کیا عقل کا بھی کوئی دائرہ ہوتا ہے؟

آج کل عقل پرستی (rationalism) کا بڑا زور ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کو عقل کی میزان پر پرکھ کر اور تول کر اختیار کریں گے، لیکن عقل کے پاس کوئی ایسا لگا بندھا ضابطہ (Formula) اور کوئی لگا بندھا اصول (Principle) نہیں ہے، جو عالمی حقیقت (Universal Truth) رکھتا ہو۔ جس کو ساری دنیا کے انسان تسلیم کرلیں اور اس کے ذریعہ وہ اپنے خیر و شر اور اچھائی اور برائی کا معیار تجویز کرسکیں۔ کون سی چیز اچھی ہے؟ کون سی چیز بُری ہے؟ کون سی چیز اختیار کرنی چاہیے؟ کون سی چیز اختیار نہیں کرنی چاہیے؟ یہ فیصلہ جب ہم عقل کے حوالے کرتے ہیں تو آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ جائیے، اس میں آپ کو یہ نظر آئے گا کہ اس عقل نے انسان کو اتنے دھوکے دیئے ہیں جس کا کوئی شمار اور حد و حساب ممکن نہیں۔ اگر عقل کو اس طرح آزاد چھوڑ دیا جائے تو انسان کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ اس کے لیے میں تاریخ سے چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔

آج سے تقریباً آٹھ سو سال پہلے عالمِ اسلام میں ایک فرقہ پیدا ہوا تھا، جس کو “باطنی فرقہ” اور “قرامطہ” کہتے ہیں۔ اس فرقے کا ایک مشہور لیڈر گزرا ہے جس کا نام عبید اللہ بن حسن قیروانی ہے۔ اس نے اپنے پیرو کاروں کے نام ایک خط لکھا ہے وہ خط بڑا دلچسپ ہے۔ جس میں اس نے اپنے پیروکاروں کو زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی ہیں۔ اس میں وہ لکھتا ہے:”میری سمجھ میں یہ بے عقلی کی بات نہیں آتی ہے کہ لوگوں کے پاس اپنے گھر میں ایک بڑی خوبصورت، سلیقہ شعار لڑکی بہن کی شکل میں موجود ہے اور بھائی کے مزاج کو بھی سمجھتی ہے۔ اس کی نفسیات سے بھی واقف ہے۔ لیکن یہ بے عقل انسان اس بہن کا ہاتھ اجنبی شخص کو پکڑا دیتا ہے۔ جس کے بارے میں یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ نباہ صحیح ہوسکے گا یا نہیں؟ وہ مزاج سے واقف ہے یا نہیں؟ اور خود اپنے لیے بعض اوقات ایسی لڑکی لے آتے ہیں جو حسن و جمال کے اعتبار سے بھی، سلیقہ شعاری کے اعتبار سے بھی، مزاج شناسی کے اعتبار سے بھی اس بہن کے ہم پلہ نہیں ہوتی۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اس بے عقلی کا کیا جواز ہے کہ اپنے گھر کی دولت تو دوسرے کے ہاتھ میں دے دے، اور اپنے پاس ایک ایسی چیز لے آئے جو اس کو پوری راحت و آرام نہ دے۔ یہ بے عقلی ہے۔ عقل کے خلاف ہے۔ میں اپنے پیرؤوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس بے عقلی سے اجتناب کریں اور اپنے گھر کی دولت کو گھر ہی میں رکھیں” (الفرق بین الفرق للبغدادی، و بیان مذاہب الباطنیہ للدیلمی) بہن اور جنسی تسکین اور دوسری جگہ عبید اللہ بن حسن قیروانی عقل کی بنیاد پر اپنے پیروؤں کو یہ پیغام دے رہا ہے، وہ کہتا ہے کہ:

“کیا وجہ ہے کہ جب ایک بہن اپنے بھائی کے لیے کھانا پکا سکتی ہے، اس کی بھوک دور کرسکتی ہے، اس کی راحت کے لیے اس کے کپڑے سنوار سکتی ہے، اس کا بستر درست کرسکتی ہے تو اس کی جنسی تسکین کا سامان کیوں نہیں کرسکتی؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ تو عقل کے خلاف ہے” (الفرق بین الفرق للبغدادی، و بیان مذاہب الباطنیہ للدیلمی)

