شبہ نمبر 7: جب آپ کے بقول خدا کو ماضی، حال و مستقبل سے متعلق ہر چیز کا علم ہے، تو پھر خدا کو صرف ان لوگوں کو پیدا کرنا چاہیے تھا جو کسی نہ کسی درجہ میں کامیاب ہوجاتے اور آگ سے محفوظ رہتے۔ جب اللہ کو پتہ تھا کہ فلاں فلاں اس امتحان میں فیل ہوگا تو پھر ان کا پیدا کرنا کیا معنی رکھتا ہے، یعنی جب اسے لوگوں کا ارداہ بھی معلوم تھا کہ “وہ اپنے ارادے سے” ایسا کریں گے تو پھر پیدا کرنا کیا معنی رکھتا ہے سواء اس کے کہ جہنم بھرنے کا سامان کیا جائے؟
تبصرہ:
اس سوال پر گفتگو کی دو جہات ہیں،
(الف) “خدا سے بندے کی طرف”،
(ب) “بندے سے خدا کی طرف”۔
دونوں پر باری باری گفتگو کی جاتی ہے۔
(الف) خدا سے بندے کی طرف:
اس میں پہلی اصولی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ بندہ “خدا کی طرف سے کھڑا ھوکر” اس معاملے کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتا کیونکہ اسکے لئے اس پوزیشن پر جانا لازم ہے جو “خدا کی پوزیشن” (ازلی، قدیم، قائم بالذات، زمان و مکاں سے ماوراء) ہے۔ ظاہر ہے “مخلوق بندے” (جو کہ حادث، محتاج، زمان و مکان میں مقید و مخلوق ہے) کے لئے یہ ممکن نہیں، ان “جہات مخلوقیت سے ماوراء” کے بارے میں وہ جو بھی رائے قائم کرے گا ہر حال میں قیاس آرائی پر ہی مبنی ہوگا۔ یہ نہایت اہم مقدمہ ہے جسے ذرا تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ درج ذیل تصویر میں دی گئی صورت پر غور کریں۔ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں مادی اعتبار سے یہ تین جھاتی ہے (لمبائی، چوڑائی و گہرائی)۔ اب کسی “دو جہاتی” دنیا کا تصور کریں (جہاں اشیاء صرف لمبائی و چوڑائی میں ہوں، گھرائی کا کوئی تصور نہ ہو)۔ اس دنیا میں دو افراد کو دو الگ الگ دائروں میں قید کردیا جاتاہے (جیسے یھاں دکھایا گیا ہے)۔ کیا اس دنیا کے یہ دو انسان ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں؟بالکل نہیں کیونکہ ان کے پاس تیسری جہت (گھرائی) موجود نہیں (جس سے ھم انھیں دیکھ رھے ہیں)۔ اسی طرح ان افراد کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس دائرے کو توڑے بغیر اس سے باھر آجائیں۔اس کے مقابلے میں ھم انہیں دائرہ توڑے بغیر سامنے سے پکڑ کر باھر نکال سکتے ہیں۔ مگر دوجہات والے ان انسانوں کے لئے اس تیسری جہت کا تصور ممکن نہیں کیونکہ وہ اسی میں مقید ہیں۔ ہم اس بات کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کسی بوتل کے اندر ایک قنچہ ڈال کر بوتل بند کردی جائے تو کیا آپ کے لئے یہ متصور کرنا ممکن ہے کہ بوتل ٹوٹے بنا قنچہ باہر آجائے؟ نہیں، بالکل اسی طرح دو جہاتی دنیا کے انسانوں کے لئے بھی اس دائرے سے باہر نکلنا ممکن نہیں۔ اگر کوئی شخص کسی چوتھی جہت پر قدرت رکھتا ہو تو بوتل توڑے بنا قنچہ باہر نکال سکتا ہے، مگر ھمارے لئے اس کا عقلی ادراک کرسکنا ممکن نہیں کہ ھم تین جھاتی دنیا میں مقید ہیں (ممکن ہے شیطان ہمیں کسی چھوتھی جہت سے دیکھتا ہو، جیسے قرآن میں آیا ‘یرونہم من حیث لاترونہم’)۔
