جب بھی کوئی نیا مسئلہ امت کے سامنے آیا اور کوئی ایسا موضوع چھڑا کہ جس کے دواعی کسی خاص دور میں ہی پیدا ہوئے ہوں اور اس دور کے لوگوں کو ہی اس کے ساتھ پورا اترنے کا چیلنج درپیش ہو، تو عموما دیکھا گیا ہے کہ وہاں دو انتہائیں وجود میں آتی ہیں؛ ایک افراط اور دوسری تفریط۔ عقل اور سائنس کے معاملہ میں بھی یہاں دو انتہائیں پائی جاتی ہیں۔ایک وہ طرزِ تفکیر جو عقل اور سائنس کے کردار کو حد سے بڑھا دیتی ہے یہاں تک کہ دین کو ’کونی‘ میں لگا دیا جاتا ہے بلکہ تو ’عقل اور سائنس‘ کے تابع کردیا جاتا ہے، اور یہ رویہ بھی عالم ِاسلام میں کوئی کم نہیں۔ دوسری طرزِ تفکیر عموماً اس کے رد عمل کے طور پر آتے ہیں اور تاثر دیتے کہ اسلام کو ’عقل اور سائنس‘ ایک تابع حالت میں بھی قبول نہیں! عقل کا کردار خوب زندہ اور فعال کرنا بغیر اس کے کہ یہ ’وحی‘ کے سر آئے، ’مدرسہء ابن تیمیہ‘ کی ایک نہایت اہم جہت ہے۔ منہج اہلسنت کی اس جہت کو برصغیر کی اسلامی دنیا میں متعارف کرواتا مجلہ ایقاظ کا یہ مضمون پیش ہے۔
سائنس کی حیرت انگیز پیشرفت اور ٹیکنالوجی کی ناقابلِ یقین ترقی جدید دنیا کا سب سے منفرد واقعہ ہے اور انسانی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل۔۔۔۔سائنسی علم دراصل انسانی عقل و حواس کے مربوط (co-ordinated) استعمال کے ذریعے کیے گئے، مادی کائنات اور حیات کے مخصوص اور منظم (systematic) تدریجی مطالعہ کا نتیجہ ہوتا ہے، جس میں مشاہدات کی بنیاد پر کیے گئے تجربات کی مدد سے کائنات اور حیات کو کنٹرول کرنے اور چلانے والی”فطری” اصولوں کو معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر ان فطری اصولوں کا انسانی مفاد کے لیے بروئے کار لیا جانا بشکل آلات و یجادات، ٹیکنالوجی کہلاتا ہے، جو سائنسی علم کا ایک “حاصل” ہے۔انسانی عقل جب ایک مخصوص انداز سے مادّے اور توانائی (Matter & Energy) کے ساتھ اتصال میں آتی ہے تو سائنسی علم وجود میں آتا ہے۔ عقل ہی اس لحاظ سے سائنسی علم کے پیچھے کارفرما اصل جوہر ہے۔
دینِ اسلام جو تاقیامت زندگی کے ہر ایک شعبہ کو محیط ہے، سائنسی طریقہء مطالعہء کائنات کے مخالف ہے یا موافق، یہ البتہ اس بات پر موقوف ہے کہ اسلام عقل کے کس حد تک اور کہاں کہاں استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ کیوں کہ سائنس ، عقل کے ایک مخصوص طریقہء استعمال ہی کا دوسرا نام ہے۔اسلام کے خیر القرون کے تقریباََ اختتام سے ہی عقل کے استعمال کی بابت مسلمانوں کے اندر دو انتہائیں پائی جاتی رہی ہیں، اُس ایک نقطہء وسط و اعتدال کے علاوہ، جو ہر دور اور ہر مسئلہ میں اہلِ سُنّت کا خاص وصف اور طرّہء امتیاز رہا ہے۔ چنانچہ ، دورِ جدید میں سائنس کی” عین اسلامی “ یا ”قطعاََ غیر اسلامی “ ہونے کے حوالے سے دو انتہاؤں کا پیا جانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس کے ڈانڈے، فی الواقع، عقل کی بابت کسی ایک انتہا سے جاملتے صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔اس لحاظ سے ، اسلامی نقطہء نظر کے تحت، سائنس کی اہمیت پر گفتگو کئے جانے سے پہلے عقل کی حیثیت پر ہی بات کر لیا جانا موضوعِ زیرِ بحث پر ایک اچھی بنیاد فراہم ہونے میں ممد ثابت ہو سکتا ہے۔ اگرچہ فی الحال، اس مسئلہ میں تفریط کا شکار مکتبہء فکر ہی ہمارا اصل مخاطب ہے۔
بلا شبہ دین ِاسلام بنی نوع انسان کو براہِ راست مخاطب کرنے اور اس کے نتیجے میں ان کے قلوب و اذہان میں ہدیت کی شمع روشن کرنے کے لئے آسمانوں سے نازل کیا گیا۔انسان کی وہ خاصیت جسکے ذریعے وہ اس دین میں اُفتادہ روشنی کی تلاش و جستجو کرتا اور اسکے نور سے ہدیت و رہنمائی حاصل کرتا ہے وہ اسکی اپنی فطرت ہے اور اسکی عقل و خرد۔قادرِ مطلق نے انسان کو عقل کا نور اسی لئے تو عطا کیا ہے کہ وہ اس کی روشنی میں اس ( دین کی) نُور کا سِرا پائے کہ جس کا سنگم دونوں جہانوں میں اس کے اپنے وجود کی فلاح و کامیابی کے لئے لازمی ہے۔
عقل و فطرت کا نُور اور پھر رُشد و ہدیت کا نُور۔ نُور علیٰ نُور!!!
دونوں میں ایسی زبردست ہم آہنگی(Conformity) اور مطابقت (Compatibility) ہے کہ گویا بنے ہی ایک دوسرے کے لئے ہیں۔ بلکہ بلاشبہ دونوں ایک دوسرے کی وجہء تکمیل ہیں۔ انسان کے پاس عقل نہ ہو تو پھر دین کا مصرف ہی کیا ہو؟ اور اگر دین کی روشنی پاس نہ ہو تو محض عقل کی ٹمٹماتی روشنی میں انسانیت کہاں تک اپنا سفر فطرت کے اصولوں کے مطابق طے کرے؟؟؟
جس طرح کسی اندھے کے لئے روشنی کا ہونا محض بے فائدہ ہے اسی طرح یہ دین بھی کسی عقل سے کوری مخلوق کے لئے نازل نہیں کیا گے۔ بصارت کی روشنی پاس نہ ہو تو باہر کے اندھیرے اُجالے میں پھر کیا فرق؟! لیکن اگر آنکھوں میں تو روشنی ہو، مگر خارج میں وہ روشنی ناپید ہو جو راستوں کو تا منزل منوّر کرتی ہے، تو یسا آنکھ کا نوُربھلا کس کام کا؟
” بصارت“ کی روشنی جب ہدایت کی روشنی سے جا ملتی ہے تب بصیرت کا نوُر حاصل ہوتا ہے۔
پس عقل انسان کی ایک لازمی صفت ہے، اور پیاس عقل کی ایک بنیادی خاصیت۔ دین کے چشمہء صافی و شافی سے اس عقل کی سیرابی اس کو ایک ایسے ذوق سے شاد کام اور ایک ایسے معیار سے ہمکنار کرتی ہے، کہ جس کے بعد اس نے تا زندگی صرف صاف شفاف چیزوں کو ہی قبول کرنا ہوتا ہے، خواہ کہیں سے دستیاب ہوں۔
الحکمۃ ضالۃ الموء من، حیثما وجدہا فہو احق بہا(1)
اس عقل نے بہر حال کہیں نہ کہیں سے اپنی پیاس بجھانی ہوتی ہے۔ یوں اگر اس کا واسطہ اس اصیل چشمے سے نہ ہو، جو بنایا ہی اس عقل کی تطہیر کے لئے اور اس کی تشنگی کو ایک خاص و متعین جہت دینے کے لئے گیا ہے، تو پھر یہ ”ندی نالوں“ اور ” جوہڑ تالابوں “ پر منہ مارتی ہے اور وہاں سے اپنے ذوق اور خوب و نا خوب کے پیمانوں کی تشکیل کرتی ہے۔
پس عقل کی تشنگی دین کے چشمے سے بجھائی جانا اور ایک اسی سے سیرابی کے نتیجے میں اس کی پیاس کا ایک خاص ذوق متعین کیا جانا خود اس دین کا تقاضا ہے۔ جو اگر کبھی درست طور پر نبھایا نہ گیا ہو تو دین کے آگے سرِ تسلیم خم ہوتے ہوئے بھی عقل کو کہیں اور کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ پھر دین کی قدروں کی بنیاد پر دیگر سرچشمہ ہائے فکر کے ذوق و منہاج کا تعین کیے جانے کی بجائے خود انہی کے اصولوں پر یا ان سے اثر لے کر، دین کا مزاج و منہاج طے کیا جا رہا ہوتا ہے۔
