ملحد کو بھی جنتی کہو

سیکولرز کا مذھب پسندوں کو عمومی طعنہ یہ بھی دیتے ہیں کہ تم مذھبی لوگ خود کو خدا کے مقام پر بٹھا کر گفتگو کرتے ہو کہ خدا یہ کہتا ہے اور وہ کہتا ہے۔ کسی ملحد کو کافر نہ کہو اس لئے کہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان معاملہ ہے۔خدا کسی کے ساتھ یوں کرے گا یا ووں، ایسا کہنا خدا کے اختیار میں مداخلت کرنا ہے۔ اللہ تعالی نے “فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر” میں انسانوں کو کفر کے انتخاب کا حق دیا ہے۔

جواب:

دین کو “انفرادی سطح” تک محدود کرکے لغو بنا دینے والے اس ڈسکورس کی منازل یوں ہیں:- کسی غیر مسلم کو کافر نہ کہو اس لئے کہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان معاملہ ہے ۔۔۔۔۔۔ کسی ملحد کو کافر نہ کہو اس لئے کہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان معاملہ ہے ۔۔۔۔۔ کسی کے عمل فسق پر کوئی حکم نہ لگاؤ اس لئے کہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان معاملہ ہے ۔۔۔ خدا کیا چاہتا ہے اور بندے کے کس عمل سے خوش ہوگا یہ اللہ اور بندے کے درمیان معاملہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تم کون ہوتے ہو بندے اور رب کے درمیان مفتی بننے والے؟

گویا اللہ نے اپنی کتاب بندوں کے مابین حکم جاری کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے نازل کی تھی۔ فرماتے ہیں”تم مذھبی لوگ خود کو خدا کے مقام پر بٹھا کر گفتگو کرتے ہو کہ خدا یہ کہتا ہے اور وہ کہتا ہے” جناب یہ جو آپ خود کو خدا سے بھی اوپر مقام پر بٹھا کر خدا کے احکامات منسوخ کرتے ہیں کہ اجتماعی دائرے میں خدا کا حکم لائق عمل نہیں’ وہ کیا ہے؟

“خدا کسی کے ساتھ یوں کرے گا یا ووں، ایسا کہنا خدا کے اختیار میں مداخلت کرنا ہے۔” یہ ایک اور غلط دلیل ہے جو کسی ملحد کی گمراہی بیان کرنے سے روکنے کے لئے پیش کی جاتی ہے۔ اگر کوئی اپنی طرف سے ایسا کہے تو یقینا یہ خدا کی سلطنت میں مداخلت ہے۔ لیکن اگر وہ خدا کی نازل کی ہوئی دلیل کی بنیاد پر ایسا کہے کہ خدا بدکار کو عذاب دے سکتا ہے تو یہ مداخلت نہیں بلکہ سچ بولنا ہے۔اسی طرح یہ کہنا کہ “خدا فلاں کے ساتھ ایسا کرے گا”، اس میں بھی مراد خدا کے اس وعدے کی طرف حوالہ دینا ہوتا ہے جو خود اس نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ مثلا خدا اگر کہتا ہے کہ “میں فلاں گناہ یا نیک کام کرنے والے کے ساتھ ایسا کروں گا” اور کوئی شخص ایسے گناہ یا نیک کام کرنے والے کے بارے میں کہے کہ خدا تمہارے ساتھ یہ کرے گا تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ خدا نے جو وعدہ کیا ہے ھمیں امید ہے کہ وہ اسے پورا کرے گا۔ اس کا ھرگز بھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ خدا کو حکم دیا جارہا ہے یا خدا کی مرضی پرکوئی پہرہ بٹھایا جارہا ہے۔

کفر کے انتخاب کی آزادی: حق یا صلاحیت؟

بعض لوگوں کو یہ دھوکہ لگ گیا ہے گویا اللہ تعالی نے “فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر” کے اعلان کے ذریعے انسانوں کو “کوئی سیکولرانہ حق کفر” تفویض کردیا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو ایمان و کفر کے درمیان انتخاب کا “اختیاری حق” دیا ہے، مطلب کفر اختیار کرنا “حق” نہیں بلکہ “مراعت یا مہلت” ہے؟

