بعض اصطلاحات، جو کہ کچھ علوم اور فنون میں استعمال ہوتی ہیں، بسا اوقات ہمارے ذہنوں کو ایک جامد اور بے روح ساخت دے دیتی ہیں اور پھر رفتہ رفتہ ہم اسی ساخت کے پابند ہو جاتے ہیں۔ تب حقائق کو ہم انہی اصطلاحات کے قالب میں رکھ کر دیکھنے کے قابل رہ جاتے ہیں۔ یوں حقائق پر اصطلاحات غالب آجاتی ہیں اور حقائق فنون کے ملبے تلے آجاتے ہیں!
حقائق کو جاننے اور سمجھنے کیلئے آپ کوئی سی بھی زبان استعمال کر سکتے ہیں۔ جب تک حقائق اپنی ساخت نہیں بدلتے یا کسی خاص ساخت کا پابند نہیں کر دیے جاتے تب تلک کوئی سے بھی الفاظ اور پیرائے آپ حقائق کے بیان اور تفہیم کیلئے اختیار کر سکتے ہیں مگر معاملہ جب اس حد سے گزر جائے اور الفاظ، اصطلاحات اور فنون حقائق کی قیدگاہ بنا دیئے جائیں تو ان کو اس سے آزاد کرا دینا بھی ازحد ضروری ہو جاتا ہے۔
اشیاءکو عقلی دلائل سے ثابت کرنا، اشیاءکو شرعی دلائل سے ثابت کرنا …. بڑی حد تک ایک دوسرے کی ضد ہو گیا ہے۔ بعض لوگوں کو ’عقلی دلائل‘ لطف دیتے ہیں اور بعض کوصرف اور صرف ’شرعی دلائل‘ سے ہی غرض ہوتی ہے اور کچھ اس طرح کہ جیسے ’شرعی دلیل‘بتاتے ہوئے ’عقل‘ کو چڑانا مقصود ہو!
’شریعت میں عقل کا کیا کام؟‘ یہ انداز فکر ایک بڑی تعداد کے ہاں اختیار کیا گیا ہے۔ ’جب تک عقلی توجیہ نہ ہو جائے تب تک شریعت کی باتیں جمود کی علامت دکھائی دیتی ہیں‘ دوسری جانب یہ طرز فکر بھی کچھ کم مقبول نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں تضاد کیونکر فرض کرلیا گیا؟ آخر اس ’مقابلے‘ کی نوبت ہی کیونکر آئی؟ عقل اور شریعت میں مغایرت کے قالب میں ہمیں کس نے قید کردیا ہے؟ یہ کچھ فنون کو اور ان میں پائی جانے والی اصطلاحات کو حد سے بڑھا دینے کا ہی تو نتیجہ ہے جس کے باعث ہم صدیوں سے اس جدلیات (ڈائيلکٹس) کا اسیر ہو گئے ہیں۔
انبیاءدنیا میں آئے تو وہ ’فطرت‘ اور ’عقل‘ ہی، جو کہ انسانوں کو خدا کی جانب سے ودیعت ہوئی ہے، انبیاءکا استقبال کرتی رہی۔ انبیاءکی ساری دلچسپی اس انسانی فطرت اور عقل سے ہی رہی اور وہ اسی کو جلا دینے میں کوشاں رہے کہ یہی وہ قابلیت ہے جس سے انسان اس جوہر نایاب کو پہچان سکتا ہے جو انبیاءخدا کے ہاں سے ان کی فلاح کیلئے لے کر آیا کرتے تھے۔ انسانیت کا یہ اصل جوہر ہی نبوت کے جوہر کی شناخت کر سکتا ہے اور اس کو سراہ لینے (ايپريشي ايٹ کرنے) اور اس سے لطف اور راحت پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پھر انبیاءنے انسانوں کو خدا کی جانب سے جو کچھ پہنچایا اس کی ہر بات عقل کو لگتی تھی۔ بے شک نبی کی بتائی ہوئی کوئی بات انسان کو پورری طرح سمجھ نہ آپائے پھر بھی عقل اس کے حق ہونے کی ہی شہادت دیتی تھی۔
کسی بات کی ’سمجھ نہ آپانا‘ اس کا ’خلاف عقل‘ ہونا نہیں۔ صرف شریعت نہیں، عقل بھی یہی کہتی ہے!