دین اس لیے ہے کہ اس کے آگے سرِ تسلیم خم کیا جائے ۔ اور عقل اس لیے کہ وہ دین کو اپنی اوّلین ضرورت جان کر اسے تسلیم کرے۔ اس ”تسلیم“ کے عمل میں عقل کا کردار مرکزی و محوری نہ ہو تو اس ” انگارہء خاکی“ کے لیے پھر عقل کی ضرورت ہی نہ ہو۔ اس کے سوا کائنات کی ہر ایک مخلوق عقل کے بغیر بھی ویسے ہی تسلیم کی سِپَر ڈالے بیٹھی ہے۔ چنانچہ اس معاملے میں عقل کا کوئی فیصلہ کن کردار نہ ہوتا تو پھر دین کی پہچان اور پیروی لازمی قرار دیکر اس مخلوق کو عقل کی نعمت ِغیر مترقبہ سے نوازا نہ جاتا۔ باقی تمام کائنات کے لیے تو تسلیم و رضا اور مطلق اطاعت و فرمانبرداری کے علاوہ کوئی چارہ اور راستہ بھی نہیں۔ اور یہ اس کے لیے سرے سے کوئی مسئلہ بھی نہیں ۔ کیونکہ تسلیم و اطاعت اس کے لیے کوئی وجہء آزمائش و امتحان ہی نہیں۔ خالق و فاطر نے اس کے لیے جو راستہ اور طریقہ مقرر کر دیا ہے، اس نے اسی پر بغیر کسی انحراف کے سدا چلتے رہنا ہے۔ اُس کے لیے ” امرِ تکوینی “ ہی ” امرِ تشریعی “ ہے۔ یوں ” پہچان“ اور پیروی“ اس کا مسئلہ ہی نہیں۔
جو چیز کہ کائنات میں خدائے لم یزل کی پہچان اور تسلیم و بندگی کو سب سے بڑا امتحان اور سب سے کٹھن آزمائش بناتی ہے، بلکہ یوں اس کائنات کے وجود میں آنے کا ایک سبب ٹھرتی ہے، وہ انسان کو عطا کی گئی عقل و خرد ہے اوراُس کا شعور۔
ایک پہچان وہ ہے کہ خالق و مالک کی بابت ازل سے ہی کائنات کے ذرے ذرے کی گھٹی میں پڑی ہوی ہے اور جس میں ہوش و خرد کا کوئی دخل ہے نہ ضرورت۔ اور ایک یہ معرفت و بندگی کا مقدمہ ہے کہ عقل و شعور کا اصل میدان ہے اور انسانیت کا یہاں سب سے بڑا امتحان۔
ایک بندگی ”وہ“ ہے جس نے بہر حال ہونا ہی ہونا ہے، اور جس سے سرتابی محال ہے۔ اور ایک بندگی ”یہ“ ہے جو اس کائنات کو اس کے وجود کا حسن بخشتی ہے اور اس کی غیت کا جواز عطا کرتی ہے۔
ایک کائنات کی فطرت ہے اور ایک انسان کی فطرت۔ کائنات کی فطرت یہی ہے کہ وہ کچھ لگے بندھے اصولوں کے تحت چلتی ہے اور اپنے مالک کے حکم کی بجا آوری میں لگی رہتی ہے۔ بس یہی فطرت اس کائنات کا کل سرمایہ ہے۔ یہی اس کی ”عقل“ ہے اور یہی اس کا ”دین“۔
انسان کی فطرت یہ ہے کہ اس کے اندر اپنے خالق و مالک سے رغبت کا دیا روشن ہے، اور طبعاََ اچھائی کو پسند کرتا ہے اور برائی کو ناپسند۔ لیکن محض اسکی فطرت اسے اسکے خالق و مالک تک درست طور پر پہنچا آنے کے لیے کافی نہیں۔ اسکے لیے ضروری ہے کہ خود اسکے پاس کوئی ایسا آلہ یا اوزار یا سواری موجود ہو جو اسے ان راستوں کی تلاش میں مدد دے جو خالق تک پہنچاتے ہیں۔
عقل ہی وہ چیز ہے جو _ دین کی رہنمائی (Road Map) اگر موجود ہو تو _ انسان کو اس کی فطرتِ صالحہ کے تحت اس کے مالک کی طرف کشاں کشاں چلاتی ہے۔
پس ان تینوں چیزوں کی اپنی اپنی ایک اہمیت ہے اور ایک الگ کردار۔ یعنی انسان کی فطرت ، اس کو عطا کی گئی عقل اور عقل کی رہنمائی کے لیے آسمان سے نازل کیا گیا دین۔
فطرت تو انسان کو جو ودیعت کر دی ، سو کر دی گئے۔ اب اس نے مختلف رنگوں ، جذبوں اور کیفیات میں انسان کے اندر ابھرنا ہے، اور اگر خود ہی مسخ نہ کر دی گئی ہو تو ، انسان کے اندر خیر کی تلاش میں نکلنے اور چلنے کا تحرّک پیدا کرنا ہے۔ لیکن اگر فطرت اور وجدان کے ذریعے ہی خیر اور حق تک پہنچا جا سکتا ہے تو سوال پھر وہی ہے کہ پھر عقل کی کیا ضرورت؟ پھر اگر جواب میں عقل کے کچھ ” دیگر“ کام گِنا دیے جائیں تو” حق تک رسائی“ کی طرح ”یہ“ کام بھی فطرت ہی کے کھاتے میں کیوں نہیں ڈالے جا سکتی؟ اوّل الذکر کی طرح یہ اتنے غیرمعمولی تو بہرحال نہیں ہوں گے کہ فطرت سے انکی ذمہ داری نہ اُٹھوائی جا سکی؟!! پھر ایسی صورت میں باقی مخلوق اور انسانوں کی ”حیثیت ِتکلیفی“ میں کس طرح امتیاز کیا جا سکے گا؟
انسان کی فطرت اس کے اندر آپ سے آپ بولتی اور خودبخود جھلکتی ہے۔ انسان اپنی فطرت کے تابع ہوتا ہے کیونکہ اس کی حیثیت ” غیرارادی“ کی سی ہوتی ہے۔ البتہ عقل جو فطری محرکات کے تحت کام کرتی ہے اس کی حیثیت ضرور ”ارادی“ ہوتی ہے، اور یوں وہ انسان کے تابع ہوتی ہے۔ انسان کے اختیارات اور ان کے دائروں میں کیے گئے اعمال انسان کے ارادوں سے ہی متعین اور کنٹرول ہوتے ہیں۔ اور ارادے عقل کی کمین گاہ میں پرورش پاتے ہیں۔ وہ ارادہ ہی کیا جو عقل کے بغیر وجود میں آ جائی؟ اور اگر قوّتِ ارادہ ہی نہ ہو تو پھر اختیار کیسا؟ نیز اختیار کے بغیر کسی آزمائش یا امتحان کا کیا سوال؟ پھر” آزمائش بلا اختیار “ کے بعد ثواب و عقاب ، جنت جہنم، حشر نشر اور بعث بعد الموت کا کیا مقصد؟؟
پس دین و دنیا میں انسان کے اختیار و تکلیف کا براہِ راست اور اصل تعلق اس کی عقل سے ہے۔ اور کیوں نہ ہو، کہ یہی تو اس مخلوق کا اصل وصف اور دونوں جہانوں میں اس کا طرّہء امتیاز ہے، جس کے سبب جہاں ایک طرف یہ خلافت فی الارض کی حقدار ہے، وہیں آسمانی بہشت کی وراثت کی تنہا امیدواربھی ہے۔۔۔۔، اس صورت میں کہ عقل کی تکمیل اور رہنمائی کے لیے آسمان سے اتری ہدایت کا سِرا تھام لیا جائے۔
ایمان کوئی جبری چیز نہیں ہے!
لیکن کیا عقل کی تکمیل اور رہنمائی اس (عقل) سے عدم ِمطابقت اور اختلاف و تضاد رکھتے ہوئے یاعقل کی فطرت کو نظر انداز کرتے ہوئے ہو سکتی ہے؟ پھر وہ رہنمائی ہی کیا ہوئی ؟ کیا کسی راستہ بھٹکے ہوئے یا منزل کی تلاش میں نکلے ہوئے کی رہنمائی جبراََ کی جاسکتی ہی؟وہ ذات کہ جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو عقل کی نعمت سے سرفراز کی۔۔۔۔ وہ ذات انسان کو خوب جانتی ہے۔وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ( ق – 16) ترجمہ :”ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے ،اور ا س کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں وہ ہم ہی جانتے ہیں۔“
اس ذات نے پھر اپنے پاس سے اپنی اس مخلوق کے لئے ہدیت و رہنمائی نازل فرمائے۔ خلاق العلیم اور حکیم و خبیر کی ذات سے بعید اور شان سے فِرو تر ہے کہ وہ دو چیزوں کو خالص ایک دوسرے کے لئے بنائے اور دونوں میں پھر بھی عدمِ مطابقت اور تضاد یا اختلاف پیا جائے۔چنانچہ دین پر ایمان لانے اور اس کو من و عن تسلیم کرنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ اس کو بغیر سمجھے بوجھے ، اس کی حقانیت کی دلالت کو بغیر جانے اور اس پر غور کیے بغیر ”بس“ مان لیا جائے!! ایمان کوئی جبری چیز نہیں ہے۔۔۔۔ نہ خارجی طور پر، نہ داخلی طور پر۔
معاذ اللہ دین کوئی اس لیے تھوڑی آیا ہے کہ وہ عقل کو چاروں شانے چت کر کے شکستِ فاش سے دوچار کر دے۔ جیسا کہ بعض مکتبہ ہائے فکر کی اپروچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دین میں اور عقل میں خدا واسطے کا بیر ہے! اور جب تک عقل کو چاروں کھونٹ باندھ کے اور اس کی مشکیں کَس کے بالکل ہی عاجز و درماندہ ( بلکہ” ذلیل و خوار“) نہ کر دیا جائے تب تک دین کا حَکَم ہونا اور عقل پہ اس کا بالا دَست ہونا متحقق نہیں ہو سکتا..!!
