خدا نے ہمیں پیدا ہی کیوں کیا؟ ہمارا امتحان لینے کا کیا مقصد؟

شبہ نمبر5: خدا نے ہمیں پیدا ہی کیوں کیا؟ ہمارا امتحان لینے کا کیا مقصد؟

تبصرہ:

یہ سوال صفت اور اسکے اظہار کے مابین ناگزیر بیانیہ تعلق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ صفت اور اسکے اظہار کے بارے میں ‘کیوں’ کا سوال ہی غیر متعلقہ ھوتا ھے کیونکہ انکے درمیان تعلق ”وجہ” کا نہیں بلکہ ”ہے” (to be) کا ہوتا ہے، یعنی صفت کا اظہار ہی صفت کی تعریف (یعنی ڈسکرپشن) ہوتی ہے۔ مثلا سماعت کا معنی ھے سنائی دینا، یعنی سنائی دینے کا عمل صفت سماعت کا اظہار یا اسکی تعریف ھے اور اس اظہار سے علی الرغم اسکا کوئی معنی نہیں۔

چنانچہ خدا کی ایک صفت ‘خالق’ ھونا ھے، پس مخلوق کا ھونا خدا کی صفت خلاقیت کا ‘اظہار’ ھے، یہاں وجہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سوال ایسا ہی ھے جیسے کوئی کہے کہ صفت بینائی سے دکھائی کیوں دیتا ھے یا صفت سماعت سے سنائی کیوں دیتا ھے۔ ظاھر ھے یہ سوال ھی غلط ھے کیوں کہ دکھائی دینے اور بینائی کے درمیان تعلق صفت اور اسکے اظہار کا ھے، یعنی دکھائی دینا صفت بینائی کی تعریف ھے اس پر “مقصد” کا سوال غیر متعلق ھے۔ بالکل اسی طرح خدا کی مخلوق کا ھونا خدا کے خالق ھونے کا اظہار ھے، یہاں اصولا “کیوں” کا سوال ہی پیدا نہیں ھوتا۔

اب رہ گیا یہ سوال کہ خدا امتحان کیوں لے رہا ہے، تو اسکا جواب بھی یہی ہے کہ خدا کی صفات ‘حق’ و “عادل” ہونا بھی ہیں، پس حق و باطل کا معرکہ اسی صفت “حق” اور جزا و سزا کا نظام صفت “عادل” کا اظہار ہے، لہذایہاں بھی کیوں کا سوال بے محل ھے۔

شبہ نمبر: آپ کے بقول کائنات کو پیدا کرکے خدا نے اپنی صفت خلاقیت کا اظہار کیا نیز ایسا کرنے سے قبل بھی خدا “صفت خلق” سے متصف تھا، تو آخر اپنی ان صفات کے اظھار کا مقصد کیا تھا؟ ان صفات کا اظہار کرنے کی کیا وجہ پیش آگئی تھی؟

تبصرہ:

پہلے واضح کیا گیا کہ صفت کے اظہار پر ‘کیوں’ کا سوال پیدا نہیں ھوتا۔ گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل اھل مذھب کا یہ اصولی مقدمہ یاد رکھنا چاھئے کہ خدا کو بس اسی حد تک پہچانا جاسکتا ھے جس قدر خود اس نے اپنے نبی کے ذریعے اپنا اظہار کیا، اس سے زیادہ عقل کے سامنے کوئی سوال رکھنا عقل پر ایسا بوجھ ڈالنا ھے جسکی وہ متحمل نہیں ھوسکتی۔ چنانچہ خدا نے بتایا کہ میں ‘خالق’ ھوں تو ہمیں پتہ چلا کہ کسی مخلوق کا ھونا اس صفت کا اظہار ھے۔

