سیکولرو ملحدو! یہ مذہب والوں کا آپس کا معاملہ ہے!

الوداع اے یسوع علیہ السلام کی بیٹی الوداع ..

آپ کو اس میں کچھ بولنے کی ضرورت نہیں

جی ہاں آپ خاموش رہیے

یہ ہم مذہب پسندوں کا آپسی معاملہ

چاہے وہ کراس کے پرچارک ہوں

یا پھر وہ کریسینٹ کے ماننے والے

آپ کون ہوتے ہیں ؟

آپکا کیا تعلق جنت اور دوزخ سے ؟

یہ گفتگو ہم مذھب والوں کی ہے ؟

آپ خاموش رہیں …!

کیا آپ جانتے ہیں کہ اس نے انسانیت کی خدمت کا بیڑا کیوں اٹھایا ؟

کیا آپکو معلوم ہے اسکی کہانی ؟

جی ہاں آپ ہی تو تھے کہ جنہوں نے جنگ عظیم دوم میں اسکے گھر کو بمباری سے برباد کیا تھا …

ڈاکٹر روتھ کترینا مارتھا فاؤ ..

کیا کسی کو یاد ہے یسوع علیہ السلام کا معجزہ ؟

کیا کسی کو یاد ہے قرآن عظیم کی گواہی

وَ اُبۡرِیُٔ الۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ

اندھے اور جذامی کو ٹھیک کرنے والا مسیح

پاک دامن مریم کا بیٹا مسیح

اور اسی مسیح کی بیٹی کہ جس نے اپنی پوری زندگی

جی ہاں پوری زندگی ان داغی جسموں کو ٹھیک کرنے میں لگا دی

ان جسموں کو کہ جن کے قریب سے لوگ گزرنا پسند نہ کریں

وہ جسم کے جن سے تعفن اٹھتا ہو

وہ لاغر بیمار پگھلتے ہوۓ جسم

یہ ہمارا آپسی معاملہ ہے !

تمہیں کس نے حق دیا کہ تم ہم سے سوال کرو ؟

وہ صلیب والے خود کو حق سمجھتے ہیں

اور یہ قرآن والے خود کو سچا

اگر وہ یہ سوچتے ہیں کہ یہ محمدی عربی صل الله علیہ وسلم کے پیرو کار جنت کا حق نہیں رکھتے تو مسیح کی محبت میں سوچتے ہیں

اور ہم اگر یہ سوچ رکھتے ہیں تو محمد عربی صل علیہ وسلم کی محبت میں سوچتے ہیں کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی رسول اکرم شافع محشر ساقی کوثر صل الله علیہ وسلم کو مانے بغیر جنت میں چلا جاوے آخر یہ کیسے ممکن ہے ..؟!

مگر یہ ہمارا آپسی مسلہ ہے !

تمہارا اس سے کیا تعلق

تم اپنی بات کرو

ہمیں کیوں دیوار سے لگاتے ہو

ہاں ہم تو اپنے نبی حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ سرور کونین صل الله علیہ وسلم کی سنت کو جانتے ہیں ..

ہمارے آقا تو کریم تھے

وہ تو احسان کرنے والوں کا احسان مانتے تھے

کیا تمہیں یاد نہیں کہ جب حاتم کی بیٹی انکے سامنے آئی تو

آقا نے کیا فرمایا ..

تو سنو ..

حضرت على شیر خدا (ع) فرماتے ہيں “” جب قبيلہ طئي كے اسيروں كو لايا گيا تو ان اسيروں ميں سے ايك عورت نے پيغمبر (صل الله علیہ وسلم ) سے عرض كيا كہ آپ لوگوں سے كہديں كہ وہ ہم كو پريشان نہ كريں اور ہمارے ساتھ نيك سلوك كريں اس لئے كہ ميں اپنے قبيلے كے سردار كى بيٹى ہوں اور ميرا باپ وہ ہے جو عہد و پيمان ميں وفادارى سے كام ليتاہے اسيروں كو آزاد اور بھوكوں كو سير كرتاہے سلام ميں پہل كرتاہے اور كسى ضرورتمند كو اپنے دروازے سے كبھى واپس نہيں كرتا ہيں

“” حاتم طائي”” كى بيٹى ہوں پيغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صل الله علیہ وسلم نے استفسار فرمایا : يہ صفات جو تم نے بيان كئے ہيں يہ حقيقى مؤمن كى نشانى ہيں اگر تمہارا باپ مسلمان ہو تا تو ميں اس كے لئے دعائے رحمت كرتا، پھر آپ صل الله علیہ وسلم نے فرمايا: اس كو چھوڑ ديا جائے اور كوئي اس كو پريشان نہ كرے اس لئے كہ اسكا باپ وہ شخص تھا جو مكارم الاخلاق كا دلدادہ تھا اور خدا مكارم الاخلاق كو پسند كرتاہے(محجۃ البيضاء)

عدی کی بہن نے آپﷺ سے پھر عرض کیا کہ میری ایک درخواست ہے۔ آپﷺ اس کو قبول فرماکر مجھ کوشکریہ کا موقع دیجئے۔حضور نبی کریمﷺ نے پوچھا وہ کیا کہنے لگی:ملک الوالد وغاب الوافد، فامنن علی من اﷲ علیک:میرا والد فوت ہوا میرا بھائی بھاگ گیا آپ مجھ پر احسان فرمائیں اﷲ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے گا۔

(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبہانی باب السین، سفانۃ بنت حاتیم طائی، الجزء ۲۳)

اور پھر آقا کریم نے امان دیا ،عدی رض مسلمان ہوۓ،صحابی رسول صل الله علیہ وسلم بنے ،الله اصحاب رض سے راضی ہوا ، اصحاب رض الله سے راضی ہوۓ ..

ہم اس نبی کے پیروکار ہیں کہ جو احسان فراموشی کو ناپسند کرتے تھے ۔۔

تو شکریہ اے یسوع علیہ السلام کی بیٹی

شکریہ

ہاں یاد رہے چاہے وہ محمد عربی صل الله علیہ وسلم کا روحانی بیٹا عبدالستار ایدھی ہو کہ جس کے پرنور چہرے پر سنت رسول صل الله علیہ وسلم جگمگاتی تھی یا پھر وہ مسیح کی بیٹی ڈاکٹر روتھ کترینا مارتھا فاؤ کہ جسکو مسیح کے دست شفاء عطا ہوۓ تھے

ہاں یاد رہے

یہ مذہب والوں کا ہی خاصہ ہے

یہ تمہارا کام نہیں

سو دور رہو

اور اپنے حسد کی آگ میں جلتے رہو …

تحریر :حسیب احمد حسیب