اس طرح کی ضرورت ان مذاہب کو پڑتی ہے جن میں تحریف ہو چکی ہو اور عقائد و احکام حد درجہ مسخ ہو چکے ہوں۔ جیسا کہ عیسائی ایمانیات کی بنیا د یہ ہے کہ وہ ایمانیات کو ماورائے عقل کہتے ہیں۔ کیونکہ ان کا تصوّر ِالٰہ اس قدر غیر منطقی و متضادِ عقل ہے کہ اس کو ”سمجھانے“ کے لئے ان کے پاس واحد حل یہی ہے۔
دین کا عقل سے ٹکرؤ یا تصادم تو خیر کیا ثابت ہونے والی چیز ہے، دین کی سب سے بڑی مؤ ید اور اس سے ہم آہنگ چیز خود عقل ہی ہے۔ دین کو واجب التسلیم ماننے کے باوجوداُس کا خلافِ عقل یا ماورائے عقل ہونا، اگر عقل سے ثابت ہو سکتا ہے تو سب سے پہلے خود یہی بات دین اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔ ورنہ دین میں کہاں آیا ہے کہ وہ خلافِ عقل ہی؟ یعنی ان کے نزدیک دین جس چیز کے خلاف اور ماوراءہے ،خود اسی کے ذریعے وہ دین کا اس کے خلاف ہونا” ثابت “ کرتے ہیں!!! سبحان اللہ و بحمدہ۔
چنانچہ دین کی آمد کا مقصد قطعاََ یہ نہیں ہے کہ عقل کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ نہ دین کو تسلیم کرنے میں عقل کے زیر ہوجانے کو ماننا ہی تسلیم کا لازمی تقاضہ ہے۔ دو چیزوں میں ”باہمی اتفاق“ اور ”قبولیت “ کے نتیجے میں بھی تو تسلیم کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ عقل کا دین کے ماتحت ہونے کے تقاضے سے نہ تو اس کا عدم استعمال لازم آتا ہے نہ غیرفعال ہو جانا۔ البتہ اس کے استعمال کی کچھ جہتیں متعین ہوجانا ضرور لازم آتا ہے۔ اب یہ جو ”اتفاق “ اور ”قبولیت“ ہے ، یہ مجرد تسلیم برائے تسلیم سے بڑھ کر کوئی چیز ہے۔ اس میں عقل کا انبساط ہے نہ کہ انقباض ۔ صدر کا ا نشراح ہے نہ کہ ضیق۔ دل کا اطمینان ہے نہ کہ تشویش ۔ اور فکر کی بالیدگی ہے نہ کہ پژمردگے۔ اور یہی دین کی آمد کا مقصودبھی ہے کہ عقل اس کے ساتھ اتصال کی بدولت جِلا اور افزائش پائے ، نہ کہ خود نقصان میں پڑجائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل کے نقصان میں تو خود دین کا نقصان ہے۔
بلاشبہ دین میں ایک کشش ، ایک جاذبیت ، اور ایک تاءثیر ہے۔ عقل کو جب دین کی معنی آفرینی سے صحیح معنوں میں اتصال کا موقع ملتا ہے تو وہاں وہ اپنے لیے ایک زبردست ہم آہنگی ، مطابقت اور اتفاق پاتی ہے۔ چنانچہ اس کے پاس سوائے ایک بے ساختہ قبولیت کے کوئی دوسراراستہ ہی نہیں رہتا۔ ان معنوں میں بے شک یہ عقل کی تسلیم ہے جو کہ دراصل مطلوب ہے۔ اور ایک وہ تسلیم ہے جس میں عقل کا کوئی قابل ِذکر کردار ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ بے چاری تو ایک طرف ” محو ِ تماشائے لبِ بام“ ہوتی ہے۔ ایسی تسلیم جسکی بنیاد میں ”اتفاق“ اور ”قبولیت “ ایسی عقلی شراکت نہیں پائی جاتی ، وہ پھر تشکیک کے چند جھٹکوں سے زمین بوس بھی ہو جاتی ہے، اور یا پھر اس میں ملاوٹ کی آمیزش ہو جاتی ہے، اگرچہ ظاہراً دعوائے تسلیم برقرار ہی رہے۔
حق اور خیر کے اجالوں کی طرف آنے میں عقل کا کردار:
دین جو کچھ بھی ہے وہ بلاشبہ آ سمانوں سے ہی نازل ہوا ہونا ہے ،اور یوں خدائی ہدایت ہونے کے ناتے عقل کو ہمیشہ اس کے تابع ہی رہنا ہے ۔ لیکن دین کیا ہے اور اس پر انسان نے کیسے چلنا ہے، اس کا فیصلہ بھی انسان نے اپنی عقل کے ذریعے ہی کرنا ہے خواہ اس تک دین رسول کے ذریعے پہنچا ہو یا رسول کے کسی متبع کے ذریعے۔
اب جیسا کہ انسان کو دنیا میں حق و باطل میں سے کسی ایک کو اپنا لینے کا جو اختیار عطا کیا گیا ہے وہ اس کے صاحبِ عقل و ہو ش و حواس ہونے کی بِناء پر ہے ،لہٰذا اس کی عقل و حواس کا اصل امتحان بھی اسی مرحلے میں ، اپنے اصل معنوں میں ، مراد اور درپیش ہوتا ہے۔ (قبولیتِ حق کے )اس مرحلے کے بعد بھی گو عقل اپنی رسائی کے خوب خوب جوہر دکھاتی ہے،جسے فقاہت یا تفقہہ فی الدین سے تعبیر کیا جاتا ہے ،لیکن یہ اس کا اصل امتحان نہیں ہے ، اگرچہ اپنی جگہ حددرجہ مطلوب ہے۔ تاہم یہ معاملہ عقل کی استعداد اور قابلیت پر منحصر ہے جو فرد، فرد میں مختلف ہوتی ہے۔ البتہ جہاں تک حق و باطل کی آزمائش کا معاملہ ہے تو یہاں آدمی کا ایک کم از کم حد تک صاحبِ عقل ہونا ہی کافی ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں آدمی کے مکلف ہونے نہ ہونے کا معاملہ اس کے صاحبِ عقل ہونے یا نہ ہونے سے بالترتیب متعلق ہی۔۔۔۔نہ کہ صاحبِ عقل ہونے کے بعد عقل کی استعداد سے۔اس پہلے مرحلے میں ہی آدمی اگر اپنی عقل کے کردار سے دستکش ہو کر تسلیم برائے تسلیم اختیار کرلے تو اس کے بعد عقل کے لیے پھر بچا ہی کیا جہاں وہ اپنا وہ کردار ادا کرسکے جس کے لیے دراصل بنائی گئی ہی؟ اصل مسئلہ تو ایک چیز کو بطور ”کُل“ تسلیم کرنے کا ہے جس کے بعد اس کے اندر کا ہر ایک جزو آ پ سے آپ تسلیم ہو جاتا ہے، جس میں کہ عقل کوکوئی بہت زیادہ تگ ودو کرنے کی ویسے ہی ضرورت نہیں ہوتی ۔
پس باطل کی ظلمتوں سے حق اور خیر کے اجالوں کی طرف آنے میں ہر انسان سے ایک خاص درجہ کا کم از کم عقلی کردار بہر حال مطلوب ہوتا ہے۔ جو اگر ادا کیا جا رہا ہو تو تب ہی ”دین کا مسئلہ “ زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ قرار پاتا ہے، اور حق و باطل کی ایک جیتی جاگتی کشمکش کے روپ میں انسانیت کے وجود کا مرکزی عنوان ٹھرتا ہے۔
یہ البتہ ایک الگ موضوع ہے کہ عقل کو کس طرح اس انداز میں خطاب کیا جائے کہ وہ اپنے اور دین کے مابین زبردست ہم آ ہنگی کو فطری انداز میں دیکھ لے۔ اور پھر جو کوئی اس دین کو قبول کرے تو ” سمجھ کر“، اور جو کوئی انکار کرے تو اچھی طرح” جان کر“۔ بنیادی طور پر یہ موضوع دعوت اور اس کے طریقہ کار سے متعلق ہے۔
قلوب اگرچہ اللہ ہی کی قدرت و اختیار میں ہیں اور دلوں کو پھیرنا اسی کی مشیئت کے تحت ہے۔ لیکن دعوت کی ”ناکامی “ یا ”کامیابی“ کا ایک بڑا تعلق اس انداز ِ خطابت سے بھی ہے جو عقل کے ساتھ َروا رکھا جاتا ہے۔ یہ اکثر اوقات خود عقل سے اس کا اپنا کردار معطل کر دینے کی دعوت ہوتی ہے، نہ کہ (دین قبول کرنے میں) اپنا کردار ادا کرنے کی!
چنانچہ دین کی طرف لانے میں اس طرح کی اپروچ پیدائشی مسلمانوں پر تو کسی حد تک اثر رکھتی ہے ، کہ وہ پہلے سے ہی دین کے ساتھ عقیدت کے جذبات سے سرشار ہوتے ہیں۔ البتہ اس طرح کے رجوع الی الدین سے خود دین کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہو پاتا۔ بلکہ بسا اوقات فکری عمل میں الٹا ایک جمود، تنگi، انقباض اور سختی میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے۔
البتہ غیرمسلموں کے لیے اس طرح کی دعوت میں (اگر کہیں غیر مسلموں کو دین کی دعوت دی جا رہی ہو!) کوئی خاص اثر اور جاذبیت نہیں پائی جاتی۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں مغربی ممالک کے لوگوں کی اسلام کے اندر بڑھتی ہوئی دلچسپی جہاں ایک طرف گلوبلائزیشن کی مرہونِ منت ہے، کہ جس کے نتیجہ میں تحقیق اور جستجو کا مادہ رکھنے والی اقوام کو خود اسلام کے زریں اور آفاقی اصولوں سے آشنا ہونے کا موقع ملا ہے، وہاں دوسری طرف انتہا پسندی ، بنیاد پرستی اور دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر کفار کی طرف سے عالم ِاسلام پر مسلط کی گئی جنگ سے پیدا شدہ مباحث اور مکالمہ کا بھی اس میں اہم کردار رہا ہے۔ گویا اس تمام منظر نامہ میں قبولیتِ اسلام کی بڑھتی ہوئی لہر خود مسلمانوں او ر ” دعوت“ کی بجائے حالات کی پیدا کردہ ہے۔ چنانچہ نومسلموں کی شخصیت کی انتہائی متوازن، متحرک اور معقول دینی جہت کا مشاہدہ کرکے جو ہم اکثر حیران رہ جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کا قبولِ اسلام ، عقل و خرد اور دین کے ایسے باہمی اتصال و تعلق کا نتیجہ ہوتا ہے جو انسان پر نئے جہان ِمعنی آشکار کرتا اور نفس، خدا اور کائنات کی صحیح پہچان دیتا ہے۔
جب تک عقل دین اسلام کی وسعت و جامعیت اور دنیا کی زندگی کے ساتھ اس کے تعلق (Relavance) سے بہرہ ور نہیں ہوئی ہوتی ہے تب تک اس کی تگ و تاز اور پرواز کا دائرہ نہایت محدود ہوتا ہے۔ اور اس کی سلامت فکر کے کئی کواڑ بدستور مقفل ہی رہتے ہیں۔ تا وقتیکہ دستیاب بہت ساری کنجیوں میں سے وہ واحد کنجی تلاش کر لی جائے جو اکیلی اس قفل کو کھولنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ چنانچہ عقل اور دین کا یہ Lock & Key Model جو کہ اپنی نوعیت میں نہایت خاص (selective) ہوتا ہے، جب درست زاویے سے رو بہ عمل آتا ہے تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ” حجابات“ اٹھ جاتے ہیں اور ابدی حقائق کا ”کشف“ ہونا شروع ہوتا ہے۔ تب انسان پر اپنی اور اپنے معبود کی ہستی کی حقیقت کھلتی ہے۔ اور وہ بے اختیاروبے ساختہ اس دین کی سچائی و آفا قیت پر ایمان لے آتا ہے۔
ایمان او ر عقل کے تعلق کے بارے میں موجود افراط و تفریط
دین کا فطرتاََ بمطابق عقل ہونا ( یا دونوں کا باہم مطابق ہونا) ایک الگ چیز ہے، اور کسی کی طرف سے دین کا مدارعقل پر ہونے کا دعوٰی ایک بالکل اور بات ۔ اول الذکر سے دوسرا قطعاََ لازم نہیں آتا۔ جو چیز پہلے کہی گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ دین انسان ہی کے لئے نازل ہوا ہے ، اور انسان کا مکلف ہونا اس کے صاحب ِعقل ہونے کی وجہ سے ہے، اسلئے دین اور عقل میں ایک نہایت خاص اور گہرا تعلق ہی۔۔۔۔ اس طرح سے کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں اور دونوں میں کا ہر ایک ، دوسرے کی موجودگی میں ہی کارآمد ہے۔ چنانچہ دین کو قبول کرنے اور اس پر چلنے میں ، ہر جگہ اصل کردار عقل کا ہی ہے۔ جبکہ آخر الذکر بات کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ دین کی جو بات عقل کے مطابق ہو گی وہی قابلِ قبول ہو گے، ورنہ نہیں۔ یا یہ کہ جو بات عقل کے مطابق ہو گی وہی دین ہو گے، ورنہ نہیں۔ پہلی بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عقل اور دین دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔ جبکہ دوسری بات سے یہ نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ عقل ہی مآخذِ دین ہے۔ ( فلاسفہ اور معتزلہ کا مشہور مذہب)۔
لہٰذا یہ اندیشہ کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ دین و شریعت میں از اول تا آخر عقل کا کردار سراہنے سے دین پر عقل کی بالادستی اور اس کا حَکَم ہونا لازم آتا ہے۔ پھر اس اندیشے کی بنیاد پر عقل کا کردار ہی معطل قرار دینا ( بطور خاص ایمان لانے اور دین قبول کرنے کے معاملے میں) بناءالفاسد علی الفاسد کی ایک مثال ہے اور اس معاملے کی ایک دوسری انتہا۔
دین کا عقل کے مطابق ہونے سے ہماری مراد اہواءاور خواہشات کے مطابق ہونا نہیں ہے۔ کیونکہ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ عقل میں صرف اہواءو خواہشات ہی پائی جائیں اور وہ فطری سلامتی سے بالکل ہی محروم ہو۔ نہ عقل کا دین کے تابع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دین کی ہدایت کا سِرا پانے کے لئے اب عقل کو کوئی کردار ادا کرنا ضروری ہی نہیں۔ (”پیدائشی مسلمانوں“ کو ویسے یہ دین اس مرحلے سے گزرے بغیر ہی مل جایا کرتا ہے! اسی لئے ”دین قبول کرنے میں عقل کے کردار“ پر ان کو ایک اچنبھا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔)
چنانچہ عقل کا دین کے تابع ہونا اور دین کا عقل کے مطابق ہونا دو باتیں ہیں جو اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں، اور جن میں باہم کوئی ٹکراوء ، تصادم یا منافات نہیں ہے۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہ دو باتیں دراصل ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ کیوں کہ عقل دین کے تابع اسی لئے تو ہے کہ وہ اس کے عین مطابق ہے۔ یہ مطابقت نہ ہو تو عقل کے پاس اس اتباع کی ”وجہ“ ہی کیا ہو؟!! وہ عقل ہی کیا جو کسی کی یونہی تابعداری کر جایا کرے؟!