آپ اس بات پر جتنی چاہے لعنت بھیجیں، لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ خالص عقل کی بنیاد پر جو وحی الٰہی کی رہنمائی سے آزاد ہو، جس کو وحی الٰہی کی روشنی میسر نہ ہو، اس عقل کی بنیاد پر آپ اس کے اس استدلال کا جواب دیں۔ خالص عقل کی بنیاد پر قیامت تک اس کے اس استدلال کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ تو بڑی بد اخلاقی کی بات ہے، بڑی گھناؤنی بات ہے، تو اس کا جواب موجود ہے کہ یہ بد اخلاقی اور گھناؤنا پن یہ سب ماحول کے پیدا کردہ تصورات ہیں۔ آپ ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوئے ہیں جہاں اس بات کو معیوب سمجھا جاتا ہے اس لیے آپ اس کو معیوب سمجھتے ہیں۔ ورنہ عقلی اعتبار سے کوئی عیب نہیں۔

اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اس سے حسب و نسب کا سلسلہ خراب ہوجاتا ہے تو اس کا جواب موجود ہے کہ نسبوں کا سلسلہ خراب ہوجاتا ہے تو ہونے دو۔ اس میں کیا برائی ہے؟ نسب کا تحفظ کون سا ایسا عقلی اصول ہے کہ اس کی وجہ سے نسب کا تحفظ ضرور کیا جائے۔اگر آپ اس استدلال کے جواب میں یہ کہیں کہ اس سے طبی طور پر نقصانات ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ اب یہ تصورات سامنے آئے ہیں کہ استلذاذ بالاقارب (Incest) سے طبی نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ لیکن آپ کو معلوم ہے کہ آج مغربی دنیا میں اس موضوع پر کتابیں آرہی ہیں کہ استلذاذ بالاقارب (Incest) انسان کی فطری خواہش (Human Urge) کا ایک حصہ ہے اور اس کے جو طبی نقصانات بیان کیے جاتے ہیں، وہ صحیح نہیں ہیں۔ وہی نعرہ جو آج سے آٹھ سو سال پہلے عبید اللہ بن حسن قیروانی نے لگایا تھا، اس کی نہ صرف صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے بلکہ آج مغربی ملکوں میں اس پر کسی نہ کسی طرح عمل بھی ہورہا ہے۔

یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ اس لیے کہ عقل کو اس جگہ استعمال کیا جارہا ہے جو عقل کے دائرۂ کار (Jurisdiction) میں نہیں ہے۔ جہاں وحی الٰہی کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اور عقل کی وحی الٰہی کی رہنمائی سے آزاد کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ ہم جنس پرستی (Homosexuality) کے جواز کا بل تالیوں کی گونج میں منظور کررہی ہے اور اب تو باقاعدہ یہ ایک علم بن گیا ہے۔ میں ایک مرتبہ اتفاق سے نیویارک کے ایک کتب خانہ میں گیا۔ وہاں پر پورا ایک علیحدہ سیکشن تھا، جس پر یہ عنوان لگا ہوا تھا کہ “گے اسٹائل آف لائف” (Gay Style Of Life) تو اس موضوع پر کتابوں کا ایک ذخیرہ آچکا ہے اور باقاعدہ ان کی انجمنیں ہیں، ان کے گروپ اور جماعتیں ہیں، اور وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ اس زمانے میں نیویارک کا میئر بھی ایک Gay تھا۔

امریکی رسالے ٹائم میں یہ خبر آئی کہ خلیج کی جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں میں سے تقریباً ایک ہزار افراد کو صرف اس لیے فوج سے نکال دیا گیا کہ وہ ہم جنس پرست (Homosexual) تھے۔ لیکن اس اقدام کے خلاف شور مچ رہا ہے، مظاہرے ہورہے ہیں اور چاروں طرف سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ یہ بات کہ ہم جنس پرست ہونے کی وجہ سے آپ نے ان لوگوں کو فوج کے عہدوں سے برخاست کردیا ہے، یہ بات بالکل عقل کے خلاف ہے اور ان کو دوبارہ بحال کرنا چاہیے۔ اور ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ تو ایک Human Urge ہے اور آج “Human Urge” کا بہانہ لے کر دنیا کی ہر بُری سے بُری بات کو جائز قرار دیا جارہا ہے۔ اور یہ تو صرف جنسِ انسانی کی بات تھی۔ اب تو بات جانوروں، کتوں، گدھوں اور گھوڑوں تک نوبت پہنچ گئی ہے اور اس کو بھی باقاعدہ فخریہ بیان کیا جارہا ہے۔

انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا (Encyclopedia of Britannica) میں ایٹم بم پر جو مقالہ لکھا گیا ہے اس کو ذرا کھول کر دیکھیں۔ اس میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ دنیا میں ایٹم بم کا استعمال دو جگہ پر کیا گیا ہے۔ ایک ہیروشیما اور دوسرے ناگاساکی پر، اور ان دونوں مقامات پر ایٹم بم کے ذریعہ جو تباہی ہوئی اس کا ذکر تو بعد میں آگے چل کر کیا ہے، لیکن اس مقالے کو شروع یہاں سے کیا گیا ہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر جو ایٹم بم برسائے گئے اس کے ذریعہ ایک کروڑ انسانوں کی جانیں بچائی گئیں، اور ان کو موت کے منہ سے نکالا گیا اور اس کی منطق یہ لکھی ہے کہ اگر ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم نہ گرائے جاتے تو پھر جنگ مسلسل جاری رہتی اور اس میں اندازہ یہ تھا کہ تقریباً ایک کروڑ انسان مزید مرجاتے۔ تو ایٹم بم کا تعارف اس طرح کرایا گیا کہ ایٹم بم وہ چیز ہے جس سے ایک کروڑ انسانوں کی جانیں بچائی گئیں۔ یہ اس واقع کا جواز (Justification) پیش کیا جارہا ہے جس پر ساری دنیا لعنت بھیجتی ہے کہ ایٹم بم کے ذریعہ ہیروشیما اور ناگاساکی میں ان بچوں کی نسلیں تک تباہ کردی گئیں، بے گناہوں کو مارا گیا، اور یہ جواز بھی عقل کی بنیاد پر ہے۔ لہٰذا کوئی بُری سے بُری اور کوئی سنگین سے سنگین خرابی ایسی نہیں ہے جس کے لیے عقل کوئی نہ کوئی دلیل اور کوئی نہ کوئی جواز فراہم نہ کردے۔ آج ساری دنیا فاشزم (Fascism) پر لعنت بھیج رہی ہے اور سیاست کی دنیا میں ہٹلر اور مسولینی کا نام ایک گالی بن گیا ہے۔ لیکن آپ ذرا ان کا فلسفہ تو اٹھا کر دیکھیں کہ انہوں نے اپنے فاشزم (Fascism) کو کس طرح فلسفیانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک معمولی سمجھ کا آدمی اگر فاشزم کے فلسفے کو پڑھے گا تو اسے اعتراف ہونے لگے گا کہ بات تو سمجھ میں آتی ہے، معقول بات ہے۔ یہ کیوں ہے؟ اس لیے کہ عقل ان کو اس طرف لے جارہی ہے۔ بہرحال! دنیا کی کوئی بد سے بدتر بُرائی ایسی نہیں ہے جس کو عقل کی دلیل کی بنیاد پر صحیح تسلیم کرانے کی کوشش نہ کی جاتی ہو۔ اس لیے کہ عقل کو اُس جگہ استعمال کیا جارہا ہے جہاں اس کے استعمال کی جگہ نہیں ہے۔

علامہ ابنِ خلدون جو بہت بڑے مؤرخ اور فلسفی گزرے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو عقل دی ہے وہ بڑی کام کی چیز ہے لیکن یہ اسی وقت تک کام کی چیز ہے جب اس کو اس کے دائرے میں استعمال کیا جائے۔ لیکن اگر اس کو اس کے دائرے سے باہر استعمال کروگے تو یہ کام نہیں دے گی اور پھر اس کی ایک بڑی اچھی مثال دی ہے کہ عقل کی مثال ایسی ہے جیسے سونا تولنے کا کانٹا۔ وہ کانٹا چند گرام سونا تول لیتا ہے اور بس اس حد تک وہ کام دیتا ہے اور وہ صرف سونا تولنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص اس کانٹے میں پہاڑ کو تولنا چاہے گا تو اس کے نتیجے میں وہ کانٹا ٹوٹ جائے گا اور جب پہاڑ تولنے کے نتیجے میں وہ ٹوٹ جائے تو اگر کوئی شخص کہے کہ یہ کانٹا تو بیکار چیز ہے، اس لیے کہ اس سے پہاڑ تو تلتا نہیں ہے، اس نے تو کانٹے کو توڑ دیا تو اسے ساری دنیا احمق کہے گی۔ بات در اصل یہ ہے کہ اس نے کانٹے کو غلط جگہ پر استعمال کیا اور غلط کام میں استعمال کیا اس لیے وہ کانٹا ٹوٹ گیا۔ (مقدمہ ابنِ خلدون، بحث علم کلام(