پس وہ بہت سے امور جن کو ’عقل‘ کی بنیاد پر رد کیا جاتا ہے یا ’عقل‘ کی بنیاد پر پرکھنے کی بات کی جاتی ہے، اگر نبوت سے ثابت ہوتے ہیں تو ان کو رد کرنے اور پرکھنے کی بات سب سے پہلے عقل ہی کے خلاف ہے۔
پھر اسی طرح نبوت کی بات کو ایک خشک نص بنا کر رکھ دینا اور چوں وچرا نہ کرنے کی رو میں انسان کے عقلی اور فطری قویٰ کو معطل کر دینا اور اس کو کلام نبوت سے ایک قدرتی اور بے ساختہ انداز کا تفاعل نہ کرنے دینا خود مقاصد شریعت ہی کے خلاف ہے۔
یہ دونوں متعارض رویے جو مختلف طبقوں میں کم یا زیادہ پائے جاتے ہیں دراصل ایک تاریخی جدل کا نتیجہ ہیں جبکہ اُمت کو اپنے اسی اصل پہ واپس آنا ہے جس پر سلف تھے اور اس زمانہ میں تھے جب یہ جدل نہیں پایا گیا تھا۔
یہ ایک خوامخواہ کا معرکہ تھا جو ایک فریق کی عاقبت نااندیشی نے چھیڑ دیا تھا۔ مگر یہ کہ یہ معرکہ ہمارے ذہنوں کی ساخت میں بیٹھ جائے اور ہم اسی کا ردعمل ہو رہیں، یہ ہمارے مقام سے فروتر ہے۔ یہ نہ ’شرعی‘ رویہ ہے اور نہ ’عقلی‘۔
ایک شرعی دلیل آخر عقلی دلیل کیوں نہیں کہلا سکتی؟
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کتاب النبوات میں کچھ قرآنی دلائل کی مثالیں دیتے ہیں:
”لوگو! اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو (ذرا یہ سوچو) ہم نے تمہیں مٹی سے ہی تو پیدا کیا، پھر ایک ٹپکتے قطرے سے، پھر ایک خون کے لوتھڑے سے، پھر ایک گول مول بوٹی سے جس پر کہیں نقش نکل آئے ہوتے ہیں اور کہیں نہیں نکلے ہوتے …. اس لئے کہ ہم تم پر (یہ) معاملہ کھول دیں….“
”پھر تم دیکھتے ہو کہ زمین بے حس وحرکت پڑی ہے پھر کیا ہوتا ہے جونہی ہم نے اس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور لگی قسما قسم خوش منظر نباتات اگانے“۔
تب اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ فرماتا:
”یہ سب کچھ اسی لئے توہے کہ اللہ ہی حق ہے (خدا ہی سب سے بڑی حقیقت ہے) اور یہ کہ وہ مردوں کو جلاتا ہے اور یہ کہ اسے ہر چیز پرکامل قدرت ہے اور یہ (دلیل ہے اس بات کی) کہ قیامت کی گھڑی آکر رہے گی، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں اور یہ کہ اللہ ان لوگوں کو، جو قبروں میں دفن پڑے ہیں، زندہ کرلینے والا ہے“۔
پھر اسی طرح سورہ مریم کی یہ آیت:
”انسان کہتا ہے کیا جب میں مر چکوں گا تو پھر زندہ کرکے نکال لایا جاؤں گا!؟ انسان کو کیا اتنا بھی یاد نہیں کہ پہلے بھی تو آخر ہم اس کو پیدا کر ہی چکے ہیں، جبکہ وہ کوئی چیز ہی نہ تھا!؟؟
اس کے بعد شیخ الاسلام تحریر کرتے ہیں:
”پس انسان کی تخلیق سے خالق (کے وجود، اس کی قدرت اور اس کی وعید کی سچائی) پر استدلال کرنا ایک حد درجہ عمدہ اور مستقیم طرز استدلال ہے۔ یہ خالصتاً عقلی طریقہ ہے اور درست طریقہ ہے۔ اور یہ بیک وقت شرعی ہے۔ قرآن اس پر باقاعدہ دلالت کرتا ہے۔ اسی طرز استدلال کی جانب قرآن راہنمائی کرتا ہے اور اسی کو بار بار واضح کرتا ہے۔ سو یہ شرعی طریقہ ہوا۔ اور یہ عقلی بھی ہے۔ کیونکہ انسان کا جب کہیں نام نشان نہ تھا تو اس کے بعد اس کا یوں پایا جانا اور پھر اس بنی نوع انسان کا وجود میں آنے کیلئے منی کے ایک ٹپکتے قطرے سے برآمد ہونا اور پانی کی اس بوند سے پہلے اس کا لوتھڑا بننا اور پھر لوتھڑے سے بوٹی بننا اور پھر آخرکار اس سے ایک جیتا جاگتا انسان بن کر نکل آنا …. یہ کوئی ایسی بات تھوڑی ہے جو انسانوں کو محض رسول کے بتانے سے ہی معلوم ہو پائی ہو۔ بلکہ یہ بات تو سب انسانوں کو معلوم ہی ہے اور جو کہ ان کو خود عقل ہی کی بدولت معلوم ہوئی ہے۔ رسول یہ بات ان کو بتائے تب ان کو یہ معلوم ہے اور نہ بتائے تب معلوم ہے۔ مگر رسول ان کو کہتا ہے کہ وہ اس سے باقاعدہ استدلال کریں اور ایک نتیجہ تک پہنچیں۔ رسول ان کو استدلال کی یہ راہ دکھاتا ہے اور اس کو واضح کرتا ہے اور پھر اسی کو حجت بناتا ہے۔ پس یہ شرعی دلیل ہے کیونکہ شارع نے اس سے استدلال کیا ہے اور اس سے استدلال کرنے کا حکم دیا ہے۔ پھر یہ عقلی ہے کیونکہ عقل سے ہی یہ بات سمجھ آتی ہے اور اس کے درست نتیجہ تک پہنچا جاتا ہے“۔