عقل اور دین کے درمیان دُوری اور عدم ِتعلق کا منہج دراصل فلسفیانہ طریقہء تفکیر کے ردِعمل میں سامنے آنے والے ایک مفروضہ (Pre-assumption) کا پیدا کردہ ہے جو بعض دینی حلقوں کی جانب سے اسلام کے عقائد و ایمانیات کی بابت بطور اصل الاصول اختیار کر لیا گیا ہے۔ یہ مفروضہ کچھ یوں ہے کہ، عقائد اور ایمانیات مکمل طور پر عقل و سمجھ سے ماورا ءہوتی ہیں، اور لہٰذا غیر محتاج دلیل ہوتی ہیں۔
اگرچہ واضح طور پر اور براہ راست یہ مفروضہ اسطرح پیش نہیں کیا جاتا ، لیکن جو کچھ بھی عقل و دین کے باہمی تعلق ( بلکہ عدم تعلق!) کے حوالے سے متذکرہ حلقوں کی طرف سے خیال آرائی کی جاتی ہے، اسکی روشنی میں یہ مفروضہ بطور ” مسلّمہ“ پس ِپردہ صاف طور پر کارفرما دیکھا جاسکتا ہے۔
مثال کے طور پر یہ کہنا کہ ایمان و تسلیم کبھی دلیل سے پیدا نہیں ہو سکتے بلکہ خود دلیل کی بنیاد ایمان و تسلیم ہوتی ہے۔ لہٰذا کسی کو دلیل کی بنیاد پر مسلمان نہیں کہا جا سکتا ۔ اور یہ کہ، موجودہ سائنسی حقائق و مسلمات (Existing Scientific Facts) اور دین میں مطابقت اور ہم آہنگی ثابت کرنا، دین کو عقل کے تابع کرنے کے مترادف ہے کیونکہ سائنس خود عقل کے تابع ہے۔۔۔۔
یہ سب یسے ”شگوفے“ ہیں جو اسی مذکورہ بالا مفروضہ کے شجر سے ہی پھوٹ سکتے ہیں۔ ان دونوں نظریات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین کے عقائد پر ایمان ، عقل کے راستے سے گزر کر کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ پس لازم ہوا کہ ایمان عقل سے ماوراءکوئی شے ہے ، جس میں عقل کا اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا۔! انسان کو چاہیے کہ دین کی دعوت پہنچتے ہی عقل کو فوراََ ” بالائے طاق“ رکھ دیا کرے، تاکہ ایمان قبول کرنے میں حائل ”سب سے بڑی رکاوٹ “دور ہو سکی!!!
یعنی جو چیز در حقیقت جس چیز کو حاصل کرنے اور اسے اپنائے رکھنے کے لئے بنائی گئی ہے، اسی کا نہ ہونا ان کے یہاں اس مقصد کے حصول کے لئے لازمی ہے!!
چنانچہ دنیا کے عرصہء حیات میں اب انسانی عقل کا کردار (بطور آزمائش) اس کا ترک اور عدم ِاستعمال ٹھہرا !! یہ تو واقعی بڑی آزمائش ہے!!!
یہی نہیں بلکہ آگے چل کر یہی ترکِ عقل، ترکِ دنیا کا بھی مقدمہ بن جاتا ہے (سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کی مخالفت کی صورت میں۔) اور اسکو ایک باقاعدہ شرعی حیثیت بلکہ ” فرضیت“ حاصل ہو جاتی ہی! گویا تمام تر زہدو تقویٰ ایک عقل کو ترک کر دینے کا نام ہی!!!
جو عقل دین میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کرنے پر تیار نہ ہو ، وہ پھر اسی لائق ہے کہ دنیا میں بھی عاجز و درماندہ ہی رہے۔
تقویٰ و زہد بہرحال کفرانِ نعمت سے قطعاً ہٹ کر کوئی اور ہی چیز ہے ۔ عقل کو ”عقلی طور پر “ چھوڑ دینے سے بڑھ کر کفران نعمت بھلا اور کیا ہوسکتا ہے ؟!
چنانچہ سائنسی مطالعہء کائنات کی مخالفت کی وجہ جہاں ترکِ عقل کا ”تقاضا“ ہے، جو کہ ایمان و تسلیم کی”شرط“ ہے !وہیں دنیاوی و سائل و ذرائع پر کنٹرول اور سائنس و ٹیکنالوجی کے استعمال کی ممانعت اسی ترکِ عقل سے لازم ٹھہرتی ہے، جو پھر زہدوتقویٰ کی بنیاد ہے !! گویا، معاذاللہ اسلام کا دینی پہلو بھی عقل سے خالی اور دنیا وی پہلو بھی عقل سے محروم !
