میں شامل کرلیا جائے تو مطالعہ سائنس میں زیادہ معنویت پیدا ہوسکتی ہے، ایک فاضل محقق کے بقول : ” مقصدیت کو سائنس میں شامل کرلینے سے ہر مضمون میں علت اور معلول کی حکمتوں تک انسان کی رسائی ہوسکے گی، اس کے بعد سائنس کامطالعہ زیادہ بامعنی ہوجائے گا۔ اس کام میں مسلمان سائنس دانوں پر بہت اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہم اس اُصولِ مفاہمت کے مذہبی سطح پر پہلے ہی سے قائل ہیں، اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس اُصول کو سائنس کی آئیڈیالوجی بنائیں، اور اس آئیڈیالوجی سے عالمی سائنس کو روشناس کرائیں۔”(۹)
یہ گفتگو اس اعتبار سے تھی کہ سائنس مذہب کا انکار کرکے جن خطرات سے دوچار ہورہی ہے، ان سے بچنے کا محفوظ طریقہ مذہب کے زیرسایہ آجانے کے سوا کچھ نہیں ہے، یہی فطرت کا تقاضابھی ہے۔ لیکن ایک اور پہلو سے بھی سائنس کو مذہب کی چھتری درکار ہے، سائنس نے انکشافات و اکتشافات کے میدان میں تو یقینا بے حد ترقی کرلی ہے، مگر وہ اخلاقیات اور نفسیات کے میدان میں بہت پیچھے ہے، ان میدانوں میں اس کے انحطاط پر یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ سائنس جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے، اخلاقیات کے میدان میں اس کا تنزل اور انحطاط اسی رفتار سے زیادہ ہورہا ہے۔(۱۰)
ان حالات میں خصوصاً کسی ایسی رکاوٹ کی ضرورت ہے، جو سائنس کو ان تنزلیوں کا شکار ہونے سے روک سکے، اور اسے ایک ایسا مربی درکار ہے، جو اسے بتا سکے کہ اسے کیا کرنا ہے، اور کن اُمور سے اپنے آپ کو باز رکھنا ہے؟ مختصر لفظوں میں یہ کہ اس کی حدودِ کار کیا ہیں؟ جدید سائنسی تحقیقات و ایجادات کے بعد اس کی ضرورت یوں بھی بڑھ گئی ہے کہ ان کے نتیجے میں ایسے عوامل سامنے آرہے ہیں، جن کی موجودگی پوری انسانیت کے لئے خطرہ بن رہی ہے۔ ان کی مثال میں دو چیزوں:مہلک ایٹمی و جراثیمی ہتھیار اور سائنسی ایجادات سے متاثر ہونے والے عالمی ماحول کو پیش کیا جاسکتا ہے، جنہوں نے پوری دنیا میں موجود امن پسند اور دردِ دل رکھنے والے اصحابِ علم اور اصحابِ فکر ونظر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
اس خطرے کو بھی مذہب اور بالخصوص اسلام ہی ٹال سکتا ہے جو اس سمت میں بھی واضح اور دوٹوک رہنمائی کرتا ہے۔ اس کا سادہ اور واضح اُصول یہ ہے کہ جو چیزیں انسانیت کے لئے مفید ہیں، وہ اختیار کرنا ضروری ہیں۔ اور جن سے انسانوں بلکہ کائنات کو کسی بھی قسم کے ضرر پہنچنے کا خدشہ ہو تو اس سے احتراز ضروری ہے، اور اگر اس سے فوائد بھی وابستہ ہوں تو ایسی تدابیر اختیار کی جائیں، جن سے اس کی مضرت ختم ہوجائے… یہ ہے اسلامی نقطہ نظر کا خلاصہ!