جاننا چاہئے کہ اللہ تعالی نے انسان کو ایمان و کفر کے مابین اختیار کا حق نہیں دیا بلکہ “صلاحیت” دی ہے۔ صلاحیت و حق کا یہ فرق سمجھنا لازم ہے۔ صلاحیت کا تعلق اس امر سے ہے کہ “میں کیا کرسکتا ہوں”، جبکہ حق کا تعلق اس امر سے ہوتا ہے کہ “مجھے کیا کرنا چاہئے؟” صلاحیت تو ایک میسر ذریعے (resource) کا نام ہے۔ مثلا خدا نے انسان کو آنکھ سے دیکھنے کی صلاحیت عطا فرمائی، تو کیا اس کا معنی یہ ہوا کہ اب آنکھ سے اچھا یا برا دیکھنا، یہ انسان کا حق ہے؟ ہرگز بھی نہیں بلکہ اس ذریعے و صلاحیت کو استعمال کرنے کا حق اسی قدر اور وہی ہے جو خدا نے بتایا۔ اب اگر میں صلاحیت کو اس فعل کے لئے استعمال کروں جس سے منع کیا گیا تو یہ اس صلاحیت کا غلط استعمال کہلائے گا، نہ کہ حق۔ اسی طرح مثلا خدا نے مجھے یہ صلاحیت عطا فرمائی ہے کہ میں کسی کی جان لے سکوں، مگر ظاہر ہے یہ میرا حق نہیں۔ چنانچہ کسی امر کی صلاحیت ہونا اس کے حق ہونے کی دلیل نہیں ہوتی اور یہ بات بالکل واضح ہے۔

بعینہہ جب خدا کہتا ہے کہ ہم نے انسان کو اچھائی و برائی کے دونوں راستے دکھا کر اسے انتخاب کے لئے چھوڑ دیا ہے، تو اس کا معنی یہی ہے کہ خدا نے انسان کو اچھائی و برائی کے معاملے میں مجبور نہیں کردیا بلکہ اسے انتخاب کی صلاحیت دی ہے۔ یہاں ایمان و کفر کے مابین انتخاب کی آزادی بمعنی ایک “ریسورس” ہے، یعنی جس طرح انسان کے پاس دیکھنے کے لئے آنکھ کا ریسورس میسر ہے اسی طرح اس کے پاس انتخاب کا ریسورس و ذریعہ (آزادی) بھی میسر ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس صلاحیت کے ذریعے کفر اختیار کرنا انسان کا حق ہے، ہرگز بھی نہیں۔ حق کا تعین صلاحیت کے میسر ہونے سے نہیں بلکہ اس کو استعمال میں لانے کے سوال سے ہوتا ہے۔ انسان کا حق وہ ہے جسے خدا نے اس کے لئے مشروع کیا اور وہ اس سے راضی ہوا۔

یاد رکھنا چاہئے کہ باطل اختیار کرنے کی اجازت کبھی “حق” کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی حیثیت محض ایک “وقتی مہلت” یا “اضافی مراعت” (privilege) کی سی ہوتی ہے۔ خدا کے بنائی ہوئے اس دارالامتحان میں انسانوں کو کفر کا “اختیار” دینے کا یہی معاملہ ہے، یہ کوئی “حق” نہیں۔ اس دنیا میں کوئی ایک بیوقوف بھی ایسا نہیں کہ جسے وہ قطعی طور پر “باطل” کہتا ہو پھر اسے کسی کا “حق” بھی قرار دے، چہ جائیکہ خدا سے اس کی امید رکھی جائے۔ اس رویے کی امید صرف کسی ایسے ہی شخص سے رکھی جاسکتی ہے جسے اپنے بیان کردہ حق پر کوئی شک ہو یا وہ حق ہی کو اضافی معاملہ سمجھتا ہو۔ تو کیا خدا کو اپنے حق ہونے پر کوئی شک تھا اور یا وہ اپنی بات کے سواء کسی دوسرے معاملے کو بھی حق سمجھتا تھا کہ اپنی بات کے “کفر کا حق” دے کر ایمان و کفر کو مساوی سطح پر ایک ہی لڑی میں پرو دیا؟ کچھ تو عقل کی بات کرو۔ جو ہے ہی “باطل” اس کے “حق” ہونے کا کیا مطلب بھائی؟ یہ تو contradiction in term ہے۔ انسان کو “حق” اسی امر کا ہے جو “حق” ہے، ہاں اگر کہیں حق ہونا واضح ہی نہیں تو پھر بات الگ ہے۔ مگر خدا کے لئے اس امکان کا کیا مطلب؟ کیا اس پر بھی حق کا کچھ اخفا تھا کہ وہ “کفر کا حق” دیتا رہا؟ خدا کی نظر میں کفر جس قدر قبیح امر ہے اگر دنیا کو دارالامتحان بنانا مقصود نہ ہوتا تو لازم تھا کہ خدا بندوں کو زبردستی (by default) اسی طرح ایمان والا بنا دیتا جیسے دیگر مخلوقات کو اپنے ارادے کا پابند بنایا۔ تو جناب خدا کی طرف سے کفر کا اختیار محض ایک وقتی privilege و مہلت نما چیز ہے، یہ کسی کا کوئی “حق” نہیں۔ “حق” یہ ہے کہ کفر اختیار کرنے کی اس صلاحیت سے دستبردار ہوکر اس کی بات پر ایمان لایا جائے۔

ڈاکٹر زاہد مغل