دوہزار چودہ کے سہانے شب و روز تھے۔ فیس بکی ملحدوں میں ایک طبقہ تو وہ تھا جو منطق کو تین طلاق دے صرف توہین آمیز پوسٹیں کرنے میں ہی عافیت سمجھتا تھا۔ لیکن ان کے ساتھ یکا دکا خود ساختہ قسم کے تھنک ٹینک بھی ہوتے تھے جو کہ اپنی عقل پر اتنا بھروسہ رکھتے تھے کہ ان کا گمان تھا کہ بس یوں ایک عقلی پھونک ماری اور مؤمنین کا ایمان غائب۔ ان میں ایاز نظامی نام کے بہت بڑے فلسفی بھی تھے جن کو اپنے الحادی دلائل پر بڑا ناز تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا، سنا ہے کہ مدرسے سے فارغ تھے یعنی گویا کہ گھر کے بھیدی تھے۔ پھر ایسا ہوا کہ موصوف کا ارمان علی نام کے ایک لڑکے کے ساتھ سامنا ہوا۔ یہ ایک باقاعدہ منظم مناظرہ تھا جو کہ ٹھیک ٹھیک منصوبے اور کچھ اصولوں کی باہمی رضامندی سے ہوا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، فیس بک پر الحاد اپنا خون چانٹ رہا ہے۔ ایاز نظامی صاحب پہلے ہی جواب میں ایسے چت ہوئے کہ بس ہاتھ پاؤں مار کر کسی طرح سے بھنور سے نکلنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس کی روداد یہاں سے پڑھ سکتے ہیں۔ بہرحال ایک اور بندے بھی تھے جو کہ سوفسٹ عزازی اپنا فیس بکی تخلص رکھتے تھے۔ ان سے ہمارا ایک طویل مکالمہ ہوا تھا۔ یہ مکالمہ ایاز نظامی والے مناظرے سے کچھ پہلے ہوا تھا۔ یہاں پر اس کی روداد پیش ہے۔
بات شروع ہوئی تھی انہیں ایاز نظامی کی وال سے۔ نظامی صاحب خطرہ سونگھتے ہی الگ ہوگئے۔ اعزازی صاحب کو اپنے علم پر کچھ ایسا بھروسہ تھا کہ موصوف نے مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ اب یہ مقابلہ کیسے ہوا یہ آگے پڑھ لیں۔ بس اتنا جان لیں کہ موصوف نے اس تھریڈ میں خطرہ محسوس کر کے دوسری تھریڈ شروع کردی۔ اس میں بھی ان کی بے کلی ختم نہ ہوئی تو ایک اور تھریڈ شروع کردی۔ پھر بھی کام نہ بنا تو پراسرار طور پر اپنے اکاؤنٹ کے ساتھ غائب ہوگئے اور کچھ عرصے بعد ایک نئے تخلص ہاشم عزازی کے ساتھ نمودار ہوئے۔ اس بحث میں آپ کو علمی نکات بھی ملیں گے، ملحدوں کی خیانت اور جہالت بھی نظر آئے گی اور یہ بھی پتہ چلے گا کہ جب ان کی عقل کے پردے چاک کیے جاتے ہیں تو یہ عقل کو چھوڑ کر کس طرح جہالت اور ڈھیٹ پن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں۔ باقی اگر وہ اپنے الحاد پر قائم ہی رہنا چاہتے تو الحاد کو اپنے ساتھ رکھ کر کم از کم اپنی ذاتی کمزوری ہی تسلیم کرلیتے لیکن وہ الحاد ہی کیا جو اس طرح کی امانت داری کا مظاہرہ کرے۔ الحاد جب پھنستا ہے تو پھر وہ اپنے اصلی جامے میں نظر آتا ہے۔ یہاں پر ملحد کی عقل نہیں جہالت اپنے پورے زور و شور سے بولتی ہے، یہاں پر آپ کو یہ بھی پتہ چلے گا کہ ان کی جہالت بھی بڑے سلیقے کی ہوتی ہے۔
(ذیشان وڑائچ )
موضوع اتنا پیچیدہ نہیں تھا، ملحد لاجواب ہونے پر متفرق قسم کے سوالات کر کے اس کو الجھاتا رہا اور پھر نئے سوالات اور ان کا جواب دینے کے چیلنج دیتا رہا اس سے مکالمہ بہت طویل ہوگیا۔ ان سوالات کا براہ راست موضوع کیساتھ تعلق نہیں لیکن ان کے جواب میں کائنات اور اللہ کی ذات و صفات کے ان مختلف پہلوؤں پر بہت اچھی تفصیل موجود ہے جن پر عام طور پر بات نہیں کی جاتی ہم اس لیے انکو اس مناظرے میں ہم نے رہنے دیا ہےاور ان کو ہم نے ٹاپک / ہیڈنگ بنادیا ہے کہ قارئین کے لیے اگر مناظرے کے تسلسل کو قائم رکھنا ممکن نا بھی ہو، تو ان ٹاپکس میں سے جس میں دلچسپی رکھتے ہوں انہیں دیکھ لیں ۔
کچھ قارئین نے یہ اعتراض کیا کہ آپ ایسے سوالات کو زیربحث لاتے ہیں جن پر بات کرنے سے شریعت میں منع کیا گیا ہے ۔دراصل الحاد نے اپنے بارے میں ایک علمیت کا تاثر قائم کیا ہوا تھااور دوسری طرف یہ محسوس کرایا جارہا تھا کہ مذہبی لوگ بے وقوف اور کم علم ہیں۔ اس تاثر کو توڑنے کے لئے ضروری تھا کہ خالص علمی انداز اختیار کرتے ہوئے ان ملحدوں کی جہالت کو روز روشن کی طرح عیاں کیا جائے۔ ساتھ میں یہ بھی ضروری تھا کہ ہمارے مسلمان بھائی بہنوں میں خود اعتمادی پیدا کی جائے کہ ہمارے دین حق پر ہے اور انسانی شعور سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے۔ باقی اس قسم کی بحثوں کو سمجھنا ہر ایک کے لئے ضروری نہیں ہے لیکن جو لوگ ملحدوں کی علمیت کا تاثر محسوس کر رہے ہیں ان کے لئے یہ ایک سود مند چیز تھی۔ وما توفیقی الا باللہ اللہ نیک نیتی کی توفیق نصیب فرمائے اور اس پر اجر ثبت کرے ۔(ایڈمن)۔
٭٭٭
خدا کے وجود کے سوال کا جواب قرآن وحدیث میں کیوں موجود نہیں ہے؟
ایاز نظامی
اگر خالق کے بغیر کچھ بھی وجود میں نہیں آ سکتا تو پھر خدا، بغیر کسی خالق کے کیسے وجود میں آیا؟ اس سوال کا جواب آج تک خود خدا نے اور اس کے پیغمبر نے کبھی نہیں دیا، خدا اور پیغمبر کی جانب سے صرف تلقینی احکامات ملتے ہیں کہ اسے ”جہاں ہے اور جیسا ہے“ کی بنیاد پر تسلیم کر لیا جائے، یا ایک دعوے کے تحفظ کیلئے مزید کچھ دعوے دائر کر دیئے جاتے ہیں۔ اس بنیادی سوال کے زیادہ تر جوابات خود انسان نے اپنے ذہن سے اختراع کئے ہیں، اور اپنی ذہنی غلامی کو جواز دینے کی کوشش کی ہے۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس سوال کا جواب خدا خود دیتا، لیکن خدا نے اس سوال کا جواب دینے کی کبھی زحمت گوارا نہیں کی، یا اسے اندازہ نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں اسے اس سوال کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ذیشان وڑائچ
اس سوال کا جواب اس لئے نہیں دیا گیا کیوں کہ یہ سوال ہی غلط ہے۔ “خدا کیوں وجود میں آیا” ایک غلط سوال ہے۔ خدا کبھی وجود میں نہیں آیا۔ بلکہ خدا کا وجود ہے اور اس کا وجود اسی کی شان کے مطابق ہے۔ وقت صرف کائنات کے وجود کا حصہ ہے۔ اور خدا کائنات کا خالق ہے۔خدا کو موجود ہونے کے لئے کسی وقت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ہے جب وقت کا وجود بھی نہیں تھا۔
ایازنظامی
نکتہ یہ ہے کہ خدا کے وجود کے سوال کا جواب قرآن یا حدیث میں کیوں موجود نہیں ہے۔
ذیشان وڑائچ
خدا نے خود اس کی دلیل دی ہے۔ سورہ طور: آیت ۳۵ اور ۳۶
أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ
أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَل لَّا يُوقِنُونَ
کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا ہو گئے ہیں یا وہ خود خالق ہیں (۳۵) یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کوبنایا ہے نہیں بلکہ وہ یقین ہی نہیں کرتے (۳۶)
اگر ان آیات میں دلیل نظر نہیں آئی تو ضرور پوچھیں تشریح کردی جائے گی۔
اشعر نجمی
علت و معلول کا جنکشن بالآخر آ ہی گیا .