اب یہ سوال کہ صفات بالقوہ کو بالفعل میں ‘کس سبب و مقصد سے’ تبدیل کیا گیا؟ جب ہم انسان “مقصد” کا سوال اٹھاتے ھیں تو وہ “ذات سے بیرون” کسی شے کی جستجو کا تصور ھوتا ھے۔ اب خدا سے یہ توقع رکھنا کہ “اس سے الگ” کوئی مقصد ھوگا جسکی وہ جستجو کرے گا یہ خدا کی صفت صمدیت (self-determined and contained) کے تناظر میں خود سے ایک تضاد ہے، یعنی خدا کے کسی عمل کا کوئی “بیرونی مقصد” نھیں ھوسکتا کہ جسکے حصول کا خدا یا اسکا عمل گویا ذریعہ بنے۔ اب لامحالہ یہ مقصد کا سوال “خدا کے اندرون” سے متعلق ھی ھوسکتا ھے اور اس اندرون کو ھم اسی قدر جان سکتے ہیں جس قدر وہ اپنی شان کے مطابق ظاھر کرے۔ خدا کے اندرون سے متعلق ھم صرف اسقدر ہی جانتے ہیں کہ اس نے اپنا تعارف “فعال للما یرید” (جو چاھتا ھے کرگزرتا ھے) سے کروایا ہے۔ تو گویا یوں سمجھئے کہ “یوں عدم کو وجود بخشنا بھی” اسکی “صفت ارادہ” ہی کا اظھار ھے۔ اس کے علاوہ ھم کوئی دوسری بات قطعیت کے ساتھ خدا کے اندرون کے بارے میں نھیں جانتے۔ اب اس صفت کے اظہار پر بھی اصولا ‘کیوں’ کا سوال پیدا نہیں ھوتا۔

یہاں یہ اھم بات بھی ذھن نشیں رھنا چاھئے کہ خدا کی ذات کے حوالے سے اس قسم کے بھت سے سوالات اسکی صفات کو الگ الگ تصور کرنے سے بھی پیدا ھوتے ہیں۔ اھل مذھب کے یہاں خدا فعال للما یرید، خالق، عادل، علیم، حکیم وغیرھم سب “ایک ساتھ” ہے۔ چنانچہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ “خدا اپنے ارادے سے اپنی صفات کا (اپنی شان کے مطابق) پرحکمت اظھار کرتا ھے۔”

اس مقام پر اگر کوئی کہے کہ خدا کی یہ صفات کیوں ہیں تو یہ بھی غیر متعلق سوال ھوگا کیونکہ ”خدا تو یوں ھے” (یعنی یہ اسکی ڈسکرپشن ھے)۔ ‘کیوں’ کا سوال مقصد کو فرض کرتا ھے، ایک ایسی چیز جو اس وجود سے کہیں باھر ھوتی ھے اور وہ وجود اس مقصد کی تکمیل کا ذریعہ ھوا کرتا ھے۔ اب خدا کی صفات پر یہ سوال اٹھانا کہ ‘خدا ایسا کیوں ھے’ فرض کررھا ھے کہ خدا “قائم بالذات” نہیں بلکہ اپنے سے بالاتر یا ماوراء کسی مقصد کا ذریعہ ھے۔ ظاھر ھے خدا کے حوالے سے یہ سوال اٹھانا اسکی ”صمدیت” کا انکار ھے۔ پس خدا کے حوالے سے یہ سوال ہی غیر متعلق و غیر عقلی ھے۔

یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہئے کہ ہر وجود سے متعلق بہت سے سوالات غیر متعلق ھوتے ہیں اور بہت سے متعلق۔ مثلا اگر میں اپنا چشمہ اپنے کمرے میں رکھ کر جاؤں اور جب واپس آؤں تو وہ کمرے کے بجائے باھر ٹیرس پر ھو تو اس پر ذھن میں سوال آئے گا کہ ‘چشمہ باھر کیسے چلا گیا’؟ اب فرض کریں چشمے کے بجائے میرا ایک دوست کمرے میں بیٹھا تھا اور میرے واپس آنے پر وہ ٹیرس میں کھڑا تھا۔ کیا اب میرے ذہن میں ”کیسے” کا سوال پیدا ھوگا؟ نہیں، کیونکہ انسان کی ڈسپکرپشن یہ ھے کہ وہ ”متحرک بالارادہ” ھوتا ھے لیکن چشمہ نہیں۔ تو جو سوال چشمے کے تناظر میں عین عقلی تھا انسان کیلئے (اسکی صفت ‘متحرک بالارادہ’ کے سبب) غیر متعلق ھوگیا۔ پس یہی معاملہ خدا کا بھی ھے کہ اس کی ذات پر بہت سے سوالات بذات خود غیر متعلق ہیں جیسے یہ کہ ‘خدا ایسا کیوں ھے’ کیونکہ وہ الصمد (قائم بالذات ھستی) ھے، ایسی ھستی جو اپنے ھونے کا جواز خود اپنے اندر رکھتی ھے۔، چنانچہ خدا کی صفات پر ‘کیوں’ کا سوال اٹھانے کا مطلب ہی یہ ھے کہ ھم خدا کے الصمد ھونے سے سہو نظر کرلیں۔ پس خدا کی مقصدیت کی تلاش خدا کی صمدیت کا انکار اور اسے اپنے جیسی محتاج مخلوقات پر قیاس کرنا ہے۔