علت ومعلول(خداکی علت)کےموضوع پرملحدین کیساتھ مکالمہ[2]

علت و ماخذ میں فرق، استقرائی منطق اور کائنات میں تنزل

یہ مباحثہ ایاز نظامی کی وال سے شروع ہوا تھا۔ اب یہاں پر عزازی نے اسی مباحثے کے تسلسل کو اپنے وال پر شروع کیا حالانکہ میں نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا۔ذیشان وڑائچ

اعزازی

یہ پوسٹ ایاز نظامی صاحب کی پوسٹ پر ذیشان وڑائچ صاحب سے جاری گفتگو کا نتیجہ ہے جس میں ایاز نظامی صاحب نے خدا کے نہ ہونے پر منطقی دلائل دے تھے – ذیشان وڑائچ صاحب سے جاری گفتگو مختلف مراحل طے کرتے ہوے اس نکتے پر پنہچ گیی ہے کہ چونکہ تسلسل باطل ہے اسی لیے خدا کو علت اولی کے حوالے سے جانا جاتا ہے – میرے محترم مذہبی دوست نے سوال اٹھایا ہے کہ علت اور معلول ایک نہیں ہو سکتے لہٰذا اگر کائنات کو معلوم مانا جاے جو کہ ہے (انکے بقول ) تو علت اولی کے طور پر خدا کا وجود ثابت ہوتا ہے – چونکہ ذیشان صاحب کی بھی یہی خواہش تھی کہ میں اپنے نقطۂ نظر کو علیحدہ مضمون کی شکل میں پیش کروں اور میں نے بھی یہی مناسب سمجھا ہے کہ اس علت و معلول اور علت اولی کے پرانے اور بوسیدہ فلسفے میں موجود خامیوں اور غلطیوں کی ایک علیحدہ پوسٹ میں نشاندھی کروں –

**** جب فلاسفہ علت و معلول پر بحث کرتے ہوے نتیجہ اخذ کرتے ہیں تو وہ یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ کائنات میں کوئی بھی چیز خود بخود پیدا نہیں ہو سکتی – کوئی نہ کوئی ضرور ہے جو اسکو پیدا کرتا ہے اور وہی اسکی علت ہے اور اگر اس کائنات کو بحثیت مجموعی معلول مانا جاے تو اس علت علت اولی ہے جو کہ خدا ہے –

اب میں فلاسفہ کے اس نظریے اور اس نظریے سے اخذ کردہ نتائج میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرتا ہوں –

**** جب مذہبی فلاسفہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی چیز خود بخود نہیں پیدا ہو سکتی تو یہ جملہ بذات خود ایک غلط جملہ ہے – میں مذہبی لوگوں سے پیدا ہونے کی تعریف پوچھتا ہوں کہ وہ مجھے کوئی مثال دے کر سمجھائیں کہ کائنات میں کونسی چیز پیدا ہو رہی ہے ؟ اور کیا خدا نے اسکو اس طریقے سے پیدا کیا جیسے وہ کائنات میں پیدا ہورہی ہیں ؟

میرا استدلال یہ ہے کہ کائنات میں کوئی چیز نہیں پیدا ہو رہی ، صرف تغیر رونما ہو رہا ہے – اشیاء اپنی ہیت تبدیل کر رہی ہے اور بس – سو یہ کہنا کہ کائنات میں چیزیں پیدا ہو رہی ہیں ایک غلط ا لعام جملہ ہے –

میں ایک مثال کے ذریعے ان سے گفتگو شروع کرتا ہوں کہ آگ بغیر علت کے معرض وجود میں آیی یا اسکی کوئی علت ہے ؟ ممکنہ طور پر اسکے دو جواب ہو سکتے ہیں – پہلا یہ کہ آگ بغیر کسی علت کے پیدا ہوئی (جو کہ مذہبی نہیں مانتے ) اور دوسرا یہ کہ آگ کی علت ہے اور وہ لکڑی ہے – اب اس آگ اور لکڑی کی مثال سے یا علت و معلول کی کسی بھی دوسری مثال سے درج ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں –

1 – پہلا یہ کہ آگ عدم سے وجود میں نہیں آیی بلکہ وہ پہلے سے ہی مادے کی ایک دوسری شکل میں موجود تھی – سو اگر مذہبی لوگ خدا کو (اگر کوئی ہے تو ) اس کائنات کی علت مانتے ہیں تو انھیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدا کائنات کو عدم سے وجود میں نہیں لایا بلکہ کائنات کسی اور شکل میں پہلے ہی موجود تھی اور خدا نے اسکی صرف ہیت کو تبدیل کیا – اس صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس چیز کی علت کیا ہے ؟ اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے کہیں رکتا نہیں اور مذہبی فلاسفہ کا یہ ماننا کہ تسلسل باطل ہے غلط ثابت ہو جاتا ہے –

2 – دوسرا نتیجہ اس مثال سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ علت اپنے معلول کو معرض وجود میں لانے کے بعد ختم ہو جاتی ہے (اپنی شکل تبدیل کر لیتی ہے ) جیسا کہ لکڑی آگ پیدا کرنے کے بعد ختم ہو کر کوئلے کی شکل اختیار کر لیتی ہے – سو اگر مذہبی لوگ خدا کو ثابت کرنے کے لیے علت و معلول کے فلسفہ کی مدد لیتے ہیں تو پھر انھیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر خدا اس کائنات کی علت ہے تو وہ کائنات کو پیدا کرنے کے بعد خود ختم ہو گیا اور کوئی نیی شکل اختیار کر لی – اور یہ فنا ہونے کی تعریف میں آتا ہے اور مذہبی تعریف کے مطابق خدا فنا نہیں ہو سکتا –

3 – تیسرا نتیجہ اس مثال سے یہ نکلتا ہے کہ ہر چیز بالذات علت بھی ہے اور معلول بھی – یعنی لکڑی اگر آگ کی علت ہے تو وہ مٹی ، پانی اور دیگر معدینات کا معلول بھی ہے کیونکہ لکڑی بذات خود مٹی ، پانی اور دیگر معدینات سے پیدا ہوئی ہے – اور اسی طرح آگ اگر ایک وقت میں معلول ہے تو وہ علت بھی ہے کیونکہ وہ توانائی اور حرارت پیدا کرتی ہے –

4 – چوتھا نتیجہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ ہر علت معلول میں تبدیل ہو جاتی ہے جیسا کہ لکڑی آگ میں تبدیل ہو گی سو چونکہ کسی بھی چیز کو دوام نہیں سو تسلسل لازم ہے – اور اگر تسلسل لازم ہے تو اگر یہ بھی تصور کر لیا جاے کہ کوئی خدا اس کائنات کی علت ہے تو قانون کے مطابق وہ خود بھی معلول ہوگا اور کوئی نہ کوئی اسکی بھی علت ہوگی – اور اگر خدا کی بھی کوئی علت ہے تو وہ اس مذہبی خدا کی تعریف پر پورا نہیں اترتا جو مذہبی فلاسفہ بیان کرتے ہیں –

درج بالا مثال سے اگر منطقی استخراج کیا جاے تو ثابت ہوتا ہے کہ مادہ ہی اصل میں سب کچھ ہے – وہ خود ہی اپنی علت ہے اور خود ہی اپنا معلول – اسکو کسی نے تخلیق یا پیدا نہیں کیا ،،، کم از کم اس خدا نے تو ہرگز نہیں جو ایک انسان کی اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کروانے کے لیے خصوصی احکامات جاری کرنے میں دلچسپی لیتا ہے – مادہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا – نہ اسکا کوئی شروع ہے اور نہ کوئی اخیر – اس دعوے کو درج ذیل مثال کے ذرے سمجھا جا سکتا ہے –

اگر مذہبی لوگ کہتے ہیں کہ کائنات خدا کی تخلیق ہے اور یہ اس نے چھ ایام میں بنائی ہے تو میں انسے سوال کرتا ہوں کہ چونکہ ہر چیز کی کمیت اور حجم کے لحاظ سے ایک ساخت ہوتی ہے سو وہ مجھے اس کائنات کی کمیت اور حجم کے لحاظ سے ساخت بتا دیں ؟ یہ کائنات گول ہے ، چوکور ہے ، تکونی ہے یا کسی اور طرح کی ؟

اگر تو وہ اسکی کوئی ساخت بتاتے ہیں تو منطقی طور پر اگر یہ کائنات خدا نہیں ہے تو پھر ثابت ہوتا ہے کہ خدا اس کائنات سے باہر ہے یعنی خدا کی کمیت اس طرح کی ہے جو کہ اس کائنات کی طرح کی نہیں ہے – اگر ایسا ہے تو پھر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا وہاں سے یا شروع ہوتا ہے یا ختم ہوتا ہے جہاں پر اس کائنات کا بیرونی کنارہ ہے – سو اس صورت میں کائنات محدود ہے اور خدا بھی محدود ہے کیوکہ وہ کائنات کے اندر نہیں ہے – منطق کہتی ہے کہ ایک وقت میں دو محدود چیزیں نہیں ہو سکتیں –

دوسرا جواب یہ بنتا ہے (جو کہ ذیشان صاحب نے دیا بھی ہے ) کہ اس کائنات کی کوئی شکل نہیں – سو اگر یہ مانا جاے کہ اس کائنات کی کوئی شکل نہیں تو پھر ثابت ہوتا ہے کہ یہ کائنات لا محدود ہے کیونکہ ہر محدود چیز کا حجم اور کمیت ہوتی ہے – منطق کہتی ہے کہ ایک وقت میں دو لامحدود چیزیں نہیں ہو سکتیں –

سو منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی لامحدود چیز ہو سکتی ہے – یا تو وہ خدا ہوگا یا پھر کائنات – یا تو آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ ہم سب خدا ہیں اور یا یہ کہ خدا ٹائپ کی کوئی چیز (جو مذاہب بیان کرتے ہیں ) ہے ہی نہیں ، بس سب کچھ مادہ ہے – سو کان کو چاہے جدھر سے بھی پکڑ لیں وہ کان ہی رہے گا ۔

ذیشان وڑائچ

پوری بحث کا خلاصہ یہی ہے کہ آپ نے علت اور مآخد میں خلط ملط کردیا۔

ظفراللہ جلالپوری

آپ تعبیر میں غلطی کررہے ہیں . ..یوں دیکھیں اسے . . . . . . .ہر معلول کیلۓ علت لازم ہیں . . .چلتے چلتے . . .یہ پوری کائنات معلول ہے،اس کیلۓ علت کا ہونا ضروری ہے .. وہ علت خدا ہے . . . .اور خدا خود معلول نہیں ہے ، کیونکہ وہ کائنات سے خارج ہے . . . ماسوا اللہ کا نام کائنات اور عالم ہے . . . یعنی خدا کے ماسوا سب کائنات ہے . . . . اور ہمارے تجربات، اور قیاس آرائیاں کائنات کے اندر اندر تک کارگر ہوسکتی ہے . . . . .اس کائنات سے باہر کو اندر پر قیاس کرنا ہی غلط ہے… اس سے آپ کا خدا کے محدود و لامحدود ہونے والا قضیہ بھی حل ہوگیا. . . کیونکہ کائنات کی داخلی چیزوں میں دو چیزوں کی انتہاء ملنے پر ان کے محدود ہونےکی گفتگو کی جاسکتی ہے. . .نہ کہ کائنات سے خارج وجود پر. .

عرفات آرش

خدا محدود ھے یا لا,محدود ؟؟؟

ذیشان وڑائچ

جیسا کہ اوپر ظفراللہ کی بات سے واضح ہوا کہ سوال ہی غلط ہے۔ اس سوال میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ خدا زمان و مکان کی قید میں کہیں پایا جاتا ہے۔

عرفات آرش

“نہ کہ کائنات سے خارج وجود پر “سے مراد یہی بنتی ھے کہ کائنات کی حد جہاں پر ختم ھوتی ھے وھاں سے خدا کی حد شروع ھوتی ھے

جو زمان و مکان کی قید میں نہیں پایا جاتا تو وہ کائنات کی حد سے خارج ھے ۔اس سے بھی یہی ثابت ھوتا ھے کہ کائنات کی حد جہاں پر ختم ھوتی ھے وھاں سے خدا کی حد شروع ھوتی ھے۔

ذیشان وڑائچ

//اس سے بھی یہی ثابت ھوتا ھے کہ کائنات کی حد جہاں پر ختم ھوتی ھے وھاں سے خدا کی حد شروع ھوتی ھے//

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ زمان و مکان سے خارج تب بھی آپ کائنات کی مکانی حد مقرر کر رہے ہیں اور پھر اس مکانی حد کے آگے ایک اور مکانی وجود کا تصور رکھ رہے ہیں۔ یعنی آپ مصر آپ اپنے مخصوص مکانی تصور میں ہی خدا کو سمجھیں گے۔ دراصل خدا کے لئے لفظ “حد” ہی بے محل ہے۔ اسی لئے سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ خدا کے ضمن میں محدود اور لامحدود والا سوال ہی صحیح نہیں ہے۔

عرفات آرش

ایک ھی لا محدود شے ھو سکتی ھے یا خدا یا کائنات

ذیشان وڑائچ

 آپ کے اس نادر قول کا مطلب بھی سمجھائیے۔ خاص طور پر اوپر والی وضاحت کے بعد اس قول کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے؟

عرفات آرش

اگر اسکے بارے میں محدود اور لا محدود کے ضمن میں کوئی استدلال پیش نہیں کیا جاسکتا تو پھر کس علم اور پیمانے پر اس کو سمجھا اور پرکھا جا سکتا ھے