اسلام اور سیکولر ازم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام یہ کہتا ہے کہ بیشک تم عقل کو استعمال کرو، لیکن صرف اس حد تک جہاں تک وہ کام دیتی ہے۔ ایک سرحد ایسی آتی ہے جہاں عقل کام دینا چھوڑ دیتی ہے بلکہ غلط جواب دینا شروع کردیتی ہے۔اس چیز کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک تیسرا ذریعۂ علم عطا فرمایا ہے، جو وحی الٰہی ہے، جب وہاں عقل کو استعمال کروگے تو یہ عقل غلط جواب دینا شروع کردے گی۔ یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ جس کے لیے قرآن کریم اتارا گیا۔ چنانچہ قرآن کریم کی آیت ہے:

(ترجمہ: ہم نے آپ کے پاس یہ کتاب اتاری جس سے واقع کے موافق آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں) (النساء 105)

یہ قرآن کریم آپ کو بتائے گا کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا ہے؟ یہ بتائے گا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ یہ بتائے گا کہ خیر کیا ہے اور شر کیا ہے؟ یہ سب باتیں آپ کو محض عقل کی بنیاد پر معلوم نہیں ہوسکتیں۔

ایک معروف بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا نام “ایمنسٹی انٹرنیشنل” ہے۔کچھ عرصہ پہلے اس کے ایک ریسرچ اسکالر سروے کرنے کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ خدا جانے کیوں وہ میرے پاس بھی انٹرویو کرنے کے لیے آگئے۔میں نے ان سے کہا کہ آپ نے فرمایا کہ یہ ادارہ جس کی طرف سے آپ کو بھیجا گیا ہے یہ آزادی فکر کا علمبردار ہے، بیشک یہ آزادی فکر بڑی اچھی بات ہے، لیکن میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ آزادی فکر آپ کی نظر میں بالکل مطلق (Absolute) ہے؟ یا اس پر کوئی پابندی بھی ہونی چاہیے؟ کہنے لگے کہ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔ میں نے کہا کہ میرا مطلب یہ ہے کہ آزادی فکر کا یہ تصور کیا اتنا مطلق (Absolute) ہے کہ جو بھی انسان کے دل میں آئے وہ دوسروں کے سامنے برملا کہے اور اس کی تبلیغ کرے اور لوگوں کو اس کی دعوت دے؟ مثلاً میری سوچ یہ کہتی ہے کہ سرمایہ داروں نے بہت دولت جمع کرلی ہے، اس لیے غریبوں کو یہ آزادی ہونی چاہیے کہ وہ ان سرمایہ داروں پر ڈاکے ڈالیں اور ان کا مال چھین لیں اور میں اپنی اسی سوچ کی تبلیغ بھی شروع کردوں کہ غریب جاکر ڈاکہ ڈالیں اور کوئی ان کو پکڑنے والا نہ ہو۔ اس لیے کہ سرمایہ داروں نے غریبوں کا خون چوس کر یہ دولت جمع کی ہے۔ اب آب بتائیں کہ کیا آپ اس آزادی فکر کے حامی ہوں گے یا نہیں؟ وہ کہنے لگے: اس کے تو ہم حامی نہیں ہوں گے۔ میں نے کہا کہ میں یہی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جب آزادی فکر کا یہ تصور بالکل (Absolute) نہیں ہے تو کیا آپ اس کو مانتے ہیں کہ کچھ قیدیں ہونی چاہئیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! کچھ قیدیں تو ہونی چاہیے، مثلاً میرا یہ خیال ہے کہ آزادی فکر کو اس شرط کا پابند ہونا چاہیے کہ اس کا نتیجہ دوسروں پر تشدد (Violence) کی صورت میں ظاہر نہ ہو۔ میں نے عرض کیا کہ یہ قید تو آپ نے اپنی سوچ کے مطابق عائد کردی، لیکن اگر کسی شخص کی دیانت دارانہ رائے یہ ہو کہ بعض اعلیٰ مقاصد تشدد کے بغیر حاصل نہیں ہوتے، اور ان اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کے نقصانات برداشت کرنے چاہئیں تو کیا اس کی یہ آزادی فکر قابل احترام ہے یا نہیں؟ دوسرے جس طرح آپ نے اپنی سوچ سے آزادی فکر پر ایک پابندی عائد کردی، اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اسی قسم کی کوئی اور پابندی اپنی سوچ سے عائد کرنا چاہے تو اس کو بھی اس کا اختیار ملنا چاہیے، ورنہ کوئی وجہ ہونی چاہیے کہ آپ کی سوچ پر عمل کیا جائے اور دوسرے کی سوچ پر عمل نہ کیا جائے۔ لہٰذا اصل سوال یہ ہے کہ وہ قیدیں کیا ہونی چاہیے؟ اور یہ فیصلہ کون کرے گا کہ یہ قید ہونی چاہیے؟ اور آپ کے پاس وہ معیار کیا ہے جس کی بنیاد پر آپ یہ فیصلہ کریں کہ آزادی فکر پر فلاں قسم کی پابندی لگائی جاسکتی ہے اور فلاں قسم کی پابندی نہیں لگائی جاسکتی؟ آپ مجھے کوئی نپا تلا معیار (Yardstick) بتائیں، جس کے ذریعہ آپ یہ فیصلہ کرسکیں کہ فلاں قسم کی پابندی جائز ہے اور فلاں قسم کی پابندی ناجائز ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ صاحب! ہم نے اس پہلو پر کبھی باقاعدہ غور نہیں کیا۔ میں نے کہا: آپ اتنے بڑے عالمی ادارے سے وابستہ ہیں اور اسی کام کے سروے کے لیے آپ جارہے ہیں اور اسی کام کا بیڑہ اٹھا ہے، لیکن یہ بنیادی سوال کہ آزادی فکر کی حدود کیا ہونی چاہئیں؟ اس کا اسکوپ (Scope) کیا ہونا چاہیے؟ اگر یہ آپ کے ذہن میں نہیں ہے پھر آپ کا یہ پروگرام مجھے بار آور ہوتا نظر نہیں آتا۔ براہِ کرم میرے اس سوال کا جواب آپ مجھے اپنے لٹریچر سے فراہم کردیں، یا دوسرے حضرات سے مشورہ کرکے فراہم کردیں۔