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ
عالم ِغیب کی تفصیلات پر ایمان کی نوعیت:
دین اور اسلام کی اصطلاح میں ایمان یقینا کسی ایسی چیز کا نام ہے جو اس مادی دنیا سے پرے اور ماوراءکسی ہستی اور جہان سے متعلق ہے۔ اس دنیا اور کائنات کے اندر اندر چیزوں کی پہچان اور ان کا ادراک ان معنوں میں ایمان ہرگز نہیں ۔ بلکہ یہ مشاہدہ کہلاتا ہے ۔ لہٰذا ایسی چیز کو ماننا جس کا مشاہدہ نہ ہوسکتا ہو اور جو بظاہر محسوس نہ ہوسکتی ہو،ایمان کہلاتا ہے۔
”ایمان بالغیب “ بھی اس کو انہی معنوں میں کہا جاتاہے۔ اس بات کو مزید گہرائی میں جا کر یوں کہا جاسکتا ہے کہ انسان صرف ان چیزوں کا مشاہدہ کرسکتا جو اس کے حواس(senses) کے دائرہء کار میں آتی ہیں۔ رہ گئے وہ امور جو انسان کے حواس کے دائرہء کار میں نہیں آتے اور لہٰذا قابل مشاہدہ نہیں تو ان کی بابت آراءرکھنے میں ایک طرف تو فلاسفہء مغرب ہیں جو یا تو سرے سے ایسے امور کے پائے جانے کے انکاری ہیں اور یا پھر ان امور کو انسانی عقل و فہم کے ادراک میں آجانے سے قطعاً ماوراءاور ناقابل ِرسائی قرار دیتے ہیں۔ اب چونکہ یہ فلاسفہ وحی، پیغمبر اور کسی بھی قسم کے فرستادہء خداوندی کو تسلیم نہیں کرتے لہٰذا ان امور کا اعتراف محض ایک ایسے عالم کا اثبات ہے جہاں ”حقیقت“ جاری و ساری ہوتی ہے اور جو ”عالم ِمظاہر “ سے قطعاً الگ ایک جہان ہوتا ہے۔ البتہ یہ عالم کیا ہے، اسکی تفصیلات و جزئیات کیا ہیں اور ان تک رسائی کیسے حاصل کی جا سکتی ہی۔۔۔۔یہ گروہِ فلاسفہ ان سوالات کے جوابات دینے والے کسی بھی ذریعہ علم کا انکاری ہے۔
دوسری طرف وہ گروہ ہے جو عالم ِمادی و طبیعی کے علاوہ عوالم اورعوامل پر بھی یقین رکھتا ہے اور ان کو ایک نظام (system) کی صورت میں بہ تفصیل پیش بھی کرتا ہے۔ لیکن اس غیر مادی نظام کی حقیقت اور اس کے اجزاءکے باہمی تعلق کی نوعیت کو ”بوجوہ“ انسانی عقل سے بالاتر گردانتا ہے ، لہٰذا اس نظام کی تمام تر تفصیلات کو جوں کاتوں ”بلا سوچے سمجھے “ قبول کرلینا ہی ”ایمان و تسلیم “ کا تقاضہ سمجھتا ہے۔ مذکورہ اقدارِ مشترکہ کے باوصف اس دوسرے گروہ کے لوگ مزید گروہوں میں تقسیم پائے جاسکتے ہیں:
- اول وہ لوگ جو اپنے عقائد اپنی دیومالا (Mythology)سے اخذ کرتے ہیں اور یوں ان کی ایمانیات اور دیومالا میں برائے نام فرق پایا جاتا ہو ۔ مثلاً قدیم اہل ِیونان اور اہل ِہند کی دیو مالا اور عقائد کا مطالعہ کیا جائے تو دونوں ایک ہی تصویر کے دورخ نظر آئیں گے۔ اب دیومالا چونکہ ایک فوق الفطرت دنیا کا احوال ہے، جسے اگر جادو نگری (wonder land)سے تعبیر کیا جائے تو زیادہ قرین قیاس ہوگا، تو لہٰذا اس میں کسی بھی وقت کچھ بھی ممکن ہوتا ہے۔ چنانچہ بہت سے دیومالائی واقعات اور کرداروں میں جا بجا عقلی تناقضات پائے جاتے ہیں ، جن کی دیومالا کے اندر سمانے کی پوری گنجائش ہوتی ہے ۔ کیونکہ دیومالا کسی عقلی یا منطقی ضابطے کے تحت نہیں ہوتی ۔ یہ تناقضات پھر وہاں سے عقائد میں درآتے ہیں ۔ جس کے الزام سے بچنے کے لیے دیومالا اور ان عقائد کو ہی ماورائے عقل فرض کرلیا جاتا ہے ۔ گویا مافوق الفطرت سے مافوق العقل ہونالازم آنے کا کلیہ ”عقلی طور پر“ اختراع کر لیا جاتا ہے ۔
- دوسرے وہ لوگ جو کسی آسمانی شریعت اور پیغمبر و وحی وغیرہ پر یقین رکھتے ہوں لیکن دین میں تحریف ہوجانے کی وجہ سے عقائد و احکام حد درجہ مسخ ہوچکے ہوں ۔ اور معاملہ یہ صورت اختیار کرچکا ہو کہ عقائد پر ایمان رکھتے ہیں تو عقل ہاتھ سے جاتی ہے اور اگر عقل اختیار کرتے ہیں تو ایمان جاتا رہتا ہے ۔ جیسا کہ عیسائیت اور یہودیت کے عقائدہیں ۔ عیسائیت میں خدا کا بیٹا اور بیوی ہونے کا تصوّر اس قدر غیر منطقی اور متناقض ِعقل ہے کہ اس عقلی قضیہ (یعنی یہ کہ کسی چیز کے اندر تناقض کا ہونا ایک عقلی معاملہ ہی) سے ”عقلاً“ جان چھڑانے کے لیے عقائد کو ہی عقل سے ماوراءقرار دے دیا گیا ۔ تاکہ نہ رہے بانس ، نہ بجے بانسری۔
- تیسرے وہ لوگ جو ایسی روحانیت کے قائل ہوں جس میں قلبی وارداتوں یا وجدان کی صورت میں احوال ، کیفیات اور حقائق منکشف یا القا ہوتے ہوں ، اور اس میں عقل کا کوئی عمل دخل نہ ہو ۔ لہٰذا دین اور اس کے حقائق بس ایک روحانیت سے زیادہ کوئی حیثیت نہ رکھتے ہوں ، جس کا کام مادے کی نفی کرنا ہو نہ کہ اس کی تکمیل کرنا ۔ چنانچہ دین کو محض ایک روحانی چیز سمجھ کر اور عقل کو صرف ایک مادی چیز خیال کرکے دونوں کی راہوں کو الگ رکھنا خود اس دین کی بقا کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہو۔ !!
- اس تیسری قسم میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو وحی ، پیغمبر اور رسالت و آخرت پر تو ایمان رکھتے ہیں ۔ لیکن روحانیت کے ”شدید تقاضوں “ کے تحت عقل کو اس کے بہت سے ضروری کاموں سے، کہ جن کے لیے وہ عطا کی گئی ہے، فارغ کر بیٹھتے ہیں ۔ اب چونکہ وحی اور نبوّت کا کسب بذریعہ عقل نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ یہ ایک خالص وہبی چیز ہے۔ اور دوسرے یہ کہ عالم ِغیب کے تمام برگزیدہ حقائق اورو قائع صرف وحی کے ذریعے ہی بزبان ِنبوّت معلوم ہو سکتے ہیں اس لیے ان لوگوں کو خیال گزرا کہ عقل اور وحی دو ایسی الگ الگ چیزیں ہیں جن کو آپس میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔ اب جو چیز عقل کی گھڑنت سے وجود میں نہیں آئی ہے وہ لازماً عقل سے ماوراء ہی کوئی شے ہونی چاہیے!! لہٰذا عقل کا کام بس صرف سرنگوں ہوناہے نہ کہ وحی اور نبوّت کو پہچاننا ، یا اس کے ذریعے سے معلوم شدہ غیبی امور میں ربط و ضبط اور نظم تلاش کرنا، کیونکہ یہ اس کے بس کی بات ہی نہیں ہے !۔ مزید یہ کہ اس سے زیادہ غلط بات یہ ہے کہ مادی حقائق (جو کہ انسان کو مشاہدے اور عقل سے حاصل ہوتے ہیں ) اور روحانی یا غیبی حقائق (جو بذریعہ وحی معلوم ہوتے ہیں ) کے درمیان ربط اور تعلق تلاش کیا جائے !!۔ اور غلط ترین بات یہ ہے کہ مادی حقائق کو غیبی حقائق پر ایمان لانے کی بنیاد یا حوالے کا نقطہ (point of reference) بنایا جائے !!!
- وحی اور نبوّت بلاشک و شبہ ایسی چیز نہیں جو عقل کے ذریعے کسب کرلی جائیں۔ لیکن اس سے یہ کہاں لازم آگیا کہ وحی کے دستیاب ہونے کے بعد اب اس کی پہچان اور حقانیت کی معرفت حاصل کرنا بھی عقل کے بس کی بات نہیں ؟ آخر ایمان لانے کا عمل پہچان کے بغیر کیسے ہو سکتا ہے ؟ اور پہچان کا کام عقل کے بغیر کیونکر ؟؟
- چنانچہ نہ تو حواس سے ماوراء ہونے کا مطلب لازمی طور پر عقل سے ماوراءہونا ہے اور نہ عالم ِغیب کی تفصیلات کا کسب بذریعہ عقل نہ ہوسکنے سے ہی یہ مطلب نکلتا ہے۔ اگر کسی چیز تک عقل خود سے نہیں پہنچ سکتی (یعنی صرف ان معنو ں میں وہ ماورائے عقل ہے ) تو اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اب وہ عقل کی سمجھ میں ہی نہیں آسکتی اور عقل کے مطابق نہیں ہوسکتی ۔
- چنانچہ عالم ِغیب کی تفصیلات پر ایمان رکھنا، ایمان بالغیب، حواس کے نارَسا ہونے کے حوالے سے ہے نہ کہ عقل کے۔ کیونکہ عقل حو اس کے راستے سے نہ سہی ، وحی کی بتائی گئی تفصیلات کے ذریعے اس عالَم تک بہر حال رسائی حاصل کرلیتی ہے ، جس کی پھر اپنی معقولیت ، نظم و ضبط ، جامعیت اور دنیائے مادہ سے اس کا ربط و تعلق عقل کو سرِ تسلیم خم کرنے پر آمادہ کرتے ہیں ۔ عالم ِغیب کو پہچاننے اور قبول کرنے میں عقل کا یہ کردار نہ ہو تو ابدی حقائق کی متلاشی ، انسان کی پیاسی فطرت دین حق ، دین محرّف اور دیومالا کی ایمانیات میں پھر کیسے فرق روا رکھ سکے ؟ اور ان تینوں میں سے کسی کو قبول کرنے اور کسی کو ردکرنے کی پھر اس کے پاس بنیاد کیا ہو؟؟
الہامی مذہب ہونے کےباوجود اسلام کی غوروفکر کی دعوت
اسلام کے دین حق ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس کے عقائد و ایمانیات اور اصول و فروع میں کوئی تضاد ،اختلاف، تعارض یا تناقض نہیں ہے ۔
وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا کَثِيرًا (النسآء – 82) ”اگر یہ (قرآن ) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا یہ لوگ اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔ “
چونکہ کسی نظام میں تضاد یا تناقض کا ہونا نہ ہونا ایک عقلی (Rational)معاملہ ہے، اس لیے اس لحاظ سے خود اپنے اندر کسی اختلاف کے نہ پائے جانے کا اعلان اس دین کے عقائد اور ایمانیات کی عقلی حیثیت کو واضح کرتا ہے ۔ قابل ِغور بات یہ ہے کہ یہاں اختلاف کے نہ پائے جانے کا مجرد موضوعی (subjective) اعلان نہیں کیا جارہا کہ جس پر بس ایمان رکھنا ضروری ہو اور اس کاعقل میں آنا غیر ضروری ! بلکہ کفار کے بارے میں معروضی طور پر (objectively)کہا جارہا ہے کہ وہ اس قرآن میں بڑے اختلافات پاتے ا گریہ کسی غیر اللہ کا بنایا ہوا کلام ہوتا۔
چنانچہ دین میں اضافے ، بدعات اور تحریفات کی تمام کوششیں (بطور خاص عقائد اور ایمانیات کے معاملے میں ) صاف طور پر پہچان لی جاتی اوربہ آسانی رد کردی جاتی ہیں ۔
دین کی یہ عقلی حیثیت نہ ہوتی تو معاذاللہ کسی دیومالاہی کی طرح یا کسی ”ماورائے عقل “ ایمانیات پر مبنی تحریف شدہ دین ہی کی مانند اس میں بھی پھر تناقضات کے سمانے کی بھرپور گنجائش ہوتے۔ لیکن انسان کو پیدا کرکے عقل جیسی دولت سے نوازنے والی ذات نے اس کے لیے دین ایسے ہی نازل نہیں فرمادیا۔
