کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ وجہ کیا ہے جس کی بنیاد پر کائنات وجود میں آئی۔
ملحد: کائنات بغیر کسی کے ارادے کے خود سے وجود میں آسکتی ہے.
مجیب: گویا کہ آپ یہ مانتے ہیں کہ ایک چیز خود اپنی ذات کا سبب ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کے نزدیک یہ اصول درست ہے تو پھر بارش بادلوں کے بجائے خود بارش کا سبب ہوگی، گرمی آگ یا سورج کے بجائے خود گرمی کا سبب ہو گی اور بچہ اپنے والدین کے بجائے خود اپنی پیدائش کا سبب ہو گا؟
ملحد: یعنی آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کائنات جو کہ اپنے موجود ہونے اور نہ ہونے میں برابر ہے وہ خدا کے ارادہ کرنے سے وجود میں آئی؟
مجیب: بالکل درست! نیز یہ میرا صرف دعوی ہی نہیں ہے، بلکہ میرے پاس اس کی دلیل بھی ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ توجہ سے میری یہ دلیل سنیں۔ آپ نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ کائنات اپنے موجود ہونے اور نہ ہونے میں برابر ہے، لیکن اس کے باوجود وہ وجود میں آئی ہے، تو یقینا اس کے وجود میں آنے کا کوئی نہ کوئی سبب ہوگا۔ اس سبب کے تعلق سے تین احتمالات ہیں۔ پہلا احتمال تو یہ ہے کہ وہ سبب کہ جس کی وجہ سے کائنات وجود میں آئی ہے خود اس کا وجود ممکن نہ ہو۔ یہ احتمال اس لیے درست نہیں ہے کہ جو چیز خود موجود نہیں ہے، بھلا وہ دوسری چیز کو کیسے موجود کر سکتی ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سبب کا بھی موجود ہونا اور نہ ہونا برابر ہو۔ یہ احتمال اس لیے غلط ہے کہ اگر وہ سب بھی ایسا ہی ہوگا جیسا کہ بقیہ کائنات تو وہ بھی کائنات کا حصہ ہوگا اور اس سے شئ کا اپنا ہی سبب بننا لازم آئے گا۔ گویا کہ پھر بات وہی ہوئی کہ بارش کا سبب خود بارش ہوئی۔ تیسرا اور آخری احتمال یہ ہے کہ اس سبب کا موجود ہونا اتنا ضروری ہو کہ اس پر کبھی عدم طاری نہ ہوسکتا ہو۔ اسی کو ہم علم کلام میں واجب الوجود کہتے ہیں، جو کہ اللہ تعالی کی ایک صفت ہے۔ اب رچرڈ ڈاکنزکے سوال کا جواب یہ ہوا کہ سبب اور مسبب کے ضابطے سے خدا اس لیے مستثنی ہے، کیونکہ وہ واجب الوجود ہے اور یہ ضابطہ صرف ممکنات میں نافذ ہوتا ہے۔
ملحد: ٹھیک ہے میں نے آپ کی اس تشریح کو قبول کر لیا ہے۔ اب میں خدا کے تعلق سے ہی آپ سے دوسرا سوال کرتا ہوں۔ وجود خدا کا تصور انسان کے پاس کہاں سے آیا ہے؟
مجیب: یہ کوئی تصور نہیں ہے، بلکہ پہلے انسان یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو معرفت کی بنیاد پر حاصل ہونے والا ایک عقیدہ ہے جو نسل در نسل ان کی اولاد میں بھی چلتا رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ آگے چل کر کچھ لوگوں نے اس واضح اور صاف عقیدے میں دوسری چیزوں کی بھی آمیزش کردی۔
ملحد: ایسا نہیں ہے، بلکہ قدیم زمانے میں یونانیوں نے سمندری طوفان کو خدا کی ناراضی سے جوڑا، اسی طریقے سے رومیوں نے مختلف آفات کو مختلف خداؤں سے منسوب کیا۔ لیکن آج ہمیں پتہ چل چکا ہے کہ سمندر میں طوفان کیوں آتا ہے، دنیا میں مختلف آفتیں کیوں آتی ہیں، لہذا ان کا جو تصور خدا تھا وہ نیست و نابود ہوگیا، تو آپ کا تصور خدا بھی نیست ونابود ہوسکتا ہے۔
مجیب: یونانیوں اور رومیوں نے اگر ان واقعات کو اپنے گڑھے ہوئے خداؤں کی طرف منسوب کیا تھا، تو اس تصور کو نیست و نابود ہونا ہی تھا۔ البتہ ہم مسلمان آسمانی آفتوں کو خدا کی ناراضی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اب آپ یہ کہیں گے کہ سائنس نے ہمیں بتا دیا ہے کہ آفتیں کیسے آتی ہیں۔ تو میں یہ جواب دوں گا کہ سائنس نے ہمیں یہ بتلایا ہے کہ آفت کیسے آتی ہے، یہ نہیں بتلایا ہے کہ کیوں آتی ہے اور ناہی سائنس کبھی بھی “کیوں” کا جواب دے پائے گی۔