ذیشان وڑائچ
اشعر نجمی صاحب۔ خدا کا شکر آپ دیکھتے ہی سمجھ گئے، ورنہ مجھے ایاز نظامی کو سمجھانا پڑتا۔
ایاز نظامی
علت و معلول کی بحث میں تو مومنین خود اپنے ہی اصول کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں، اس لئے میں نے تو علت و معلول کے ذریعے اس بحث کو چھیڑنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔
ذیشان وڑائچ
پھنسائیے۔ میں تیار ہوں۔
ایازنطامی
جب ہم کسی علم کے ذریعے کسی بھی چیز کی جانچ کرتے ہیں تو اس علم کے مسلمات سے کبھی انحراف نہیں کیا جاتا، ایسا نہیں ہو سکتا کہ جہاں لاجواب ہو جائیں تو وہاں (اپنے عقیدے کی مجبوری کی وجہ سے) اپنا الگ اصول وضع کر لیا جائے، جسے اس متعلقہ علم کے ماہرین بھی تسلیم نہ کرتے ہوں۔
اگر آپ کو میری اس بات سے اتفاق ہے تو علت و معلول کی بحث کے مطابق علت کاملہ کیلئے معلول کا پایا جانا ضروری ہے، اگر علت موجود ہو اور معلول فی الحال موجود نہیں تو پھر اس علت کو علت کاملہ نہیں بلکہ علت ناقصہ کہا جاتا ہے، کیا آپ خدا کو علت ناقصہ تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں؟؟؟
ذیشان وڑائچ
کیا آپ خدا کو علت ناقصہ تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں؟نہیں۔
ویسے آپ نے یہ بات واضح نہیں کی ہے کہ آپ کس علم کی بات کررہے ہیں اور اس علم کے مسلمات کیا ہیں۔
ایازنظامی
آپ کو معلوم بھی ہے کہ علت و معلول کس علم کی اصطلاحات ہیں؟
اشعر نجمی
زیشان ورائچ صاحب، میں اس لیے اس اسٹیشن پر مسکرایا تھا کیوں کہ ایاز نظامی صاحب کے کئی مضامین اس متعلق میں دیکھ چکا ہوں اور شاید وہ آپ کو اسی دام تک لانا چاہتے تھے، یعنی جنکشن آگیا۔
ذیشان وڑائچ
//آپ کو معلوم بھی ہے کہ علت و معلول کس علم کی اصطلاحات ہیں؟//
اس سے ویسے کوئی فرق نہیں پڑھتا۔ کیوں کہ میری دلیل صرف وہی ہے جو میں نے دی ہے۔ اگر میٹافزکس میں کسی نے کبھی کسی خاص قسم کا کوسمولوجیکل آرگیومنٹ دیا ہے تو اس کے لئے میں ذمہ دار نہیں۔ میری ذمہ داری میری دلیل کی حد تک ہے۔
اشعر نجمی صاحب۔ میں نے بھی ایاز نظامی کی کچھ تحریریں پڑھیں ہیں۔ یقین رکھیں کہ آپ کی مسکراہٹ پریشانی میں بدلنے والی ہے۔
ویسے کچھ دن پہلے نظامی صاحب یہ ڈکلیر کر رہے تھے کہ میٹافزکس فلسفے کا حصہ نہیں ہے۔
اعزازی
کیا میں دوستوں سے گزارش کر سکتا ہوں کہ مجھے ذیشان صاحب سے ون ٹو ون بات کرنے کی اجازت دی جاے تاکہ گفتگو کا رخ کسی ایک سمت میں رہے ؟
خدا محدود یا لامحدود؟ کیسے؟
اعزازی
ذیشان صاحب – ازل میں خدا لامحدود تھا یا محدود ؟ اس حوالے سے آپ دو جواب دے سکتے ہیں – پہلا یہ کہ خدا محدود تھا اور دوسرا یہ کہ خدا لامحدود تھا – اگر خدا کو ازل میں محدود مانیں گے تو پھر سوال پیدا ہوگا کہ وہ دوسری کونسی چیز یا چیزیں تھیں جنہوں نے خدا کو محدود کیا – اور اگر خدا کو لامحدود مانیں گے تو خلق کائنات (موجودات ) کے حوالے سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم موجودات کو خدا کہہ سکتے ہیں ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو اسکا مطلب ہے ہم سب خدا ہیں اور اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر آپ کو ماننا پڑے گا کہ خدا لامحدود سے محدود ہوگیا – کیونکہ جہاں سے موجودات کی حد شروع ہوگی وہاں پر خدا کی حد ختم ہو جاے گی – اب آپ سے سوال ہے کہ کیا ایک محدود ہستی خدا ہو سکتی ہے ؟
ذیشان وڑائچ
جناب، آپ نے اپنی طرف سے سوال اور جواب پیدا کر کے خود سے فیصلہ بھی کر لیا۔میرا جواب یہ ہے کہ یہ سوال مبہم ہے۔ آپ اس بات کی وضاحت کریں کہ خدا کے لامحدود ہونے اور محدود ہونے سے آپ کا کیا مطلب ہے۔ اس سے مراد محدود فاصلہ ہے یا محدود وقت؟اور ویسے بھی فاصلہ اور وقت تو کائنات کی خصوصیت ہے نہ کہ خدا کی۔ یہ تو خدا کی مخلوق ہے۔ تو خالق کو مخلوق کے پیرامیٹر سے کیسے جانچا جائے۔
ویسے اگر وجود کی ہی بات ہے۔ تو جناب انسان موجود ہے اور خدا بھی موجود ہے۔ لیکن خدا کا وجود انسان کے وجود سے بالکل علیحدہ ہے۔ انسان کا وجود بہت سارے ایٹم، مالیکیول، خلیے کی خاص ترتیب کا نام ہے، اور پھر آپ مانیں تو اس میں روح یا ذہن یا شعور ہوتا ہے۔ جبکہ خدا کا وجود ان سب چیزوں سے علیحدہ ہے۔ تو جناب اگرچیکہ وجود کا لفظ تو مشترک ہے، لیکن جن معنوں میں یہ وجود ہے وہ بہرحال الگ ہے۔ جونکہ عمومی طور پر انسانی زبانیں انسان کی خصوصیات کو سمجھنے کے لئے ارتقاء پذیر ہوئی ہیں اس لئے انسانی زبانوں میں خدا کے وجود کو بھی وجود ہی کہا جاتا ہے۔
اعزازی
فاصلہ اور وقت کے حوالے سے خدا کی لامحدودیت کو تو آپ نے خود ہی رد کر دیا ہے اور ویسے میں نے بھی وقت اور فاصلہ کے حوالے سے نہیں پوچھا تھا – میرا سوال خدا کے وجود کے حوالے سے ہے – اور لامحدود او رمحدود کی تعریف یہ ہے کہ لامحدود وہ ہے جس کی کسی بھی ذریعے سے ماپا نا جا سکے اور محدود وہ ہے جس کو کسی بھی ذریعے سے ماپا جا سکے – ایک سادہ مثال سے بھی سمجھاتا ہوں کہ ہم ایک درجن کیلوں کو گنتی کے ذریعے سے ماپ سکتے ہے اور ہمیں پتا ہے کہ کیلے کا وجود کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں پر ختم ہوتا ہے – اب فرمائیں کہ خدا کا وجود ازل میں لامحدود تھا یا محدود ؟
ذیشان وڑائچ
تو جناب مفروضے کی حد تک ہی سہی اگر آپ نے یہ تسلیم کر ہی لیا ہے کہ خدا کے لئے وقت اور فاصلے کا پیرا میٹر غلط ہے تو پھر آپ ہی بتائیں کہ جب آپ محدود اور لامحدود کا لفظ استعمال کر رہے ہیں تو اس سے آپ کی مراد کونسے پیرا میٹر کی محدودیت ہے؟ سوال آپ نے پوچھا ہے اور وضاحت بھی آپ ہی کردیں۔ کیا آپ خدا کے سائز کی بات کر رہے ہیں، عدد کی بات کر رہے ہیں یا کچھ اور؟ پیمائش کا لفظ بالکل ہی بے معنی ہوجاتا ہے جب تک آپ یہ نہ بتائیں کی کس چیز کی پیمائش؟؟ آپ خود ماپنے کی بات کر رہے ہیں اور یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ کونسی چیز کی پیمائش ہورہی ہے۔
آپ نے کیلے کی مثال دی۔ لیکن اس مثال کو دینے کے لئے آپ کو گنتی اور لمبائی کی وضاحت کرنی پڑی۔ تو جناب آپ جب خدا کی محدودیت یا لامحدودیت کی بات کر رہے ہیں تو وضاحت کردیں کہ کونسی پیمائش کے اعتبار سے بات کر رہے ہیں۔
اعزازی
محترم آپ سمجھ رہے ہیں اور آپ کو پتا ہے کہ آپ پھنس رہے ہیں اسلئے ڈائرکٹ جواب نہیں دے رہے بلکہ جوابی سوالوں سے بات کا رخ موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں – چلیں میں اپنی بات کو ایک دوسرے طریقے سے آپ سے پوچھتا ہوں – امید کرتا ہوں کہ اس طریقے سے آپ نہیں بھاگ سکیں گے کیا میں ، آپ ، پہاڑ ، لوہا ، سونا ، گیسیں، درخت یا پانی وغیرہ خدا ہیں ؟
ذیشان وڑائچ