کوئی وضاحت

ذیشان وڑائچ

میرا خیال ہے کہ استدلال پیش کیا جاسکتا ہے۔ وہ استدلال یہ ہے کہ زمانی اور مکانی معنوں میں خدا کے لئے “حد” کا لفظ غیر منطقی ہے۔

معقولات کے مطابق پرکھا جاسکتا ہے۔ اور اب تک ہم وہی کر رہے ہیں۔ لیکن آپ مکانی پیمانے پر پیمائش کرنے پر مصر ہیں۔ اور وجہ بھی نہیں بتا رہے ہیں۔

خدا کے وجود کی نفی کرنے کے لئے آپ کے پاس اب تک جو دلائل ہیں وہ محدود اور لامحدود والی بحث ہی ہے۔ چونکہ یہاں پر آپ کو موقعہ نہیں مل رہا ہے اس لئے بار بار بات کو اسی طرف لے جارہے ہیں۔ حالانکہ پہلے اس بات کا استدلال بھی پیش کیا جاچکا ہے کہ خدا کو مکانی وجود سے ناپنا غلط ہے۔ اور اب تک آپ اس بات کی وضاحت نہیں کرسکے کہ آپ خدا کو مکانی وجود میں کیوں لے کر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک استدلال کے خلاف جو آرگیومنٹ دیا گیا ہے اس کو نظر انداز کرکے واپس پہلے والا آرگیومنٹ دہرانے کا کیا مطلب ہے؟

عرفات آرش

کیا معقولات کسی حدود و قیود میں نہیں ؟؟؟

ذیشان وڑائچ

معقولات کی حدود و قیود کو عقل سے ہی طئے کرلیں جناب

ذیشان وڑائچ

اعزازی آپ کے نکات پر مختصر تبصرہ حاضر ہے۔ (ارادہ مختصر ہی کرنے کا تھا، لیکن غیر متوقع طور پر لمبا ہوگیا)

علت سے آپ نے جو چیز مراد لی ہے وہ قطعی الگ ہے۔ آپ نے کسی چیز کے مآخذ یا را میٹیریل کو ہی اس کی علت قرار دے دیا۔ میری بات کو سمجھانے کے لئے آپ کو میں آگ کی ہی مثال دیتا ہوں۔

آپ نے صرف لکڑی کو ہی آگ کی علت قرار دے دیا۔ ویسے تو میرے حساب سے لکڑی آگ کی علت نہیں بلکہ را میٹیریل ہے۔ لیکن میں الفاظ کے جھگڑے میں پڑے بغیر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ لکڑی کو آگ لگنا باقاعدہ ایک واقعہ ہے اور اس واقعے کے وجود میں آنے کے لئے یا تو کسی ارادے یا کسی اور واقعے کا ہونا ضروری ہے۔ ایک چیز یہ ہوسکتی ہے کہ کسی انسان نے ارادہ کیا کہ اس لکڑی کو جلانا ہے اور اس نے جلانے کے لئے کوئی اقدام کیا۔ اس انسان کا ارادہ اور اس کا اقدام دراصل آگ کی علت ہے نہ کہ صرف لکڑی۔

ایک دوسرا امکان یہ ہے کہ زور سے ہوا آئی اور ایک پیڑ کسی دوسری چیز پر گر گیا جس سے زور سے رگڑ پیدا ہوئی۔ اس رگڑ سے جو گرمی پیدا ہوئی اس کا درجہ حرارت اگنیشن پؤانٹ سے زیادہ تھا جس کی وجہ سے لکڑی میں آگ لگ گئی۔ تو یہاں پر زور دار ہوا کا آنا آگ کی علت ہوگئی۔

ایک قدم اور پیچھے جائیں گے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہوا کیوں آئی، یا انسان نے آگ لگانے کا ارادہ کیوں کیا؟ ان دونوں کیوں کا جواب آپ کو محکمہ موسمیات سے مل جائے گیا یا انسان کی ضرورت کو معلوم کرنے سے مل جائے گا۔

لیکن پھر ان دونوں علتوں کی بھی علت ہوگی۔ آپ ان کی علتیں ڈھونڈیں گے تو ان کی بھی علت ہوگی۔ اس طرح پیچھے جاتے چلے جائیں تو آخر میں یہ تمام علتیں بگ بینگ میں کنورج ہوجائیں گی۔

(نوٹ: یہاں پر میں نے صرف آرگیومنٹ کی خاطر ملاحدہ کے اس مفروضہ کو مان لیا ہے کہ ہر چیز کی علت اسی کائنات میں ہی ہوتی ہے)

ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بگ بینگ کی علت کیا ہے؟؟ ہمارا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ بگ بینگ خدا کے ارادے سے وجود میں آیا۔

ویسے ایک اور چیز آُپ نے نظر انداز کی ہے وہ یہ ہے کہ کسی چیز کی علت میں قانون فطرت بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی اس آگ کے لگنے کے عمل میں قانون فطرت ایک بہت ہی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ تو جناب قانون فطرت کی علت کیا ہے؟ یہاں تو معاملے بگ بینگ کے ذریعے بھی قابو میں نہیں آئے گا؟

آپ کے چاروں نکات کی بنیاد یہ ہے کہ آگ کی علت لکڑی ہے۔ اب جبکہ میرے نکات واضح ہوگئے تو آُپ کے چاروں نکات کی لڑیاں بکھر گئی ہیں۔

ذیشان وڑائچ

اس بارے میں آپ کو ایک مغالطہ یہ ہوا ہے کہ آپ نے استقرائی منطق کو علت و معلول کے معاملے میں استعمال کرلیا۔ استقرائی منطق سائنسی تحقیق کے لئے ایک بہت ہی اچھا ٹول ہے۔ لیکن اس کا استعمال کائنات کی آخری سچائی کو پانے کے لئے کرنا غلط ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آپ محدود مشاہدے کی بنیاد پر لامحدود نتائج اخذ کرتے ہیں۔ استقرائی منطق کی یہ کمزوری فلاسفہ اور علمی حلقوں میں معروف ہے۔ اس لئے ایک اچھی چیز ہونے کے باوجود کسی کلی حقیقت کے لئے اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔

مزید یہ کہ جو پیدائشیں کائنات کے اندر ہورہی ہوں اس کے مشاہدے اور اس سے اخذ کردہ نتیجے کی بنیاد پر آُپ کائنات کی ہی تخلیق کے بارے میں نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ یہ ایک بالکل ہی غیر منطقی طرز عمل ہے۔ یہیں سے استقرائی منطقی کی کمزری طئے ہوجاتی ہے۔

اس بحث سے یہ محسوس ہوسکتا ہے کہ میں اپنے پورے استدلال کی بنیاد بگ بینگ پر رکھ رہا ہوں۔ دراصل فلاسفہ نے کاسمولوجیکل آرگیومنٹ کی بنیاد اس سے بہت پہلے ہی رکھی ہوئی تھی۔ بگ بینگ نے صرف اس آرگیومنٹ کی تصدیق کی۔

انسانی مشاہدہ تھا کہ کائنات تغیر پذیر ہے اور کائنات میں ارتقاء کے بجائے تنزل پایا جاتا ہے۔ چیزیں پرانی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ سائنسی تحقیق نے سیکنڈ لاء آف تھرموڈائینامکس اور اینٹروپی کی بنیاد پر اس کی تصدیق کی کہ کائنات تغیر پذیر اور رو بہ زوال ہے۔ مزید تحقیق کے لئے اس لنک پر کلک کریں

اس تغیر پذیری کی وجہ سے لازمی طور پر ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کائنات کی زندگی لامحدود نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ لامحدود وقت کے بعد لازمی طور پر اس کائنات میں تنوع اور حیات کا خاتمہ ہونا تھا۔ اس لئے اس کائنات کے بارے میں ایک بات واضح ہوکر آگئی کہ یہ ازلی نہیں ہے اور لازمی طور پر اس کا کوئی نکتہ آغاز ہے۔ پرانے یونانی فلاسفہ کا خیال یہ تھا کہ اجرام سماوی جیسے سورج اور تارے دائمی ہیں اور ان کی روشنی میں ہزاروں برسوں میں کوئی تغیر نہیں پیدا ہوا۔ امام غزالی نے اس چیز کی تردید میں دلائل دئے اور پھر سائنسی تحقیق نے ثابت کیا کہ اجرام سماوی بھی رو بہ تنزل ہیں۔ اسی بنا پر کاسمولوجیکل آرگیومنٹ اپنی جگہ جوں کا توں موجود ہے۔ انٹروپی اور بگ بینگ کی دریافت کے بعد اس آرگیومنٹ کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

ان نکات کے بعد آپ کے چاروں نکات کی کوئی حقیقت نہیں رہ جاتی ہے۔ اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان چاروں نکات میں ابھی کوئی جان باقی ہے تو مجھے بتائیں میں ان پر علیحدہ سے تبصرے کروں گا۔

آپ کا یہ مطالبہ کہ میں کائنات کی کمیت اور ساخت بتادوں، تو جناب میں نہیں سمجھتا کہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے مجھے اس کی کمیت یا ساخت بتانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہے اور مجھے معلوم نہیں ہے تو پھر اس سے میرے آرگیومنٹ کی تردید کیسے ہوتی ہے؟ میں نے آُپ کو ویکیپیڈیا میں اس کی تحقیق کرنے کے لئے کہا تھا، لیکن اس پر آپ نے ایسے ہی اپنا کمنٹ ڈال دیا۔ سائنس کے اعتبار سے کائنات کی شکل ہے۔ مزید تحقیق کے لئے یہ لنک ملاحظہ فرمائیں۔

اچھا، یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوسکتا ہے۔ اگر کائنات کی علت خدا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا کی علت کیا ہے۔

تو جناب اس سوال کے دو جوابات ہوسکتے ہیں۔

پہلا جواب: کائنات کی تغیر پذیری ثابت شدہ ہے۔ اس لئے کائنات کے لئے علت ہونا لازمی ہے۔ خدا کے بارے میں بنیادی عقیدہ ہی یہ ہے کہ خدا قدیم ہے اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ اور اگر آپ اس عقیدے کو نہیں مانتے تو کم از کم یہ تو ہے آپ کو خدا کی صفات کا پتہ ہی نہیں ہے۔ لیکن کائنات کے بارے میں تو ہمیں پتہ ہے۔ اس لئے کائنات کے مشاہدے سے اخذ کردہ نتائج کو خدا پر نافذ کرنا غیر منطقی ہے۔

دوسرا جواب: اگر آپ مصر ہیں کہ کائنات کی طرح ہر وجود کی علت ہونی چاہئے۔ تو چلئے فرض کرلیتے ہیں کہ کائنات کی علت زیڈ ہے۔

تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ زیڈ کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ زیڈ کی علت وائی ہے۔

تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وائی کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ وائی کی علت ایکس ہے۔

تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایکس کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ ایکس کی علت ڈبلیو ہے۔

اس طرح آپ مانتے چلے جائیں تو یہ ایک لامحدود سیریز ہوجاتی ہے۔ اور اگر یہ سیزیز سچ مچ لامحدود ہے تو پھر کائنات کا وجود ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہیں اور آپ بھی ہیں۔

تو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ کوئی علت اولی ہے جو بذات خود موجود ہے۔ اور کائنات کے بارے میں یہ بات محقق ہے کہ وہ علت اولی کائنات نہیں ہے۔

اعزازی

ظفراللہ :جب مذہبی لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے کائنات کو پیدا کیا تو اس سلسلے میں میرے تین سوالات ہیں انکے جواب دیں تو پھر میں آپ کے کومنٹ کا جواب دیتا ہوں

1 – پیدا کرنے کی یا ہونے کی کیا تعریف ہے ؟

2 – کائنات کی کیا تعریف ہے ؟

3 – اگر ایک اونٹ پر میں یعنی کہ عزازی بیٹھا ہو تو کیا آپ اونٹ اور عزازی میں تفریق کر سکتے ہیں کہ ان میں اونٹ کون ہے اور عزازی کون ؟ اور اگر کر سکتے ہیں تو کیسے ؟ (آپ کے اس جواب میں خود آپ کے بہت سارے سوالوں کے جواب ہونگے )

قران کی بہت ساری آیات ہیں جن کے مطابق یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا زمان و مکان میں ہے – اگر آپ یہ چاہتے ہیں تو پہلے یہ مقدمہ طے کر لیتے ہیں کہ کیا خدا زمان و مکان میں ہے یا نہیں ؟ بتا دیں کہ پہلے اس مقدمے کو اسی پوسٹ میں نبٹا لیں یا اسکی ایک علیحدہ پوسٹ بنا لیں ؟

ذیشان وڑائچ

حسن آفاق اور ظفر اللہ جلال پوری سے عاجزانہ درخواست ہے کہ بلا مداخت کے اس بحث کو چلنے دیں۔ چونکہ اول سے میں نے ہی بحث کی ہوئی ہے اور دلائل کا ایک خاکہ میرے ذہن میں ہے اس لئے بحث کو مجھ تک ہی رکھیں۔ کئی رخوں پر بہ یک وقت بحث کرنے سے بحث کا دائرہ اتنا وسیع ہوجاتا ہے کہ پھر موضوع کسی کی گرفت میں نہیں رہتا۔

عزازی صاحب۔ یہیں طئے کرلیں۔ لیکن دلائل صرف میرے ہوں گے، کسی بھی دوسرے کی دلیل کے لئے میں جواز فراہم نہیں کروں گا۔ اس لئے دوسروں کے تبصروں کو نظر انداز کر کے ہی بحث ہوگی۔ وہی نکات زیر بحث آئیں گے جس کو میں نے بطور دلیل کے بیان کیا ہوا ہے۔