پس دین ِاسلام پر بطور ایک کُل(Holistically) اور بطور ایک نظام اس طرح غور وتدبر کہ اس کے تمام اجزاء، بشمول عقائد و ایمانیات اور احکام وغیرہ ،کا آپس میں تعلق اور مطابقت واضح سے واضح تر ہوتی جائے ۔۔۔۔تاکہ قلوب کا اطمینان اور صدور کا انشراح اس دین کی قبولیت اور اطاعت و انقیاد کے لیے ہر آن بڑھتا ہی جائے ۔۔۔۔اور بندہ تسلیم ، خود سپردگی اور کامل رضامندی کا پیکر بن کر اپنے مالک کی طرف عالم ِشوق میں وارفتہ وار چلتا ہی جائے ۔۔۔۔، یہ سب سے پہلے خود اس دین کا اپنا تقاضا ہے۔
أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا کَثِيرًا (النسآء-82)”کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا یہ اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔
اسلام ہی وہ دین یا نظام ہے جودنیائے مادہ اور دنیوی حیات کے مقصد اور غرض و غایت کے حوالے سے ایسی مکمل ، جامع اور مربوط تفصیل پیش کرتا ہے جس میں کوئی ابہام، جھول، پیچیدگی یا تناقض نہیں ہے۔ چناچہ عقول کو اسکی قبولیت میں کوئی اصولی مانع بھی نہیں ہے۔
پس دین کی دعوت دراصل اس کی وہ خاصیت ہے جسکی بدولت عالمِ مادہ اور عالمِ ِغیب ایک ہی تصویر کے دو رُخ اور ایک ہی منصوبے کے دو متصل مراحل ثابت ہوتے نظر آتے ہیں ۔ تصویر کے ان دونوں رُخوں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے دیکھنے کی کوشش دو میں سے کسی ایک انتہا یا اس کی طرف نارَوا جھکاوء کا ہی باعث بنتی ہی۔۔۔۔ یا صرف مادیت اور یا پھر صرف روحانیت ۔جبکہ روح اور مادے کے سنگم سے وجود میں آنے والی اس مخلوق کے لیے دونوں ہی یکساں طور پر اہم اور بیک وقت مطلوب ہیں ۔
چناچہ روحانیت (بمعنی ”ایمان“) کے لیے طے کیا جانے والا سفر اگر عالم ِمادہ یا کسی قدر مادیت سے شروع نہ ہو تو پھر منزل ایک ایسی روحانیت ٹھہرتی ہے جو اس دنیا، اس کے ہنگاموں اور ان میں اِنسان کے مطلوبہ کردار سے ہی لا تعلق ہوتی ہے۔یوں مادیت کا اصل کردار فنا ہو جانے کی بناء پر دنیا میں رزم گاہِ حق و باطل سجنے اور باطل کے ساتھ ستیزہ کاری و نبردآزمائی کا سوال بھی بڑی حد تک روپوش ہی رہتا ہے۔
قرآن جوجا بجا ، کائنات میں مشاہدہ اور غورو فکر کی دعوت دیتا اور عقل کو جھنجھوڑتا نظرآتا ہے تو یہ کچھ بلا وجہ نہیں ہے۔ ایمان لانے کے لیے اگر مادی کائنات کا مُشاہدہ اور اس میں تدبرضروری نہ ہو ، اور یہ دونوں ایمان لانے کی بنیاد نہ ہوں ، تو معاذاللہ خدائے علیم و حکیم اپنے بندوں سے اس کا مطالبہ ہی کیوں کرے؟!بلکہ یہ عمل تو خود ایمان کی بقا کے لیے اس قدر ضروری ہے کہ بعد از قبولیت ایمان بھی مستقلاً مطلوب ہے۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْيَا بِهِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن کُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (البقرۃ ۔ 164) ”بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات اور دن کا ہیر پھیر ، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیز کو لیے ہوئے سمندروں میں چلنا ، آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو زندہ کر دینا ، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلادینا ، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں ۔،ان میں عقلمندوں کے لیے قدرتِ الہٰی کی نشانیاں ہیں۔ “
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لِّأُوْلِي الألْبَابِo الَّذِينَ يَذْکُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَکَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ (آل عمران – 190،191)”بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔ جو لوگ کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں ) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غورکرتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ے پروردگار ! تو نے اس کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا ، پاک ہے تو۔“
قرآن تو آیا ہی اسی لیے ہے کہ وہ انسان کی عقل سے براہ ِراست خطاب کرے اور اسے عقلی طور پر (Rationally)آمادہء تسلیم کرے ،نہ کہ جبری طور پر۔ ہدایت کو گمراہی سے اسی لیے چھانٹ دیا گیا ہے کہ عقل دونوں کو الگ سے صاف طور پر پہچان لے۔
لاَ إِکْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ(البقرۃ۔ 256)”دین میں زبردستی نہیں ہے ۔ ہدایت گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔“
قرآن کی دعوت کا انداز یہی ہے کہ وہ پہلے انسان کو اُس کے عام (common) مشاہدات یاد کراتا ہے، یا مشاہدات کی دعوت دیتا ہے۔ پھر ان کی بنیاد پر غور و فکر ، تعقل اور تدبر پر آمادہ کرتا ہے۔ اس طرح سے کہ پھر نتیجتاً یہ غور و فکر ایمان لانے کی بنیاد بن جائے ۔
أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ کَيْفَ خُلِقَتْ 0 وَإِلَى السَّمَاء کَيْفَ رُفِعَتْ 0 وَإِلَى الْجِبَالِ کَيْفَ نُصِبَتْ 0 وَإِلَى الْأَرْضِ کَيْفَ سُطِحَتْ 0 فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ 0 لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِر0 (الغاشیۃ -22-17)
” یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے (عجیب ) پیدا کیے گئے ہیں۔ اور آسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑ ے کیے گئے ہیں۔ اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی ہے۔ ؟؟ تو تم نصیحت کرتے رہو کہ تم نصیحت کرنے والے ہی ہو۔ تم ان پر داروغہ نہیں ہو۔ “
أَوَلَمْ يَنظُرُواْ فِي مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّهُ مِن شَيْءٍ وَأَنْ عَسَى أَن يَکُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ(الاءعراف – 185)”کیا انہوں نے آسمان اور زمین کی بادشاہت میں اور جو چیزیں اللہ نے پیدا کی ہیں ان پر نظر نہیں کی ۔ ؟ اور اس بات پر (خیال نہیں کیا ) کہ عجب نہیں ان (کی موت ) کا وقت نزدیک پہنچ گیا ہو۔ تو اس کے بعد وہ اور کس بات پر ایمان لائیں گے؟“
أَفَلَمْ يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاء فَوْقَهُمْ کَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ 0 وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن کُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ (ق: 6- 8) ”کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیونکر بنایا اور (کیونکر) سجایا اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں ۔ ؟ اور زمین کو (دیکھو کہ اسے ) ہم نے پھیلایا اور اس میں جہاز رکھ دیے اور اس میں ہر طرح کی خوش نما چیزیں اگائیں ۔ تاکہ رجوع لانے والے بندے ہدایت اور نصیحت حاصل کریں۔“
قرآن انسان کو مشاہدے کے ذریعے پہلے اُن امور کی یاد دہانی کراتا ہے جو مشاہدے سے’ ’براہِ راست‘ ‘ لازم آرہے ہوتے ہیں ۔ مثلاً مظاہرِ فطرت کی ہمہ رنگی کے باوجود ان میں ہم آہنگی اورنظم و ضبط کے مشاہدے سے ایک ایسی ہستی کا ادراک جو اس کائنات کی خالق اور اور تنہا اس کا نظم چلانے والی ہے ۔ پھر وہ ان امور پر ایمان لانے کی دعوت پیش کرتا ہے جو اس حاصل شدہ نتیجہ سے بالواسطہ لازم آتے ہیں ۔ یا اس کا اصولی تکملہ (complement) ہوتے ہیں ۔ اور اگر چہ ان میں سے اکثر تک عقل کا خود سے پہنچنا ممکن نہیں ہوتا (مثلاً رِسالت، جنت جہنم، حشر نشر، حساب کتاب وغیرہ)۔ تاہم یہ امور نہ تو عقل کے مخالف ہوتے ہیں اور نہ اس کے لیے ناقابل فہم۔ بلکہ یہ مشاہدے سے حاصل شدہ نتائج کی بہترین تشریح ، توجیہہ اور تکمیل کرتے ہیں۔ وحی سے ان امور کی بازیافت پر عقل دنیا کی غرض و غایت اور مقصد کے حوالے سے ایک طرح کا انبساط (Pleasure)اور اطمینان (Fulfilment) محسوس کرتی ہے ۔ چنانچہ قرآن کا ،مشاہدہ اور غور و فکر کی دعوت دینا گویا ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب تم پہلے سے ان چیزوں کو تسلیم کرتے ہو تو پھر ان چیزوں کو، پیش کرنے پر بھی ،کیوں نہیں مان لیتے جو اول الذکر سے لازم آتی ہیں یا ان کی بہترین تشریح اور تکمیل کرتی ہیں ؟ اور جن میں باہم کوئی تضاد و تناقص نہیں ہے ؟
مخاطب کو متوجہ کرنے اور اس کی عقل کو صحیح معنوں میں اپیل کرنے کے لیے کسی حوالے کے نقطہ (Point of Refrence) سے بات کا آغاز کرنا قرآن کی دعوت کے اُسلوب کا ایک معروف طریقہ ہے۔ حوالہ کا کوئی طے شدہ فریم نہ ہو تو مخاطب کو بات کی معروضیت (Objectivity) تک پہنچانا پھر ممکن ہی نہیں ۔ چناچہ قرآن کے دعوتی اسلوب میں حوالہ کا یہ فریم یا تو مظاہرِ فطرت کی صورت میں مادی کائنات کا مشاہدہ ہے اور یا پھر مخاطب قوم اور اسلام کے مابین مشترکہ ایمانیات، جس کی بنیاد پر قرآن نے انسانی عقل کو Extrapolate کرواکے وہاں لے جانا ہوتا ہے جہاں پہنچنے سے انسان یا تو خود ”بوجوہ“ اعراض کر رہا ہوتا ہے یاپھر ان تفصیلات تک پہنچنا عقل کے لیے تنہا ممکن نہیں ہوتا، تاہم یہ تفصیلات ان مشترکہ امور سے حد درجہ مربوط نظر آتی ہیں ۔
گویا حوالے کا یہ نقطہ یا فریم دراصل اسلام اور مخاطب اقوام کے درمیان کچھ مشترکہ امور (common terms) کی صورت میں سامنے آتا ہے جن کے اندر فریقین میں باہم کوئی اختلاف نہیں ہوتا ۔ چناچہ غیر مشترکہ امور (uncommon terms) میں بھی اشتراک و یکجہتی لے آنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ان امورکو مذاکرے کی بنیاد بنایا جائے جو پہلے ہی مشترک ہیں ۔ جس طرح ”نا معلوم“ (unknow) امور کا علم ”معلوم ‘ ‘(known) کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا ، اسی طرح غیر مشترکہ امور میں یکجہتی و اتفاق کا آجانا، پہلے سے مشترکہ امور کو مدار بنائے بغیر ممکن نہیں۔ بلکہ مشترکہ امور کے بغیر تو دو فریقوں کے درمیان بامعنی گفتگو اور تبادلہء خیال ہی ممکن نہیں ، چہ جائیکہ دعوت و تبلیغ ۔۔۔۔!