اچھا___؟؟؟؟ آپ مجھے پھنسا رہے تھے؟ میں تو یونہی سوال کا جواب دے رہا تھا۔۔میرا خیال ہے کہ یہاں کافی ادبی انداز میں بات ہوتی ہے۔ مہذب انداز میں بحث میں بھاگنے وغیرہ کی باتیں نہیں کرنی چاہئے۔ آپ اگر پھنسا نہیں پارہے ہیں تو بھی فرسٹریٹ نہیں ہونا چاہئے۔
باقی کیا میں ، آپ ، پہاڑ ، لوہا ، سونا ، گیسیں، درخت یا پانی وغیرہ خدا ہیں ؟ اس طرح کا عقیدہ وحدۃ الوجود والے رکھتے ہیں۔ خدا اور مخلوق الگ ہے۔ آپ کے سوال کا جواب نفی میں ہے۔ آپ ، پہاڑ ، لوہا ، سونا ، گیسیں، درخت یا پانی وغیرہ قطعی طور پر خدا نہیں ہیں۔ امید ہے کہ جواب بالکل واضح ہے۔
ویسے یہ بھی بتادیں کی میں نے کس سوال کا جواب ڈائریکٹ نہیں دیا۔؟؟؟
اعزازی
میں آپ کے اعتراض کو درست سمجھتے ہوے معذرت کرتا ہوں کہ آپ کو میرا انداز برا لگا -چلیں اگر آپ نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ پہاڑ ، لوہا ، سونا ، گیسیں، درخت یا پانی وغیرہ قطعی طور پر خدا نہیں ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ خدا وہاں پر آکر ختم ہو جاتا ہے جہاں سے پہاڑ ، لوہا ، سونا ، گیسیں، درخت یا پانی وغیرہ شروع ہوتے ہیں – سو وجود کے حوالے سے ثابت ہوا کہ خدا محدود ہے – اسکو آپ ہیت کے لحاظ سے اور ہر چیز کے منفرد پارٹیکلز کے لحاظ سے سمجھیں اور ہر ہیت اور دوسرے سے جداگانہ پارٹیکلز ایک علیحدہ سائز بھی رکھتے ہیں -چونکہ پہاڑ ، لوہا ، سونا ، گیسیں، درخت یا پانی وغیرہ ہر چیز علیحدہ پارٹیکلز رکھتی ہے سو ہم کہہ سکتے ہیں خدا کے پارٹیکلز وہ نہیں جو ان چیزوں کے ہیں ۔
ذیشان وڑائچ
یہاں پر مسئلہ آپ کی تعبیر کا ہے۔ خدا ان معنوں میں مادی ہے ہی نہیں جن معنوں میں خدا کی مخلوق ہے۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ “خدا وہاں پر آکر ختم ہوجاتا ہے” تو آپ اپنے ذہن میں کہیں پر خدا کو اس زمان و مکان کی دنیا سے شروع کر رہے ہیں۔ جب خدا یہاں پر شروع ہی نہیں ہورہا ہے تو ختم کیسے ہوگیا؟؟؟
یہاں پر جب آپ خدا کو محدود کہتے ہیں تو بھی آپ خدا کو کسی نہ کسی طرح زبردستی زمان و مکان کی حدود میں لے کر آرہے ہیں۔ اور اسی زمان و مکان میں محدود کر رہے ہیں۔خدا اپنی مخلوق کی طرح سے نہیں ہے۔ بات پارٹیکلز کی ہی نہیں ہے بلکہ اس مخلوق کا وجود وقت اور خلا پر منحصر ہے۔ جب کہ خدا زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔
اعزازی
جن معنوں میں بھی ہے جب آپ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ان موجودات سے علیحدہ ہے تو ثابت ہوتا ہے کہ وہ وہاں پر نہیں جہاں پر یہ موجودات ہیں سو وہ محدود ہوا اور زمان و مکان در حقیقت کوئی چیز نہیں ہیں انسان نے اپنی سہولت کے لیے ایک مخصوص واقعے سے دوسرے واقعے کے درمیانی وقفے کو زمان کا نام دے رکھا ہے ۔اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا اپنی مخلوق کی طرح سے نہیں ہے تو دوسرے لفظوں میں آپ یہ دعوی کر رہے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ خدا کس طرح کا ہے – مجھے یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ بقول آپ کے اگر خدا اپنی مخلوق کی طرح کا نہیں ہے تو کس طرح کا ہے اور آپ کی معلومات کا ماخذ کیا ہے جن کی مدد سے آپ نے جانا کہ خدا اپنی مخلوق کی طرح کا نہیں ہے ۔
ذیشان وڑائچ
اس حصے کو آپ نے نظر انداز کردیا۔جب آپ یہ کہتے ہیں کہ “خدا وہاں پر آکر ختم ہوجاتا ہے” تو آپ اپنے ذہن میں کہیں پر خدا کو اس زمان و مکان کی دنیا سے شروع کر رہے ہیں۔ جب خدا یہاں پر شروع ہی نہیں ہورہا ہے تو ختم کیسے ہوگیا؟؟؟قرآن کے مطابق لیس کمثلہ شی۔ یعنی وہ کسی چیز کی طرح سے نہیں ہے۔ اس سے آگے میرے پاس کوئی ذریعہ علم نہیں ہے۔
اعزازی
گویا آپ ایک گمان کی پیروی کر رہے ہیں – یہ بھی فرما دیں کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ وہ اور چیزوں کی طرح نہیں ہے ؟ کیا صرف قران کی ایک آیت؟اسکے علاوہ ” وہ اور چیزوں کی طرح سے نہیں ہے ” یہ ایک دعوی ہے اور ہر دعوے کو دلیل اور ثبوت کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے – اب اپنے اس دعوے کو کہ وہ اور چیزوں کی طرح سے نہیں ہے دلیل اور ثبوت سے ثابت کریں –
ذیشان وڑائچ
جب آپ دین سے متعلق بحث کرتے ہیں تو دو طرح سے بحثیں ہوتی ہیں۔
ایک یہ کہ دین کے جتنے بھی دعوے ہیں اس کے بارے میں سوال کریں کہ اس کا ثبوت کیا ہے۔ یعنی یہ ثابت کریں کہ خدا ہے، آخرت ہے، فرشتوں کا کیا ثبوت ہے۔ جنت اور جہنم کے ہونے کا ثبوت کیا ہے۔ یہ سوالات آ جا کر بنیادی طور پر دو سوالات پر منتج ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا کے ہونے کا ثبوت کیا ہے اور دوسرا یہ کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ محمدؐ خدا کے رسول ہیں۔
دوسری بحث اس بارے میں یہ ہوتی ہے کہ دین کے اندر جو دعوے پائے جاتے ہیں ان کے اندر تناقض یا تضاد تو نہیں ہیں؟ یا یہ غیر منطقی یا خلاف عقل تو نہیں ہے۔عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ ایتھیسٹ بحث شروع کرتے ہوئے دوسرے نکتے سے، یعنی دین کے دعووں کو منتاقض یا غیر منطقی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس میں ناکام رہے تو فوراً یہ سوال ڈال دیتے ہیں کہ ثبوت کیا ہے۔ یعنی پہلے شروعات دوسری قسم کی بحث سے کرتے ہیں اور ناکام ہونے کی صورت میں بحث کو پہلی والی قسم پر موڑ دیتے ہیں۔
اگر خدا کے وجود اور دین کی بنیادی دعاوی پر ہی اعتراض کرنا تھا تو پہلے والی قسم سے ہی بات شروع کی جاتی۔ یہی پوچھ لیتے کہ خدا کے ہونے کا کیا ثبوت ہے۔ اگر اس بات کو ماننے یا فرض کرنے پر تیار نہیں تو دوسری قسم سے بات شروع ہی کیوں کی جاتی؟
کیسے خدا آوروں کی طرح سے نہیں ہے؟میرا خیال ہے کہ یہ بہت آسان ہے۔ خدا کو فرسٹ کاز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ایک منطقی استخراج یہ ہے کہ کاز اور ایفیکٹ دو الگ چیزیں ہیں۔ کاز کے نتیجے میں ایفیکٹ ہوتا ہے۔ اس لئے خدا اور کائنات قطعی طور ہر دو الگ چیزیں ہیں۔
اعزازی
خدا کو فرسٹ کاز بنانے کے لیے ایک نظریہ پیش کیا جاتا ہے کہ تسلسل باطل ہے اس لیے کہیں پر اسکا اختتام ہوگا – یہ بذات خود ایک دعوی ہے جسکو ثابت نہیں کیا جا سکتا – اگر آپ اسکو ثابت کر سکتے ہیں تو اس پر پہلے بات کر لیں – اگر کاز اور ایفکٹ دو علیحدہ چیزیں ہیں تو اسکا مطلب ہے ہر کاز اور ہر ایفیکٹ علیحدہ ہیں سو پھر ہر کاز کو خدا ماننا پڑے گا ؟
نیز آپ نے قران کی ایک آیت کا حوالے دے کر فرمایا کہ خدا آوروں سے الگ ہے اسلئے اسے ثابت نہیں کیا جاسکتا – آپ کی یہ دلیل ناقص ہے کیونکہ کائنات بھری پڑی ہے ایسی چیزوں سے جو آوروں سے الگ ہیں لیکن پھر بھی ثابت شدہ ہیں – کیا آگ اور چیزوں سے الگ نہیں ہے ، کیا پانی اور چیزوں سے الگ نہیں ہے ، کیا مٹی اور چیزوں سے الگ نہیں ہے – سب الگ الگ ہیں لیکن پھر بھی ثابت شدہ ہیں –