کہنے لگے کہ آپ کے یہ خیالات اپنے ادارے تک پہنچاؤں گا اور اس موضوع پر جو ہمارا لٹریچر ہے وہ بھی فراہم کروں گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے میرا پھیکا سا شکریہ ادا کیا اور جلد رخصت ہوگئے۔ میں آج تک ان کے وعدے کے مطابق لٹریچر یا اپنے سوال کے جواب کا منتظر ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ وہ قیامت تک نہ سوال کا جواب فراہم کرسکتے ہیں، نہ کوئی ایسا معیار پیش کرسکتے ہیں جو عالمگیر مقبولیت کا حامل (Universally Applicable) ہو۔ اس لیے کہ آپ ایک معیار متعین کریں گے دوسرا شخص دوسرا معیار متعین کرے گا۔ آپ کا بھی اپنے ذہن کا سوچا ہوا ہوگا۔ اس کا معیار بھی اس کے ذہن کا سوچا ہوا ہوگا۔ اور دنیا میں کوئی شخص ایسا معیار تجویز کردے جو ساری دنیا کے لیے مکمل طور پر قابلِ قبول ہو، یہ بات میں کسی تردید کے خوف کے بغیر کہہ سکتا ہوں کہ واقعتاً انسان کے پاس وحی الٰہی کے سوا کوئی معیار نہیں ہے جو ان مبہم تصورات پر جائز حدیں قائم کرنے کا کوئی لازمی اور ابدی معیار فراہم کرسکے۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے سوا انسان کے پاس کوئی چیز نہیں ہے۔

آپ فلسفہ کو اٹھا کر دیکھیے۔ اس میں یہ مسئلہ زیرِ بحث آیا ہے کہ قانون کا اخلاق سے کیا تعلق ہے؟ قانون میں ایک مکتبِ فکر ہے جس کا یہ کہنا ہے کہ قانون کا اخلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اچھے برے کا تصور غلط ہے۔ نہ کوئی چیز اچھی ہے نہ کوئی چیز بُری ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ Should اور Should not وغیرہ کے الفاظ در حقیقت انسان کی خواہشِ نفس کے پیدا کردہ ہیں، ورنہ اس قسم کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس واسطے جو معاشرہ جس وقت جو چیز اختیار کرلے وہ اس کے لیے درست ہے۔ اور ہمارے پاس اچھائی اور برائی کے لیے کوئی معیار نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ فلاں چیز اچھی ہے اور فلاں چیز بُری ہے اور اصولِ قانون پر مشہور ٹیکسٹ بک Jurisprudence ہے، اس میں اس بحث کے آخر میں ایک جملہ لکھا ہے کہ:

