کیاجنت میں جانے کیلئے محمدﷺ پر ایمان ضروری نہیں؟ (اشکال آیت سورۃ البقرہ)

’گلوبلائزیشن‘ کے جلو میں ایک تحریک جو چپکے قدموں سے عالمی سرزمین پر پیش قدمی کرتی آرہی ہے، وہ ہے ’وحدتِ ادیان‘ جو اپنے یہاں باقاعدہ اب دستک دینے لگی ہے ۔ اس نئے مہمان __ وحدتِ اَدیان __ کی سب سے پہلی فرمائش یہ ہے کہ مسلمانوں کی لغت سے ’کافر‘ ایسا خوفناک لفظ نکال دیا جائے۔ وہ سب اَفکار، وہ سب اَدیان اور وہ سب عقائد جو دینِ اسلام سے متصادم ہیں اب باقی زمانے کیلئے ’کفر‘ کہلانے سے مستثنیٰ کر دیے جائیں!

یہ ایک عجیب بات ہے کہ جو تصویر یہ ’عالمی ثقافتی مہم‘ اِس عالمِ نو کی بنانا چاہ رہی ہیے، ہمارے یہاں پایا جانے والا ارجائی فکر کمال انداز سے اس ’تصویر‘ کو مکمل کرتا ہے! اصولِ ارجاءاسی لئے تو ہیں کہ ایمان اور کفر کے مابین جو ایک حدِ فاصل ہے اُس کو زیادہ سے زیادہ غیر مرئی بنا دیا جائے!’کافر‘ کا لفظ آج دنیا کی کسی بھی قوم اور کسی بھی گروہ کیلئے ’معیوب‘ ہے، خواہ وہ بت پرست کیوں نہ ہو، شیطان پرست (devil worshiper) کیوں نہ ہو، آگ کا پجاری کیوں نہ ہو، حتیٰ کہ شرمگاہوں کے مجسمے بنا کر ان کو پوجنے کا مذہب کیوں نہ رکھتا ہو۔۔ کسی کو ’کافر‘ نہ کہا جائے، ہر ایک کا اپنا اپنا ’نکتہء نظر‘ ہے اور ’گلوبلائزیشن‘ کی نظر میں یکساں طور پر ’لائقِ احترام‘!’گلوبلائزیشن‘ کو ہمارے یہاں اِس کے سوا اور کیا چاہیے؟! یہ اُس کے لئے نعمت، وہ اِس کے لئے غنیمت!اِن دونوں میں کیا خوب نبھ رہی ہے!

ڈاکٹر رتھ فاو کی وفات کے بعد بھی جو بحث شروع ہوئی اس میں بھی بڑے زور دار انداز میں اس فکر کو پیش کیا گیا اور اس کے لیے قرآن کی ایک آیت کا بھی سہارا لیا گیا ۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾ (سورة البقرة: الآية 62)

ترجمہ :بیشک جو لوگ ایمان لاچکے ہیں اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاری اور صابی (غرض) جو کوئی بھی اللہ اور آخرت پر ایمان لے آئےاور نیک عمل کرےسو ان (سب) کے لیے ان کے پروردگار کے پاس ان کا اجر ہے اور نہ کوئی اندیشہ ان کے لیے ہے اور نہ وہ کوئی غم کریں گے. (سورۃ البقرہ ، آیت 62)

سورہ البقرہ کی اس آیت سے جدت پسند اور انکی دیکھا دیکھی کچھ کم علم لوگ یہ استدلال کرتے نظر آرہے ہیں کہ یہود و نصاری بھی جنت میں جائیں گے ۔ حالانکہ اسی سورت میں جابجا یہود و نصاری کو دعوت اسلام اور قرآن اور صاحب کے انکار پر انہیں وعیدیں سنائ گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس آیت سے یہی مراد تھی جو انہوں نے نکالی تو اس سے پہلے اور بعد میں یہود کو اسلام لانے کی دعوت دینی کی ضرورت کیا تھی؟ سورۃ البقرہ میں جو نصاری کے ساتھ حضورﷺ کے مناظروں اور مباہلوں کے چیلنجز کا ذکر ہے انکا مقصد کیا ہے؟۔ اسی طرح قرآن کی بیسوں آیات یہود و نصاری کی کفر اور اسلام میں ہی نجات بتارہی ہیں وہ کس لیے ہیں ؟ مثلا

٭وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ۔۔(سورۃ آل عمران، آیت 85

ترجمہ :اور جو اختیار کرنا چاہے اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا یہ اس سے، اور وہ (ہوگا) آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے)