قرآن کریم کے زمانہء نزول میں تین قومیں بنیادی طور پر قرآن کی مخاطب تھیں : مشرکین عرب ، یہود اور نصاریٰ ۔ باوجودیکہ یہ تینو ں قومیں اللہ پر پہلے سے ایمان رکھتی تھیں ، اور اہل کتاب تو آسمانی شریعتوں کے ماننے والے تھے، اللہ نے قرآن میں ان سے گفتگو کے دوران محض مشترکہ ایمانیات کو ہی بحث کا نقطہء آغاز نہیں بنایا بلکہ ایسی بے شمار آیات بھی نازل کیں جو مادی کائنات کے مشاہدے اور ان میں تدبر کی دعوت دیتی ہیں ۔
سائنسی حقائق کا قرآنی اشارات کے مطابق ہونا
یہ بات ایک حقیقت ہے کہ گزرتے ہوئے زمانے اور ادوار کے ساتھ انسان نے مادی کائنات کے متعلق اپنے بنیادی علم کو بذریعہ تجربات اور تحقیق وتفتیش ناقابل یقین حد تک آگے بڑھادیا ہے ۔ اور کئی ایک ایسے حقائق کا ادراک کیا ہے جن تک پہنچنا گزشتہ ادوار میں ایک نا ممکن سی بات تھی ۔ اور ایسا نہیں ہے کہ یہ تمام نئے سائنسی حقائق محض مفروضات ہی ہیں جو کسی بھی وقت بدل کر کچھ اور ہوسکتے ہیں ۔ بلکہ ان کی بنیاد پر عالمِ واقعہ میں ہونے والی نت نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی کی ترقی ان حقائق کی مسلمہ حیثیت کو ثابت کرتی ہے۔
پھر یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ مادی دنیا یا مادے سے متعلق قرآن کے بہت سے انکشافات ایسے ہیں کہ جو عالمِ واقعہ کے اندر گزشتہ ادوار میں انسان کے مشاہدے کے دائر ے میں نہیں آتے تھے ، اس لیے ان پر محض ایمان ہی رکھا جاسکتا تھا۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ خصوصاً گزشتہ چند صدیوں میں جب کہ سائنسی ترقی کی بدولت انسان کے مشاہدے اور تجربے کے دائرے میں نہایت درجہ وسعت پیدا ہوگئی تو بہت سے معلوم ہونے والے نئے مادی حقائق کی ان قرآنی انکشافات کے ساتھ حیرت انگیز مماثلت ثابت ہوتی نظر آئی ۔ مثلاً بطنِ مادر میں جنین (Embryo) کی افزائش و نمو کے مختلف مراحل جنہیں قرآن بیان کرتا ہے، سائنسی ترقی کے دور سے پہلے انسان کے لیے قابل مشاہدہ نہیں تھے ۔ لیکن اب جبکہ سائنسدانوں نے ان مراحل کو سائنسی طور پر معلوم و دریافت کرلیا ہے تو یہ عین وہی اور ویسے ہی ثابت ہوتے نظر آتے ہیں جس طرح کہ قرآن میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس طرح کی اور درجنوں مثالیں موجودہیں ۔
چنانچہ قرآن اور جدید سائنسی حقائق کے درمیان مماثلت یا اشتراک کی بدولت حوالے کے فریم کی ایک نئی جہت سامنے آنا شروع ہوئی جو موجودہ دورمیں سائنسی اور تجرباتی ذہن رکھنے والے انسان کو مخاطب اور اپیل کرنے کے لیے بجا طور پر حوالے کے نقاط فراہم کرسکتی ہے۔
ٍ قرآن پر اور دین ِاسلام پر لوگوں کو دعوت ِایمان دینے کے لیے آخر کچھ نہ کچھ مُشترکہ بنیادیں تو درکار ہوں گی ۔قرآن توہر دور اور ہر ذہن کے انسان کو خطاب کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ جبکہ دعوت کا مفہوم لوگوں کے قلوب واذہان پر اثر ڈالنا ہے نہ کہ محض بات پہنچا دینا ۔سو، جدید ذہن کے حامل انسان کو جو اسلام کے ساتھ کوئی قابل ِذکر مشترکہ ایمانیات نہیں رکھتا ، مخاطب اور متاثر کرنے کے لیے ہمارے پاس حوالے کے نقاط کیا ہیں؟
بادلوں کا بارش برسانا ، ہواؤں کا چلنا ، بارشوں سے مردہ زمین کا لہلہا اٹھنا ، اندھیری راتوں میں ستاروں کا راہبر ہونا ، پہاڑوں کا زمین میں بطور میخ گڑا ہونا ، سورج اور چاند کا اپنے اپنے دائروں میں رہتے ہوئے گردش کرنا ۔۔۔۔اور درجنوں ایسے ہی مادی حقائق کی بنیاد پر قرآن لوگوں کو ایمان لانے کے لیے دعوت ِغور وفکر دیتا آیا ہے تو آج کے ثابت شدہ مادی حقائق قرآن میں دکھلا کر ان کی بنیاد پر لوگوں کو غوروفکر اور ایمان بالغیب کی دعوت دینے میں بھلا کیا قباحت ہے؟ اور اس سے اسلام کی پیراڈائم کو کیا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے؟۔ قرآن کی ایک اپروچ اگر یہ بھی ہے کہ وہ مادی حقائق اور عالم ِغیب کے درمیان تلازم اور ربط دکھلاکر اپنی پیش کردہ غیب کی تفصیلات پر ایمان لانے کا تقاضا کرتا ہے تو اسی اپروچ کو استعمال کرتے ہوئے کچھ ”نئے “ سائنسی حقائق کا تعلق ”کُل قرآن “ پر ایمان کی دعوت دینے کے لیے ”بعض “ قرآن سے کیوں نہیں جوڑا جاسکتا ؟ جبکہ مقصد دونوں جگہ بالکل ایک ہے ۔ رہا فرق طریقہ کار کا تو وہ دونوں جگہوں پر واقعات و حقائق کے بیان کی معجزاتی حیثیت کی نسبت سے ہے۔
معجزہ کا مقصد جہاں اللہ کی قدرت ، اختیار اور فاعلیت کا براہِ راست ثبوت پیش کرنا ہوتا ہے (کیونکہ معجزہ، ”عادت“ (Routine) اور طبیعی و مادی قوانین کے برعکس واقع ہوتا ہے) وہیں اس ہستی یا شے کا ، جس سے معجزہ کا صدور ہوا ہے، منجانب اللہ ہونا (یعنی خدا کا نبی یا خدا کا کلام ہونے کے حیثیت سے) بھی ثابت کرناہوتا ہے۔ کسی کا منجانب اللہ ہونا بطور کُل اگر ثابت ہو جائے تو اس کی ہر ایک بات کا منجانب اللہ پھر آپ سے آپ متحقق ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اصولی طور پر، اس ہستی یا شے پر ایمان لانے میں کوئی مانع بھی باقی نہیں رہتا۔
قرآن اللہ کا کلام اور دنیا کے اندھیروں میں آدمی کے لیے ہدایت کا نور ہے، جس نے تا قیامت انسانیت کے قلب و ذہن کو اپنی لافانی روشنیوں سے منور کرتے رہنا اور حقیقت کی جستجو میں اس کی تشنگی کو ہر دور میں تسکین بخشتے رہنا ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ یہ اس خالق و فاطر کا کلام ہے جو اپنے اسماء و صفات اور افعال میں بے مثل، بے عیب اور غالب و قاہر ہے۔”کلام“ بھی اس کی ایک صفت ہے ۔یوں اللہ کا کلام ہونے کے ناطے یہ قرآن اس دنیا میں پورے کا پورا ایک معجزہ ہے، جس کی کوئی ذرہ برابر بھی نظیر اور مثال ہو ہی نہیں سکتے۔ خواہ اس کے الفاظ ہوں ، اسلوب ہو ،پیریہء بیان ہو یا اس کے بیان کردہ واقعات وحقائق ،یہ اپنے ہر ہر انداز سے ایک معجزہ اور فکر کو مہمیز دینے والا کلام ہے۔اس کی معجز نمائی تا قیامت جاری رہے گے۔ اس کے عجائب کبھی ختم نہ ہونگے ۔ اس سے سیرابی اور شفایابی کی تمناو جستجو رکھنے والے ہر دور میں اس کے فیض عام سے بہرہ اندوز ہوتے رہیں گے۔تاقیامت لوگ اس سے ہدایت اور منفعت حاصل کرتے رہیں گے۔ کون سی چیز ہے جس کے ذکر سے یہ کتاب خالی ہے ؟کونسی بات ہے جس کا اس میں بیان نہیں؟
وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ تِبْيَانًا لِّکُلِّ شَيْءٍ (النحل – 89)”اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی ہے کہ جو ہر چیز کا بیانِ (مفصل )ہے۔“
چنانچہ قرآن کی ہمہ جہت ، ہمہ گیر اور ہمہ وقتی معجزاتی حیثیت کے پیش نظر اس میں ایسے سائنسی حقائق سے متعلق اشارات کا پایا جانا جو گزشتہ ادوار میں معلوم یا دریافت نہیں ہو سکے تھے (حتی کہ وہ بھی جو ابھی تک دریافت نہیں ہو سکے ہیں اور آئندہ کسی زمانے میں ہوسکیں گی) ہرگز مستبعد نہیں ہے۔ بلکہ از قبیل تسلسل ِعجائب ِقرآن ہے۔
کائنات اور حیات سے متعلق سائنسی حقائق کا قرآنی اشارات کے مطابق ہونا اور یوں ان کا انسان کے قرآن پر ایمان لانے کے لیے ایک نشانی (آیات ) اور ایک بنیاد ہونا تو خود قرآن میں مذکور ہے جسے دورِ جدید کے داعیان اسلام بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں :
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (حم السجدۃ – 53)”ہم عنقریب انکو اطراف ِعالم میں اور خود ان کی ذات میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ یہی (قرآن) حق ہے۔“
درست، کہ قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں ہے ، نہ ہی اس کے نزول کا مقصد سائنس کی تعلیم دینا ہے۔ اسی طرح قرآن کی حقانیت پر ایمان جدید سائنس کی تائید و شہادت ہی پر منحصر نہیں ہے ۔ لیکن نہ تو یہ دونوں امور قرآن میں سائنسی اشارات کے پائے جانے میں مانع ہیں ، اور نہ جدید سائنسی حقائق اور قرآنی اشارات کے درمیان اشتراک تلاش کرکے اسے بطور معجزہء قرآن دعوت کا ایک حوالہ (Reference) بنانا قرآن کو جدید سائنس کے تابع کردینے کے مترادف ہے ۔