ذیشان وڑائچ
تسلسل باطل کے باطل ہونے کی ایک وجہ ہے۔ ویسے میرا خیال ہے کہ میں نے جب قرآن کی آیت پیش کی تھی تو وہیں سے فرسٹ کاز والی بات واضح ہونی چاہئے تھی۔ اس وقت آپ نے وجہ نہیں پوچھی۔ ورنہ یہ بحث پہلے ہی ہو جانی چاہئے تھی۔ تسلسل باطل اس لئے ہے کیوں کہ یہ کائنات جو کہ ایفکٹ ہے اسی میں تسلسل نہیں ہے۔ پہلے سے ہی فلاسفہ میں یہ بحث ہوچکی ہے کے آیا اس کائنات میں دوام ہے یا نہیں۔ موجودہ دور میں بگ بینگ تھیوری نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کائنات کی ابتداء ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ تسلسل ہے تو اپنا کیس واضح کریں۔
ہر کاز کو خدا کیوں ماننا پڑے گا؟ کوسمولیجیکل آرگیومنٹ میں صرف فرسٹ کاز کو خدا مانا جا سکتا ہے۔ اگر اس پوری کائنات کو ایفکٹ مانا جائے جو کہ ہے تو پھر اس کی علت اولی ہی خدا ہے۔
//کیا آگ اور چیزوں سے الگ نہیں ہے ، کیا پانی اور چیزوں سے الگ نہیں ہے ، کیا مٹی اور چیزوں سے الگ نہیں ہے – سب الگ الگ ہیں لیکن پھر بھی ثابت شدہ ہیں -؟ //
کیا ایسا ہوا ہے کہ میں نے صرف کسی بھی چیز کے الگ ہونے کو اس بات کی دلیل بنائی ہے کہ اس کو ثابت نہیں کیا جاسکتا؟ اصل نکتہ ایمپیریکل ثبوت کا ہے۔ ہمارے محسوسات مادہ، قوت، وقت، فاصلہ جیسی کائناتی حقیقتوں تک محدود ہیں جبکہ اللہ اس ایمپیریکل کائنات کا خالق ہے۔ اس لئے خدا خود اس اپمپیریکل کائنات کا حصہ نہیں ہے۔ جو چیز اس کائنات سے ہی علیحدہ ہے اس کے لئے ایمپیریکل ثبوت کا مطالبہ کرنا بذات خود تضاد ہے۔
ویسے یہ بتائیں کہ آیا آپ کے نزدیک کاز اور ایفکٹ ایک ہی چیز ہوسکتی ہے؟
کیا اللہ نور ہے؟
اعزازی
اسی پیش کردہ آیت کے ضمن میں ایک اور بات بھی کہنا چاھتا ہوں کہ قران میں ہی خدا کہتا ہے کہ میں زمین اور آسمانوں کا نور ہوں اور نور کو قران میں ہی روشنی کے معنوں میں بیان کیا گیا ہے – اب ہم اپنی عملی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ کائنات میں روشنی بھری پڑی ہے – سو خدا کا یہ کہنا کہ وہ آوروں کی طرح سے نہیں اس آیت سے متصادم ہوتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ میں زمین اور آسمانوں کا نور ہوں – اسی ضمن میں یہ بھی کہنا چاھتا ہوں کہ خدا کی بیان کردہ بہت سی صفات دنیا میں انسانوں اور دیگر حیوانوں میں پائی جاتی ہیں ۔
ذیشان وڑائچ
انسانی زبانیں کائناتی حقیقتوں کو سمجھے کے لئے ڈیزائن کی گئی ہیں۔ انسانی زبان میں جو الفاظ ہوتے ہیں عام طور پر اس کا مآخذ انسانی تجربات ہوتے ہیں جو کہ تمام انسانوں کو محسوس ہوتے ہیں۔ کسی ایسی حقیقت کو الفاظ میں ڈھالنا جس کا تجربہ تمام انسانوں کو یکساں طور پر نہیں ہوتا، تقریبا ناممکن ہے۔ اس لئے خدا نے قرآن میں ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو کہ ہیں تو اسی عام زبان کے الفاظ، لیکن پھر انسانوں کو اپنی قوت تخیل کے ذریعے اسی کو استعمال کر کے خدا کو بھی سمجھنا ہوتا ہے۔ اس لئے جو دنیاوی الفاظ خدا کی صفت کے لئے بیان کئے جاتے ہیں اس کے بارے میں ہم یہ اصول رکھتے ہیں کہ وہ صفت اگرچیکہ وہی ہے جو بیان ہوئی ہے لیکن وہ خدا کی شان کے مطابق ہے۔ اس نکتہ کے پیش نظر ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ زمین و آسمان کا نور ہے اور اس نور سے الگ ہے جس کا تجربہ ہم دنیوی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ نور حقیقت میں ادراک کا نام ہے۔ خدا ہی تمام ادراکات کا منبع ہے۔
خدا کی بیان کردہ بہت سی صفات دنیا میں انسانوں اور دیگر حیوانوں میں پائی جاتی ہیں؟اس کا ایک جواب تو وہ ہے جو میں نے اوپر بیان کیا۔ ایک اور نکتہ واضح رہے کہ اللہ نے انسانوں کو جو صفات دی ہیں وہ کچھ اعتبارات سے مخلوق سے الگ ہے۔ انسانی صفات وقتی ہیں اور اس میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ انسانی صفات کسی سہارے کی محتاج ہیں، جیسے سننے کے لئے ہوا کی ضرورت ہے، انسانی صفات اس کی ذاتی نہیں ہے وغیرہ۔
اعزازی
جب آپ یہ فرماتے ہیں کہ کہ تسلسل باطل اس لئے ہے کیوں کہ یہ کائنات جو کہ ایفکٹ ہے اسی میں تسلسل نہیں ہے تو آپ کی تسلسل کے باطل ہونے کی خود ہی نفی ہو جاتی ہے – آپ یہ بات اس مفروضے پر کر رہے ہیں کہ یہ کائنات پیدا شدہ ہے اور اسی لیے اسکی فرسٹ کاز ہے جبکہ یہ کائنات پیدا شدہ نہیں ہے بلکہ تغیر پذیر ہے – آپ مجھے پیدا ہونے کی تعریف کر دیجئے اور اس تعریف کے مطابق مجھے بتا دجے کہ کائنات میں کونسی چیز پیدا ہو رہی ہے – یاد رکھئے کہ کائنات میں صرف تغیر رونما ہو رہا ہے کوئی چیز نہ کسی کو پیدا کر رہی ہے اور نہ ہی فنا ،،،،، صرف چیزیں دوسری چیزوں کی ہیت کو تبدیل کر رہی ہیں
دوسری بات کائنات میں دوام ہے یا نہیں اس پر بحث کر لیجئے – یہ کائنات قدیم ہے نہ اسکا کوئی شروع ہے اور نہ کوئی اخیر – اگر آپ اسلامی فلسفے کے مطابق یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ کائنات الله نامی کسی ہستی نے بنائی تو پھر آپ کی یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ اسکی کوئی ساخت بھی ہے کیونکہ ہر بنائی ہوئی چیز کی کوئی ساخت ہوتی ہے – چلیں آپ مجھے اسکی ساخت بتا دیں کہ یہ کائنات گول ہے، چوکور ہے ، تکونی ہے یا اور کس طرح کی ہے اور یہ بھی بتا دیں کہ جہاں پر اس کائنات کے کنارے ختم ہوتے ہیں وہاں سے آگے کیا شروع ہوتا ہے ؟
تیسری بات بیگ بینگ کائنات کی ابتدا نہیں ہے کیونکہ اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ وہ کونسی چیز تھی جس میں وہ عظیم الشان دھماکہ رونما ہوا اور وہ چیز کیسے بن گیی اور کب کی بنی ہوئی تھی ؟ اسکو قران کی آیات سے بھی واضح کرتا ہوں کہ قران میں سات آیات ایسی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہی الله ہے جس نے چھ دن میں زمین اور سات آسمان بناے اور پھر جا عرش پر قرار پکڑا یا پھر عرش پر مستوی ہوا – اسکے علاوہ قلم کا ذکر ہے (اور کیا وہ قلم سیاہی/روشنائی کے بغیر لکھتا تھا ، اگر نہیں تو وہ سیاہی / روشنائی کب بنی ؟) ، عرش کا ذکر ہے اور لوح محفوظ کا ذکر ہے جو کہ زمین اور سات آسمانوں سے پہلے کے موجود تھے – آپ کے یہ بھی طے کرنا پڑے گا کہ عرش ، قلم ، لوح محفوظ وغیرہ کائنات کا حصہ تھیں یا نہیں یعنی کائنات کے اندر ہیں یا باہر ؟
چوتھی بات یہ کہ اگر آپ یہ قانون بناتے ہیں کہ ہر ایفکٹ کے لیے کاز کا ہونا ضروری ہے تو یہی اس بات کی دلیل ہے کہ تسلسل باطل نہیں ہے –