٭إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الْإِسْلاَمُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللّهِ فَإِنَّ اللّهِ سَرِيعُ الْحِسَابِ۔(ٍ19) فَاِنْ حَاۗجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلّٰهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ۭ وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ 20؀ۧ (سورۃ آل عمران آیت 19،20)

ترجمہ :دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے اور اہل کتاب نے جو (اس دین سے) اختلاف کیا تو علم ہونے کے بعد آپس کی ضد سے کیا اور جو شخص اللہ کی آیتوں کو نہ مانے تو اللہ جلد حساب لینے والا (اور سزا دینے والا) ہے۔ پھر بھی اگر یہ تم سے جھگڑیں تو کہہ دو کہ : میں نے تو اپنا رخ اللہ کی طرف کرلیا ہے اور جنہوں نے میری اتباع کی ہے انہوں نے بھی، اور اہل کتاب سے اور (عرب کے) ان پڑھ ( مشرکین) سے کہہ دو کہ کیا تم بھی اسلام لاتے ہو ؟ پھر اگر وہ اسلام لے آئیں تو ہدایت پاجائیں گے، اور اگر انہوں نے منہ موڑا تو تمہاری ذمہ داری صرف پیغام پہنچانے کی حد تک ہے اور اللہ تمام بندوں کو خود دیکھ رہا ہے۔

یہود و نصاری اور باقی مشرکین کے متعلق ایک واضح اور فیصلہ کن قرآنی بیان پڑھیے:

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ Č۝ۭ

جو لوگ اہل کتاب اور مشرکوں سے کافر ہوئے وہ آتش دوزخ میں جائیں گے جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ لوگ بدترین خلائق ہیں(سورۃ البینہ آیت 6)

سوال یہ ہے کہ جب آپ کے نزدیک محمدﷺ کی بعثت ہوجانے اور آپﷺ کا سن لینے کے بعد بھی ایک یہودی اور عیسائی کو ’’خدا‘‘ اور کسی ’’اگلے جہان‘‘ کو مان رکھنا اور ’’بھلے کام‘‘ کر لینا نجات کےلیے بہت کافی ہے (از روئے آیت البقرۃ!!!) یعنی محمدﷺ پر ایمان لائے بغیر بھی اُس کی جنت کھری ہے تو پھر محمدﷺ کو نہ ماننے پر (سورۃالبینۃ وغیرہ ایسے قرآنی مقامات پر) قرآن انہیں جہنم کی وعیدیں کیوں سنا رہا ہے؟اب یا تو آپ قرآن کی ان باقی آیات کی تکذیب یا تاویل کریں یا ان قرآنی محکمات کو مانتے ہوئے آیت البقرۃ سے نکالے جانے اس متشابہ کو انہی محکمات کی طرف لوٹائیں ۔

سلامتی اسی میں ہے کہ دین کے بنیادی امور (عقیدہ وغیرہ ایسے امہات المسائل) کی بابت مدرسۂ صحابہ سلف صالحین کے طریقے پر رہا جائے اور فہمِ نصوص میں ان کے راستے سے ہٹ کر کوئی نئی اپج اختیار کرنے سے بچئےاورمتشابہات میں کی طرف رجوع کیجیے۔

جب ہم تفاسیر سلف کی طرف رجوع کرتے ہیں تو نظر آتا ہے اس آیت کا سیاق وسباق یہ ہے کہ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور ان کی نافرمانیوں کے تذکرے کے بیچ میں یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے ایک باطل گھمنڈ کی تردید کے لئے آئی ہے، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف انہی کی نسل اللہ کے منتخب اور لاڈلے بندوں پر مشتمل ہے، ان کے خاندان سے باہر کا کوئی آدمی اللہ کے انعامات کا مستحق نہیں ہے، (آج بھی یہودیوں کا یہی عقیدہ ہے) اس آیت نے واضح فرمایا کہ حق کسی نسل میں محدود نہیں ہے، اصل اہمیت ایمان اور نیک عمل کو حاصل ہے، جو شخص بھی اللہ اور آخرت پر ایمان لانے اور عمل صالح کی بنیادی شرطیں پوری کردے گا خواہ وہ پہلے کسی بھی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتا ہو اللہ کے نزدیک اجر کا مستحق ہوگا، یہودیوں اور نصرانیوں کے علاوہ عرب میں کچھ ستارہ پرست لوگ رہتے تھے جنہیں صابی کہا جاتا تھا اس لئے ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