ملحد: اچھا یہ بتائیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ کیوں رک گیا؟
مجیب: پہلے آپ یہ بتائیے کہ خدا کے وجود کے تعلق سے آپ کے تمام شکوک دور ہوگئے ہیں یا نہیں؟
ملحد: جی ہاں ابھی تک تو ایسا ہی ہے، لیکن اگر میرے ذہن میں کوئی سوال آیا تو میں یقینا آپ کو میسج کروں گا۔
مجیب: اب آئیے آپ کے اس سوال کی طرف کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت اور رسالت کا سلسلہ کیوں رک گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہدایت کا اعلی ترین پیمانہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں انسانیت کو دے دیا گیا۔ اب اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعوی کرے تو یہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے ماؤنٹ ایورسٹ سے اونچی ایک چوٹی دریافت کر لی ہے۔ کیونکہ جس طرح پہاڑوں میں اونچائی کے پیمانے کی کہیں نہ کہیں انتہا ماننی پڑتی ہے، اسی طرح انبیاء میں اچھائی کے پیمانے کی کسی ایک جگہ آکر انتہا ماننی پڑے گی۔
ملحد: اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اچھائی کا سب سے اونچا پیمانہ ہیں، تو آپ نے اپنے قبیلے کو حکومت میں برتری دیتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ الائمة من قريش. اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مقصد اپنے قبیلے کو مستحکم کرنا تھا۔
مجیب: یہ حدیث انشاء نہیں بلکہ خبر ہے.
ملحد: کیا مطلب؟
مجیب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ آنے والے دور میں قیادت قریش کے پاس ہوگی، آپ علیہ السلام نے اس کا حکم نہیں دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسی لیے اپنی خلافت پر اس حدیث سے استدلال کیا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر غلط نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت عثمانیہ جب قائم ہوئی تو مسلمانوں نے، باوجودیکہ عثمانی خلفاء قریش سے نہیں تھے، اس خلافت کو قبول کیا بلکہ اس کے بقاء کے لیے جد وجہد بھی کی۔
ملحد: لیکن مولانا مودودی نے تو اپنی کتاب خلافت و ملوکیت میں یہ لکھا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ وہی معتبر ہوگا جو قریش سے ہو۔
مجیب: مولانا مودودی یا ان کے علاوہ دیگر نے کیا کہا ہے اور کیا نہیں اس کا میں ذمہ دار نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے اس کا دفاع کرنا ہے۔ اس حدیث کی حد تک مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ مختلف لوگوں نے اس حدیث کو مختلف انداز سے سمجھا ہے۔ لیکن علماء کے ایک بڑے طبقے نے اس حدیث کی وہی تشریح کی ہے جو میں نے آپ کو بتلائی ہے۔ اس حدیث کی ایک تشریح ابن خلدون نے بھی کی ہے۔ ان کے مطابق حدیث کی رو سے خلیفہ کو قریش کی قائدانہ صفات کے مطابق ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس زمانے میں قریش میں قیادت کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔
ملحد: آپ کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی عقلی دلیل کیا ہے؟
مجیب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے کئی عقلی دلائل ہیں۔ ان میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ نہ صرف قرآن کے مطابق امی تھے، بلکہ تاریخی روایات کے مطابق بھی امی تھے (تاریخی روایات کا میں نے اس لیے ذکر کیا کیونکہ آپ قرآن کے منکر ہیں ورنہ ہمارے لیے قرآن کی شہادت کافی ہے)۔ اپنی امیّت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلوں اور پچھلوں کے علوم کا جامع ہونے کا درست دعویٰ فرمایا۔ لہذا تمام اسباب علم کے منقطع ہونے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اولین و آخرین کے علوم کا حامل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی معمولی شخصیت نہیں ہیں اور یہ کہ آپ کے پاس جو علم ہے وہ براہ راست وحی کی صورت میں اللہ کی طرف سے آیا ہے۔