اعزازی

ذیشان صاحب – آپ کے لمبے کومنٹ کے جواب میں – میں نے آگ کی علت اسلئے لکڑی کو لیا تھا تاکہ اپنی بات کو سادہ الفاظ میں سمجھا سکوں – آپ لکڑی کی جگہ اگر کوئی اور چیز بھی لے لیں تو پھر بھی مدعا پر فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ مثال سمجھانے کے لیے تھی – چلیں میں آپ سے پوچھتا ہوں آگ کی علت کیا ہے ؟ لکڑی کی جگہ اگر چیز کا نام بدل بھی جاے گا تو نتائج وہی نکلیں گے جو اخذ ہوتے ہیں – میں نے پہلے بھی پچھلی پوسٹ میں لکھا تھا کہ بیگ بینگ کائنات کی ابتدا نہیں ہے – بیگ بینگ کی تھیوری تو یہ بتاتی ہے کہ بیگ بینگ چار فورسز کے عدم توازن کی وجہ سے ہوا (Gravitational Force, Electromagnetic Force , Low Nuclear Force & High Nuclear Force)

ابھی انسان یہ نہیں جان سکا کہ یہ فورسز کب سے کیسے وجود میں آین اور یہ کہاں پر وجود پذیر تھیں – سو آپ بار بار بیگ بینگ کو کائنات کی ابتدا کہتے ہیں جو کہ غلط ہیں -اس سلسلے میں میرا سوال ہے کہ آپ کائنات کس کو سمجھتے ہیں ؟ یعنی آپ کے نزدیک کائنات کی تعریف کیا ہے ؟

ذیشان وڑائچ

پورا تبصرہ کریں۔ کل میں اپنا تبصرہ پیش کروں گا۔

اعزازی

// لیکن اس کا استعمال کائنات کی آخری سچائی کو پانے کے لئے کرنا غلط ہے۔ //

یہ ایک علیحدہ مقدمہ بن جاتا ہے – آپ کے نزدیک یہ غلط ہوگا لیکن یہ عین فلسفہ کے مطابق ہے – آپ نے خود ہی کہا تھا کہ خدا کی امپیرِکل ثبوت کی بنیاد پر ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن معقولات کے ذریعے جانا جا سکتا ہے سو ہم مقولات کا ہی سہارا لے رہے ہیں ۔

// مزید یہ کہ جو پیدائشیں کائنات کے اندر ہورہی ہوں اس کے مشاہدے اور اس سے اخذ کردہ نتیجے کی بنیاد پر آُپ کائنات کی ہی تخلیق کے بارے میں نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ یہ ایک بالکل ہی غیر منطقی طرز عمل ہے۔ یہیں سے استقرائی منطقی کی کمزری طئے ہوجاتی ہے۔ ////

حضرت آپ بھی تو علت و معلول کی منطق کو ان پدایشوں کے ذریعے سے ہی استعمال کرتے ہیں جو کائنات کے اندر ہو رہی ہیں – مزید میں کائنات کی تعریف جاننا چاہوں گا کہ کائنات کو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس میں کون کونسی چیزیں شامل ہیں

// انسانی مشاہدہ تھا کہ کائنات تغیر پذیر ہے اور کائنات میں ارتقاء کے بجائے تنزل پایا جاتا ہے۔ چیزیں پرانی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ سائنسی تحقیق نے سیکنڈ لاء آف تھرموڈائینامکس اور اینٹروپی کی بنیاد پر اس کی تصدیق کی کہ کائنات تغیر پذیر اور رو بہ زوال ہے۔//

اگر آپ ادبی حوالے سے تغیر کی تعریف سے واقف ہیں تو یقینا آپ جانتے ہونگے کہ تغیر پذیر چیز رو بہ زوال نہیں ہوتی – کیا کائنات میں جو نیے سیارے اور کہکشائیں بن رہی ہیں انکو آپ زوال پزیری کہہ رہے ہیں – مہربانی فرما کر زوال پزیری کی تعریف کریں تاکہ پھر ہم اس پر بات کر سکیں کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں یا غلط –

// اس تغیر پذیری کی وجہ سے لازمی طور پر ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کائنات کی زندگی لامحدود نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ لامحدود وقت کے بعد لازمی طور پر اس کائنات میں تنوع اور حیات کا خاتمہ ہونا تھا۔//

جناب آپ خود ہی کیسے اپنی پسند کے نتیجے نکال سکتے ہیں – تغیر پذیری ہی تو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کو دوام ہے … آپ الٹ نتیجے نکالے جا رہے ہیں -اگر اشیاء ختم (وجود سے عدم ) میں جاتی جا رہی ہوں تو پھر تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کائنات کو زوال ہیں اور آخر کار اس کائنات کو ختم ہو جانا ہے لیکن اس کے برعکس یہ بات ثابت شدہ ہے کہ کائنات پھیلتی جا رہی ہے اور ہر لحظہ نیے سیارے اور نیی کہکشائیں بن رہی ہیں

// آپ کا یہ مطالبہ کہ میں کائنات کی کمیت اور ساخت بتادوں، تو جناب میں نہیں سمجھتا کہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے مجھے اس کی کمیت یا ساخت بتانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہے اور مجھے معلوم نہیں ہے تو پھر اس سے میرے آرگیومنٹ کی تردید کیسے ہوتی ہے؟ میں نے آُپ کو ویکیپیڈیا میں اس کی تحقیق کرنے کے لئے کہا تھا، لیکن اس پر آپ نے ایسے ہی اپنا کمنٹ ڈال دیا۔ سائنس کے اعتبار سے کائنات کی شکل ہے۔ مزید تحقیق کے لئے یہ لنک ملاحظہ فرمائیں۔//

چلیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کو کائنات کے حجم و ساخت کا پتا ہے یا نہیں – اصل میں آپ کے جواب سے اس بات کا اثبات چاھتا تھا کہ آپ یہ مانتے ہیں کہ جب مذہبی لوگ کہتے ہیں کہ کائنات کو خدا نے بنایا تو پھر اسکی کوئی بیرونی حد بھی ہوگی ؟ یعنی جن چیزوں سے مل کر یہ کائنات بنی ہے وہ چیزیں کہیں ختم بھی ہوتی ہیں یا نہیں ؟ اسکا ضرور جواب دیں ۔

اور کائنات کی جو شکل آپ نے ایک لنک سے دی ہے میں یہ جاننا چاھتا ہوں کہ اس کے باہر جو چیز ہے وہ کیا ہے ؟

// پہلا جواب: کائنات کی تغیر پذیری ثابت شدہ ہے۔ اس لئے کائنات کے لئے علت ہونا لازمی ہے۔ خدا کے بارے میں بنیادی عقیدہ ہی یہ ہے کہ خدا قدیم ہے اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ اور اگر آپ اس عقیدے کو نہیں مانتے تو کم از کم یہ تو ہے آپ کو خدا کی صفات کا پتہ ہی نہیں ہے۔ لیکن کائنات کے بارے میں تو ہمیں پتہ ہے۔ اس لئے کائنات کے مشاہدے سے اخذ کردہ نتائج کو خدا پر نافذ کرنا غیر منطقی ہے۔////

آپ اشیاء کو مائکرو لیول پر دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں جبکہ میں نے اپنی پوسٹ میں خوب واضح کر دیا ہے کہ کائنات خود ہی اپنی علت ہے – اسکو میکرو لیول پر دیکھیں – کائنات کی تغیر پذیری ہی اس بات کی دلیل ہے کہ تسلسل لازم ہیں – آپ تسلسل کو کائناتی اشیاء میں تو مانتے ہیں لیکن بغیر کسی دلیل کے خدا پر لا کر روک دیتے ہیں – آپ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کر پاے کہ تسلسل خدا تک پنہچ کر باطل کیوں ہو جاتا ہے کیونکہ جتنے دلائل بھی آپ دیتے ہیں وہ تسلسل کے ہی دیتے ہیں

// دوسرا جواب: اگر آپ مصر ہیں کہ کائنات کی طرح ہر وجود کی علت ہونی چاہئے۔ تو چلئے فرض کرلیتے ہیں کہ کائنات کی علت زیڈ ہے۔

تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ زیڈ کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ زیڈ کی علت وائی ہے۔

تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وائی کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ وائی کی علت ایکس ہے۔

تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایکس کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ ایکس کی علت ڈبلیو ہے۔

اس طرح آپ مانتے چلے جائیں تو یہ ایک لامحدود سیریز ہوجاتی ہے۔ اور اگر یہ سیزیز سچ مچ لامحدود ہے تو پھر کائنات کا وجود ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہیں اور آپ بھی ہیں۔//

یہ کیسے آپ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ پھر اس کائنات کا وجود ہی نہیں ہونا چاہئیے تھا – کائنات کا وجود ہے اور بلکل سامنے ہے – اصل میں آپ کائنات کو محدود مان رہے ہیں اور یہی مغالطہ ہے جو آپ کو کلیر نہیں ہونے دیتا – آپ کے سامنے ایک زندہ جیتی جاگتی مثال موجود ہے کائنات کی جو لامحدود ہے اور ہم سب بھی ہیں – حیرانی ہے کہ آپ سامنے کے حقائق کو بھی نہیں مان رہے –

اعزازی

ذیشان صاحب – چونکہ ہماری ساری گفتگو کی بنیاد اس جملے پر ہے کہ …. خدا نے کائنات کو پیدا کیا …. سو اس سلسلے میں میرے تین سوالات ہیں – مہربانی فرما کر ان کے جوابات دے دیں تاکہ پھر گفتگو الفاظ کی انہی بیان کردہ تعریف کے مطابق چلتی جاے – شکریہ – وہ تین سوالات یہ ہیں –

1 – پیدا کرنے کی یا ہونے کی کیا تعریف ہے ؟

2 – کائنات کی کیا تعریف ہے ؟

3 – اگر ایک اونٹ پر میں یعنی کہ عزازی بیٹھا ہو تو کیا آپ اونٹ اور عزازی میں تفریق کر سکتے ہیں کہ ان میں اونٹ کون ہے اور عزازی کون ؟ اور اگر کر سکتے ہیں تو کیسے

ذیشان وڑائچ

//آپ لکڑی کی جگہ اگر کوئی اور چیز بھی لے لیں تو پھر بھی مدعا پر فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ مثال سمجھانے کے لیے تھی – چلیں میں آپ سے پوچھتا ہوں آگ کی علت کیا ہے ؟//

 میں نے آگ کی علتیں بیان کی ہوئی ہیں۔ اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ دوبارہ کیوں یہ سوال پوچھ رہے ہیں۔

//لکڑی کی جگہ اگر چیز کا نام بدل بھی جاے گا تو نتائج وہی نکلیں گے جو اخذ ہوتے ہیں //

 بات چیز کے نام کو بدلنے کی نہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ نے علت سے مراد کچھ اور ہی لیا ہے۔ آپ اگر کسی انسان کے ارادے کو علت مانیں اور پھر علت کے بارے میں اپنے دئے ہوئے چار نکات پر غور کریں آپ کو پتہ چلے گا کہ علت کے بارے میں آُپ کے چاروں نکات غلط نکل آتے ہیں۔ جب آپ علت کو ہی غلط معنی دے رہے ہیں اور مان بھی نہیں رہے ہیں تو پھر علت و معلول جیسے مضمون پر بات کیسے ہوسکتی ہے؟

آپ کے نکات پر اپنا تبصرہ کر رہا ہوں۔

پہلا نکتہ: مان لیتے ہیں کہ لکڑی آگ میں تبدیل ہوگئی۔ لیکن کیا وہ انسانی ارادہ جو کہ آگ کی اصل علت ہے وہ آگ میں تبدیل ہوگیا؟؟ یا وہ جو موسمیاتی تبدیلی جو آگ کی وجہ بنی وہ آگ میں تبدیل ہوگئی؟

دوسرا نکتہ: کیا انسانی ارادہ آگ میں تبدیل کرنا کے بعد ختم ہوگیا یا ہوجاتا ہے؟ یا کسی اور شکل میں باقی رہتا ہے؟ یا کیا آگ جلتے ہی موسمیاتی تبدیلی یا ہوا کا زور ختم ہوجاتا ہے؟

تیسرا نکتہ: کیا انسانی ارادہ خود آگ ہوتا ہے یا زور سے ہوا کا چلنا اور آگ بذات خود ایک ہی چیز ہے؟

چوتھا نکتہ: پہلے تین نکتے کی نفی کی وجہ سے یہ بھی بے معنی ہوجاتا ہے۔

یہاں پر میں ایک احتجاجی نوٹ پیش کر رہا ہوں۔ علت کے بارے میں میری وضاحت کے بعد اس بات کی قطعی گنجائش نہیں تھی کہ آپ یہ نتیجہ اخذ کرتے کہ “پھر بھی مدعا پر فرق نہیں پڑے گا”۔ کسی بھی منطقی بحث میں یہ ایک انتہائی غلط طرز عمل تھا۔ اس طرز عمل کی وجہ سے آپ کے چاروں نکات کو گنوا کر مجھے اس پر اپنا تبصرہ پیش کرنا پڑا۔ اگر میں اس سے یہ نتیجہ اخذ کروں کہ کہیں پر میں آپ کی غلط دلیل کو غلط ثابت کروں تو آپ میرے اصل نکتے کو نظر انداز کردیتے ہیں۔