اسی طرح حضور ﷺ کی نبوت کے بعد ان پر ایمان لانے والے ہوں یا یہود عیسائی اور صابی جو محمد ﷺ کی نبوت سے پہلے موجود تھے ‘ جو بھی ایمان لایا اور اعمال صالحہ کیے’ آنے والی زندگی میں اپنے اعمال اور ایمان کی جزا پائے گا۔ چنانچہ ابن کثیر ، ابن ابی حاتم کے حوالے سے روایت کرتے ہیں:سلمان فارسی ؓ نے فرمایا، یہ آیت تب نازل ہوئی جب میں نے ان لوگوں کی نماز اور روزے کا ذکر کیا جن سے میں محمدؐ سے ملاقات سے پہلے ملا تھا۔۔(تفسیر ابن کثیر سور ۃ البقرہ آیت 62)

سلسلہء عبارت کو پیش نظر رکھنے سے بھی یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں ایمان اور اعمال صالحہ کی تفصیلات بیان کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ یہودیوں کے اس زعم باطل کی تردید مقصود ہے کہ وہ صرف یہودی گروہ کو نجات کا اجارہ دار سمجھتے تھے۔ اگر تفصیل میں بھی جائیں تو اسی آیت میں ایمان بااللہ کی شرط کسی شبے سے بچانے کے لیے کافی ہے کیونکہ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو وحدہ لا شریک، یکتا اور بےمثل مانا جائے اور اس کے تمام احکام کی تعمیل کی جائے لہذا یہ جملہایمان بالرسل ایمان بالکتب، ایمان بالملئکۃ وغیرہ سب کو شامل ہے۔ کوئی پیغمبروں، فرشتوں اور آسمانی کتابوں پر ایمان لائے بغیر اللہ اور آخرت کے دن پر کیسے ایمان لا سکتا ہے۔؟


٭داعیان وحدت ادیان سے چند موٹے موٹے سوالات :۔

سورہ بقرہ کی آیت 62 سے جو ماڈرنسٹ ”مفکر، سکالر اور دانشور” لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جنت میں صرف مسلمان نہیں جائیں گے بلکہ یہود، نصاری، صابئین سب جنت میں جائیں گے، بشرطکیہ وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھیں اور نیک کام کریں۔ ان لوگوں کے دعوے کا مقصد یہ ھوتا ھے کہ حصول جنت کیلئے رسالت محمدی ؐ پر ایمان لانا ضروری بات نہیں اور کچھ یہ نتیجہ نکال لاتے ہیں کہ تمام مذاھب بس ایک ہی ہیں، صرف ناموں کا فرق ھے۔ اس آیت قرآنی سے یہ نتیجہ نکالنے میں یہ لوگ کس طرح تلبیس کے مرتکب ھوتے ہیں اسکا اوپر تذکرہ آیا ۔ ان لوگوں سے چند موٹے موٹے سوالات ہیں کہ:

1۔ یہ لوگ پھر عیسائی یا یہودی کیوں نہیں ھوجاتے؟ آخر جنت تو انہیں بھی ویسے ہی ملنے والی ھے جیسے مسلمان کو، تو پھر خود کو مسلمان کہلوانے کی کیا ضرورت پڑی ھے؟ اگر رسالت محمدی پر ایمان لانا اضافی شے ھے تو اس پر ایمان لاؤ نہ لاؤ، اقرار کرو نہ کرو اس سے کیا فرق پڑتا ھے؟ تو یہ لوگ اسکا انکار کرکے خود بھی اور اپنی آل اولاد کو بھی یہودوعیسائی کیوں نہیں بنادیتے؟

2۔ دیگر اھل مذاھب کو اسلام کی دعوت دینے کا کیا مطلب؟ دیکھئے دعوت کی بنیاد یہی ھے نا کہ وہ غلط ھیں اور جنت کا حقدار بننے کیلئے ضروری ھے کہ درست بات پر ایمان لائیں، مگر جب وہ لوگ اپنے پہلے ایمان ہی کی بنیاد پر جنت کے حقدار قرار پا چکے تو انہیں ایمان کی دعوت و تبلیغ کا کیا مطلب؟ بس اچھی باتوں کی نصیحت وغیرہ ھونی چاھئے۔

3۔ پھر اگر یہ سب لوگ ایسے ہی جنت کے حقدار تھے اور رسالت محمدی پر ایمان بس ایک اضافی شے تھی، تو اللہ نے سورہ بقرہ اور آلعمران میں یہودونصاری سے اتنی طویل گفتگو کس لئے کی؟ انہیں کس بات پر ایمان لانے کی دعوت دی جارہی تھی؟