// ہر کاز کو خدا کیوں ماننا پڑے گا؟ کوسمولیجیکل آرگیومنٹ میں صرف فرسٹ کاز کو خدا مانا جا سکتا ہے۔ اگر اس پوری کائنات کو ایفکٹ مانا جائے جو کہ ہے تو پھر اس کی علت اولی ہی خدا ہے۔ ///
فرسٹ کاز ہے ہی نہیں ہے اس کائنات میں – اگر فرسٹ کاز کا دعوی کرتے ہیں تو دلائل سے ثابت کریں کہ فرسٹ کاز کیسے ہے – اس فلسفے پر میری پی ایچ دی اسلامک کالرز سے گفتگو ہو چکی ہے اور گفتگو کے آخر میں یہی نتیجہ نکلا کہ فرسٹ کاز نہیں ہے – آپ بھی شوق پورا کر لیجئے اور فرصت کاز کو ثابت کیجئے کہ کیسے ہے ؟
//// کیا ایسا ہوا ہے کہ میں نے صرف کسی بھی چیز کے الگ ہونے کو اس بات کی دلیل بنائی ہے کہ اس کو ثابت نہیں کیا جاسکتا؟////
جی اوپر یہی ہوا ہے . … جب خدا کو باقی چیزوں سے علیحدہ ثابت کرنے کی بات ہو رہی تھی تو آپ نے آیت کا حوالہ دیا تھا کہ خدا آوروں سے الگ ہے اسلئے اسکو ثابت نہیں کیا جا سکتا – اگر کیا جا سکتا ہے تو ثابت کر دیں –
//// اصل نکتہ ایمپیریکل ثبوت کا ہے۔ ہمارے محسوسات مادہ، قوت، وقت، فاصلہ جیسی کائناتی حقیقتوں تک محدود ہیں جبکہ اللہ اس ایمپیریکل کائنات کا خالق ہے۔ اس لئے خدا خود اس اپمپیریکل کائنات کا حصہ نہیں ہے۔ جو چیز اس کائنات سے ہی علیحدہ ہے اس کے لئے ایمپیریکل ثبوت کا مطالبہ کرنا بذات خود تضاد ہے۔////
اوکے…. اگر الله امپیرِکل کائنات کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ثابت نہیں کیا جاسکتا تو اپنی معلومات کا ماخذ بتا دیں جن کی مدد سے آپ نے جانا کہ کوئی الله ٹائپ کی چیز ہے –
//// جو چیز اس کائنات سے ہی علیحدہ ہے اس کے لئے ایمپیریکل ثبوت کا مطالبہ کرنا بذات خود تضاد ہے۔////
اگر الله اس کائنات کا حصہ نہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ہیت کے لحاظ سے وہ اس کائنات سے مختلف ہے اور اس کائنات کے باہر ہے کیونکہ اگر اسکو کائنات کے اندر مانیں گے تو پھر اسکو کائنات کا حصہ ماننا پڑے گا – اور آپ کے بیان کے مطابق اگر وہ کائنات کا حصہ نہیں تو اسکا مطلب ہے اسکی ہیت ایسی ہے کہ جس میں اسکی حد وہاں پر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے کائنات شروع ہوتی ہے … قانون ہے کہ ہر ہیت ایک علیحدہ حجم / سائز رکھتی ہے – کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں ؟
//// اس لئے جو دنیاوی الفاظ خدا کی صفت کے لئے بیان کئے جاتے ہیں اس کے بارے میں ہم یہ اصول رکھتے ہیں کہ وہ صفت اگرچیکہ وہی ہے جو بیان ہوئی ہے لیکن وہ خدا کی شان کے مطابق ہے۔ اس نکتہ کے پیش نظر ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ زمین و آسمان کا نور ہے اور اس نور سے الگ ہے جس کا تجربہ ہم دنیوی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ نور حقیقت میں ادراک کا نام ہے۔ خدا ہی تمام ادراکات کا منبع ہے۔ //
اسکا مطلب ہے خدا جھوٹ بولتا ہے اگر وہ اس نور کے جیسا نہیں ہے جو ہمارے محسوسات محسوس کرتے ہیں تو پھر اسکو انکی مثال بھی نہیں دینی چاہئیے – یہ ایسے ہی ہے کہ ایک آدمی سے پوچھا جاے کہ تمھارا سر کیسا ہے اور جوابا وہ کہے کہ میرا سر تربوز جیسا ہے اور پھر کہے کہ یہ وہ تربوز نہیں جو آپ دنیا میں دیکھتے ہیں – چاہے وہ یہ توجیہ ہی پیش کرے کہ اسکا سر اندر سے تربوز جیسا نہیں بلکہ ساخت کے لحاظ سے تربوز جیسا ہے مگر جب آپ کسی چیز کو کسی سے مماثلت دیتے ہیں تو کوئی نہ کوئی قدر یکساں مشترک ضرور ہوتی ہے اس مماثلت میں –
// ویسے یہ بتائیں کہ آیا آپ کے نزدیک کاز اور ایفکٹ ایک ہی چیز ہوسکتی ہے؟//
دونوں صورتیں ہو سکتی ہیں – ایک چیز بھی ہو سکتی ہے اور مختلف بھی –
// اس لئے جو دنیاوی الفاظ خدا کی صفت کے لئے بیان کئے جاتے ہیں اس کے بارے میں ہم یہ اصول رکھتے ہیں کہ وہ صفت اگرچیکہ وہی ہے جو بیان ہوئی ہے لیکن وہ خدا کی شان کے مطابق ہے//
جب آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ وہی صفت ہے تو پھر قدر مشترک تو ہو گی نا چاہے وہ خدا کی شان کے مطابق ہی ہو – اگر آپ یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ وہ خدا کی شان کے مطابق ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ وہ فرق جانتے کہ انسان کی شان کیا ہوتی ہے اور خدا کی شان کیا ؟ آپ سے درخواست ہے کہ خدا کی شان کی تعریف فرما دیجئے –
// انسانی صفات وقتی ہیں اور اس میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔//
ہم وقتی یا ابدی موضوع پر بات نہیں کر رہے ہم مماثلت یا قدر مشترک پر بحث کر رہے ہیں – انسان صفات چاہے وقت بھی ہوں مگر مماثلت تو آ گیی نا –
آپ فرماتے ہیں کہ الله زمان و مکان سے باہر ہے اسی حوالے سے ایک گفتگو کا آغاز کرتا ہوں – چھوٹا سا سوال ہوگا اور چھوٹے سے جواب کی درخوست ہے –
اگر عزازی ایک اونٹ پر بیٹھا ہو تو کیا آپ تفریق کر سکتے ہیں کہ ان میں سے اونٹ کون ہے اور عزازی کون ؟ اور کیسے ؟
ذیشان وڑائچ
کائنات کا تسلسل: ہمارے مشاہدے میں جو بات آتی ہے وہ یہ ہے کہ چیزیں پرانی ہوجاتی ہیں، انرجی رہتی ہے لیکن ناقابل استعمال ہوجاتی ہے۔ اس اعتبار سے پرانے فلاسفہ نے یہ نکتہ بنایا تھا کہ جو چیز تغیر پذیر ہوتی ہے وہ ازلی نہیں ہوسکتی۔ ازلی چیز کو ہمیشہ باقی رہنے کے لئے یا تو ایک ہی حالت میں رہنا پڑتا ہے یا سائکلک ہونا پڑتا ہے۔ چیزوں کے پرانے ہونے یا انرجی کے ناقابل استعمال ہونی کی علمی تعبیر کو فزکس میں انٹروپی کہتے ہیں اور یہ ایک تسلیم شدہ اصول ہے۔ ویسے اتنی کمپلیکس بحث میں جانے کے بجائے بگ بینگ کے مطابق یہ کائنا ازلی نہیں ہے۔ تسلسل کے بارے میں آپ کے کسی بھی نکتے کا جواب دئے بغیر بگ بینگ ہی آپ کے سوال کا جواب ہے۔ یہ جدید تحقیق کے بنا پر تسلیم شدہ اصول ہے۔ مزید واضح ہوکہ میں کائنات کے اندر کسی چیز کی تخلیق کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ بلکہ کائنات کی ہی تخلیق کی بات کر رہا ہوں۔
دوسرا نکتہ: آپ کی طرف سے یہ شرط قطعی بے معنی ہے کہ تخلیق شدہ چیز کی کوئی شکل ہونی چاہئے۔ اور آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس کو مخلوق ماننے کی صورت میں اس کی شکل بھی بتادینی پڑے گی۔ نہ مخلوق کے لئے کوئی شکل ہونا شرط ہے اور نہ ہی میں ایسی کسی شکل کو بتانے کا پابند ہوں۔ ویسے آپ وکیپیڈیا میں دھونڈ کر دیکھ لیجئے، آپ کو اس بارے میں سائنسی نکتہ نظر بھی پتہ چل جائے گا۔ سائنس کے مطابق کائنات کی شکل ہے۔
تیسرا نکتہ//تیسری بات بیگ بینگ کائنات کی ابتدا نہیں ہے کیونکہ اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ وہ کونسی چیز تھی جس میں وہ عظیم الشان دھماکہ رونما ہوا اور وہ چیز کیسے بن گیی اور کب کی بنی ہوئی تھی ؟ //