“انسانیت کے پاس ان چیزوں کے تعین کے لیے ایک چیز معیار بن سکتی تھی، وہ ہے مذہب۔ لیکن چونکہ مذہب کا تعلق انسان کے بلیف (Belief) اور عقیدے سے ہے اور سیکولر نظامِ حیات میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے، اس واسطے ہم اس کو ایک بنیاد کے طور پر نہیں اپنا سکتے”

ہمارے پاس اس کو روکنے کی کوئی دلیل نہیں ہے ایک اور مثال یاد آگئی ہے۔ جیسا کہ ابھی میں نے عرض کیا تھا کہ جس وقت برطانیہ کی پارلیمنٹ میں ہم جنس پرستی (Homosexuality) کا بل تالیوں کی گونج میں پاس ہوا۔ اس بل کے پاس ہونے سے پہلے کافی مخالفت بھی ہوئی اور اس بل پر غور کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو اس مسئلہ پر غور کرے کہ آیا یہ بل پاس ہونا چاہیے یا نہیں؟ اس کمیٹی کی رپورٹ شائع ہوئی ہے اور فریڈ مین (Friedman) کی مشہور کتاب “دی لیگل تھیوری” (The Legal Theory) میں اس رپورٹ کا خلاصہ دیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ اس کمیٹی نے ساری رپورٹ لکھنے کے بعد لکھا ہے:

“اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ چیز اچھی نہیں لگتی، لیکن چونکہ ہم ایک مرتبہ یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ انسان کی پرائیویٹ زندگی میں قانون کو دخل انداز نہیں ہونا چاہیے اس لیے اس اصول کی روشنی میں جب تک ہم گناہ (Sin) اور جرم (Crime) میں تفریق برقرار رکھیں گے کہ گناہ اور چیز ہے اور جرم علیحدہ چیز ہے، اس وقت تک ہمارے پاس اس عمل کو روکنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہاں! اگر سِن اور کرائم کو ایک تصور کرلیا جائے تو پھر بیشک اس بل کے خلاف رائے دی جاسکتی ہے۔ اس واسطے ہمارے پاس اس بل کو رد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس لیے یہ بل پاس ہوجانا چاہیے”

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ “Law” کو اسلامائز کیا جائے تو اس کے معنی یہی ہیں کہ سیکولر نظام نے حصولِ علم کی جو دو بنیادیں، آنکھ، کان، ناک، زبان وغیرہ اور عقل اختیار کی ہوئی ہیں، اس سے آگے ایک اور قدم بڑھا کر وحیِ الٰہی کو بھی حصولِ علم اور رہنمائی کا ذریعہ قرار دے کر اس کو اپنا شعار بنائیں۔ ایک سوال جو اکثر ہمارے پڑھے لکھے طبقے کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ صاحب! آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ساری دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کررہی ہے لیکن ہمارا قرآن اور ہماری حدیث سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں کوئی فارمولا ہمیں نہیں بتاتے، کہ کس طرح ایٹم بم بنائیں، کس طرح ہائیڈروجن بم بنائیں۔ اس کا کوئی فارمولا نہ تو قرآن کریم میں ملتا ہے اور نہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتا ہے۔ اس کی وجہ سے بعض لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں کہ صاحب! دنیا چاند اور مریخ پر پہنچ رہی ہے اور ہمارا قرآن ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتاتا کہ چاند پر کیسے پہنچیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارا قرآن ہمیں یہ باتیں اس لیے نہیں بتاتا کہ وہ دائرہ عقل کا ہے, وہ تجربہ کا دائرہ ہے, وہ ذاتی محنت اور کوشش کا دائرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو انسان کے ذاتی تجربے عقل اور کوشش پر چھوڑا ہے کہ جو شخص جتنی کوشش کرے گا اور عقل کو استعمال کرے گا، تجربہ کو استعمال کرے گا، اس میں آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ قرآن آیا ہی اس جگہ پر ہے جہاں عقل کا دائرہ ختم ہورہا تھا۔ عقل اس کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکتی، ان چیزوں کا ہمیں قرآن کریم نے سبق پڑھایا ہے۔ ان چیزوں کے بارے میں ہمیں یہ معلومات فراہم کی ہیں۔

استفادہ تحریر کتاب اسلام اور ہماری زندگی از مفتی تقی عثمانی