رہی بگ بینگ کو کائنات کی ابتداء ماننے کی بات، تو جناب سائنسی تحقیق کے مطابق وقت کی پیدائش بگ بینگ میں ہی ہوئی۔ اس لئے لازماً کائنات کی ابتداء بگ بینگ ہی ہے۔ اب آپ سائنس کو نہیں مانتے تو بتادیں کسی اور طریقے سے بحث کر لیتے ہیں۔

تغیر پزیری کے سلسلے میں آپ نے میرا آدھے کمنٹس کو ایڈریس کیا ہے۔ بلکہ اصل نکتے کو ہی نظر انداز کردیا ہے۔ میں تغیر پذری کے ساتھ رو بہ تنزل کی بھی بات کی تھی۔ بلکہ اس کے لئے باقاعدہ سائنسی مقدمہ پیش کیا ہے۔ میرا کمنٹ ملاحظہ ہو۔” سائنسی تحقیق نے سیکنڈ لاء آف تھرموڈائینامکس اور اینٹروپی کی بنیاد پر اس کی تصدیق کی کہ کائنات تغیر پذیر اور رو بہ زوال ہے۔ مزید تحقیق کے لئے اس لنک پر کلک کریں

اس تغیر پذیری کی وجہ سے لازمی طور پر ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کائنات کی زندگی لامحدود نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ لامحدود وقت کے بعد لازمی طور پر اس کائنات میں تنوع اور حیات کا خاتمہ ہونا تھا۔ اس لئے اس کائنات کے بارے میں ایک بات واضح ہوکر آگئی کہ یہ ازلی نہیں ہے اور لازمی طور پر اس کا کوئی نکتہ آغاز ہے۔ پرانے یونانی فلاسفہ کا خیال یہ تھا کہ اجرام سماوی جیسے سورج اور تارے دائمی ہیں اور ان کی روشنی میں ہزاروں برسوں میں کوئی تغیر نہیں پیدا ہوا۔ امام غزالی نے اس چیز کی تردید میں دلائل دئے اور پھر سائنسی تحقیق نے ثابت کیا کہ اجرام سماوی بھی رو بہ تنزل ہیں۔ اسی بنا پر کاسمولوجیکل آرگیومنٹ اپنی جگہ جوں کا توں موجود ہے۔ انٹروپی اور بگ بینگ کی دریافت کے بعد اس آرگیومنٹ کو رد نہیں کیا جاسکتا۔”

تین نئے سوالات کے جوابات پر اصرار:

اعزازی

آپ کے اوپر والے سارے جواب میں خامیاں ہیں لیکن وہ خامیاں آپ کو اس وقت سمجھ این گی جب آپ میرے تین سوالوں کے جواب دیں – آپ کو آپ کے جواب میں سے ہی دلائل دونگا

1 – پیدا کرنے کی یا ہونے کی کیا تعریف ہے ؟

2 – کائنات کی کیا تعریف ہے ؟

3 – اگر ایک اونٹ پر میں یعنی کہ عزازی بیٹھا ہو تو کیا آپ اونٹ اور عزازی میں تفریق کر سکتے ہیں کہ ان میں اونٹ کون ہے اور عزازی کون ؟ اور اگر کر سکتے ہیں تو کیسے؟

ذیشان وڑائچ

اگر آپ کو یاد ہو کہ آپ سوالات والی یہ سیریز ایک بار مکمل کرچکے ہیں۔ میں نے تفصیلی طور پر اپنا نکتہ نظر پیش کیا تھا۔ اس میں آپ نے کوئی بھی تضاد یا غلطی پکڑنے کے بجائے سوالات کی ایک فہرست تھمادی تھی۔ اس وقت آپ نے یہ بھی کمنٹ کیا تھا “میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ میرے تمام دلائل کے جوابی دلائل دیں گے تو اسی میں آپ کو تضاد مل جاے گا – اس لیے آپ سے درخوست ہے جب تک آپ تمام دلائل کا جواب نہیں دے دیتے میں اگلا کومنٹ نہیں کرونگا”

میں نے بادل ناخواستہ ان تمام سوالات کے جواب دے دئے تھے۔ پھر بھی آپ میرے جوابات میں کوئی بھی تضاد نہیں پکڑ سکے تھے۔ اب آپ سوالات کی ایک نئی فہرست تھمارہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میں آپ کے سوالات کے جواب ٹھیک ٹھاک انشاء اللہ دے دوں گا اور اس کے بعد آپ شاید مزید تضاد کی جستجو میں مزید سوالات کی ایک اور فہرست تھما دیں گے۔

جب میں نے اپنا نکتہ نظر واضح کردیا، جب میں نے آپ کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات بھی فراہم کردئے تو ایک نئی فہرست تھمانے کا کیا مطلب؟ اور اگر یہ سوالات اتنے ہی بنیادی تھے تو پہلے ہی یہ سوالات کیوں نہیں پوچھے گئے۔ جب سوال و جواب کے ایک مرحلے کے بعد بھی آپ کوئی تضاد نہیں پکڑ سکے تب کیوں آپ کو یاد آیا کہ اصل سوالات تو یہ تھے؟؟

اور ہاں مجھے یاد آیا کہ تیسرا سوال تو آپ نے پہلے بھی پوچھا ہوا تھا جس کا جواب میں نے نہیں دیا تھا اور اس کی وجہ بھی بتا دی تھی۔

تو جناب میرا سوال یہ ہے کہ میں اپنے مؤقف میں تضادات (جو کہ فی الحال ہیں نہیں) ڈھونڈنے میں آپ کی مدد میں کیوں کروں۔ آپ کے سامنے میرا مؤقف واضح ہے۔ میں نے کسی بھی سوال کے جواب میں خواہ مخواہ کا ابہام نہیں رکھا، تو اب آپ کو چاہئے کہ اپنا مقدمہ قائم کریں اور خود اپنی تحریر سے قائم کریں۔ ہر بار میں آپ کی فراہم کردہ فہرست کا جواب کیوں دوں؟ یہ طرز عمل تو واضح کرتے ہے کہ آپ ایک میراتھن کھیل کر میری کسی چوک کا فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں؟؟

ذیشان وڑائچ

یادش بخیر جب میں نے آپ کے پہلے والے میراتھن سوالات کا جواب دیا تھا تو آپ نے میرے مؤقف کے خلاف ایک زبردست مقدمہ قائم کیا تھا۔ یاد ہے وہ لکڑی اور آگ والا؟ آپ کے اس مقدمے کو میں نے غلط ثابت کیا اور واضح کیا کہ آپ علت کا مطلب ہی غلط لے رہے ہیں۔ میرے واضح کرنے کے نتیجے میں آپ کے چاروں پؤانٹ غلط ثابت ہوئے۔ ان پؤانٹ کا غلط ثابت ہونا بالکل ہی obvious تھا۔ اس کے باوجود آپ نے مصر رہے کہ اس سے نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر میں نے احتجاجی نوٹ کے ساتھ ایک ایک پؤانٹ کو واضح کیا کہ ان کا نتیجہ بالکل ہی الٹ جاتا ہے۔ یہ نکات تو آپ کے تھریڈ کے بالکل ہی ابتداء میں تھے۔ اب آپ ان نکات کو نظر انداز کرکے نئے سوالات پوچھنا چاہتے ہیں؟

یہاں پر میری مشکل یہ ہے کہ میں کس سے بحث کر رہا ہوں۔ ایک شخص جب اپنے غلط مؤقف کو پوری طرح سے ثابت ہونے کے باوجود اس پر کوئی تبصرہ کیے بغیر اس کو نظر انداز کر کے نئے سوالات کی فہرست تھمادے اس سے میری کیا توقعات ہونی چاہئے؟ یہاں پر بھی آپ میرے مؤقف میں تضادات نہیں ڈھونڈ پاوگے تو کیا ہوگا؟ ایک نیا مقدمہ قائم کریں گے؟

میں نے ابتداء میں ایک اور مؤقف اختیار کیا تھا۔ وہ انٹروپی اور سیکنڈ لاء آف تھرموڈائنامکس کے حوالے سے تھا۔ یہ ایک معروف سائنسی مؤقف ہے جس کے مطابق کائنات کا ازلی ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ آُپ مسلسل اس مؤقف کو نظر انداز کرتے آرہے ہیں۔ کیوں؟

تو جناب میں آپ کے سوال کے جوابات کیوں دوں۔ آپ خود میرے مؤقف کو پڑھ کر کیوں اپنی کریٹیک(critic) قائم نہیں کرسکتے؟

اور ویسے بھی کسی بھی بحث کے دوران یہ شرط رکھنا کہ پہلے میرے سوالات کا جواب دیا جائے، ایک جائز مؤقف نہیں ہے۔ آپ کے سوالات کا جواب دینا میری صوابدید پر ہے۔ جو نتیجہ آپ مجھ سے سوالات پوچھ کر حاصل کرنا چاہتے ہیں وہی نتیجہ آپ میرے اب تک کے مؤقف پر تبصرہ کرکے حاصل کر سکتے ہیں۔

ویسے میرا اندازہ ہے کہ مذہب پر کچھ کریٹیک (Critic) پڑھ کر آپ نے مذہبی لوگوں کے کچھ جوابات فرض کر لئے تھے اور یہ سمجھا ہوا تھا کہ کوسمولوجیکل آرگیومنٹ کو شکست دینا بہت آسان ہے۔ لیکن معاملہ آپ کی توقع کے خلاف نکلا۔ ہوتا ہے۔ دنیا ہے۔

اعزازی

معذرت کہ کچھ غیر ملکی مہمانوں کے ساتھ ایک ہفتے کی مصروفیت اور پھر ایک شادی میں مصروفیت کی وجہ سے فیس بک پر لاگ ان نہیں ہو سکا – اب آپ معزز دوستوں کے کومنٹس پڑھ کر جوابات دیتا ہوں۔

ذیشان وڑائچ صاحب – آپ کے اوپر والے لمبے کومنٹ کے جواب میں –

میں نے پہلے بھی یہ سوالات آپ سے پوچھے تھے مگر پہلے بھی آپ انکے جوابات گول کر گئے تھے – چونکہ یہ سوالات اور نتیجے میں آپ کے جوابات بطور دلیل کے پیش کے جائیں گے اس لیے میرا خیال ہے آپ کو ان سوالوں کے جوابات دینے چاہیں – یا د رہے کہ آپ نے پہلے بھی ان سوالوں کے جواب نہیں دے تھے – آپ ایک چالاک اور زہین آدمی ہیں اور شاید محسوس کرتے ہیں کہ یہاں پر آپ مشکل کا شکار ہو جائیں گے اس لیے ان کے جوابات سے پہلو تھی کر رہے ہیں ۔

ذیشان وڑائچ صاحب – آپ کے دوسرے لمبے کومنٹ کے جواب میں –

آگ بطور معلول والے مقدمے میں آپ کے جو دلائل ہیں وہ بہت ہی ناقص ہیں اور میں نے پہلے بھی عرض کی تھی کہ جب آپ تینوں سوالات کے جوابات دیں گے تو آپ کے جوابات میں سے آپ کو نقائص بھی گنوان گا اور جوابی دلائل بھی دونگا – مجھے تو یہی سمجھ آ رہی ہے کہ آپ اس لیے ان سوالوں کے جوابات دینے سے گریزاں ہیں کہ پھر آپ لاجواب ہو جائیں گے۔

//// میں نے ابتداء میں ایک اور مؤقف اختیار کیا تھا۔ وہ انٹروپی اور سیکنڈ لاء آف تھرموڈائنامکس کے حوالے سے تھا۔ یہ ایک معروف سائنسی مؤقف ہے جس کے مطابق کائنات کا ازلی ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ آُپ مسسلسل اس مؤقف کو نظر انداز کرتے آرہے ہیں۔ کیوں؟///

اسکو بھی غلط ثابت کر دونگا – پہلے اپنی پوسٹ کے متعلقہ تو بات کر لیں – میرا خیال ہے کہ آپ کے پاس دلائل ختم ہو چکے ہیں اسلئے پوسٹ سے متعلقہ موضوع کے سوالات سے بھاگ رہے ہے۔

ذیشان وڑائچ

میں ان سوالات کے جوابات صرف اس لئے نہیں دے رہا ہوں کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ بحث کو اتنا طویل کھینچ لے جائیں گے کہ اس کے تمام پہلووں کا احاطہ کسی بھی قاری کے گرفت میں نہیں رہے گا۔ اس لئے آپ اپنا مقدمے خود قائم کریں۔

// آگ بطور معلول والے مقدمے میں آپ کے جو دلائل ہیں وہ بہت ہی ناقص ہیں اور میں نے پہلے بھی عرض کی تھی کہ جب آپ تینوں سوالات کے جوابات دیں گے تو آپ کے جوابات میں سے آپ کو نقائص بھی گنوان گا اور جوابی دلائل بھی دونگا – مجھے تو یہی سمجھ آ رہی ہے کہ آپ اس لیے ان سوالوں کے جوابات دینے سے گریزاں ہیں کہ پھر آپ لاجواب ہو جائیں گے//

 صرف لکڑی کو آگ کی علت ماننا ایک اتنی واضح غلطی تھی کہ ہر قاری اس کو آسانی سے سمجھ جائے گا۔ اسی لئے آپ نے تین سوالات دھر دئے تاکہ اس واضح ترین غلطی کو بھی نہ ماننا پڑے۔

// اسکو بھی غلط ثابت کر دونگا – پہلے اپنی پوسٹ کے متعلقہ تو بات کر لیں – میرا خیال ہے کہ آپ کے پاس دلائل ختم ہو چکے ہیں اسلئے پوسٹ سے متعلقہ موضوع کے سوالات سے بھاگ رہے ہے//

