سنن ابی داؤد کی ایک روایت ہے جس پہ منکرین حدیث و ملحدین بہت اعتراض کرتے ہیں۔وہ روایت راویوں کے سلسلے کے ساتھ کچھ اس طرح ہے
“یزید بن ہارون۔سفیان بن حسین۔الحکم بن عتیبہ۔ابراہیم(بن یزید التیمی)۔یزید التیمی،ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے میں ایک گدھے پہ بیٹھا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پہ سواری کر رہے تھے اور سورج غروب ہورہا تھا۔انہوں نے مجھ سے پوچھا۔اے ابوذر!کیا تم جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے؟میں نے جواب دیا کہ اللٰہ تعالٰی اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سورج ایک گرم چشمے میں غروب ہوتا ہے(سنن ابی داؤد،حدیث نمبر 3991)”
اس سے ملتی جلتی روایات کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ مسند احمد میں یہ روایت طوالت کے ساتھ ہے اور اس میں راویوں کا سلسلہ بھی یہی ہے جس کے مطابق ابوزر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں”ایک مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گدھے کی سواری پہ تھا جس کی ایک زین تھی۔سورج غروب ہورہا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ ابو زر تم جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے۔میں نے کہا اللہ تعالی اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔اس پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سورج ایک گدلے پانی کے چشمے میں غروب ہوتا ہے۔پھر یہ عرش کے نیچے جا کر اللٰہ تعالٰی کو سجدہ کرتا ہے اور جب اس کے جانے کا وقت ہوتا ہے تو اللٰہ تعالٰی اسے جانے کی اجازت دیتا ہے اور یہ طلوع ہوتا ہےاور جب اللٰہ تعالٰی چاہے گا کہ یہ غروب والی جگہ سے طلوع ہویعنی مغرب سے تو یہ اللٰہ تعالٰی اسے روک لے گا۔ یہ کہے گا کہ اے میرے رب!میں نے ایک طویل فاصلہ طے کرنا ہے۔اللٰہ تعالٰی اسے کہتا ہے کہ وہاں طلوع ہوجاؤ جہاں غروب ہوئے ہو یعنی مغرب سے۔یہ تب ہوگا جب کوئ (بے ایمان)روح ایمان سے کوئ فائدہ حاصل نہیں کر سکے گی۔(مسند احمد،حدیث نمبر 21459 الرسالہ)
یہ روایت حدیث کی دوسری کتابوں یعنی صحیح بخاری،صحیح مسلم،وغیر سے مشابہ ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ ان کتابوں میں سورج ایک گرم چشمے میں غروب ہوتا ہے’ کا جملہ نہیں ہے۔
صحیح بخاری کی روایت اس طرح ہے
“سفیان۔العمش۔ابراہیم(بن یزید التیمی)۔یزید التیمی کہتے ہیں کہ حضرت ابوزر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غروب آفتاب کے وقت کہا کہ تم جانتے ہو کہ سورج کہاں جاتا ہے؟میں نے جواب دیا کہ اللٰہ تعالٰی اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔اس پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سورج جاتا ہے یہاں تک کہ یہ اللٰہ تعالٰی کو اس کے تخت کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت چاہتا ہے اور اس کو اجازت دے دی جاتی ہے۔پھر ایک وقت آئے گا کہ یہ اجازت چاہے گا کہ اس کا سجدہ قبول نہیں ہوگا ،یہ طلوع کی اجازت چاہے گا لیکن اس کو اجازت نہیں ملے گی بلکہ اسے وہاں لوٹنے کا حکم ہوگا جہاں سے یہ آیا ہے یعنی اپنے غروب کے مقام سے اور اس طرح یہ مغرب سے طلوع ہوگا اور سورج تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔یہ سب جاننے والے اللہ تعالی کا ڈیزائن ہے۔(صحیح بخاری،جلد چہارم،باب 54،حدیث 421)”
ان سب روایات میں واضح فرق ‘سورج کے گرم یا گدلے پانی کے چشمے میں غروب ہونے’ کے جملے کا ہے۔
اب ہم اس روایت کے راویوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔حضرت ابوزر رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ اور ان الفاظ کے بغیر دونوں طرح یہ روایت یزید بن التیمی اور ان کے بیٹے ابراہیم بن یزید التیمی سے روایت ہے۔ابراہیم سے اس روایت کو چھ راوی روایت کرتے ہیں۔
1:العمش اور پھر ان سے پانچ لوگ روایت کرتے ہیں۔صحیح بخاری دیکھ لیجئے۔
2:یعنی بن عبید اور پھر ان سے تین راوی روایت کرتے ہیں۔صحیح مسلم دیکھ لیں۔
3:موسی بن المسیب الثقفی اور ان سے عبدہ بن سلیمان روایت کرتے ہیں۔ابو الشیخ الاصبعانی کی العظمیٰ 4/1186دیکھ لیں۔
4:عبدالاعلیٰ التیمی۔ان سے مسعر روایت کرتے ہیں۔ہلایہ الاولیاء 5/89 دیکھ لیں۔
5:ہارون بن سعد۔ان سے عبدالغفار بن القاسم روایت کرتے ہیں۔شیخ الاصبعانی کی العظمیٰ 4/1191 اور معجم الطبرانی حدیث نمبر 4470 دیکھ لیں۔
