دنیا کی قلیل سی زندگی میں کفروجرم اوربدلے میں اتنی طویل سزا ؟

خدا، روز آخرت، حساب کتاب وغیرہ کے حوالے سے ملحدین بعض شبے ظاہر کرتے اور کمال مہارت سے ایسے سوالات اٹھاتے ہیں جن سے تشکیک پیدا ہو، ایسے ہی چند شبہات اورتشکیک آمیز سوالات کے معقول جوابات پیش کیے جا رہے ہیں۔

شبہ نمبر1: یہ کیا بات ہوئی کہ انسان دنیا کی قلیل سی زندگی میں کفر و جرم کرے اور بدلے میں آخرت کی انتہائی طویل سزا پائے، یہ کیسا عدل ہے؟

تبصرہ:

یہاں معترضین کا مفروضہ یہ ھے کہ ‘عادلانہ سزا کے تعین کیلئے ضروری ھے کہ جرم میں صرف ھونے والے وقت اور سزا کے وقت میں راست تناست قائم ھونا چاھئے’۔ مگر ظاھر ھے یہ مفروضہ لغو ھے کیونکہ ایسی وقتی نسبت قائم کرنا نہ صرف یہ کہ سرے سے عقل اور عدل کے خلاف ھے بلکہ مضحکہ خیز نتائج کا باعث بھی بنتا ھے۔مثلا

چور چند لمحوں میں چوری کرتا ھے مگر اس عمل کیلئے ساری دنیا اسے سالہا سال تک کی سزا دیتی ھے، کیوں؟

راشی چند لمحوں میں رشوت لیتا ہے مگر سالہا سال کیلئے جیل کی نظر کر دیا جاتا ھے، کیوں؟

ایک طالب علم چند لمحوں میں استادکو گالیاں دیتا ھے مگر نتیجتا اسے ہمیشہ کیلئے یونیورسٹی سے نکال باہر کیا جاتا ھے، کیوں؟

امریکہ نے ایٹم بم کے ذریعے بہت قلیل وقت میں جتنے انسانوں کا قتل کیا چنگیز خان نے اس سے بہت زیادہ وقت لگا کر اس سے کم انسان قتل کئے، تو کیا چنگیز خان زیادہ وقت لگانے کی وجہ سے زیادہ بڑا مجرم اور زیادہ سزا کا مستحق ھونا چاہئے؟

قتل کرنے میں صرف ھونے والا وقت چوری میں صرف شدہ وقت سے کم ھوتا ھے مگر قاتل کی سزا چور سے زیادہ ھوتی ھے، کیوں؟

اس پر بہت سی مثالیں قیاس کی جا سکتی ہیں۔ پس مذہبی تصور سزا پر اعتراض کرنے والے لوگ جو جواب ان مثالوں کیلئے دینگے وھی اھل مذہب کی طرف سے بھی فرض کرلیا جائے۔

درحقیقت جرم اور سزا کا تعلق وقتی نسبت سے نہیں بلکہ جرم کے اثرات، ان اثرات کی اہمیت، اس میں صرف ھونے والی صلاحیتوں، مجرم کی نیت و احوال کی نسبت سے قائم ھوتا ھے، اسے وقتی نسبت کے تناظر میں دیکھنا کم عقلی کے سوا کچھ نہیں۔ چنانچہ کافر اس دنیا میں خدا کی ان گنت نعمتوں اور صلاحیتوں سے محظوظ ھوتا ھے مگر اپنے رب کا انکار کرکے آخری درجے میں انکی ناشکری اور غلط استعمال کرتا ھے، وہ اپنی اس ناشکری اور صلاحیتوں کے غلط استعمال سے نجانے دیگر کتنے انسانوں کیلئے ایسی لاتعداد ناشکریوں و بغاوتوں کا باعث بنتا ھے، وہ اپنے اندر یہ جذبہ موجزن پا کر اس دنیا سے رخصت ھوتا ھے کہ اگر مجھے ہمیشہ کی زندگی بھی مل جائے تو بھی اس ناشکری و بغاوت کی روش پر قائم رھوں گا ۔۔۔۔۔۔لہذا وہ سزا وار ھے اس بات کا کہ اسکا رب اسے اس سب کی ان گنت سزا دے دے (ہاں وہ چاھے تو کسی عذر کی بنا پر اپنے فضل سے اسے کم بھی کرسکتا ھے)۔