یہ صورتِ حال عرصے سے اہل علم کو مضطرب کئے ہوئے ہے اور ا س کا احساس غیر مسلم مفکرین کو بھی ہے، اور غوروفکر کے بعد وہ بھی اِسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس مشکل سے نکلنے کا واحد حل مذہب ہے۔ریان ایپل یارڈ (Reyenaple Yard) اپنی کتاب عصر حاضر کی تفہیم (Understanding the Present) میں اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے: ”سائنس کی کوئی اخلاقیات یا ایمان نہیں ہے، اور وہ ہمیں ہماری حیات کے معنی، مقصد اور اہمیت کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی، لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ سائنس کی فیضاتی کارکردگی ثابت کرتی ہے کہ وہ سب چیز یں مہیا کرسکتی ہے۔ لوگوں میں اس غلط خیال کو مستحکم کرنے میں سائنسی لٹریچر پیدا کرنے والوں کا بڑا ہاتھ ہے، جو عموماً ناقص بلند آہنگ اور اکثر غلط ملط مقبولِ عام لٹریچر لکھتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سائنس کو واپس کھینچ کر ثقافت و تہذیب کے دائرے میں لایا جائے، تاکہ اس کے بدترین استعمالات اور بھیانک دعوؤں کو لگام دی جاسکے۔”(۱۱)
ایک اور دانشور جو خود بھی فزکس کے پروفیسر ہیں، فرٹ جوف کیپر نے سائنس کے فروغ اور سائنسی رجحانات میں اضافے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تبصرہ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: ”ہماری صدی، یعنی بیسویں صدی کے گذشتہ دو دہے کے آغاز میں ہم اپنے آپ کو گہرے عالمگیر بحران کی حالت میں پاتے ہیں، یہ مختلف الجہات بحرانوں کا مجموعہ ہے۔ جس کے اثرات ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں یعنی صحت اور سامان زندگی، ماحول کی کیفیت، سماجی تعلقات، معیشت، صنعت اور سیاست کو چھوتے ہیں۔ یہ بحران، ذہنی، اخلاقی اور روحانی سمت کا ہے۔ یہ بحران ہے میزان اور ضرورت کا، جس کی کوئی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی، پہلی مرتبہ ہمیں نسل انسانی اور اس کے کرۂ ارض کے تمام جانداروں کو ہلاکت کی حقیقی دھمکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔”(۱۲)
آگے چل کر کیپر، نیوٹن کے نظریۂ حرکت کے طبیعاتی دنیا میں انقلابی اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے:
”مطلق عالمگیر مشین کی اس تصویر میں ایک خارجی خالق مضمر ہے، یعنی ایک شہنشاہ خدا، جس نے دنیا میں اپنے آسمانی قوانین کے نفاذ کے ذریعے حکومت کی ہے، طبیعاتی مظاہر کو کسی بھی معنی میں بجائے خود آسمانی نہیں سمجھا گیا، اور سائنس نے ایسے کسی خدا پر یقین کو زیادہ سے زیادہ مشکل بنا دیا اور تقدس سائنس کے عالمی نظریے سے مکمل طور پر غائب ہوگیا، جس کے نتیجے میں روحانی خلا پیدا ہوا، جو ہمارے تہذیبی دھارے کی خصوصیت بن گیا ہے۔”(۱۳)
اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ان دو وجوہ کی بنا پر، جن میں پہلی وجہ سائنس کے فروغ سے روحانی دنیا میں پیدا ہونے والا خلاہے، اور دوسری وجہ اخلاقی، تہذیبی اور ثقافتی بحران ہے، سائنس کے لئے مذہب کو قبول کرنا ضروری ہوگیا ہے۔پھر اہم بات یہ ہے کہ اسلام سائنس کو نہ صرف قبول کرتا ہے، بلکہ وہ خود تجربے اور مشاہدے نیز غوروفکر کی دعوت دیتا ہے، البتہ اس کا مدعا اس سے یہ ہوتا ہے کہ انسان اس تدبر اور غوروفکر کے ذریعے اس کائنات کے ربّ تک پہنچ سکے، اور پھر بعد کے اقدام کے طور پر وہ اس کے احکامات کی بھی بجاآوری کرسکے، یہی انسانیت کی معراج ہے اور یہی اسلام کا مطالبہ ہے!!