اب یہ سمجھنا چاہئے کہ ان تین مادی جہات کی طرح “وقت یا زمانہ” بھی ایک جہت ہے جو “ہم” سے متعلق ہے، خدا اس سے ماوراء ہے بلکہ زمانہ بذات خود خدا کی تخلیق ہے۔ چنانچہ معترضین کا اشکال زمانے (تقدیم و تاخیر) کی موجودگی کے “ہم سے متعلق” ایک سادے تصور کو مفروضے کے طور پر قبول کئے ہوا ہے لیکن خدا کے لئے “پہلے جاننے” اور “بعد میں تخلیق” کرنے جیسے تصورات ہی لایعنی ہیں (سوال کی بنا ہی اس پر ہے کہ ‘جب خدا جانتا تھا تو اسنے پیدا کیوں کیا؟ ۔۔ یعنی تقدیم و تاخیر کا تصور فرض کیا جارہا ہے)۔ خدا چونکہ زمانے سے ماوراء ہے لہذا اس کے حضور یہ سب اس طرح وقوع پزیر ہورہا ہے جس میں وقت کا کوئی تصور نہیں اور چونکہ وھاں زمان کا تصور اپلائی نہیں ہوتا لہذا علت و معلوم، ماقبل و مابعد جیسے تمام تصورات (جن پر یہ سوال مبنی ہے) وھاں موجود نہیں۔ ظاہر ہے ہم اس کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے لئے چوتھی یا پانچویں مادی جہت کا تصور ممکن نہیں ۔ مثلا ممکن ہے اس کی کیفیت یہ ہو کہ خدا کے حضور یہ سب کچھ بیک وقت ہورہا ہو، مگر یہاں دھیان دیجئے کہ ہم انسانوں کے پاس وہ زبان ہی نہیں جس کے ذریعے ہم زمان و مکان سے ماوراء خدا کی پوزیشن کے بارے میں کچھ کہہ سکتے ہوں، مثلا یہاں بھی ‘بیک وقت’ کا لفظ زمانے پر دلالت کررہا ہے جو “ھماری پوزیشن” کے مطابق ہمارے فھم کے لئے ہے (اس تناظر میں وہ حدیث مبارکہ کس قدر بامعنی ہے جس میں نبی علیہ السلام نے “قدر و قضاء کی کیفیت” کو سمجھنے کے لئے گفتگو سے منع کیا کہ اسکا فہم و بیان ممکن نہیں)۔ پس خدا کی نسبت سے اس اشکال کے بامعنی ہونے کے لئے جس مفروضے کا درست ہونا لازم ہے خدا کی پوزیشن سے وہ مفروضہ درست نہیں، لہذا خدا پر یہ اشکال درست نہیں۔
الغرض کہنے کا مقصد یہ کہ ہماری عقل گواہی دیتی ہے کہ خدا کی جہت سے ہم اس مسئلے کو سمجھنے کی پوزیشن مین ہی نہیں۔ اس گفتگو پر ملحد کوئی اشکال نہیں کھڑا کرسکتا کیونکہ یہ اہل مذھب کی داخلی پوزیشن سے ھم آھنگ ہے۔ اہل مذھب نے یہ دعوی ہی نہیں کیا کہ ھم خدا کو مکمل طور پر سمجھ اور بیان کرسکتے ہیں۔ اس گفتگو پر اشکال کھڑا کرنے کے لئے لازم ہے کہ ملحد عقلا ثابت کرے کہ انسان کے لئے اس مسئلے میں خدا کی جہت سے کوئی پوزیشن لینا ممکن ہے، چونکہ ایسی پوزیشن کا وجود ناممکن ہے لہذا ہماری گفتگو پر اشکال بھی ممکن نہیں (مسئلہ جبر و قدر میں سوالات کھڑے ہی تب ہوتے ہیں جب ہم اسکی کیفیت کو سمجھانے کے لئے کوئی پوزیشن لیتے ہیں)۔
(ب) بندے کی جہت سے
اب اس سوال (جو دراصل جبر و قدر سے متعلق ہے) پر “بندے سے خدا کی طرف” جہت سے غور کریں۔ اس پر اگر اس نکتہ نگاہ سے غور کیا جائے کہ کائنات خدا کی صفات کا اظہار ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی صفت “ارادہ” بھی ہے جس کا اظھار انسان جیسی مخلوق کی صورت میں ہوا جو “متحرک بالارادہ” ہے (اگرچہ اسکے ارادے کی حدود ہمیں مکمل طور پر معلوم نہیں)۔ یہ گویا انسانی ارادے کے وجود کی دلیل ہوئی۔ اب بندے کی نسبت سے محض “کسی کا پیدا کیا جانا” اسکے جہنم میں جانے کی بنیاد نہیں بلکہ اس ارادے کے تحت اعمال کے کسب پر ہے (جیسا کہ خدا نے واضح کیا)۔
