شبہ نمبر 3: سزا کا بنیادی مقصد مجرم کی اصلاح ھوتا ھے، چونکہ آخرت کی طویل اور لامحدود سزا میں یہ عنصر موجود نہیں لہذا یہ سزا غیر عقلی اور غیر عادلانہ ھے۔
تبصرہ:
معترضین نے یہاں جرم اور اسکی سزا کا بنیادی تعلق قائم کرنے کے سلسلے میں نہایت بنیادی نوعیت کی ٹھوکر کھائی ھے جسکی وجہ یہ ھے کہ انہوں نے دو مختلف دنیا یعنی لائف ورلڈز (state of the worlds) کے معاملات و احکامات کو آپس میں خلط ملط کردیا ھے۔
اصولی بات یہ ھے کہ جرم اور سزا کے درمیان بنیادی تعلق ”عمل اور اسکی جزا” (یعنی اسکے ”نتیجے”) کا ھوتا ھے، اصلاح یا عبرت (setting an example) وغیرہ کا نہیں، اس قسم کے پہلو اضافی (relative) حیثیت رکھتے ہیں۔ ان اضافی جہات کا تصور پیشگی طور پر ایک ایسی لائف ورلڈ کو فرض کرتا ھے جہاں فرد کو اپنے جرم کی جزا کے علاوہ مزید عمل کرنے کا موقع دینا موجود ومقصود ھو یا پھر دیگر افراد کو اس سزا سے سیکھ کر خود کو سدھارنے کا موقع دینا موجود ومقصود ھو۔ ظاہر ھے ایک ایسی لائف ورلڈ جہاں یہ دونوں پہلو سرے سے موجود یا مقصود ہی نہ ھوں وہاں سزا کو اصلاح و عبرت وغیرہ کے تناظر میں دیکھنا بذات خود ایک غیر عقلی اور غیر متصور بات بن جاتی ھے۔
اس بات کو ایک آسان مثال سے سمجھا جاسکتا ھے۔ ایک ایسے جہان کا تصور کریں جہاں صرف دو لائف ورلڈ ہیں، ایک دارالعمل (جہاں آپ عمل کررھے ہیں)، دوسری دارالجزا (جہاں اعمال کے ”نتیجے” نکل رھے ہیں)، چنانچہ اس دوسری لائف ورلڈ کے بارے اگر کوئ شخص یہ کہے کہ سزا کا تعین اصلاح کیلئے ھونا چاھئے تو اسکا جواب صرف یہی ہوگا کہ اس لائف ورلڈ کے اندر یہ ایک غیر متعلقہ بات ھے، یہاں صرف نتیجہ نکلے گا۔ پس آخرت کی سزا کو اصلاح وغیرہ کے اضافی پہلووں پر جانچنا ایک ایسی ہی غیر متعلقہ بات ھے کیونکہ وہ دارالجزا ھے۔ مجرم کی اصلاح وغیرہ دارالعمل سے متعلق تصورات ہیں جو دارالجزاء میں متصور نہیں ہوسکتے۔ دوسرے لفظوں میں آخرت کے دن جرم اور سزا کے تعلق کا ظہور تمام اضافی امور سے علی الرغم اپنی اصل شکل (pure form)، یعنی عمل اور اسکےنتیجے کی صورت، میں ھوگا۔ پس اس پر یہ اعتراض بے معنی ہے۔