 یہ نکتہ میرے ابتدائی دلائل کا ہی حصہ ہے۔ آپ کے سوالات کے جوابات تو میں دے سکتا ہوں اس بحث کے ختم ہونے کے بعد۔ میں نے اوپر وضاحت سے پہلے ہی بتایا ہوا ہے کہ میں کیوں آپ کے سوالات کے جوابات نہیں دوں گا۔ اگر آپ مصر ہیں تو میں یہی سمجھوں گا کہ آپ کے پاس اپنے نکات کے لئے دلائل نہیں ہیں۔

آپ نے اپنے ذہن میں کاسمولوجیکل آرگیومنٹ کے خلاف جو بھی دلائل قائم کئے ہیں وہ سب غلط ہیں۔ اور مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کاسمولیجیکل آرگیومنٹ کو کبھی شکست نہیں دے سکتے۔

اعزازی

جی مجھے سمجھ آ گی ہے کہ اب آپ کے پاس کہنے کے لیے مزید کچھ نہیں رہا ورنہ اتنی بہانے بازیاں نہ کرتے – یہ سوالات تخلیق کائنات کے دعوی سے متعلق ہی ہیں – دوسری بات آگ اور لکڑی والی مثال میں میں نے کہا تھا کہ لکڑی کی جگہ کچھ بھی لے لیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا نتیجہ وہی نکلے گا اور میں اسکو ثابت بھی کر سکتا ہوں – ایک دلچسپ بات آپ سے شیر کرنا چاہتا ہوں کہ آگ کی علت لکڑی ہے یہ بات میں نے ایک شیعہ عالم کی کتاب سے پڑھی تھی ، کتاب کا نام ذہن میں نہیں آ رہا موقع ملا تو آپ سے اس کتاب کا نام شیر کروں گا – پتا نہیں آپ علت کی تعریف کیا سمجھتے ہیں اور وہ عالم کیا سمجھتے ہیں – اس پر بات ہو سکتی ہے –

آخری بار پوچھنا چاھتا ہوں کہ کیا آپ ان سوالوں کے جواب دیں گے کیونکہ میں چاھتا ہوں کہ آپ کے دلائل ہی آپ کے منہ پر لاے جائیں – یہ صرف بہانہ ہے کیونکہ بحثوں کے دوران آپ فریق ثانی پر یہ پابندی نہیں لگا سکتے کہ تمہیں صرف اتنے سوال کرنے کی اجازت ہے اسکے بعد کوئی سوال نہ کرنا اور ویسے بھی کچھ موضوعات مختصر گفتگو میں ختم ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ موضوعات زیادہ وقت لیتے ہیں – کیا آپ متفق ہوتے ہیں اس بات سے –

آخری بات کیا آپ علت و معلول کی منطق سے متعلق ہار مان چکے ہیں – اگر نہیں تو پہلے اس قصے کو نبٹا لیں اور اگر ہاں تو کاسمولوجکل آرگیومنٹ پر بات شروع کی جا سکتی ہے – جواب کا منتظر

ذیشان وڑائچ

علت و معلول کے معاملے آپ نے ابھی تک کوئی بھی پؤانٹ میرے مؤقف کے خلاف ثابت نہیں کیا۔ علت کے معاملے میں آپ نے ایک غلط مؤقف اختیار کرکے کلی طور پر غلط نتایج اخذ کئے۔ میں آپ کے مؤقف کے خلاف کئی نکات دئے جس سے آپ نے کوئی تعرض نہیں کیا۔ انٹروپی کے معاملے میں آپ سرے سے ناکام رہے۔ آپ کو بس ایسا لگتا ہے کہ آپ میرے مؤقف کو غلط ثابت کر سکتے ہیں۔ ایسا لگنا آپ کی مجبوری ہے۔ اور آپ کو ایسا جب لگتا ہے جبکہ آپ ایک بھی پؤانٹ ثابت نہیں کرسکے۔

اس تھریڈ میں یہ بات مستحکم ہے کہ آپ کے پاس میرے نکات کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہے سوائے سوالات کی فہرست کے۔ اور میں نے آپ کے پؤانٹ کی تردید میں جو آرگیومنٹ دئے تھے اس کو مسلسل طور ہر نظر انداز کر کے اپنی سوالات کی فہرست پر مصر ہیں۔

رہی بہانے بازیوں کی بات تو جناب آپ کا کیا خیال ہے کہ اس طرح کی بحث میں کسی فریق کو اس بات کا حق ہوتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ پہلے میرے سوالات کا جواب ورنہ آپ ہار گئے؟؟

اور دوسری طرف آپ کے اپنے نکات کی تردید میں جو پؤانٹ پش کئے گئے اس بارے میں آپ مکمل ناکام رہے۔

ویسے میں نے ان سوالات کے جواب اس تھریڈ میں دے دئے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک آپ اس بحث میں پوری طرح سے شکست کھاچکے ہیں۔

نئے تھریڈ میں ہونی والی شکست انشاء اللہ آپ کی دوسری شکست ہوگی۔اس کے بعد ایک چوتھا تھریڈ بھی شروع کریں۔ پھر دیکھیں تماشا۔

اعزازی

ہاہاہاہا خود ہی وکیل خود ہی جج – عالمانہ بحثوں میں یہ نہیں ہوتا کہ آپ کہیں کہ فریق ثانی صرف دس ، بیس یا تیس تک سوالات کر سکتا ہے اور اس کے بعد ختم – گفتگو چلتی رہتی ہے صرف اس وقت ختم ہوتی ہے جب کسی کے پاس دلائل نہ راہیں – بارہا بتا چکا ہوں کہ یہ سوالات پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ کائنات اور خلق کا جو مفہوم آپ بیان کریں گے پھر اس سے پھر نہیں سکیں گے – سوالات بطور دلیل فلاسفہ میں رائج الوقت ہیں اور یہ فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑ دیں کہ کون ناکام رہا اور کون کامیاب – میرا موقف یہ ہے کہ آپ ناکام ہو چکے ہیں جو کہ نظر بھی آتا ہے کہ ایک متعلقہ سوال بطور دلیل پوچھنے پر اسکا جواب نہ دینا راہ فرار اختیار کرنا نہیں تو اور کیا ہے – آپ نے ابھی تک جو بھی دلیل دی ہے اس کو میں نے کامیابی سے رد کیا ہے جو کہ پڑھنے والوں کو بھی محسوس ہو رہا ہوگا –

ذیشان وڑائچ

یعنی خود ہی وکیل اور خود ہی جج بننے کا حق صرف آپ کا ہے۔ میں ہمیشہ سے اس طرح کے فیصلے قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں۔ لیکن آپ جج بننے پر مصر تھے تو میں نے سوچا کہ میں بھی جج بننے کا تجربہ کر لوں۔

آپ کے سوالات اگر میرے پیش کئے گئے پؤانٹ پر براہ راست اعتراض کی شکل میں ہوں تو بات بنتی ہے۔ لیکن آپ اگر نئے سرے سے کچھ سوالات پوچھ رہے ہیں چاہے وہ کتنے ہی متعلقہ ہوں، تو میں جواب دینے کا پابند نہیں ہوں۔ جس طرح سوالات پوچھنا آپ کے لئے آسان ہے اسی طرح میرے نکات پر تھیسس کے شکل میں اپنے پؤائنٹ بھی پیش کئے جاسکتے تھے۔

اور پھر اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ ان سوالات کے بعد بھی آپ کچھ ثابت نہ کرسکیں تو آپ مزید سوالات کی ایک اور فہرست تھمادیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہی ہونے والا ہے۔ ویسے بھی میں نے آپ کے سوالات کا جواب دے کر بتادیا ہے کہ ان سوالات کا جواب دینا اتنا بڑا مسئلہ تھا نہیں۔ میرا اعتراض بحث میں اپنی شرائط منوانے سے متعلق تھا۔ اور ساتھ میں مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ یہ سوالات موضوع کو بہت زیادہ پھیلانے کی کوشش ہے تاکہ اپنی ناکامی چھپائی جائے۔میں یہاں پر بحث کو کنکلوڈ کر رہا ہوں۔ تیسرے تھریڈ پر بات ہوگی۔ وہاں آپ سے بات نہیں بنی تو پھر فیس بک میں تھریڈوں پر پابندی تو نہیں ہے۔

کائنات کی تعریف اور اسکے پیدا کیے جانے سے مراد:

اب موصوف عزازی صاحب نے اس موضوع پر تیسرا تھریڈ شروع کردیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ پہلے دو تھریڈوں میں ہوئے مباحثے میں ناکام سے جان چھڑائی جائے۔ذیشان وڑائچ

اعزازی

سوفسٹ عزازی – اب کہاں بھاگو گے ؟

پچھلے دنوں علت معلول پر ایک پوسٹ کی تھی – دوران گفتگو دلائل دیتے ہوے ایک مذہبی دوست سے درج ذیل تین سوالات پوچھے – ان سوالات کےپوچھنے کی غرض یہ تھی کہ ان سوالوں کے جوابات جو وہ محترم دوست پیش کریں گے انکو بطور جوابی دلیل دے سکوں مگر وہ دوست ان کے جوابات دینے سے گریزاں ہیں – سو میں نے سوچا کہ ان سوالات کو مذہبوں لوگوں سے ایک علیحدہ پوسٹ میں پوچھ لوں – یہ درخواست اس دوست سے بھی ہے جو پتا نہیں کن وجوہات پر ان کے جوابات سے بھاگ رہے ہیں –

1 – جب مذہبی لوگ کہتے ہیں کہ کائنات کو الله نے پیدا کیا ہے تو اس جملے میں… پیدا ….کرنے کی یا ہونے کی کیا تعریف ہے ؟

2 – کائنات کی کیا تعریف ہے ؟

3 – اگر ایک اونٹ پر میں یعنی کہ عزازی بیٹھا ہو تو کیا آپ اونٹ اور عزازی میں تفریق کر سکتے ہیں کہ ان میں اونٹ کون ہے اور عزازی کون ؟ اور اگر کر سکتے ہیں تو کیسے ?

زیشان وڑائچ

“بھاگ رہے ہیں” یہ آپ کی تعبیر ہے۔ یہ تو آپ ہیں جو بھاگ رہے ہیں۔ ایک ہی موضوع پر بھاگ بھاگ کر آپ تیسرے تھریڈ پر پہونچ چکے ہیں۔ پھر بھی آپ کو اطمینان نہیں ہوا؟ اور ویسے بھی میں آپ کواپنے بھاگنے کی وجہ بتا چکا ہوں۔ اور پھر آپ نے دوسرے والے تھریڈ پر بھی اپنا تبصرہ کیا ہوا ہے جو میں نے ابھی پڑھا نہیں ہے۔ تو جناب بحث ہو کہاں رہی ہے۔ دوسرے والے تھریڈ پر یا تیسرے والے تھریڈ پر۔

اعزازی

ذیشان صاحب اگر آپ کی یاداشت مضبوط ہو تو آپ تسلیم کریں گے کہ دوسری تھریڈ آپ کی فرمائش پر ہی کی گی تھی – اور یہ تینوں سوالات پہلی تھریڈ پر بھی پوچھے گئے مگر آپ نے جوابات نہیں دے ، دوسری تھریڈ پر بھی کیے مگر آپ نے جواب نہیں دیا اور آئیں بائیں شائیں کر کیے ٹال دیا اسی لیے ان سوالوں کی الگ تھریڈ کی ہے۔

ذیشان وڑائچ

عزازی صاحب۔ میں نے یہ درخواست کی تھی کہ آپ اپنے خیالات تفصیل سے پیش کریں۔ اس کے لئے دوسرے تھریڈ کی فرمائش نہیں کی تھی۔ رہی بات آپ کے سوالات کے جوابات نہ دینے کی تو میں نے اس کی وجہ بھی بیان کی تھی۔

میری آئیں بائیں شائیں ملاحظہ ہو

اگر آپ کو یاد ہو کہ آپ سوالات والی یہ سیریز ایک بار مکمل کرچکے ہیں۔ میں نے تفصیلی طور پر اپنا نکتہ نظر پیش کیا تھا۔ اس میں آپ نے کوئی بھی تضاد یا غلطی پکڑنے کے بجائے سوالات کی ایک فہرست تھمادی تھی۔ اس وقت آپ نے یہ بھی کمنٹ کیا تھا “میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ میرے تمام دلائل کے جوابی دلائل دیں گے تو اسی میں آپ کو تضاد مل جاے گا – اس لیے آپ سے درخوست ہے جب تک آپ تمام دلائل کا جواب نہیں دے دیتے میں اگلا کومنٹ نہیں کرونگا”

میں نے بادل ناخواستہ ان تمام سوالات کے جواب دے دئے تھے۔ پھر بھی آپ میرے جوابات میں کوئی بھی تضاد نہیں پکڑ سکے تھے۔ اب آپ سوالات کی ایک نئی فہرست تھمارہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میں آپ کے سوالات کے جواب ٹھیک ٹھاک انشاء اللہ دے دوں گا اور اس کے بعد آپ شاید مزید تضاد کی جستجو میں مزید سوالات کی ایک اور فہرست تھما دیں گے۔

جب میں نے اپنی نکتہ نظر واضح کردیا، جب میں نے آپ کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات بھی فراہم کردئے تو ایک نئی فہرست تھمانے کا کیا مطلب؟ اور اگر یہ سوالات اتنے ہی بنیادی تھے تو پہلے ہی یہ سوالات کیوں نہیں پوچھے گئے۔ جب سوال و جواب کے ایک مرحلے کے بعد بھی آپ کوئی تضاد نہیں پکڑ سکے تب کیوں آپ کو یاد آیا کہ اصل سوالات تو یہ تھے؟؟