یہاں بندے کی جہت سے یہ بات سمجھنا اہم ہے کہ “اللہ کے علم میں کیا ہے” اسکی ہم میں سے کسی کو خبر نہیں، ہماری (حادث و مخلوق کی) جہت سے ہمیں عمل کا اختیار دیا گیا ہے (اور یہ ایک ایسی شے ہے جسے ہم شعوری طور پر محسوس کرتے ہیں)۔ اگر تو ہم جو کرتے ہیں وہ “اللہ کے علم کی طرف دیکھ کر” کریں کہ “چونکہ مجھے معلوم ہے کہ اللہ کے علم میں ایسا ہے لہذا میں یوں کررہا ہوں کہ کہیں اسکا علم غلط نہ ہوجائے” تو پھر بندے کی جہت سے اللہ کے علم کی وجہ سے جبر کا اعتراض درست ہوتا۔ لیکن چونکہ یہاں معاملہ اس طرح نہیں لہذا بندے کی جہت سے یہ اعتراض ویلڈ نہیں کہ میں وہ کرنے پر مجبور ہوں جو علم الہی میں مقدر ہوچکا۔ دراصل اس قسم کا استدلال کرتے وقت ہم دونوں جہات کو خلط ملط کردیتے ہیں، بندے کے عمل کا کسب (حادث و مخلوق کے اعتبار سے) تقدیم و تاخیر کے تصورات پر مبنی ہے مگر اس جہت میں بندے کو ‘کسب کرتے وقت’ علم الہی کی تقدیر معلوم نہیں ہوتی لہذا وہ کسب کرتے وقت خود کو اس سے “شعورا” متعین ہوتا محسوس نہیں کرتا بلکہ اپنے ارادے سے ایسا کرتا ہے (یعنی “اللہ کا علم” ان معنی میں ایسی قوت نہیں جو مجھے فیس بک پر ٹائیپ کرنے کے لئے بٹن دبانے پر مجبور کررھا ھے اور میں اس قوت کو محسوس کررہا ہوں کہ چاہتے ہوئے بھی اسکے علاوہ کچھ نہ کرسکوں نہ ہی میں اس کیفیت میں ہوں کہ اللہ کے علم کو جان کر ایسا کررہا ہوں)، اسکے مقابلے میں علم الہی سے جبر ثابت کرنے کے لئے تقدیم و تاخیر کے جن تصورات کی ضرورت ہے “خدا کی جہت سے” وہ تصورات ہی موجود نہیں (جیسا کہ پہلے واضح کیا گیا)۔ پس علم الہی سے جبر کا اثبات “خدا کی بندے کی طرف جہت” کے اعتبار سے لامتصور مفروضے پر مبنی ہے لیکن “بندے کی جہت سے” یہ جبر (اگر خدائی جھت سے کسی معنی میں ہے بھی) اس پر حاکم نہیں (کہ بندے کو چونکہ اسکی خبر ہی نہیں اور وہ ارادہ محسوس کرتا ہے، تو کسب کرتے وقت یہ “نامعلوم علم” اسے کس طرح متعین کرسکتا ہے؟)۔ الغرض یہ اشکال کہ “میں وہ کرنے پر مجبور ہوں جو خدا کے واجب و ازلی علم میں ہے” ان دو جہات پر بیک وقت مبنی ہے۔
“بندے کی جہت سے” اس معاملے پر اگر خود ملاحدہ کے تصور اخلاقیات کی رو سے غور کیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ حضرات کسی بھی معاملے میں “نفس اصول ازمائش” کے قائل ہیں یا نہیں؟ انکے اس اشکال کے مطابق تو سرے سے ہر قسم کی آزمائش ہی غیر اخلاقی قرار پاتی ہے، کیونکہ آزمائش اسی صورت میں بامعنی ہوتی ہے جب کامیابی یا ناکامی کا امکان ساتھ ہو۔ اگر سب نے ناکام یا سب نے کامیاب ہونا ہے تو پھر آزمائش کیسی؟ اگر “نفس آزمائش” کا اصول انکے یہاں اخلاقی ہے تو پھر بعض افراد کے متعلق پیشگی یہ معلوم ہونے سے کہ وہ ناکام ہوں گے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے کہ آزمائش کی بنیاد اختیار پر ہے جو انسانوں کو حاصل ہے۔ اور اگر نفس آزمائش ہی ان حضرات کے نزدیک غیر اخلاقی تصور ہے تو پھر اسے صرف خدا تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں، اسے انسانی سطح کے معاملات پر بھی لاگو ہونا چاہیے اور اس فلسفیانہ تصور کو اس کے تمام عملی مضمرات کے ساتھ قبول کرنا چاہیے (یعنی انہیں دنیا کے تمام معاملات سے آزمائش کے اصول کو ختم کردینا چاہئے جبکہ یہ ایسا نہیں کررہے)۔