ملحد: اگر یہی بات ہے تو وہ علم یقینا ایسا ہونا چاہیے جس میں غلطی یا کسی بھی قسم کے ظلم کا احتمال نہ ہو۔ جب کہ سنن ابی داؤد میں ایک حدیث آتی ہے، جس کے مطابق زندہ درگور کرنے والی عورت اور زندہ درگور ہونے والی بچی دونوں جہنم میں جائیں گے۔ تو کیا زندہ درگور ہونے والی بچی پر یہ ظلم نہیں ہے؟
مجیب: اس حدیث کے تعلق سے آپ کے ذہن میں جو اشکال آیا ہے اس کی بنیاد عربی زبان نہ جاننا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: الوائدة و الموؤودة في النار. اس حدیث میں وائدہ اور موؤودہ پر داخل ہونے والے “الف لام” سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس سے مراد ایک خاص کیس ہے۔ زمانہ جاہلیت میں ایک خاتون تھی جس کا نام ام سلمہ بنت یزید تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کو زندہ درگور کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس عورت کا تذکرہ آیا تو آپ نے فرمایا کہ زندہ درگور کرنے والی یہ عورت تو جہنم میں جائے گی ہی، اگر اس کی بیٹی زندہ درگور نہ ہوتی تو بڑے ہوکر اپنے کفر کی وجہ سے جہنم میں جاتی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ قرآن میں حضرت موسی اور خضر کے قصے میں حضرت خضر نے ایک بچے کو اللہ کی جانب سے حکم ملنے کے بعد اس لیے قتل کر دیا تھا، کہ وہ بڑے ہو کر کافر بنتا اور دوسروں کو بھی کفر کے دلدل میں دھکیلتا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بچی کے (زندہ رہنے کی صورت میں) مستقبل کے بارے میں علم دے دیا گیا تھا۔
ملحد: بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میرے لیے اتنا وقت نکالا۔ مجھے اچھا لگا کہ آپ اس پوری گفتگو کے درمیان نہ مجھ پر چیخے نہ چلائے۔
یوں یہ گفتگو اس انیس سالہ نوجوان کے ساتھ اس وعدے پر اختتام پذیر ہوئی، کہ اس کے ذہن میں اگر کوئی بھی شبہ آئے گا تو وہ مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے۔
آخر میں، میں مدارس کے فضلاء اور طلبہ کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں، کہ اس پورے مکالمے کے درمیان، وجود باری پر “تسلسل” کے بطلان کو سامنے رکھ کر جو دلیل دی گئی ہے، اس کی بنیاد درس نظامی میں شامل شرح عقائد نسفی ہے۔ نیز رچرڈ ڈاکنز نے تسلسل کے بطلان کو جو مشکوک قرار دیا ہے، اس کا جواب بھی علامہ تفتازانی شرح عقائد میں دے چکے ہیں۔ کسی شئی کا اپنے ہی لیے سبب بننے کا نظریہ باطل ہے، یہ بھی اسی کتاب سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح کائنات (جو کہ ممکنات کا مجموعہ ہے) کی علت صرف واجب الوجود ہوسکتی ہے، یہ مبحث بھی اسی کتاب میں ہے۔ بہت سے طلبہ اور فضلاء مدارس کے نصاب میں شامل معقولات کی کتابوں کو مفید نہیں سمجھتے ہیں، جب کہ شرح عقائد میں شامل مباحث اور ان کے عقلی دلائل آج بھی اتنے مضبوط ہیں کہ جدید دور میں رچرڈ ڈاکنز جیسے مشہور ملحدین کو ان دلائل کی بنیاد پر آپ جواب دے سکتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ شرح عقائد کے دلائل آخری درجے کے ہیں، لیکن اگر کوئی پہلے درجے تک ہی نہ پہنچ پائے تو اس کا آخری درجے پر پہنچنا کیسے ممکن ہے۔ اس گفتگو میں حضرت نانوتوی کے بیان کردہ دلائل ذکر نہیں کئے گئے، کیونکہ ان کا درجہ شرح عقائد میں مذکور دلائل کے بعد کا ہے۔
جوابات مولانا یاسر ندیم الواجدی