یہی تو ایک خالق کے ہونے کی دلیل ہے جناب۔! ویسے سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ تیرہ اعشاریہ سات بلین سال پہلے یہ وجود میں آئی۔ باقی قرآن پاک اور بگ بینگ کے درمیان مطابقت پیدا کرنا ہمارا کام ہے۔ اگر ہم لوگ اس میں ناکام بھی رہے تو بھی علت اولی کی بنیادیں ویسی ہی رہتی ہیں۔ اور اس کے لئے ہم یہ بتانے کے پابند نہیں ہیں کہ عرش اور لوح و قلم کائنات کا حصہ ہے یا نہیں۔ میرے پاس اس کا جواب یہ ہے کہ “مجھے نہیں معلوم”
//چوتھی بات یہ کہ اگر آپ یہ قانون بناتے ہیں کہ ہر ایفکٹ کے لیے کاز کا ہونا ضروری ہے تو یہی اس بات کی دلیل ہے کہ تسلسل باطل نہیں ہے -//
کیسے؟ آپ علت اور علت اولی کے درمیان خلط ملط کر رہے ہیں۔
//فرسٹ کاز ہے ہی نہیں ہے اس کائنات میں – اگر فرسٹ کاز کا دعوی کرتے ہیں تو دلائل سے ثابت کریں کہ فرسٹ کاز کیسے ہے – اس فلسفے پر میری پی ایچ دی اسلامک کالرز سے گفتگو ہو چکی ہے اور گفتگو کے آخر میں یہی نتیجہ نکلا کہ فرسٹ کاز نہیں ہے – آپ بھی شوق پورا کر لیجئے اور فرصت کاز کو ثابت کیجئے کہ کیسے ہے ؟//
اصولی طور پر ایفکٹ ہی اس بات کی دلیل ہے کہ کاز ہے۔ اگر آپ کسی کاز کو بھی کسی کا ایفکٹ مانتے ہیں تو پھر اس ایفکٹ کا بھی کاز ہوتا۔ اور آپ اس کاز کو بھی کسی کا ایفکٹ مانتے ہیں تو پھر اس ایفکٹ کا بھی کاز ہوتا۔ اس طرح یہ ایک لامحدود سیریز ہوجاتی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کسی بھی چیز کا وجود ہونا ہی نہیں چاہیے۔ لیکن چونکہ کائنات ہے تو کسی نہ کسی لیول پر فرسٹ کاز ضرور ہے۔ ورنہ کاز ایک ایفکٹ کی ایک لامحدود تصوراتی سیریز ہوتی لیکن کسی کا وجود نہ ہوتا اور نہ ہی کوئی اس سیزیر کو سوچنے والا ہوتا۔
// کیا ایسا ہوا ہے کہ میں نے صرف کسی بھی چیز کے الگ ہونے کو اس بات کی دلیل بنائی ہے کہ اس کو ثابت نہیں کیا جاسکتا؟/ جی اوپر یہی ہوا ہے . … جب خدا کو باقی چیزوں سے علیحدہ ثابت کرنے کی بات ہو رہی تھی تو آپ نے آیت کا حوالہ دیا تھا کہ خدا آوروں سے الگ ہے اسلئے اسکو ثابت نہیں کیا جا سکتا – اگر کیا جا سکتا ہے تو ثابت کر دیں -//
خدا اوروں سے الگ ہے میں نے خدا کی صفات کو انسانوں کی صفات سے علیحدہ واضح کرنے کے لئے بیان کیا تھا نہ کہ یہ بتانے کے لئے کہ خدا کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ میں یہ بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ خدا کیسا ہے یہ مکمل طور پر نہیں بتایا جاسکتا۔ یہ نہیں کہ خدا کو ثابت نہیں کیا جاسکتا
میرا اوپر والا کمنٹ ملاحظہ ہو
//اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا اپنی مخلوق کی طرح سے نہیں ہے تو دوسرے لفظوں میں آپ یہ دعوی کر رہے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ خدا کس طرح کا ہے // ضروری نہیں ہے۔ قرآن کے مطابق لیس کمثلہ شیا۔ یعنی وہ کسی چیز کی طرح سے نہیں ہے۔ اس سے آگے میں میرے پاس کوئی ذریعہ علم نہیں ہے۔
//گویا آپ ایک گمان کی پیروی کر رہے ہیں – یہ بھی فرما دیں کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ وہ اور چیزوں کی طرح نہیں ہے ؟ کیا صرف قران کی ایک آیت؟
اسکے علاوہ ” وہ اور چیزوں کی طرح سے نہیں ہے ” یہ ایک دعوی ہے اور ہر دعوے کو دلیل اور ثبوت کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے – اب اپنے اس دعوے کو کہ وہ اور چیزوں کی طرح سے نہیں ہے دلیل اور ثبوت سے ثابت کریں -//
اس کی دلیل میں دے چکا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں۔۔میرا خیال ہے کہ یہ بہت آسان ہے۔ خدا کو فرسٹ کاز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ایک منطقی استخراج یہ ہے کہ کاز اور ایفیکٹ دو الگ چیزیں ہیں۔ کاز کے نتیجے میں ایفیکٹ ہوتا ہے۔ اس لئے خدا اور کائنات قطعی طور ہر دو الگ چیزیں ہیں۔
// ویسے یہ بتائیں کہ آیا آپ کے نزدیک کاز اور ایفکٹ ایک ہی چیز ہوسکتی ہے؟/دونوں صورتیں ہو سکتی ہیں – ایک چیز بھی ہو سکتی ہے اور مختلف بھی -//
ذرا وضاحت کرلیں کہ کاز اور ایفیکٹ ایک ہی کیسے ہوسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز خود کو پیدا کرسکتی ہے۔ یعنی اس چیز سے پہلے وہ چیز موجود ہوتی ہے۔ تو پھر اگر اس چیز سے پہلے سے وہ چیز موجود ہوتی ہے تو پھر اس کو ایفکٹ کیسے کہا جاسکتا ہے۔ یہ تو لغوی تضاد ہوگیا۔
// اگر الله امپیرِکل کائنات کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ثابت نہیں کیا جاسکتا تو اپنی معلومات کا ماخذ بتا دیں جن کی مدد سے آپ نے جانا کہ کوئی الله ٹائپ کی چیز ہے -//
اللہ کے وجود کے لئے ایمپیریکل ثبوت طلب نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی یہ مطالبہ کرنا کہ خدا کو خوردبین اور دوربین سے ثابت کریں تو یہ غیر منطقی چیز ہے۔ معقولات کے ذریعے سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ لیکن پھر اس سے خدا کی مکمل کیفیت معلوم نہیں کی جاسکتی۔ کاز اینڈ ایفکٹ کی بحث معقولات کے ذریعے سے ثابت کرنے کی ہی ایک کوشش ہے۔
//اگر الله اس کائنات کا حصہ نہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ہیت کے لحاظ سے وہ اس کائنات سے مختلف ہے اور اس کائنات کے باہر ہے کیونکہ اگر اسکو کائنات کے اندر مانیں گے تو پھر اسکو کائنات کا حصہ ماننا پڑے گا – اور آپ کے بیان کے مطابق اگر وہ کائنات کا حصہ نہیں تو اسکا مطلب ہے اسکی ہیت ایسی ہے کہ جس میں اسکی حد وہاں پر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے کائنات شروع ہوتی ہے … قانون ہے کہ ہر ہیت ایک علیحدہ حجم / سائز رکھتی ہے – کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں ؟//
جب آپ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی حد یہاں ختم ہوتی ہے یا شروع ہوتی ہے تو پھر آپ اللہ کو زمان و مکان کے ذریعے سے ڈیفائن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لئے اس سوال کے جواب کو ہاں یا ناں میں دینے کے بجائے یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ یہ ایک غلط سوال ہے۔ آپ خدا کو ہی غلط طریقے سے ڈیفائن کر رہے ہیں۔
// اسکا مطلب ہے خدا جھوٹ بولتا ہے اگر وہ اس نور کے جیسا نہیں ہے جو ہمارے محسوسات محسوس کرتے ہیں تو پھر اسکو انکی مثال بھی نہیں دینی چاہئیے – یہ ایسے ہی ہے کہ ایک آدمی سے پوچھا جاے کہ تمھارا سر کیسا ہے اور جوابا وہ کہے کہ میرا سر تربوز جیسا ہے اور پھر کہے کہ یہ وہ تربوز نہیں جو آپ دنیا میں دیکھتے ہیں – چاہے وہ یہ توجیہ ہی پیش کرے کہ اسکا سر اندر سے تربوز جیسا نہیں بلکہ ساخت کے لحاظ سے تربوز جیسا ہے مگر جب آپ کسی چیز کو کسی سے مماثلت دیتے ہیں تو کوئی نہ کوئی قدر یکساں مشترک ضرور ہوتی ہے اس مماثلت میں -// اس کی وضاحت میں نے ایک اور کمنٹ میں کر دی تھی۔ ملاحظۃ ہو
