جب سب کچھ اللہ کی چاہت سے ہوتا ہے تو پھر بندے کو سزا کیوں ؟

شبہ نمبر 8: قرآن میں خدا کہتا ہے کہ “ماتشاءون الا ان یشاء اللہ” (یعنی اللہ کے چاہے بنا تم کچھ چاہ ہی نہیں سکتے)۔ معلوم ہوا انسان خدا کی چاہت کے سواء کچھ نہیں چاہ سکتا، تو پھر اعمال کی بندے کی طرف نسبت اور اسے سزا دینے کا کیا مطلب؟ نیز قرآن میں ایک جگہ آیا ‘(اچھائی و برائی) سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے’ (قل کل من عند اللہ، نساء 78)، دوسرے مقام پر آیا “‘تمہیں جو اچھائی پہنچتی ھے وہ اللہ کی طرف سے ھے اور جو برائی تمہیں پہنچتی ھے وہ تمہارے نفس کی طرف سے ھے” (ما اصابک من حسنۃ فمن اللہ وما اصابک من سیئۃ فمن نفسک، نساء 79)۔ یہ تو گویا کھلا تضاد بھی ہوا۔

تبصرہ:

آیات کا مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ انہیں سمجھنے کے لئے “خدا کی مشیت و ارادے” اور “خدا کے حکم و رضا” میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ جب کہا جاتا ہے کہ “سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے” تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر چیز خدا کی مشیت و ارادے کے تابع ہے، اچھائی ہو یا برائی ان میں سے ہر دو اپنی اثر پزیری کیلئے خدا کے ارادے، مشیت و اذن ہی کی محتاج ہے، خود سے مؤثر نہیں۔ اور جب کہا جاتا ہے کہ ‘اچھائی اللہ کی طرف سے نیز برائی تمہارے نفس کی طرف سے ہے’ تو اسکا معنی یہ ھے کہ اللہ نے اچھائی کا حکم دیا ہے اور وہ اس پر راضی ھے لیکن برائی کرنے کا اسنے حکم نہیں اور نہ ہی وہ اس پر راضی ھے۔ چنانچہ ‘اچھائی خدا کی طرف سے ھے’ کا مطلب یہ ھے کہ خدا کے حکم و رضا کے تحت ہے اور ‘برائی تمہارے نفس کی طرف سے ہے’ کا مطلب یہ ھے کہ خدا نے تمہیں اسکے کرنے کا حکم نہیں دیا لہذا یہ تمہارے اپنے نفس کی پسند ھے۔ پس ان آیتوں کا معنی یہ ھوا:

– اچھائی و برائی دونوں اللہ کی مشیت و ارادے سے مؤثر ہیں، از خود نہیں

– اچھائی اللہ کے ارادے و مشیت کے ساتھ ساتھ اسکے حکم اور رضا سے بھی ھے

– برائی اللہ کے ارادے و مشیت سے اثر پزیر تو ھے مگر اس کے کسب میں اسکا حکم اور رضا شامل نہیں

اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک مثال لیتے ہیں۔ ایک سپر سٹور کا تصور کریں جہاں ایک باپ اپنے بچے کے ساتھ کھڑا اپنے بچے کو ھر شے کا فائدہ اور نقصان سمجھا رھا ھے۔ پھر اپنے بچے کو اچھی طرح بتا دیتا ھے کہ فلاں فلاں چیز کے انتخاب میں میں راضی ھونگا اور فلاں فلاں میں میں ناراض ھوجاؤں گا، لہذا تم پہلی قسم کی چیز کا انتخاب کرنا اور دوسری سے بچنا۔ پھر وہ بچے کو انتخاب کا حق دے دیتا ھے۔ اب بچہ سپر سٹور میں چاھے جس بھی شے کا انتخاب کرلے ان معنی میں باپ کے ارادے و مشیت سے ھے کہ انتخاب کا یہ اختیار بذات خود باپ ہی نے دیا ھے اور اگر باپ اسے یہ اختیار نہ دے تو بچہ اچھے یا برے میں سے کسی بھی شے کی چاہت نہیں کرسکتا (ماتشاءون الا ان یشاء اللہ کا یہی مفہوم ہے)۔ اگر بچہ وہ شے پسند کرے جس کا باپ نے حکم دیا اور جس پر وہ راضی ھے تو اب اس انتخاب میں باپ کے ارادے و مشیت کے علاوہ اسکی رضا و حکم بھی شامل ھوگیا اور اگر ایسی چیز کا انتخاب کیا جس سے باپ نے منع کیا تھا تو اس انتخاب میں اگرچہ باپ کا ارادہ و مشیت تو لامحالہ شامل حال ھوگی مگر اسکی رضا اور حکم نہیں۔

مسئلہ تقدیر کے باب سے متعلق بہت سی آیات کو سمجھنے کے لئے “خدا کی قدرت و خدا کی سنت” نیز “خدا کی مشیت و خدا کی رضا” کے فرق کو ذہن نشین رکھنا نہایت ضروری ہے، بصورت دیگر ایسے بہت سے سوالات پیدا ھوتے رہتے ہیں۔