پس اسلام کے کسی داعی کی طرف سے سائنسی حقائق اور قرآنی اشارات میں مماثلت پیش کیا جانا دراصل قرآن کی معجزاتی حیثیت کا بیان ہونا ہے کہجو بات جدید سائنس نے آج بڑی دقتوں سے معلوم کی ہے وہ قرآن نے صدیوں پہلے بغیر کسی مادی تحقیق کے بیان کردی تھی ۔ پھر اسی بات کو دعوت کی بنیاد بنایا جاتا ہے ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ
قرآن کی” بعض “کی معجزاتی حیثیت کی بنیاد پر قرآن کی’ ’کُل“ پر ایمان کی دعوت کوئی منطق کے استقرائی طریقہ کار کے تحت نہیں ہوتی (کہ جس میں حتی الامکان تمام اجزاءکو الگ الگ انفرادی طور پر ثابت کرکے پھر انکے مجموعے یا کُل کا اثبات ممکن بنایا جاتا ہے )بلکہ صرف چند حقائق میں مماثلت ہی کُل قرآن اور اسلام کی حقانیت کی دعوت پیش کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی نبی کے ایک معجزے یا چند معجزات کی بنیاد پر اسکی تمام باتوں پر ایمان لے آیا جائے ۔ چناچہ خود اسی طریقہ استدلال کو استعمال کرنے والے داعی حضرات اس طرح قرآن کو سائنسی کتاب کی بجائے ایک معجزاتی کتاب ثابت کر رہے ہوتے ہیں ۔
ان مخلص اور سلیم الطبع داعی حضرات پر قرآن اور دین کوجدید سائنسی پیراڈائم کے تحت و تابع کردینے کا الزام تو ایک طرف رہا ،خود مجرد جدید سائنس کے تمام نظریات سے ان لوگوں کا متفق ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ جیسے ڈارون کا نظریہء ارتقاءاسلام کے نظریات سے شدید طور پرمتصادم ہونے کی بناء پر ہمیشہ سے شدید اور کڑی تنقید کا سامنا کرتا رہا ہے۔ اور اگر چہ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کچھ سائنسی نظریات بعض اوقات ردّ ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے سائنسی نظریات لے لتے ہیں (البتہ روز افزوں سائنسی ترقی و تحقیق کے باعث اس عمل میں بھی بڑی حد تک کمی آچکی ہی) لیکن یہ بات بھی اسلام اور سائنسی حقائق کے درمیان اشتراک تلاش کرنے میں مانع نہیں ہے۔ کیونکہ صرف اسلامی اصول و عقائد کے موافق، اور مسلّمہ طور پر ثابت شدہ سائنسی حقائق (Well established scientific facts) ہی اسلام اور سائنس کی مماثلت کے موضوع پر ، دعوت کی غرض سے ، ان اسکالرز کی بحث و گفتگو کا محور بنتے ہیں۔
اسلام اور سائنس کے درمیان مماثلت تلاش کرنے کا یہ عمل ایک مخصوص اور محدود دائرے کے اندر اندر ہوتا ہے، جو دراصل خود اسلام کی اپروچ کے تابع ہوتا ہے۔ ورنہ اگر ایسا نہ ہوتا تو، کثرت کے ساتھ قرآنی آیات کی بے جا سائنسی تاویلات اور دور اَزکار توجیہات ان لوگوں کی طرف سے دیکھنے میں آرہی ہوتیں ۔۔۔۔، جس پر کہ معروف وجید علمائے کرام کی تنقید و تردید پھر ایک مشہور و معلوم بات ہوتی۔
یہاں اگر تفریط کی صورت میں یہ ایک انتہا ہے کہ سائنس کو کلیۃً اسلام کے خلاف قرار دیکر اس سے ”بری الذمہ“ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے، تو ہرشرعی مسئلہ کی طرح اس معاملے میں بھی بہ صورت افراط ایک دوسری انتہا کا پایا جانا ہرگز خارج از امکان نہیں بلکہ ایک امر واقعہ ہے۔
چنانچہ کسی شخص نے اگر اپنی کسی تالیف یا تفسیر قرآن میں ہر سائنسی رطب و یابس (بشمول ڈارون کا نظریہء ارتقاء) کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہو تو ایک شخص یا چند اشخاص کی غلط اپروچ پر باقی تمام لوگوں کو تو موردِالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ نہ ہی ان سب کی یکساں صف بندی کی جانا کوئی عدل و انصاف کے قرین ہے ۔ ویسے بھی اس قسم کی تفاسیر پر علمائے کرام کی شدید تنقید و تردید کا تو خود سائنس مخالفین کو اعتراف بلکہ دعویٰ ہے۔
قرآن میں ان سائنسی حقائق سے متعلق اشارات کا پایا جانا جو آج کے دور میں جا کر دریافت ہوئے ہیں، غیر مسلموں پر تو گہرا تاثر قائم کرتا ہی ہے ، مسلمان بھی اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ یوں ان کا ایمان مزید بڑھتا اور ان کے اطمینان قلب میں مزید اضافہ ہوتا ہے، جس کی وجہ ان کا سائنسی ذہنیت کا حامل ہونے کی بجائے قرآن کی معجزاتی حیثیت کو پا کر دم بخود رہ جانا ہوتا ہے ۔ ورنہ قرآن پر ان (مسلمانوں ) کا پہلے کا ایمان کوئی سائنس کا مر ہونِ منّت تھوڑی رہا ہوتا ہے۔
یہ بات کہ اسلام کے بہت سے جدید اسکالرز اور داعی حضرات اسلام اور سائنس کے مشترکہ امور کو حوالے کی بنیاد بنا کر دین کی دعوت پھیلارہے ہیں، آج کے دورکا ایک مشہور و معروف واقعہ ہے ،کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اسلام کے آغاز سے اب تک ہر دور کی طرح اس دور میں بھی علمائے حق کی کثیر تعداد مسلمانان ِعالم کی رہنمائی کے لیے ہمہ وقت موجودو مستعد ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطہ میں اسلام کے کسی نظریے یا عقیدے پر کوئی آنچ آرہی ہو ، یا اس کی ایمانیات میں ملاوٹ یاکمی بیشی کی کوشش کی جارہی ہو تو سب سے پہلے یہ علمائے کرام ہی ہیں جو اس واقعے کا نوٹس لیتے اور عامۃالمسلمین کو اس سے خبردار و ہوشیار کرتے ہیں ۔ کسی مسئلہ یا واقع میں علمائے کرام تائید میں جاتے ہیں یا مخالفت میں ، یا خاموش ہی رہتے ہیں ،۔۔۔۔ غرض جو بھی طرزِ عمل اپناتے ہیں وہی عامۃ المسلمین کی سمت بندی کے لئے ایک معیار بن جاتا ہے۔ چنانچہ کسی چیز کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے سے متعلق عالم ِاسلام کے جیدعلماء کی آراءہی کو مدنظر رکھنا یا اس بابت ان ہی کی طرف رجوع کیا جانا ناگزیر ہے جس سے انحراف کی کی روش ایک خطرناک طرزِ عمل ہے۔
مزید برآں، سائنس اور عقل ، اسلام اور اس کی ایمانیات کی کتنی مخالف ہیں ، اور مخالف ہیں بھی یا نہیں اس کا کوئی ثبوت اگر ہو تو خود اسلام اور اس کی ایمانیات سے دیا جانا چاہیے نہ کہ کہیں اور سے ۔ اسلام ایک جامع ، کامل ، ہمہ گیر اور آفاقی دین ہے، اور اپنی حقانیت اور دیگر ادیان ونظاموں کے بطلان کے دلائل آپ اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔ یہ اپنی نہاد میں اس قدر صاف ، شفاف ، کھرا، سچا اور خالص ہے کہ کسی بھی قسم کا کھوٹ یا ملاوٹ اس میں بار پاہی نہیں سکتی ،بلکہ فوراً الگ سے ، صاف طور پر پہچان لی جاتی اور ردّ کردی جاتی ہے۔اب اسلام کی ایمانیات کی کیا منہاج (paradigm) ہے ، یا اس کی ایمانیات کے بنیادی اصول یعنی اسلام کے اصول ِعقیدہ کیا ہیں ، تو اس کے لیے کوئی بہت زیادہ تحقیق کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ نہ ہی اس غرض سے اسلام کے اپنے طریقہء مطالعہ کو چھوڑ کر کسی اور طریقہء تفکیر (Discourse) مانند فلسفہ کو استعمال کرنا درست ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ اسلام کے اصولِ عقیدہ تو روزِ روشن کی طرح واضح ہیں اور صدیوں سے چلے آئے غیر مبدّل اور ناقابل ِتحریف اسلام کے مصادر ہی اس کے بیان کا حق محفوظ رکھتے ہیں نہ کہ یہ موجودہ دور کے کچھ مغربی فلسفہ سے واقف افراد کو ہے، اسلام کے مزعومہ دفاع کے لیے کچھ نیا اس باب میں ”متعارف“ کرانا پڑے گا۔!مغربی فکر و فلسفہ کا مطالعہ اگر فرض نہیں ، تو ایسا برا بھی نہیں ہے، بشرطیکہ اس نگاہ اور طریقہء تفکیر کا ہی پہلے شعوری تعین کرلیا جائے جسکے تحت پھر یہ مطالعہ کیا جانا ہو ۔ بلکہ اس سے بھی پہلے، یا اسکے لیے، اسلام کے اصول ِعقیدہ پر مبنی مشہور و متداول کتب کسی عالم سے پڑھ لی جائیں تو پھر ا س اپروچ کا درست ہوجانا کافی حد تک ممکن ہے۔ اور توفیق تو صرف خدائے ربِّ ذوالجلال کے پاس ہے۔