کائنات محدود یا لامحدود؟

کائنات کے محدود یا لامحدود ہونے کا مسئلہ بہت ہی عجیب ہے۔ سب سے پہلے لامحدود ہونے کا مطلب سمجھ لیا جائے تو بات کرنے میں آسانی ہو۔

جب ہم کہتے ہیں کہ کائنات لامحدود ہے، یا محدود ہے تو سوال ہوگا کہ اسے محدود یا لامحدود کن معانی میں کہا جارہا ہے؟

دو باتیں ہو سکتی ہیں۔

ایک تو یہ کہ آیا کائنات قدیم اور زمانی لحاظ سے محدود یا لامحدود ہے؟

یا پھر یہ کہ کائنات مکانی اعتبار سے محدود یا لامحدود ہے؟

پھر یہ بھی سمجھ لینا بہتر ہے کہ محدود اور لامحدود کا مطلب کیا ہوتا ہے؟

ایک لامحدود یا لا متناہی وہ ہوتا ہے جو ہم اپنی عام زندگی میں محاوراتی مفاہیم میں استعمال کرتے ہیں۔ جیسے سمندر کا پانی لامحدود ہے، سورج کی روشنی لامحدود ہے۔ یا پھر ماں کی محبت لامحدود یا متناہی ہے، علی ہذا القیاس۔

لیکن درست بات یہ ہے کہ حقیقی معنوں میں اس لامحدود یا لامتناہی کا مطلب “بہت زیادہ” ہوتا ہے۔ اور یہ “بہت زیادہ” چاہے کتنا ہی زیادہ ہو، کبھی لامحدود نہیں ہوسکتا۔

لامحدودیت کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کسی بھی محدود شمارِ عدد میں سما نہ سکتا ہو۔

اس کا مطلب کیا ہے؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی نمبر، چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو لیکن ہوگا محدود ہی۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کو کتنا وقت کسی ایک نمبر کو لکھنے کے لیے درکار ہے۔ پھر ریاضیاتی لامحدود اور فی الواقع لامحدود کے فرق کو ملحوظِ خاطر رکھنا بھی ضروری ہے۔ مثلاً ایک لامحدود وہ ہے جو repeating decimal کی صورت میں ہوتا ہے۔ مثلاً ایک تقسیم تین (1/3) کا جواب ….0.3333 اس میں تین کی تعداد لامحدود ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ یہ سارے تین جمع ہو کر بھی کبھی 0.4 نہیں بن سکتے۔

اسی طرح نیچرل یا ہول نمبر کے سیٹس کی لامحدودیت (1,2,3,4,5….)۔ یہ نمبرز گنتے جائیں تو کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ البتہ واقعہ میں لامحدودیت جیسی کوئی چیز اس مادی کائنات میں تصور کی نہیں جاسکتی۔ یہ بات الگ ہے کہ کوئی بہت بڑا نمبر فرض کرلیا جائے، مثلاً:

70^10^10

یہ نمبر شاید اتنا بڑا ہے کہ آپ اور آپ کی آنے والی نسلیں بھی نہ لکھ سکیں۔ لیکن اس کے باوجود مطلقاً لامحدود نہیں ہے۔

لامحدود کا ایک اور مطلب بھی ہے۔ یعنی کسی چیز کا طبیعیاتی قوانین سے آزاد ہونا۔ اس پر آگے بات کرتے ہیں۔

بہر حال، زیادہ تفصیلی ریاضی میں جانے کا محل نہیں۔ لامحدود کے حوالے سے جو میرا مدعا تھا وہ عرض کردیا ہے۔ اب آگے بڑھتے ہیں۔

تاحال جو کچھ ہم کائنات کے بارے میں جانتے ہیں اس میں پہلے سوال کا جواب تو واضح طور پر موجود ہے کہ کائنات زمانی اعتبار سے محدود ہے۔ یہ سائنسی توجیہہ ہے۔ بگ بینگ یا ابتدائے کائنات کا زمانہ تقریباً بارہ سے چودہ ارب سال پہلے کا ہے۔ یعنی کائنات کی موجودہ عمر تقریباً چودہ ارب سال ہے۔ اب چودہ ارب سال کا اندازہ آپ کس طرح لگائیں گے؟ اس کا دار و مدار تو آپ پر ہی ہے لیکن میں تھوڑی سی مدد کردیتا ہوں۔ حضرت مسیح کو دو ہزار سال ہوگئے ہیں۔ اور چودہ ارب کے اندر ستر لاکھ مرتبہ دو ہزار آتا ہے۔

اس کے برعکس کائنات کے رقبے کا مسئلہ پیچیدہ ہے۔ تاحال اس پرکوئی واضح بات سامنے نہیں ہے۔ لیکن اس حوالے سے قیاس ضرور کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بات تو یقینی ہے کہ کائنات اپنی “وسعت” میں لامحدود نہیں ہوسکتی۔ اس کے پیچھے سائنسی اور فلسفیانہ وجوہات ہیں۔

یہاں آکر لامحدود کا وہ آخری مطلب بھی سمجھ لیجیے۔

ہم جانتے ہیں کہ کائنات کے اندر طبیعیاتی قوانین موجود ہیں۔ اور ان کا اصل دار و مدار زمان و مکان (Space and Time) پر ہے۔ چنانچہ ایسی جگہ، جو زمان و مکان کے ان اصول سے آزاد ہوگی اس پر طبیعیاتی قوانین لاگو نہیں ہوسکیں گے۔ نتیجتاً وہاں سائنس کا کوئی بھی پیمائشی نظام لاگو نہیں ہوسکتا، اس لیے چاہے ایسی کوئی جگہ ایک ملی میٹر جتنی بھی ہو، اسے لامحدود کہا جاسکے گا۔ اب کائنات کے اندر رہتے ہوئے چونکہ ایسا ممکن نہیں، چنانچہ مکمل کائنات، باوجود اپنی تمام تر وسعت کے، قابلِ پیمائش ہی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اسے ناپنے کے لیے کتنی ترقی، کتنے وسائل اور کتنا وقت درکار ہوگا۔ لیکن کائنات کا رقبہ یا حجم یا جس شکل میں بھی کائنات ہے، وہ لامحدود نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اس کا لامحدود ہونا عقلی طور پر ہی بعید از قیاس ہے۔

ڈاکٹر مزمل شیخ بسمل