اور ہاں مجھے یاد آیا کہ تیسرا سوال تو آپ نے پہلے بھی پوچھا ہوا تھا جس کا جواب میں نے نہیں دیا تھا اور اس کی وجہ بھی بتا دی تھی۔

تو جناب میرا سوال یہ ہے کہ میں اپنے مؤقف میں تضادات (جو کہ فی الحال ہیں نہیں) ڈھونڈنے میں آپ کی مدد میں کیوں کروں۔ آپ کے سامنے میرا مؤقف واضح ہے۔ میں نے کسی بھی سوال کے جواب میں خواہ مخواہ کا ابہام نہیں رکھا، تو اب آپ کو چاہئے کہ اپنا مقدمہ قائم کریں اور خود اپنی تحریر سے قائم کریں۔ ہر بار میں آپ کی فراہم کردہ فہرست کا جواب کیوں دوں؟ یہ طرز عمل تو واضح کرتے ہے کہ آپ ایک میراتھن کھیل کر میری کسی چوک کا فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں؟؟

عزازی صاحب۔

واضح ہو کہ آپ کوسمولیجیکل آرگیومنٹ کی تردید نہیں کر سکے۔ اپنے پؤائنٹ کو ثابت کرنے کے لئے شرط رکھنا کے پہلے میرے سوال کا جواب دو، ایک غلط مطالبہ ہے۔ اس لئے اس تھریڈ میں تو اپنی بحث ختم کردیتا ہوں۔ لیکن چونکہ مجھے اس گفتگو سے دل چسپی ہے۔ اس لئے میں یہاں پر بحث میں شرکت کر رہا ہوں۔

ذیشان وڑائچ

آپ کے تینووں سوالات کے جوابات حاضر ہیں۔

1 – جب مذہبی لوگ کہتے ہیں کہ کائنات کو الله نے پیدا کیا ہے تو اس جملے میں… پیدا ….کرنے کی یا ہونے کی کیا تعریف ہے ؟

عدم سے وجود میں لانا۔

2 – کائنات کی کیا تعریف ہے ؟

کائنات کی تعریف اسلام کے عقائد میں موجود نہیں ہے۔ بلکہ میری معلومات کی حد تک اسلامی ٹیکسٹ میں لفظ کائنات ہی موجود نہیں ہے۔ قرآن میں اللہ کے لئے بدیع السموات والارض کہا گیا ہے۔ یعنی زمین و آسمان کو بغیر کسی ان پٹ کے پیدا کرنے والا۔ تو یہ معاملہ کافی سبجیکٹیو ہوجاتا ہے۔ اس خاص بحث میں میرا مؤقف یہ ہے کہ کائنات کا مطلب ہر وہ چیز ہے جو بگ بینگ کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ چلئے بگ بینگ نئی چیز ہے۔ تو ہر وہ چیز جو مادہ، قوت، وقت اور خلا کے ساتھ موجود ہے وہ کائنات ہے۔

3 – اگر ایک اونٹ پر میں یعنی کہ عزازی بیٹھا ہو تو کیا آپ اونٹ اور عزازی میں تفریق کر سکتے ہیں کہ ان میں اونٹ کون ہے اور عزازی کون ؟ اور اگر کر سکتے ہیں تو کیسے ؟

تمام انسان کے اندر یکساں طور پر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اونٹ اور عزازی کو الگ الگ سے پہچان سکے۔ چیزوں کا الگ سے شناخت کرنے کی صلاحیت انسان کے اندر ہوتی ہے الا یہ کہ وہ شخص پاگل پن کی کسی سطح پر پہونچ گیا ہو، ورنہ ایک پاگل بھی چیزوں کو علیحدہ پہچان سکتا ہے۔ اس لئے اس کی عقلی توجیہہ کے بارے میں سوچنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس لئے میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ اس سوال کے پوچھنے کی وجہ کیا ہے۔

میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے۔

انسان اپنے تجربے اور مشاہدے سے جب یہ دیکھتا ہے کہ ایک انسان ایک مکمل وجود ہے اور باقی چیز بقدر ضرورت اس سے علیحدہ ہوجاتی ہے۔ جیسے اپنے مشاہدے سے اس کو اس بات کا بارہا تجربہ ہوجاتا ہے کہ ایک انسان اونٹ پر بیٹھ بھی سکتا ہے اور بقدر ضرورت علیحدہ بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن اونٹ کے جب ٹکڑے کئے جاتے ہیں تو پھر وہ اونٹ نہیں رہتا۔ اور انسان کا کوئی حصہ جیسے ہاتھ اور پاؤں الگ کئے جاتے ہیں تو وہ اس کا رہن سہن عام انسانوں سے مختلف ہوجاتا ہے۔ اس کے لئے لولا اور لنگڑا نام تجویز کیا جاتا ہے۔ اور انسان کے کچھ اہم اجزا الگ کرنے کے بعد وہ مردہ قرار دیا جاتا ہے تو وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ انسان ایک مکمل وجود ہے اور باقی چیزیں جیسے اونٹ، سواری، کپڑے وغیرہ اس کے اجزاء نہیں ہیں۔

یہاں پر واضح ہو کہ دوسرے سوال کا جواب میرے عقیدے کے بجائے زبان اور سیاق سباق سے زیادہ متعلق ہے۔ اور اس جواب کی نوعیت کوسمولیجیل آرگیومنٹ ہی تک ہے۔

تیسرا سوال انسانی فہم و ادراک کے بارے میں پوزیشن سے متعلق ہے۔ اور آپ نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ اس سوال کے پوچھنے کا مقصد کیا ہے۔ یہ سوال بھی اسلامی عقیدے سے متعلق نہیں ہے۔ اس لئے اس جواب پر میرا کوئی سٹیک (Stake) نہیں ہے۔ یعنی میں اس بارے میں اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کا حق رکھتا ہوں، بالکل اسی طرح جیسے ایک فلسفی اپنی پوزیشن تبدیل کردیتا ہے

کائنات کی تشریح کے بارے میں ایک اور بات یاد آئی۔ میرا خیال ہے کہ کائنات کا لفظ “کن” سے نکلا ہے۔ یعنی اللہ نے اپنے حکم “کن” سے جو چیز پیدا کی وہ کائنات ہے۔

اعزازی

 بہت بہت شکریہ جناب – یہ بات ہوئی نہ ایک عالمانہ بحث کے دوران ایسا ہی رویہ رکھنا چاہئیے – اب آتے ہیں میری پوسٹ کے مقدمے کی طرف – میری پوسٹ میں دو مقدمے تھے – پہلا علت و معلول کی منطق کے ذریعے سے خدا کو ثابت کرنے میں موجود نقائص اور دوسرا اگر مذہبی یہ مانتے ہیں کہ خدا نے کائنات کو خلق کیا تو خدا کے محدود ہونے کے بارے میں دلائل –

فی الوقت ہم پہلے مقدمے پر دلائل مکمل کر لیتے ہیں – میں نے اپنے مقدمے میں یہ بات قائم کی تھی کہ علت و معلول کے ذریعے خدا کو ثابت کرنے میں چار نتائج نکلتے ہیں۔

 (۱) – پہلا یہ کہ علت و معلول کی منطق میں کوئی بھی معلول عدم سے وجود میں نہیں آتا بلکہ وہ پہلے سے موجود کسی چیز کی تغیر شدہ شکل ہوتا ہے سو اگر کائنات کو بحثیت مجموئی بھی معلول مان لیا جاے تو علت و معلول کی منطق ثابت کرتی ہے کہ وہ کسی اور چیز کی تغیر شدہ شکل ہے -پھر سوال پیدا ہوگا کہ وہ چیز کس نے بنائی اور ان سوالوں کے چلتے ہوے سلسلے کی وجہ سے تسلسل لازم آتا ہے اور اگر تسلسل لازم ہو تو کسی ایسے خالق کا امکان ختم ہو جاتا ہے جو عدم سے وجود میں لا رہا ہے – میں اسی لیے آپ سے بار بار خلق / پیدا ہونے کی تعریف پوچھ رہا تھا جو کہ آپ نے عدم سے وجود میں لانا بیان فرمائی ہے –

 (٢) – دوسرا یہ کہ علت اپنے معلول کو معرض وجود میں لانے کے بعد ختم ہو جاتی ہے / شکل تبدیل کر لیتی ہے – سو اگر خدا کوئی علت ہے تو وہ بھی ختم ہو گی ہوگی –

 (٣) – تیسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر علت بذات خود معلول بھی ہے – سو اگر خدا کوئی علت ہے تو وہ کسی اور علت کی معلول بھی ہے –

 (٤) – چوتھا نتیجہ یہ نکلتا ہے ہر علت کبھی نہ کبھی معلول میں تبدیل ہو جاتی ہے –

اپنے ان نتائج کو ثابت کرنے کے لیے میں نے آگ بطور معلول اور لکڑی بطور علت کی مثال لی (میں دوسرے تھریڈ میں اس بات کی وضاحت کر چکا ہوں کہ ایک شیعہ عالم کی کتاب میں سے میں نے یہ مثال پڑھی تھی ) -میری بات کے جواب میں آپ نے میرا مذاق اڑایا کہ آگ کی علت لکڑی نہیں ہے تو میں جواب دیا کہ چاہے لکڑی کی جگہ پر کچھ بھی لے لیں تو نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑتا – پھر آپ نے فرمایا کہ آگ کی علت انسانی ارادہ یا موسمیاتی تبدیلی ہے – اب اس پر بات کر لیتے ہیں –

جیسا کہ میں نے عرض کی تھی کہ لکڑی کی جگہ کوئی بھی چیز لے لیں کوئی فرق نہیں پڑتا تو ہم پہلے آگ کی علت کو انسانی ارادہ فرض کر کے بات آگے بڑھاتے ہیں – اگر انسانی ارادہ آگ کی علت ہے تو اس سے درج ذیل نتائج نکلتے ہیں –

(١) – ایک وقت میں آگ کو پیدا کرنے کے لیے انسانی ارادہ ہمیشہ سے نہیں تھا وہ ایک مخصوص وقت پر معرض وجود میں آیا ، سو نتیجہ نکلا کہ خدا بھی کسی وقت نہیں تھا وہ بھی اس وقت معرض وجود میں آیا جب معلول (کائنات ) کو بنانے کے لیے اس ہستی نے سوچا جس کے اندر خدا پیدا ہوا –

(٢) – انسانی ارادہ (علت ) آگ (معلول ) کو پیدا کرنے کے بعد ختم ہوگیا سو اسی منطقی دلیل سے آپ کو ماننا ہوگا کہ خدا کائنات کو خلق کرنے کے بعد ختم ہو گیا –

(٣) – علت (انسانی ارادہ ) خود پیدا ہونے کے لیے کسی دوسری ہستی (انسان ) کا محتاج ہے سو اگر خدا کائنات کی علت ہے تو وہ خود پیدا ہونے کے لیے کسی اور ہستی کی محتاج ہے –

(٤) – علت (انسانی ارادہ ) ہمیشہ سے نہیں تھا اور نہ ہی ہمیشہ رہا ، سو آپ کی ہی دلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا ہمیشہ سے نہیں تھا اور نہ ہی ہمیشہ رہا ہوگا –

(٥) علت (انسانی ارادہ ) آگ کو پیدا کرنے کے لیے کسی دوسرے میٹیریل (لکڑی ) کا محتاج ہے وہ لکڑی کے بغیر آگ پیدا نہیں کر سکتا ،، سو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ اگر خدا کائنات کی علت ہے تو وہ کائنات کو خلق کرنے کے لیے کسی دوسرے میٹیریل کی محتاج تھی –

اب آپ چاہے انسانی ارادے کو بطور علت لے لیں یا انسان کو یا موسمیاتی تبدیلی کو نتائج وہی نکلیں گے جو میں نے اوپر بیان کے ہیں –

اس پر آپ مزید دلائل دینا چاہیں تو دے لیں جب یہ موضوع ختم ہو جاے گا تو پھر خدا کے محدود ہونے پر بات کریں گے –

ضروری نوٹ :- آخر میں ایک بات یاد ای کہ آپ علت و معلول کی مثالوں میں کائنات کو بحثیت مجموئی معلول تو لے لیتے ہیں مگر بحثیت مجموئی علت نہیں لیتے حالانکہ کائناتی اشیاء میں دونوں طرح کی مثالیں موجود ہیں معلول بھی اور علت بھی – سو یہ بھی راہنمائی فرما دیں کہ آپ کائنات کو بحثیت مجموئی علت کیوں نہیں مراد لیتے ؟

اگر آپ علت و معلول کی منطق کے ذریعے سے خدا کو ثابت کرنے کی کوشش میں ناکام ہو چکے ہیں تو پھر کوسمولیجیکل آرگیومنٹ پر بھی بات کر لیتے ہیں – کیونکہ میرا مقدمہ علت و معلول سے متعلقہ تھا –

ذیشان وڑائچ

دراصل میں ثابت کرچکا ہوں۔ یہ آپ ہیں جو ناکام رہے۔ ویسے جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے کہ علت و معلول اور کوسمالوجیکل آرگیمونٹ ایک ہی چیز ہے اور میں ایک دوسرے کو اس کے متبادل کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔حوالہ

ویسے آپ کا پورا فوکس سوالات پوچھنے میں اور مجھے ناکام ثابت کرنے میں ہی رہا ہے۔ آپ نے دلائل دینے کی صرف ایک بار کوشش کی تھی وہ بھی لکڑی کو آگ کی علت مان کر۔ اچھا خاصا بلنڈر تھا۔ اس کے بعد ان دلائل کو چھونے کی بھی کوشش نہیں کی۔ اور بار بار مجھ سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ میں اپنی شکست مان لوں۔ میرے نزدیک آپ اپنا مقدمہ رکھنے میں ہی پوری طرح ناکام رہے۔

ایک پلیر کو ریفری بننے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔ پہتر ہے کہ کھیل کھیلتے رہے اور فیصلہ قارئیں پر چھوڑ دیں۔

اعزازی

محترم دوست یقینا آپ جانتے ہونگے کہ علمی بحثوں میں لنک شیر کرنا نالائقی کی علامت سمجھا جاتا ہے – آپ جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں اپنے الفاظ میں بیان کیجئے –

ذیشان وڑائچ

میں نے وہ لنک اپنی کسی دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا ہے۔ بلکہ یہ بتانے کے لیے پیش کیا ہے کہ کوسمالوجیکل آرگیمونٹ اور کاز اینڈ ایفکٹ والا آرگیومنٹ ایک ہی چیز ہے۔آپ کے پیش کردہ نکات کا جواب دیا جائے گا۔ منتظر رہیں۔

اعزازی

جناب میں نے لکڑی کو چھوڑ دیا ہے اور جو آپ نے فرمایا تھا اسی مثال سے نتائج اخذ کے ہیں اور دلائل دے ہیں – اب آپ انکا رد کریں پلیز – سوال بطور دلیل بھی ایک دلیل ہوتا ہے۔

کاز اینڈ ایفکٹ کا تو میں جواب دے چکا ہوں کہ مادہ خود ہی کاز ہے اور خود ہی ایفیکٹ جو کہ ہمیں نظر بھی آتا ہے ثابت شدہ ہے – آپ کائنات کو بحثیت مجموئی ایفیکٹ لے رہے ہے اسکو بحثیت مجموئی کاز کیوں نہیں لیتے جبکہ ہمیں ثابت بھی ہوتا ہے کہ یہ خود ہی کاز بھی ہے اور خود ہی ایفیکٹ بھی۔

ذیشان وڑائچ

آپ سے بحث کے دوران جو چیز میرے نوٹس میں آئی وہ یہ ہے کہ آپ مکمل طور پر میرے نکات کا احاطہ نہیں کرسکے۔ کاسمولوجیکل آرگیومنٹ ایک معروف دلیل ہے اور میرا خیال تھا کہ اس اصطلاح یا علت و معلول کے لفظ سے آپ پوری بات سمجھ جائیں گے۔ لیکن مجھے سمجھانا پڑے گا۔

میں نے سوچا کہ آپ کے اُٹھائے ہوئے اعتراضات کا جواب دینے سے پہلے اپنی دلیل کے پورے نکات ایک ساتھ میں بیان کروں اگرچیکہ پوری بحثوں میں یہ تمام باتیں ہوچکی ہیں۔ کل شام کو میں مصروف ہوں۔ اس لئے ممکن ہے کہ میں آپ کے سوالات کا جواب پرسوں دے دوں۔ یا پھر کل صبح وقت ملا تو صبح ہی جواب دے دوں۔

فلسفے کی بنیادی شاخ میٹافزکس ہے۔ میٹا فزکس کی تین اور شاخیں ہوتی ہیں۔ آنٹولوجی، کوسمولوجی اور ٹیلیولوجی۔

کوسمولوجی حقائق کی ترتیب سے بحث کرتی ہے۔ یعنی مختلف حقیقتوں کی ترتیب کیا ہے اور کس کی کیا علت ہے۔

خدا کے وجود ہے کے لئے کاسمولوجیکل آرگیومنٹ ایک بہت پرانی دلیل تھی جو کہ پرانے یونانی فلسفہ میں بھی پائی جاتی تھی۔ یہ دلیل ایک شکل میں نہیں رہی۔ مختلف ادوار میں اس کو غلط بھی ثابت کیا جاتا رہا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دلیل آج بھی ٹھوس ہے۔

دلیل کچھ یوں ہے۔

ہر وجود کی کوئی نہ کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ چونکہ یہ کائنات ہے اور کائنات خود اپنے آپ کو وجود نہیں دے سکتی اس لئے لازمی طور پر کوئی نہ کوئی ہے جس نے اس کائنات کو وجود بخشا۔

یہ بہت ہی سادہ سی بات ہے۔

اس پر یہ اعتراضات ہوسکتے ہیں

اگر ہر وجود کی کوئی نہ کوئی علت ہے تو پھر خدا کی کیا علت ہے؟

دوسرا اعتراض یہ ہے کیا ضروری ہے ہر وجود کی کوئی علت ہو؟

ان دونوں اعتراضات کے جوابات کچھ یوں ہیں۔

کائنات کے بارے میں ہمارا مشاہدہ ہے یہ ہے کہ یہ رو بہ تنزل ہے۔ چیزیں پرانی ہوجاتی ہیں۔ قوتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ انسان بوڑھا ہوجاتا ہے۔ اس لئے لازمی ہے کہ کائنات کا کوئی نکتہ آغاز ہوگا جہاں سے یہ دھیرے دھیرے ڈھل کر اس حالت میں پہونچی ہے۔ اس مستقل تنزلی کی بنیاد پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ کائنات کا کوئی نکتہ آغاز ضرور ہے۔ جس چیز کا نکتہ آغاز ہے تو لازمی طور پر اس کی علت ہونی ہی چاہئے۔ اگر کسی کا نکتہ آغاز ہی نہ ہو اس کی علت ہونا ضروی نہیں۔ چونکہ کائنات کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نکتہ آغاز ہے اس لئے اس کی علت ہونی لازمی ہے۔ چونکہ خدا کے بارے میں ایسے کسی دعوے کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے اس لئے خدا کی علت کی جسجتو بے کار ہے۔

کچھ یونانی فلاسفہ کا یہ دعوی تھا کہ اجرام سماوی جیسے سورج اور تارے مستقل ایک ہی کیفیت میں ہیں اور صدیوں سے ان کی گرمی یا روشنی میں کسی قسم کی کمی محسوس نہیں کی گئی۔ اس لئے یہ قدیم ہیں اور اسی بنا پر خدا کے وجود ثابت نہیں ہوتا۔

امام غزالی نے یونانی فلاسفہ کے دعوے کی تردید یوں کی کہ ان کے بقول یہ اجرام سماوی اتنی بڑی چیزیں ہیں کہ اگر ان کی روشنی یا گرمی میں کوئی کمی بھی ہورہی ہو تو وہ اتنے دھیرے دھیرے ہوگی کہ صدیوں میں معلوم نہیں ہوگا۔

خدا کی علت کے سوال کے جواب میں ایک اور نکتہ بھی ہے۔

چلئے فرض کرلیتے ہیں کہ کائنات کی علت زیڈ ہے۔

تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ زیڈ کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ زیڈ کی علت وائی ہے۔

تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وائی کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ وائی کی علت ایکس ہے۔

تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایکس کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ ایکس کی علت ڈبلیو ہے۔

اس طرح آپ مانتے چلے جائیں تو یہ ایک لامحدود سیریز ہوجاتی ہے۔ اور اگر یہ سیزیز سچ مچ لامحدود ہے تو پھر کائنات کا وجود ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہیں اور آپ بھی ہیں۔

تو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ کوئی علت اولی ہے جو بذات خود موجود ہے۔ اور کائنات کے بارے میں یہ بات محقق ہے کہ وہ علت اولی کائنات نہیں ہے۔ یہی علت اولی خدا ہے۔

یہ تو رہی بلکل ہی کلاسیکل آرگیومنٹ۔ آپ روبہ تنزل والی دلیل کو شاید آسانی سے رد کریں۔

لیکن آج کے دور میں کچھ ایسی دریافتیں ہوئیں جن کی بنیاد پر یہ آرگیومنٹ مزید مستحکم ہوگیا۔

اینٹروپی کی دریافت کی وجہ سے یہ بات تمام کے نزدیک قابل قبول ہوگئی ہے کہ کائنات متغیر اور رو بہ زوال ہے۔ یعنی کائنات میں قوت موجود ہے لیکن ناقابل استعمال ہوتی جارہی ہے اور بلینیوں سال کے بعد کائنات کی تمام قوتیں غیر مفید ہوجائیں گی اور کائنات ایک فرسودہ اور یونی فارم شکل اختیار کرے گی جس میں قوت کا تنوع نہیں ہوگا۔ بغیر تنوع کے زندگی اور حرکت ختم ہوجاتی ہے۔ میں نے اس کی وضاحت کے لئے ایک لنک شیر کیا تھا۔ اسی لنک کو دوبارہ نیچے شیر کرنے جا رہا ہوں۔

کائنات کے وجود کے بارے میں سائنسی حلقوں میں ایک ہی تھیوری اب قابل قبول ہے اور تمام تجربات اس کی تصدیق کرتے جارہے ہیں اور وہ تھیوری بگ بینگ تھیوری کہلاتی ہے۔

بگ بینگ تھیوری بھی اور اینٹروپی کا نظریہ بھی ایک بات کی تصدیق کرتا ہے اور وہ یہ کہ کائنات ازلی نہیں ہے۔

ایک چیز حادث ہے تو لازماً اس کی علت ہونی چاہئے۔ ایک چیز قدیم ہے اور جس کی کوئی ابتداء نہیں، ممکن ہے کہ اس کی علت نہ ہو۔

تو جناب یہان پر بات صرف علت کی نہیں بلکہ علت اولی کی ہے۔ خدا کو ثابت کرنے کے لئے علت کی جو دلیل دی جاتی ہے وہ صرف علت کے نہیں بلکہ علت اولی حوالے سے ہے۔

تو جناب یہاں پر یہ بھی واضح ہوگیا ہوگا کہ کوسمولوجیکل آرگیمونٹ، علت و معلول کی دلیل، بگ بینگ تھیوری اور انٹروپی کی باتیں ایک ہی چیز کے حوالے ہورہی ہے۔

یہ رہا لنک بھی، امید ہے کہ آپ کی طبیعت پر گراں نہیں گزرے گا۔

اعزازی

آپ کی بات کا جواب کل دونگا کیونکہ آج توجہ ٹی وی پر مرکوز ہے اور موجود خامیوں کی نشاندہی کرونگا اور یہ بھی وضاحت کرونگا کہ آپ کے اس جواب یا ددلیل نے ابھی تک علت و معلول کی منطق سے اخذ کردہ ان پانچ نکات کو ابھی تک رد نہیں کیا ہے جو میں نے اوپر بیان کے ہیں – میں آپ کے اس جواب کا بھی انتظار کر رہا ہوں جس میں آپ ان پانچ نکات کو رد کریں گے۔

ذیشان وڑائچ

//میری پوسٹ میں دو مقدمے تھے – پہلا علت و معلول کی منطق کے ذریعے سے خدا کو ثابت کرنے میں موجود نقائص اور دوسرا اگر مذہبی یہ مانتے ہیں کہ خدا نے کائنات کو خلق کیا تو خدا کے محدود ہونے کے بارے میں دلائل -//

خدا کو محدود ثابت کرنے کے لئے آپ نے جی توڑ کوشش کی ہوئی ہے۔ اب تک آپ کی کوشش بار آور نہیں ہوئی۔ آگے بھی کرنا چاہیں تو ضرور کریں۔

//فی الوقت ہم پہلے مقدمے پر دلائل مکمل کر لیتے ہیں – میں نے اپنے مقدمے میں یہ بات قائم کی تھی کہ علت و معلول کے ذریعے خدا کو ثابت کرنے میں چار نتائج نکلتے ہیں 1 – پہلا یہ کہ علت و معلول کی منطق میں کوئی بھی معلول عدم سے وجود میں نہیں آتا بلکہ وہ پہلے سے موجود کسی چیز کی تغیر شدہ شکل ہوتا ہے سو اگر کائنات کو بحثیت مجموئی بھی معلول مان لیا جاے تو علت و معلول کی منطق ثابت کرتی ہے کہ وہ کسی اور چیز کی تغیر شدہ شکل ہے -پھر سوال پیدا ہوگا کہ وہ چیز کس نے بنائی اور ان سوالوں کے چلتے ہوے سلسلے کی وجہ سے تسلسل لازم آتا ہے اور اگر تسلسل لازم ہو تو کسی ایسے خالق کا امکان ختم ہو جاتا ہے جو عدم سے وجود میں لا رہا ہے – میں اسی لیے آپ سے بار بار خلق / پیدا ہونے کی تعریف پوچھ رہا تھا جو کہ آپ نے عدم سے وجود میں لانا بیان فرمائی ہے – //

تو آپ کا یہ کہنا ہے کہ معلول عدم سے وجود میں نہیں آتا۔ آپ یہ ماننے کی وجہ بتادیں کی کیوں نہیں آتا؟ اگر آپ مشاہدے کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں تو جناب آپ مشاہدہ کائنات کے اندر کا کر رہے ہیں۔ خود سے کائنات کے وجود میں آنے کا نہیں۔ جس چیز کا مشاہدہ کائنات کے فریم کے اندر رہ کر ہورہا ہو، ضروری نہیں ہے کہ وہی اصول کائنات کے وجود میں آنے کے لئے بھی ہو۔ آپ کے اس نتیجے کی کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ہے۔ اس کی حیثیت صرف دعوے کی ہے،

//(٢) – دوسرا یہ کہ علت اپنے معلول کو معرض وجود میں لانے کے بعد ختم ہو جاتی ہے / شکل تبدیل کر لیتی ہے – سو اگر خدا کوئی علت ہے تو وہ بھی ختم ہو گی ہوگی -//