حواشی وحوالہ جات
۱۔مولانا وحید الدین خان،اسلام اور عصر حاضر، فضلی سنز پرائیویٹ لمیٹڈ کراچی، ۱۹۹۶ء ، ص۱۱۳، کسی قدر اضافے اور ترمیم کے ساتھ یہ تفصیل اسی کتاب سے ماخوذ ہے۔
۲۔نفس مصدر، ص۱۱۲، نیز دیکھئے: سائنس اور مذہب میں مفاہمت، حفیظ الرحمن صدیقی، مشمولہ سہ اشا عتی آیات، مدیر ڈاکٹر محمد ریاض کرمانی، مرکز الدراسات العلمیہ، علی گڑھ، ج سوم، ش اوّل، جنوری تا اپریل ۱۹۹۲ء ص۳۷ــ۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ کوپرنیکس کے نظریے کے بعد گلیلیو (۱۶۲۴ تا ۱۵۶۲ئ) نے بھی اس کی تائید کردی، اور یوں ان کے ہاں ایک تقدس پاجانے والا نظریہ غلط ٹھہرا، اس کی یہ تغلیط خالصتاً ایک علمی بحث تھی، جیسا کہ آگے چل کر بیان ہوگا کہ مسلم دنیا نے اسے ایک علمی بحث کے طور پر ہی لیا۔ مگر ایک غلط نظریے کی تغلیط بدقسمتی سے عیسائیت کی تغلیط سمجھ لی گئی، جس کے نتیجے میں بعد میں افسوسناک واقعات رونما ہوئے۔
۳۔القرآن، سورۂ فاطر، آیت ۲۸ ۴۔اسلام اور عصر حاضر،ص۱۱۴ ۵۔Georee Herbert Blount, The Evidence of God, p.130 ۶۔Cecil Boyce Hamann,The Evidence of God in an Expanding Universe. p.221 ۷۔حفیظ الرحمن صدیقی، سائنس اور مذہب میں مفاہمت، مشمولہ سہ اشا عتی آیات، مدیر ڈاکٹر محمد ریاض کرمانی، مرکز الدراسات العلمیہ، علی گڑھ، ج سوم، ش اوّل، جنوری، اپریل ۱۹۹۲ئ، ص۴۱
۸ ۔Bertrand Rusel, The Impact of Science on Society, London, 1952, P.18-19
۹۔حفیظ الرحمن صدیقی، محولہ بالا۔ ۱۰۔ملاحظہ کیجئے راقم کا مضمون ‘مغرب کا سائنسی و نفسیاتی زاویۂ فکر، تدریج و ارتقا، سہ ماہی منہاج،مدیر حافظ سعد اللہ، دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، لاہور، ستمبر ۲۰۰۲ء
۱۱۔سائنس اور آج کی دنیا، ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور،دسمبر ۱۹۹۴ء
۱۲۔دیکھئے فرٹ جوف کیپر کی کتاب ٹرننگ پوائنٹ (The Turning Poing, p.21) ۱۳۔محولہ بالا
۱۔مولانا وحید الدین خان،اسلام اور عصر حاضر، فضلی سنز پرائیویٹ لمیٹڈ کراچی، ۱۹۹۶ء ، ص۱۱۳، کسی قدر اضافے اور ترمیم کے ساتھ یہ تفصیل اسی کتاب سے ماخوذ ہے۔
۲۔نفس مصدر، ص۱۱۲، نیز دیکھئے: سائنس اور مذہب میں مفاہمت، حفیظ الرحمن صدیقی، مشمولہ سہ اشا عتی آیات، مدیر ڈاکٹر محمد ریاض کرمانی، مرکز الدراسات العلمیہ، علی گڑھ، ج سوم، ش اوّل، جنوری تا اپریل ۱۹۹۲ء ص۳۷ــ۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ کوپرنیکس کے نظریے کے بعد گلیلیو (۱۶۲۴ تا ۱۵۶۲ئ) نے بھی اس کی تائید کردی، اور یوں ان کے ہاں ایک تقدس پاجانے والا نظریہ غلط ٹھہرا، اس کی یہ تغلیط خالصتاً ایک علمی بحث تھی، جیسا کہ آگے چل کر بیان ہوگا کہ مسلم دنیا نے اسے ایک علمی بحث کے طور پر ہی لیا۔ مگر ایک غلط نظریے کی تغلیط بدقسمتی سے عیسائیت کی تغلیط سمجھ لی گئی، جس کے نتیجے میں بعد میں افسوسناک واقعات رونما ہوئے۔
۳۔القرآن، سورۂ فاطر، آیت ۲۸ ۴۔اسلام اور عصر حاضر،ص۱۱۴ ۵۔Georee Herbert Blount, The Evidence of God, p.130 ۶۔Cecil Boyce Hamann,The Evidence of God in an Expanding Universe. p.221 ۷۔حفیظ الرحمن صدیقی، سائنس اور مذہب میں مفاہمت، مشمولہ سہ اشا عتی آیات، مدیر ڈاکٹر محمد ریاض کرمانی، مرکز الدراسات العلمیہ، علی گڑھ، ج سوم، ش اوّل، جنوری، اپریل ۱۹۹۲ئ، ص۴۱
۸ ۔Bertrand Rusel, The Impact of Science on Society, London, 1952, P.18-19
۹۔حفیظ الرحمن صدیقی، محولہ بالا۔ ۱۰۔ملاحظہ کیجئے راقم کا مضمون ‘مغرب کا سائنسی و نفسیاتی زاویۂ فکر، تدریج و ارتقا، سہ ماہی منہاج،مدیر حافظ سعد اللہ، دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، لاہور، ستمبر ۲۰۰۲ء
۱۱۔سائنس اور آج کی دنیا، ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور،دسمبر ۱۹۹۴ء
۱۲۔دیکھئے فرٹ جوف کیپر کی کتاب ٹرننگ پوائنٹ (The Turning Poing, p.21) ۱۳۔محولہ بالا