’علم‘ یا ’دانش‘ یا ’معرفت‘ وغیرہ تک قطعی رسائی کا جو مسئلہ ہے اور اس معاملہ میں جو لوگ بحث ونزاع کرتے ہیں …. ان میں کی اکثریت اس طرز استدلال کو اختیار کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اور تب ان کا نزاع یہ ہو رہتا ہے کہ دانش کا مصدر آیا شرع ہے یا عقل؟ (یعنی یا شرع ہو گی اور یا پھر عقل۔ گویا یہ طے ہے کہ ان دونوں کی آپس میں لگتی ہے!! معاذ اللہ)
قرآن اسی طرح کی دلیلوں سے بھرا ہوا ہے۔ مثلاً بادلوں کے اٹھنے اور بارشیں برسانے سے استدلال کیا جانا۔ جو کہ قرآن میں ایک نہیں متعدد مقامات پر مذکور ہوا ہے۔ (یہ ایک مثال ملاحظہ کیجئے)
”اور کیا ان لوگوں نے یہ منظر کبھی نہیں دیکھا کہ ہم ایک بے آب وگیاہ زمین کی جانب پانی کو ہانک لاتے ہیں اور پھر اس کے ذریعے ہم (اسی زمین سے) وہ ساری کھیتیاں برآمد کر لاتے ہیں جس سے ان کے چوپائے پیٹ بھرتے ہیں اور یہ خود بھی ۔ کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں؟“
چنانچہ یہ وہ چیز ہے جو آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ لوگ اپنی آنکھوں سے زمین کو دیکھتے ہیں کہ اس میں صرف خاک اڑتی ہے۔ کوئی ہریالی، کوئی سبزہ، کوئی زندگی کا نشان دور دور تک کہیں نہیں۔ یہاں تک کہ ایک عجیب وغریب انتظام سے یہاں پانی پہنچایا جاتا ہے۔ خدا بارش کرتا ہے تو یہ مردہ زمین زندگی سے بھری کروٹ لیتی ہے۔ اس میں زندگی کی یکدم ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور پھر یہ زندگی کی اور زندگی کے اسباب کی نشوونما کرنے لگتی ہے۔ طرح طرح کے پودے اس کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔
چنانچہ یہ آیات یعنی نشانیاں جن کو کہ خدا لوگوں کو دکھاتا ہے تاکہ لوگ جان لیں کہ قرآن کے قائم کردہ مقدمات بالکل سچ ہیں …. یہ دراصل عقلی نشانیاں ہیں جن سے استدلال کرکے عقل قرآن کے دعوی کی حقانیت تک پہنچتی ہے جبکہ یہ بیک وقت شرعی ہیں کیونکہ شریعت ان پر دلالت کرتی ہے اور ان سے راہ پانے کا سبق دیتی ہے۔
چنانچہ قرآن ہمیں ان ’آیات‘ سے جو بیک وقت عقلی بھی ہیں اور شرعی بھی، پُر نظر آتا ہے۔ مگر لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جو ’شرعی دلیل‘ کا لفظ صرف اس چیز کیلئے بولتی ہے جس پر دلالت مجرد رسول کی خبر سے ہوتی ہو۔ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو مکمل معنی دینے سے شدید قاصر ہے“۔
(کتاب النبوات از شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ صفحہ: ٢٩، ٣٩، بحوالہ الاصول الفکریہ للمناھج السلفیہ عند شیخ الاِسلام مولفہ: شیخ خالد عبدالرحمن العک)
خدا نے جو کتاب اتاری ہے وہ عقول کی تشفی بھی ہے اور صدور کی راحت بھی!
”اے انسانو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی جانب سے ایک بڑی ہی پتے کی بات آئی ہے اور جو کہ سینوں کو لگ جانے والے جو روگ ہیں، ان کیلئے شفا ہے اور جو کہ راہنما ہے اور سراسر رحمت، ان لوگوں کیلئے جو ایمان لے آئیں۔
”کہو: خدا کا (یہ) فضل اور رحمت ہی تو وہ چیز ہے کہ جس پر یہ خوشی منائیں۔ یہ بہت بہتر ہے اس سے جس کو یہ سمیٹتے رہتے ہیں“۔
بشکریہ ایقاظ