تو جناب اگرچیکہ وجود کا لفظ تو مشترک ہے، لیکن جن معنوں میں یہ وجود ہے وہ بہرحال الگ ہے۔ جونکہ عمومی طور پر انسانی زبانیں انسان کی خصوصیات کو سمجھنے کے لئے ارتقاء پذیر ہوئی ہیں اس لئے انسانی زبانوں میں خدا کے وجود کو بھی وجود ہی کہا جاتا ہے۔– اسی اعتبار دیکھیں کہ اللہ کی صفات کو انسانوں کی زبانوں میں ہی بیان کرنا ہوتا ہے۔ اور ایک مخلص سمجھنے والا انسان اپنے شعور کو استعمال کرتے ہوئے انہیں الفاظ کو انسانی کمزوروں سے علیحدہ کے سمجھ جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی اسے خدا سے جھوٹ منسوب کرنے کے لئے استعمال کرے تو کرے۔ یہ تو چوائس کی بات ہے۔
// جب آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ وہی صفت ہے تو پھر قدر مشترک تو ہو گی نا چاہے وہ خدا کی شان کے مطابق ہی ہو – اگر آپ یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ وہ خدا کی شان کے مطابق ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ وہ فرق جانتے کہ انسان کی شان کیا ہوتی ہے اور خدا کی شان کیا ؟ آپ سے درخواست ہے کہ خدا کی شان کی تعریف فرما دیجئے -//
ویسے تو اس سوال کا جواب موقعے کی ہی مناسبت سے دیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ سمجھیں کہ کسی کمزوری، عیب یا محتاجی سے مبرا ہونا۔
//ہم وقتی یا ابدی موضوع پر بات نہیں کر رہے ہم مماثلت یا قدر مشترک پر بحث کر رہے ہیں – انسان صفات چاہے وقت بھی ہوں مگر مماثلت تو آ گیی نا -// خدا کی صفات کی بحث میں یہ بات واضح کرنا ضروری تھا۔
//اگر عزازی ایک اونٹ پر بیٹھا ہو تو کیا آپ تفریق کر سکتے ہیں کہ ان میں سے اونٹ کون ہے اور عزازی کون ؟ اور کیسے ؟//
عجیب سوال ہے۔ اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس سوال کے پوچھنے کا مقصد واضح نہیں ہے۔
کاز اینڈ ایفکٹ کے سلسلے میں آپ میرے سوال کا جواب بھی نہیں دے رہے ہیں۔ اتنے سارے سوالات اور وہ بھی گاڑھے قسم کے تھے، گو ان میں سے اکثر نکات کسی نہ کسی طرح پہلے ہی واضح ہوچکے تھے۔ پھر بھی میں نے جواب دے دیا۔ اب دیں میرے سوال کا جواب۔
عرفات آرش
قرآن اپنے ھی دعوے کی اس ایت مین نفی کررھا ھے ۔اللہ نو ر السموات(مثلہ نورہ )…..اس کی مثال ایسی ھے جیسے طاق.روشن شیشہ کی طرح چمکتا ھوا ..
وہ اس ایت میں خود کو مخلوق کی مثل کہ رھا ھے
ذیشان وڑائچ
اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو جواب مل جائے گا۔ اگر آپ الفاظ کو ہی پکڑنا چاہتے ہیں تو میں وضاحت کردوں کہ اس آیت میں اللہ اپنی مثال نہیں دے رہا ہے بلکہ اپنے نور کی مثال دے رہا ہے۔ اس لئے یہ تضاد نہیں پایا جاتا۔لیس کمثلہ شیاً کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی بھی چیز کی طرح سے نہیں ہے۔لیکن انسانی ادراک کے لئے انسان کے تجربے اور مشاہدے ہی کو استعمال ہونا ہے۔ اس لیئے خدا کو سمجھنے کے لئے انسانی زبانیں اور انسانی فہم کا ہی استعمال ہونا ہے۔ اس لئے خدا نے اپنا تعارف انسانی زبان میں فرمادیا۔ باقی تھوڑا بہت انسانوں کو اپنے قوت تخیل کا بھی استعمال کرنا پڑتا ہے۔
عرفات آرش
// یعنی اللہ نور ھے نہ کی مادی وجود// آپ نے تو مسئلہ ہی حل کردیا۔ دنیا کی جو لائٹ ہوتی ہے وہ دراصل مادی وجود ہی ہے۔///////////////////////////////
جناب محترم دنیا کا مادی وجود کس شے سے ماخذ ھے
سوائے نور کے آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا جس کا محدثین و مفسرین اسلام نے اپنی تحریروں میں بیان. فرمایا کہ اللہ نے اپنے نور سے کائنات کو تخلیق فرمایا اب ظاھری بات ھے اپ حوالے مانگیں گے تو اس کا مطلب آپ کی اسلامی تحقیق میں یہ شامل نہیں کہ کائنات کا مادہ کس شے سے تخلیق ھوا
دنیا کے اصل مادے کا ماخذ جب خدا ھے تو Azazee صاحب نے جو بیان فرمایا کہ تمام کائنات خدا ثابت ھوتی ھے اور یہی وہ اسلامی نظریہ تصوف و اناالحق و انت الحق و نحن الحق ھے جس کی تردید فلسفہ و منطق عقلی دلائل پر کرتی ھے
اگر آپ کے معانی اس تمثیل پر ھیں کہ مادی دنیا کی تخلیق میں استعمال ھونے والا نور اور ھے اور اللہ کا نور اور تو پھر یہ سوالات پیدا ھوتے ھیں کہ مادی دنیا والا نور کس شے سے تخلیق ھوا یہاں پر بھی سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں بچتا کہ یہ مان لیا جائے کہ اس نور کی تخلیق کا ماخذ اللہ ھی ھے وھی علت و معلول والا معاملہ جس پر نظامی صاحب نے اپنے کمنٹ میں تذکرہ فرمایا
سوال آخر یہی بنتا ھے کہ اس نور کا ماخذ کیا ھے ؟؟؟؟
//اللہ کی صفات کو انسانوں کی زبان میں //
کیا کوئی لاوجود کی بھی صفت یا صفات ھوتی ھیں ۔اگر اللہ لا وجود نہیں تو وجود کو ثابت کریں جو انسانی صفات سے مزین ھے۔جب وہ کسی شے کی مثل ھے ھی نہیں تو انسان جیسی صفات کا حامل کیوں ھے اسکی صفات بھی الوھی ھونی چاھییں تھیں ۔جہاں پر آپ یہ فرماتے ھیں کہ انسانوں کو سمجھانے کے لیے انسانوں کا انداز بیاں تاکہ اپنا شعور استعمال کر کے علیحدہ سے سمجھ سکے ۔انسانی شعور عقل و حسیات کی بنیاد پر نتائج اخذ کرتا ھے شعور کس زاویے سے اللہ اور اس کی صفات کو مادی وجود و صفات سے علیحدہ کرکے سمجھے یا پرکھے ؟؟؟
ذیشان وڑائچ
//جناب محترم دنیا کا مادی وجود کس شے سے ماخذ ھے//
ماخوذ سے کیا مراد ہے۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تخلیق کے لئے کسی موجود چیز کو ہی کسی دوسری چیز میں تبدیل ہونا ہے؟ یعنی مادہ یا قوت صرف اپنی شکل بدلتی ہے لیکن غیر موجود سے وجود میں نہیں آتا۔ تو جناب یہ آپ کا مؤقف ہے۔ مجھے کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ میں آپ کے مؤقف کے لیے دلیل دوں۔کسی چیز کے وجود میں آنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ارادہ خداوندی ہے۔
//سوائے نور کے آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا جس کا محدثین و مفسرین اسلام نے اپنی تحریروں میں بیان. فرمایا کہ اللہ نے اپنے نور سے کائنات کو تخلیق فرمایا اب ظاھری بات ھے اپ حوالے مانگیں گے تو اس کا مطلب آپ کی اسلامی تحقیق میں یہ شامل نہیں کہ کائنات کا مادہ کس شے سے تخلیق ھوا//
واقعی میں مجھے قرآن یا مستند حدیث سے حوالہ چاہئے کہ اللہ نے اپنے نور سے پیدا کیا ہے۔ یہاں پر بھی آپ نے یہ نظریہ اپنایا ہے کہ خدا کسی چیز کو وجود میں لانے کے لئے کسی اور چیز کا محتاج ہے۔ جی نہیں اللہ کے ناموں میں سے ایک نام “البدیع” ہے۔
//دنیا کے اصل مادے کا ماخذ جب خدا ھے تو Azazee صاحب نے جو بیان فرمایا کہ تمام کائنات خدا ثابت ھوتی ھے اور یہی وہ اسلامی نظریہ تصوف و اناالحق و انت الحق و نحن الحق ھے جس کی تردید فلسفہ و منطق عقلی دلائل پر کرتی ھے//