اول تو یہ واضح ہو کہ خدا کا ارادہ کائنات کی علت ہے۔ چونکہ ارادہ خدا کا ہے اس لئے بالواسطہ طور پر خدا کو بھی کائنات کی علت کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اصلاً کائنات کی علت خدا کا ارادہ ہے اور پھر اس کا حکم کلمہ “کن” ہے۔ دوسری بات یہ ہے آپ کا دعوی کہ معلول کے وجود میں آنے کے بعد علت ختم ہوجاتی ہےانتہائی عجیب و غریب ہے۔ اس دلیل کے جواب میں بہت کچھ کہنے کے لئے دل چاہ رہا ہے۔ لیکن بحث کو منطقی سطح پر ہی رکھنا چاہتا ہوں۔ اس لئے اپنے آپ کو روک رہا ہوں۔ آگے وضاحت میں واضح کروں گا کہ آُپ کی یہ تشریح کتنی بے معنی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ نے جو پڑھا اس کو بغیر سوچے سمجھے پیش کردیا۔

//(٣) – تیسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر علت بذات خود معلول بھی ہے – سو اگر خدا کوئی علت ہے تو وہ کسی اور علت کی معلول بھی ہے -//

علت بذات خود معلول ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کو علت کا لازمہ قرار دینا بس ایک دعوی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ یہ دعوی بھی آپ نے بغیر سوچے سمجھے کیا ہے۔ مزید یہ کہ میں نے پؤائنٹ نمبر ۲ میں وضاحت کی ہے کہ دراصل اللہ کا ارادہ اور پھر اس کا حکم کائنات کی علت ہے۔

//(٤) – چوتھا نتیجہ یہ نکلتا ہے ہر علت کبھی نہ کبھی معلول میں تبدیل ہو جاتی ہے -//

ہوسکتا ہے ہو یا نہ ہو۔ لیکن علت کے لئے یہ شرط صرف ایک دعوی ہے۔

//جیسا کہ میں نے عرض کی تھی کہ لکڑی کی جگہ کوئی بھی چیز لے لیں کوئی فرق نہیں پڑتا تو ہم پہلے آگ کی علت کو انسانی ارادہ فرض کر کے بات آگے بڑھاتے ہیں – اگر انسانی ارادہ آگ کی علت ہے تو اس سے درج ذیل نتائج نکلتے ہیں -//

یہاں پر واضح کردوں کہ کسی چیز کی تمام علتوں کو بیان کرنا میرا کام نہیں ہے۔ آُپ نے صرف لکڑی کو علت قرار دیا تھا۔ میں نے بتانے کے لئے موسمیاتی تبدیلی اور انسانی ارادہ کی طرف اشارہ کردیا۔ ویسے آپ کو نہیں لگتا کہ قانون فطرت بھی آگ کی علت میں شامل ہیں؟؟؟ دیکھئے کہ آپ کے نکات کا کیا ہوتا ہے۔

//(١) – ایک وقت میں آگ کو پیدا کرنے کے لیے انسانی ارادہ ہمیشہ سے نہیں تھا وہ ایک مخصوص وقت پر معرض وجود میں آیا ، سو نتیجہ نکلا کہ خدا بھی کسی وقت نہیں تھا وہ بھی اس وقت معرض وجود میں آیا جب معلول (کائنات ) کو بنانے کے لیے اس ہستی نے سوچا جس کے اندر خدا پیدا ہوا -//

آپ کے نکتے پر مندرجہ ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔

ا۔ یعنی یہاں پر انسانی ارادہ علت ہے اور خدا پورا کا پورا علت ہے؟؟ یعنی آگ لگانے سے کچھ پہلے انسانی ارادہ غائب تھا۔ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو یہ کہنا چاہئے تھا کائنات سے کچھ پہلے خدا کا ارادہ موجود نہیں تھا۔ لیکن آپ تو خدا کو ہی غائب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جناب اگر آپ خدا کو موجود نہیں مانتے ہیں تو آپ کی مرضی ہے۔ لیکن ہر جگہ پر اس کا اظہار ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ کے نزدیک کائنات کے وجود سے کچھ پہلے خدا موجود نہیں تھا تو آپ یہ مانیں کہ آگ لگانے سے کچھ پہلے انسان بھی نہیں تھا۔ یعنی آپ انسان کو باقی رکھنا چاہتے ہیں اور خدا کو غائب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انسانی خواہشات کیسے کیسے اپنے اظہار کرتی ہیں!!

ب۔ خدا انسانوں کے طرح کوئی وقت کے ساتھ چل چلنے والی ہستی نہیں ہے۔ ہم لوگ خالق کائنات کی بات کر رہے ہیں۔ وقت کائنات کا حصہ ہے۔ اس لئے کائنات کی تخلیق کے بارے میں یہ کہنا کہ خالق کائنات، کائنات کی تخلیق “سے کچھ پہلے” وجود میں آیا بذات خود تضاد ہے۔ جب وقت ہی نہ تھا تو کائنات سے “کچھ پہلے” کا کیا مطلب ہے؟؟

ج۔ قانون فطرت بھی آگ کی علت ہے۔ تو کیا آگ سے کچھ پہلے ہی قانون فطرت وجود میں آتا ہے؟

//(٢) – انسانی ارادہ (علت ) آگ (معلول ) کو پیدا کرنے کے بعد ختم ہوگیا سو اسی منطقی دلیل سے آپ کو ماننا ہوگا کہ خدا کائنات کو خلق کرنے کے بعد ختم ہو گیا -//

اس نکتے پر مندرجہ ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں

ا۔ مکرر عرض ہے کہ آپ کی منطق کے اعتبار سے آپ کو یہ کہنا چاہئے کہ کائنات کو خلق کر کے خدا کا ارادہ ختم ہوگیا، نہ کہ خدا ختم ہوگیا۔ ویسے آپ کی یہ منطق ہی غلط ہے۔ آگے کے پوائنٹ میں بات واضح ہوجائے گی۔

ب۔ تو کیا آگ لگتے ہی موسمیاتی تبدلی فورا ختم ہوجاتی ہے، یا ہوا کا دباؤ کم ہوجاتا ہے؟ کیا قانون فطرت بھی آگ لگتے ہی ختم ہوجاتے ہیں؟

ج۔ چلئے انسانی ارادے کو ہی لیتے ہیں۔ تو کیا آپ کے نزدیک انسان صرف آگ جلانے کا ہی ارادہ کرسکتا ہے، کیا وہ آگ جلائے رکھنے کا ارادہ نہیں کرسکتا؟؟ اسی طرح کیا خدا کائنات کو باقی رکھنے کا ارادہ نہیں کرسکتا؟ اس طرح کائنات اور اللہ کا ارادہ تو ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں۔

//(٣) – علت (انسانی ارادہ ) خود پیدا ہونے کے لیے کسی دوسری ہستی (انسان ) کا محتاج ہے سو اگر خدا کائنات کی علت ہے تو وہ خود پیدا ہونے کے لیے کسی اور ہستی کی محتاج ہے -//

اس نکتے پر مندرجہ ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔

ا۔ اول تو یہاں پر لفظ محتاج ایک غلط لفظ ہے۔ ارادہ کرنا ایک مکمل اور صحیح سالم انسان کا لازمہ ہے۔ یہ کہنا کہ ارادہ اپنے وجود کے لئے انسان کا محتاج ہے صرف لفاظی۔ ویسے اس لاجک کو خدا پر اپلائی کرنے کے لئے آپ کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ خدا کا ارادہ خدا کا محتاج ہے۔ لیکن آپ کی شدید خواہش ہے کہ خدا کو ہی کسی کا محتاج بنادیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں نے ارادہ کیا تو ہم فلاں کے کسی فعل یا صفت کا ظاہر کرتے ہیں۔

ب۔ علت کسی کی محتاج ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کو لازمی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ علت میں ہی ایسی کوئی خصوصیت نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ علت کو لازمی طور پر محتاج ہونا چاہئے۔ تو جناب آپ کو ماننا پڑے گا کہ قانون قدرت بھی وجود میں آنے کے لئے کسی کی محتاج ہے اور وہ خدا ہے۔ مانتے ہیں؟ محتاجی فی نفسہ علت کی صفت نہیں ہے۔

//(٤) – علت (انسانی ارادہ ) ہمیشہ سے نہیں تھا اور نہ ہی ہمیشہ رہا ، سو آپ کی ہی دلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا ہمیشہ سے نہیں تھا اور نہ ہی ہمیشہ رہا ہوگا -//

مسئلہ یہی ہے کہ آپ کسی علت کی صفت کو پکڑ کر اس کو جنرلائز کر رہے ہیں۔ آُپ بتائیں آیا قانون فطرت ہمیشہ سے رہا ہے یا نہیں؟ اور ویسے بھی کائنات کی علت کو بحث کرتے ہوئے آپ لفظ “ہمیشہ” استعمال ہی نہیں کر سکتے۔ وقت کائنات کی صفت ہے۔

//(٥) علت (انسانی ارادہ ) آگ کو پیدا کرنے کے لیے کسی دوسرے میٹیریل (لکڑی ) کا محتاج ہے وہ لکڑی کے بغیر آگ پیدا نہیں کر سکتا ،، سو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ اگر خدا کائنات کی علت ہے تو وہ کائنات کو خلق کرنے کے لیے کسی دوسرے میٹیریل کی محتاج تھی -//

یہاں پر بھی اوپر والا مسئلہ ہے۔ آُپ ایک علت کی صفت کو پکڑ کر اس کو جنرلائز کر رہے ہیں۔ واللہ بہت ہی لوز بال ہے۔ اور ویسے بھی ایسا لگتا ہے کہ آُپ کو محتاجی کا مرض لاحق ہوگیا ہے۔ آپ کا پیش کردہ نکتہ ہی غلط ہے۔ اس نکتے کو یوں پیش کرنا چاہئے کہ ایک معلول کی ایک سے زیادہ علتیں ہوتی ہیں۔ لیکن چونکہ خدا کا مسئلہ ہے اس لئے کسی طرح سے آپ “محتاج” کا لفظ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

//ضروری نوٹ :- آخر میں ایک بات یاد ای کہ آپ علت و معلول کی مثالوں میں کائنات کو بحثیت مجموئی معلول تو لے لیتے ہیں مگر بحثیت مجموئی علت نہیں لیتے حالانکہ کائناتی اشیاء میں دونوں طرح کی مثالیں موجود ہیں معلول بھی اور علت بھی – سو یہ بھی راہنمائی فرما دیں کہ آپ کائنات کو بحثیت مجموئی علت کیوں نہیں مراد لیتے ؟//

 میں اس کی وضاحت کوسمولوجیکل آرگیومنٹ میں کر چکا ہوں۔ ویسے آپ یہ بتادیں کہ آیا آپ کسی چیز کو خود اپنی علت مانتے ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ کائنات کسی چیز کی علت ہو۔ اصل بحث کائنات کی علت سے متعلق ہے۔

//کیا آپ یقین رکھتے ہیں کہ کائنات کبھی ختم ہو جاے گے ؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو مجھے خوشی ہوگی کہ آپ ہاں ہی کہیں کیونکہ اس صورت میں آپ قران کی کچھ آیات کا رد کریں گے اور میں اسی وقت کا انتظار کر رہا ہوں//

ویسے تو میں اضافی سوالات کو انٹرٹین نہیں کرتا، لیکن آپ نے اشعر نجمی کی مسکراہٹ کی بات کر کے دل خوش کردیا اس لئے بطور بونس کے اس کا جواب دے رہا ہوں۔

جیسا کہ میں نے پہلے واضح کیا، کائنات کوئی قرآنی لفظ نہیں۔ اس لئے اس کا جواب مشکل ہے۔ قیامت کے دن کے بارے میں ہے کہ تمام جاندار مخلوق ختم ہوجائے گی اور صرف خدا رہے گا۔ زمین، پہاڑ، سمندر اور تارے تباہ و منتشر ہوجائیں گے۔ اب اس کیفیت کو “کائنات کے ختم” ہونے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے یا نہیں، میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جو چیز اسلامی ٹیکسٹ میں نہیں ہے اس کو بطور ایمانیات کے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اگر آپ کا پس منظر مسلمان ہے تو آُپ کو اندازہ ہوگا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ باقی آپ جو مجھ سے یہ توقع رکھ رہے ہیں کہ آپ کے اکسانے کی وجہ سے میں کوئی مؤقف اختیار کروں گا تو جناب، میں ایسا نہیں کرتا، جتنا معلوم ہے اتنا ہی بیان کرتا ہوں۔

ذیشان وڑائچ

اچھا اب آپ کو میرے جوابات میں جابجا اغلاط نظر آئیں گے جس طرح ابھی تک کوئی اغلاط ثابت نہیں ہوسکا اس بار بھی ثابت نہیں ہوسکے گا۔ اور پھر کچھ میرے اغلاط ثابت کرنے کے لئے سوال کی ایک نئی فہرست۔ ضرور کریں۔

______

تو پھر دوستوں چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ سوفسٹ عزازی کا اکاؤنٹ deactivate یا ڈلیٹ ہوگیا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد موصوف نئے نام عزازی ہاشم کے ساتھ کہیں سے شرماتے شرماتے نمودار ہوگئے اور ہم پر الزام لگاتے رہے کہ ہم نے ان کے اکاؤنٹ کو رپورٹ کیا۔ حالانکہ اس مباحثے سے معلوم ہوگا کہ فیس بک سے فرار کسی کی مجبوری تھی۔ ذیشان وڑائچ