6:الحکم بن عتیبہ۔ان سے واحد راوی سفیان بن حسین ہیں۔سنن ابی داؤد،مسند احمد،مستدرک الحاکم،مسند البزار دیکھ لیں۔
ابراہیم بن یزید التیمی سے مختلف ذرائع سے یہ صرف حکم بن عتیبہ ہیں جو سورج کے گرم پانی کے چشمے میں غروب ہونے کی بات کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ ابراہیم بن یزید سے یہ حدیث روایت کرنے والے چھ راویوں میں سے صرف الحکم بن عتیبہ یہ خاص الفاظ ذکر کرتے ہیں جس سے الحکم کے روایت کردہ یہ جملے مشکوک ہوجاتے ہیں۔ یہ بات اور مشکوک ہوجاتی ہے جب ان سے صرف ایک راوی یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کرتا ہے اور وہ سفیان بن حسین ہیں جبکہ سفیان کے متوازی گیارہ لوگ ابراہیم بن یزید کی سند کے ساتھ یہ حدیث روایت کر رہے ہیں اور کسی نے بھی اس حدیث میں سورج کے گرم یا گدلے پانی کے چشمے میں غروب ہونے کی بات نہیں کی۔نیچے اس کی تصویری گرافی وضاحت بھی دی گئ ہے۔
یہ ساری صورتحال اور تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ سورج کے گرم یا گدلے پانی میں غروب ہونے کی روایت غیر مستند،شاذ اور معلل ہے اور یہ تجزیہ ان الفاظ والی روایت کو مشکوک بنا رہا ہے۔
اس میں کوئ شک نہیں کہ الحکم اور سفیان دونوں قابل اعتماد راوی ہیں لیکن چونکہ ان کا بیان اپنے سے زیادہ معتبر اور زیا دہ راویوں کے خلاف جاتا ہے لہذا یہ روایت شاذ اور غیر مستند ہے۔
شاذ حدیث کی تعریف جو ابن الصلاح(وفات 643 ہجری)نے اپنی کتاب المعارف انواع علم الحدیث میں کی یہ ہے کہ یہ ایک ایسی روایت ہے جس کو ایک قابل اعتماد راوی روایت کرتے ہیں لیکن یہ دوسرے راویوں کے مخالف ہے(تعارف علم الحدیث،گارنٹ پبلشنگ لمیٹڈ،برکشائر 2006،صفحہ 57)
ناقص یا معلل روایت کی ابن الصلاح کی طرف سے دوسری تعریف بھی دیکھ لیں
“یہ ناقص روایت ایک ایسی روایت ہے جس میں اس کی سند میں ایک نقص شناخت کیا جاتا ہے جب کہ ظاہری طور پہ یہ روایت نقص کے بغیر لگتی ہے۔اس کا اطلاق ایسی روایت پہ ہوتا ہے جس کی سند قابل اعتماد راویوں پہ مشتمل ہوتی ہے لیکن صرف ایک راوی ایسی بات کرتا ہے جو باقی راویوں کی روایت سے متصادم ہوتی ہے۔”
اور جب کوئ روایت یا اس کا ایک حصہ شاذ یا ناقص ہوجاتا ہے تب اسے صحیح حدیث نہیں کہا جا سکتا۔حافظ ابن صلاح کے مطابق “صحیح روایت و ہ ہے جس کی سندمکمل طور پہ قابل اعتماد راویوں کے ساتھ اس کے آخر تک چلتی ہے۔یہ روایت نہ شاذ یعنی ناقص ہوتی ہے نہ ہی معلل۔”
لہذا صرف راویوں کی صحیح سند کا ہونا کسی حدیث کے صحیح ہونے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔
حافظ ابن بزار سورج کے گرم یا گدلے پانی کے چشمے میں غروب ہونے کی روایت کے بارے میں کہتے ہیں”ہم سفیان بن حسین کے سوا کسی ایسے راوی کو نہیں جانتے جو یہ روایت اس طرح بیان کر رہا ہو۔”(مسند البزار،بحر الذخر،حدیث 4010)
دوسری بات یہ کہ سفیان بن حسین اگرچہ قابل اعتماد راوی ہیں لیکن ان پہ کچھ علماء و محدثین تنقید کر چکے ہیں اور سفیان کی سورج کے گرم یا گدلے پانی میں غروب ہونے کی روایت تب اور نا قابل اعتماد ہوجاتی ہے جب وہ اکیلے باقی تمام راویوں کے برعکس یہ بات کرتے ہیں۔محمد ابن سعد سفیان بن حسین کے بارے میں کہتے ہیں”اگرچہ وہ ایک قابل اعتماد راوی ہیں لیکن انہوں نے اپنی روایات میں کئ غلطیاں کی ہیں جن کو پکڑ لیا گیا ہے(طبقۃ الکبریٰ،دارالکتوب العلمیہ،بیروت،1990،جلد 7،صفحہ 227نمبر 3417)
یہ ساری تفصیل واضح کرتی ہے کہ روایت کے اصولوں کے مطابق سورج کے گرم یا گدلے پانی کے چشمے میں غروب ہونے کی بات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنا بالکل ٹھیک نہیں۔راوی نے قرآن کی گدلے پانی میں سورج کے غروب ہونے کی بات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے ساتھ ملا دیا اور ہمیشہ کی طرح باقی محدثین نے اس غلطی کو پکڑ کر اس روایت کو صحیح ماننے سے انکار کر دیا۔لہذا اس بارے میں منکرین حدیث و ملحدین کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ اعتراض مکمل غلط اور الزام تراشی پہ مبنی ہے۔
اور جہاں تک بات ہے قرآن کے بیان کی جب قرآن سورج کے ذوالقرنین کے حوالے سے گدلے پانی میں غروب ہونے کی بات کرتا ہے تو یہ بات محض ایک اس منظر کی عکاسی ہے جب سورج آپ کے سامنے آپ کو پانی میں غروب ہوتا دکھائی دے۔تفصیل اس لنک پہ مطالعہ کریں
و اللہ اعلم بالصواب
تحریر وقار اکبر چیمہ ترجمہ ترجمہ:احید حسن