یہاں پر بھی مسئلہ یہ ہے کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے نظریے کو مان کر دلیل دوں۔ آپ کے پورے نکات میں علت کو مآخذ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ میں نے پوری بحث ہی علت یا کاز پر کی ہوئی ہے۔ لیکن آپ بات کو مآخذ پر لے لئے ہیں۔ تو جناب کیوں نہ پہلے یہی ثابت کریں کہ کسی مادی چیز کے وجود کے لیے اس کا مادی مآخذ ہونا ضروری ہے۔
//اگر آپ کے معانی اس تمثیل پر ھیں کہ مادی دنیا کی تخلیق میں استعمال ھونے والا نور اور ھے اور اللہ کا نور اور تو پھر یہ سوالات پیدا ھوتے ھیں کہ مادی دنیا والا نور کس شے سے تخلیق ھوا//
میرا خیال ہے کہ اوپر کے جوابات اس پر کافی ہیں۔
//یہاں پر بھی سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں بچتا کہ یہ مان لیا جائے کہ اس نور کی تخلیق کا ماخذ اللہ ھی ھے وھی علت و معلول والا معاملہ جس پر نظامی صاحب نے اپنے کمنٹ میں تذکرہ فرمایا //
وہی علت اور مآخذ کو خط ملط کیا گیا ہے۔
//سوال آخر یہی بنتا ھے کہ اس نور کا ماخذ کیا ھے ؟؟؟؟//
اللہ بغیر کسی انپُٹ کے چیزوں کو تخلیق کرتا ہے۔ اس کا ارادہ اور اس کا کلمہ کن کافی ہے۔
//کیا کوئی لاوجود کی بھی صفت یا صفات ھوتی ھیں//
اس سوال کا مطلب مجھے نہیں معلوم۔ سوال عجیب لگتا ہے۔
//اگر اللہ لا وجود نہیں تو وجود کو ثابت کریں جو انسانی صفات سے مزین ھے//
وضاحت کریں کہ کیا ثابت کرنا ہے۔ اللہ کے وجود کو یا اللہ کی صفات کو۔
//۱۔ جب وہ کسی شے کی مثل ھے ھی نہیں تو انسان جیسی صفات کا حامل کیوں ھے اسکی صفات بھی الوھی ھونی چاھییں تھیں
جہاں پر آپ یہ فرماتے ھیں کہ ۲۔ انسانوں کو سمجھانے کے لیے انسانوں کا انداز بیاں تاکہ اپنا شعور استعمال کر کے علیحدہ سے سمجھ سکے//
آپ کے اوپر دئے ہوئے نکات میں دوسرا نکتہ پہلے نکتے کا ہی جواب ہے۔ آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ میں نے اس کا جواب دیا ہے۔ پھر سوال کیا ہے؟؟
//انسانی شعور عقل و حسیات کی بنیاد پر نتائج اخذ کرتا ھے شعور کس زاویے سے اللہ اور اس کی صفات کو مادی وجود و صفات سے علیحدہ کرکے سمجھے یا پرکھے ؟؟؟// یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے نتائج اخذ کرنے اور “سمجھنے اور پرکھنے” کو خلط ملط کردیا ہے۔ آپ خدا کی صفات کو مادی وجود و صفات سے الگ کرنے کے لئے نتائج اخذ کرنے کی بات کر رہے ہیں یا پرکھنے اور سمجھنے کی بات کر رہے ہیں۔
عرفات آرش
اللہ نور السموات والارض ۔اللہ نور ھے آسمانوں اور زمین کا ۔یعنی کائنات کا نور اللہ ھے کائنات کی روشنی اللہ ھے ۔لیکن آپ نے فرمایا کہ اللہ کانور اور ھے اور کائنات کا نور اور یعنی کن سے تخلیق ھوا ۔آپ کی اس وضاحت سے اللہ کے دعوے کی نفی ھوتی ھے ۔کیوں کہ یہ ایک کھلی وضاحت ھے اللہ کی طرف سے کہ وہ خود نور ھے کائنات کا ۔پھر سے پڑھیں کہ وہ خود (اللہ )نور ھے کائنات کا اس آیت میں اگے جو زکر ھے وہ صرف تمثیلی ھے نہ کہ دعوٰی
دعوٰی صرف اتنا ھی ھے کہ وہ خود (اللہ)کائنات کا نور ھے ۔
اگر اس چیز کا انکار کر دیا جائے کہ کائنات میں پھیلی روشنی اسکی نہیں نور اس کا نہیں تو بلکہ کن سے تخلیق نور سے ھے تو اس دعوے کی صداقت پر حرف آتا ھے.
ذیشان وڑائچ
میرا خیال ہے جس بات پر ایک بار آرگیومنٹ ہوچکا ہو تو اور اس بر دوبارہ جبھی آرگیومنٹ ہونا چاہئے جب آپ اضافی نکات کے ساتھ آئیں۔ میں نے یہ جواب پہلے ہی دیا ہوا ہےیہ والا کمنٹ دیکھیے۔انسانی زبانیں کائناتی حقیقتوں کو سمجھے کے لئے ڈیزائن کی گئی ہیں۔ انسانی زبان میں جو الفاظ ہوتے ہیں عام طور پر اس کا مآخذ انسانی تجربات ہوتے ۔۔۔۔۔۔ خدا ہی تمام ادراکات کا منبع ہے۔
میری یہ تشریح اللہ نور السموات الارض اور لیس کمثلہ شیاً کے درمیان مطابقت کی بہترین صورت ہے۔ اور ویسے بھی اگر آپ مصر ہیں کہ ہم آپ کی ہی قرآن کی تشریح مانیں تو یہ خواہ مخواہ کی ضد ہے۔ اسلام کی اپنی علمی تاریخ ہے۔ ذرا بتائیں کہ کسی معتبر اسلامی اسکالر نے نور کو مادی لائٹ کے معنوں میں لیا ہے۔ چلئے معتبر کی شرط بھی نکال لیتے ہیں، غیر معتبر ہی لے آتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو مسلمان لائٹ کی پوجا کر رہے ہوتے۔
عرفات آرش
اگر آپکو اضافی نکات میرے کمنٹ میں نظر نہیں آئے تو دوبارہ مختلف زاویے سے واضح کرنے کی کوشش كرتا ھوں
قرآن میں واضح الفاظ میں یہ لکھا ھے کہ جب میں کسی شے کا ارادہ فرماتا ھوں تو حکم دیتا ھوں کہ کن… فیکون ۔اب آپ مجھے آپ اس پوری آیت کے ترجمہ میں دکھائیں کہ لفظ نور کہیں موجود ھے۔تو کسی مفسر محدث یا کسی بھی شخص کا یہ کہنا کہ کن کا نور تو اس میں لفظ نور اضافی ھے جو قرآن کی اس آیت کو غلط رخ دینے کے مترادف ھے ۔
محترم عقل و شعور سے اٹھتے ایسے سوالات نے مفسرین محدثین اور ھر اس شخص کو جو درسگاہ اول سے حاصل کی گئی تربیت و شخصیت پرستی کا مقلد ھے کن کے ساتھ لفظ نور لگانے پر مجبور کر دیا تاکہ عمارت قائم رھے
المیہ یہی ھے کہ جب جب قرآن کی کسی بھی آیت کو اس کے حقیقی لفظی معنوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ھے تو یہ اپنے سیاق و سباق کے ساتھ خود کے دعووں میں تضادات کا شکار ھو جاتا ھے اور پھر یہ دعوٰی ھوتا ھے کہ قرآن ھر ایک کے سمجھنے کی کتاب نہیں جو کہ خود قرآن کے اس دعوے کی نفی کرتی ھوئی نظر آتی ھے کہ
ھم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان بنایا ۔اب اس لفظ آسان کو دیکھیں تو ھر عام و خاص کے لیے یہ بات واضح ھو جاتی ھے کہ قرآن میں جو لکھا ھے اسے سمجھنے کے لیے کسی خاص تشریح کی ضرورت نہیں بلکہ لفظوں کو پڑھتے جاؤ اور سمجھتے جاؤ ،
اسی ضمن میں کن فیکون والی ایت میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ کن کے نور سے کائنات کو تخلیق کیا بلکہ کائنات کے نور ھونے کے متعلق جو لکھا ھے وہ اللہ نورالسموات میں آیا ھے ۔
اب آپ سے میرا سوال ھے کہ انسانی تشریح تفسیر کے علاوہ قرآن سے مجھے دکھا دیں کہ نور دو قسم کے ھیں ایک کن کا نور اور دوسرا اللہ کا نور ؟؟؟؟؟؟
ذیشان وڑائچ
اب یہ سوال کہ قرآن آسان ہے اور ہر کوئی سمجھ سکتا ہے یا نہیں، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس پر کبھی کسی اور تھریڈ میں بات ہوسکتی ہے۔ لیکن آپ کا یہ سوال// اب آپ سے میرا سوال ھے کہ انسانی تشریح تفسیر کے علاوہ قرآن سے مجھے دکھا دیں کہ نور دو قسم کے ھیں ایک کن کا نور اور دوسرا اللہ کا نور ؟؟؟؟؟؟//
میری کس بات سے آپ نے یہ سمجھا کہ میں کسی “کن” کے نور کا دعوے دار ہوں؟ کن تو اللہ کے ارادے کا اظہار ہے۔
“کن کا نور” تو آپ کا دعوی تھا نہ کہ میرا۔ میں آپ کے دعوے کے لئے دلیل کیوں دوں؟